Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 97

سورة الأنعام

وَ ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ لَکُمُ النُّجُوۡمَ لِتَہۡتَدُوۡا بِہَا فِیۡ ظُلُمٰتِ الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ ؕ قَدۡ فَصَّلۡنَا الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ ﴿۹۷﴾

And it is He who placed for you the stars that you may be guided by them through the darknesses of the land and sea. We have detailed the signs for a people who know.

اور وہ ایسا ہے جس نے تمہارے لئے ستاروں کو پیدا کیا تاکہ تم ان کے ذریعہ سے اندھیروں میں خشکی میں اور دریا میں راستہ معلوم کر سکو بیشک ہم نے دلائل خوب کھول کھول کر بیان کر دیئے ان لوگوں کے لئے جو خبر رکھتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُواْ بِهَا فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ... It is He Who has set the stars for you, so that you may guide your course with their help through the darkness of the land and the sea. Some of the Salaf said; Whoever believes in other than three things about these stars, then he has made a mistake, and lied against Allah. Indeed Al... lah made them as decorations for the heavens, and to shoot at the Shayatin, and for directions in the dark recesses of the land and sea. Then, Allah said, ... قَدْ فَصَّلْنَا الايَاتِ ... We have explained in detail Our Ayat, meaning, We made them clear and plain, ... لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ for people who know. who have sound minds and are able to recognize the truth and avoid falsehood.   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

97۔ 1 ستاروں کا یہاں یہ ایک فائدہ اور مقصد بیان کیا گیا ہے، ان کے دو مقصد اور ہیں جو دوسرے مقام پر بیان کئے گئے ہیں۔ آسمانوں کی زینت اور شیطانوں کی مرمت۔ رجو ما للشیطین۔ یعنی شیطان آسمان پر جانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ان پر شعلہ بن کر گرتے ہی۔ بعض علماء کا قول ہے۔ من اعتقد فی ہذاہ النجوم غیر ثلاث فق... د اخطاء وکذب علی اللہ ان تینوں باتوں کے علاوہ ان ستاروں کے بارے میں اگر کوئی شخص کوئی اور عقیدہ رکھتا ہے تو وہ غلطی پر ہے اور اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے ملک میں جو علم نجوم کا چرچا ہے، جس میں ستاروں کے ذریعے سے مستقبل کے حالات اور انسانی زندگی یا کائنات میں ان کے اثرات بتانے کا دعوٰی کیا جاتا ہے وہ بےبنیاد ہے اور شریعت کے خلاف بھی۔ چناچہ ایک حدیث میں اسے جادو ہی کا ایک شعبہ بتلایا گیا ہے۔ من اقتبس علماء من النجوم اقتبس شعبۃ من السحر زاد ما زاد ( حسنہ الالبانی صحیح ابی داؤد)  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠] سورج اور چاند کے علاوہ اللہ نے ستارے بھی پیدا فرمائے ہیں جو تاریک راتوں میں جب چاند بھی غائب ہوتا ہے تو کچھ نہ کچھ روشنی پہنچاتے رہتے ہیں نیز ان کی چال میں بھی چونکہ ایک ترتیب ہے لہذا رات کی تاریکی میں ان کی چال سے یہ بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ رات کا کتنا حصہ گزر چکا ہے اور کتنا باقی ہے سمت ب... ھی معلوم کی جاسکتی ہے کہ اس وقت ہم کونسی سمت میں سفر کر رہے ہیں اور اس طرح راستہ کا بھی تعین ہوسکتا ہے اور یہ فوائد جیسے خشکی پر حاصل ہوتے ہیں ویسے ہی سمندری سفر میں بھی حاصل ہوتے ہیں۔ یہ ستاروں کی پیدائش اور ان کی مقررہ چال اور ان سے انسان کے لیے ایسے فوائد کا حصول بھی اللہ کی ذات اور اس کی قدرت کی واضح نشانی ہے کیونکہ اس کے بغیر نہ کوئی ستارے پیدا کرسکتا ہے اور نہ ہی مقرر چال کا پابند بنا سکتا ہے کہ ان سے مذکور فوائد حاصل ہوں اور جو لوگ غور و فکر کرنے والے ہیں انہیں ان سے اللہ کی معرفت بھی حاصل ہوجاتی ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَهُوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ النُّجُوْمَ ۔ : یہ ستاروں کا ایک فائدہ ہے، دوسری آیات میں تاروں کو آسمان کی زینت اور شیطانوں کے لیے سنگ باری ( رجوم) کا سامان فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة صافات (٦، ٧) اور سورة ملک (٥) اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان میں اور کتنے فوائد ہیں، مگر ان کے ذریعے سے غیب معلوم ہونے یا ان...  کا قدرت کے کارخانے میں کوئی اختیار ہونے کا عقیدہ صاف گمراہی اور شرک ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں بار بار علم اور قدرت کا مالک صرف ایک اللہ کو قرار دیا گیا ہے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the third verse (97), it was said: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِهَا فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ‌ وَالْبَحْرِ‌ (And He is the one who made for you the stars, so that you may be guided by them in &darknesses& of the land and the sea). In other words, it is being said here that there are other stars too, besides the sun and the moon, which are no less unique a manifest... ation of the perfect power of Almighty Allah. Out of many considerations of Divine wisdom, one immediate benefit they provide for human beings travelling on high seas or open lands is that they can chart their course in the darkness of nights when it is not easy to do so. Experience bears out that even in the days of highly sophisticated guiding systems, there are alternative situations when the guidance from the position of stars cannot be totally ignored. The point made in this verse is that one should rise above heed¬lessness and shortsightedness and see that these stars are also there observing the command of their maker and mover. They are there nei¬ther by themselves nor to be there nor to keep doing what they do for ever. Those who have pinned their sights on them and have ignored to look at their maker are terribly short-sighted, and ominously deceived indeed. After that, it was said: قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (We have elaborated the signs for people who know). The statement clearly indicates that those who do not recognize the presence and power of Allah Ta` ala even from such open signs are unaware and unconscious.  Show more

تیسری آیت میں ارشاد ہے : وَهُوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ ، یعنی آفتاب و ماہتاب کے علاوہ دوسرے ستارے بھی اللہ جل شانہ کی قدرت کاملہ کے خاص مظاہر ہیں، اور ان کے پیدا کرنے میں ہزاروں حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ بھی ہے کہ انسان اپنے بحری اور بری سفروں میں جہاں رات کی تاریکی کے وقت سمتوں کا پتہ لگانا بھی آس... ان نہیں رہتا، ان ستاروں کے ذریعہ اپنے راستے متعین کرسکتا ہے، تجربہ شاہد ہے کہ آج اس مشینری کے زمانہ میں بھی انسان ستاروں کی ہدایت سے بےنیاز نہیں ہے۔ اس آیت میں بھی انسان کی اس غفلت اور کوتاہ نظری پر تنبیہ کی گئی ہے کہ یہ ستارے بھی کسی بنانے والے اور چلانے والے کے تابع فرمان چل رہے ہیں، نہ اپنے وجود میں مستقل ہیں نہ اپنی بقاء و عمل میں، جو لوگ صرف انہی پر اپنی نظریں جما کر بیٹھ رہے، اور ان کے بنانے والے کی طرف نظر نہ کی وہ سخت کوتاہ نظر اور فریب خوردہ ہیں آناں کہ بجز روے تو جائے نگرانند کوتہ نظر انندچہ کو تہ نظر انند اس کے بعد ارشاد فرمایا : قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ یعنی ہم نے دلائل قدرت خوب کھول کھول کر بیان کردیئے، ان