Surat ul Munfiqoon

Surah: 63

Verse: 4

سورة المنافقون

وَ اِذَا رَاَیۡتَہُمۡ تُعۡجِبُکَ اَجۡسَامُہُمۡ ؕ وَ اِنۡ یَّقُوۡلُوۡا تَسۡمَعۡ لِقَوۡلِہِمۡ ؕ کَاَنَّہُمۡ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ ؕ یَحۡسَبُوۡنَ کُلَّ صَیۡحَۃٍ عَلَیۡہِمۡ ؕ ہُمُ الۡعَدُوُّ فَاحۡذَرۡہُمۡ ؕ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ ۫ اَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ ﴿۴﴾

And when you see them, their forms please you, and if they speak, you listen to their speech. [They are] as if they were pieces of wood propped up - they think that every shout is against them. They are the enemy, so beware of them. May Allah destroy them; how are they deluded?

جب آپ انہیں دیکھ لیں تو ان کے جسم آپ کو خوشنما معلوم ہوں یہ جب باتیں کرنے لگیں تو آپ ان کی باتوں پر ( اپنا ) کان لگائیں گویا کہ یہ لکڑیاں ہیں دیوار کے سہارے سےلگائی ہو ئیں ہر ( سخت ) آواز کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں یہی حقیقی دشمن ہیں ان سے بچو اللہ انہیں غارت کرے کہاں سے پھرے جاتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ وَإِن يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ ... And when you look at them, their bodies please you; and when they speak, you listen to their words. meaning, hypocrites have a graceful outer appearance and are eloquent. When one hears them speak, he will listen to their eloquent words, even though hypocrites are truly weak and feeble, full of fear, fright and cowardice. ... كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ ... They are as blocks of wood propped up. means, they are shapes that do not have much substance. Allah's statement, ... يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ... They think that every cry is against them. means, every time an incident occurs or something frightening happens, they think that it is headed their way. This is indicative of their cowardice, just as Allah said about them, أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ فَإِذَا جَأءَ الْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ تَدورُ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِى يُغْشَى عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ فَإِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوكُم بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ أوْلَـيِكَ لَمْ يُوْمِنُواْ فَأَحْبَطَ اللَّهُ أَعْمَـلَهُمْ وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً Being miserly towards you then when fear comes, you will see them looking to you, their eyes revolving like (those of) one over whom hovers death; but when the fear departs, they will smite you with sharp tongues, miserly towards good. Such have not believed. Therefore Allah makes their deeds fruitless and that is ever easy for Allah. (33:19) and this is why Allah said, ... هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُوْفَكُونَ They are the enemies, so beware of them. May Allah curse them! How are they denying the right path? means, how they are being led astray to the misguidance, away from the guidance. Imam Ahmad recorded that Abu Hurayrah said that the Prophet said, إِنَّ لِلْمُنَافِقِينَ عَلَمَاتٍ يُعْرَفُونَ بِهَا تَحِيَّتُهُمْ لَعْنَةٌ وَطَعَامُهُمْ نُهْبَةٌ وَغَنِيمَتُهُمْ غُلُولٌ لاَ يَقْرَبُونَ الْمَسَاجِدَ إِلاَّ هَجْرًا وَلاَ يَأْتُونَ الصَّلَةَ إِلاَّ دَبْرًا مُسْتَكْبِرِينَ لاَ يَأْلَفُونَ وَلاَ يُوْلَفُونَ خُشُبٌ بِاللَّيْلِ صُخُبٌ بِالنَّهَارِ وفِي رِوَايَةٍ سُخُبٌ بِالنَّهَار Hypocrites have certain signs that they are known by. - Their greeting is really a curse, - their food is from stealing and the war booty they collect is from theft. - They shun the Masjid and they do not come to the prayer but at its end. - They are arrogant; - it is neither easy for them to blend in, nor it is easy for people to blend with them. They are like pieces of wood by night and are noisy by day.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 یعنی ان کے حسن و جمال اور رونق و شادابی کی وجہ سے۔ 4۔ 2 یعنی زبان کی فصاحت و بلاغت کی وجہ سے۔ 4۔ 3 یعنی اپنی درازئی قد اور حسن ورعنائی، عدم فہم اور قلت خیر میں ایسے ہیں گویا کہ دیوار پر لگائی ہوئی لکڑیاں ہیں جو دیکھنے والوں کو تو بھلی لگتی ہے لیکن کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ 4۔ 4 یعنی بزدل ایسے ہیں کہ کوئی زوردار آواز سن لیں تو سمجھتے ہیں کہ ہم پر کوئی آفت نازل ہوگئی یا گھبرا اٹھتے ہیں کہ ہمارے خلاف کسی کاروائی کا آغاز تو نہیں ہو رہا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥] منافقوں کی عادات اور خصائل :۔ منافقوں کا رئیس عبداللہ بن ابی بن سلول معاشی لحاظ سے بھی رئیس تھا دیکھنے میں بڑا خوبصورت اور لمبے قدوقامت والا جوان تھا۔ جنگ بدر کے قیدیوں میں آپ کے چچا سیدنا عباس ننگے تھے تو اسی کی قمیص ان کو پوری آسکتی تھی۔ آپ نے عبداللہ بن ابی سے مانگی تو اس نے دے دی تھی۔ اسی بات کا معاوضہ آپ نے اس وقت دیا تھا جب عبداللہ بن ابی مرا تھا۔ اور اس کے بیٹے عبداللہ نے جو سچا مسلمان تھا آپ سے یہ التجا کی تھی کہ آپ اگر اپنی قمیص دے دیں تو میں یہ اپنے باپ کو پہنا دوں اور آپ نے دے دی تھی۔ لسان بھی تھا۔ باتیں کرنے کا اور باتوں سے خوش اور مطمئن کرنے کا اسے ڈھنگ آتا تھا۔ باتیں کرتا تو جی چاہتا تھا کہ اس کی باتیں سنتے ہی رہیں۔ اس کے کچھ خاص مصاحب بھی ایسی ہی صفات کے مالک تھے۔ [٦] یہ لوگ جب آپ کی مجلس میں آتے تو کسی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاتے۔ دراصل وہ یہ کام اپنی برتری اور شان بےنیازی جتلانے کے لیے کرتے تھے۔ اور اللہ نے ان کو لکڑیوں سے تشبیہ اس لحاظ سے دی کہ لکڑیوں میں سننے، سوچنے سمجھنے کی اہلیت نہیں ہوتی۔ اسی طرح یہ لوگ بس دکھاوے کی خاطر آ تو جاتے ہیں۔ مگر نہ آپ کی باتوں کو دھیان سے سنتے ہیں اور کچھ سن بھی پائیں تو اسے سمجھنے اور سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے اور جیسے آئے تھے ویسے ہی دامن جھاڑ کر چلے جاتے ہیں۔ ہدایت کی کوئی بات قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ [٧] بزدل اور ڈرپوک ایسے ہیں کہ ادھر کوئی پتا کھٹکا ادھر ان کا دل دہل گیا۔ ایک عادی مجرم کی طرح انہیں ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں ہمارا فلاں راز فاش تو نہیں ہو چلا، یا فلاں حرکت پر گرفت تو نہیں ہونے لگی۔ [٨] کیونکہ یہ لوگ گھر کے بھیدی اور آستین کے سانپ ہیں۔ تمہاری سب باتیں دشمنوں تک پہنچاتے اور ہر کام سے انہیں باخبر رکھتے ہیں۔ یہ لوگ تمہارے ظاہری دشمنوں یعنی یہود & کفار مکہ اور مشرکین سب سے زیادہ خطرناک ہیں۔ لہذا ان سے سخت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ وَ اِذَا رَاَیْتَہُمْ تُعْجِبُکَ اَجْسَامُہُمْ : اکثر منافقین خوش حال ، صاحب حیثیت ، تیز طرار اور ہوشیار لوگ تھے ، ان کی خوش حالی اور مال کی حرص بھی ان کے نفاق کا باعث تھی۔ ان کا سردار عبد اللہ بن ابی معاشی لحاظ سے بھی رئیس تھا اور دیکھنے میں بڑا خوب صورت ، لمبے قدوالا اور جسیم تھا۔ زید بن ارقم (رض) نے اس کے اور اس کے ساتھیوں کے متعلق فرمایا : (کانوا رجالاً اجمل شئی) (بخاری : ٤٩٠٣)” وہ بہت خوبصورت آدمی تھے “۔ مزید تفصیل آگے آیت (٧) کی تفسیر میں دیکھئے۔ جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ( بدر کے قیدیوں میں سے) عباس مدینہ میں تھے ، انصار نے انہیں پہنانے کے لیے کپڑا تلاش کیا مگر انہیں عبد اللہ بن ابی کی قمیص کے علاوہ کوئی قمیص نہ ملی جو ان کے جسم پر پوری آتی ہو ، چناچہ انہوں نے وہی ان کو پہنا دی۔ ( نسائی ، الجنائز ، باب القمیص فی الکفن : ١٩٠٣، وقال الالبانی صحیح) اہل علم فرماتے ہیں کہ عبد اللہ بن ابی کی وفات پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اپنی قمیص جو پہنائی اس پر دوسری مصلحتوں کے علاوہ اس احسان کا بدلا اتارنا بھی مقصود تھا۔ اللہ تعالیٰ نے پچھلی آیت میں ” فھم لا یفقھون “ کے الفاظ کے ساتھ منافقین کی ناسمجھی بیان کرنے کے ساتھ ہی فرمایا کہ اے مخاطب ! جب تو انہیں دیکھے تو ڈیل ڈول اور خوبصورتی کی وجہ سے ان کے جسم تجھے بہت اچھے دکھائی دیں گے اور اگر وہ بات کریں تو ایسے فصیح و بلیغ ہیں کہ تو ان کی بات سنتا ہی رہ جائے۔ ان کی چرب زبانی کا ذکر سورة ٔ بقرہ (٢٠٤) میں بھی آیا ہے۔ یہاں بعض مفسرین نے ” واذا رایتھم تعجبک اجسامھم “ میں مخاطب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرار دیا ہے ، مگر بہتر ہے کہ اسے ہر مخاطب کے لیے عام رکھا جائے ، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو شروع سے انہیں دیکھتے آرہے تھے۔ ٢۔ ظاہر ہے کہ ” اذا رایتھم “ ( جب تو انہیں دیکھے) سے عبد اللہ بن ابی اور اس جیسے منافق مراد ہیں ، کیونکہ تمام منافق تو حسین و جمیل نہیں تھے اور نہ ہی ایسے فصیح و بلیغ تھے۔ ( التسہیل) ۔ ٣۔ کَاَنَّہُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ:” خشب “” خشبۃ “ کی جمع ہے ، لکڑیاں۔ اس وزن کی یہ جمع بہت کم آتی ہے۔ مفسرین نے اس کی نظیر ” ثمرۃ “ کی جمع ” ثمر “ لکھی ہے۔” مسندۃ “ باب تفعیل سے اسم مفعول ہے ، دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر رکھی ہوئی۔ یعنی جیسے لکڑیوں میں طول و عرض اور خوبصورتی کے باوجود عقل اور سمجھ نہیں ہوتی اسی طرح یہ بھی عقل اور سمجھ سے عاری ہیں ۔ جب یہ آپ کی مجلس میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوں تو یہ مت سمجھیں کہ یہ آدمی ہیں ، بلکہ یوں سمجھیں کہ لکڑیاں ہیں جو ٹیک لگا کر دیوار کے ساتھ رکھی ہوئی ہیں ، گویا بظاہر خوبصورت نظر آتے ہیں ۔ زمخشری نے فرمایا کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ حسین و جمیل اور جسیم و عریض ہونے کے باوجود ان سے کسی نفع کی امید نہیں ، جس طرح کار آمد لکڑی چھت ، دروازے یا کھڑکیوں میں یا کہیں نہ کہیں استعمال ہوتی ہے ، مگر بےکار لکڑیوں کو دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر رکھ دیا جاتا ہے۔ ٤۔ یَحْسَبُوْنَ کُلَّ صَیْحَۃٍ عَلَیْہِمْ : اس میں ان کی بزدلی کا نقشہ کھینچا ہے کہ جوں ہی کوئی آواز بلند ہوتی ہے یا شور اٹھتا ہے تو وہ اسے اپنے آپ پر پڑنے والی افتاد ہی سمجھتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کفار کا حملہ ہوگیا ہو جس میں ہمیں لڑنا پڑے اور اس میں ہماری موت ہو۔ ( دیکھئے احزاب : ١٩) یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو ہمارے خبث باطن کا پتہ چل گیا ہو اور ہمارے خلاف کارروائی کا حکم آگیا ہو ، یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں رسوا کرنے والی یا ہمارے قتل کے حکم والی کوئی آیت یا سورت اتری ہو۔ ( دیکھئے توبہ : ٦٤) ٥۔ ہُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْہُمْ :” العدو “ خبر پر الف لام لانے سے کلام میں حصر پیدا ہو رہا ہے کہ تمہارے اصل دشمن یہی ہیں ، کیونکہ کھلم کھلا کفار کی عداوت ظاہر ہے جس سے بچاؤ آسان ہے ، یہ گھر کے بھیدی اور آستین کے سانپ ہیں جو مسلمان بن کر ہر وقت تمہارے ساتھ ہیں ۔ ان کی عداوت زیادہ خطرناک ہے اور اس سے بچنا بہت مشکل ہے ، اس لیے ان سے ہوشیار رہیں۔ ٦۔ قَاتَلَہُمُ اللہ ُ : یہ بد دعا کا کلمہ ہے ، اللہ انہیں ہلاک کرے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دعا یا بد دعا کی کیا ضرورت ہے ، وہ تو جو چاہے کرسکتا ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہاں ان کے حق میں لوگوں کی زبان پر آنے والی بد دعا نقل کی گئی ہے۔ مراد ان کی مذمت ہے۔ ٧۔ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ : یعنی اتنے واضح دلائل کے باوجود ایمان چھوڑ کر یہ لوگ کہاں بہکائے جا رہے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا رَاَيْتَہُمْ تُعْجِبُكَ اَجْسَامُہُمْ۝ ٠ ۭ وَاِنْ يَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِہِمْ۝ ٠ ۭ كَاَنَّہُمْ خُشُبٌ مُّسَـنَّدَۃٌ۝ ٠ ۭ يَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَيْحَۃٍ عَلَيْہِمْ۝ ٠ ۭ ہُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْہُمْ۝ ٠ ۭ قٰتَلَہُمُ اللہُ۝ ٠ ۡاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ۝ ٤ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ عجب العَجَبُ والتَّعَجُّبُ : حالةٌ تعرض للإنسان عند الجهل بسبب الشیء، ولهذا قال بعض الحکماء : العَجَبُ ما لا يُعرف سببه، ولهذا قيل : لا يصحّ علی اللہ التَّعَجُّبُ ، إذ هو علّام الغیوب لا تخفی عليه خافية . يقال : عَجِبْتُ عَجَباً ، ويقال للشیء الذي يُتَعَجَّبُ منه : عَجَبٌ ، ولما لم يعهد مثله عَجِيبٌ. قال تعالی: أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا [يونس/ 2] ، تنبيها أنهم قد عهدوا مثل ذلک قبله، وقوله : بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق/ 2] ، وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد/ 5] ، ( ع ج ب ) العجب اور التعجب اس حیرت کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہے اسی بنا پر حکماء نے کہا ہے کہ عجب اس حیرت کو کہتے ہیں جس کا سبب معلوم نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ پر تعجب کا اطلاق جائز نہیں ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ تو علام الغیوب ہے اس بنا پر کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے عجبت عجبا ( س ) میں نے تعجب کیا عجب ہر وہ بات جس سے تعجب پیدا ہوا اور جس جیسی چیز عام طور نہ دیکھی جاتی ہوا ہے عجیب کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا[يونس/ 2] کیا لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ ہم نے وحی بھیجی ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ آنحضرت کی طرف وحی بھیجنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ پہلے سے سلسلہ وحی کو جانتے ہیں نیز فرمایا : ۔ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق/ 2] بلکہ ان لوگوں نے تعجب کیا ہے کہ انہی میں سے ایک ہدایت کرنے والا ان کے پاس آیا ۔ وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد/ 5] اور اگر تم عجیب بات سننی چاہو تو کافروں کا یہ کہنا عجیب ہے ۔ جسم الجسم : ما له طول وعرض وعمق، ولا تخرج أجزاء الجسم عن کو نها أجساما وإن قطع ما قطع، وجزّئ ما قد جزئ . قال اللہ تعالی: وَزادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ [ البقرة/ 247] ، وَإِذا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسامُهُمْ [ المنافقون/ 4] ، تنبيها أن لا وراء الأشباح معنی معتدّ به، والجُسْمَان قيل : هو الشخص، والشخص قد يخرج من کو نه شخصا بتقطیعه وتجزئته بخلاف الجسم . ( ج س م ) الجسم وہ ہے جس میں طول ، عرض اور عمق پا یا جائے اور اجزء جسم خواہ کہتے ہی لطیف کیون نہ ہو اجسام ہی کہلاتے ہیں قرآن میں ہے زادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ [ البقرة/ 247] اس نے اسے علم بھی بہت سا بخشا ہے اور تن و توش بھی ( برا عطا کیا ہے ) اور آیت کریمہ ؛ وَإِذا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسامُهُمْ [ المنافقون/ 4] اور جب تم ان ( کے تناسب اعضاء) کو دیکھتے ہو تو ان کے جسم تمہیں ( کیا ہی ) اچھے معلوم ہوتے ہیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کہ گئی ہے ک بظاہر ان کی شکل و صورت اگرچہ جاذب نظر آتی ہے لیکن ان کے اندر کسی قسم کی صلاحیت نہیں ہے ۔ الجسمان بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی کسی چیز کا شخص کے ہیں لیکن کسی شخص کے اجزاء ضروری نہیں کہ تقطیع اور تجزیہ کے بعد بھی ان کو شخص ہی کہا جائے مگر جسم کے اجزا کو خواہ کتناہی باریک کیون نہ کردیا جائے وہ جسمیں سے خارج نہیں ہوتے ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ خشب قال تعالی: كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُسَنَّدَةٌ [ المنافقون/ 4] ، شبّهوا بذلک لقلّة غنائهم، وهو جمع الخَشْب ومن لفظ الخشب قيل خَشَبْتَ السیف : إذا صقلته بالخشب الذي هو المصقل، وسیف خَشِيب قریب العهد بالصّقل، وجمل خَشِيب أي : جدید لم يُرَضْ ، تشبيها بالسّيف الخشیب، وتَخَشَّبَتِ الإبل : أكلت الخشب، وجبهة خَشْبَاء : يابسة کالخشب، ويعبّر بها عمّن لا يستحي، وذلک کما يشبّه بالصّخر في نحو قول الشاعر : والصّخر هشّ عند وجهك في الصّلابةوالمَخْشُوب : المخلوط به الخشب، وذلک عبارة عن الشیء الرّديء . ( خ ش ب ) الخشب ( موٹی لکڑی ج خشب ) اور آیت کریمہ :۔ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُسَنَّدَةٌ [ المنافقون/ 4] گویا لکڑیاں ہیں جو دیوار سے لگائی گئی ہیں ۔ میں انہیں نکما ہونے میں لکڑیوں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور خشب کے لفظ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ خشیت السیف ۔ تلوار کو صیقل کرنا اور صیقل کرنے کے آلہ کو مخشب کہاجاتا ہے ۔ سیف خشیب تلوار جو تازہ صیقل کی گئی ہو ۔ جمل خشیب نیا اونٹ یعنی جو سدھایا نہ گیا ہو ۔ تخشیت الابل ۔ لکڑی کھانا سوکھی گھاس چرنا ۔ جبھۃ خشباء ۔ لکڑی کی طرح سخت اور کھردری پیشانی ( کنایہ) بےحیا ۔ جیسا کہ شاعر نے صخر یعنی چٹان کے ساتھ تشبیہ دیکر ہے ع (135) والصخر ھش عند وجھک فی الصلابۃ تیرے چہرے کے مقابلہ تو پتھر بھی ہشاش بشاش معلوم ہوتا ہے ۔ المخشوب ۔ وہ چیز جس میں لکڑی ملائی گئی ہو ۔ اور یہ روی چیز سے کنایہ ہوتا ہے ۔ سَنَد : ( السَّنَدُ ، مُحَرَّكَةً : مَا قابَلَكَ من الجَبَلِ ، وعَلَا عَن السَّفْح) ، هَذَا نصُّ عبارَة الصّحاح . وَفِي التَّهْذِيب، والمحکم : السَّنَدُ : مَا ارتفعَ من الأَرض فِي قُبُل الجَبَلِ ، أَو الْوَادي . والجمْع أَسنادٌ ، لَا يُكَسَّر علی غير ذالک .( و) السَّنَدُ : ( مُعْتَمَدُ الإِنسان) کالمُسْتَنَدِ. وَهُوَ مَجاز . وَيُقَال : سَيِّدٌ سَنَدٌ.( و) عَن ابْن الأَعرابيّ : السَّنَد : ( ضَرْبٌ من البُرُودِ ) اليَمانِية، وَفِي الحَدِيث (أَنه رأَى علی عائشةَ رضيَ اللهُ عَنْهَا أَربعةَ أَثْوَابٍ سَنَدٍ ) ( ج : أَسْنَاد) ، وَقَالَ ابْن بُزُرْج : السَّنَدُ : واحدُ الأَسْنَادِ من الثِّيَاب، وَهِي من البرودِ ، وأَنشد : جُبَّةُ أَسنادٍ نَقِيٌّ لونُهالم يَضْرِب الخَيَّاطُ فِيهَا بالإِبَرْقَالَ : وَهِي الحَمْرَاءُ من جِبَابِ البُرُود . وَقَالَ الليْث : السَّنَدُ : ضَرْبٌ من الثِّيابِ ، قَمِيصٌ ثمَّ فَوْقَه قَمِيصٌ أَقصرُ مِنْهُ. وکذالک قُمُصٌ قِصَارٌ مِن خِرَق مُغَيَّبٍ بعضُها تحتَ بَعْض . وكلُّ مَا ظَهَرَ من ذالک يُسَمَّى سِمْطاً. قَالَ العجّاج يَصف ثَوْراً وَحْشِيًّا : كأَنَّ من سَبَائِب الخَيَّاطِكَتَّانها أَو سَنَدٍ أَسْماطِ (أَو الجَمْعُ کالواحِدِ ) ، قَالَه ابْن الأَعرابي . ( و) عَنهُ أَيضاً : ( سَنَّدَ ) الرَّجلُ ( تَسْنيداً : لَبِسَهُ ) ، أَي السَّنَدَ.( وسَنَدَ إِليه) يَسْنُد ( سُنُوداً ) بالضمِّ ، ( وتَسانَد) وأَسْنَد : ( استَنَد) ، وأَسندَ غيرَه .( و) قَالَ الزجّاج : سَنَدَ ( فِي الجَبَلِ ) يَسْنُد سُنوداً : ( صَعِدَ ) ورَقِيَ. وَفِي حَدِيث أُحُدٍ : ( رأَيتُ النساءَ يَسْنُدْنَ فِي الجَبَلِ ) أَي يُصَعِّدن . (كأَسْنَد) ، وَفِي حَدِيث عبد اللہ بن أنيس : ( ثمَّ أَسنَدُوا إِليه فِي مَشْرُبة) أَي صَعِدُوا . وَهُوَ مَجَاز، ( وأَسْنَدتُ أَنا، فيهمَا) أَي فِي الرُّقِيِّ والاستناد . ( و) من الْمجَاز : ( سَنَدَ للِخَمْسينَ ) ، وَفِي بعض النّسخ : فِي الخَمْسِين، والأُولَى: الصوابُ ، إِذا ( قَارَبَ لهَا) مُثِّل بِسُنودِ الجَبَلِ ، أَي رَقِيَ.( و) سَنَدَ ( ذَنَبُ الناقَة : خَطَرَ فضَرَب قَطَاتَها يَمْنَةً ويَسْرَةً ) ، نَقله الصاغانيّ.( و) مِنَ المَجَازِ : حَدِيثٌ مُسْنَدٌ ، وَحَدِيث قَوِيُّ السَّنَدِ. والأَسَانِيدُ : قوائِمُ الأَحادِيثِ. ( المُسْنَدُ ) ، كمُكْرَم ( ن الحَدِيثِ : مَا أُسْنِدَ إِلى قائِلِهِ ) أَي اتَّصَلَ إِسنادُه حَتَّى يُسْنَد إِلى النّبيّ صلَّى اللہ عليْه وسلّم، ( تاج العروس) حسب ( گمان) والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت/ 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] ( ح س ب ) الحساب اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ صاح الصَّيْحَةُ : رفع الصّوت . قال تعالی: إِنْ كانَتْ إِلَّا صَيْحَةً واحِدَةً [يس/ 29] ( ص ی ح ) الصیحۃ کے معنی آواز بلندکرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ كانَتْ إِلَّا صَيْحَةً واحِدَةً [يس/ 29] وہ تو صرف ایک چنگھاڑ تھی ( آتشین ۔ عدو العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال : رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] ( ع د و ) العدو کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ حذر الحَذَر : احتراز من مخیف، يقال : حَذِرَ حَذَراً ، وحذرته، قال عزّ وجل : يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر/ 9] ، وقرئ : وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَ 3» ، وقال تعالی: وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 28] ، وقال عزّ وجل : خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء/ 71] ، أي : ما فيه الحذر من السلاح وغیره، وقوله تعالی: هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون/ 4] ، وقال تعالی: إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن/ 14] ، وحَذَارِ ، أي : احذر، نحو : مناع، أي : امنع . ( ح ذ ر) الحذر ( س) خوف زدہ کرنے والی چیز سے دور رہنا کہا جاتا ہے حذر حذرا وحذرتہ میں اس سے دور رہا ۔ قرآن میں ہے :۔ يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر/ 9] آخرت سے ڈرتا ہو ۔ وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَاور ہم سب باسازو سامان ہیں ۔ ایک قرآت میں حذرون ہے هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون/ 4] یہ تمہاری دشمن میں ان سے محتاط رہنا ۔ إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن/ 14] تمہاری عورتوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ( بھی ) ہیں سو ان سے بچتے رہو۔ حذر ۔ کسی امر سے محتاط رہنے کے لئے کہنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 28] اور خدا تم کو اپنے ( غضب ) سے محتاط رہنے کی تلقین کرنا ہے الحذر بچاؤ ۔ اور آیت کریمہ :۔ خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء/ 71] جہاد کے لئے ) ہتھیار لے لیا کرو ۔ میں حذر سے مراد اسلحۃ جنگ وغیرہ ہیں جن کے ذریعہ دشمن سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے حذار ( اسم فعل بمعنی امر ) بچو جیسے مناع بمعنی امنع خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] أنى أَنَّى للبحث عن الحال والمکان، ولذلک قيل : هو بمعنی كيف وأين ، لتضمنه معناهما، قال اللہ عزّ وجل : أَنَّى لَكِ هذا [ آل عمران/ 37] ، أي : من أين، وكيف . ( انیٰ ) انی۔ یہ حالت اور جگہ دونوں کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اس لئے بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنیٰ این اور کیف ۔ کے آتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ { أَنَّى لَكِ هَذَا } ( سورة آل عمران 37) کے معنی یہ ہیں کہ کھانا تجھے کہاں سے ملتا ہے ۔ أفك الإفك : كل مصروف عن وجهه الذي يحق أن يكون عليه، ومنه قيل للریاح العادلة عن المهابّ : مُؤْتَفِكَة . قال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكاتُ بِالْخاطِئَةِ [ الحاقة/ 9] ، وقال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم/ 53] ، وقوله تعالی: قاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ [ التوبة/ 30] أي : يصرفون عن الحق في الاعتقاد إلى الباطل، ومن الصدق في المقال إلى الکذب، ومن الجمیل في الفعل إلى القبیح، ومنه قوله تعالی: يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ [ الذاریات/ 9] ، فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ [ الأنعام/ 95] ، وقوله تعالی: أَجِئْتَنا لِتَأْفِكَنا عَنْ آلِهَتِنا [ الأحقاف/ 22] ، فاستعملوا الإفک في ذلک لمّا اعتقدوا أنّ ذلک صرف من الحق إلى الباطل، فاستعمل ذلک في الکذب لما قلنا، وقال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ جاؤُ بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ [ النور/ 11] ، وقال : لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الجاثية/ 7] ، وقوله : أَإِفْكاً آلِهَةً دُونَ اللَّهِ تُرِيدُونَ [ الصافات/ 86] فيصح أن يجعل تقدیره : أتریدون آلهة من الإفك «2» ، ويصح أن يجعل «إفكا» مفعول «تریدون» ، ويجعل آلهة بدل منه، ويكون قد سمّاهم إفكا . ورجل مَأْفُوك : مصروف عن الحق إلى الباطل، قال الشاعر : 20- فإن تک عن أحسن المروءة مأفو ... کا ففي آخرین قد أفكوا «1» وأُفِكَ يُؤْفَكُ : صرف عقله، ورجل مَأْفُوكُ العقل . ( ا ف ک ) الافک ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیردی گئی ہو ۔ اسی بناء پر ان ہواؤں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں مؤلفکۃ کہا جاتا ہے اور آیات کریمہ : ۔ { وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ } ( سورة الحاقة 9) اور وہ الٹنے والی بستیوں نے گناہ کے کام کئے تھے ۔ { وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى } ( سورة النجم 53) اور الٹی ہوئی بستیوں کو دے پٹکا ۔ ( میں موتفکات سے مراد وہ بستیاں جن کو اللہ تعالیٰ نے مع ان کے بسنے والوں کے الٹ دیا تھا ) { قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ } ( سورة التوبة 30) خدا ان کو ہلاک کرے ۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں ۔ یعنی اعتقاد و حق باطل کی طرف اور سچائی سے جھوٹ کی طرف اور اچھے کاموں سے برے افعال کی طرف پھر رہے ہیں ۔ اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ { يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ } ( سورة الذاریات 9) اس سے وہی پھرتا ہے جو ( خدا کی طرف سے ) پھیرا جائے ۔ { فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ } ( سورة الأَنعام 95) پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ { أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا } ( سورة الأَحقاف 22) کیا تم ہمارے پاس اسلئے آئے ہو کہ ہمارے معبودوں سے پھیردو ۔ میں افک کا استعمال ان کے اعتقاد کے مطابق ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے اعتقاد میں الہتہ کی عبادت ترک کرنے کو حق سے برعمشتگی سمجھتے تھے ۔ جھوٹ بھی چونکہ اصلیت اور حقیقت سے پھرا ہوتا ہے اس لئے اس پر بھی افک کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : { إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ } ( سورة النور 11) جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تمہیں لوگوں میں سے ایک جماعت ہے ۔ { وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ } ( سورة الجاثية 7) ہر جھوٹے گنہگار کے لئے تباہی ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ { أَئِفْكًا آلِهَةً دُونَ اللهِ تُرِيدُونَ } ( سورة الصافات 86) کیوں جھوٹ ( بناکر ) خدا کے سوا اور معبودوں کے طالب ہو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افکا مفعول لہ ہو ای الھۃ من الافک اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افکا تریدون کا مفعول ہو اور الھۃ اس سے بدل ۔۔ ،۔ اور باطل معبودوں کو ( مبالغہ کے طور پر ) افکا کہدیا ہو ۔ اور جو شخص حق سے برگشتہ ہو اسے مافوک کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ع ( منسرح) (20) فان تک عن احسن المووءۃ مافوکا ففی اخرین قد افکوا اگر تو حسن مروت کے راستہ سے پھر گیا ہے تو تم ان لوگوں میں ہو جو برگشتہ آچکے ہیں ۔ افک الرجل یوفک کے معنی دیوانہ اور باؤلا ہونے کے ہیں اور باؤلے آدمی کو مافوک العقل کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور جب آپ ان منافقین کو دیکھیں تو ان کے قد و قامت خوبصورت اور اچھے معلوم ہوں گے اور اگر یہ قسم کھانے لگیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو آپ ان کی باتوں کو سن لیں اور خیال کرنے لگیں کہ یہ سچے ہیں مگر یہ سچے نہیں ہیں ان کے جسم لکڑیوں کی طرح ہیں یعنی ان کے دلوں میں نور اور بھلائی نہیں جیسا کہ خشک لکڑی میں جان اور تازگی نہیں ہوتی۔ مدینہ مونرہ میں جو بھی شور ہوتا ہے وہ بزدلی کی وجہ سے طور پر ہی خیال کرتے ہیں، آپ ان سے مطمئن نہ ہوجائیے اللہ ان کو غارت کرے کہاں کا جھوٹ بک رہے ہیں یا یہ کہ جھوٹ کی وجہ سے کہاں بہکے جارہے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤ { وَاِذَا رَاَیْتَہُمْ تُعْجِبُکَ اَجْسَامُہُمْ } ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) جب آپ انہیں دیکھتے ہیں تو ان کے جسم آپ کو بڑے اچھے لگتے ہیں۔ “ جسمانی طور پر ان کی شخصیات بڑی دلکش اور متاثر کن ہیں۔ { وَاِنْ یَّـقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِہِمْ } ” اور اگر وہ بات کرتے ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی بات سنتے ہیں۔ “ ظاہر ہے یہ لوگ سرمایہ دار بھی تھے اور معاشرتی لحاظ سے بھی صاحب حیثیت تھے۔ اس لحاظ سے ان کی گفتگو ہر فورم پر توجہ سے سنی جاتی تھی۔ { کَاَنَّہُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ} ” (لیکن اصل میں) یہ دیوار سے لگائی ہوئی خشک لکڑیوں کی مانند ہیں۔ “ حقیقت میں ان لوگوں کی حیثیت ان خشک لکڑیوں کی سی ہے جو کسی سہارے کے بغیر کھڑی بھی نہیں ہوسکتیں اور انہیں دیوار کی ٹیک لگا کر کھڑا کیا جاتا ہے۔ { یَحْسَبُوْنَ کُلَّ صَیْحَۃٍ عَلَیْہِمْ } ” یہ ہر زور کی آواز کو اپنے ہی اوپر گمان کرتے ہیں۔ “ اندر سے یہ لوگ اس قدر بودے اور بزدل ہیں کہ کوئی بھی زور کی آواز یا کوئی آہٹ سنتے ہیں تو ان کی جان پر بن جاتی ہے ۔ یہ ہر خطرے کو اپنے ہی اوپر سمجھتے ہیں اور ہر وقت کسی ناگہانی حملے کے خدشے یا جہاد و قتال کے تقاضے کے ڈر سے سہمے رہتے ہیں۔ { ہُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْہُمْ } ” (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے) اصل دشمن یہی ہیں ‘ آپ ان سے بچ کر رہیں ! “ یہ ان کے مرض نفاق کی تیسری سٹیج کا ذکر ہے۔ ان کی دشمنی چونکہ دوستی کے پردے میں چھپی ہوتی ہے اس لیے یہاں خصوصی طور پر ان سے ہوشیار رہنے کی ہدایت کی جا رہی ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ لوگ آستین کے سانپ ہیں۔ مشرکین مکہ کے لشکر آپ لوگوں کے لیے اتنے خطرناک نہیں جتنے یہ اندر کے دشمن خطرناک ہیں۔ لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو ہلکا نہ سمجھیں اور ان سے ہوشیار رہیں۔ ایسی صورت حال کے لیے حضرت مسیح (علیہ السلام) کا یہ قول بہت اہم ہے کہ ” فاختہ کی مانند بےضرر لیکن سانپ کی طرح ہوشیار رہو “ ۔ منافقین اگرچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے ‘ لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان یہی تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی غلطیاں اور گستاخیاں مسلسل نظرانداز فرماتے رہتے تھے ‘ بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طبعی شرافت اور مروّت کی وجہ سے ان کے جھوٹے بہانے بھی مان لیتے تھے۔ یہاں تک کہ غزوئہ تبوک کی تیاری کے موقع پر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت سے منافقین کو جھوٹے بہانوں کی وجہ سے پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہہ آگئی : { عَفَا اللّٰہُ عَنْکَج لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَتَعْلَمَ الْکٰذِبِیْنَ ۔ } (التوبۃ) ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) اللہ آپ کو معاف فرمائے (یا اللہ نے آپ کو معاف فرمادیا) آپ نے انہیں کیوں اجازت دے دی ؟ یہاں تک کہ آپ کے لیے واضح ہوجاتا کہ کون لوگ سچے ہیں اور آپ (یہ بھی) جان لیتے کہ کون جھوٹے ہیں ! “ { قَاتَلَہُمُ اللّٰہُز اَنّٰی یُؤْفَـکُوْنَ ۔ } ” اللہ ان کو ہلاک کرے ‘ یہ کہاں سے پھرائے جا رہے ہیں ! “ تصور کیجیے یہ لوگ کس قدرقابل رشک مقام سے ناکام و نامراد لوٹے ہیں ! ان کو نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ نصیب ہوا ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت ایمان پر لبیک کہنے کی توفیق ملی ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدموں میں بیٹھنے کے مواقع ہاتھ آئے۔ کیسی کیسی سعادتیں تھیں جو ان لوگوں کے حصے میں آئی تھیں۔ بقول ابراہیم ذوق : ع ” یہ نصیب اللہ اکبر ! لوٹنے کی جائے ہے “ ۔ مگر دوسری طرف ان کی بدنصیبی کی انتہا یہ ہے کہ یہاں تک پہنچ کر بھی یہ لوگ نامراد کے نامراد ہی رہے۔ مقامِ عبرت ہے ! کس بلندی پر پہنچ کر یہ لوگ کس اتھاہ پستی میں گرے ہیں : ؎ قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند دوچارہاتھ جب کہ لب ِبام رہ گیا !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5 Hadrat 'Abdullah bin 'Abbas has stated that 'Abdullah bin Ubayy WAS a strongly built, healthy, handsome and smooth-tongued person, and the same was the case will most .of his companions. They were aII the nobles of Madinah. When they came to sit in the Holy Prophet's assembly, they would sit reclining on cushions against the walls and would talk agreeably and convincingly. From their outward appearance and manner of speech no one could imagine that those honourable people of the city would be so wretched and degraded in their character. 6 That is, "Those who sit reclining on cushions against the walls, are not nun but pieces of timber. Comparing them to timber is meant to imply that they are devoid of the moral sense which is the essence of humanity Then by comparing them to blocks of timber propped up against the walI, it has also been pointed out that they are absolutely worthless, for the timber would be useful only when it has been utilized in making of a ceiling, or a doorframe, or a piece of furniture. A block of timber that has just been placed against a walI serves no useful purpose at all. " 7 This brief sentence portrays the state of their guilty conscience. Since they fully well knew what game of hypocrisy they were playing tinder the screen of their superficial faith, they always remained in a state of alarm, thinking as to when the secret of their treason might be exposed, or the believers might feel disgusted with their evil deeds and machinations and take them co task for them. If ever a cry was raised anywhere in the city, or a noise was heard; they inunediately grew alarmed and thought it was directed against themselves. 8 In other words, these hidden enemies arc more dangerous than the open enemies. 9 That is, "Do not be deceived by their outward appearances. Beware of them, for they can deceive you any moment. " 10 This is not a curse but a declaration of the verdict about them by Allah that they have become worthy of His punishment and He will certainly inflict His punishment on them. It is also possible that AIIah may not have used these words in their literal sense but in the meaning of a curse and condemnation according to Arabic idiom. 11 It has not been pointed out as to who perverts them from belief to hypocrisy. This by itself makes it clear that there is not one but manu factors responsible for their perversion. There is Satan, there are their evil friends, and there are their own selfish motives. Someone's wife or children become his motive, and someone is driven to perversion by the evil ones in his society, or by jealousy, spite and pride.

سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :5 حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی بڑے ڈیل ڈول کا ، تندرست ، خوش شکل اور چرب زبان آدمی تھا ۔ اور یہی شان اس کے بہت سے ساتھیوں کی تھی ۔ یہ سب مدینہ کے رئیس لوگ تھے ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں آتے تو دیواروں سے تکیے لگا کر بیٹھتے اور بڑی لچھے دار باتیں کرتے ۔ ان کے جُثّے بشرے کو دیکھ کر اور ان کی باتیں سن کر کوئی یہ گمان تک نہ کر سکتا تھا کہ بستی کے یہ معززین اپنے کردار کے لحاظ سے اتنے ذلیل ہوں گے ۔ سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :6 یعنی یہ جو دیواروں کے ساتھ تکیے لگا کر بیٹھتے ہیں ، یہ انسان نہیں ہیں بلکہ لکڑی کے کندے ہیں ۔ ان کو لکڑی سے تشبیہ دے کر یہ بتایا گیا کہ یہ اخلاق کی روح سے خالی ہیں جو اصل جوہر انسانیت ہے ۔ پھر انہیں دیوار سے لگے ہوئے کندوں سے تشبیہ دے کر یہ بھی بتا دیا گیا کہ یہ بالکل ناکارہ ہیں ۔ کیونکہ لکڑی بھی اگر کوئی فائدہ دیتی ہے تو اس وقت جب کہ وہ کسی چھت میں ، یا کسی دروازے میں یا کسی فرنیچر میں لگ کر استعمال ہو رہی ہو ۔ دیوار سے لگا کر کندے کی شکل میں جو لکڑی رکھ دی گئی ہو وہ کوئی فائدہ بھی نہیں دیتی ۔ سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :7 اس مختصر سے فقرے میں ان کے مجرم ضمیر کی تصویر کھینچ دی گئی ہے ۔ چونکہ وہ اپنے دلوں میں خوب جانتے تھے کہ وہ ایمان کے ظاہر پردے کی آڑ میں منافقت کا کیا کھیل کھیل رہے ہیں ، اس لیے انہیں ہر وقت دھڑکا لگا رہتا تھا کہ کب ان کے جرائم کا راز فاش ہو ، یا ان کی حرکتوں پر اہل ایمان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے اور ان کی خبر لے ڈالی جائے ۔ بستی میں کسی طرف سے بھی کوئی زور کی آواز آتی یا کہیں کوئی شور بلند ہوتا تھا تو وہ سہم جاتے اور یہ خیال کرتے تھے کہ آ گئی ہماری شامت ۔ سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :8 دوسرے الفاظ میں کھلے دشمنوں کی بہ نسبت یہ چھپے ہوئے دشمن زیادہ خطرناک ہیں ۔ سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :9 یعنی ان کے ظاہر سے دھوکا نہ کھاؤ ۔ ہر وقت خیال رکھو کہ یہ کسی وقت بھی دغا دے سکتے ہیں ۔ سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :10 یہ بد دعا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے بارے میں اس فیصلے کا اعلان ہے کہ وہ اس کی مار کے مستحق ہو چکے ہیں ، ان پر اس کی مار پڑ کر رہے گی ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ الفاظ اللہ تعالیٰ نے لُغوی معنی میں استعمال نہ فرمائے ہوں بلکہ عربی محاورے کے مطابق لعنت اور پھٹکار اور مذمت کے لیے استعمال کیے ہوں ، جیسے اردو میں ہم کسی کی برائی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ستیاناس اس کا ، کیسا خبیث آدمی ہے ۔ اس لفظ ستیاناس سے مقصود اس کی خیانت کی شدت ظاہر کرنا ہوتا ہے نہ کہ اس کے حق میں بد دعا کرنا ۔ سورة الْمُنٰفِقُوْن حاشیہ نمبر :11 یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کو ایمان سے نفاق کی طرف الٹا پھر انے والا کون ہے ۔ اس کی تصریح نہ کرنے سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ ان کی اس اوندھی چال کا کوئی ایک محرک نہیں ہے بلکہ بہت سے محرکات اس میں کار فرما ہیں ۔ شیطان ہے ۔ برے دوست ہیں ۔ ان کے اپنے نفس کی اغراض ہیں ۔ کسی کی بیوی اس کی محرک ہے ۔ کسی کے بچے اس کے محرک ہیں ۔ کسی کی برادری کے اشرار اس کے محرک ہیں ۔ کسی کو حسد اور بغض اور تکبر نے اس راہ پر ہانک دیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: یعنی ان کا ظاہری حلیہ بڑا پُر کشش ہے، اور باتیں بڑی لچھے دار ہیں، کہ آدمی اُنہیں سنتا ہی رہ جائے، لیکن اندر سے ان میں نفاق کی نجاست بھری ہوئی ہے۔ روایات میں ہے کہ عبداللہ ابن اُبیّ اپنے ڈیل ڈول کے اعتبار سے پُر کشش شخصیت رکھتا تھا، اور اس کی باتیں بڑی فصاحت وبلاغت کی حامل ہوتی تھیں۔ 3: لکڑیاں اگر کسی دیوار کے سہارے لگی رکھی ہوں تو دیکھنے میں کتنی اچھی لگیں، ان کا فائدہ کوئی نہیں ہوتا، اسی طرح یہ منافق لوگ دیکھنے میں کتنے اچھے لگیں، حقیقت میں بالکل بے مصرف ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں ہے، یہ لوگ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھتے تو ان کا جسم اگرچہ مجلس میں ہوتا تھا، لیکن دِل ودِماغ آپ کی طرف متوجہ نہیں ہوتا تھا، اس لحاظ سے بھی انہیں بے جان لکڑیوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ 4: چونکہ ان کے دِل میں چور ہے، اس لئے اگر مسلمانوں میں کوئی شور ہو تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے خلاف کچھ ہو رہا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(63:4) واذا رایتھم جملہ شرط۔ تعجبک اجسامہم جواب شرط۔ اذا شرطیہ (جب) رایت میں ضمیر واحد مذکر حاضر عام مخاطب کے لئے ہے (جب اے مخاطف تو ان کو دیکھے) یا خطاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے کہ جب (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ ان کو دیکھیں) ۔ تعجبک اجسامہم : تعجب مضارع واحد مؤنث غائب اعجاب (افعال) مصدر۔ ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ وہ تجھے تعجب میں ڈال دے۔ وہ تجھے بھلی لگے ۔ وہ تجھے خوشمنا لگے۔ اجسامہم ان کے جسم۔ ان کے ڈیل ڈول۔ وان یقولوا۔ جملہ شرطیہ ہے اور اگر وہ گفتگو کریں۔ تسمع لقولہم جواب شرط۔ تو تو توجہ سے ان کی بات سنے۔ تسمع مضارع مجزوم (بوجہ جواب شرط) واحد مذکر حاضر۔ سمع (باب سمع) مصدر۔ کانھم خشب مسندۃ لقولہم میں ضمیر مجرور ہم سے حال ہے۔ حالانکہ وہ دیوار کے سہارے کھڑی لکڑیاں ہیں ۔ (عقل سلیم اور علم و معرفت سے خالی اور کھوکھلی۔ کان حرف مشابہ بفعل ہے ہم ضمیر جمع مذکر غائب کان کا اسم ۔ خشب مسندۃ موصوف و صفت مل کر اس کی خبر۔ حال یہ ہے کہ وہ سب گویا دیوار کے سہارے کھڑی ہوئی لکڑیاں ہیں۔ خشب خشب کی جمع جیسے بدنۃ کی جمع بدن ہے (وہ گائے یا اونٹ کہ جس کی حج کے موقعہ پر مکہ میں قربانی کی جائے) موصوف مسندۃ صفت اسم مفعول واحد مؤنث تسنید (تفعیل) مصدر۔ دیوار کے سہارے لگائی ہوئی۔ یعنی جس سے پشت کا سہارا لگایا جائے۔ اسناد جمع سناد قوی الجثہ دراز قامت اسناد (افعال) کسی بات کی طرف نسبت کرنا۔ تسنید (تفعیل) لکڑی کو دیوار وغیرہ کے سہارے لگا دینا۔ کانھم خشب مسندۃ گویا وہ سب دیوار کے سہارے کھڑی کی ہوئی لکڑیوں ہیں۔ اچھی لکڑی عموما فرنیچر اور چھت کے لئے استعمال میں لائی جاتی ہے ان منافقین کی یہ حالت ہے کہ یہ اس لکڑی کی مانند ہیں جو دیکھنے میں تو بڑی اچھی ، جاذب نظر، دیر پا رہنے والی معلوم دیتی ہے اور ہر دیکھنے والے کے دل کو لبھاتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اندر سے کھوکھلی اور بالکل بیکار اور ناکارہ ہے اس میں کسی اور کے بوجھ کا سہارا بننا تو کجا خود اپنے بوجھ کو اٹھا رکھنے سے عاری ہے اسے چھت کے نیچے کھڑا کرنے کی جرورت پڑے تو دیوار کے ساتھ سہارا دیتے ہوئے اسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ذرا کسی بیرونی یا اندرونی دباؤکی وجہ چھت میں جنبش ہوئی اس کو یوں محسوس ہوا کہ گویا ساری قیامت اسی پر ڈٹ پڑنے لگی ہے۔ اسی طرح یہ منافقین ظاہری شکل و صورت میں تو نہایت حسین ڈیل ڈول کے ہیں اور پرلے درجے کے باتونی اور چرب زبان ہیں زبانی کلامی اپنی عقل و دانش اور شجاعت و مردانگی کے قصے سنا سنا کر سامعین کو ورطہ حیرت میں ڈال دیں گے لیکن درحقیقت پرلے درجے کے بےجان ، بزدل، علم و معرفت سے بالکل خالی اور نرے کھوٹے سکے ہیں ۔ نکمے بےفائدہ۔ یحسبون : مضارع جمع مزکر غائب حسبان (باب سمع) مصدر۔ وہ خیال کرتے ہیں۔ وہ گمان کرتے ہیں۔ کل صیحۃ۔ مضاف مضاف الیہ۔ ہر چیخ ، ہر کڑک، ہر ہولناک آواز۔ صیحۃ صاح یصیح کا مصدر ہے اور بمعنی حاصل مصدر بھی آتا ہے۔ اصل میں لکڑی کے چرنے یا کپڑے کے چھٹنے سے جو زور کے جھراٹے کی آواز پیدا ہوتی ہے اس آواز کے نکلنے کو الصیاح کہتے ہیں۔ صیحۃ اسی سے ہے اور چونکہ زور کی آواز سے آدمی گھبرا اٹھتا ہے اس لئے بمعنی گھبراہٹ اور عذاب کے بھی اس کا استعمال ہوتا ہے۔ علیہم : اپنے خلاف۔ یعنی ہر اونچی آواز کو اپنے اوپر پڑنے والی خیال کرتے ہیں۔ چونکہ اپنی اندرونی کمزوری اور اپنے اندر دل کے چور یعنی نفاق کو وہ جانتے ہیں اس لئے جب کسی کو اونچا بولتے سنتے ہیں یا کسی بھاگ دوڑ کی آواز ان کے کانوں میں آتی ہے تو وہ گھبرا اٹھتے ہیں شاید ان کے خلاف ہی نہ ہو۔ جیسے کہاوت ہے ” چور کی ڈاڑھی میں تنکا “۔ ہم العدو۔ یہی (منافق) ہیں جو (پکے) دشمن ہیں (مسلمانوں کے) ۔ فاحذرھم : ف سببیہ۔ بسبب ذلک بایں سبب۔ لہذا۔ اس لئے۔ احذر : فعل امر واحد مذکر حاضر۔ حذر (باب سمع) مصدر۔ تو بچتارہ۔ (اگر خطاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے) یا خطاب مسلمانوں سے ہے۔ اے مسلمانو ! ان (منافقین) سے بچتے رہو۔ اس صورت میں احذر (واحد کا صیغہ) بمعنی احذروا ہوگا۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب کا منافقین ہیں۔ قاتلہم اللہ : اللہ کی ان پر لعنت ہو۔ خدا ان کو غارت کرے۔ ان پر اللہ کی مار ہو اللہ ان کو ہلاک کرے۔ یہ بددعائیہ فقرہ ہے جس میں ان کی مذمت بھی ہے اور زجرو توبیخ بھی۔ علامہ پانی پتی (رح) لکھتے ہیں :۔ بظاہر یہ بددعا ہے اور خود اپنی ذات سے منافقوں پر لعنت کرنے کی طلب ہے لیکن حقیقت میں مسلمانوں کو لعنت اور بددعا کرنے کی تعلیم ہے۔ انی اسم ظرف ہے زمان اور مکان دونوں کے لئے آتا ہے۔ ظرف زمان ہو تو بمعنی متی (جب) ظرف مکان ہو تو بمعنی این (جہاں ، کہاں) اور استفہامیہ ہو تو بمعنی کیف کیسے ۔ کیونکر۔ ہوتا ہے۔ یہاں انی بمعنی کیف اظہار تعجب کے لئے ہے کہ اتنی روشن دلیلوں کے باوجود وہ حق سے روگرداں ہیں۔ یؤفکون : مضارع مجہول جمع مذکر غائب۔ افک (باب ضرب) مصدر۔ وہ پھیرے جاتے ہیں۔ الافک ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیر دی گئی ہو۔ اسی بناء پر ان ہواؤں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں مؤتفکۃ کہتے ہیں۔ قتلہم اللہ انی یؤفکون۔ خدا ان کو غارت کرے۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں یہ کیسے بہکائے جاتے ہیں۔ (نیز ملاحظہ ہو 9:30) جھوٹ بھی چونکہ اصلیت اور حقیقت سے پھرا ہوا ہوتا ہے اس لئے اس پر بھی افک کا لفظ بولا جاتا ہے۔ جیسے کہ قرآن مجید میں ہے :۔ ان الذین جاء وا بالافک عصبۃ منکم (24:11) جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تم ہی لوگوں سے ایک جماعت ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی نہایت فصاحت اور چرب زبانی سے ایسی لچھے دار باتیں رتے ہیں کہ خوام خواہ سننے کو جی چاہیے۔6 یعنی جیسے لکڑیوں میں عقل اور سمجھ نہیں وتی اسی طرح یہ بھی عقل اور سمجھ سے عاری ہیں۔ جب یہ آپ کی مجلس میں بٹھیں تو یہ سمجھئے کہ آدمی بیٹھے ہیں بلکہ یوں سمجھئے کہ لکڑیاں ہیں جو ٹیک لگا کر رکھی دی گئیں ہیں گوبظاہر خوبصورت نظر آتے ہیں۔ (قرطبی)7 یعنی انتہائی بزدل اور ڈرپوک ہیں۔ اپنے سنگین جرائم اور بےایمانیوں کی وجہ سے انہیں ہر آن دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں ان کی دغا بازیوں کا پردہ چاک نہ ہوجائے۔ ِ 8 کیونکہ یہ مار آستین ہیں اور کافر کھلے دشمن اور ظاہر ہے کہ جو نقصان گھر کا بھیدی پہنچا سکتا ہے وہ باہر کا دشمن نہیں پہنچا سکتا

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یعنی جب کوئی شور وغل ہوتا ہے یہی سمجھتے ہیں کہ کہیں ہمارے ہی اوپر افتاد پڑنے والی نہ ہو۔ 2۔ یعنی ان کی کسی بات کا اعتماد نہ کیجئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافقوں کی گفتگو کا انداز۔ منافق کی نیّت میں فطور اور اس کے کردار میں جھول ہوتی ہے۔ اس لیے اسے اپنی گفتگو میں تصنّع اور تکلّف اختیار کرنا پڑتا ہے تاکہ اس کی بات سننے والے کو اس کے کردار کا جھول اور نیت کے فطور کا علم نہ ہوسکے۔ اسی وجہ سے مدینہ کے منافق جب نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوتے تو اس طرح تکلّف اور لجاجت کے ساتھ گفتگو کرتے کہ سننے والے کو خواہ مخواہ ان کی طرف متوجہ ہونا پڑتا۔ مدینہ کے منافقین میں سے عبداللہ بن ابی اور کچھ منافق ظاہری تشخص ( PERSONALITY) کے اعتبار سے بھی ایک معقول آدمی نظر آتے تھے۔ اس لیے کچھ مسلمان ان کے ظاہری تشخص اور گفتگو سے متاثر ہوجایا کرتے تھے۔ منافقین کی منافقت واضح کرنے اور ان سے مسلمانوں کو بچانے کے لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کیا گیا ہے۔ تاکہ مسلمانوں کو معلوم ہو کہ منافقین اپنی پُر تکلف گفتگو اور شخصیت سے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو متاثر کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ ارشاد ہوا کہ جب آپ ان کے وجود کو دیکھتے ہیں تو ان کا رہن سہن اور شان بان سے آپ کو تعجب ہوتا ہے اور جب وہ آپ کے سامنے اپنا مؤقف پیش کرتے ہیں تو آپ اس کو توجہ سے سنتے ہیں حالانکہ یہ آپ کی مجلس میں بیٹھتے ہیں تو ان کی حالت اس لکڑی کی مانند ہوتی ہے جسے دیوار کے ساتھ کھڑا کیا گیا ہو۔ یعنی یہ جان بوجھ کر آپ کے سامنے اس طرح بیٹھتے جس سے ان کی بےنیازی اور لاپرواہی ظاہر ہوتی تھی۔ ان کے دل کی کیفیت یہ ہے کہ ہر وقت اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ کہیں سے ایسی آواز سنائی نہ دے جس سے ان کی گفتار اور کردار کا پول کھل جائے اور ان پر عتاب نازل ہو، یہ دین کے دشمن اور مسلمانوں کی آستینوں کے سانپ ہیں۔ اللہ انہیں ہلاک کرے یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے منافقین کی مزید عادات سے آگاہ فرمایا۔ ١۔ دیکھنے میں عبداللہ بن اُ بی اور اس کے کچھ ساتھی بڑے سنجیدہ اور معزز نظر آتے تھے لیکن نیت، اخلاق اور کردار کے لحاظ سے بڑے گھٹیا تھے۔ اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر حال میں ان سے بچنے کی تلقین کی گئی کیونکہ یہ دین اور مسلمانوں کے دشمن تھے جب آپ کے سامنے بیٹھتے تو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے کہ وہ آپ کی گفتگو کو نہ صرف توجہ سے سنتے ہیں بلکہ اس کا اثر بھی قبول کرتے ہیں حالانکہ ان کی حقیقت یہ تھی کہ جس طرح ایک لکڑی دیوار کے ساتھ لگی ہوئی ہو یہی کیفیت منافقین کی تھی۔ وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھتے اور آپ کی گفتگو سے متاثر ہونے کا جعلی تاثر دیتے تھے۔ ٢۔ منافقین کی حالت یہ ہے کہ مدینہ میں کوئی چھوٹا بڑا واقعہ ہوجائے تو وہ اپنی جگہ پر خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ اس وجہ سے کہ کہیں ان کی سازش اور شرارت بےنقاب نہ ہوجائے۔ گویا کہ یہ دل کے قرار اور طبیعت کے سکون سے محروم ہوچکے ہیں جس وجہ سے ہر وقت اپنے کیے پر خوف میں مبتلا رہتے ہیں۔ جسے قرآن مجید نے دوسرے الفاظ میں یوں بیان کیا ہے۔ (وَ یَمُدُّ ہُمْ فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْن) (البقرۃ : ١٥) ” یہ اپنی نافرمانیوں میں پریشان رہتے ہیں۔ “ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ان منافقین کے لیے ” قَاتَلَہُمُ اللّٰہُ “ کے الفاظ استعمال کیے ہیں کہ ” اللہ “ انہیں ہلاک کرے۔ عربی زبان میں یہ الفاظ بددعا اور کسی سے نفرت دلانے کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ یہ الفاظ یہاں انہی معنوں میں استعمال ہوئے ہیں۔ مسائل ١۔ بعض منافق اور کافر دیکھنے میں بڑے سنجیدہ اور سیدھے سادھے اور بھولے بھالے نظر آتے ہیں۔ ٢۔ منافق اپنی نیت کے فطور اور برے کردار کو اپنی گفتگو سے چھپایا کرتا ہے۔ ٣۔ منافق دین اور مسلمانوں کا دشمن ہوتا ہے اس لیے اس سے بچ کر رہنا چاہیے۔ ٤۔ منافق اپنے کردار کی وجہ سے ہر وقت خوف میں مبتلا رہتا ہے۔ منافق کی نشانیاں جاننے کے لیے صفحہ ١٢١ دیکھیں !

