Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 27

سورة الأنعام

وَ لَوۡ تَرٰۤی اِذۡ وُقِفُوۡا عَلَی النَّارِ فَقَالُوۡا یٰلَیۡتَنَا نُرَدُّ وَ لَا نُکَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَ نَکُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۲۷﴾

If you could but see when they are made to stand before the Fire and will say, "Oh, would that we could be returned [to life on earth] and not deny the signs of our Lord and be among the believers."

اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ دوزخ کے پاس کھڑے کئے جائیں تو کہیں گے ہائے کیا اچھی بات ہو کہ ہم پھر واپس بھیج دیئے جائیں اور اگر ایسا ہو جائے تو ہم اپنے رب کی آیات کو جھوٹا نہ بتلائیں اور ہم ایمان والوں میں سے ہوجائیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Wishes and Hopes Do Not Help One When He Sees the Torment Allah tells; وَلَوْ تَرَىَ إِذْ وُقِفُواْ عَلَى النَّارِ ... If you could but see when they will be held over the (Hell) Fire! Allah mentions the condition of the disbelievers when they are made to stand before the Fire on the Day of Resurrection and witness its chains and restraints, along with seeing the horrible, momentous conditions in the Fire with their own eyes. This is when, ... فَقَالُواْ يَا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلاَ نُكَذِّبَ بِأيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُوْمِنِينَ They will say: "Would that we were but sent back (to the world)! Then we would not deny the Ayat of our Lord, and we would be of the believers!" They wish that they would be sent back to the life of the world so that they could perform righteous deeds, refrain from disbelieving in the Ayat of their Lord and be among the believers. Allah said,

کفار کا واویلا مگر سب بےسود کفار کا حال اور ان کا برا انجام بیان ہو رہا ہے کہ جب یہ جہنم کو وہاں کے طرح طرح کے عذابوں وہاں کی بدترین سزاؤں طوق و زنجیر کو دیکھ لیں گے اس وقت ہائے وائے مچائیں گے اور تمنا کریں گے کہ کیا اچھا ہو کہ دنیا کی طرف لوٹائے جائیں تاکہ وہاں جا کر نیکیاں کریں اللہ کی باتوں کو نہ جھٹلائیں اور پکے سچے موحد بن جائیں ، حقیقت یہ ہے کہ جس کفر و تکذیب کو اور سختی و بے ایمانی کو یہ چھپا رہے تھے وہ ان کے سامنے کھل گئی ، جیسے اس سے اوپر کی آیتوں میں گزرا کہ اپنے کفر کا تھوڑی دیر پہلے انکار تھا اب یہ تمنا گویا اس انکار کے بعد کا اقرار ہے اور اپنے جھوٹ کا خود اعتراف ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس سچائی کو دنیا میں چھپاتے رہے اسے آج کھول دیں گے ، چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے کہا تھا کہ تو بخوبی جانتا ہے کہ یہ تمام نشانیاں آسمان و زمین کے رب کی اتاری ہوئی ہیں ۔ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت ( وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ ) 17 ۔ النمل:14 ) یعنی فرعونیوں کے دلوں میں تو کامل یقین تھا لیکن صرف اپنی بڑائی اور سنگدلی کی وجہ سے بہ بظاہر منکر تھے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد منافق ہوں جو ظاہرا مومن تھے اور دراصل کافر تھے اور یہ خبر جماعت کفار سے متعلق ہو ۔ اگرچہ منافقوں کا وجود مدینے میں پیدا ہوا لیکن اس عادت کے موجود ہونے کی خبر مکی سورتوں میں بھی ہے ۔ ملاحظہ ہو سورۃ عنکبوت جہاں صاف فرمان ہے آیت ( وَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ ) 29 ۔ العنکبوت:11 ) پس یہ منافقین دار آخرت میں عذابوں کو دیکھ لیں گے اور جو کفر و نفاق چھپا رہے تھے وہ آج ان پر ظاہر ہو جائیں گے ، واللہ اعلم ، اب ان کی تمنا ہو گی کاش کہ ہم دنیا کی طرف لوٹائے جائیں یہ بھی دراصل طمع ایمانی کی وجہ سے نہیں ہو گی بلکہ عذابوں سے چھوٹ جانے کے لئے ہو گی ، چنانچہ عالم الغیب اللہ فرماتا ہے کہ اگر یہ لوٹا دیئے جائیں جب بھی ان ہی نافرمانیوں میں پھر سے مشغول ہو جائیں گے ۔ ان کا یہ قول کہ وہ رغبت ایمان کر رہے ہیں اب بھی غلط ہے ۔ نہ یہ ایمان لائیں گے نہ جھٹلانے سے باز رہیں گے بلکہ لوٹنے کے بعد بھی وہی پہلا سبق رٹنے لگیں گے کہ بس اب تو یہی دنیا ہی زندگانی ہے ، دوسری زندگی اور آخرت کوئی چیز نہیں ۔ نہ مرنے کے بعد ہم اٹھائے جائیں گے ، پھر ایک اور حال بیان ہو رہا ہے کہ یہ اللہ عزوجل کے سامنے کھڑے ہو نگے ۔ اس وقت جناب باری ان سے فرمائے گا کہو اب تو اس کا سچا ہونا تم پر ثابت ہو گیا ؟ اب تو مان گئے کہ یہ غلط اور باطل نہیں؟ اس وقت سرنگوں ہو کر کہیں گے کہ ہاں اللہ کی قسم یہ بالکل سچ اور سراسر حق ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اب اپنے جھٹلانے اور نہ ماننے اور کفر و انکار کا خمیازہ بھگتو اور عذابوں کا مزہ چکھو ۔ بتاؤ جادو ہے یا تم اندھے ہو ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

27۔ 1 یہاں لَوْ کا جواب محذوف ہے تقدیری عبارت یوں ہوگی ' تو آپ کو ہولناک منظر نظر آئے گا۔ 27۔ 2 لیکن وہاں سے دوبارہ دنیا میں آنا ممکن ہی نہیں ہوگا کہ وہ اپنی اس آرزو کی تکمیل کرسکیں۔ کافروں کی اس آرزو کا قرآن نے متعدد مقامات پر ذکر کیا ہے۔ مثلاً ( رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْهَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظٰلِمُوْنَ 107؁ قَالَ اخْسَـُٔـوْا فِيْهَا وَلَا تُكَلِّمُوْنِ 108؁) 023:107، 108 اے ہمارے رب ہمیں اس جہنم سے نکال لے اگر ہم دوبارہ تیری نافرمانی کریں تو یقیناً ظالم ہیں اللہ تعالیٰ فرما‏ئے گا اسی میں ذلیل و خوار پڑے رہو مجھ سے بات نہ کرو (رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ ) 032:012 اے ہمارے رب ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا پس ہمیں دوبارہ دنیا میں بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں اب ہمیں یقین آگیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣١] یعنی اس وقت تک ان ہٹ دھرموں کے ہوش و حواس ٹھکانے نہیں آئیں گے جب تک یہ دوزخ کے عذاب کو دیکھ نہ لیں۔ اس وقت ان کی سب شیخیاں کر کری ہوجائیں گی۔ اس وقت وہ یہ آرزو کریں گے کہ کاش انہیں دوبارہ دنیا میں جانے کا موقع میسر ہو تو ہم یقینا اللہ کے فرمانبردار بندے بن کے رہیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ وُقِفُوْا عَلَي النَّارِ ۔۔ : جب قیامت کا عذاب دیکھ لیں گے تو اس کی ہلاکت اور تباہی سے بچنے کے لیے اس خواہش کا اظہار کریں گے کہ اے کاش ! ہمیں دنیا میں دوبارہ جانے کا موقع ملے تو ہم اس تکذیب سے جس کی بنا پر ہم عذاب سے دو چار ہو رہے ہیں، باز آجائیں اور توحید و نبوت پر یقین کرلیں، لیکن یہ ان کی محض ایک خواہش ہوگی جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ اس لیے اگلی آیت میں بتادیا کہ وہ اس خواہش میں جھوٹ بول رہے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary There are three basic principles of Islam: Tauhid (Oneness of Al¬lah), Risalah (Prophethood) and &Akhirah (Belief in the Hereafter). All other articles of faith fall under these three. These are principles which tell human beings who they are and what is the purpose of their life. This understanding brings a revolution in their lives by showing them the straight path. Out of these, the Belief in the &Akhirah, the belief that there is a reckoning of deeds to come when good shall be rewarded and evil punished, has pragmatically the most revolutionary effects, as it channels every human deed into a particular direction. This is the reason why all subjects dealt with in the Qur&an revolve around these three. In the verses appearing here, special emphasis has been laid on the reckoning of the &Akhirah, its rewards and punish¬ments, and the true nature of the mortal world. In the first verse, portrayed is the condition of wrong-doers and de¬niers of truth who, when made to stand by the edges of the Hell, and to observe the horrifying punishment far beyond their imagination, would wish that they were sent back into the world where now they would never falsify the signs and commands of their Lord, would be¬lieve in them and would be the true believers.

