Surat ul Munfiqoon

Surah: 63

Verse: 10

سورة المنافقون

وَ اَنۡفِقُوۡا مِنۡ مَّا رَزَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ فَیَقُوۡلَ رَبِّ لَوۡ لَاۤ اَخَّرۡتَنِیۡۤ اِلٰۤی اَجَلٍ قَرِیۡبٍ ۙ فَاَصَّدَّقَ وَ اَکُنۡ مِّنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۱۰﴾

And spend [in the way of Allah ] from what We have provided you before death approaches one of you and he says, "My Lord, if only You would delay me for a brief term so I would give charity and be among the righteous."

اور جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے ( ہماری راہ میں ) اس سے پہلے خرچ کرو کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے تو کہنے لگے اے میرے پروردگار مجھے تو تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتا؟ کہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں سےہو جاؤں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And spend of that with which We have provided you before death comes to one of you, and he says: "My Lord! If only You would give me respite for a little while, then I should give Sadaqah from my wealth, and be among the righteous. Surely, every person who fell into shortcomings will regret it by the time of his death and will ask for respite, even a short period, so that he does better and attains what he missed. No, rather what occurred, has occurred and what is coming, shall indeed come. Each will be held accountable for his mistakes. As for the disbelievers, they will be as Allah said about them, وَأَنذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَأْتِيهِمُ الْعَذَابُ فَيَقُولُ الَّذِينَ ظَلَمُواْ رَبَّنَأ أَخِّرْنَأ إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ نُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ أَوَلَمْ تَكُونُواْ أَقْسَمْتُمْ مِّن قَبْلُ مَا لَكُمْ مِّن زَوَالٍ And warn mankind of the Day when the torment will come unto them; then the wrongdoers will say: "Our Lord! Respite us for a little while, we will answer Your call and follow the Messengers!" (It will be said): "Had you not sworn aforetime that you would not leave." (14:44), and, حَتَّى إِذَا جَأءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ لَعَلِّى أَعْمَلُ صَـلِحاً فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَأيِلُهَا وَمِن وَرَايِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ Until, when death comes to one of them, he says: "My Lord! send me back. So that I may do good in that which I have left behind!" No! It is but a word that he speaks; and behind them is Barzakh (a barrier) until the Day when they will be resurrected. (23:99-100) Then Allah said;

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

10۔ 1 خرچ کرنے سے مراد زکوٰۃ کی ادائیگی اور دیگر امور خیر میں خرچ کرنا ہے۔ 10۔ 2 اس سے معلوم ہوا کہ زکواۃ کی ادائیگی اور انفاق فی سبیل اللہ میں اور اسی طرح اگر حج کی استطاعت ہو تو اس کی ادائیگی میں قطعا تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ موت کا کوئی پتہ نہیں کس وقت آجائے ؟ اور یہ فرائض اس کے ذمے رہ جائیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥] افضل ترین صدقہ وہ ہے جو اپنی ضروریات کے علی الرغم کیا جائے :۔ بخل یا شحّ اور ایمان دو متضاد چیزیں ہیں۔ جو ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتیں۔ بخل دراصل نفاق کی علامت ہے ایمان کی نہیں۔ بخیل آدمی ساری عمر پیسہ جوڑنے میں گزار دیتا ہے۔ کسی وقت بھی مال کی محبت اس کے دل سے جدا نہیں ہوتی بلکہ بڑھاپے میں اور زیادہ بڑھنے لگتی ہے۔ پھر جب موت سر پر کھڑی ہوتی ہے اور اسے یہ یقین ہوجاتا ہے کہ اب مجھے یہ مال و دولت چھوڑ چھاڑ کر خالی ہاتھ جانا پڑے گا اس وقت البتہ اس کا جی چاہتا ہے کہ صدقہ کرکے اپنے مال سے جتنا زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے اٹھا لوں۔ اس وقت بھی اس کا اصل مقصد کسی محتاج کی احتیاج دور کرنا نہیں ہوتا۔ بلکہ && بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی && کے مصداق وہ جبراً جدا ہونے والے مال سے صدقہ کرکے ثواب حاصل کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ اس وقت صدقہ کرنے کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ چناچہ ایک دفعہ ایک آدمی نے آپ سے پوچھا : یارسول اللہ ! اجر کے لحاظ سے کون سا صدقہ بڑا ہے ؟ && آپ نے فرمایا : && جو تو تندرستی کی حالت میں کرے، حرص رکھتا ہو، فقر سے ڈرتا ہو اور دولت کی امید رکھتا ہو لہذا صدقہ کرنے میں جلدی کر۔ ایسا نہ ہو کہ جان لبوں پر آجائے تو کہنے لگے کہ اتنا مال فلاں کو دے دو ۔ اور اتنا فلاں کو۔ حالانکہ اس وقت یہ مال اس کا نہیں بلکہ اس کے وارثوں کا ہوتا ہے && (مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب ان افضل الصدقۃ۔۔ ) ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اعمال صالحہ میں صدقات کو خصوصی اہمیت ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ وَ اَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰـکُمْ ۔۔۔۔۔:” من ما رزقنکم “ کی تفسیر کے لیے دیکھئے سورة ٔ بقرہ کی تیسری آیت کی تفسیر ۔ نفاق سے محفوظ رہنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی عطاء کردہ نعمتوں میں سے جتنا ہو سکے مرنے سے پہلے خرچ کرنے کا حکم دیا۔ ٢۔ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ ۔۔۔۔: یعنی مرتے وقت یہ دعا اور تمنا کرنا بےکار ہے ، عقل مند کا کام یہ ہے کہ مہلت سے فائدہ اٹھائے اور مرنے سے پہلے آخرت کا سامان تیا ر کرے۔ دیکھئے سورة ٔ ابراہیم ( ٤٤) اور سورة ٔ مومنون (٩٩، ١٠٠) ۔ ٣۔ فَاَصَّدَّقَ وَاَکُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ :” فاصدق “ اصل میں ” فاتصدق “ ہے ، اس پر نصب اس لیے آیا ہے کہ یہ ” لولا “ کے جواب میں ہے جو تحضیض کے لیے ہے اور اس میں طلب اور شرط کا مفہوم پایا جاتا ہے اور اس پر ” فائ “ آرہی ہے جس کے بعد ” ان “ ناصبہ مقدر ہے اور ” اکن “ مجزوم اس لیے ہے کہ اس کا عطب جواب شرط کے محل پر ہے اور اس پر ” فائ “ نہیں آرہی ، گویا اصل کلام اس طرح ہے :” رب اخرنی الی اجل قریب فان اخرتنی اتصدق واکن من الصالحین “۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَأَنفِقُوا مِن مَّا رَ‌زَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ (And spend out of what We have given to you before death comes to one of you…63:10) ‘Coming of death’ in this verse refers to ‘witnessing the signs of death’. The verse exhorts the believers to make the best of their opportunities to spend in the way of Allah, in the state of good health and strength, before the signs of death appear, and thus they should have their degrees of rank elevated in the Hereafter. Once death overtakes them the opportunity to spend will be lost, and the wealth will be of no use. Earlier on it was learned that the word dhikr (remembrance of Allah) refers to all forms of obedience and following the dictates of Shari’ ah, which include spending wealth as due. Despite that, spending wealth as due. Despite that, spending wealth on this occasion has been mentioned separately. There may be two reasons for it: Firstly, one of the major objects that divert man from acting upon the sacred laws of shari’ ah is wealth. Therefore, spending wealth, in the form of Zakah, ‘Ushr, Hajj and so on, is specifically mentioned. Secondly, when a person sees the signs of death, it is not in his power to perform his missed prayers, or his missed Hajj, Ramadhan fasts. However, the wealth is in front of him, and he is sure that soon it will slip out of his hand. So he may spend the wealth to compensate his shortfalls in worship and so attain salvation from such shortcomings. Furthermore, charity [ sadaqah ] is efficacious in averting calamities and punishment. Sahih of Bukahri and Muslim record on the authority of Sayyidna Abu Hurairah (رض) that a person asked the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : “ Which sadaqah attracts most reward?” The Messenger of Allah replied: “ To spend in Allah’ s way when a person is in a state of good health, and yet he fears, in view of future needs, that if he spends the wealth he may become poor.” Then he continued: “ Do not delay spending in Allah’ s way until such time when your death reaches your throat, and at that moment you instruct (your heirs), ‘Give this much to so-and-so and give this much for such and such work.”’ فَيَقُولَ رَ‌بِّ لَوْلَا أَخَّرْ‌تَنِي إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِ‌يبٍ (…and he says, “ My Lord, would you not respite me to a near term, and I will pay sadaqah (alms) and will become one of the righteous…63:10). Sayyidna Ibn ‘Abbas (رض) says, in the interpretation of this verse, that if Zakah was due on a person and he failed to pay it, and Hajj was obligatory and he failed to perform it, he will express this desire when death approaches him. He will want a little more time so that he can give sadaqah and أَكُن مِّنَ الصَّالِحِينَ ‘become one of the righteous’ [ 10] In other words, he will also desire that he is given a little more time so that he may act righteously by fulfilling his obligations that he has missed out and repent and ask pardon for the forbidden and abominable acts he might have indulged in. but Allah makes it clear in the next verse that once his time has come, He (Allah) will not give any more time to anyone. This desire at that stage is futile. Al-Hamdullah The commentary on Surah Al-Munafiqun Ends here

(آیت) وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ ، اس آیت میں موت کے آجانے سے مراد موت کے آثار کا مشاہدہ ہے اور مراد یہ ہے کہ موت کے آثار سامنے آنے سے پہلے صحت و قوت کی حالت میں اپنے اموال اللہ کی راہ میں خرچ کر کے آخرت کے درجات حاصل کرلو، ورنہ موت کے بعد یہ مال وغیرہ تمہارے کچھ کام نہ آئے گا، اوپر معلوم ہوچکا ہے کہ ذکر سے مراد تمام طاعات اور احکام شرعی کی پابندی ہے جس میں ضرورت کے مواقع پر مال خرچ کرنا بھی داخل ہے پھر یہاں صرف انفاق مال کو جدا کر کے بیان کرنے کی دو وجہ ہو سکتی ہیں، اول یہ کہ اللہ اور اس کے احکام کی تعمیل سے انسان کو غفلت میں ڈالنے والی سب سے بڑی چیز مال ہی ہے، اس لئے جن چیزوں میں مال خرچ کرنا ہوتا ہے جیسے زکوٰة، عشر، حج وغیرہ ان کو مستقلاً بیان کردیا، دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ موت کے آثار کا مشاہدہ ہونے کے وقت یہ تو نہ کسی کے بس میں ہے نہ کسی کو اس کا تصور ہوسکتا ہے کہ اس وقت قضاء شدہ نمازیں ادا کروں یا فوت شدہ حج فرض ادا کروں یا رمضان کے فوت شدہ روزے رکھوں مگر مال سامنے ہوتا ہے اور یہ یقین ہو ہی جاتا ہے کہ اب یہ مال میرے ہاتھ سے چلا، تو اس وقت بھی تمنا ہو سکتی ہے کہ جلد سے جلد مال کو خرچ کر کے مالی عبادات کی کوتاہی سے نجات حاصل کرلیں، نیز یہ کہ صدقہ تمام دوسری بلاؤں اور عذاب کے ٹلا دینے میں بھی موثر ہے۔ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ کونسا صدقہ سب سے زیادہ اجر وثواب رکھتا ہے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایسے وقت اللہ کی راہ میں خرچ کرنا جب کہ انسان تندرست ہو اور اپنی آئندہ ضروریات کے پیش نظر یہ خوف بھی ہو کہ مال خرچ کر ڈالا تو کہیں بعد میں خود محتاج نہ ہوجاؤں اور فرمایا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو اس وقت تک نہ ٹلاؤ جب تک کہ روح تمہارے حلق میں آجائے اور مرنے لگو تو اس وقت کہو کہ اتنا مال فلاں کو دے دواتنا فلاں کام میں خرچ کردو۔ (آیت) فَيَقُوْلَ رَبِّ لَوْلَآ اَخَّرْتَنِيْٓ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ ، حضرت ابن عباس نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ جس شخص کے ذمہ زکوٰة واجب تھی اور ادا نہیں کی یا حج فرض تھا اور ادا نہیں کیا وہ موت سامنے آجانے کے بعد اللہ تعالیٰ سے اس کی تمنا کرے گا کہ میں پھر دنیا کی طرف لوٹ جاؤ ں، یعنی موت میں اور کچھ مہلت مل جائے تاکہ میں صدقہ و خیرات کرلوں اور فرائض سے سبکدوش ہوجاؤں وَاَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِين، یعنی وہ مرنے کے وقت یہ بھی تمنا کرے گا کہ کچھ مہلت مل جائے تو ایسے اعمال کرلوں جن کی وجہ سے صالحین میں داخل ہوجاؤں یعنی جو فرائض و واجبات چھوٹے ہیں ان کو قضا کرلوں، جن محرمات و مکروہات میں مبتلا ہوا ہوں ان سے توبہ و استغفار کر کے بیباق ہوجاؤں، مگر حق تعالیٰ نے اگلی آیت میں بتلا دیا کہ موت کے آجانے کے بعد کسی کو مہلت نہیں جی جاتی یہ تمنائیں لغو و فضول ہیں۔ تمت بحمد اللہ تعالیٰ سورة المنافقون قبل صلوٰة الجمعتہ للثالث عشر من جمادی الثانیتہ س 1391 ھ