لوگوں کے لئے جو خبر رکھتے ہیں، اس میں اشارہ فرما دیا کہ جو لوگ ان کھلی کھلی نشانیوں سے بھی اللہ تعالیٰ کو نہیں پہچانتے وہ بیخبر اور بےہوش ہیں۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَہُوَالَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ النُّجُوْمَ لِتَہْتَدُوْا بِہَا فِيْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۝ ٠ۭ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ۝ ٩٧ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل و... صنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ نجم أصل النَّجْم : الكوكب الطالع، وجمعه : نُجُومٌ ، ونَجَمَ : طَلَعَ ، نُجُوماً ونَجْماً ، فصار النَّجْمُ مرّة اسما، ومرّة مصدرا، فَالنُّجُوم مرّة اسما کالقلُوب والجُيُوب، ومرّة مصدرا کالطُّلوع والغروب، ومنه شُبِّهَ به طلوعُ النّبات، والرّأي، فقیل : نَجَمَ النَّبْت والقَرْن، ونَجَمَ لي رأي نَجْما ونُجُوماً ، ونَجَمَ فلانٌ علی السّلطان : صار عاصیا، ونَجَّمْتُ المالَ عليه : إذا وَزَّعْتُهُ ، كأنّك فرضت أن يدفع عند طلوع کلّ نَجْمٍ نصیباً ، ثم صار متعارفا في تقدیر دفعه بأيّ شيء قَدَّرْتَ ذلك . قال تعالی: وَعَلاماتٍ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ [ النحل/ 16] ، وقال : فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ [ الصافات/ 88] أي : في علم النُّجُوم، وقوله : وَالنَّجْمِ إِذا هَوى[ النجم/ 1] ، قيل : أراد به الكوكب، وإنما خصّ الهُوِيَّ دون الطّلوع، فإنّ لفظة النَّجْم تدلّ علی طلوعه، وقیل : أراد بِالنَّجْم الثُّرَيَّا، والعرب إذا أطلقتْ لفظَ النَّجم قصدتْ به الثُّرَيَّا . نحو : طلع النَّجْمُ غُدَيَّه ... وابْتَغَى الرَّاعِي شُكَيَّه «1» وقیل : أراد بذلک القرآن المُنَجَّم المنزَّل قَدْراً فَقَدْراً ، ويعني بقوله : هَوى نزولَهُ ، وعلی هذا قوله : فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] فقد فُسِّرَ علی الوجهين، والتَّنَجُّم : الحکم بالنّجوم، وقوله تعالی: وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدانِ [ الرحمن/ 6] فَالنَّجْمُ : ما لا ساق له من النّبات، وقیل : أراد الکواكبَ. ( ن ج م ) النجم اصل میں طلوع ہونے ولاے ستارے کو کہتے ہیں اس کی جمع نجوم آتی ہے ۔ اور نجم ( ن ) نجوما ونجاما کے معنی طلوع ہونے کے ہیں نجم کا لفظ کبھی اسم ہوتا ہے اور کبھی مصدر اسی طرح نجوم کا لفظ کبھی قلوب وجیوب کی طرح جمع ہوتا ہے اور کبھی طلوع و غروب کی طرح مصدر اور تشبیہ کے طور پر سبزہ کے اگنے اور کسی رائے کے ظاہر ہونے پر بھی نجم النبت والقرن ونجم لی رای نجما کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ نجم فلان علی السلطان بادشاہ سے لغایت کرنا نجمت المال علیہ اس کے اصل منعی تو ستاروں کے طلوع کے لحاظ سے قرض کی قسطیں مقرر کرنے کے ہیں ۔ مثلا فلاں ستارے کے طلوع پر مال کی اتنی قسط ادا کرتا رہوں گا ۔ مگر عرف میں لطلق اقساط مقرر کرنے پر بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ [ النحل/ 16] اور لوگ ستاروں سے بھی رستے معلوم کرتے ہیں ۔ فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ [ الصافات/ 88] تب انہوں نے ستاروں کی طرف ایک نظر کی ۔ یعنی علم نجوم سے حساب نکالا ۔ اور آیت کریمہ ؛ ۔ وَالنَّجْمِ إِذا هَوى[ النجم/ 1] تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نجم سے مراد ستارہ ہے اور طلع کی بجائے ھوی کا لفظ لانے کی وجہ یہ ہے کہ طلوع کے معنی پر تو لفظ نجم ہی دلالت کر رہا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ جنم سے مراد ثریا یعنی پر دین ہے کیونکہ اہل عرب جب مطلق النجم کا لفظ بولتے ہیں تو پر دین ہی مراد ہے جیسا کہ مقولہ ہے طلع النجم غد یہ وابتغی الراعی سکیہ صبح کا ستارہ طلوع ہوا اور چر واہے نے اپنا مشکیزہ سنبھالا ۔ بعض نے کہا ہے کہ آیت مذکورہ میں النجم سے مراد نجوم القرآن ہیں ۔ کیونکہ وہ بھی تد ریجا معین مقدار میں نازل ہوتا رہا ہے اور ھوی سے اس کا نزول مراد ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ میں بھی مواقع النجوم کی دو طرح تفسیر بیان کی گئی ہے یعنی بعض نے مواقع النجوم سے مراد ستاروں کے منازل لئے ہیں اور بعض نے نجوم القرآن مراد لئے ہیں ۔ التنجم علم نجوم کے حساب سے کوئی پیش گوئی کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدانِ [ الرحمن/ 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدے کر رہے ہیں ۔ میں نجم سے بےتنہ نباتات یعنی جڑی بوٹیاں مراد ہیں اور بعض نے ستارے مراد لئے ہیں ۔ اهْتِدَاءُ يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] ، الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو ظلم) تاریکی) الظُّلْمَةُ : عدمُ النّور، وجمعها : ظُلُمَاتٌ. قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] ، ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] ، وقال تعالی: أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل/ 63] ، وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام/ 1] ، ويعبّر بها عن الجهل والشّرک والفسق، كما يعبّر بالنّور عن أضدادها . قال اللہ تعالی: يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة/ 257] ، أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم/ 5] ( ظ ل م ) الظلمۃ ۔ کے معنی میں روشنی کا معدوم ہونا اس کی جمع ظلمات ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍ [ النور/ 40] ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے ) جیسے دریائے عشق میں اندھیرے ۔ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور/ 40] ( غرض ) اندھیرے ہی اندھیرے ہوں ایک پر ایک چھایا ہوا ۔ أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُماتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ النمل/ 63] بتاؤ برو بحری کی تاریکیوں میں تمہاری کون رہنمائی کرتا ہے ۔ وَجَعَلَ الظُّلُماتِ وَالنُّورَ [ الأنعام/ 1] اور تاریکیاں اور روشنی بنائی ۔ اور کبھی ظلمۃ کا لفظ بول کر جہالت شرک اور فسق وفجور کے معنی مراد لئے جاتے ہیں جس طرح کہ نور کا لفظ ان کے اضداد یعنی علم وایمان اور عمل صالح پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [ البقرة/ 257] ان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاتا ہے ۔ أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ [إبراهيم/ 5] کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ تفصیل : ما فيه قطع الحکم، وحکم فَيْصَلٌ ، ولسان مِفْصَلٌ. قال : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء/ 12] ، الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود/ 1] ( ف ص ل ) الفصل التفصیل واضح کردینا کھولکر بیان کردینا چناچہ فرمایا : وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْناهُ تَفْصِيلًا[ الإسراء/ 12] اور ہم نے ہر چیز بخوبی ) تفصیل کردی ہے ۔ اور آیت کریمہ : الر كِتابٌ أُحْكِمَتْ آياتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ [هود/ 1] یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم و خیبر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہیں ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11]  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٧) اور جب تم خشکی یا تری میں سفر کرو تو اس نے تمہاری آسانی کے لیے تاکہ تم پریشان کن اور تاریک راستہ معلوم کرسکو، ستاروں کو پیدا کیا ہے، ہم نے قرآن اور دلائل توحید مومنین کے لیے بیان کیے ہیں جو اس بات کا کامل یقین رکھتے ہیں کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٧ (وَہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ النُّجُوْمَ لِتَہْتَدُوْا بِہَا فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ط) اندھیری راتوں میں قافلے چلتے تھے تو وہ ستاروں سے سمت متعین کر کے چلتے تھے۔ اسی طرح سمندر میں جہاز رانی کے لیے بھی ستاروں کی مدد سے ہی رخ متعین کیا جاتا تھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