خلاصہ تفسیر اور اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان کو) اس وقت دیکھیں (تو بڑا ہولناک واقعہ نظر آئے) جب کہ (منکرین) دوزخ کے پاس کھڑے کئے جائیں گے (اور قریب ہوگا کہ جہنم میں ڈال دئیے جاویں) تو (ہزاروں تمناؤں کے ساتھ) کہیں گے ہائے کیا اچھی بات ہوتی کہ ہم (دنیا میں) پھر واپس بھیج دیئے جاویں اور اگر ایسا ہوجاوے تو ہم (پھر) اپنے رب کی آیات (مثل قرآن وغیرہ) کو کبھی جھوٹا نہ بتادیں اور ہم (ضرور) ایمان والوں میں سے ہوجاویں (حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کی یہ تمنا اور وعدہ سچی رغبت اور قصد اطاعت سے نہیں) بلکہ (اس وقت ایک مصیبت میں پھنس رہے ہیں کہ) جس چیز کو اس سے پہلے (دنیا میں) دبایا (اور مٹایا) کرتے تھے، وہ آج ان کے سامنے آگئی ہے (مراد اس چیز سے آخرت کا عذاب ہے جس کی وعید کفرو معصیت پر دنیا میں ان کو کی جاتی تھی، اور دبانے سے مراد انکار ہے، مطلب یہ ہے کہ اس وقت جان کو بن رہی ہے، اس لئے جان بچانے کو یہ سارے وعدے ہو رہے ہیں، اور دل سے ہرگز وعدہ پورا کرنے کا ارادہ نہیں یہاں تک کہ) اگر (بالفرض) یہ لوگ پھر واپس بھی بھیج دیئے جاویں تب بھی یہ ہی کام کریں جس سے ان کو منع کیا گیا تھا (یعنی کفر و نافرمانی) اور یقیناً یہ ( ان وعدوں میں) بالکل جھوٹے ہیں (یعنی نہ اس وقت ایفائے وعدہ کا قصد نہ دنیا میں جا کر ایفائے وعدہ کا ان سے احتمال ہے) اور یہ (منکرین) کہتے ہیں کہ زندگی اور کہیں نہیں، بس یہی دنیا کی زندگی اور ہم (اس زندگی کے ختم ہونے کے بعد پھر) زندہ نہ کئے جاویں گے، (جیسا کہ انبیاء (علیہم السلام) فرماتے ہیں) اور اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ان کو) اس وقت دیکھیں (تو بڑا عجیب واقعہ نظر آوے) جب کہ یہ اپنے رب کے سامنے حساب کے لئے کھڑے کئے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ ان سے فرماوے گا کہ (کہو) کیا یہ (قیامت کے دن دوبارہ زندہ ہونا) امر واقعی نہیں وہ کہیں گے بیشک (واقعی ہے) قسم اپنے رب کی اللہ تعالیٰ فرمادے گا تو اب اپنے کفر کا مزہ چھکو (اس کے بعد دوزخ میں بھیج دیئے جاویں گے) بیشک (سخت) خسارے میں پڑے وہ لوگ جنہوں نے اللہ سے ملنے کی (یعنی قیامت کے روز زندہ ہو کر خدا تعالیٰ کے سامنے پیشی کی) تکذیب کی (اور یہ تکذیب تھوڑے دنوں رہے گی) یہاں تک کہ جب وہ معین وقت (یعنی قیامت کا دن مع مقدمات) ان پر دفعتہ (بلا اطلاع) آپہنچے گا (اس وقت سارے دعوے اور تکذیب ختم ہوجاویں گے اور) کہنے لگیں گے ہائے افسوس ہماری کوتاہی (اور غفلت) پر جو اس (قیامت) کے بارے میں (ہم سے) ہوئی اور حالت ان کی یہ ہوگی کہ وہ اپنے (کفر و نافرمانی کا) بھار اپنی کمر پر لادے ہوئے ہوں گے، خوب سن لو کہ بری ہوگی وہ چیز جس کو اپنے اوپر لادیں گے، اور دنیوی زندگانی تو کچھ بھی نہیں بجز لعب و لہو کے (بوجہ غیر نافع اور غیر باقی ہونے کے) اور پچھلا گھر پرہیزگاروں کے لئے بہتر ہے، کیا تم سوچتے نہیں۔ معارف و مسائل اسلام کے تین بنیادی اصول ہیں : توحید، رسالت، عقیدہ آخرت، باقی سب عقائد انہی تین کے تحت داخل ہیں، اور یہ وہ اصول ہیں جو انسان کو اس کی اپنی حقیقت اور مقصد زندگی سے روشناس کرکے اس کی زندگی میں انقلاب پیدا کرتے ہیں اور اس کو ایک سیدھی اور صاف راہ پر کھڑا کردیتے ہیں، ان میں بھی عملی طور پر عقیدہ آخرت اور اس میں حساب جزاء و سزاء کا عقیدہ ایک ایسا انقلابی عقیدہ ہے جو انسان کے ہر عمل کا رخ ایک خاص طرف پھیر دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کے تمام مضامین انہی تین میں دائر رہتے ہیں مذکورہ آیات میں خصوصیت کے ساتھ آخرت کے سوال و جواب، وہاں کے شدید و مدید ثواب و عذاب کا اور دنیائے ناپائیدار کی حقیقت کا بیان ہے۔ پہلی آیت میں مجرمین منکرین کا یہ حال بیان فرمایا گیا ہے کہ آخرت میں جب ان کو دوزخ کے کنارے کھڑا کیا جائے گا اور وہ وہم و خیال سے بھی زیادہ ہولناک عذاب کا مشاہدہ کریں گے تو وہ یہ تمنا ظاہر کریں گے کہ کاش ہمیں پھر دنیا میں بھیج دیا جاتا تو ہم اپنے رب کی بھیجی ہوئی آیات اور احکام کی تکذیب نہ کرتے بلکہ ان پر ایمان لاتے اور مؤمنین میں داخل ہوجاتے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ وُقِفُوْا عَلَي النَّارِ فَقَالُوْا يٰلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰيٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۝ ٢٧ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ وقف يقال : وَقَفْتُ القومَ أَقِفُهُمْ وَقْفاً ، ووَاقَفُوهُمْ وُقُوفاً. قال تعالی: وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْؤُلُونَ [ الصافات/ 24] ومنه استعیر : وَقَفْتُ الدّارَ : إذا سبّلتها، والوَقْفُ : سوارٌ من عاج، وحمارٌ مُوَقَّفٌ بأرساغه مثلُ الوَقْفِ من البیاض، کقولهم : فرس مُحجَّل : إذا کان به مثلُ الحَجَل، ومَوْقِفُ الإنسانِ حيث يَقِفُ ، والمُوَاقَفَةُ : أن يَقِفَ كلُّ واحد أمره علی ما يَقِفُهُ عليه صاحبه، والوَقِيفَةُ : الوحشيّة التي يلجئها الصائد إلى أن تَقِفَ حتی تصاد . ( و ق ف ) وقعت القوم ( ض) وقفا ر ( متعدی ) لوگوں کو ٹھہر انا اور دقفو ا وقو قا لازم ٹھہر نا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْؤُلُونَ [ الصافات/ 24] اور ان کو ٹھہرائے رکھو کہ ان سے کچھ پوچھنا ہے اور سی سے بطور استعارہ وقفت الدار آتا ہے جس کے معنی مکان کو وقف کردینے ہیں ۔ نیز الوقف کے معنی ہاتھی دانت کا کنگن بھی آتے ہیں اور حمار موقف اس گدھے کو کہتے ہیں جس کی کلائوں پر کنگن جیسے سفید نشان ہوں جیسا کہ فرس محجل اس گھوڑے کا کہا جاتا ہے جس کے پاؤں میں حجل کی طرح سفیدی ہو ۔ مرقف الانسان انسان کے ٹھہرنے کی جگہ کو کہتے ہیں اور الموافقتہ کا مفہوم یہ ہے کہ ہر آدمی اپنے معاملہ کو اسی چیز پر روک دے جس پر کہ دوسرے نے روکا ہے ۔ ( ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑا ہونا ) الوقیفتہ بھگا یا ہوا شکار جو شکاری کے تعاقب سے عاجز ہوکر ٹھہر جائے ۔ یہاں تک کہ وہ اسے شکار کرلے ۔ ليت يقال : لَاتَهُ عن کذا يَلِيتُهُ : صرفه عنه، ونقصه حقّا له، لَيْتاً. قال تعالی: لا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمالِكُمْ شَيْئاً [ الحجرات/ 14] أي : لا ينقصکم من أعمالکم، لات وأَلَاتَ بمعنی نقص، وأصله : ردّ اللَّيْتِ ، أي : صفحة العنق . ولَيْتَ : طمع وتمنٍّ. قال تعالی: لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلاناً خَلِيلًا [ الفرقان/ 28] ، يَقُولُ الْكافِرُ يا لَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] ، يا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا [ الفرقان/ 27] ، وقول الشاعر : ولیلة ذات دجی سریت ... ولم يلتني عن سراها ليت «1» معناه : لم يصرفني عنه قولي : ليته کان کذا . وأعرب «ليت» هاهنا فجعله اسما، کقول الآخر :إنّ ليتا وإنّ لوّا عناء«2» وقیل : معناه : لم يلتني عن هواها لَائِتٌ. أي : صارف، فوضع المصدر موضع اسم الفاعل . ( ل ی ت ) لا تہ ( ض ) عن کذا لیتا ۔ کے معنی اسے کسی چیز سے پھیر دینا اور ہٹا دینا ہیں نیز لا تہ والا تہ کسی کا حق کم کرنا پوا را نہ دینا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمالِكُمْ شَيْئاً [ الحجرات/ 14] تو خدا تمہارے اعمال میں سے کچھ کم نہیں کرے گا ۔ اور اس کے اصلی معنی رد اللیت ۔ یعنی گر دن کے پہلو کو پھیر نے کے ہیں ۔ لیت یہ حرف طمع وتمنی ہے یعنی گذشتہ کوتاہی پر اظہار تاسف کے لئے آتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلاناً خَلِيلًا [ الفرقان/ 28] کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا يَقُولُ الْكافِرُ يا لَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ/ 40] اور کافر کہے کا اے کاش میں مٹی ہوتا يا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا [ الفرقان/ 27] کہے گا اے کاش میں نے پیغمبر کے ساتھ رستہ اختیار کیا ہوتا ۔ شاعر نے کہا ہے ( 406 ) ولیلۃ ذات وجی سریت ولم یلتنی عن ھوا ھا لیت بہت سی تاریک راتوں میں میں نے سفر کئے لیکن مجھے کوئی پر خطر مر حلہ بھی محبوب کی محبت سے دل بر داشت نہ کرسکا ( کہ میں کہتا کاش میں نے محبت نہ کی ہوتی ۔ یہاں لیت اسم معرب اور لم یلت کا فاعل ہے اور یہ قول لیتہ کان کذا کی تاویل میں سے جیسا کہ دوسرے شاعر نے کہا ہے ( 403 ) ان لینا وان لوا عناء ۔ کہ لیت یا لو کہنا سرا سرباعث تکلف ہے بعض نے کہا ہے کہ پہلے شعر میں لیت صدر بمعنی لائت یعنی اس فاعلی ہے اور معنی یہ ہیں کہ مجھے اس کی محبت سے کوئی چیز نہ پھیر سکی ۔ رد الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( رد د ) الرد ( ن ) اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧ (وَلَوْ تَرٰٓی اِذْ وُقِفُوْا عَلَی النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَلاَ نُکَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا) یہاں پر نُرَدُّ کے بعد فَنُصَدِّقُ مخذوف مانا جائے گا ‘ کہ اگر ہمیں لوٹا دیا جائے تو ہم تصدیق کریں گے اور اپنے رب کی آیات کو جھٹلائیں گے نہیں۔ کاش کسی نہ کسی طرح ایک دفعہ پھر ہمیں دنیا میں واپس بھیج دیا جائے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(27 ۔ 30) ۔ اوپر سے جن منکر حشر مشرک لوگوں کا ذکر چلا آتا ہے ان آیتوں میں بھی انہیں لوگوں کا قیامت کے دن کا ایک حال اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو جتلایا ہے کہ اے رسول اللہ کے اب تو دنیا میں یہ لوگ سرکشی سے جنت دوزخ اور عقبیٰ کی باتوں کو جھٹلا رہے ہیں لیکن جب دوزخ میں ڈالنے کے لئے اللہ کے فرشتے ان کو گھیر کر دوزخ کے کنارہ پر لے جاویں گے اور دوزخ کی آگ ان کو نظر آوے گی اس وقت ان کا حال دیکھنے کے قابل ہے کہ یہ اپنے کئے پر کس قدر پچھتاویں گے اور پھر دوبارہ دنیا میں آنے اور ایماندار بن کر دنیا سے اٹھنے کی کیسے آرزو کریں گے۔ پھر فرمایا کہ یہ آرزو ان کی کچھ دل سے نہ ہوگی بلکہ دوزخ کی آگ سے بدحواس ہو کر ایسی باتیں اسی طرح ان کے منہ سے نکلیں گی جس طرح دریا کے سفر میں ڈوبنے کے خوف سے یہ لوگ دنیا میں ایماندار بن جاتے تھے اور خشکی میں اتر کر پھر وہی مشرک کے مشرک ہوجاتے تھے۔ یہ ذکر سورة عنکبوت میں تفصیل سے آوے گا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے جھوٹ کی عادت خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ اپنی عادت کے موافق دنیا میں دوبارہ جانے اور ایماندار بننے کی جھوٹی آرزو کر رہے ہیں اگر دنیا میں ان کو دوبارہ بھیجا جاوے تو ان کا یہ جھوٹ کھل جاوے گا جس طرح یہاں ایک یہ جھوٹ کھل گیا کہ دوزخ کے کنارہ پر آنے سے پہلے تو یہ لوگ قسمیں کھا کر اپنے شرک کا انکار کر رہے تھے جب دوزخ کی آگ ان کو نظر آئی اور اس میں جھونکے جانے کا ان کو یقین ہوگیا تو اپنی سب وہ جھوٹی قسمیں بھول کر بد حواسی میں یہ اقرار کرنے لگے کہ پہلی دفعہ تو دنیا میں ہم نے سب کچھ کیا لیکن دوبارہ دنیا میں اگر ہم کو بھیجا جاوے گا تو ہم ایسا نہ کریں گے بلکہ پورے ایمان دار بن کر دنیا سے اٹھیں گے آخر یہی لوگ تھے جو دنیا میں کھلے خزانہ میں کھلے خزانہ یہ کہا کرتے تھے کہ حشر قیامت سب پر جھوٹ ہے انسان کی فقط یہی دنیا کی زندگی ہے جب وہ مر کر خاک ہوگیا تو پھر دوبارہ کیا جیتا ہے۔ اب آگے ان لوگوں کی ایک اور حالت کا ذکر فرمایا کہ جب یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے روبرو حاضر کئے جاویں گے تو اللہ تعالیٰ ان پوچھے گا کہ عیلیین کی جن باتوں کو دنیا میں تم جھٹلاتے تھے آج وہ سب باتیں تمہاری آنکھوں کے سامنے آگئیں اس کے جواب میں قسمیں کھا کر یہ لوگ کہویں گے کہ ہاں اے ہمارے رب وہ سب باتیں حق ہیں اور ہم نے ان سب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا لیکن بےوقت ان کا یہ اقرار کچھ کام نہ آوے گا اور حکم ہوگا کہ جس دوزخ کے عذاب کو تم جھٹلاتے تھے اس جھٹلانے کی اب یہی سزا ہے جاؤ اسی عذاب کا مزہ چکھو۔ اسی سورة کے آخر میں اور سورة مومن کے آخر میں جو آیتیں آویں گی ان سے شرع کا یہ قاعدہ قرار پایا ہے کہ انسان کا ایمان اور اس کی توبہ اسی وقت کا سب کچھ مقبول ہے جب تک موت یا عذاب الٰہی کی کچھ نشانیاں انسان کی آنکھوں کے سامنے نہ آجاویں کیونکہ خالص فرمانبرداری اسی وقت تک ہے جب تک کوئی بےبسی انسان کو نہیں ہے جب موت یا عذاب الٰہی کی نشانیاں آنکھوں کے سامنے آگئیں تو پھر ایک حالت بےبسی کی ہوگئی جس میں نہ خالص فرمانبرداری کا موقع باقی رہتا ہے نہ اس بےموقع وقت کی کوئی بات مقبول ہونے کے قابل رہتی ہے جس طرح مثلاً سورة یونس میں آوے گا کہ ڈوبتے وقت فرعون ایمان لایا اور وہ مقبول نہ ہوا اس قاعدہ شرعی کے موافق منکر حشر مشرک لوگوں کی وہ بےوقت کی مذامت کام نہ آئی جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔ صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص نے پہلے سے ایمان اسلام کی باتوں کی پرواہ نہ کی سورج کے مغرب سے نکلنے کے بعد ایسے شخص کا ایمان و اسلام مقبول نہ ہوگا ١ ؎۔ ترمذی وابن ماجہ میں عبد اللہ بن عمر (رض) کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ موت کے قریب جب آدمی کا سانس اکھڑ کر خراٹا لگ جاتا ہے تو اس وقت اس کی توبہ قبول نہیں ہوتی ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے ٢ ؎ یہ حدیثیں ان آیتوں کی گویا تفسیر ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ خالص فرمانبرداری کا وقت ہاتھ سے نکل جانے کے بعد پھر عقبیٰ کی بہبودی کا کوئی کام آدمی سے بن نہیں آتا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:27) وقفوا۔ ماضی مجہول۔ جمع مذکر غائب۔ وقف او وقوف۔ مصدر۔ (باب ضرب) جب ان کو روک کر کھڑا کیا جائے گا۔ اذوقفوا علی النار۔ جب وہ دوزخ کے کنارے لاکھڑے کئے جاویں گے (ماضی بمعنی مضارع) اس کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں جب وہ دوزخ کے متعلق مطلع کئے جاویں گے۔ یا دوزخ کے کنارے پیش کئے جائیں گے۔ یا علی بمعنی فی ہے اور مطلب اس کا یہ ہے کہ جب وہ نار جہنم میں ڈالے جائیں گے۔ مثال اس کی علی ملک سلیمان ای فی ملک سلیمان (2:102) حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے عہد حکومت ہیں۔ یلیتنا۔ یا۔ حروف تنبیہ۔ یا حرف نداء جس کا منادی محذوف ہے۔ لیت حرف مشبہ بفعل تمنا کے لئے مستعمل ہے۔ نا اسم ۔ اے کاش ہم۔ نرد۔ مضارع مجہول جمع متکلم۔ رد۔ مصدر۔ (باب نصر) ہم پھر دیئے جائیں۔ یا پھر دئیے جاتے ہیں۔ ہم لوٹا دئیے جائیں۔ یا لوٹا دئیے جاتے ہیں۔ ولا نکذب۔ مضارع منفی منصوب بوجہ جواب تمنا۔ یلیتنا نرد۔ واؤ مثل ف کے ہے جو تمنا کے جواب میں ہے۔ تکون۔ مضارع جمع متکلم منصوب بوجہ جواب تمنا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 27 تا 30 : وقفوا (وہ کھڑے کئے گئے) ‘ یلتنا (اے کاش کہ ہم) ‘ نرد (ہم واپس کئے جائیں گے) ‘ بدا (ظاہر ہوگیا ) ‘ یخفون (وہ چھپاتے ہیں) عادوا (وہ پلٹ گئے) نھوا (وہ منع کئے گئے) ‘ حیاتنا (ہماری زندگی) مبعوثین (بھیجے گئے۔ اٹھائے گئے) ‘ بلی ( جی ہوں۔ کیوں نہیں) ‘ ذوقوا (چکھو) ۔ تشریح : آیت نمبر 27 تا 30 : جھوٹ کس طرح ناقابل اصلاح حد تک دل کو سیاہ کردیتا ہے اس کی ایک بہت بڑی مثال ان آیات میں دی گئی ہے۔ کفار و مشرکین و منافقین جن کی فطرت ہر دم جھوٹ بولنے پر پختہ ہوچکی ہے۔ جب قیامت میں دوزخ کی آگ کے سامنے جھونکے جانے کو کھڑے کئے جائیں گے تو چلا چلا کر یہ وعدہ کریں گے کہ اگر ہم پھر واپس دنیا میں بھیج دئے جائیں تو کفر کا راستہ چھوڑ کر ایمان کا راستہ اختیار کریں گے۔ دوزخ کی آگ سامنے دیکھ کر کون ہے جو اس حقیقت کو نہ مانے گا۔ کون ہے جس کا دل مارے خوف کے پگھل نہ جائے گا ‘ کون ہے جو کفر کے راستے سے پلٹ نہ جائے گا اگر پھر موقع ملے ‘ مگر وہ جو عالم الغیب ہے جو تمام باتوں کو جانتا ہے گواہی دے رہا ہے کہ اس وقت بھی یہ لوگ جو کچھ وعدہ کررہے ہیں سرتاپا جھوٹ بک رہے ہیں۔ اگر پھر واپس دنیا میں بھیج دئے جائیں تو وہی کچھ کریں گے جواب تک کرتے آئے ہیں۔ یہ جو ان کی ہائے وائے اور چیخ و پکار ہے وہ صرف سزا سے بچ نکلنے کے لئے ہے۔ ورنہ ان کے پیچھے کوئی سچائی نہیں ہے۔ جب جھوٹ کی عادت جڑ پکڑ لیتی ہے تو پھر کہاں چھوٹتی ہے۔ لیکن پھر انہیں واپس نہیں بھیجا جائیگا۔ ہاں جہنم میں ڈالنے سے پہلے ان سے پوچھا جائے گا کیا تم مرکر زندہ نہیں ہوئے ؟ کیا جنت دوزخ جزا و سزا حقیقت نہیں ہے ؟ وہ کہیں گے بیشک بےشک۔ کہا جائے گا مگر تم تو دنیا میں یہ سب مانتے نہیں تھے۔ تم کہا کرتے تھے کہ جو کچھ ہے وہ یہی دنیا کی زندگی ہے تو اب اس کے بدلے میں ہماری سزا بھگتو اور اس طرح ان کو جہنم کی آگ میں جھونک دیا جائیگا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ دنیا میں قرآن مجید کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ یہ ہمارے کانوں کے لیے بوجھ ہے وہ جہنم کے کنارے کھڑے ہو کر آیات ربانی کی حقیقت کا اعتراف اور دنیا میں حق کی شہادت نہ دینے کے جرم کا اعتراف کریں گے۔ “ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا کہ قیامت کا دن پچاس ہزار سال پر محیط ہوگا اور اس میں مختلف مراحل ہوں گے۔ جو ہزاروں سال پر مشتمل ہوں گے۔ قیامت کا ہر مرحلہ مجرموں کے لیے سخت سے سخت تر ہوگا۔ پہلے مرحلہ پر مجرم شرک اور اپنے جرائم کا انکار کریں گے اس کے بعد ان کی زبانوں پر مہر ثبت کردی جائے گی تو ان کے اعضاء بول بول کر ان کے بارے میں گواہی دیں گے۔ اس کے ساتھ ہی جہنم کو ستر ہزار فرشتے بھاری بھرکم زنجیروں کے ساتھ کھینچ کر لوگوں کے سامنے لائیں گے۔ ہر زنجیر کے ساتھ ستر ستر ہزار فرشتے ہوں گے۔ جب مجرموں کو جہنم کے قریب کھڑا کیا جائے گا تو وہ آہ و بکا کرتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کریں گے کہ کاش ہمیں دنیا میں لوٹنے کا موقعہ نصیب ہوجائے اور ہم دنیا میں جاکر اپنے رب کے احکام کی تکذیب کرنے کے بجائے اس کے ایک ایک حکم پر ایمان لائیں گے۔ ان کا یہ اقرار حقیقت پر مبنی یا دائمی ہونے کے بجائے عارضی اور دفع الوقتی کے لیے ہوگا۔ کیونکہ بفرض محال انھیں واپس لوٹا بھی دیا جائے تو وہ پہلے کی طرح اللہ تعالیٰ کے احکام کا انکار کرتے ہوئے کفر و شرک میں ملوث ہوں گے۔ کیوں کہ وہ عادی مجرم تھے لہٰذا اب بھی کذب بیانی سے کام لیں گے۔ یہ اس لیے ہوگا کہ ان کا نظریہ تھا دنیا کی زندگی ہی مستقل زندگی ہے حالانکہ دنیا کی ہر چیز اپنی ناپائیداری کے بارے میں پکار پکار کر ثبوت دے رہی ہے کہ ہمیں قرار اور سکون نہیں ہے۔ انسان کے سایہ سے لے کر فلک بوس پہاڑوں کی چوٹیاں اس بات پر گواہ ہیں کہ قرار اور دوام صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو حاصل ہے۔ ان کا یہ بھی نظریہ تھا کہ مٹی میں دفن ہونے کے بعد ہمیں ہرگز نہیں اٹھایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ اگر انھیں دنیا میں دوبارہ بھیج دیا جائے تو وہ وہی کچھ کریں گے جس سے انھیں منع کیا گیا تھا یہ اس لیے کہ انھوں نے دین پر دنیا کو مقدم سمجھا اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر دنیا کی زندگی کو ترجیح دی اگر انہیں دنیا میں لوٹا دیا جائے تب بھی وہ باز نہیں آئیں گے۔ مسائل ١۔ کافر جہنم کو دیکھ کر حسرت کا اظہار کریں گے۔ ٢۔ کافر خواہش کریں گے کہ ہمیں دنیا میں دوبارہ لوٹا دیا جائے۔ ٣۔ مشرکین، مومنین کی رفاقت کی خواہش کریں گے۔ ٤۔ کافر اسی دنیا کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن جہنمیوں کا دنیا میں واپس لوٹنے کا مطالبہ : ١۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ : ١٢) ٢۔ جب بھی جہنم سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو دوبارہ لوٹائے جائیں گے۔ (السجدۃ : ٢٠) ٣۔ جب بھی ارادہ کریں گے کہ ہم نکلیں جہنم سے تو اس میں واپس لوٹائے جائیں گے۔ (الحج : ٢٢) ٤۔ جہنمی کی خواہش ہوگی کہ دنیا میں واپس بھیج دیا جائے۔ (الانعام : ٢٧ تا ٢٨) ٥۔ اے رب ہمارے ! ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر : ٣٧) ٦۔ اے رب ہمارے ! ہم کو یہاں سے نکال اگر دوبارہ ایسا کریں تو بڑے ظالم ہوں گے۔ (المؤمنون : ١٠٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” وَلَوْ تَرَیَ إِذْ وُقِفُواْ عَلَی النَّارِ فَقَالُواْ یَا لَیْْتَنَا نُرَدُّ وَلاَ نُکَذِّبَ بِآیَاتِ رَبِّنَا وَنَکُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ (27) ” کاش تم اس وقت ان کی حالت دیکھ سکتے کہ جب وہ دوزخ کے کنارے کھڑے کئے جائیں گے ۔ اس وقت وہ کہیں گے کہ کاش کوئی صورت ایسی ہو کہ ہم دنیا میں پھر واپس بھیجے جائیں اور اپنے رب کی نشانیوں کو نہ جھٹلائیں اور ایمان لانے والوں میں شامل ہوں ۔ “ اس دنیا کے مختصر منظر کے بالمقابل دنیائے اخروی کا یہ منظر ہے ۔ نہایت ہی رسواکن ‘ شرمساری اور یاس و حسرت کا منظر ۔ دنیا میں تو وہ سرکشی کرتے ‘ جھگڑتے اور اسلام کے قریب آنے سے لوگوں کو روکتے اور لمبے چوڑے وعدے کرتے لیکن یہاں ان کے ارمان یہ ہیں جبکہ وہ دوزخ کے کنارے کھڑے کیے جائیں گے ۔ یہ منظر دیکھنے کے لائق ہوگا ۔ یہ آگ پر گرفتار کرکے پیش کئے جائیں گے ۔ اب انہیں یہ طاقت ہی نہ ہوگی کہ وہ اعراض اور سرکشی کرسکیں ۔ اب نہ وہ جھگڑ سکیں گے اور نہ مغالطہ آرائی کرسکیں گے ۔ اس قابل دید منظر میں ان کی جانب سے اس تمنا کا اظہار ہوگا اور اگر آپ اسوقت ہوتے تو وہ یوں گویا ہوں گے ” کاش کوئی صورت ایسی ہو کہ ہم دنیا میں پھر واپس بھیجے جائیں اور اپنے رب کی نشانیوں کو نہ جھٹلائیں اور ایمان لانے والوں میں شامل ہوں ۔ اب تو وہ جانتے ہیں کہ یہ آیات الہیہ تھیں ۔ اب وہ تمنا کرتے ہیں کہ وہ دنیا کی طرف لوٹا دیئے جائیں ۔ اب تو وہ ان آیات کی تکذبی نہیں کرسکتے اور اب تو وہ پکے مومن بن جائیں گے لیکن اب کیا ہو سکتا ہے جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ اب یہ لوگ اپنی جبلت کو بھول گئے ۔ وہ ایسی جبلت کے مالک ہیں جو مان کر نہیں دیتی اور ان کی یہ بات کہ کاش وہ اگر لوٹادیئے جائیں تو وہ تکذیب نہ کریں گے اور لازما ایمان لائیں گے ۔ یہ تمنا بھی جھوٹی تمنا ہے یہ وہ تمنا ہے جو ان کی جبلت و حقیقت کے ساتھ لگا نہیں کھاتی ۔ اگر ان کی یہ تمنا پوری بھی کردی جاتی تو بھی وہ ایسا نہ کرتے ۔ اور پھر ان کی بات یہ نہ ہوتی اور یہ لوگ یہ بات اس لئے کہیں گے کہ ان کے سامنے ان کے اعمال اور ان کا برانجام واضح ہوجائے گا جبکہ اس سے قبل وہ اپنے متبعین سے اپنے یہ اعمال اور یہ برا انجام چھپاتے تھے تاکہ ان کو اس فریب میں ڈالے رکھیں کہ یہ حق پرست ہیں اور آخرت میں وہ کامیاب ہونے والے ہیں اور فلاح پانے والے ہیں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کافروں کا دنیا میں دو بارہ آنے کی آرزو کرنا ان آیات میں اللہ جل شانہٗ نے کافروں کا حال بیان فرمایا ہے اور روز محشر کا ایک منظر بتایا ہے فرمایا کہ اگر آپ ان لوگوں کا وہ حال دیکھیں جب وہ دوزخ پر کھڑے کیے جائیں گے تاکہ اس میں داخل کیے جائیں اور اپنی آنکھوں سے وہاں کا عذاب دیکھ لیں گے تو کہیں گے کہ کاش ! ہم دینا میں واپس کردیئے جاتے اور اب وہاں جا کر اپنے رب کی آیتوں کو نہ جھٹلاتے۔ آپ یہ دیکھیں گے تو عجب منظر ہوگا۔ اللہ جل شانہٗ کا ارشاد ہے کہ یہ بات نہیں ہے کہ ایمان کی رغبت اور محبت کی وجہ سے دنیا میں واپس جانے کی آرزو کر رہے ہیں بلکہ بات یہ ہے کہ جو کچھ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے تھے۔ یعنی کفر اس کا نتیجہ سامنے آگیا۔ دنیا میں جانے کی آرزو اس لیے کر رہے ہیں کہ عذاب نار سے خلاصی ہوجائے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

31 یہ تخویف اخروی ہے۔ یٰلَیْتَنَا حرف نداء یہاں محض اظہار حسرت کے لیے ہے اس سے کسی کو خطاب مقصود نہیں۔ حرف نداء یا جس طرح نداء اور استغاثہ کے لیے آتا ہے۔ اسی طرح ندب، تعجب، شوق، حسرت اور محبت کے اظہار کے لیے بھی آتا ہے جیسا کہ صحیح مسلم قبیل باب التفسیر میں ہے کہ جبحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ طیبیہ تشریف لے گئے تو چھوٹی بچیاں گلی کوچوں میں یا محمداہ یا محمداہ کہتی پھر رہی رہی تھیں۔ اس سے ان کا مقصد نداء اور پکار نہ تھا بلکہ وہ محض عقیدت اور محبت کے اظہار کے طور پر یہ کہہ رہی تھیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

27 اور اے پیغمبر کاش آپ ان کی وہ حالت دیکھ سکتے جس وقت یہ منکر جہنم کی آگ کے کنارے کھڑے کئے جائیں گیت و اس وقت کہیں گے ہائے کسی طرح ہم کو دنیا میں پھر واپس بھیج دیا جائے اور دوبارہ واپس ہونے کے بعد ہم اپنے رب کی آیتوں کی تکذیب نہ کریں اور ہم ایمان لانے والوں میں شامل ہوجائیں۔