Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 53

سورة الأنعام

وَ کَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ لِّیَقُوۡلُوۡۤا اَہٰۤؤُلَآءِ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنۡۢ بَیۡنِنَا ؕ اَلَیۡسَ اللّٰہُ بِاَعۡلَمَ بِالشّٰکِرِیۡنَ ﴿۵۳﴾

And thus We have tried some of them through others that the disbelievers might say, "Is it these whom Allah has favored among us?" Is not Allah most knowing of those who are grateful?

اور اسی طرح ہم نے بعض کو بعض کے ذریعہ سے آزمائش میں ڈال رکھا ہے تاکہ یہ لوگ کہا کریں ، کیا یہ وہ لوگ ہیں کہ ہم سب میں سے ان پر اللہ تعالٰی نے فضل کیا ہے کیا یہ بات نہیں ہے کہ اللہ تعالٰی شکرگزاروں کو خوب جانتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَكَذَلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُم بِبَعْضٍ ... Thus We have tried some of them with others! means, We tested, tried and checked them with each other, ... لِّيَقُولواْ أَهَـوُلاء مَنَّ اللّهُ عَلَيْهِم مِّن بَيْنِنَا ... That they might say: "Is it these (poor believers) that Allah has favored from amongst us!" This is because at first, most of those who followed the Messenger of Allah were the weak among the people, men, women, slaves, and only a few chiefs or noted men followed him. Nuh, was also addressed by his people مَا نَرَاكَ إِلاَّ بَشَرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلاَّ الَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ (Nor do we see any follow you but the meekest among us and they (too) followed you without thinking). (11:27) Heraclius, emperor of Rome, asked Abu Sufyan, "Do the noblemen or the weak among people follow him (Muhammad)?" Abu Sufyan replied, "Rather the weak among them." Heraclius commented, "Such is the case with followers of the Messengers." The idolators of Quraysh used to mock the weak among them who believed in the Prophet and they even tortured some of them. They used to say, "Are these the ones whom Allah favored above us," meaning, Allah would not guide these people, instead of us, to all that is good, if indeed what they embraced is good. Allah mentioned similar statements in the Qur'an from the disbelievers, لَوْ كَانَ خَيْراً مَّا سَبَقُونَأ إِلَيْهِ Had it been a good thing, they (weak and poor) would not have preceded us to it! (46:11) and, وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ ءَايَـتُنَا بِيِّنَـتٍ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ أَىُّ الْفَرِيقَيْنِ خَيْرٌ مَّقَاماً وَأَحْسَنُ نَدِيّاً And when Our clear verses are recited to them, those who disbelieve say to those who believe: "Which of the two groups is best in position and station." (19:73) Allah said in reply, وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّن قَرْنٍ هُمْ أَحْسَنُ أَثَاثاً وَرِءْياً And how many a generation (past nations) have We destroyed before them, who were better in wealth, goods and outward appearance. (19:74) Here, Allah answered the disbelievers when they said, ... أَهَـوُلاء مَنَّ اللّهُ عَلَيْهِم مِّن بَيْنِنَا أَلَيْسَ اللّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ "Is it these (poor believers) that Allah has favored from amongst us!" Does not Allah know best those who are grateful! Meaning is not Allah more knowledgeable of those who thank and appreciate Him in statement, action and heart! Thus Allah directs these believers to the ways of peace, transfers them from darkness to light by His leave, and guides them to the straight path. In another Ayah, Allah said; وَالَّذِينَ جَـهَدُواْ فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ As for those who strive hard for Us (Our cause), We will surely guide them to Our paths (i.e. Allah's religion). And verily, Allah is with the doers of good." (29:69) An authentic Hadith states, إِنَّ اللهَ لاَ يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَلاَ إِلَى أَلْوَانِكُمْ وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُم Allah does not look at your shapes or colors, but He looks at your heart and actions.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

