يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ ﴿٢﴾ كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّـهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ ﴿٣﴾ (0 those who believe, why do you say what you do not do? It is severely hateful in Allah&s sight that you say what you do not do...61:2-3) Apparently, the phrase &what you do not do& implies that one should not claim to do something he does not intend to do. From this it may be deduced that it is prohibited to make a commitment to do a work while a person does not have the genuine intention to really do it, because this would be ostentation and a false commitment. Obviously, the blessed Companions, in the story of the background of revelation, were not making such promises without having intention to fulfill them. Instead, their intention was genuine. From this we learn that the verse includes a situation where a person commits to do something with true intention to do it, but relies solely on his own strength, it is not in keeping with his station of ` abdiyyah or &servitude&. First of all, there is no need to make such a claim. If the occasion does arise to do something, he may go ahead and do it. If, for some reason or the other, a person has to make a promise or claim, he may affirm it by saying &If Allah wills&. In this way, it would not be a boastful claim. Ruling It follows from the above discussion that if a person claims that he will do something in future but has no intention to do it, it is a major sin (kabirah) and a cause of incurring Allah&s wrath. The sentence: كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّـهِ |"It is severely hateful in Allah&s sight that you say what you do not do....[ 61:3] |" applies to this situation. However, in a situation where one makes a claim to do something in future with real intention to do it, it is makruh [ reprehensible ] and forbidden only if he makes the claim relying on his own strength and ability. Difference between a Claim (Da` wa) and Preaching (Da&wah) It is learnt from the foregoing discussion that these verses are related to false claims (Da` wa) to do something in future without intention to do it, which incurs Divine displeasure and indignation. This verse is not related to a situation where a preacher invites others to do something, while he himself does not do it. The rules of this situation are mentioned in other verses and Ahadith. For example: أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ , (Do you bid others to righteousness while you ignore your own selves) [ 2:44] This verse puts to shame such preachers who do not practice what they preach. The import of this verse is that when they are preaching to others, they should preach to themselves with greater force, and if they are calling other people to do good deeds, they too should practice them. All this does not imply that if a person has been lax in the performance of good deeds, he should abandon preaching to others. Or if he has been indulging in any kind of sin, he should not forbid others from indulging in such sins. It needs to be borne in mind that the performance of a righteous deed is one form of virtue, and urging others to perform this righteous deed is another form of virtue in its own right. Obviously, if one has abandoned one form of virtue, it does not necessarily follow that he should abandon the other form as well. It is possible that through the blessing of the preachment, the preacher might develop the ability to perform the righteous deed. This has been experienced widely and on a large scale. However, if the deed belongs to the category of wajib or sunnah mu&akkadah, it is obligatory, in the light of the verses, to continuously show remorse and regret on one&s not practicing it. And if the action belongs to the category of mustahabbat, it is mustahab [ rewardable ] to show remorse and regret.