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَيَقُوْلَ رَبِّ لَوْلَآ اَخَّرْتَنِيْٓ اِلٰٓى اَجَلٍ قَرِيْبٍ۝ ٠ ۙ فَاَصَّدَّقَ وَاَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ۝ ١٠ نفق نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] ( ن ف ق ) نفق ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعرأتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته ويقال للسقاء إذا مخض وجاء زبده : قد جاء أتوه، وتحقیقه : جاء ما من شأنه أن يأتي منه، فهو مصدر في معنی الفاعل . وهذه أرض کثيرة الإتاء أي : الرّيع، وقوله تعالی: مَأْتِيًّا[ مریم/ 61] مفعول من أتيته . قال بعضهم معناه : آتیا، فجعل المفعول فاعلًا، ولیس کذلک بل يقال : أتيت الأمر وأتاني الأمر، ويقال : أتيته بکذا وآتیته كذا . قال تعالی: وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] .[ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . والإِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] . ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ ارض کثیرۃ الاباء ۔ زرخیز زمین جس میں بکثرت پیداوار ہو اور آیت کریمہ : {إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا } [ مریم : 61] بیشک اس کا وعدہ آیا ہوا ہے ) میں ماتیا ( فعل ) اتیتہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں ماتیا بمعنی آتیا ہے ( یعنی مفعول بمعنی فاعل ) ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ محاورہ میں اتیت الامر واتانی الامر دونوں طرح بولا جاتا ہے اتیتہ بکذا واتیتہ کذا ۔ کے معنی کوئی چیز لانا یا دینا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ «لَوْلَا» يجيء علی وجهين : أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] . والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن . ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ أخر ( تاخیر) والتأخير مقابل للتقدیم، قال تعالی: بِما قَدَّمَ وَأَخَّرَ [ القیامة/ 13] ، ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَما تَأَخَّرَ [ الفتح/ 2] ، إِنَّما يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصارُ [إبراهيم/ 42] ، رَبَّنا أَخِّرْنا إِلى أَجَلٍ قَرِيبٍ [إبراهيم/ 44] ( اخ ر ) اخر التاخیر یہ تقدیم کی ضد ہے ( یعنی پیچھے کرنا چھوڑنا ۔ چناچہ فرمایا :۔ { بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ } ( سورة القیامة 13) جو عمل اس نے آگے بھیجے اور جو پیچھے چھوڑے ۔ { مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ } ( سورة الفتح 2) تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ { إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ } ( سورة إِبراهيم 42) وہ ان کو اس دن تک مہلت دے رہا ہے جب کہ دہشت کے سبب آنکھیں کھلی کی کھلی ۔ رہ جائیں گی ۔ { رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ } ( سورة إِبراهيم 44) اسے ہمارے پروردگار ہمیں تھوڑی سی مہلت عطا کر إلى إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، وأَلَوْتُ في الأمر : قصّرت فيه، هو منه، كأنه رأى فيه الانتهاء، وأَلَوْتُ فلانا، أي : أولیته تقصیرا نحو : کسبته، أي : أولیته کسبا، وما ألوته جهدا، أي : ما أولیته تقصیرا بحسب الجهد، فقولک : «جهدا» تمييز، وکذلك : ما ألوته نصحا . وقوله تعالی: لا يَأْلُونَكُمْ خَبالًا[ آل عمران/ 118] منه، أي : لا يقصّرون في جلب الخبال، وقال تعالی: وَلا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ [ النور/ 22] قيل : هو يفتعل من ألوت، وقیل : هو من : آلیت : حلفت . وقیل : نزل ذلک في أبي بكر، وکان قد حلف علی مسطح أن يزوي عنه فضله وردّ هذا بعضهم بأنّ افتعل قلّما يبنی من «أفعل» ، إنما يبنی من «فعل» ، وذلک مثل : کسبت واکتسبت، وصنعت واصطنعت، ورأيت وارتأيت . وروي : «لا دریت ولا ائتلیت»وذلک : افتعلت من قولک : ما ألوته شيئا، كأنه قيل : ولا استطعت . الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے ۔ ( ا ل و ) الوت فی الامر کے معنی ہیں کسی کام میں کو تا ہی کرنا گو یا کوتاہی کرنے والا سمجھتا ہے کہ اس امر کی انتہا یہی ہے ۔ اور الوت فلانا کے معنی اولیتہ تقصیرا ( میں نے اس کوتاہی کا والی بنا دیا ) کے ہیں جیسے کسبتہ ای اولیتہ کسبا ( میں نے اسے کسب کا ولی بنا دیا ) ماالوتہ جھدا میں نے مقدر پھر اس سے کوتاہی نہیں کی اس میں جھدا تمیز ہے جس طرح ماالوتہ نصحا میں نصحا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا } ( سورة آل عمران 118) یعنی یہ لوگ تمہاری خرابی چاہنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے ۔ اور آیت کریمہ :{ وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ } ( سورة النور 22) اور جو لوگ تم میں سے صاحب فضل داور صاحب وسعت ) ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ الوت سے باب افتعال ہے اور بعض نے الیت بمعنی حلفت سے مانا ہے اور کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے متعلق نازل ہوئی تھی جب کہ انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ آئندہ مسطح کی مالی امداد نہیں کریں گے ۔ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل ( مجرد ) سے بنایا جاتا ہے جیسے :۔ کبت سے اکتسبت اور صنعت سے اصطنعت اور رایت سے ارتایت اور روایت (12) لا دریت ولا ائتلیت میں بھی ماالوتہ شئیا سے افتعال کا صیغہ ہے ۔ گویا اس کے معنی ولا استطعت کے ہیں ( یعنی تونے نہ جانا اور نہ تجھے اس کی استطاعت ہوئ ) اصل میں أجل الأَجَل : المدّة المضروبة للشیء، قال تعالی: لِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى [ غافر/ 67] ، أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ [ القصص/ 28] . ( ا ج ل ) الاجل ۔ کے معنی کسی چیز کی مدت مقررہ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ { وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى } [ غافر : 67] اور تاکہ تم ( موت کے ) وقت مقررہ تک پہنچ جاؤ ۔ قرب الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] ، وَلا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام/ 152] ، وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء/ 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة/ 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة/ 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة/ 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات/ 27] . وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء/ 1] ، ( ق ر ب ) القرب القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ وَلا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام/ 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء/ 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة/ 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة/ 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات/ 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء/ 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔ صدقه والصَّدَقَةُ : ما يخرجه الإنسان من ماله علی وجه القربة کالزّكاة، لکن الصدّقة في الأصل تقال للمتطوّع به، والزّكاة للواجب، وقد يسمّى الواجب صدقة إذا تحرّى صاحبها الصّدق في فعله . قال : خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة/ 103] ، وقال :إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة/ 60 ( ص دق) الصدقۃ ( خیرات ) ہر وہ چیز جو انسان اپنے مال سے قرب الہی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے اور یہی معنی زکوۃ کے ہیں مگر صدقۃ اسے کہتے ہیں جو واجب نہ ہو ۔ اور کبھی واجب کو بھی صدقۃ سے موسوم کردیا جاتا ہے ۔ جب کہ خیرات دینے والا اس سے صدق یعنی صلاح وتقوی کا قصد کرے قرآن میں ہے : ۔ خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً [ التوبة/ 103] ان کے مال میں سے زکوۃ قبول کرلو ۔ إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ [ التوبة/ 60] صدقات ( یعنی زکوۃ و خیرات ) تو مفلسوں کا حق ہے ۔ صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

جو شخص اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرنے میں کوتاہی کرتا ہے اس کا حکم قول باری ہے (وانفقوا مما رزقنا کم میں قبل ان یاتی احدکم الموت جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے) تاآخر آیت۔ عبدالرزاق نے روایت کی ہے، انہیں سفیان نے ابوحباب سے، انہوں نے ابوالضحیٰ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے فرمایا : (من کان لہ مال تجب فیہ الزکوٰۃ ومال یبلغہ بین اللہ ثم لم یحج ولم یزک سائل الرجعۃ ، جس شخص کے مال میں زکوٰۃ واجب ہو یا حج پر جانے کے لئے رقم ہو پھر وہ حج پر نہ جائے یا اپنے مال کی زکوٰۃ ادانہ کرے تو مرنے کے بعد وہ اللہ تعالیٰ سے یہ استدعا کرے گا کہ اسے واپس دنیا میں بھیج دیا جائے) پھر آپ نے مذکورہ بالا آیت کی تلاوت فرمائی ۔ یہ روایت حضرت ابن عباس (رض) سے موقوفاً بھی مروی ہے۔ تاہم آیت اس بات پر واضح طور سے دلالت کررہی ہے کہ موت کی وجہ سے زکوٰۃ کی ادائیگی میں تفریظ اور کوتاہی وقوع پذیر ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اگر مرنے والے کو کوتاہی کرنے والا نہ قرار دیا جاتا اور اس کی موت کے بعد اس کے مال سے زکوٰۃ کی ادائیگی واجب ہوتی تو یہ زکوٰۃ اس کے مال کی طرف منتقل ہوجاتی اور اس کے ورثاء پر اس کی ادائیگی لازم ہوجاتی۔ لیکن جب مرنے والے نے اللہ تعالیٰ سے اسے دنیا میں واپس بھیج دینے کی استدعا کی تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ زکوٰۃ کی ادائیگی اس سے فوت ہوگئی ہے اور یہ ادائیگی اس کے متروکہ مال کی طرف منتقل نہیں ہوتی ہے اور اس اب کے ترکہ میں یہ زکوٰۃ وصول نہیں جائے گی الا یہ کہ اس کے ورثاء تبرع کے طور پر اس کی طرف سے زکوٰۃ ادا کریں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠۔ ١١) اور جو کچھ ہم نے تمہیں مال دیا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے رستہ میں اس سے پہلے خرچ کرو یا یہ کہ زکوٰۃ دو کہ تم میں سے کسی کی موت آکھڑی اور پھر وہ کہنے لگے کہ دنیا کی موت کی طرح مجھ کو اور مہلت کیوں نہ دی کہ میں اپنے مال کی خیر خیرات دے لیتا اور اس مال سے حج کر کے میں بھی حاجیوں میں سے ہوجاتا۔ یا ایھا الذین امنوا سے یہاں تک یہ آیت منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ہے تو فاصدق کی تفسیر اگر منافقین کے ساتھ کی جائے تو یہ مطلب ہوگا کہ میں یہی سچا ایمان اختیار کرلیتا اور سچے مومنوں کی طرح اپنے مال کو خیرات کردیتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠{ وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰــکُمْ مِّنْ قَـبْلِ اَنْ یَّــاْتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ } ” اور خرچ کر دو اس میں سے جو کچھ ہم نے تمہیں دیا ہے اس سے پہلے پہلے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے “ { فَـیَـقُوْلَ رَبِّ لَــوْلَآ اَخَّرْتَنِیْ اِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍلا فَاَصَّدَّقَ وَاَکُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ ۔ } ” پھر وہ اس وقت کہے کہ اے میرے رب ! تو نے مجھے ایک قریب وقت تک کیوں مہلت نہ دی کہ میں صدقہ کرتا اور نیک لوگوں میں سے ہوجاتا ! “ گویا نفاق کی بیماری کا بالمثل علاج انفاق ہے۔ سورة الحدید کی آیت ١٨ کے تحت وضاحت کی جا چکی ہے کہ مال کی محبت کو دل سے نکالنے کے لیے دل کی زمین میں ” انفاق “ کا ہل چلانا پڑتا ہے اور جو لوگ یہ ہل چلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اصل کامیابی انہی کے حصے میں آتی ہے : { اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَالْمُصَّدِّقٰتِ وَاَقْرَضُوا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَھُمْ وَلَھُمْ اَجْرٌ کَرِیْمٌ ۔ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ صلے وَالشُّھَدَآئُ عِنْدَ رَبِّھِمْ …} ” یقینا صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور جو اللہ کو قرض حسنہ دیں ‘ ان کو کئی گنا بڑھا کر دیاجائے گا اور ان کے لیے بڑا باعزت اجر ہوگا۔ اور جو لوگ ایمان لائے اللہ پر اور اس کے رسولوں پر انہی میں سے صدیق اور شہداء ہوں گے اپنے رب کے پاس…“ زیر مطالعہ آیت میں نقشہ کھینچا گیا ہے کہ ایک بڑا حسرت کا وقت آئے گا جب انسان کف ِافسوس ملے گا کہ اے کاش ! میں اس مال کو اللہ کی راہ میں صدقہ کرسکتا۔ آج یہ لوگ دونوں ہاتھوں سے مال جمع کر رہے ہیں اور گھروں کی آرائش و زیبائش پر بےتحاشا خرچ کر رہے ہیں ‘ لیکن ایک وقت آئے گا جب اہل و عیال ‘ عزیز و اقارب ‘ مال و دولت اور جائیداد ‘ سب کو چھوڑ کر یہاں سے جانا ہوگا۔ اس وقت انسان حسرت سے کہے گا کہ پروردگار ! کیوں نہ تو نے مجھے ذرا اور مہلت دے دی ! تو اگر ذرا اس وقت کو ٹال دے تو پھر میں یہ سب کچھ تیری راہ میں لٹا دوں ‘ سارا مال صدقہ کر دوں اور میں بالکل سچائی اور نیکوکاری کی راہ اختیار کرلوں۔ لیکن اس وقت اس حسرت کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ اللہ کی یہ سنت ِثابتہ ہے کہ جب کسی کا وقت معین آجائے تو پھر اسے موخر نہیں کیا جاتا !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(63:10) انفقوا۔ فعل امر جمع مذکر حاضر انفاق (افعال) مصدر۔ تم خرچ کرو۔ مما رزقنکم : رزقنا ماضی جمع متکلم رزق (باب نصر) مصدر۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ اور خرچ کرلو اس رزق میں سے جو ہم نے تم کو دیا۔ من قبل : اس سے پہلے۔ ان یاتی : ان مصدریہ ، یاتی مضارع منصوب (بوجہ عمل ان) واحد مذکر غائب کہ آجائے۔ احدکم : احد مفعول فعل یاتی کا۔ مضاف۔ کم ضمیر جمع مذکر حاضر مضاف الیہ کہ آجائے تم میں سے کسی ایک کو موت۔ فیقول : ف جواب امر کے لئے ۔ یقول مضارع منصوب بوجہ عمل ف جو جواب امر (وھو افقوا) میں واقع ہوئی ہے۔ تو پھر کہنے لگے۔ رب : ای یا ربی۔ لولا۔ حرف تخضیض ہے۔ جس کا معنی فعل پر ابھارنا۔ برانگیختہ کرنا ہے۔ کیوں نہ ۔ اخرتنی : اخرت ماضٰ واحد مذکر حاضر۔ تاخیر (تفعیل) مصدر بمعنی دیر کرنا ڈھیل دینا۔ ن وقایہ ی ضمیر مفعول واحد متکلم۔ تو نے مجھ کو ڈھیل دی۔ تو نے مجھے مہلت دی۔ الی اجل : الی حرف جار اجل مجرور۔ اجل موت ، مدت، مہلت۔ موصوف۔ قریب صفت۔ نزدیک ، کچھ۔ تھوڑی، الی اجل قریب تھوڑی سی مدت تک۔ فاصدق : ف علت کا ہے لولا کے جواب میں واقع ہے۔ تاکہ۔ اصدق مضارع منصوب (بوجہ عمل فاء جو لولا کے جواب میں واقع ہو کر ان کا سا عمل کرتی ہے۔ صیغہ واحد متکلم۔ تصدق (تفعل) مصدر۔ بمعنی خیرات دینا صدقہ دینا۔ تاکہ وہ خیرات کرلیتا ۔ واکن۔ واؤ عاطفہ (اس کا عطف فاصدق پر ہے) اکن اصل میں اکون تھا مضارع واحد متکلم ۔ اور میں ہوجاتا۔ من الصالحین نیک لوگوں میں سے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 حضرت ابو عباس سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا ” جس کے پاس اتنا مال ہو کہ اس پر حج یا زکواۃ فرض ہوجائے اور وہ ایسا نہ کرے تو مرتے وقت وہ دنیا میں لوٹنے کی تمنا کرتا ہے۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مال کی محبت سے بچنے کا بہترین طریقہ۔ انسان کی کمزوریوں میں ایک کمزوری یہ ہے کہ انسان زندگی بھر مال کی محبت میں سرگرداں رہتا ہے۔ حد سے زیادہ مال کی حرص سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان اسے اللہ کے راستے میں خرچ کرتا رہے قبل اس کے کہ اسے موت آجائے اور یہ اپنے رب سے آرزو کرے کہ میرے رب ! تو نے مجھے تھوڑی سی اور مہلت کیوں نہ دی تاکہ میں تیرے راستے میں مال خرچ کرتا اور نیک لوگوں میں شمار ہوتا، لیکن اس وقت کسی انسان کو نہ مہلت دی گئی ہے اور نہ دی جائے گی کیونکہ جب کسی شخض کی موت کا وقت آجاتا ہے تو اس میں ایک لمحہ بھی تقدیم و تاخیر نہیں کی جاتی۔ لوگ جو بھی عمل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ ” خَبِیْرٌ“ کے لفظ میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے اگر ان لوگوں کو مہلت دے دی جائے تو پھر بھی اسی طرح بخل کا مظاہرہ کریں گے جس طرح زندگی بھر کرتے رہے ہیں۔ (بَلْ بَدَالَہُمْ مَّا کَانُوْا یُخْفُوْنَ مِنْ قَبْلُ وَ لَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَانُہُوْا عَنْہُ وَ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ ) (الانعام : ٢٨) ” بلکہ ان کے لیے ظاہر ہوگیا جو وہ اس سے پہلے چھپاتے تھے اور اگر انہیں واپس بھیج دیا جائے تو ضرور پھر وہی کریں گے جس سے انہیں منع کیا گیا تھا اور بلاشبہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔ “ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَتَعَوَّذُ یَقُولُ ” اللّٰہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الْہَرَمِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ “ ) (رواہ البخاری : کتاب الدعوات، باب التعوذ من أرذل العمر) ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہوئے یہ دعا کیا کرتے تھے اے اللہ میں سستی، بزدلی، ناکارہ پن بڑھاپے اور بخل سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ “ ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ مدینہ میں ابو طلحہ (رض) انصار میں سب سے زیادہ کھجوروں کے مالک تھے۔ باغات میں بیرحاء نامی باغ ان کا سب سے بہترین باغ تھا۔ جو مسجد کے سامنے تھا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں جاتے اور وہاں سے پانی پیا کرتے تھے جب آیت (لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ) نازل ہوئی۔ حضرت ابو طلحہ (رض) رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتے ہیں : اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جب تک تم اپنی محبوب ترین چیز خرچ نہ کرو کبھی نیکی تک نہ پہنچ سکو گے۔ یقینا میرے پاس ” بیرحاء “ کا باغ ہے جو پوری جائیداد میں میرے نزدیک قیمتی اور عزیز ہے میں اس کے بدلے اللہ کے ہاں نیکی اور آخرت کے خزانے کا خواہشمند ہوں لہٰذا آپ اسے جہاں چاہیں استعمال کریں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس جذبہ کی تحسین کرتے ہوئے فرمایا : یہ مال بڑا نفع بخش ہے یہ مال بڑا فائدہ مند ہے جو تم نے کہا میں نے سن لیا۔ تم اسے اپنے قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔ چناچہ حضرت ابو طلحہ (رض) نے باغ اپنے چچا زاد بھائیوں اور عزیزوں میں تقسیم کردیا۔ “ (رواہ البخاری : کتاب تفسیر القرآن، باب لن تنالوا البرحتی تنفقوا مما تحبون) مسائل ١۔ ہر مسلمان کو اپنی موت سے پہلے دل کھول کر اللہ کے راستے میں خرچ کرنا چاہیے۔ ٢۔ موت کے وقت کسی شخص کو ایک لمحہ بھی مہلت نہیں دی جاتی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے عمل سے باخبر ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم اور اس کے فوائد : ١۔ ” اللہ “ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والوں کی مثال سدا بہار باغ جیسی ہے۔ (البقرۃ : ٢٦٥) ٢۔ ” اللہ “ کی رضا کے لیے خرچ کرنے والے کو پورا پورا اجر ملے گا۔ (البقرۃ : ٢٧٢) ٣۔ ” اللہ “ کی رضا کے لیے کیے گئے کام کا بڑا اجر ہے۔ (النساء : ١١٤) ٤۔ ” اللہ “ کی رضا چاہنے والوں کا انجام بہترین ہوگا۔ (الرعد : ٢٢) ٥۔ مخلص حضرات لوگوں کی خدمت کرتے ہوئے ان کے شکریہ اور جزا سے بےنیاز ہوتے ہیں۔ (الدھر : ٩