53۔ 11 ابتدا میں اکثر غریب، غلام قسم کے لوگ ہی مسلمان ہوئے تھے۔ اس لئے یہی چیز رؤسائے کفار کی آزمائش کا ذریعہ بن گئی اور وہ ان غریبوں کا مذاق بھی اڑاتے اور جن پر ان کا بس چلتا انھیں تعزیب و اذیت سے بھی دوچار کرتے اور کہتے کہ کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعال نے احسان فرمایا ؟ مقصد ان کا یہ تھا کہ ایمان اور اسلام پر واقع اللہ کا احسان ہوتا تو سب سے پہلے ہم پر ہوتا جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا (' لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُوْنَآ اِلَيْهِ ) 046:011 اگر یہ بہتر چیز ہوتی تو اس کے قبول کرنے میں یہ ہم سے سبقت نہ کرتے ' یعنی ان غربا کے مقابلے میں ہم پہلے مسلمان ہوتے۔ 53۔ 2 یعنی اللہ تعالیٰ ظاہری چمک دمک ٹھاٹھ باٹھ اور رئیسانہ کروفر وغیرہ نہیں دیکھتا، وہ تو دلوں کی کیفیت کو دیکھتا ہے اور اس اعتبار سے وہ جانتا ہے اس کے شکرگزار بندے اور حق سناش کون ہیں ؟ پس اس نے جن کے اندر شکر گزاری کی خوبی دیکھی، انھیں ایمان کی سعادت سے سرفراز کردیا جس طرح حدیث میں آتا ہے ' اللہ تعالیٰ تمہاری صورتیں اور تمہارے رنگ نہیں دیکھتا وہ تو تمہارے دل اور تمہارے عمل دیکھتا ہے '۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٦] قریشی سرداروں کی ناتواں صحابہ پر طعنہ زنی :۔ یعنی اقرع اور عیینہ کو آزمائش میں ڈال دیا ہے جو اپنی شرافت اور مالداری پر مغرور ہیں اور غریب بےکس اور سچے مسلمانوں کو اتنا حقیر سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ مل کر بیٹھنا بھی انہیں گوارا نہیں۔ حالانکہ یہ لوگ انتہائی خلوص کے ساتھ اللہ کی رضا کے طالب تھے۔ پھر یہی اقرع اور عیینہ اور دوسرے مغرور سرداران قریش زبانی بھی کہا کرتے تھے کہ اس شخص ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ساتھی بھی کیسے ملے ہیں۔ کیا ہم لوگوں میں سے اللہ کو یہی لوگ ایسے ملے تھے جنہیں برگزیدہ کیا جاسکتا تھا نیز ان کا مذاق اڑاتے اور ان پر پھبتیاں کستے تھے۔ اور اگر کسی کی کسی سابقہ اخلاقی کمزوری کا علم ہوتا تو کہتے کہ کل تک تو فلاں شخص کا یہ حال تھا اور آج یہ برگزیدہ لوگوں میں شامل ہیں۔ نیز ۔ (بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ 53؀) 6 ۔ الانعام :53) کے الفاظ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آیا یہ نادار اور ناتواں مسلمان بھی کفار کی ایسی حقارت آمیز اور طعن وتشنیع پر مشتمل باتوں کو سن کر ان پر صبر کرتے ہیں ؟ اور کس حد تک صبر کرتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَكَذٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ ۔۔ : جیسا کہ معلوم ہے ابتدا میں ایمان لانے والوں کی اکثریت کمزور مردوں، عورتوں، لونڈیوں اور غلاموں کی تھی، دولت مند بہت کم تھے اور یہی چیز کافر سرداروں کی آزمائش کا ذریعہ بن گئی۔ وہ ان غریبوں کا مذاق بھی اڑاتے اور جن پر ان کا بس چلتا انھیں زیادہ سے زیادہ اذیت بھی پہنچاتے اور کہتے کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے احسان فرمایا ہے ؟ ! مقصد ان کا یہ تھا کہ ایمان اور اسلام اگر واقعی اللہ کا احسان ہوتا تو سب سے پہلے ہم پر ہوتا (دیکھیے احقاف : ١١) کیونکہ دنیوی زندگی میں اس نے ہم کو برتری دی ہے۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” یعنی دولت مندوں کو غریبوں سے آزمایا ہے کہ ان کو ذلیل دیکھتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں کہ یہ لائق ہیں اللہ کے فضل کے اور اللہ دل دیکھتا ہے کہ اللہ کا حق مانتے ہیں۔ “ (موضح) دراصل اللہ کے ہاں قدر و منزلت ہے تو انھی لوگوں کی جو اخلاص سے اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں، چاہے وہ کتنے ہی غریب اور محتاج ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک خالی دنیوی حسب نسب اور خوشحالی کی کوئی قدر نہیں، جیسے فرمایا : ( اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ ) [ الحجرات : ١٣ ] ” تم میں سے اللہ کے نزدیک زیادہ با عزت وہ آدمی ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَكَذٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لِّيَقُوْلُوْٓا اَہٰٓؤُلَاۗءِ مَنَّ اللہُ عَلَيْہِمْ مِّنْۢ بَيْنِنَا۝ ٠ۭ اَلَيْسَ اللہُ بِاَعْلَمَ بِالشّٰكِرِيْنَ۝ ٥٣ فتن أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] ( ف ت ن ) الفتن دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات/ 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ بعض بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ( ب ع ض ) بعض الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ ها هَا للتنبيه في قولهم : هذا وهذه، وقد ركّب مع ذا وذه وأولاء حتی صار معها بمنزلة حرف منها، و (ها) في قوله تعالی: ها أَنْتُمْ [ آل عمران/ 66] استفهام، قال تعالی: ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ [ آل عمران/ 66] ، ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران/ 119] ، هؤُلاءِ جادَلْتُمْ [ النساء/ 109] ، ثُمَّ أَنْتُمْ هؤُلاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ [ البقرة/ 85] ، لا إِلى هؤُلاءِ وَلا إِلى هؤُلاءِ [ النساء/ 143] . و «هَا» كلمة في معنی الأخذ، وهو نقیض : هات . أي : أعط، يقال : هَاؤُمُ ، وهَاؤُمَا، وهَاؤُمُوا، وفيه لغة أخری: هَاءِ ، وهَاءَا، وهَاءُوا، وهَائِي، وهَأْنَ ، نحو : خَفْنَ وقیل : هَاكَ ، ثمّ يثنّى الکاف ويجمع ويؤنّث قال تعالی: هاؤُمُ اقْرَؤُا كِتابِيَهْ [ الحاقة/ 19] وقیل : هذه أسماء الأفعال، يقال : هَاءَ يَهَاءُ نحو : خاف يخاف، وقیل : هَاءَى يُهَائِي، مثل : نادی ينادي، وقیل : إِهَاءُ نحو : إخالُ. هُوَ : كناية عن اسم مذكّر، والأصل : الهاء، والواو زائدة صلة للضمیر، وتقوية له، لأنها الهاء التي في : ضربته، ومنهم من يقول : هُوَّ مثقّل، ومن العرب من يخفّف ويسكّن، فيقال : هُو . ( ھا ) ھا ۔ یہ حرف تنبیہ ہے اور ذا ذہ اولاٰ اسم اشارہ کے شروع میں آتا ہے اور اس کے لئے بمنزلہ جز سمجھنا جاتا ہے مگر ھا انتم میں حرف ھا استہفام کے لئے ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ ها أَنْتُمْ هؤُلاءِ حاجَجْتُمْ [ آل عمران/ 66] دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا ۔ ها أَنْتُمْ أُولاءِ تُحِبُّونَهُمْ [ آل عمران/ 119] دیکھو تم ایسے صاف دل لوگ ہو کہ ان لوگوں سے ودستی رکھتے ہو ۔ هؤُلاءِ جادَلْتُمْ [ النساء/ 109] بھلا تم لوگ ان کی طرف سے بحث کرلیتے ہو ۔ ثُمَّ أَنْتُمْ هؤُلاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ [ البقرة/ 85] پھر تم وہی ہو کہ اپنوں کو قتل بھی کردیتے ہو ۔ لا إِلى هؤُلاءِ وَلا إِلى هؤُلاءِ [ النساء/ 143] نہ ان کی طرف ( ہوتے ہو ) نہ ان کی طرف ۔ ھاءم ـ اسم فعل بمعنی خذ بھی آتا ہے اور ھات ( لام ) کی ضد ہے اور اس کی گردان یون ہے ۔ ھاؤم ھاؤم ۔ ھاؤموا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ هاؤُمُ اقْرَؤُا كِتابِيَهْ [ الحاقة/ 19] لیجئے اعمالنامہ پڑھئے اور اس میں ایک لغت بغیر میم کے بھی ہے ۔ جیسے : ۔ ھا ، ھا ، ھاؤا ھائی ھان کے بروزن خفن اور بعض اس کے آخر میں ک ضمیر کا اضافہ کر کے تنبیہ جمع اور تذکرو تانیث کے لئے ضمیر میں تبدیل کرتے ہیں جیسے ھاک ھاکما الخ اور بعض اسم فعل بنا کر اسے کھاؤ یھاء بروزن خاف یخاف کہتے ہیں اور بعض کے نزدیک ھائی یھائی مثل نادٰی ینادی ہے اور بقول بعض متکلم مضارع کا صیغہ اھاء بروزن اخال آتا ہے ۔ منن والمِنَّةُ : النّعمة الثّقيلة، ويقال ذلک علی وجهين : أحدهما : أن يكون ذلک بالفعل، فيقال : منَّ فلان علی فلان : إذا أثقله بالنّعمة، وعلی ذلک قوله : لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 164] والثاني : أن يكون ذلک بالقول، وذلک مستقبح فيما بين الناس إلّا عند کفران النّعمة، ولقبح ذلک قيل : المِنَّةُ تهدم الصّنيعة «4» ، ولحسن ذكرها عند الکفران قيل : إذا کفرت النّعمة حسنت المنّة . وقوله : يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات/ 17] فالمنّة منهم بالقول، ومنّة اللہ عليهم بالفعل، وهو هدایته إيّاهم كما ذكر، ( م ن ن ) المن المن کے معنی بھاری احسان کے ہیں اور یہ دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ایک منت بالفعل جیسے من فلان علیٰ فلان یعنی فلاں نے اس پر گرا انبار احسان کیا ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 164] خدا نے مومنوں پر بڑا احسان گیا ہے ۔ اور دوسرے معنی منۃ بالقول یعنی احسان جتلانا گو انسانی معاشرہ میں معیوب سمجھا جاتا ہے مگر جب کفران نعمت ہو رہا ہو تو اس کے اظہار میں کچھ قباحت نہیں ہے اور چونکہ ( بلاوجہ اس کا اظہار معیوب ہے اس لئے مشہور ہے ، المنۃ تھدم الصنیعۃ منت یعنی احسان رکھنا احسان کو بر باد کردیتا ہے اور کفران نعمت کے وقت چونکہ اس کا تذکرہ مستحن ہوتا ہے اس لئے کسی نے کہا ہے : جب نعمت کی ناشکری ہو تو احسان رکھنا ہیں مستحن ہے اور آیت کریمہ : ۔ يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات/ 17] یہ لوگ تم احسان رکھتے ہیں ۔ کہ مسلمان ہوگئے ہیں ، کہدو کہ اپنے مسلمان ہونے کا مجھ پر احسان نہ رکھو ۔ بلکہ خدا تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا رستہ دکھایا ۔ میں ان کی طرف سے منت بالقوم یعنی احسان جتلانا مراد ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے منت بالفعل یعنی انہیں ایمان کی نعمت سے نواز نامراد ہے۔ شكر الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها۔ والشُّكْرُ ثلاثة أضرب : شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة . وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم . وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه . وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] ، ( ش ک ر ) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں شکر تین قسم پر ہے شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکافات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ/ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٣) اور اسی طریقہ سے ہم نے عرب کو غیر عرب کے ساتھ اور شریف کو غیر شریف کے ساتھ سابقہ ڈال کر آزمایش میں ڈال رکھا ہے یہ آیت کریمہ عینیہ بن حصن فزاری، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، امیہ بن خلف، ولید بن مغیرہ، ابی جہل، سہل بن عمر، وغیرہ رؤسا قریش کے بارے میں نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٣ (وَکَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ ) یہ اللہ کی آزمائش کا ایک طریقہ ہے۔ مثلاً ایک شخص مفلس اور نادار ہے ‘ اگر وہ کسی دولت مند اور صاحب منصب و حیثیت شخص کو حق کی دعوت دیتا ہے تو وہ اس پر حقارت بھری نظر ڈال کر مسکرائے گا کہ اس کو دیکھو اور اس کی اوقات کو دیکھو ‘ یہ سمجھانے چلا ہے مجھ کو ! حالانکہ اصولی طور پر اس صاحب حیثیت شخص کو غور کرنا چاہیے کہ جو بات اس سے کہی جا رہی ہے وہ صحیح ہے یا غلط ‘ نہ کہ بات کہنے والے کے مرتبہ و منصب کو دیکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس طرح ہم لوگوں کی آزمائش کرتے ہیں ۔ (لِّیَقُوْلُوْٓا اَہٰٓؤُلَآءِ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنْم بَیْنِنَاط اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بالشّٰکِرِیْنَ ) صاحب حیثیت لوگ تو دعویٰ رکھتے ہیں کہ اللہ کا انعام اور احسان تو ہم پر ہوا ہے ‘ دولت مند تو ہم ہیں ‘ چودھراہٹیں تو ہماری ہیں۔ یہ جو گرے پڑے طبقات کے لوگ ہیں ان کو ہم پر فضیلت کیسے مل سکتی ہے ؟ مکہ کے لوگ بھی اسی طرح کی باتیں کیا کرتے تھے کہ اگر اللہ نے اپنی کتاب نازل کرنی تھی ‘ کسی کو نبوت دینی ہی تھی تو اس کے لیے کوئی رَجُل مِنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْم منتخب کیا جاتا۔ یعنی یہ مکہ اور طائف جو دو بڑے شہر ہیں ان میں بڑے بڑے سردار ہیں ‘ سرمایہ دار ہیں ‘ بڑی بڑی شخصیات ہیں ‘ ان میں سے کسی کو نبوت ملتی تو کوئی بات بھی تھی۔ یہ کیا ہوا کہ مکہ کا ایک یتیم جس کا بچپن مفلسی میں گزرا ہے ‘ جوانی مشقت میں کٹی ہے ‘ جس کے پاس کوئی دولت ہے نہ کوئی منصب ‘ وہ نبوت کا دعویدار بن گیا ہے۔ اس قسم کے اعتراضات کا ایک اور مسکت جواب اسی سورة کی آیت ١٢٤ میں ان الفاظ میں آئے گا : (اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ ط) ’ ’ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کا منصب کس کو دینا چاہیے۔ اور کس میں اس منصب کو سنبھالنے کی صلاحیت ہے۔ جیسے طالوت کے بارے میں لوگوں نے کہہ دیا تھا کہ وہ کیسے بادشاہ بن سکتا ہے جبکہ اسے تو مال و دولت کی وسعت بھی نہیں دی گئی : (وَلَمْ یُؤْتَ سَعَۃً مِّنَ الْمَالِ ط) (البقرۃ : ٢٤٧) ہم دولت مند ہیں ‘ ہمارے مقابلے میں اس کی کوئی مالی حیثیت نہیں۔ اس کا جواب یوں دیا گیا کہ طالوت کو جسم اور علم کے اندر کشادگی (بَسْطَۃً فِی الْْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ) عطا فرمائی گئی ہے۔ لہٰذا اس میں بادشاہ بننے کی اہلیت تم لوگوں سے زیادہ ہے۔ یہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتایا جا رہا ہے کہ ان غریب و نادار مؤمنین کے ساتھ آپ کا معاملہ کیسا ہونا چاہیے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

36. By enabling the poor and the indigent, the people who have a low station in society to precede others in believing, God has put those who wax proud of wealth and honour to a severe test.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :36 یعنی غریبوں اور مفلسوں اور ایسے لوگوں کو جو سوسائیٹی میں ادنیٰ حیثیت رکھتے ہیں ، سب سے پہلے ایمان کی توفیق دے کر ہم نے دولت اور عزت کا گھمنڈ رکھنے والے لوگوں کو آزمائش میں ڈال دیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

