Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 9

سورة الأنعام

وَ لَوۡ جَعَلۡنٰہُ مَلَکًا لَّجَعَلۡنٰہُ رَجُلًا وَّ لَلَبَسۡنَا عَلَیۡہِمۡ مَّا یَلۡبِسُوۡنَ ﴿۹﴾

And if We had made him an angel, We would have made him [appear as] a man, and We would have covered them with that in which they cover themselves.

اور اگر ہم اس کو فرشتہ تجویز کرتے تو ہم اس کو آدمی ہی بناتے اور ہمارے اس فعل سے پھر ان پر وہی اشکال ہوتا جو اب اشکال کر رہے ہیں

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And had We appointed him an angel, We indeed would have made him a man, and We would have certainly caused them confusion in a matter which they have already covered with confusion. meaning, if We send an angel along with the human Messenger, or if We send an angel as a Messenger to mankind, he would be in the shape of a man so that they would be able to speak to him and benefit from his teachings. In this case, the angel (in the shape of a human) will also cause confusion for them, just as the confusion they caused themselves over accepting humans as Messengers! Allah said, قُل لَوْ كَانَ فِى الاٌّرْضِ مَلَـيِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَيِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَأءِ مَلَكًا رَّسُولاً Say: "If there were on the earth, angels walking about in peace and security, We should certainly have sent down for them from the heaven an angel as a Messenger." (17:95) It is a mercy from Allah to His creation that He sends every type of creation, Messengers from among their kind, so that they are able to call their people to Allah, and their people able to talk to them, ask them and benefit from them. In another Ayah, Allah said; لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُومِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ ءَايَـتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ Indeed Allah conferred a great favor on the believers when He sent among them a Messenger from among themselves, reciting unto them His verses (the Qur'an), and purifying them. (3:164) Ad-Dahhak said that Ibn Abbas said about the Ayah (6:9), "If an angel was sent to them, he would come in the shape of a man. This is because they will not be able to look at the angel due to light." ... وَلَلَبَسْنَا عَلَيْهِم مَّا يَلْبِسُونَ ... and We would have certainly caused them confusion in a matter which they have already covered with confusion. meaning, We would confuse them over their confusion. And Al-Walibi reported Ibn Abbas saying; "We brought doubts around them." Allah's statement, وَلَقَدِ اسْتُهْزِىءَ بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُواْ مِنْهُم مَّا كَانُواْ بِهِ يَسْتَهْزِوُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 یعنی اگر ہم فرشتے ہی کو رسول بنا کر بھیجنے کا فیصلہ کرتے تو ظاہر بات ہے کہ وہ فرشتے کی اصل شکل میں تو انھیں نہیں بھیج سکتا تھا، کیونکہ اس طرح انسان اس سے خوف زدہ ہونے اور قریب و مانوس ہونے کی بجائے، دور بھاگتے اس لئے ناگزیر تھا کہ اسے انسانی شکل میں بھیجا جاتا۔ لیکن تمہارے لیڈر پھر یہی اعتراض اور شبہ پیش کرتے کہ یہ تو انسان ہی ہے، جو اس وقت بھی وہ رسول کی بشریت کے حوالے پیش کر رہے ہیں تو پھر فرشتے کے بھیجنے کا کیا فائدہ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩] پیغمبر کے فرشتہ ہونے پر اعتراضات :۔ فرشتہ نازل کرنے کی دوسری صورت یہ تھی کہ وہ انسانی شکل میں آتا۔ جیسے جبریل آپ کے پاس دحیہ کلبی کی شکل میں کبھی کبھار آتے تھے۔ یا سیدنا ابراہیم سیدنا لوط اور سیدنا داؤد کے پاس انسانی شکل میں آئے تھے۔ اور اگر فرشتہ پیغمبر بن کر انسانی شکل میں آتا تو اس پر بھی وہ تمام اعتراضات وارد ہوسکتے تھے جو رسول اللہ پر وارد ہوتے رہے۔ پھر یہ ایک الگ اعتراض پیدا ہوجاتا کہ جو شخص اپنے آپ کو فرشتہ اور پیغمبر کہہ رہا ہے آیا یہ فی الواقع فرشتہ ہے بھی یا نہیں ؟ یا کوئی جادوگر انسان ہے جو ہمیں چکمہ دے رہا ہے گویا ان کا وہ اشتباہ پھر بھی بدستور باقی رہتا جو انہیں اب پڑا ہوا ہے نیز اگر کوئی رسول فرشتہ ہو تو اتمام حجت کا معاملہ ہی ختم ہوجاتا۔ ایسے رسول پر ایمان لانے والے اپنی بےعملی کے جواز کے لیے یہ معقول بہانہ پیش کرسکتے تھے کہ رسول تو فرشتہ ہے اور ہم بشر ہیں لہذا ہم اس کی پورے طور پر اتباع کیسے کرسکتے ہیں ؟ اور یہی رسول کے بشر ہونے میں سب سے بڑی حکمت ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْ جَعَلْنٰهُ مَلَكًا۔۔ : یہ کفار کے اعتراض کا دوسرا جواب ہے، یعنی ان کے مطالبے کو مانتے ہوئے ہم فرشتہ اتارنا منظور کر بھی لیتے تو وہ بھی انسانی صورت میں آتا، کیونکہ یہ اسے اس کی اصل شکل میں تو دیکھ ہی نہیں سکتے اور جب وہ آدمی کی شکل میں ہوتا تو پھر یہی اعتراض کرتے جو اب کر رہے ہیں۔ اس وقت کے کافر کسی انسان کو نبی ماننے کے لیے تیار نہیں تھے، کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی قوم سے تھے، ان کے سامنے جوان ہوئے اور انھی میں زندگی گزاری۔ اب کچھ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبی تو مانتے ہیں، مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انسان ماننے کے لیے تیار نہیں۔ گویا ایک ہی عقیدے کی دو شکلیں ہیں اور دونوں باطل ہیں، حالانکہ اللہ نے اپنا احسان جتلایا ہے کہ میں نے انسانوں میں انھی کے اندر سے رسول بھیجا ہے۔ دیکھیے سورة آل عمران (١٦٤) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَوْ جَعَلْنٰہُ مَلَكًا لَّجَعَلْنٰہُ رَجُلًا وَّلَـلَبَسْـنَا عَلَيْہِمْ مَّا يَلْبِسُوْنَ۝ ٩ رجل الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا [ الأنعام/ 9] ( ر ج ل ) الرجل کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام/ 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ لبس لَبِسَ الثّوب : استتر به، وأَلْبَسَهُ غيره، ومنه : يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف/ 31] واللِّبَاسُ واللَّبُوسُ واللَّبْسُ ما يلبس . قال تعالی: قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] وجعل اللّباس لكلّ ما يغطّي من الإنسان عن قبیح، فجعل الزّوج لزوجه لباسا من حيث إنه يمنعها ويصدّها عن تعاطي قبیح . قال تعالی: هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة/ 187] فسمّاهنّ لباسا کما سمّاها الشاعر إزارا في قوله : فدی لک من أخي ثقة إزاري«1» وجعل التّقوی لِبَاساً علی طریق التّمثیل والتّشبيه، قال تعالی: وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف/ 26] وقوله : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء/ 80] يعني به : الدِّرْعَ ، وقوله : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل/ 112] ، وجعل الجوع والخوف لباسا علی التّجسیم والتشبيه تصویرا له، وذلک بحسب ما يقولون : تدرّع فلان الفقر، ولَبِسَ الجوعَ ، ( ل ب س ) لبس الثوب ۔ کے معنی کپڑا پہننے کے ہیں اور البسہ کے معنی دوسرے کو پہنانا کے ۔ قرآن میں ہے : يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف/ 31] اور وہ سبز کپڑے پہنا کریں گے ۔ اللباس واللبوس واللبس وہ چیز جو پہنی جائے ۔ قرآن میں ہے : قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف/ 26] ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈاھانپے ۔ اور لباس کا لفظ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے ۔ جو انسان کے برے کاموں پر پردہ ڈال سکے ۔ چناچہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کو قبائح کے ارتکاب سے روکتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة/ 187] وہ تمہاری پوشاک اور تم ان کی پوشاک ہو ۔ چناچہ اسی معنی میں شاعرنے اپنی بیوی کو ازار کہا ہے ۔ اے میرے قابل اعتماد بھائی پر میری ازار یعنی بیوی قربان ہو ۔ اور تمثیل و تشبیہ کے طور پر تقوی کو بھی لباس قرار دیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف/ 26] اور جو پر ہیزگاری کا لباس ہے ۔ اور آیت کریمہ : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء/ 80] اور ہم نے تمہارے لئے ان کو ایک طرح کا لباس بنانا ۔۔۔۔۔ میں لبوس سے زر ہیں مراد ہیں اور آیت کریمہ : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل/ 112] تو خدا نے ان کے اعمال کے سبب بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر ناشکری کا مزہ چکھا دیا ۔ میں جوں یعنی بھوک اور خوف کی تصویر کھینچے کے لئے اس لباس کے ساتھ تشبیہ دی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩ (وَلَوْ جَعَلْنٰہُ مَلَکًا لَّجَعَلْنٰہُ رَجُلاً وَّلَلَبَسْنَا عَلَیْہِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ ) اگر بجائے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی فرشتے کو نبی بنا کر بھیجا جاتا تو اسے بھی ہم نے انسانی شکل میں ہی بھیجنا تھا ‘ کیونکہ بھیجنا جو انسانوں کے لیے تھا۔ اس طرح جو التباس انہیں اس وقت ہو رہا ہے وہ التباس اس وقت بھی ہوجاتا۔ ہاں اگر فرشتوں میں بھیجنا ہوتا تو ضرور کوئی فرشتہ ہی بھیجتے۔ حدیث جبرائیل ( علیہ السلام) کے حوالے سے ہمیں معلوم ہے کہ حضرت جبرائیل ( علیہ السلام) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس انسانی شکل میں آئے تھے ‘ پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی پتا نہ چلا کہ یہ جبرائیل ( علیہ السلام) ہیں ‘ وہ انہیں انسان ہی سمجھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

