Surat us Saff

Surah: 61

Verse: 10

سورة الصف

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۱۰﴾

O you who have believed, shall I guide you to a transaction that will save you from a painful punishment?

اے ایمان والو! کیا میں تمہیں وہ تجارت بتلا دوں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچا لے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Trade that saves One from the Painful Torment We mentioned a Hadith from Abdullah bin Salam in that the Companions wanted to ask the Prophet of Allah about the best actions with Allah the Exalted and Most Honored, so they could practice them. Allah the Exalted sent down this Surah, including this Ayah, يَا أَيُّهَا الَّذِينَ اَمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنجِيكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ O you who believe! Shall I guide you to a trade that will save you from a painful torment? Allah then explained this great trade that will never fail, the trade that will earn one what he wishes and saves him from what he dislikes. Allah the Exalted said, تُوْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ

سو فیصد نفع بخش تجارت حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی حدیث پہلے گذر چکی ہے کہ صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھنا چاہا کہ سب سے زیادہ محبوب عمل اللہ تعالیٰ کو کونسا ہے؟ اس پر اللہ عزوجل نے یہ سورت نازل فرمائی ، جس میں فرما رہا ہے کہ آؤ میں تمہیں ایک سراسر نفع والی تجارت بتاؤں جس میں گھاٹے کی کوئی صورت ہی نہیں جس سے مقصود حاصل اور ڈر زائل ہو جائے گا وہ یہ ہے کہ تم اللہ کی وحدانیت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لاؤ اپنا جان مال اس کی راہ میں قربان کرنے پر تل جاؤ ، جان لو کہ یہ دنیا کی تجارت اور اس کے لئے کدو کاوش کرنے سے بہت ہی بہتر ہے ، اگر میری اس بتائی ہوئی تجارت کے تاجر تم بن گئے تو تمہاری ہر لغزش سے ہر گناہ سے میں درگزر کرلوں گا اور جنتوں کے پاکیزہ محلات میں اور بلند و بالا درجوں میں تمہیں پہنچاؤں گا ، تمہارے بالا خانوں اور ان ہمیشگی والے باغات کے درختوں تلے سے صاف شفاف نہریں پوری روانی سے جاری ہوں گی ، یقین مانو کہ زبردست کامیابی اور اعلیٰ مقصد وری یہی ہے ، اچھا اس سے بھی زیادہ سنو تم جو ہمیشہ دشمنوں کے مقابلہ پر میری مدد طلب کرتے رہتے ہو اور اپنی فتح چاہتے ہو میرا وعدہ ہے کہ یہ بھی تمہیں دوں گا ادھر مقابلہ ہوا ادھر فتح ہوئی ادھر سامنے آئے ادھر فتح و نصرت نے رکاب بوسی کی اور جگہ ارشاد ہوتا ہے ۔ ( ترجمہ ) ایمان والو اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا اور تمیں ثابت قدمی عنایت فرمائے گا ، اور فرمان ہے ( ترجمہ ) یعنی یقیناً اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرے گا جو اللہ کے دین کی مدد کرے بیشک اللہ تعالیٰ بڑی قوت والا اور غیر فانی عزت والا ہے ، یہ مدد اور یہ فتح دنیا میں اور وہ جنت اور نعمت آخرت میں ان لوگوں کے حصہ میں ہے جو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی اطاعت میں لگے رہیں اور دین اللہ کی خدمت میں جان و مال سے دریغ نہ کریں اسی لئے فرما دیا کہ اے نبی ان ایمان والوں کو میری طرف سے یہ خوش خبری پہنچا دو ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

10۔ 1 اس عمل (یعنی ایمان اور جہاد) کو تجارت سے تعبیر کیا، اس لئے کہ اس میں بھی انہیں تجارت کی طرح ہی نفع ہوگا وہ نفع کیا ہے ؟ جنت میں داخلہ اور جہنم سے نجات۔ اس سے بڑا نفع اور کیا ہوگا۔ اور وہ نفع کیا ہے اس بات کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا " اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ " 9 ۔ التوبہ :111) اللہ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کا سودا جنت کے بدلے میں کرلیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣] یعنی تمام دنیا میں اسلام کا نور پھیلانے والی اور دین اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کرنے والی اللہ کی ذات ہے تاہم اللہ تعالیٰ نے اس کا ذریعہ اہل ایمان کو بنایا ہے۔ اس کا کام یہ ہے کہ جو وہ ارادہ کرچکا ہے وہ پورا کرکے رہے گا اور یہ کام تمہارے ہاتھوں ہوگا۔ تم سچے دل سے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ اللہ کے وعدوں پر مکمل اعتماد کرو اللہ کے رسول کی پوری طرح اطاعت کرو۔ پھر اپنا مال، اپنا وقت، اپنی قابلیت حتیٰ کہ اپنی جانیں بھی اللہ کی راہ میں جہاد کرنے میں لڑا دو ۔ اور یہ تمہارے لیے ایسی پُر منفعت تجارت اور نفع کا سودا ہے جس میں کبھی خسارے کا احتمال نہیں ہوسکتا۔ اس کے عوض آخرت میں تمہیں دو فائدے یقینی طور پر حاصل ہوں گے ایک یہ کہ تمہیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے گا اور دوزخ کے عذاب سے بچ جانا بھی بذات خود بڑی کامیابی ہے۔ دوسرا یہ کہ تمہارے گناہ اور خطائیں معاف کرکے نعمتوں والے باغات میں داخل کرے گا۔ جہاں تم ہمیشہ کے لیے جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے رہو گے اور یہ بھی بہت بڑی کامیابی ہے۔ (اسی سے ملتا جلتا مضمون پہلے سورة توبہ کی آیت نمبر ١١١ کے تحت حاشیہ نمبر ١٢٤ میں گزر چکا ہے۔ وہ بھی ملاحظہ فرما لیا جائے)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ ۔۔۔۔۔: یہی مضمون ایک اور انداز میں سورة ٔ توبہ (١١١) میں بیان ہوا ہے ، تفسیر ہاں ملاحظہ فرمائیں۔ یہاں ایمان و جہاد عذاب الیم سے نجات کی بشارت سنائی ہے ، جب کہ سورة ٔ توبہ (٣٨، ٣٩) میں ترک جہادپر عذاب الیم کی وعید سنائی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر (آگے اول جہاد کا ثمرہ آخرت پھر ثمرہ دنیویہ کا وعدہ کر کے ترغیب دیتے ہیں کہ) اے ایمان والو ! کیا میں تم کو ایسی سوداگری بتلاؤں جو تم کو ایک درد ناک عذاب سے بچا لے (وہ یہ ہے کہ) تم لوگ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے مال و جان سے جہاد کرو، یہ تمہارے لئے بہت ہی بہتر ہے اگر تم کچھ سمجھ رکھتے ہو ( جب ایسا کرو گے تو) اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف کرے گا اور تم کو (جنت کے) ایسے باغوں میں داخل کرے گا کہ جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور عمدہ مکانوں میں (داخل کرے گا) جو ہمیشہ رہنے کے باغوں میں (بنے) ہوں گے یہ بڑی کامیابی ہے اور (اس ثمرہ حقیقیہ اخرویہ کے علاوہ) ایک اور ثمرہ (دنیویہ) بھی ہے کہ تم اس کو (بھی خاص طور پر) پسند کرتے ہو (یعنی) اللہ کی طرف سے مدد اور جلدی فتح یابی ہے (اس کا خاص طور پر محبوب ہونا اس لئے ہے کہ انسان طبعاً ثمرہ عاجلہ بھی چاہتا ہے) اور (اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ( ان تمام امور کی) مومنین کو بشارت دے دیجئے (چنانچہ فتح و نصرت کی پیشین گوئی کا ظہور اسلامی فتوحات سے ظاہر ہے آگے اصحاب عیسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ یاد دلا کر نصرت دین کی ترغیب دیتے ہیں کہ) اے ایمان والو ! تم اللہ کے (دین کے) مددگار ہوجاؤ ( اس طریقہ سے جو تمہارے لئے مشروع ہے یعنی جہاد) جیسا کہ (حواربین اپنی شریعت کے طریقے کے موافق ناصر دین ہوئے تھے جبکہ لوگ کثرت سے عیسیٰ (علیہ السلام) کے دشمن اور مخالفت تھے اور جبکہ) عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے (ان) حواریین سے فرمایا کہ اللہ کے واسطے میرا کون مددگار ہوتا ہے، وہ حواری بولے ہم اللہ (کے دین) کے مددگار ہیں (چنانچہ ان حواریین نے دین کی یہ مدد کی کہ اس کی اشاعت میں کوشش کی) سو (اس کوشش کے بعد) بنی اسرائیل میں سے کچھ لوگ ایمان لائے اور کچھ لوگ منکر رہے (پھر ان میں باہم اختلاف مذہبی سے عداوت اور خانہ جنگیاں ہوئیں یا مذہبی گفتگو ہوئی) سو ہم نے ایمان والوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلہ میں تائید کی سو وہ غالب ہوگئے (اسی طرح تم دین محمدی کے لئے کوشش اور جہاد کرو اور اگر ابتداء ان خانہ جنگیوں کی کفار کی طرف سے ہو تو اس سے دین عیسوی میں جہاد کا ہونا لازم نہیں آتا)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ہَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰي تِجَارَۃٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ۝ ١٠ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ دلَ الدّلالة : ما يتوصّل به إلى معرفة الشیء، کدلالة الألفاظ علی المعنی، ودلالة الإشارات، والرموز، والکتابة، والعقود في الحساب، وسواء کان ذلک بقصد ممن يجعله دلالة، أو لم يكن بقصد، كمن يرى حركة إنسان فيعلم أنه حيّ ، قال تعالی: ما دَلَّهُمْ عَلى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ [ سبأ/ 14] . أصل الدّلالة مصدر کالکتابة والإمارة، والدّالّ : من حصل منه ذلك، والدلیل في المبالغة کعالم، وعلیم، و قادر، وقدیر، ثم يسمّى الدّالّ والدلیل دلالة، کتسمية الشیء بمصدره . ( د ل ل ) الدلا لۃ ۔ جس کے ذریعہ کسی چی کی معرفت حاصل ہو جیسے الفاظ کا معانی پر دلالت کرن اور اشارات در ہو ز اور کتابت کا اپنے مفہوم پر دلالت کرنا اور حساب میں عقود کا عدد مخصوص پر دلالت کرنا وغیرہ اور پھر دلالت عام ہے کہ جاہل یعنی واضح کی وضع سے ہوا یا بغیر وضع اور قصد کے ہو مثلا ایک شخص کسی انسان میں حرکت دیکھ کر جھٹ جان لیتا ہے کہ وہ زندہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ما دَلَّهُمْ عَلى مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ [ سبأ/ 14] تو کسی چیز سے ان کا مرنا معلوم نہ ہوا مگر گھن کے کیڑز سے ۔ اصل میں دلالۃ کا لفظ کنایہ وامارۃ کی طرح مصدر ہے اور اسی سے دال صیغہ صفت فاعل ہے یعنی وہ جس سے دلالت حاصل ہو اور دلیل صیغہ مبالغہ ہے جیسے ہے کبھی دال و دلیل بمعنی دلالۃ ( مصدر آجاتے ہیں اور یہ تسمیہ الشئ بمصدر کے قبیل سے ہے ۔ تجر التِّجَارَة : التصرّف في رأس المال طلبا للربح، يقال : تَجَرَ يَتْجُرُ ، وتَاجِر وتَجْر، کصاحب وصحب، قال : ولیس في کلامهم تاء بعدها جيم غير هذا اللفظ «1» ، فأمّا تجاه فأصله وجاه، وتجوب التاء للمضارعة، وقوله تعالی: هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلى تِجارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذابٍ أَلِيمٍ [ الصف/ 10] ، فقد فسّر هذه التجارة بقوله : تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ «2» [ الصف/ 11] ، إلى آخر الآية . وقال : اشْتَرَوُا الضَّلالَةَ بِالْهُدى فَما رَبِحَتْ تِجارَتُهُمْ [ البقرة/ 16] ، إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجارَةً عَنْ تَراضٍ مِنْكُمْ [ النساء/ 29] ، تِجارَةً حاضِرَةً تُدِيرُونَها بَيْنَكُمْ [ البقرة/ 282] . قال ابن الأعرابي «3» : فلان تاجر بکذا، أي : حاذق به، عارف الوجه المکتسب منه . ( ت ج ر ) تجر ( ن ) تجرا وتجارۃ کے معنی نفع کمانے کے لئے المال کو کاروبار میں لگانے کے ہیں ۔ صیغہ صفت تاجر وتجور جیسے صاحب وصحت یاد رہے ۔ کہ عربی زبان میں اس کے سو ا اور کوئی لفظ ایسا نہیں ہے ۔ جس تاء ( اصل ) کے بعد جیم ہو ۔ رہا تجاۃ تو اصل میں وجاہ ہے اور تجوب وغیرہ میں تاء اصلی نہیں ہے بلکہ نحل مضارع کی ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلى تِجارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذابٍ أَلِيمٍ [ الصف/ 10] میں تم کو ایسی تجارت بتاؤں جو عذاب الیم سے مخلص دے ۔ میں لفظ تجارہ کی تفسیر خود قرآن نے بعد کی آیت ؛ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ «2» [ الصف/ 11] آلایہ میں بیان فرمادی ہے ۔ نیز فرمایا ؛ اشْتَرَوُا الضَّلالَةَ بِالْهُدى فَما رَبِحَتْ تِجارَتُهُمْ [ البقرة/ 16] ہدایت چھوڑ کر گمراہی خریدی تو نہ ان کی تجارت ہی نہیں کچھ نفع دیا ۔ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجارَةً عَنْ تَراضٍ مِنْكُمْ [ النساء/ 29] ہاں اگر آپس کی رضامندی سے تجارت کالین دین ہو ( اور اس سے مالی فائدہ حاصل ہوجائے تو وہ جائز ہے ) تِجارَةً حاضِرَةً تُدِيرُونَها بَيْنَكُمْ [ البقرة/ 282] سود ا وست بدست ہو جو تم آپس میں لیتے دیتے ہو ۔ ابن لاعرابی کہتے ہیں کہ فلان تاجر بکذا کے معنی ہیں کہ فلاں اس چیز میں ماہر ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا جانتا ہے ۔ نجو أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] ( ن ج و ) اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] اور جو لوگ ایمان لائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا ألم الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء/ 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام/ 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» . ( ا ل م ) الالم کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ { فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ } ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (ھل ادلکم علی تجارۃ تنجیکم من عذاب الیم، میں بتائوں تمہیں وہ تجارت جو تم کو عذاب الیم سے بچا دے) تا قول باری (نصر من اللہ وفتح قریب، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہونے والی فتح) اس کا شمار بھی دلائل نبوت میں ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نصرت اور فتح کا وعدہ فرمایا تھا اور ایمان لانے والوں کے حق میں یہ وعدہ پورا ہوگیا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠۔ ١١) اے ایمان والو کیا میں تمہیں ایسی تجارت بتا دوں جو تمہیں آخرت میں دردناک عذاب سے بطالے۔ ایمان میں سچے رہو اور اپنی جان و مال سے جہاد کرو یہ جہاد تمہارے اموال سے بہتر ہے اگر تم ثواب خداوندی کی تصدیق کرنے والے ہو۔ شان نزول : تُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ (الخ) ابن ابی حاتم نے مقاتل سے روایت کیا ہے کہ احد کے دن میدان جنگ سے بھاگنے کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ اور نیز سعید بن جبیر سے روایت کیا ہے کہ جس وقت یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی کہ ایمان والو کیا میں تمہیں ایسی تجارت بتلاؤں الخ تو اس پر مسلمان بولے کاش ہمیں اس تجارت کا علم ہوجاتا کہ وہ کیا ہے تو ہم اس میں اپنے مالوں اور گھر والوں کو دے دیتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

14 A bargain is something in which a person employs his wealth, time, labour and talent in order to earn a profit. In the same sense the Faith and Jihad in the cause of AIIah have ban called a bargain, as if to say: If you exert alI your powers and expend all your resources in the way of Allah, you will get the profits that are being mentioned in the following verses. This same theme has been expressed in At-Taubah: III in another way. (See E.N. 106 of At-Taubah) .

