Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 45

سورة الأنعام

فَقُطِعَ دَابِرُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ؕ وَ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۴۵﴾

So the people that committed wrong were eliminated. And praise to Allah , Lord of the worlds.

پھر ظالم لوگوں کی جڑ کٹ گئی اور اللہ تعالٰی کا شکر ہے جو تمام عالم کا پروردگار ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

So the roots of the people who did wrong were cut off. And all the praises and thanks be to Allah, the Lord of the all that exists.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

45۔ 1 اس میں خدا فراموش قوموں کی بابت اللہ تعالیٰ یہی بیان فرماتا ہے کہ ہم بعض دفعہ وقتی طور پر ایسی قوموں پر دنیا کی آسائشوں اور فراوانیوں کے دروازے کھول دیتے ہیں، یہاں تک کہ جب اس میں خوب مگن ہوجاتی ہیں اور اپنی مادی خوش حالی و ترقی پر اترانے لگ جاتی ہیں تو پھر ہم اچانک انھیں اپنے مواخذے کی گرفت میں لے لیتے ہیں اور جڑ ہی کاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ حدیث میں بھی آتا ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب تم دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نافرمانیوں کے باوجود کسی کو اس کی خواہشات کے مطابق دنیا دے رہا ہے تو یہ استدراج (ڈھیل دینا) ہے۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی، قرآن کریم کی آیت اور حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معلوم ہوا کہ دنیاوی ترقی اور خوشحالی اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ جس فرد یا قوم کو یہ حاصل ہو تو وہ اللہ کی چہیتی اور اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہے جیسا کہ بعض لوگ ایسا سمجھتے ہیں بلکہ بعض تو انھیں ( اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ ) 021:105 (مصداق قرار دیکر انھیں اللہ کے نیک بندے تک قرار دیتے ہیں) ایسا سمجھنا اور کہنا غلط ہے۔ گمراہ قوموں یا افراد کی دنیاوی خوش حالی ابتلا اور مہلت کے طور پر ہے نہ کہ یہ ان کے کفر و معاصی کا صلہ ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٨] یعنی یہ بھی اللہ کا لوگوں پر بہت بڑا احسان ہے کہ وہ ظالموں کو وقتاً فوقتاً نیست و نابود کرتا رہتا ہے تاکہ مظلوم لوگ ان کے ظلم و ستم سے نجات پا کر اپنی زندگی آرام اور چین سے گزار سکیں۔ جنہوں نے ان کی زندگی اجیرن بنا رکھی تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ۔۔ : یعنی وہ سب نیست و نابود کردیے گئے اور ان کی ہلاکت بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت تھی، جس پر ہر چیز نے سکھ کا سانس لیا اور ان کا نام و نشان مٹنے پر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی، جس نے رب العالمین ہونے کی وجہ سے اپنی مخلوق پر رحم فرما کر زمین کو ان کے وجود سے پاک کیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the last verse (45), it was said that, when the mass punishment of Allah Ta` ala came, the people who did wrong were uprooted to the last man. Said immediately after was: وَالْحَمْدُ لِلَّـهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ (And praise be to Allah, the Lord of the worlds) where the hint given is: Whenever the wrongdoers and the unjust are visited by some punishment or calami¬ty, that is a blessing for the whole world for which people should be grateful.

