Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 81

سورة الأنعام

وَ کَیۡفَ اَخَافُ مَاۤ اَشۡرَکۡتُمۡ وَ لَا تَخَافُوۡنَ اَنَّکُمۡ اَشۡرَکۡتُمۡ بِاللّٰہِ مَا لَمۡ یُنَزِّلۡ بِہٖ عَلَیۡکُمۡ سُلۡطٰنًا ؕ فَاَیُّ الۡفَرِیۡقَیۡنِ اَحَقُّ بِالۡاَمۡنِ ۚ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۘ۸۱﴾

And how should I fear what you associate while you do not fear that you have associated with Allah that for which He has not sent down to you any authority? So which of the two parties has more right to security, if you should know?

اور میں ان چیزوں سے کیسے ڈروں جن کو تم نے شریک بنایا ہے حالانکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہرایا ہے جن پر اللہ تعالٰی نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی ، سو ان دو جماعتوں میں سے امن کا زیادہ مستحق کون ہے اگر تم خبر رکھتے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ ... And how should I fear those whom you associate..., means, how should I fear the idols that you worship instead of Allah. ... وَلاَ تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُم بِاللّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا ... while you fear not that you have joined in worship with Allah things for which He has not sent down to you any Sultan. According to Ibn Abbas and others among the Salaf, meaning, proof, Allah said in similar Ayat; أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُواْ لَهُمْ مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ Or have they partners who have instituted for them a religion which Allah has not allowed! (42:21) and, إِنْ هِىَ إِلاَّ أَسْمَأءٌ سَمَّيْتُمُوهَأ أَنتُمْ وَءَابَأوُكُم مَّأ أَنزَلَ اللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَـنٍ They are but names which you have named, you and your fathers, for which Allah has sent down no authority. (53:21) His statement, ... فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالاَمْنِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (So) which of the two parties has more right to be in security! If you but know. means, which of the two parties is on the truth, those who worship Him in Whose Hand is harm and benefit, or those who worship what cannot bring harm or benefit, without authority to justify worshipping them Who among these two parties has more right to be saved from Allah's torment on the Day of Resurrection. Allah said, الَّذِينَ امَنُواْ وَلَمْ يَلْبِسُواْ إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُوْلَـيِكَ لَهُمُ الاَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

81۔ 1 یعنی مومن اور مشرک میں سے ؟ مومن کے پاس تو توحید کے بھرپور دلائل ہیں، جب کہ مشرک کے پاس اللہ کی اتاری ہوئی کوئی دلیل نہیں، صرف اوہام باطلہ ہیں یا دور ازکار تاویلات اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امن اور نجات کا مستحق کون ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٤] معبودوں کی طرف سے سزا کی دھمکی :۔ ان بت پرستوں کے پاس سب سے بڑا ہتھیار یہ تھا کہ جن بتوں کی تم توہین کر رہے ہو وہ خود تم سے نمٹ لیں گے جیسا کہ ان کا اپنا اعتقاد تھا۔ سیدنا ابراہیم نے ان کو یہ جواب دیا کہ اگر تم اللہ سے نہیں ڈرتے جس کی پوری کائنات پر حکمرانی ہے تو پھر تمہارے ان بتوں سے میں کیوں ڈروں جن کو تم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے اور ایسے بےجان پتھر ہیں جو اپنے وجود اور اپنے بقا کے لیے تمہارے محتاج ہیں یہ بھلا میرا یا تمہارا کیا بگاڑ سکتے ہیں یا سنوار سکتے ہیں ؟ دوسری بات یہ ہے کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اس علم حقیقی کی بنا پر کہہ رہا ہوں جو مجھے اللہ کی طرف سے حاصل ہوا ہے لیکن تمہارا ان بتوں کو نفع و نقصان کا مالک و مختار سمجھنا تمہارا اپنا وہم اور قیاس ہے جس کے لیے تمہارے پاس کوئی دلیل موجود نہیں ہے لہذا تم خود ہی سوچ سمجھ لو کہ اللہ کی طرف سے عذاب کا مستحق کون ہوگا اور امن و سلامتی کا مستحق کون ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَكَيْفَ اَخَافُ ۔۔ : یہ اوپر کی آیت میں دوسرے جواب کو مکمل کیا ہے، یعنی میں تمہارے ان معبودوں سے کیوں ڈروں، جب کہ مجھے یقین ہے کہ یہ مجھے نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتے، ڈرنا تو تمہیں چاہیے جو بلا دلیل اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک بنا کر ظلم عظیم کر رہے ہو۔ فَاَيُّ الْفَرِيْقَيْنِ اَحَقُّ بالْاَمْنِ ۚ۔۔ : ہم دونوں میں سے کون امن ( بےخوف ہونے) کا زیادہ حق دار ہے ؟ کیا تم مشرکین، جو ان بتوں کے متعلق محض وہم پرستی کی راہ سے یہ سمجھ رہے ہو کہ شاید یہ نفع و نقصان پہنچا سکتے ہیں، یا ہم خالص توحید پرست، جنھیں یہ یقین و اطمینان حاصل ہے کہ اللہ ہی ہر نفع و نقصان پر قادر ہے اور اس کے سوا دنیا کی کوئی مردہ یا زندہ ہستی ہمارا ذرہ بھر نقصان نہیں کرسکتی۔ اس امت کے کلمہ گو پیر پرست بھی اہل توحید سے کہتے ہیں کہ جو شخص بڑے پیر کی گیا رھویں چھوڑ دے اس کا بیٹا یا بھینس مرجاتی ہے، یا کوئی اور نقصان پہنچ سکتا ہے، تو ان کے لیے بھی یہی جواب ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَكَيْفَ اَخَافُ مَآ اَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُوْنَ اَنَّكُمْ اَشْرَكْتُمْ بِاللہِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِہٖ عَلَيْكُمْ سُلْطٰنًا۝ ٠ۭ فَاَيُّ الْفَرِيْقَيْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ۝ ٠ۚ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۝ ٨١ۘ كيف كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] . ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا سلط السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] ، ( س ل ط ) السلاطۃ اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء/ 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر/ 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء/ 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔ أيا أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء/ 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص/ 28] ( ا ی ی ) ای ۔ جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى } ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں { أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ } ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔ فریق والفَرِيقُ : الجماعة المتفرّقة عن آخرین، قال : وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] ( ف ر ق ) الفریق اور فریق اس جماعت کو کہتے ہیں جو دوسروں سے الگ ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقاً يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتابِ [ آل عمران/ 78] اور اہل کتاب میں بعض ایسے ہیں کہ کتاب تو راہ کو زبان مروڑ مروڑ کر پڑھتے ہیں ۔ أمن أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال/ 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، ( ا م ن ) الامن ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ } ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨١) تو پھر میں ان معبودان باطل سے کیا ڈروں، حالانکہ تم تو اللہ تعالیٰ سے بھی نہیں ڈرتے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم ان کو اپنے معبودان باطل کے انکار پر ڈراتی تھی کہ کہیں یہ تمہیں کسی آفت میں مبتلا نہ کردیں، اسی بنا پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں ان سے کیوں ڈروں، ان دونوں جماعتوں میں سے یعنی میرے اور تمہارے میں سے اپنے معبود کی جانب سے امن کا کون زیادہ مستحق ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨١ (وَکَیْفَ اَخَافُ مَآ اَشْرَکْتُمْ وَلاَ تَخَافُوْنَ اَنَّکُمْ اَشْرَکْتُمْ باللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ عَلَیْکُمْ سُلْطٰنًا ط) ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات میں شراکت کی کوئی سند موجود ہی نہیں۔ نہ عقل اور فطرت میں اس کی کوئی بنیاد ہے نہ کسی آسمانی کتاب میں کسی دوسرے معبود کے لیے کوئی گنجائش ہے۔ (فَاَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ اَحَقُّ بالْاَمْنِج اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ) یعنی ایک شخص موحد ہے ‘ ایک اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ وہ ساری کائنات کا بلا شرکت غیرے مالک ہے ‘ ہر شے اس کے قبضہ قدرت میں ہے ‘ جبکہ دوسرا وہ ہے جو اللہ کو ماننے کے ساتھ ساتھ اس کے اقتدار و اختیار میں بعض دوسری ہستیوں کو بھی شریک سمجھتا ہے ‘ کچھ چھوٹے معبودوں اور دیوی دیوتاؤں کو بھی مانتا ہے۔ تو اب ذرا بتاؤ کہ امن ‘ چین ‘ روحانی اطمینان اور حقیقی سکون قلب کا زیادہ حق دار ان دونوں میں سے کون ہوگا ؟ سوال کرنے کے بعد اس کا جواب بھی خود ہی ارشاد فرمایا :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:81) لم ینزل۔ مضارع نفی حجد بلم۔ واحد مذکر غائب۔ اس نے نہیں نازل کیا۔ اس نے نہیں اتارا۔ یعنی جس کے لئے اس نے تم پر کوئی سند نازل نہیں کی۔ تم کو کوئی اجازت نامہ نہیں دیا۔ الفریقین۔ موحدین کا فریق اور مشرکین کا فریق۔ حضرت ابراہیم اور اس کے پیروکار ایک فریق ۔ مشرکین مخالفین دوسرا فریق۔ بالامن۔ ای امن من العذاب۔ عذاب سے بےخو فی اور اطمینان۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یہ اوپر کی آیت میں دوسرے جواب کا تتمہ ہے یعنی میں تمہارے ان معبودوں سے کیوں ڈروں جبکہ مجھے یقین ہے کہ مجھے کو کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتے، ڈرناتو تمہیں چاہیے جو بےدلیل اللہ کے ساتھ شریک بناکر ظلم عظیم کا ارتکاب کر رہے ہو۔ (کبیر)4 کیا تم مشرکین جو ان بتوں کے متعلق محض وہم پرستی کی راہ سے یہ سمجھ رہے ہو کہ شاید یہ نفع و نقصان پہنچاسکتے ہیں یا ہم خالص توحید پرست جنہیں یہ یقین اراطمینان حاصل ہے کہ اللہ ہی ہر نفع ونْقصان پر قاد رہے اور اس کے سوا دنیان کی کوئی زندہ یا مردہ ہستی ہمارا ذرہ بھر نقصان نہیں کرسکتی اس امت کے کلمہ پیر پرست بھی اہل توحید سے کہتے ہیں کہ جو شخص بڑئے پیر کی گیارہویں چھوڑدے اس کا بیٹا یا بھینس مرجاتی ہے یا کوئی اور نقصان پہنچ کرجاتا ہے تو ان کا بھی یہی جواب ہے جو حضرت ابراہیم نے فرمایا (سلفیہ بحوالہ فتح )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ مطلب یہ کہ ڈرنا چاہیے تم کو پھر مجھ کو الٹا ڈراتے ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : اور ابراہیم (علیہ السلام) کے خطاب کا رد عمل۔ چاہیے تو یہ تھا کہ واضح قرائن دیکھنے اور ٹھوس دلائل سننے کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم سر تسلیم خم کرتی لیکن انھوں نے اسی روش کو اختیار کیا جو ہمیشہ سے منکرین حق اختیار کرتے ہیں۔ چناچہ وہ قیل وقال اور حیلہ سازی سے بڑھ کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ لڑائی، جھگڑے پر اتر آئے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے جھگڑنے کے بجائے فقط اتنا فرمایا کہ کیا تم اللہ تعالیٰ کی ذات یعنی اس کی توحید کے بارے میں مجھ سے جنگ وجدال کرتے ہو ؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت سے سرفراز فرمایا ہے۔ ابتدا ہی سے مشرکوں کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ انبیاء ( علیہ السلام) اور موحدین کو نہ صرف اپنی مادی اور افرادی قوت سے ڈراتے ہیں بلکہ اپنے عقیدہ کو سچ ثابت کرنے اور موحدین کو خوفزدہ کرنے کے لیے یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ اگر تم نے اسی طرح ہمارے معبودوں کی مخالفت جاری رکھی تو وہ تمہیں تہس نہس کردیں گے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ موحد کو اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق کوئی تکلیف پہنچے تو مشرک طعنہ دیتے ہیں کہ یہ ہمارے معبودوں کی گستاخی کا نتیجہ ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی مشرکوں نے یہ کہہ کر ڈرایا کہ عنقریب ہمارے معبود تجھے خوفناک گرفت میں لینے والے ہیں۔ جس کے جواب میں جناب ابراہیم (علیہ السلام) نے دو ٹوک انداز میں فرمایا کہ میں تمہارے معبودان باطل سے کس طرح خوف کھا سکتا ہوں۔ حالانکہ تمہاری حالت یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے سے نہیں ڈرتے جبکہ تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے کا کوئی جواز اور دلیل نہیں۔ عقیدۂ توحید اپنانے اور اس کے تقاضے پورے کرنے سے انسان دنیا و مافیھا کے خوف سے بےخوف، اس کا دل مطمئن اور اپنے آپ میں امن و سکون محسوس کرتا ہے اس کے مقابلہ میں مشرک پتھر سے تراشے ہوئے بتوں اور اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے مزاروں یہاں تک کہ مزارات میں اگنے والے درختوں کے پتوں سے بھی کانپتا ہے۔ اسی بنا پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے سوال کیا کہ بتاؤ کون سے عقیدے کا حامل امن و سکون کا حق دار ہے اگر تم اس حقیقت کو جانتے ہو ؟ جہاں تک تمہاری بےبنیاد دھمکیوں کا تعلق ہے تو ان کی حقیقت میرا رب اچھی طرح جانتا ہے کیونکہ اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور دنیا میں وہی کچھ رونما ہوتا ہے جو میرا رب چاہتا ہے کیا ان دلائل کے ہوتے ہوئے بھی تم توحیدکو ماننے اور نصیحت حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں ہو۔ (مزید مطالعہ کے لیے ہماری کتاب سیرت ابراہیم (علیہ السلام) ملاحظہ فرمائیں۔ ) مسائل ١۔ عقیدۂ توحید راسخ ہو تو بندے کو کسی کا کوئی خوف نہیں رہتا۔ ٢۔ مشرک بزدل ہوتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کو اپنا شریک نہیں ٹھہرایا۔ ٤۔ شرک کرنے والوں کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہوتی۔ ٥۔ عقیدۂ توحید ہی امن و سلامتی کا ضامن ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کا علم پوری کائنات پر محیط ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ وسیع علم والا ہے۔ (البقرۃ : ١١٥) ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٩) ٣۔ ہمارے رب نے ہر چیز کو اپنے علم کے ذریعہ گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ (الاعراف : ٨٩) ٤۔ اللہ تعالیٰ کے احاطۂ علم میں ہر چیز ہے۔ (الطلاق : ١٢) شرک کے لیے کوئی دلیل نہیں : ١۔ جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی غیر کو پکارتا ہے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ (المؤمنون : ١١٧) ٢۔ انھوں نے اللہ کے علاوہ کئی معبود بنالیے ہیں آپ فرمائیں کوئی دلیل لاؤ۔ (الانبیاء : ٢٤) ٣۔ اس کے سوا کوئی اور بھی الٰہ ہے کوئی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو۔ (النمل : ٦٤) ٤۔ اے لوگو ! تمہارے پاس رب کی طرف سے دلیل آچکی ہے۔ (النساء : ١٧٥) ٥۔ وہ اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جن کی عبادت کے لیے کوئی دلیل نازل نہیں کی گئی۔ ( الحج : ٧١) ٦۔ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہوئے نہیں ڈرتے جس کی اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ (الانعام : ٨١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَ کَیْفَ اَخَافُ مَآ اَشْرَکْتُمْ ) میں ان چیزوں سے کیسے ڈروں جن کو تم نے شریک بنایا ہے۔ (وَ لَا تَخَافُوْنَ اَنَّکُمْ اَشْرَکْتُمْ باللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ عَلَیْکُمْ سُلْطٰنًا) (حالانکہ تم نہیں ڈرتے اس بات سے کہ تم نے اللہ کے ساتھ ان چیزوں کو شریک بنا لیا جن کے شریک ہونے کی اللہ نے تم پر کوئی دلیل نازل نہیں کی) تمہارے معبود تو بےقدرت ہیں۔ میں ان کی طرف سے بےخوف ہوں اور پر امن ہوں۔ میں ان سے کیوں ڈروں۔ تم پر لازم ہے کہ معبود حقیقی سے ڈرو جسے نفع و ضرر پہنچانے کی پوری قدرت ہے۔ اور تم نے اس کے جو شریک تجویز کرلیے ہیں یہ سب اپنے پاس سے تجویز کیے ہیں جس کی کوئی سند اور دلیل اللہ کی طرف سے نہیں ہے۔ اپنی اس حرکت بد کی وجہ سے تمہیں معبود حقیقی سے ڈرنا لازم ہے۔ قال صاحب الروح ج ٧ ص ٢٠٢ ای کیف اخاف انا مالیس حیز الخوف اصلاً و انتم لا تخافون غائلۃ ماھو اعظم المخوفات و اھو لھا و ھو اشرا ککم باللہ تعالیٰ الذی فطر السَّمٰوٰت والارض ماھو من جملۃ مخلوقاتہ۔ (فَاَیُّ الْفَرِیْقِیْنِ اَحَقُّ بالْاَمْنِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ) (سو دونوں فریقوں میں کون سا فریق امن کا مستحق ہے اگر تم جانتے ہو) ۔ مطلب یہ ہے کہ میں تو معبود حقیقی کا پر ستار اور عبادت گزار ہوں اور تم نے اس کے ساتھ شریک بنا رکھے ہیں تم غور کرلو کہ لائق امن وامان کون ہے میں ہوں یا تم ہو ؟ مجرم تو تم ہو شرک کرتے ہو اور معبود حقیقی سے نہیں ڈرتے اور مجھے باطل معبودوں سے ڈراتے ہو اپنی صحیح سمجھ سے کام لیتے تو تمہارا علم تمہیں صحیح راہ پر ڈال دیتا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

87 مَا اَشْرَکْتُمْ میں مَا سے معبودان باطلہ مراد ہیں۔ اور صلہ میں عائد محذوف ہے ای ما اشرکتموہ اسی طرح ما لم ینزل میں بھی ما سے معبودان باطلہ مراد ہیں اور بِہٖ میں مضاف محذوف ہے بمعبودیتہ یعنی ڈرنا تو تمہیں چاہئے جو علیم وقدیر اور متصرف و کارساز ہستی کے ساتھ اس کے لاچار بندوں کو شریک بناتے ہو جن کے معبود ہونے پر کوئی دلیل موجود نہیں، میں تمہارے ان معبودان باطلہ سے کیوں ڈروں جو بےبس اور بےاختیار ہیں فای الفریقین احق بالامن اب تم ہی بتاؤ کہ عذاب سے امن و سلامتی کا مستحق کون ہے تم شرک کرنے والے یا میں شرک سے دور رہنے والا اور صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے والا۔ اگلی آیت میں اس سوال کا جواب ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

81 اور جن چیزوں کو تم نے خدا کا شریک ٹھہرا رکھا ہے ان معبودان باطلہ سے میں کس طرح ڈر سکتا ہوں حالانکہ تم کو اس بات سے ڈر نہیں معلوم ہوتا اور تم خوف نہیں کھاتے کہ تم نے ان چیزوں خدا کا شریک قرار دے رکھا ہے جن کے شریک خدائی قرار دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے تم پر کوئی دلیل اور سند نہیں۔ نازل فرمائی اب تم ہی بتائو کہ ان دونوں فریق میں سے یعنی مشرک اور موحد میں سے کون سا فریق امن و اطمینان کا زیادہ حقدار اور مستحق ہے اگر تم کچھ جانتے ہو یعنی اگر استدلال توحید اور ابطال شرک کے دلائل سے کچھ سمجھے ہو تو بتائو کہ محتاج اور بیخبر معبودوں کے پرستار زیادہ مطمئن ہیں یا اس قادر مطلق اور عالم کل کے پرستش کرنے والے زیادہ امن و اطمینان کے مستحق ہیں۔