سورة الصَّف حاشیہ نمبر :13 مشرکین کو ناگوار ہو ، یعنی ان لوگوں کو جو اللہ کی بندگی کے ساتھ دوسروں کی بندگیاں ملاتے ہیں ، اور اللہ کے دین میں دوسرے دینوں کی آمیزش کرتے ہیں ۔ جو اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ پورا کا پورا نظام زندگی صرف ایک خدا کی اطاعت اور ہدایت پر قائم ہو ۔ جنہیں اس بات پر اصرار ہے کہ جس جس معبود کی چاہیں گے بندگی کریں گے ، اور جن جن فلسفوں اور نظریات پر چاہیں گے اپنے عقائد و اخلاق اور تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھیں گے ۔ ایسے سب لوگوں کے علی الرغم یہ فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ کا رسول ان کے ساتھ مصالحت کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ اس لیے بھیجا گیا ہے کہ جو ہدایت اور دین حق وہ اللہ کی طرف سے لایا ہے اسے پورے دین ، یعنی نظام زندگی کے ہر شعبے پر غالب کر دے ۔ یہ کام اسے بہرحال کر کے رہنا ہے ۔ کافر اور مشرک مان لیں تو ، اور نہ مانیں تو اور مزاحمت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں تو ، رسول کا یہ مشن ہر حالت میں پورا ہو کر رہے گا ۔ یہ اعلان اس سے پہلے قرآن میں دو جگہ ہو چکا ہے ۔ ایک ، سورہ توبہ آیت 33 میں ۔ دوسرے ، سورہ فتح آیت 28 میں ۔ اب تیسری مرتبہ اسے یہاں دہرایا جا رہا ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، التوبہ ، حاشیہ 32 ۔ جلد پنجم ، الفتح ، حاشیہ 51 ) ۔ سورة الصَّف حاشیہ نمبر :14 تجارت وہ چیز ہے جس میں آدمی اپنا مال ، وقت ، محنت اور ذہانت و قابلیت اس لیے کھپاتا ہے کہ اس سے نفع حاصل ہو ۔ اسی رعایت سے یہاں ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ کو تجارت کہا گیا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اس راہ میں اپنا سب کچھ کھپاؤ گے تو وہ نفع تمہیں حاصل ہو گا جو آگے بیان کیا جا رہا ہے ۔ یہی مضمون سورہ توبہ آیت 111 میں ایک اور طریقہ سے بیان کیا گیا ہے ( ملاحظہ ہو ، تفہیم القرآن ، جلد دوم ، التوبہ ، حاشیہ 106 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

8: تجارت میں کوئی چیز کسی کو دے کر اُس کی قیمت حاصل کی جاتی ہے، اسی طرح ایک مسلمان اپنی جان و مال اﷲ تعالیٰ کے حوالے کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے صلے میں جنت اور عذاب سے رہائی عطا فرماتے ہیں۔ دیکھئے سورۃ توبہ (۹:۱۱۱)

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠۔ ١٣۔ اوپر ذکر تھا کہ کچھ لوگ نیک کاموں کے کرنے کا شوق ظاہر کرکے بھی اس پر قائم نہیں رہے آیتوں میں اسی کے متعلق فرمایا کہ اے ایمان والو اگر تم کو نیک کام کے اجر کمانے کا شوق ہے تو تم کو اس کمائی کے لئے ایسی سوداگری بتائی جاتی ہے جس میں سراپا نفع ہی نفع ہے نقصان کا کہیں نام نہیں ہے پھر اس سوداگری کی تفصیل فرمائی کہ خالص دل سے اللہ اور اللہ کے رسول کی فرمانبرداری قبول کرو اور جو لوگ اللہ اور اللہ کے رسول کے نافرمان ہیں ان کے راہ راست پر لانے میں جان و مال سے کوشش کرو اللہ کے رسول جو شریعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائے ہیں اس کے برحق ہونے کا دل میں اعتقاد رکھنا اور زبان سے اس اعتقاد کے موافق قرار کرنا اور ہاتھ پاؤں سے شریعت کے موافق عمل کرکے اس اعتقاد اور اقرار کو مضبوط اور سچا کردینا سلف کے نزدیک کامل ایمان کی یہی نشانی ہے اس واسطے ایمان کے ساتھ فرض کفایہ جہاد کا ذکر فرمایا اور فرائض کا ذکر نہیں فرمایا کہ گویا وہ ایمان کے ذکر میں آگئے۔ صحیح ٣ ؎ بخاری و مسلم میں زید بن خالد کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کسی نے اپنا مال خرچ کرکے خدا کی راہ پر لڑنے والے شخص کا کچھ سامان کردیا تو اس کو بھی خدا کی راہ میں لڑنے کا ثواب ملے گا۔ یہ حدیث آیت کے ٹکڑے وتجاھدون فی سبیل اللہ باموالکم کی تفسیر ہے۔ صحیح ١ ؎ بخاری و مسلم کی انس بن مالک کی حدیث اوپر گزر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنت کی نعمتوں کے لحاظ سے فرمایا کہ جتنی جگہ میں گھوڑے کے سوار کا کوڑا پڑا رہتا ہے جنت میں کی اتنی جگہ تمام دنیا اور اس کے ساز و سامان سے بہتر ہے اب اس حساب سے دنیا کی تجارت میں کوئی شخص تمام دنیا بھی نفع کے طور پر کما لے تو عقبیٰ کی تجارت کے نفع سے اس کو کچھ نسبت نہیں فرمایا کہ عقبیٰ کی تجارت سمجھ دار کے لئے دنیا کی تجارت سے بہتر اور بڑی کامیابی کی تجارت ہے کہ اس میں ہمیشہ کے نفع کے طور پر جنت کی نعمتیں ہیں گناہوں کی معافی اور دوزخ کے عذاب سے نجات کا حاصل کرنا اور دنیا میں فتح یابی اور غنیمت کے مال کی خوش وقتی اس بےبدل نفع کے علاوہ ہے اس واسطے فرمایا اے رسول اللہ کے ایمان دار لوگوں کو اس تجارت کے سراپا نفع کی خوش خبری سنا دو ۔ (٣ ؎ صحیح بخاری باب من جھزغازیا او خلفہ بخیر ص ٣٩٨ ج ١۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری باب صفۃ الجنۃ والنار ص ٧٢ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(61:10) ہل حرف استفہام ہے، مضارع پر داخل ہو کر اس کو مستقبل کے معنی کے لئے مخصوص کردیتا ہے۔ کیا ؟ تحقیق بمعنی قد کے لئے بھی آتا ہے۔ ادلکم علی : ادل مضارع واحد متکلم دلالۃ (باب نصر) مصدر۔ علی کے صلہ کے ساتھ۔ کسی طرف رہنمائی کرنا۔ بتانا۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر، کیا میں تم کو بتاؤں یا آگاہ کروں۔ یا تمہاری راہنمائی کروں۔ تنجیکم : تنجی مضارع واحد مؤنث غائب انجاء (افتعال) مصدر۔ نجات دینا۔ نجات پانا۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ وہ تم کو نجات دے۔ وہ تم کو بچالے۔ یا۔ بچالیگی۔ ن ، ج، د، مادہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ١٠ تا ١٤۔ اسرار ومعارف۔ نظام اسلام۔ اے ایمان والو تمہیں سب سے اچھی تجارت اور سب سے اعلی کاروبار کے بارے خبر کردوں جو دنیا کا نفع بھی دے اور آخرت میں دردناک عذاب سے بھی بچالے تو وہ ہے واللہ پر ایمان کہ جس طرح رسول اللہ ماننے کا حکم دیں ویسا اللہ کو مانے اور اللہ کے رسول پر ایمان جس کی دلیل ہے زندگی کے اس نظام کو مانے جس کو رسول اللہ منوائیں اور اس کے نفاذ کے لیے جان ومال سے جہاد کرے تمہارے لیے یہی کام سب سے بہتر ہے اگر تم یہ بات جان جاؤ تو ایسے مجاہدین فی سبیل اللہ سے انسانی کمزوری کے باعث اگر غلطی ہوگئی تو بھی اللہ معاف فرمائے گا اور انہیں جنت کے خوبصورت گھروں اور بینظیر باغوں میں داخل فرمائے گا جو ایک بہت بڑی کامیابی بلکہ حقیقی کامیابی ہے اور دوسری بات جو تمہاری آرزو ہے کہ کفر پر فتح نصیب ہو اور اللہ کی مدد نصیب ہو تو اسے میرے حبیب جو اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہوں انہیں اللہ کی مدد اور فتح کی جو عنقریب ہوگی خوش خبری دے دیجئے۔ اے ایمان والو اللہ کے مددگار یعنی اس کے سپاہی بن جاؤ جس طرح عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کوئی اللہ کے لیے میرامعاون ہوگا تو ان کے پیروکاروں میں سے کچھ نے کہا ہم ہیں اللہ کے دین کے لیے مدد کرنے والے یہ کل بارہ آدمی تھے اور دوسرے کفر میں مبتلا ہوئے کہ کسی نے آسمانوں پر اٹھائے جانے کے بعد انہیں خدا مانا اور کسی نے خدا کا بیٹا مگر یہ اگرچہ بہت کم تھے مگر اللہ نے انہیں غلبہ دیا اور سب کفار کی مخالفت کے باجود پیغام حق پہنچانے میں کامیاب رہے گو بعد میں عرصہ گزرنے پر دین میں تحریف ہوگئی اور یہ تو تمام پہلے ادیان کے ساتھ ہوامگر جس طرح کفار کا یہ خیال تھا کہ ابھی سے دین عیسوی کی دعوت ختم ہوجائے وہ نہ کرسکے اور یہی مقابلہ تھا کہ قتال اس مذہب میں نہ تھا نہ جہاد کا تصور تھا۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مشرکین کی مخالفت کی پرواہ کیے بغیر دین حق کو قبول اور اس کی اشاعت کرنا یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تجارت کرنے کے مترادف ہے۔ جس کے نتیجہ میں دنیا کی کامیابی حاصل ہوگی اور آخرت میں عذاب سے نجات پانے کے ساتھ جنت میں داخل ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو نفع اور نقصان کا شعور بخشا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ریڑھی بان کو معلوم ہوجائے کہ میرا سودا فلاں چوک اور بازار میں زیادہ بک سکتا ہے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ میں اس چوک اور بازار میں ریڑھی لگاؤں۔ مزدور کو معلوم ہو کہ مجھے فلاں شہر میں زیادہ مزدوری ملے گی، تو وہ زیادہ مزدوری پانے کے لیے اپنے بال بچے چھوڑ کر اس شہر کا رخ کرتا ہے۔ منافع اور فائدے کے لالچ میں ہی لوگ اپنا وطن چھوڑ کر دوردراز کے ملکوں میں جاکر نوکری اور تجارت کرتے ہیں۔ گویا کہ بنیادی طور پر ہر انسان کو اپنے نفع اور نقصان کا شعور دیا گیا ہے اس شعور کو دین اور آخرت کی خاطر استعمال کرنے کا حکم ہے۔ اے ایمان والو ! میں تمہیں ایسی تجارت بتاتا ہوں کہ جس میں کبھی نقصان نہیں ہوگا۔ اس کا بنیادی اور دائمی فائدہ یہ ہے کہ تمہارے گناہ معاف ہوں گے اور تمہیں عذاب الیم سے نجات حاصل ہوگی اور تمہیں اس جنت میں داخل کیا جائے گا جس کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہاں صاف ستھرے، اعلیٰ اور پاکیزہ مکانات ہیں، اس کی نعمتیں ہمیشہ رہنے والی ہیں، جسے اس میں داخلہ نصیب ہوا اس کے لیے یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ ہاں تم پسند کرتے ہو کہ تمہیں دشمن پر فتح حاصل ہو وہ بھی تمہیں حاصل ہوگی۔ جس تجارت کے بدلے تمہیں ہمیشہ کی جنت اور دشمن پر کامیابی حاصل ہوگی وہ تجارت یہ ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر سچا ایمان لاؤ اور اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کرو یہ تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے بشرطیکہ تم اس کی حقیقت سمجھ جاؤ۔ اس سورت کی ابتدا میں ارشاد فرمایا کہ یقیناً اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کی راہ میں کفار اور مشرکین کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار بن کر قتال کرتے ہیں۔ یہاں قتال کی بجائے جہاد کا لفظ استعمال فرمایا ہے کیونکہ میدان کارزار میں اترنے سے پہلے مال و جان کے ساتھ کوشش کرنا پڑتی ہے، جہاد کا معنٰی اللہ کے راستے میں کوشش کرنا اور قتال فی سبیل اللہ اس مقصد کے لیے انتہائی اقدام ہے۔ اس لیے یہاں قتال کی بجائے جہاد کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس میں ہر وہ کوشش شامل ہوگی جو دین کے بتلائے ہوئے طریقہ کے مطابق اس کی سربلندی کے لیے کی جائے گی۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر لفظ قتال جہاد کے معنٰی میں استعمال کیا ہے یہ ایسی تجارت اور سودا ہے جس کا خریدار اللہ تعالیٰ خود ہے جس کے بارے میں اس کا ارشاد ہے۔ ” یقیناً اللہ نے ایمان والوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لیے ہیں۔ اس کے بدلے کہ یقیناً ان کے لیے جنت ہے، وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں، قتل کرتے ہیں اور قتل کیے جاتے ہیں، تورات اور انجیل اور قرآن میں اللہ کے ذمے یہ پکا وعدہ ہے اور اللہ سے زیادہ اپنا وعدہ پورا کرنے والا کون ہوسکتا ہے ؟ اس سودے پر خوب خوش ہوجاؤ جو تم نے اللہ سے کیا ہے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ “ (التوبہ : ١١١) (عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِیّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ جَاہِدُوا الْمُشْرِکِینَ بِأَمْوَالِکُمْ وَأَنْفُسِکُمْ وَأَلْسِنَتِکُمْ ) (رواہ ابوداؤد : باب کَرَاہِیَۃِ تَرْکِ الْغَزْوِ ، حکمہ صحیح) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنے مالوں، جانوں اور زبانوں کے ساتھ مشرکین سے جہاد کرو۔ “ (عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قالَ قَالَ رَجُلٌ للنَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَوْمَ أُحُدٍ أَرَأَیْتَ إِنْ قُتِلْتُ فَأَیْنَ أَنَا قَالَ فِي الْجَنَّۃِ فَأَلقٰی تَمَرَاتٍ فِيْ یَدِہٖ ثُمَّ قَاتَلَ حَتّٰی قُتِلَ ) (رواہ البخاری : باب غزوۃ أحد) ” حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے غزوۂ احد کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا اگر میں شہید ہوجاؤں تو میں کہاں ہوں گا ؟ آپ نے فرمایا : جنت میں۔ اس کے ہاتھ میں کھجوریں تھیں اس نے پھینک دیں پھر لڑا یہاں تک کہ شہید ہوگیا۔ “ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جنت اس طرح بنائی گئی ہے کہ اس کی ایک اینٹ چاندی کی اور دوسری سونے کی ہے اور اس کا گارا خوشبودار کستوری کا ہے۔ اس کے کنکر لؤلؤ اور یاقوت کے ہیں اور اس کی مٹی زعفران کی ہے جو اس میں داخل ہوگا وہ خوش و خرم رہے گا۔ اسے کوئی تکلیف نہیں ہوگی وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اسے موت نہیں آئے گی نہ اس کے کپڑے بوسیدہ ہوں گے اور نہ ہی وہ بوڑھا ہوگا۔ “ (رواہ الترمذی : کتاب صفۃ الجنۃ) مسائل ١۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، کفار اور مشرکین کے ساتھ مال وجان کے ساتھ جہاد کرنا نہایت ہی فائدہ مند تجارت ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ایمان اور جہاد کے بدلے مسلمانوں کے گناہ معاف کرتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ایمان اور جہاد کے بدلے مومنوں کو ہمیشہ کی جنت میں داخل فرمائے گا جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور اس کے محلات بڑے اعلیٰ اور پاکیزہ ہوں گے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ایمان اور جہاد کے بدلے مسلمانوں کو بہت جلد فتح عطا فرمائے گا۔ ٥۔ کفار اور مشرکین کے مقابلے میں دنیا کی کامیابی اور آخرت میں جنت ملنا بہت بڑی خوشخبری اور کامیابی ہے۔ تفسیر بالقرآن جہاد فی سبیل اللہ کی فرضیت اور فضیلت کے چند دلائل : ١۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مومنوں کو جہاد کی ترغیب دیں۔ (الانفال : ٦٥) ٢۔ مظلوم مسلمانوں کے لیے جہاد کریں۔ (النساء : ٧٥) ٣۔ کفارکو ایسی مار مارو کہ ان کے پچھلے بھی بھاگ کھڑے ہوں۔ (الانفال : ٥٧) (النساء : ٩٥) (التوبہ : ٨٨) ٤۔ ان سے لڑائی کرو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے اور خالصتادین اللہ کے لیے ہوجائے۔ (البقرۃ : ١٩٣) ٥۔ تم شیطان کے دوستوں سے لڑائی کرو یقیناً شیطان کی تدبیر کمزور ہے۔ (النساء : ٧٦) (البقرۃ : ٢١٨) ٦۔ مجاہدین کے ساتھ اللہ نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔ (التوبۃ : ١١١) ٧۔ مجاہد اور غیر مجاہد برابر نہیں ہوسکتے۔ (النساء : ٩٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یا یھا الذین ................................ المﺅمنین (٣١) (٦١ : ٠١ تا ٣١) ” اے لوگوں جو ایمان لائے ہو ، میں بتاﺅں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذاب الیم سے بچادے ؟ ایمان لاﺅ اللہ اور اس کے رسول پر ، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو۔ اللہ تمہارے گناہ معاف کردے گا ، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمہیں عطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔ اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو ، وہ بھی تمہیں دے گا ، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح۔ اے نبی اہل ایمان کو اس کی بشارت دے دو “۔ ذرا انداز تعبیر پر غور فرمائیں۔ بعض چیزوں کو باہم ملایا گیا ، بعض کو اپنی جگہ سے دور رکھا گیا ہے ۔ استفہام اور جواب استفہام کے درمیان ایک فاصلہ رکھا گیا ہے۔ بعض چیزوں کو مقدم کیا گیا ہے اور بعض کو موخر کردیا گیا ہے ، ان سب امور کا مقصد صرف یہ ہے کہ یہ پکار اور یہ آواز اچھی طرح لوگوں کے دلوں کے اندر اتر جائے اور اسالیب تعبیر کے تمام ذرائع استعمال کرکے بات کو دلوں تک بلکہ دلوں کی تہوں تک اتارا جائے۔ دیکھئے پکار کا آغاز۔ یایھا الذین امنوا (١٦ : ٠١) سے ہے ، اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اور اس کے بعد اللہ ان سے پوچھتا ہے کہبتاﺅں تمہیں ایسی تجارت ؟ اس سے سامعین کے دلوں میں بھر پور شوق پیدا کیا جاتا ہے۔ ھل ادلکم ........................ عذاب الیم (١٦ : ٠١) ” میں بتاﺅں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذاب الیم سے بچادے ؟ “ اب کون ہے جو اس قسم کی تجارت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے بےتاب نہ ہوگا۔ لیکن یہاں آیت ختم ہوجاتی ہے اور درمیان میں فصل آجاتی ہے۔ استفہام اور جواب استفہام کے درمیان آیت ختم ہوکر وقف آجاتا ہے اور سامع کے دل میں اگلی آیت سننے کے لئے بےتابی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد جواب آتا ہے جبکہ سامعین بےتاب تھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ایسی تجارت کی بشارت جو عذاب الیم سے نجات کا ذریعہ اور جنت ملنے کا وسیلہ ہوجائے ان آیات میں اہل ایمان کو آخرت کی تجارت کی طرف توجہ دلائی ہے دنیا میں کھانے پینے، پہننے اور دیگر ضروریات کے لئے کسب مال کی ضرورت ہوتی ہے جسے بہت سے لوگ تجارت کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں اس میں بہت سے لوگ بہت زیادہ انہماک کرلیتے ہیں موت اور موت کے بعد کے حالات اور آخرت کے اجرو ثواب میں دھیان ہی نہیں دیتے زیادہ مال کی طلب میں ایسے لگتے ہیں کہ آخرت میں کام دینے والے اعمال کو بھول ہی جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ شانہ نے فرمایا کہ اے ایمان والو کیا میں تمہیں ایسی تجارت اور سودا گری نہ بتاؤں جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دیدے، تجارت میں دونوں چیزیں دیکھی جاتی ہیں اول یہ کہ نفع ہو دوسرے یہ کہ نقصان نہ ہو اور دوسری چیز کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے اور یہ مقولہ تو مشہور ہے کہ دفع مضرت جلب منفعت سے بہتر ہے لہٰذا عذاب سے نجات دینے کو پہلے بیان فرمایا بعد میں جنت کے داخلہ کی بشارت دی۔ دونوں چیزوں میں کامیاب ہونے کا یہ راستہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرو۔ یہ عمل تمہارے لئے بہتر ہے جب یہ عمل کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ بھی بخش دے گا (جو عذاب کا سبب ہیں) اور تمہیں ایسے باغوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور عمدہ عمدہ اچھے رہنے کے گھروں میں رہنا نصیب ہوگا جو اقامت کرنے کی جنتوں میں ہوں گے یعنی وہ جنتیں ایسی ہوں گی جہاں رہنا ہی رہنا ہوگا وہاں سے کبھی نکلنا نہ ہوگا اور وہاں سے نکلنا بھی نہ چاہیں گے اسی کو سورة کہف میں فرمایا ﴿ لَا يَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلًا ٠٠١٠٨﴾ اور سورة فاطر میں اہل جنت کا قول نقل فرمایا : ﴿اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَكُوْرُۙ٠٠٣٤ ا۟لَّذِيْۤ اَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِنْ فَضْلِهٖ﴾ (بیشک ہمارا پروردگار غفور ہے شکور ہے جس نے اپنے فضل سے ہمیں رہنے کی جگہ میں نازل فرمایا) ۔ معلوم ہوگیا کہ ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ (جو نفس سے جہاد کرنے کو بھی شامل ہے) عذاب الیم سے بچانے کا بھی ذریعہ ہیں اور جنت دلانے کا بھی دنیا کی تجارت اس منفعت عظیمہ کے سامنے کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتی وہ تو فنا ہونے والی چیز ہے اور گناہوں کے ذریعہ جو دنیا حاصل کی جائے وہ تو آخرت میں وبال بھی ہے اور عذاب بھی لہٰذا مومن بندے آخرت کی تجارت میں لگیں وہاں کی کامیابی سے بڑھ کر کوئی کامیابی نہیں ہے اسی کو فرمایا ﴿ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُۙ٠٠١٢﴾ مفسر قرطبی نے لکھا ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون نے عرض کیا کہ یارسول اللہ اگر مجھے یہ معلوم ہوجاتا کہ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ کونسی تجارت محبوب ہے تو میں وہ تجارت اختیار کرلیتا اس پر آیت بالا ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰى تِجَارَةٍ ﴾ نازل ہوئی سورة توبہ میں اسی تجارت کو ﴿ فَاسْتَبْشِرُوْا۠ بِبَيْعِكُمُ الَّذِيْ بَايَعْتُمْ بِهٖ﴾ اور سورة فاطر میں ﴿ يَّرْجُوْنَ تِجَارَةً لَّنْ تَبُوْرَۙ٠٠٢٩﴾ فرمایا ہے۔ ﴿وَ اُخْرٰى تُحِبُّوْنَهَا﴾ (اور تمہارے لئے ایک نفع کی چیز اور بھی ہے یعنی اللہ کی مدد اور زمانہ قریب میں حاصل ہونے والی فتح) اس میں یہ بتادیا کہ جو مومن اور مجاہد ہوں ان کی تجارت کا نفع صرف آخرت ہی نہیں بلکہ دنیا میں بھی اس کے منافع ملیں گے جنہیں تم پسند کرتے ہو اس میں سے ایک تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوگی اور دوسرے یہ کہ عنقریب فتح نصیب ہوگی، حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا ہے کہ اس سے فارس اور روم کا فتح ہونا مراد ہے اور بعض علماء نے فرمایا ہے کہ فتح مکہ مراد ہے۔ ﴿وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ ٠٠١٣﴾ (اور مومنین کو خوشخبری دے دو ) اس میں دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل ہونے پر پیشگی خوشخبری دی گئی ان بشارتوں کا با رہا ظہور ہوچکا ہے (اگر مسلمان آج مذکورہ تجارت میں لگیں تو پھر مدد اور فتح کا ظہور ہو) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8:۔ ” یا ایہا الذین امنوا “ یہ مومنین سے دوسرا خطاب ہے برائے ترغیب الی القتال۔ مومنو ! کیا میں تمہیں ایسا کاروبار بتاؤ جو تمہیں دردناک عذاب سے بچا لے ؟ وہ یہ ہے کہ تم اللہ کی وحدانیت پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاؤ اور خدا کی راہ میں مال اور جان سے جہاد کرو۔ اگر تم سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہے۔ اس سے اللہ تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور تم کو جنت کے باغوں میں داخل کرے گا جن میں نہریں بہ رہی ہوں گی اور صاف ستھرے مکانات میں داخل فرمائے گا جو بہشت ہائے جاودانی میں تیار ہیں اور آخرت میں دوزخ سے بچ کر ایسے بہشتوں میں داخل ہونا ہی بڑی کامیابی ہے۔ اور ایک اور چیز بھی تمہیں عطاء ہوگی۔ جسے تم پسند کرتے ہو یعنی دنیا میں کفار کے مقابلہ میں تمہیں اللہ کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور بہت جلد تمہاری فتح ہوگی۔ اس کے بعد پیغمبر (علیہ الصلوۃ والسلام) کو مخاطب کر کے فرمایا۔ یہ خوشخبری مومنوں کو سنا دو ۔ ” واخری “ سے دنیا میں فتح و نصرت مراد ہے۔ ولکم خلۃ اخری سوی ذلک فی الدنیا، نصر من اللہ لکم علی اعداء کم و فتح قریب یعجلہ لکم (طبری ج 28 ص 91) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(10) اے ایمان والو ! کیا میں تم کو ایسی سوداگری اور ایسی تجارت بتائوں جو تم کو ایک دردناک عذاب سے بچا لے۔ یعنی ایسی تجارت اور ایسا کاروبار جو تم کو دوزخ کے عذاب سے نجات دلادے اور جہنم کے دردناک عذاب سے تم کو چھڑا دے۔