5 Hadrat 'Abdullah bin 'Abbas has stated that 'Abdullah bin Ubayy WAS a strongly built, healthy, handsome and smooth-tongued person, and the same was the case will most .of his companions. They were aII the nobles of Madinah. When they came to sit in the Holy Prophet's assembly, they would sit reclining on cushions against the walls and would talk agreeably and convincingly. From their outward appearance and manner of speech no one could imagine that those honourable people of the city would be so wretched and degraded in their character.
6 That is, "Those who sit reclining on cushions against the walls, are not nun but pieces of timber. Comparing them to timber is meant to imply that they are devoid of the moral sense which is the essence of humanity Then by comparing them to blocks of timber propped up against the walI, it has also been pointed out that they are absolutely worthless, for the timber would be useful only when it has been utilized in making of a ceiling, or a doorframe, or a piece of furniture. A block of timber that has just been placed against a walI serves no useful purpose at all. "
7 This brief sentence portrays the state of their guilty conscience. Since they fully well knew what game of hypocrisy they were playing tinder the screen of their superficial faith, they always remained in a state of alarm, thinking as to when the secret of their treason might be exposed, or the believers might feel disgusted with their evil deeds and machinations and take them co task for them. If ever a cry was raised anywhere in the city, or a noise was heard; they inunediately grew alarmed and thought it was directed against themselves.
8 In other words, these hidden enemies arc more dangerous than the open enemies.
9 That is, "Do not be deceived by their outward appearances. Beware of them, for they can deceive you any moment. "
10 This is not a curse but a declaration of the verdict about them by Allah that they have become worthy of His punishment and He will certainly inflict His punishment on them. It is also possible that AIIah may not have used these words in their literal sense but in the meaning of a curse and condemnation according to Arabic idiom.
11 It has not been pointed out as to who perverts them from belief to hypocrisy. This by itself makes it clear that there is not one but manu factors responsible for their perversion. There is Satan, there are their evil friends, and there are their own selfish motives. Someone's wife or children become his motive, and someone is driven to perversion by the evil ones in his society, or by jealousy, spite and pride.
سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :5
حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی بڑے ڈیل ڈول کا ، تندرست ، خوش شکل اور چرب زبان آدمی تھا ۔ اور یہی شان اس کے بہت سے ساتھیوں کی تھی ۔ یہ سب مدینہ کے رئیس لوگ تھے ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں آتے تو دیواروں سے تکیے لگا کر بیٹھتے اور بڑی لچھے دار باتیں کرتے ۔ ان کے جُثّے بشرے کو دیکھ کر اور ان کی باتیں سن کر کوئی یہ گمان تک نہ کر سکتا تھا کہ بستی کے یہ معززین اپنے کردار کے لحاظ سے اتنے ذلیل ہوں گے ۔
سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :6
یعنی یہ جو دیواروں کے ساتھ تکیے لگا کر بیٹھتے ہیں ، یہ انسان نہیں ہیں بلکہ لکڑی کے کندے ہیں ۔ ان کو لکڑی سے تشبیہ دے کر یہ بتایا گیا کہ یہ اخلاق کی روح سے خالی ہیں جو اصل جوہر انسانیت ہے ۔ پھر انہیں دیوار سے لگے ہوئے کندوں سے تشبیہ دے کر یہ بھی بتا دیا گیا کہ یہ بالکل ناکارہ ہیں ۔ کیونکہ لکڑی بھی اگر کوئی فائدہ دیتی ہے تو اس وقت جب کہ وہ کسی چھت میں ، یا کسی دروازے میں یا کسی فرنیچر میں لگ کر استعمال ہو رہی ہو ۔ دیوار سے لگا کر کندے کی شکل میں جو لکڑی رکھ دی گئی ہو وہ کوئی فائدہ بھی نہیں دیتی ۔
سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :7
اس مختصر سے فقرے میں ان کے مجرم ضمیر کی تصویر کھینچ دی گئی ہے ۔ چونکہ وہ اپنے دلوں میں خوب جانتے تھے کہ وہ ایمان کے ظاہر پردے کی آڑ میں منافقت کا کیا کھیل کھیل رہے ہیں ، اس لیے انہیں ہر وقت دھڑکا لگا رہتا تھا کہ کب ان کے جرائم کا راز فاش ہو ، یا ان کی حرکتوں پر اہل ایمان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے اور ان کی خبر لے ڈالی جائے ۔ بستی میں کسی طرف سے بھی کوئی زور کی آواز آتی یا کہیں کوئی شور بلند ہوتا تھا تو وہ سہم جاتے اور یہ خیال کرتے تھے کہ آ گئی ہماری شامت ۔
سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :8
دوسرے الفاظ میں کھلے دشمنوں کی بہ نسبت یہ چھپے ہوئے دشمن زیادہ خطرناک ہیں ۔
سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :9
یعنی ان کے ظاہر سے دھوکا نہ کھاؤ ۔ ہر وقت خیال رکھو کہ یہ کسی وقت بھی دغا دے سکتے ہیں ۔
سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :10
یہ بد دعا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے بارے میں اس فیصلے کا اعلان ہے کہ وہ اس کی مار کے مستحق ہو چکے ہیں ، ان پر اس کی مار پڑ کر رہے گی ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ الفاظ اللہ تعالیٰ نے لُغوی معنی میں استعمال نہ فرمائے ہوں بلکہ عربی محاورے کے مطابق لعنت اور پھٹکار اور مذمت کے لیے استعمال کیے ہوں ، جیسے اردو میں ہم کسی کی برائی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ستیاناس اس کا ، کیسا خبیث آدمی ہے ۔ اس لفظ ستیاناس سے مقصود اس کی خیانت کی شدت ظاہر کرنا ہوتا ہے نہ کہ اس کے حق میں بد دعا کرنا ۔
سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :11
یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کو ایمان سے نفاق کی طرف الٹا پھر انے والا کون ہے ۔ اس کی تصریح نہ کرنے سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ ان کی اس اوندھی چال کا کوئی ایک محرک نہیں ہے بلکہ بہت سے محرکات اس میں کار فرما ہیں ۔ شیطان ہے ۔ برے دوست ہیں ۔ ان کے اپنے نفس کی اغراض ہیں ۔ کسی کی بیوی اس کی محرک ہے ۔ کسی کے بچے اس کے محرک ہیں ۔ کسی کی برادری کے اشرار اس کے محرک ہیں ۔ کسی کو حسد اور بغض اور تکبر نے اس راہ پر ہانک دیا ہے ۔