64. By 'signs' are meant all that support the proposition that there is only one God, that is, no one has either the attributes of God or any share in His authority or can rightfully claim any of the rights which belong exclusively to Him. But the ignorant cannot benefit from these signs, which are scattered all around, in order to arrive at an understanding of the Truth. Only those who observe th... e phenomena of the universe in a careful and systematic manner, and do so with a correct perspective, can truly benefit from these signs.  Show more

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :64 یعنی اس حقیقت کی نشانیاں کہ خدا صرف ایک ہے ، کوئی دوسرا نہ خدائی کی صفات رکھتا ہے ، نہ خدائی کے اختیارات میں حصہ دار ہے ، اور نہ خدائی کے حقوق میں سے کسی حق کا مستحق ہے ۔ مگر ان نشانیوں اور علامتوں سے حقیقت تک پہنچنا جاہلوں کے بس کی بات نہیں ، اس دولت سے بہرہ ور...  صرف وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو علمی طریق پر آثار کائنات کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:97) لقوم یعلمون۔ اہل دانش و اہل علم کے لئے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یہ تاروں کا ایک فائدہ ہے دوسری آیت میں تاروں کو آسمان کے لے زینت اور شیطان کے لیے سنگساری (رجوم) کا سامان فرمایا ہے (دیکھئے سورت الصافات آیت 16 سورت ملک بعض سلف کا قول ہے کہ جو شخص ان تین فائدوں کے علاوہ کواکب کے متعلق اور کسی قسم کا عقیدہ رکھتا ہے وہ غلطی پر ہے اور اللہ تعالیٰ پر بہتان بابدھتا ... ہے۔ (ابن کثیر )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : تخلیق انسان سے توحید کی دلیل۔ ” اور وہی ہے جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا، پھر اس کا ایک ٹھکانا ہے اور ایک سونپے جانے کی جگہ ہے۔ ہم نے گہری سوچ رکھنے والوں کے لیے آیات کو کھول کر بیان کیا ہے۔ “ انسان ایک نطفہ سے پیدا ہوتا ہے۔ جس کی بنیاد ایک خلیہ ہے جو انسان کی پیدائش کی اصل...  بنتا ہے مرد کی صلب کے اندر ایک ٹھکانے پر ہوتا ہے، پھر اس کا مستقر عورت کا رحم ہوتا ہے اس کے بعد زندگی نشو و نما اور پھیلاؤ حاصل کرتی ہے۔ جب تک اللہ کے حکم سے روئے زمین پر انسانی حیات موجود رہے گی یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ حیات کو سمجھنے کے لیے فقہ گہرائی پر اترنا، غور و فکر کرنا ضروری ہے۔ جتنی بات انسان کے سمجھنے کی ہے اور اس کے لیے ضروری یا مفید ہے وہ اللہ تعالیٰ نے کھول کر بیان فرما دی ہے۔ جہاں سے عالم غیب کی حدود شروع ہوتی ہیں وہاں انسان کا کوئی عمل دخل نہیں۔ نفس واحدہ سے حیات کا نکلنا اور پھر ایک طویل سلسلہ قائم ہوجانا۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور صفت تخلیق پر دلالت کرتا ہے۔ جسے سوچ کر انسان اللہ کی طرف گامزن ہوسکتا ہے۔ مذکر اور مؤنث کی ایک متناسب تعداد ہر وقت دنیا میں موجود رہتی ہے تاکہ توالد و تناسل کا سلسلہ قائم رہ سکے اور ایک مقرر وقت تک دنیا کا سلسلہ چل سکے۔ اس موضوع پر مفصل گفتگو کی گنجائش نہیں۔ صرف مذکر یا مؤنث کے نطفے کی پیدائش کی کیفیت اور اس کے متعلق بعض باتوں پر مختصراً کلام کرنا ضروری ہے تاکہ پتہ چل سکے کہ ربانی تقسیم سے کس طرح یہ تذکیر و تانیث کا سلسلہ قائم رہتا ہے۔ جو حیات کے قیام و استمرار کا ذریعہ ہے۔ نر و مادہ کا تناسب و توازن : اللہ تعالیٰ علیم و قدیر کی تقدیر سے نر و مادہ کے کروموسوم باہم ملتے اور مذکر یا مؤنث بچے کی پیدائش کا سبب بنتے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک غیبی تدبیر ہے۔ جس میں اللہ کے سوا کسی کا ہاتھ کار فرما نہیں۔ اللہ تعالیٰ کبھی مذکر اور کبھی مونث یا صرف مذکر یا صرف مؤنث پیدا فرماتا ہے۔ یہ اس توازن و تناسب کو برقرار رکھتا ہے جو زمین پر توالد و تناسل کے لیے ضروری ہے۔ اس سے انسانیت میں انتشار نہیں پڑتا۔ کوئی شخص یہ بھی سوچ سکتا تھا کہ صرف نسل کی بقاء و کثرت کے لیے تو چند نروں کا وجود کافی ہوسکتا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ توازن و تناسب کیوں قائم فرمایا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حیوانات میں تو واقعی ایسا ممکن اور درست تھا مگر نسل انسانی میں صرف پیدائش کافی نہ تھی۔ بلکہ انسانی نشو و نما اور تربیت اولاد کے لیے ضروری تھا کہ بچے ایک خاندان میں والدین کے زیر سایہ پیدا ہوں اور نشو و نما پائیں۔ صرف اسی صورت میں زمین پر انسانیت برقرار رہ سکتی تھی۔ پس قضاء و قدر خداوندی کا یہ فیصلہ ہوا کہ نر و مادہ میں عدد کا تناسب بھی قائم رکھا جائے۔ حیوانات میں یہ ضروری نہ تھا لہٰذا وہاں پر اس تعداد اور توازن کا قائم رکھنا لازم نہ ہوا۔ اگر صرف اس توازن ہی کو لیا جائے تو یہ اللہ تعالیٰ خالق کائنات کی حکمت و تدبیر اور رحمت و تقدیر پر دلالت کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس آیت کا اختتام جو اس جملے پر فرمایا گیا ہے کہ (قَدْ فَصَّلْنَا الاْٰ یَاتِ لِقَوْمٍ یَفْقَھُوْنَ ) کی گہرائی یہی ہے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی تمام انسانوں اور ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے ہی انسانی تخلیق کے مختلف مراحل مقرر فرمائے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کے بعد اس کے رہنے سہنے کی منازل متعین فرمائی۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنی توحید کے دلائل اس لیے کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ لوگ ہر اعتبار سے اسے لاشریک سمجھیں۔ تفسیر بالقرآن انسانی تخلیق کے مختلف مراحل : ١۔ اللہ نے انسان کو نطفہ سے پیدا کیا۔ ( النحل : ٤) ٢۔ اللہ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔ ( آل عمران : ٥٩) ٣۔ حوا کو آدم سے پیدا کیا۔ ( النساء : ١) ٤۔ ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ ( المؤمنون : ١٢) ٥۔ ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ ( الدھر : ٢) ٦۔ اے لوگو ! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا۔ ( النساء : ١)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٩٧۔ یہ نظام فلکی کے منظر کا تتمہ ہے جس کے اندر سورج چاند اور ستارے سرگرداں اور یہ پوری کائنات کے منظر کا حصہ ہے جو نہایت ہی وسیع ‘ نہایت ہی حیران کن ہے اور جس کی تمام حرکات و سکنات انسانی زندگی اور اس کے مفادات اور ضروریات کے ساتھ وابستہ ہیں ۔ (آیت) ” لِتَہْتَدُواْ بِہَا فِیْ ظُلُمَات... ِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ “۔ (٦ : ٩٧) ‘ ” تاکہ تم ان کے ذریعے صحرا اور سمندروں کی تاریکیوں میں راستہ معلوم کرو۔ “ صحراؤں اور سمندروں کی دوریوں میں انسان ہمیشہ ستاروں کے زریعے راستہ معلوم کرتا آیا ہے اور آج بھی وہی نظام ہے ۔ اصول وہی ہیں اگرچہ دور جدید کے اکتشافات کی وجہ سے وسائل بدل گئے ہیں ۔ سمندری سفر کے لئے جدید آلات تیار ہوگئے ہیں لیکن اصل الاصول یہی ہے ان سفروں میں قطب شمالی اور ستاروں سے ہدایت لی جاتی ہے ۔ ظلمات البر والبحر میں حسی اور حقیقی اندھیرا بھی شامل ہے اور فکری اور تصوراتی اندھیرا بھی ۔ لہذا نص قرآن جس طرح آج سے صدیوں پہلے بامقصد تھی اسی طرح آج بھی بامقصد ار بامصداق ہے ۔ آج کی بحری زندگی میں بھی اسی اصول کے مطابق ہے۔ آج بھی قرآن انسانوں سے اسی طرح مخاطب ہے جس طرح آج سے پہلے تھا حالانکہ آج کے دور میں انسانی انفس اور آفاق میں اللہ نے انسان کو وسیع علم سے نوازا ہے لیکن آج بھی ہماری بحری سفری زندگی اسی آیت کی مصداق ہے ۔ قرآن آج بھی فطری انداز میں انسانوں کو خطاب کرتا ہے اور تکوینی حقائق انکے سامنے رکھتا ہے ۔ محض نظریاتی بنیادوں پر خطاب نہیں کرتا بلکہ ” واقعی “ صورت انسان کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ یہ وہ خصوصیت ہے جو آج تک قائم ہے اس صورت میں خطاب کے نتیجے میں صانع کائنات کی کارفرمائی واضح طور پر نظر آتی ہے ۔ اللہ کی تقدیر اس کی تدبیر اور اس کی شان رحیمی عقل ونظر سے بالکل روشن نظر آتی ہے ۔ انسان بصیرت حاصل کرتا ہے ‘ اس کے ادراک کو جلا ملتی ہے اور وہ کائنات پر تدبر بھی کرتا ہے ۔ اس سے نصیحت بھی حاصل کرتا ہے اور اپنے علم ‘ اپنی معرفت اور ترقی کو اس کائنات میں کار فرما حقیقت کبری کے ادراک کے لئے استعمال کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ حقیقت انسان کے سامنے رکھنے کے بعد کہ اللہ بحر وبر کے اندھیروں میں ان کی راہنمائی کا انتظام کرتا ہے یہ تعقیب آتی ہے ۔ (آیت) ” قَدْ فَصَّلْنَا الآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ (97) ” دیکھو ہم نے نشانیاں کھول کر بیان کردی ہیں ‘ ان لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں “۔ اس لئے کہ صحرا کی پہنائیوں اور سمندر کی تاریکیوں میں ستاروں سے ہدایت تب ہی لی جاسکتی ہے جب انسان کو ستاروں کے مداروں ‘ ان کے دوروں اور مختلف اوقات میں ان کے مواقع کے بارے میں علم حاصل ہو اور معنوی اندھیروں میں ہدایت وہ لوگ لے سکتے ہیں جنہیں علم ہو کہ یہ کائنات صانع حکیم کی بنائی ہوئی ہے جیسا کہ ہم نے کہا یہاں ہدایت سے مراد دونوں قسم کی ہدایات ہیں ‘ حسی اور بحری سفر کی ہدایات بھی اور معنوی اور گمراہی قلب ونظر کی ہدایات بھی ۔ وہ لوگ جو ستاروں کو حسی رہبری کے لئے استعمال کرتے ہیں اور اس رہبری سے اپنے خالق تک پہنچنے کی ہدایت وبصیرت اخذ نہیں کرتے وہ گویا علم سے محروم ہیں کیونکہ انہوں نے ان چیزوں سے جھوٹی اور حقیر ہدایت تولی لیکن ہدایت کبری اخذ نہ کی ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس کائنات کا تعلق رب کائنات سے کاٹنا چاہتے ہیں اور اس کائنات کے ان دلائل سے وہ ہدایت اخذ نہیں کرتے جو مبدع عظیم پر دال ہیں ۔ صدق اللہ العظیم ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (وَ ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ النُّجُوْمَ لِتَھْتَدُوْا بِھَا فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ ) (اور اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لیے ستاروں کو پیدا فرمایا تاکہ تم ان کے ذریعہ راہ پاؤ خشکی کی تاریکیوں میں اور سمندر کی تاریکیوں میں) رات کو جب سفر میں ہوتے ہو اور راستہ بھول جاتے ہو۔ یا سم... ندر میں ہو اور راستہ بھول جاؤ تو ستاروں کی طرف دیکھ کر پتہ چلا لیتے ہو کہ مشرق کدھر ہے اور مغرب کدھر ہے پھر اپنے اسی علم کی روشنی میں آگے بڑھتے ہو اور صحیح راستہ پا کر منزل مقصود کو پہنچ جاتے ہو۔ (قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ) (بےشک ہم نے نشانیاں بیان کردی ہیں ان لوگوں کے لیے جو جانتے ہیں) جو آیات مذکورہ کو سمجھتے ہیں اور آیات تکوینیہ میں غور کرتے ہیں۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

103 رات کے اندھیروں میں، جنگلوں اور سمندروں میں سفر کرنے والے مسافر اگر راہ سے بھٹک جائیں تو مختلف ستاروں کے ذریعے وہ اپنی منزل مقصود کی صحیح سمت معلوم کر کے صحیح وسالم اپنی منزل پر پہنچ جاتے ہیں یہ بھی اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے یہ امور عالم علوی یا نظام شمسی سے تعلق رکھتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

97 اور اللہ تعالیٰ کی وہ مقدس ذات ہے جس نے تمہارے نفع کے لئے تاروں کو بنایا اور پیدا کیا تاکہ تم خشکی او تری کی ان تاریکیوں میں جو رات کو پیش آتی ہیں ان تاروں کی وجہ سے رائو پائو اور راستہ معلوم کرسکو بلاشبہ ہم اپنے دلائل کو ان لوگوں کے لئے تفصیل سے بیان کرتے ہیں جو صاحب علم ہیں۔