اس سورة نے یہ بھی بتلا دیا کہ احب الاعمال جس کی تلاش میں یہ حضرات تھے وہ جہاد فی سبیل اللہ ہے اور ساتھ ہی ان حضرات نے جو ایسے کلمات کہے تھے کہ اگر ہمیں معلوم ہوجائے تو ہم اس پر عمل کرنے میں ایسی ایسی جانبازی دکھائیں وغیرہ جن میں ایک قسم کا دعویٰ ہے کہ ہم ایسا کرسکتے ہیں، اس پر ان حضرات کو تنبیہ کی گئی کہ کسی مومن کے لئے ایسے دعوے کرنا درست نہیں، اسے کیا معلوم ہے کہ وقت پر وہ اپنے ارادے کو پورا کر بھی سکے گا یا نہیں، اس کے اسباب کا جمع ہونا اور موانع کا زائل ہونا اس کے اختیار میں نہیں، پھر خود اس کے دست وبازو اور اعضاء وجوارح بلکہ قلبی عزم و ارادہ ان میں سے کوئی چیز بھی بالکلیہ اس کے قبضہ میں نہیں اسی لئے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی قرآن کریم میں یہ تلقین کی گئی ہے کہ جو کام آپ کو آئندہ کل میں کرنا ہو اگر اس کو بیان کرنا ہے تو انشاء اللہ کی قید کے ساتھ بیان کرو کہ اگر اللہ نے چاہا تو میں کل فلاں کام کروں گا (آیت) (لاتقولن لشای انی فاعل ذلک غدا الاان یشآء اللہ) صحابہ کرام کی نیت و قصد خواہ دعوے کا نہ ہو مگر صورت دعویٰ کی تھی وہ اللہ کے نزدیک پسند نہیں کہ کوئی شخص کسی کام کے کرنے کا دعویٰ کرے بجز اس کے کہ اس کو اللہ کی مشیت کے حوالہ کرے اور انشاء اللہ ساتھ کہے، اس تنبیہ کیلئے یہ آیات نازل ہوئیں۔ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْن۔ مالا تفعلون کے ظاہری معنی تو یہ ہیں کہ جو کام تمہیں کرنا نہیں ہے اس کا دعویٰ کیوں کرتے ہو، جس سے ایسے کام کے دعوے کی ممانعت تو واضح ہو ہی گئی جس کو کرنے کا عزم و ارادہ ہی انسان کے دل میں نہ ہو کیونکہ یہ تو محض ایک جھوٹا دعویٰ ہے نام و نمود وغیرہ کے لئے ہوسکتا ہے مگر ظاہر ہے کہ شان نزول کے واقعہ میں جن صحابہ نے مذاکرہ کیا وہ ایسے نہ تھے کہ دل میں کچھ کرنے کا ارادہ ہی نہ ہو اور دعویٰ کریں، اس لئے اس کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ اگرچہ دل میں عزم و ارادہ کام کرنے کا ہو پھر بھی اپنے نفس پر بھروسہ کر کے دعویٰ کرنا کہ ہم فلاں کام کریں گے شان عبدیت کے خلاف ہے، اول تو اس کے کہنے ہی کی کیا ضرورت ہے جب موقع ملے کر گزرنا چاہئے اور کسی مصلحت سے کہنا بھی پڑے تو اس کو انشاء اللہ کے ساتھ مقید کر دے تو پھر وہ دعویٰ نہیں رہے گا۔ مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ ایسے کام کا دعویٰ کرنا جس کے کرنے کا ارادہ ہی نہ ہو اور اس کو کرنا ہی نہ ہو یہ تو گناہ کبیرہ اور اللہ کی سخت ناراضی کا سبب ہے، کبر مقتا عند اللہ کا مصداق یہی ہے اور جہاں یہ صورت نہ ہو بلکہ ارادہ کرنے کا ہو وہاں بھی اپنی قوت وقدرت پر بھروسہ کر کے دعویٰ کرنا ممنوع و مکروہ ہے۔ دعویٰ اور دعوت میں فرق : مذکورہ تفسیر سے یہ معلوم ہوگیا کہ ان آیات کا تعلق دعوے سے ہے کہ جو کام آدمی کو کرنا نہیں ہے اس کا دعویٰ کرنا اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب ہے، رہا معاملہ دعوت و تبلیغ اور وعظ و نصیحت کا کہ جو کام آدمی خود نہیں کرتا اس کی نصیحت دوسروں کو کرے اور اس کی طرف دوسرے مسلمانوں کو دعوت دے، وہ اس آیت کے مفہوم میں تو شامل نہیں، اس کے احکام دوسری آیات اور احادیث میں مذکور ہیں، مثلاً قرآن کریم نے فرمایا (آیت) اتامرون الناس بالبر و تنسون انفسکم، یعنی تم لوگوں کو تو نیک کام کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھلا دیتے ہو کہ خود اس نیکی پر عمل نہیں کرتے۔ اس آیت نے امر بالمعروف اور وعظ و نصیحت کرنے والوں کو اس بات پر شرمندہ کیا ہے کہ لوگوں کو ایک نیک کام کی دعوت دو اور خود اس پر عمل نہ کرو اور مقصد یہ ہے کہ جب دوسروں کو نصیحت کرتے ہو تو خود اپنے آپ کو نصیحت کرنا اس سے مقدم ہے جس کام کی طرف لوگوں کو بلاتے ہو خود بھی اس پر عمل کرو۔ لیکن یہ نہیں فرمایا کہ جب خود نہیں کرتے تو دوسروں کو کہنا بھی چھوڑ دو ، اس سے معلوم ہوا کہ جس نیک کام کے خود کرنے کی ہمت و توفیق نہیں ہے اس کی طرف دوسروں کو بلانے اور نصیحت کرنے کا سلسلہ نہ چھوڑے، امید ہے کہ اس وعظ و نصیحت کی برکت سے کسی وقت اس کو بھی عمل کی توفیق ہوجاوے، جیسا کہ بکثرت تجربہ و مشاہدہ میں آیا ہے، البتہ اگر وہ عمل واجب یا سنت مؤ کدہ کے درجہ میں ہو تو آیات مذکورہ پر نظر کر کے اپنے نفس میں نادم و شرمندہ ہونے کا سلسلہ جاری رکھنا بھی واجب ہے اور اگر مستحبات کے متعلق ہے تو یہ سلسلہ ندامت بھی مستحب ہے۔