آخری آیت میں فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کا عذاب عام آیا تو ظالموں کی نسل تک قطع کردی گئی، اور اس کے آخر میں فرمایا : والحمد للّٰہ رب العالمین، جس میں اشارہ کیا گیا کہ مجرموں اور ظالموں پر جب کوئی عذاب و مصیبت آئے تو پورے عالم کے لئے ایک نعمت ہے جس پر لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا۝ ٠ۭ وَالْحَـمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝ ٤٥ قطع القَطْعُ : فصل الشیء مدرکا بالبصر کالأجسام، أو مدرکا بالبصیرة كالأشياء المعقولة، فمن ذلک قَطْعُ الأعضاء نحو قوله : لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] ، ( ق ط ع ) القطع کے معنی کسی چیز کو علیحدہ کردینے کے ہیں خواہ اس کا تعلق حاسہ بصر سے ہو جیسے اجسام اسی سے اعضاء کا قطع کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلافٍ [ الأعراف/ 124] میں پہلے تو ) تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسرے طرف کے پاؤں کٹوا دونگا دابِرُ ( دبر) فإدبار مصدر مجعول ظرفا، نحو : مقدم الحاجّ ، وخفوق النجم، ومن قرأ : (أدبار) فجمع . ويشتقّ منه تارة باعتبار دبر الفاعل، وتارة باعتبار دبر المفعول، فمن الأوّل قولهم : دَبَرَ فلانٌ ، وأمس الدابر، وَاللَّيْلِ إِذْ أَدْبَرَ [ المدثر/ 33] ، وباعتبار المفعول قولهم : دَبَرَ السهم الهدف : سقط خلفه، ودَبَرَ فلان القوم : صار خلفهم، قال تعالی: أَنَّ دابِرَ هؤُلاءِ مَقْطُوعٌ مُصْبِحِينَ [ الحجر/ 66] ، وقال تعالی: فَقُطِعَ دابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا [ الأنعام/ 45] ، والدابر يقال للمتأخر، وللتابع، إمّا باعتبار المکان، أو باعتبار الزمان، أو باعتبار المرتبة، وأَدبرَ : أعرض وولّى دبره، اور الدبر سے مشتقات ( جیسے ( دبروادبر دابر ) کبھی باعتبار فاعل ( یعنی فعل لازم ) کے استعمال ہوتے ہیں ۔ جیسے :۔ دبر فلان ( فلاں نے بیٹھ پھیری ) امس الدابر ( کل گزشتہ ) قرآن میں ہے :۔ وَاللَّيْلِ إِذْ أَدْبَرَ [ المدثر/ 33] اور رات کی جب پیٹھ پھیرنے لگے ۔ اور کبھی اعتبار مفعول ( یعنی فعل متعدی ، کے جیسے دبر السھم الھدف ) تیرنشانہ سے دو سے گر پڑا) دبر فلان القوم ( یعنی وہ قوم سے پیچھے رہ گیا قرآن میں ہے :۔ فَقُطِعَ دابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا [ الأنعام/ 45] غرض ظالم لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی ۔ أَنَّ دابِرَ هؤُلاءِ مَقْطُوعٌ مُصْبِحِينَ [ الحجر/ 66] کہ ان لوگوں کی جڑ صبح ہوتے ہی کاٹ دی جائیگی ۔ اور دابر کے معنی متاخر یا تابع کے آتے ہیں خواہ وہ تاخر باعتبار مکان یاز مان کے ہوا اور خواہ باعتبار مرتبہ کے ۔ ادبر ۔ اعراض کرنا ۔ پشت پھیر نا قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں حمد الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود : إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ . ( ح م د ) الحمدللہ ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گومن وجہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشاره پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پر مذ کور ہے ۔ عالَمُ والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٥) نتیجتا مشرک لوگوں کو نیست ونابود کردیا گیا، آپ ان کے نیست ونابود ہونے پر اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کیجیے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:45) دابر۔ بیج۔ بنیاد۔ پچھاڑی۔ جڑ۔ پیچھا۔ دبور سے جس کے معنی پشت پھیرنے کے ہیں۔ اسم فاعل واحد مذکر۔ والحمد للہ رب العلمین۔ حمد الٰہی اس واسطے کہ ظالم قوموں کی بیخ کنی سے خدا کی مخلوق کو نجات نصیب ہوئی۔ اس نعمت پر خدا کی حمد انسان پر لازم ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی سب ونیست ونا بود کردیئے گئے اور ان کے نیست ونابودکیئے جانے پر ہر چیز نے سکھ کا سانس لیا اور اللہ رب العلمین کے حضور سجدہ شکر ادا کیا خس کم جہاں پاک۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ اس لیے کہ ایسے ظالموں کا پاپ کٹا جن کے ہونے سے نحوست ہی پھیلتی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِنْنَ ) (سب تعریف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے جو سب جہانوں کا رب ہے) اس نے دکھ تکلیف میں مبتلا کرکے رجوع کرنے کا موقع دیا پھر نعمتوں سے نوازا لیکن وہ کسی طرح باز نہ آئے اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے موافق ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دوسری امت پیدا فرما دی۔ ایک امت ہلاک ہوئی تو دوسری امت نے وہی طرز اختیار کیا جو ان سے پہلی امت کا تھا۔ شکر کا مطلب اور شکر کی اہمیت : کسی فرد یا جماعت کے پاس جو بھی کوئی نعمت ہو اس پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھے اور اس کا شکر گزار ہو اور اپنے اعضاء وجوارح کو بھی فرماں برداری میں لگائے اور نافرمانی سے بچائے تاکہ صحیح معنوں میں شکر گزار بن جائے۔ اگر کسی فرد یا قوم یا جماعت کے پاس کوئی نعمت ہو تو نہ اس پر اترائے اور نہ نعمت دینے والے کو بھولے۔ اور نہ نافرمانی اختیار کرے، اصل نعمت وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے ساتھ ہو۔ اور گنہگاری ہو تو وہ نعمتیں، نعمتیں نہیں رہتیں کیونکہ ان کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ وہ گرفت اور عتاب و عذاب کا سبب بن جاتی ہے۔ نعمتیں ہوں اور ان کے ساتھ اعمال صالحہ ہوں تو یہ اللہ کا مقبول بندہ ہونے کی دلیل ہے اگر نعمتیں ہوں اور نافرمانی ہو اور یہ سمجھے کہ میں اللہ کا مقرب بندہ نہ ہوتا تو یہ نعمتیں مجھے کیوں ملتیں۔ یہ حماقت اور بےوقوفی کی بات ہے جو اللہ تعالیٰ کے نظام تکوینی سے بیخبر ی پر مبنی ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب تم کسی بندے کو دیکھو کہ گناہوں کے باوجود اللہ تعالیٰ اسے دنیا کی محبوب چیزیں دے رہے ہیں تو یہ استدراج ہے (جس کا معنی یہ ہے کہ ڈھیل دے کر نعمتیں عطا فرما کر اسے گناہوں میں ترقی کا اور زیادہ موقع دیا جا رہا ہے تاکہ زیادہ وہ عذاب میں مبتلا ہو) اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت بالا (فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِہٖ ) آخر تک تلاوت فرمائی۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٤٤٣) یہ انسان کی کیسی ناسمجھی ہے کہ نہ نعمت سے صحیح راہ پر آتا ہے اور نہ نقمت اور عذاب سے عبرت حاصل کرتا ہے۔ سورة اعراف میں فرمایا (وَ مَآ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّآ اَخَذْنَآ اَھْلَھَا بالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّھُمْ یَضَّرَّعُوْن ثُمَّ بَدَّلْنَا مَکَان السَّیِّءَۃِ الْحَسَنَۃَ حَتّٰی عَفَوْا وَّ قَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَآءَ نَا الضَّرَّآءُ وَ السَّرَّآءُ فَاَخَذْنٰھُمْ بَغْتَۃً وَّ ھُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ ) (اور ہم نے جس کسی بستی میں کوئی نبی بھیجا تو وہاں کے لوگوں کو سختی اور تکلیف کے ذریعہ ضرور پکڑاتا کہ وہ لوگ گڑگڑائیں۔ پھر ہم نے بدل دیا سختی کو آسانی سے یہاں تک کہ وہ زیادہ ہوگئے اور کہنے لگے کہ ہمارے باپ دادوں کو بھی تکلیف اور خوشی پہنچی ہے تو ہم نے ان کو اچانک پکڑ لیا اور وہ بیخبر تھے) ۔ مصائب اور آفات سے عبرت لینے کی بجائے گناہوں پر اصرار کرتے رہنا اور عبرت لینے کی بجائے یہ کہہ کر خود فریبی میں مبتلا ہونا یہ تو دنیا میں ہوتا ہی رہتا ہے ہمارے آباؤ و اجداد بھی دکھ تکلیف میں مبتلا ہوئے اسی طرح ہم پر بھی مصیبت آگئی ہے یہ اور زیادہ حماقت کی بات ہے مصائب کا سبب گناہوں کو نہ سمجھنا اور گناہوں پر اڑے رہنا اور یہ کہنا کہ یہ تو دنیا میں ہوتا ہی آیا ہے بڑی بد بختی ہے۔ اَ عَاذَنَا اللّٰہُ مِنْ ذَالِکَ فرح محمود اور مذموم : فرح عربی میں خوش ہونے کو کہتے ہیں اور اس کی دو صورتیں ہیں ایک اس بات کی خوشی کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو نعمت عطا فرمائی کرم فرمایا مہربانی فرمائی، اور پھر زبان اور قلب کے اقرار اور شکر کے ساتھ اطاعت و فرمانبرداری کے کاموں میں لگے رہیں۔ یہ فرح اور خوشی محمود ہے۔ سورۂ یونس میں فرمایا (قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَ بِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ ) (آپ فرمایا دیجیے کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر خوش ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کو وہ جمع کر رہے ہیں) اور فرح کی دوسری صورت یہ ہے کہ نعمتوں پر اترانے لگے۔ خالق کو یاد نہ کرے نعمتوں میں مست ہوجائے اور یہ سمجھے کہ یہ سب چیزیں میرے ہنر سے حاصل ہوئیں۔ اور یہ جو (فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا) فرمایا اس سے یہی اترانے والا، نعمتیں دینے والے کو بھلا دینے والا فرح مراد ہے قارون کی قوم نے اس سے کہا (لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِینَ ) (کہ تو مت اترا بیشک اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو دوست نہیں رکھتا) اس پر قارون نے جواب میں کہا (اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ ) (کہ مجھے جو کچھ ملا ہے میرے علم ہی کی وجہ سے ملا ہے) دینے والے کو بھولا، اپنے کمال کا مدعی ہوا۔ لا محالہ اپنے گھر سمیت زمین میں دھنسایا گیا مالداری اور تنگدستی کے ذریعہ آزمائش ہوتی ہے تنگ دستی میں راہ حق پر اور اعمال صالحہ پر باقی رہنا اور گناہوں سے بچنا اتنا مشکل نہیں جتنا کہ مالداری میں حق پر جمنا اور دین پر چلنا دشوارہوتا ہے۔ حضرت کعب بن عیاض (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ہر امت کے لیے ایک فتنہ ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ج ٢ ص ٤٤٢) حضرت عمرو بن عوف (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ مجھے تمہارے بارے میں تنگ دستی کا خوف نہیں لیکن مجھے تمہارے بارے میں اس بات کا خوف ہے کہ دنیا خوب دے دی جائے جیسے تم سے پہلے لوگوں کو دے دی گئی تھی پھر تم اس کی رغبت میں آپس میں مقابلہ کرنے لگو جیسے ان لوگوں نے آپس میں ایک دوسرے کا مقابلہ کیا پھر وہ تمہیں ہلاک کر دے جیسے انہیں کردیا۔ (رواہ البخاری ج ١ ص ٩٥١ و مسلم ج ٢ ص ٤٠٧)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