7. This is the second point in response to the unbelievers' objection. One possible form in which the angel could have appeared is in its true, non-terrestrial form. It has already been pointed out that the time for this has not arrived. Alternatively, angels could have come down in human form. But this would have left the unbelievers facing the same difficulty as they faced with regard to whether the Prophet Muhammad (peace be on him) had been designated by God or not.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :7 یہ ان کے اعتراض کا دوسرا جواب ہے ۔ فرشتے کے آنے کی پہلی صورت یہ ہو سکتی تھی کہ وہ لوگوں کے سامنے اپنی اصلی غیبی صورت میں ظاہر ہوتا ۔ لیکن اوپر بتا دیا گیا کہ ابھی اس کا وقت نہیں آیا ۔ اب دوسری صورت یہ باقی رہ گئی کہ وہ انسانی صورت میں آئے ۔ اس کے متعلق فرمایا جا رہا ہے کہ اگر وہ انسانی صورت میں آئے تو اس کے مامور من اللہ ہونے میں بھی تم کو وہی اشتباہ پیش آئے گا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مامور من اللہ ہونے میں پیش آرہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4: یعنی اگر کسی فرشتے ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجتے، یا پیغمبر کی تصدیق کے لیے لوگوں کے سامنے بھیجتے تب بھی اس کو انسانی شکل ہی میں بھیجنا پڑتا، کیونکہ کسی انسان میں یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ کسی فرشتے کو دیکھ سکے۔ اس صورت میں پھر یہ کافر لوگ وہی اعتراض دہراتے کہ یہ تو ہم جیسا ہی آدمی ہے اس کو ہم پیغمبر کیسے مان لیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:9) لوجعلناہ۔ اگر ہم بناتے کسی فرشتہ کو نبی ہ ضمیر واحد مذکر نبی (محذوف) کے لئے ہے۔ لجعلناہ رجلا۔ تو ہم اس کو ضرور انسان کی شکل میں بناتے۔ اس میں ہ ضمیر ملکا کی طرف راجع ہے۔ انسانی شکل میں بنانے کی ضرورت اس واسطے کہ فرشتوں کی اصلی صورت غیر مرتی ہے جیسے مادی آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ للبسنا علیہم۔ لبس علیہ (ضرب) کسی پر معاملہ کو مشتبہ یا مخلوط کردینا۔ ہم ان کے لئے حقیقت کو مشکوک کردیتے۔ (یا خود ہی پھر بات مشکوک ہوجاتی کیونکہ جب فرشتہ انسان کی شکل میں آتا ایک مزید شک یہ پیدا ہوجاتا کہ یہ حقیقۃً فرشتہ ہے یا پھر انسان ہی ہے) مایلبسون۔ ای مایلبسون علی انفسھم۔ جس شک میں انہوں نے خود اپنے آپ کو ڈال رکھا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یہ ان کفار کے اعترا کا دوسرا جواب ہے یعنی اگر ان کے مطالبہ کو مانتے ہوئے ہم فرشتہ اتارنا منظو بھی کرلیتے تو وہ بھی انسانی صورت میں ہی آتا کیونکہ اس کی اصلی شکل میں تو یہ اسے دیکھ ہی نہیں سکتے اور جب وہ آدمی کی شکل میں آتا ہے تو یہ پھر یہی شبہ پیش کرتے جو اب پیش کررہے ہیں (رازی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی اس فرشتہ کو بشر سمجھ کر پھر وہی اعتراض کرتے غرض نزول ملک سے ان کا نفع تو کچھ نہ ہوتا کیونکہ ان کا شباہ بحالہ باقی رہتا اور انکاضرور ہوتا کہ ہلاک کردیے جاتے اس لیے ہم نے اس طرح نازل نہیں کیا خلاصہ یہ کہ غایت عناد سے ایسی باتیں کرتے ہیں جو ہدایت وضوح حق کا طریق نہیں اور جو اس کا طریق ہے کہ آیات و معجزات موجودہ میں غور کرنا اس سے کام نہیں لیتے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَ لَوْ جَعَلْنٰہُ مَلَکًا لَّجَعَلْنٰہُ رَجُلًا وَّ لَلَبَسْنَا عَلَیْھِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ ) اگر ہم اس کو فرشتہ بناتے تو اس کو آدمی ہی بناتے اور ہم ان پر شبہ ڈال دیتے جس شبہ میں وہ اب پڑئے ہوئے ہیں مطلب یہ ہے کہ اگر ہم فرشتہ کو نبی بنا کر بھیجتے تو آدمی کی صورت میں آتا کیونکہ انسانوں کو اتنی طاقت اور تاب نہیں ہے کہ وہ فرشتے کو اس کی اصلی صورت میں دیکھ سکیں۔ جب اس کی صورت انسانی صورت ہی ہوتی تو یہ لوگ پھر معاندانہ باتیں کرتے اور کہتے کیا معلوم یہ فرشتہ ہے، جو باتیں اب کہہ رہے ہیں کہ یہ صاحب جو نبوت کا دعویٰ کر رہے ہیں ہمارے جیسے آدمی ہیں فرشتہ کو انسانی صورت میں دیکھ کر ایسی باتیں کرتے اور یہی کہہ دیتے کہ یہ تو ہمارے جیسا ہے اس میں کون سے خصوصیت ہے جو نبی بنادیا گیا۔ لہٰذا فرشتہ کو رسول بنا کر آنے کی صورت میں بھی لوگوں جواب شبہ ہو رہا ہے، پھر بھی باقی رہتا، اور حقیقت میں ان لوگوں کے یہ بہانے ہیں کہ ایسا ہوتا تو ہم مان لیتے، یہ حق کے طالب نہیں اگر حق کے طالب ہوتے تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات دیکھ کر جو بشر ہیں اور انہیں میں سے ہیں ایمان لے آتے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

9 اور اگر ہم بجائے بشر کے کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتے تو ہم اس کو بہرحال آدمی ہی کی شکل و صورت دے کر بھیجتے کیونکہ فرشتے کو اصلی حالت میں دیکھنا تو ان کی طاقت سے باہر ہوتا اور جب ہم اس کو آدمی کی شکل دیتے تو ہمارے ایسا کرنے سے یہ پھر انہی شبہات میں مبتلا ہوجاتے جن میں وہ اب مبتلا ہیں اور جن شبہات میں اب پھنسے ہوئے ہیں وہی اشکال ان کو اس وقت بھی درپیش ہوتا یعنی فرشتہ کو اس کی اصل صورت میں دیکھ نہ سکتے لا محالہ اس کو انسان کی صورت شکل دے کر بھیجتے تو پھر یہی کہتے کہ ہمارے سمجھانے کو بشر کیوں آیا فرشتہ کیوں نہیں آیا۔