20: مطلب یہ ہے کہ غریب مسلمان اس حیثیت سے ان امیر کافروں کے لئے ایک آزمائش کا سبب بن گئے ہیں کہ آیا یہ لوگ اصل اہمیت حق بات کو دیتے ہیں یا صرف اس وجہ سے حق کا انکار کردیتے ہیں کہ اس کے ماننے والے غریب لوگ ہیں۔ 21: یہ کافروں کا فقرہ ہے جو وہ غریب مسلمانوں کے بارے میں طنزیہ انداز میں کہتے تھے۔ یعنی (معاذاللہ) ساری دُنیا میں سے یہی کم حیثیت لوگ اﷲ تعالیٰ کو ملے تھے جن پر وہ احسان کرکے انہیں جنت کا مستحق قراردے؟

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:53) فتنا۔ ماضی جمع متکلم ۔ ہم نے آزمائش میں ڈالا۔ اس کے علاوہ مصیبت سے بچانے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہاں ماضی بمعنی مضارع بھی ہوسکتا ہے ہم آزمائش میں ڈالتے ہیں۔ من اللہ علیہم۔ خدا نے ان پر بڑا احسان کیا من یمن (نصر) من مصدر احسان کرنا۔ منان احسان کرنے والا۔ المنان۔ خدا تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی سرداران قریش جو یہ مطالبہ کر رہے ہیں۔10 یعنی کیا بلال (رض) ۔ صہیب (رض) خباب (رض) سالم (رض) عبد اللہ (رض) بن مسعود (رض) سعد (رض) بن ابی وقاص (رض) اور دو سے غریب اور بےکس مسلمان ہی اللہ تعالیٰ یو یہ ایسے نظر آئے ہیں کہ اس نے انہیں ہماری قوم میں سے چن لیا ہے۔11 یعنی دولتمندوں کو غریبوں سے آزمایا ہے کہ ان کو ذلیل دیکھتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں کہ کیا یہ لا ئق ہیں اللہ کے فضل کے اور اللہ دل دیکھتا ہے کہ اللہ کا حق مانتے ہیں۔ ( موضح) در اصل اللہ تعالیٰ کے ہاں قدرو منزلت ہے تو انہی لوگوں کی ہے جو اخلاص سے اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں چاہے وہ کتنے ہی غریب اور محتاج ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک خالی دینوی حسب و نسب اور خوشحالی کی کوئی قدر نہیں ہے جیسے فرمایا ان اکر مکم عند اللہ اتقاکم ( حجرات) کہ تم میں سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ باعزت وہ ہے جو سب زیادہ پرہیز گار ہے

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : پہلی آیت میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت فرمائی گئی تھی کہ غریب صحابہ (رض) کو اپنے سے دور نہ کیجیے اب اللہ تعالیٰ کی طرف سے غریب صحابہ (رض) کو قدر افزائی اور فضل و کرم کا پیغام سنایا گیا ہے۔ کفار کی طرف سے غریب صحابہ (رض) کی حوصلہ شکنی اور طعنہ زنی کے بدلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی حوصلہ افزائی اور قدر دانی، فضل و کرم کا پیغام اور گناہوں کی بخشش کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔ کفار نے غریب صحابہ (رض) کو حقیر سمجھ کر ان کی دنیاوی پسماندگی کا مذاق اڑایا تھا جس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ پر چار کرم فرمائے۔ ١۔ صحابہ کے ایمان اور اخلاص کی قدر افزائی فرمائی۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی کا پیغام آیا۔ ٣۔ رب رحیم کی رحمت کے حق دار ٹھہرائے گئے۔ ٤۔ گناہوں کی بخشش کی خوشخبری دی گئی۔ یہاں جہالت کو گناہ کا سبب قرار دیا ہے۔ جہالت کا مفہوم واضح کرتے ہوئے مفسرین نے لکھا ہے جہالت سے مراد یہ نہیں کہ آدمی کو گناہوں کے بارے میں علم نہ ہو بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ آدمی جب گناہ کرتا ہے تو اس وقت وہ عملاً جاہل ہوجا تا ہے۔ اس لیے ہر زبان میں یہ معروف ہے کہ جب کوئی پڑھا لکھا انسان غلطی کا ارتکاب کرے تو لوگ اسے جاہل قرار دیتے ہیں۔ گویا کہ گناہ کا دوسرا نام جہالت ہے۔ یہاں اس لیے بھی جہالت کا لفظ استعمال کیا ہے تاکہ کفارکو اس بات کا احساس ہو کہ دین سے بےبہرہ ہونا پرلے درجے کی جہالت ہے۔ بہر حال جہالت کی کسی شکل میں انسان سے غلطی ہوجائے پھر وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تو بہ کرے اور اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ گناہ معاف کرنے والا نہایت ہی مہربان ہے۔ کافر کی توبہ یہ ہے کہ وہ کفر سے تائب ہو کر اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرتے ہوئے اصلاح کا رویہ اختیار کرے۔ یقیناً اس کے سابقہ گناہوں کو معاف کردیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے احکام کو اس لیے کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ مجرموں کا راستہ واضح ہوجائے یہاں ہدایت کے بجائے مجرموں کا راستہ واضح کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس طرح گمراہی کے مقابلے میں ہدایت اور کفر و نفاق کے مقابلے میں دین کا راستہ خود بخود نمایاں ہوجاتا ہے۔ مجرموں کے راستے کو واضح کرنے کا یہ بھی مقصد ہے کہ جس طرز حیات پر وہ اتراتے ہیں انھیں احساس ہو کہ یہ اللہ کے فرماں بردار بندوں کا طریقہ اور راستہ نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی اشارہ کرنا مقصود ہے کہ مجرموں کا راستہ جہنم ہوگا جو نہایت ہی برا راستہ ہے۔ یہاں مومنوں کو اپنی رحمت کی خوشخبری سنانے کے بعد مجرموں پر واضح فرمایا کہ اگر تم بھی بغاوت اور تکبر کا راستہ ترک کرکے نیک بندوں کے ساتھ عاجزی اور اپنے رب کے حضور سرافندگی کا طریقہ اختیار کرلو۔ تو اس کی رحمت تمہیں بھی اپنے دامن میں پناہ دینے کے لیے تیار ہے۔ اگر تم نے اس کے نیک بندوں کے ساتھ تکبر اور اپنے رب کے ساتھ نافرمانی کا رویہ اپنائے رکھا تو یاد رکھو اس کا عذاب بڑا سخت ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَمَّا قَضَی اللَّہُ الْخَلْقَ کَتَبَ فِی کِتَابِہٖ فَہُوَ عِنْدَہٗ فَوْقَ الْعَرْشِ إِنَّ رَحْمَتِی غَلَبَتْ غَضَبِی)[ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کائنات کی تخلیق سے فارغ ہوا تو اپنی کتاب میں جو کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے عرش کے اوپر لکھا میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” أَلَیْْسَ اللّہُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاکِرِیْنَ (53) ” ہاں ! کیا خدا اپنے شکر گزار بندوں کو ان سے زیادہ نہیں جانتا ہے ؟ “ اس تریدد میں بہت کچھ ہدایات اور اشارات دیئے گئے ، پہلی ہدایت یہ دی گئی کہ اللہ تعالیٰ اپنا فضل وکرم ان لوگوں پر کرتا ہے جن کے بارے میں اللہ کے علم میں یہ بات ہوتی ہے کہ وہ شکر نعمت بجا لائیں گے ، اگرچہ کوئی بندہ اللہ کے انعام کا حق ادا نہیں کرسکتا لیکن بندہ شکر نعمت کے میدان میں جو حقیر سی کوشش بھی کرے اللہ اسے قبول کرتا ہے اور اس حقیر سے شکر پر اسے وہ انعام دیتا ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے ۔ اس آیت میں یہ بتایا گیا کہ نعمت ایمان کا تعلق ان حقیر اقدار سے نہیں ہے جو اس دنیا پر چھائے ہوئے جاہلی ظالموں میں اہمیت رکھتی ہیں ۔ ایمان کی دولت اللہ ان لوگوں کو نصیب کرتا ہے جن کے بارے میں اللہ کو علم ہے کہ وہ شکر بجا لائیں گے ‘ اگرچہ وہ غلام ‘ ضعیف اور نادار ہوں کیونکہ اللہ کے ترازو میں دنیا کی دولت اور مال کا کوئی وزن نہیں ہے ۔ انہیں صرف جاہلیت ہی اہمیت دیتی ہے حالانکہ اللہ کے نزدیک ان میں کوئی وزن نہیں ہوتا ہے ۔ اس جواب میں یہ فیصلہ بھی کردیا ہے کہ دراصل یہ اعتراض ہو لوگ کرتے ہیں جو چیزوں کی حقیقت سے واقف نہیں ہوتے ۔ اللہ دولت ایمان کو جب تقسیم فرماتے ہیں تو وہ خوب جانتے ہیں کہ اس کا مستحق کون ہے ۔ اس سلسلے میں اگر کوئی اعتراض کرے گا تو ایک تو وہ جاہل ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ نہایت گستاخ بھی ہوگا ۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت دی جاتی ہے کہ آپ آغاز دعوت ان لوگوں سے کریں جن پر اللہ نے فضل فرمایا ‘ سب سے پہلے انہیں نعمت ایمان سے نوازا ‘ ان کو سابقون الاولون کی فضیلت دی گئی اور جن سے یہ کبراء اور اشراف نفرت کرتے ہیں ۔ حکم دیا جاتا ہے کہ آپ سب سے پہلے انہیں سلام کریں اور اس کے بعد انہیں خوشخبری دیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر ان کے لئے رحمت فرض کرلی ہے اور اگر ان میں سے کسی سے دور جاہلیت میں کوئی غلطی صادر ہوئی ہے تو وہ معاف ہے بشرطیکہ وہ توبہ کرے اور اصلاح کرلے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

غنی اور فقیر کا فرق آزمائش کے لیے ہے پھر فرمایا (وَ کَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلُوْٓا اَھآؤُلَآءِ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنْ بَیْنِنَا) ” اور ہم نے اسی طرح آزمائش میں ڈالا ہے بعض کو بعض کے ذریعہ تاکہ وہ کہیں کیا یہ لوگ ہیں جن پر ہمیں چھوڑ کر اللہ نے احسان فرمایا۔ “ اس میں یہ بتایا ہے کہ اس دنیا میں غنی اور فقیر کا جو فرق رکھا گیا ہے اور دوسری حیثیتوں سے جو امتیاز ہے اس میں حکمت ہے اور وہ حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض کے ذریعے آزمائش میں ڈالا ہے جو غنی ہیں وہ فقیر کو حقیر سمجھتے ہیں۔ اسی طرح دوسری طرح کی جو چھوٹائی بڑائی پائی جاتی ہے اس کی وجہ سے بڑے بننے والے چھوٹوں کو نظر حقارت سے دیکھتے ہیں۔ یہ ایک آزمائش ہے جن لوگوں کو کسی طرح کی برتری حاصل ہے وہ بجائے نعمت دینے والے کا شکر ادا کرنے کے ان لوگوں کی طرف دیکھتے ہیں جو اس نعمت سے محروم ہیں اگر چھوٹے لوگ نہ ہوتے تو ممکن تھا کہ یہ نعمت دینے والے کی طرف متوجہ ہوتے اور اس کا شکر ادا کرتے۔ لیکن مال و دولت اور اختیار و اقتدار کے نشہ میں دوسروں کو حقیر جاننے کا طریقہ اختیار کرلیتے ہیں اور اس طرح سے امتحان میں فیل ہوجاتے ہیں اگر سب ہی برابر ہوتے تو کوئی کسی کو حقیر نہ جانتا۔ جو لوگ مال و دولت اور اقتدار والے ہیں ان کے تکبر کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے کو ہر خیر کا مستحق سمجھتے ہیں۔ غریبوں اور مسکینوں کو دینی برتری ملنے کا بھی اہل نہیں سمجھتے اور وہ کہتے ہیں کہ کیا یہ پھٹیچر جن کے پاس ایک وقت کا کھانے کو نہیں اس لائق ہیں کہ ان کو ہدایت مل جائے اور ہم ہدایت سے محروم رہ جائیں۔ جس دین کو انہوں نے اختیار کیا ہے اگر یہ ہمارے دین سے بہتر ہوتا تو یہ لوگ اسے کیوں اختیار کرتے۔ سورة احقاف میں فرمایا (وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَوْ کَانَ خَیْرًا مَّا سَبَقُوْنَا اِِلَیْہِ ) ” اور کافروں نے مومنین کے بارے میں کہا کہ اگر یہ چیز بہتر ہوتی جو انہوں نے اختیار کی ہے تو یہ ہم سے آگے نہ بڑھ جاتے۔ “ دولت مند ہر طرح کی دینی و دنیاوی برتری کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ جن لوگوں نے ہمارے دین کے خلاف دوسرا دین اختیار کیا اگرچہ دلائل واضح کے اعتبار سے وہ حق ہے لیکن چونکہ ہم نے اختیار نہیں کیا اس لیے وہ قابل قبول نہیں اس طبقہ کے لوگوں نے اپنا یہ حق خود سے تجویز کرلیا ہے اپنے خالق ومالک کے قانون تکوینی اور تشریعی کو نہیں دیکھتے اور یہ نہیں سمجھتے کہ جس نے ہمیں مال دیا وہ دوسروں کو ہدایت عطا فرما سکتا ہے۔ مالدار ہی دین حق پر ہوں اور غریب ہی باطل پر ہوں یہ کوئی قانون تکوینی نہیں ہے۔ جسے اللہ نے مال و دولت عطا فرمایا ہے وہ غریبوں کو حقیر جاننے کی بجائے منعم حقیقی کی طرف رجوع کرے۔ اور وہ طریقہ تلاش کرے جو اس کے رب کو پسند ہے اور نا شکری و نافرمانی سے پرہیز کرے اور جب حق بات پہنچ جائے تو اسے فوراً قبول کرے۔ چونکہ غریبوں نے حق قبول کرلیا ہے اس لیے ہم اسے قبول نہیں کرتے بلکہ ہم اسے حق سمجھتے ہی نہیں مالداروں کا یہ خیال سراپا تکبر ہے۔ جو حماقت پر مبنی ہے۔ اللہ جل شانہٗ نے فرمایا (اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بالشّٰکِرِیْنَ ) ” کیا اللہ شکر گزاروں کو خوب نہیں جانتا۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ شکر گزار بندے کون ہیں۔ غریبوں کے پاس مال نہیں پھر بھی شکر گزار ہیں اور یہ شکر گزاری کی صفت ان کے لیے حق بات کے اختیار کرنے اور حق پر جمنے کا ذریعہ بن گئی۔ جن لوگوں کے پاس مال و دولت ہے وہ نا شکرے ہیں۔ اپنے کبر اور کفران نعمت کو نہیں دیکھتے۔ ان غریبوں کو دیکھ کر نفرت کر رہے ہیں۔ جن پر اللہ نے فضل فرما دیا اور ہدایت کی نعمت سے نواز دیا۔ زمانہ نبوت میں ایسے متکبر تھے جن کا ذکر آیت شریفہ میں ہوا۔ آج بھی ایسے لوگ ہیں جو اپنے مال و دولت کے نشہ میں دین سے وابستہ رہنے والوں کو حقیر سمجھتے ہیں یہ لوگ اسلام کے دعویدار بھی ہیں لیکن اسلام پر چلنے والوں اور اسلامی اعمال اختیار کرنے والوں کو اور اسلامی امور سے نسبت رکھنے والوں کو حقیر جانتے ہیں۔ کہ ان کے کپڑے پھٹے ہیں، رہنے کا گھر کچا ہے، بھوکے پیاسے رہتے ہیں۔ مسجد و مدرسہ سے تعلق رکھنے والے مالداروں کی نظروں میں حقیر ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، اسلام کے سب سے پہلے موذن حضرت بلال (رض) کے نام پر اپنے بچوں کا نام رکھنے کو تیار ہیں لیکن اپنے بچے کو موذن تو کیا بناتے اذان دینے والے کو حقیر جانتے ہیں۔ اور مسجد کی روٹیاں کھانے والے کہہ کر اس کی آبرو گھٹاتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ مسجد کی روٹیاں کھانا حرام کھانے سے کہیں برتر اور بہتر ہیں یہ جو رشوت اور سود لے کر دولت جمع کی ہے اور حرام محکموں میں ملازمت کر کے جو کیش جمع کیا ہے جب آخرت میں و بال بنے گا اور مسجد کا موذن بخشا ہوا جنت میں جائے گا اس وقت اس تکبر اور مالداری کا اور نفرت کرنے کا نتیجہ سامنے آجائے گا۔ مالداری اور غریبی مقبولیت عنداللہ کا سبب نہیں ہے : جیسے مالدار ہونا فضیلت کا اور اللہ کی نزدیکی کا سبب نہیں اسی طرح غریب مسکین ہونا بھی اللہ کی نزدیکی یا فضیلت یا برتری کا سبب نہیں ہے۔ اللہ کی نزدیکی اور اللہ کے ہاں فضیلت اور برتری ایمان اور اعمال صالحہ اور فرائض کی پابندی سے اور گناہوں کو چھوڑنے سے ہے۔ جس طرح بہت سے مال داروں میں تکبر ہے اور اللہ کی یاد سے غافل ہیں۔ فرائض و واجبات کے تارک ہیں اسی طرح بہت سے غریب اور مسکینوں کا بھی یہی حال ہے۔ وہ خواہ مخواہ مالداروں پر حسد کر کے مرے جا رہے ہیں اور بہت سے ان میں سے اللہ تعالیٰ پر اعتراض کرتے ہیں اور کفر کے کلمات کہتے ہیں کہ اللہ نے ان کو دیا اور ہم کو نہ یا۔ ایسی غریبی بھی و بال ہے اور باعث مواخذہ اور باعث عذاب ہے امیر ہو یا غریب سب پر لازم ہے کہ شریعت کے احکام کی پابندی کریں بلند اخلاق اختیار کریں گناہوں سے بچیں متقی بنیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب کو زندگی گزارنے کا ایک طریقہ بتایا ہے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص ایسے شخص کو دیکھے جو مال میں اور شکل و صورت میں اس سے بڑھ کر ہے تو اپنے سے نیچے والے کو بھی دیکھ لے۔ (صحیح مسلم ج ٢ ص ٤٠٧) دنیاوی چیزوں میں اپنے سے نیچے کو دیکھو تاکہ عبرت ہو اور یہ سمجھ میں آئے کہ اللہ نے ہمیں ہزاروں لاکھوں افراد سے بہتر بنایا ہے اور بہت زیادہ دیا ہے اور دین میں اپنے سے اوپر والے کو دیکھو جو اپنے سے زیادہ دیندار ہے۔ جو لوگ اللہ کی یاد میں لگے رہتے ہیں ان کے برابر ہونے بلکہ ان سے آگے بڑھنے کی حرص کرے۔ مساکین صالحین کی فضیلت : آیت شریفہ میں جن مسکینوں کی فضیلت بتائی ان کی تعریف میں فرمایا (یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بالْغَدٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیدُوْنَ وَجْھَہٗ ) ” کہ یہ لوگ صبح شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اور اسی کی رضا مندی کے طالب ہیں۔ “ جو غریب اس صفت سے متصف ہیں ان کو بلاشبہ ایمان اور اعمال صالحہ کی وجہ سے فضیلت حاصل ہے لیکن اعمال کی وجہ سے ہے غریبی کی وجہ سے نہیں۔ ایمان اور اعمال صالحہ ہوں اور غریبی بھی ہو تو قیامت میں اس کا یہ فائدہ پہنچ جائے گا کہ مالداروں سے پہلے جنت میں چلے جائیں گے۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) نے بیان فرمایا کہ میں ایک مرتبہ ضعفاء مہاجرین کے پاس بیٹھ گیا (جن کے پاس مال نہ تھا اور کپڑوں کی اس قدر کمی تھی کہ) ان میں سے بعض بعض کے ذریعہ آپس میں پردہ کرتے تھے۔ (یعنی اس ترتیب سے بیٹھے تھے کہ ایک کی نظر دوسرے کی ران وغیرہ پر نہ پڑے) ایک شخص ان میں سے قرآن مجید پڑھ رہا تھا وہ اسی حال میں تھے کہ سول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آئے آپ قریب میں تشریف لا کر کھڑے ہوگئے آپ کے تشریف لانے پر قرآن پڑھنے والا خاموش ہوگیا۔ آپ نے سلام کیا۔ پھر فرمایا تم کیا کر رہے تھے ہم نے عرض کیا کہ ہم کان لگا کر اللہ کی کتاب کو سن رہے تھے آپ نے فرمایا : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَ مَنْ اُمَّتِیْ مَنْ اُمِرْتُ اَنْ اَصْبَرُ نَفْسِیْ مَعَھُمْ ” کہ سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے میری امت میں ایسے افراد بنا دیئے جن کے ساتھ مجھے جم کر بیٹھنے کا حکم دیا گیا۔ “ اس کے بعد آپ نے اشارہ فرمایا جس پر حاضرین نے حلقہ بنا لیا اور سب کے چہرے آپ کی طرف متوجہ ہوگئے آپ نے فرمایا کہ اے مہاجرین کے مسکینو ! تم اس بات کی خوشخبری قبول کرلو کہ تمہیں قیامت کے دن نور تمام (پورا نور) عطا کیا جائے گا تم مالداروں سے آدھے دن پہلے جنت میں داخل ہو گے اور یہ آدھا دن پانچ سو سال کا ہوگا۔ (رواہ ابو داؤد ‘ ج ٢ ص ١٦٠)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

61 اب تک دعویٰ توحید پر سات عقلی دلیلیں بیان ہوئیں ابآگے منکرین کے انکار کی وجوہ کا سلسلہ شروع ہورہا ہے کہ ایسے واضح عقلی دلائل کے باجود منکرین توحید کا کیوں انکار کرتے ہیں۔ یہ انکار کی پہلی وجہ ہے اور کاف اس میں تشبیہ کے لیے نہیں بلکہ بیان کمال کے لیے ہے۔ لِیَقُوْلُوْا میں لام عاقبت کیلئے ہے۔ اس وجہ کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین جو دولت مند تھے وہ مسلمانوں کو حقیر سمجھتے تھے اور غریب لوگوں کے اسلام کی طرف سبقت کرنے کی وجہ سے ان سے حسد کرتے تھے۔ الکفار الاغنیاء کانوا یحسدون فقراء الصحابۃ (رض) عنھم علی کو نھم سابقین فی الاسلام متسارعین الی قبولہ (روح ج، ص 162) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

53 اور جس طرح ہم نے مئومنین کا ملین کو تنگدستی میں اور منکرین کو فراخی میں رکھا ہے اسی طرح ہم نے ان کے بعض کو بعض کے لئے ذریعہ آزمائش بنادیا ہے اور بعض کو بعض کے ذریعہ آزمائش میں ڈال رکھا ہے یعنی مسلمانوں کو کفار کی وجہ سے اور کفار کو مئومنین کی وجہ سے ایک آزمائش اور ابتلا میں ڈال ہے تاکہ یہ منکر سرمایہ داران مسلمان فقراء کے متعلق یوں کہیں کیا یہی کم مایہ اور بےحقیقت لوگ وہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ ہم سب میں سے اپنے فضل و احسان کے لئے چن لیا یعنی کیا ہم سب میں یہی فقراء اس قابل تھے کہ اللہ نے ان پر احسان کیا اور اپنے فضل سے نوازا اور ہم سب کو نظر انداز کردیا کیا یہ امر واقعہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے شکر گذار بندوں اور حق شناسوں کو خوب جانتا ہے یعنی کون احسان اور فضل کا مستحق ہے اور کون نہیں ہے۔