52 پھر اللہ تعالیٰ ان کو اس طرح پکڑتا ہے اور ان پر ایسا عذاب نازل کرتا ہے کہ ان کی بالکلیہ جڑ ہی کٹ جاتی ہے اور ان کی نسل ہی تباہ ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ قوم نوح کا حشر ہوا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ اور تمام صفات کا رسازی اللہ ہی کے ساتھ مخصوص ہیں۔ مشرکین جن معبودان باطلہ کو متصرف اور مشکل کشا سمجھتے تھے ان میں سے کوئی بھی ان کو اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکا۔۔ تو معلوم ہوا کہ اللہ ہی کارساز اور مافوق الاسباب متصرف ہے اور کوئی نہیں۔ تائید۔ فَلَوْلَا نَصَرَھُمُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللهِ قُرْبَانًا اٰلِھَةً (احقاف ع 4) اور فَمَا اَغْنَتْ عَنْھُمْ اٰلِھَتُھُمُ الَّتِیْ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللھ مِنْ شَیْءٍ لَمَّا جَآءَ اَمْرُ رَبِّکَ (ھود ع 9) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

45 اور یہ گرفت ایسی ہوئی کہ اس کے بعد ان ظالم اور ناانصاف لوگوں کی جڑ ہی کاٹ دی گئی اور اس اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جو تمام کائنات اور تمام مخلوقات کا پروردگار ہے یعنی سب ہلاک کردیئے گئے۔