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ایک ہی آیت میں انفاق کے لئے بیشمار موثر اکساہٹیں وانفقو ................ رزقنکم (٣٦ : ٠١) ” جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو “۔ یہ سمجھایا جاتا ہے کہ تمہارے ہاں رزق اور وسائل رزق جو آتے ہیں وہ کہاں سے آتے ہیں ؟ یہ اس اللہ کے ہاں سے آتے ہیں جس پر تم ایمان لائے ہو ، اور جو تمہیں انفاق کا حکم دیتا ہے۔ من قبل .................... الموت (٣٦ : ٠١) ” قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے “۔ بس اس سے سب کچھ رہ جائے اور یہ اسکی اولاد یا دوسروں کے پاس چلا جائے۔ اور اگلے جہاں میں جب وہ تلاش کرے تو اسے آگے بھیجا ہوا کچھ نظر نہ آئے۔ یہ سب سے بڑی حماقت اور سب سے بڑا خسارہ ہے۔ پھر وہاں یہ تمنائیں کرے گا کہ اسے دوبارہ مہلت دی جائے اور وہ دوبارہ صالحین میں سے بن جائے گا۔ لیکن یہ تو محض تمنا ہی ہوگی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد مال خرچ کرنے کا حکم فرمایا اور ارشاد فرمایا ﴿ وَ اَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ ﴾ (الآیۃ) کہ موت آنے سے پہلے اس مال میں سے خرچ کرو جو ہم نے تم کو دیا ہے۔ چونکہ ذکر اللہ سے غفلت مال کمانے میں زیادہ ہوتی ہے اس لئے ساتھ ہی مال خرچ کرنے کا بھی حکم دیدیا، مال آتا ہے تو خرچ بھی ہوتا ہے مومنین صالحین اسے اللہ کی رضا میں خرچ کرتے ہیں اور جن لوگوں کو مال سے محبت ہوتی ہے دین پر چلنے کا شوق نہیں ہوتا وہ مال لے کر بیٹھے رہتے ہیں روپیہ پیسہ کے غلام بنے رہتے ہیں، فرض زکوٰۃ اور تھوڑا سا صدقہ بھی انہیں کھلتا ہے۔ آیت بالا میں یہ بھی فرمایا ہے کہ موت کے آنے سے پہلے مال خرچ کرو اگر زندگی میں اللہ کے لئے مال خرچ نہ کیا تو موت کے وقت یہ آرزو کام نہیں آئے گی کہ تھوڑی سی اور زندگی مل جاتی تو اللہ کے لئے خرچ کرتا اور صالحین میں سے ہوجاتا۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ جس کے پاس اتنا مال ہو جس کے ذریعہ بیت اللہ کا حج کرسکتا ہے اور زکوٰۃ فرض ہوگئی پھر اس نے اس کو زکوۃ ادانہ کی تو وہ موت کے وقت رجعت کا سوال کرے گا یعنی یہ کہے گا کہ مجھے واپس زندگی دے دی جائے تاکہ صدقہ دے دوں اور نیک کام کروں اس کے بعد حضرت ابن عباس (رض) نے ﴿ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ ﴾ سے لے کر آخری سورة تک تلاوت فرمائی۔ آخر میں فرمایا ﴿ وَ لَنْ يُّؤَخِّرَ اللّٰهُ نَفْسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُهَا ١ؕ وَ اللّٰهُ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (رح) ٠٠١١﴾ کسی کی جان کی موت کو اللہ موخرنہ کرے گا جب اجل آگئی۔ اجل پر تو مرنا ہی مرنا ہے جسے جو کچھ عمل کرنا ہے موت سے پہلے ہی کرلے، موت کے وقت حسرت کام نہ دے گی اور زندگی واپس نہ ملے گی اور کوئی یہ نہ سمجھے کہ زندگی بھر میں نے جو کچھ کیا ہے اس کی کسی کو کیا خبر ہے کیونکہ جس نے پیدا کیا جان دی اور زندگی دی اس کو تمہارے ہر کام کی خبر ہے۔ آخر تفسیر سورة المنافقون والحمدللہ اولا و آخرا

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ ” وانفقوا من ما رزقنکم “ یہ ذکر اللہ کی تفسیر ہے نیز سورة جمعہ کی آخری آیتوں کی تفصیل ہے مقصد یہ ہے کہ عبادت کے وقت عبادت کرو اور فارغ وقت میں تجارت اور دوسری کاروبار کرو اپنے ہاتھ سے کماؤ خود کھاؤ، فقراء مسلمین پر اور جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کرو تاکہ منافقین کی مالی امداد کی تمہیں حاجت ہی نہ رہے۔ اپنی زندگی میں موت سے پہلے خرچ کرلو، ورنہ پچھتاؤ گے اور موت کے وقت آرزو کروگے کہ بار الٰہا ! تھوڑی سی مہلت ہی دیدے تاکہ میں خیرات کرلوں اور نیک بن جاؤں۔ اَکُنْ مجزوم فَاَصَّدَّقَ کے محل پر معطوف ہے گویا اسل عبارت اس طرح ہے۔ اخرتنی اصدق واکن۔ یا مجزوم کا عطف منصوب پر ہے جیسا کہ بعض نحویوں کے نزدیک جائز ہے من الروح و المتن والمتین۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(10) اور ہم نے تم کو جو کچھ دیا ہے اس میں سے خیرات کرو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت آجائے اور مرنے کا وقت سر پر آکھڑا ہو اور وہ آثار موت کو مشاہدہ کرکے یوں کہنے لگے اے میرے پروردگار ! تونے مجھ کو اور تھوڑی مدت مہلت کیوں نہ دی اور میری موت کو تھوڑا سا موخر کیوں نہ کردیا کہ میں خوب صدقہ و خیرات کرتا اور حقوق واجبہ کو ادا کرلیتا اور میں نیک کام کرنے والوں میں شامل ہوجاتا۔ انفاق سے مراد حقوق واجبہ کی ادائیگی ہے چونکہ یہ عبادات میں اہم ہے اس کی تاکید فرمائی کہ مرنے سے پہلے پہلے حقوق واجب فی الحال خرچ کردو کہیں ایسا نہ ہو کہ موت آجائے اور آثار موت کا مشاہدہ کرنے کے بعد پروردگار سے یوں کہو کہ اے پروردگار مجھ کو تھوڑی سی مہلت اور کیوں نہ دی کہ میں حقوق واجبہ کی ادائیگی کردیتا اور نیک لوگوں میں سے ہوجاتا مگر ایسا کہنا یا اس خواہش کا اظہار کرنا محض بیکار اور بےمعنی ہوگا اور یہ حسرت و تمنا اس لئے غیر مفیدہوگی۔