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واذا ........................ یوفکون (٣٦ : ٤) ” انہیں دیکھو تو ان کے جثے تمہیں بڑے شاندار نظر آئیں۔ بولیں تو تم ان کی باتیں سنتے ہو مگر اصل میں یہ گویا لکڑی کے کندے ہیں جو دیوار کے ساتھ چن کر رکھ دیئے گئے ہوں۔ ہر زور کی آواز کو یہ اپنے خلاف سمجھتے ہیں۔ یہ پکے دشمن ہیں ، ان سے بچ کر رہو ، اللہ کی مار ان پر ، یہ کدھر الٹے پھرائے جارہے ہیں “۔ یہ اس طرح ہیں جس طرح مضحکہ خیز حثے ہوتے ہیں۔ انسان معلوم ہی نہیں ہوتے۔ جب یہ خاموش ہوتے ہیں تو کندہ ناتراش نظر آتے ہیں اور جب یہ بولتے ہیں تو ان کے الفاظ ہر قسم کے مفہوم ، احساس ، اثر یا حقیقت سے خالی ہوتے ہیں ، تم ان کی بات سنتے ہو ، یوں نظر آتے ہیں کہ گویا لکڑیاں ہیں جن کو دیوار کے سہارے سے کھڑا کردیا گیا ہے (یعنی یہ بےجان ہیں اور ماسوائے آواز کے ان میں زندگی کی کوئی علامت نہیں) ۔ ایک طرف تو وہ ایسے جامد ، نافہم اور بےروح ہیں اور دوسری طرف سے یہ اسی قدر چوکنے ہیں اور ڈرپوک ہیں اور ہر وقت کانپتے ہی رہتے ہیں اور انہیں ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں راز فاش نہ ہوجائے۔ یحسبون .................... علیھم (٣٦ : ٤) ” ہر زور کی آواز یہ اپنے خلاف سمجھتے ہیں “۔ ان کو تو علم ہے کہ وہ منافق ہیں۔ اور ان کے اوپر نفاق کا مہین پردہ پڑا ہوا ہے ، جو چالاکی ، قسموں اور احتیاطوں کی وجہ سے ابھی تک فاش نہیں ہوا۔ ہر وقت وہ سہمے رہتے ہیں کہ یہ پردہ چاک ہی نہ ہوجائے اور راز فاش ہی نہ ہوجائے ۔ تصویر ایسی کھینچی گئی ہے کہ ہر وقت ادھر ادھر دیکھتے رہتے ہیں۔ ہر حرکت ، ہر آواز اپنے خلاف سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہر حرکت ان پر دار ہے ، اور ہر آواز ان کی پکار ہے۔ یہ عجیب تصویر ہے ان کی اگر معاملہ فہم وادراک کا ہو ، تو وہ لکڑی کے بت ہیں۔ کوئی سمجھ ، کوئی روح ، کوئی شعور اور ایمان کا اثر ان پر نہیں ہے۔ اور اگر معاملہ ثابت قدمی اور خوف کا ہو تو وہ اس باریک ٹہنی کی طرح ہیں جو ہوا کے جھونکوں کے ساتھ جھلکتی رہتی ہے۔ ہر وقت کپکپاتی رہتی ہے۔ اور اپنی ان خصوصیات کے ساتھ ساتھ وہ رسول اللہ کے دشمن نمبر ایک ہیں۔ ھم العدو فاحذرھم (٣٦ : ٤) ” یہ پکے دشمن ہیں ان سے بچ کر رہو “۔ یہ اسلامی محاذ کے اندر گھسے ہوئے خفیہ دشمن ہیں۔ اسلامی صفوں کے اندر ہیں ، اس لئے یہ خارجی دشمنوں سے زیادہ خطرناک ہیں۔ فاحذرھم (٣٦ : ٤) ” ان سے بچ کر رہو “۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم نہیں دیا گیا کہ ان کو قتل کرو ، ان کو دوسرے انداز سے پکڑنا مطلوب تھا۔ اور اس میں حکمت ، یقین ، رواداری کے ساتھ ان کی سازشوں سے بچنا مطلوب تھا۔ (اس کا ایک نمونہ ابھی آرہا ہے) قتلھم ................ یوفکون (٣٦ : ٤) ” اللہ کی مار ان پر یہ کدھر الٹے پھرائے جارہے ہیں “۔ یہ جہاں بھی جائیں اللہ ہی ان کے ساتھ جنگ کرنے والا ہے۔ اور اللہ جس کے خلاف دعا کرے ، تو یہ حکم تصور ہوتا ہے کہ گویا فیصلہ ہوگیا کہ یہ ختم ہوگئے ، قتل ہوگئے۔ اور یہی ہوا پہلے مدینہ اور پھر جزیرة العرب میں۔ مزید بتایا جاتا ہے کہ ان لوگوں کی اندرونی حالت کیا ہے۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف خفیہ طور پر کیا سازشیں کرتے ہیں اور آپ کے سامنے کس طرح جھوٹ بولتے ہیں ان کی اہم صفات یہ ہیں :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منافقوں کی ظاہری باتیں پسند آتی ہیں : ﴿ وَ اِذَا رَاَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ اَجْسَامُهُمْ ﴾ منافقین کی صفت بیان کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ یہ لوگ نظروں میں بھاتے ہیں ان کے قد بھی بڑے ہیں رنگ بھی اچھے ہیں۔ صحیح البخاری میں ہے کا نوا رجالا واجمل شی۔ ﴿ وَ اِنْ يَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ ﴾ اور باتیں کرنے کا ڈھنگ اور فصاحت و بلاغت ایسی ہے کہ اگر آپ سے باتیں کرنے لگیں تو آپ ان کی طرف متوجہ ہوں گے اور آپ ان کی بات کو دھیان سے سنیں گے۔ ﴿ كَاَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ ﴾ (گویا کہ وہ لکڑیاں ہیں ٹیک لگائی ہوئی) یعنی ان کے جسم بھی قدوقامت والے ہیں اور باتیں بھی میٹھی ہیں مگر آپ کے کام نہیں آسکتے وہ ایسے ہیں جیسے لکڑیاں دیوار کے سہارے سے کھڑی ہوں۔ جیسے لکڑیاں بےجان ہیں ایسے ہی ان کے لمبے چوڑے جسموں کا حال ہے ایمان سے بھی خالی ہے اور جرت اور ہمت سے بھی، یہ آپ کے کام نہیں آسکتے۔ صاحب معالم التنزیل نے یوں تفسیر کی ہے کہ یہ لوگ اشجار مثمرہ یعنی پھل دار درخت نہیں ہیں بلکہ ایسے ہیں جیسے لکڑیاں ہوں جنہیں دیوار کے سہارے ٹیک دیا گیا ہو۔ اس کے بعد ان کی بزدلی اور باطنی خوف کا تذکرہ فرمایا ہے : ﴿يَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ١ؕ هُمُ الْعَدُوُّ ﴾ (یہ لوگ ہر چیخ کو اپنے اوپر خیال کرتے ہیں کہ دشمن ہے) چونکہ دل سے مومن نہیں ہیں اس بات سے ڈرتے رہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ہمارے نفاق کا پتہ نہ چل جائے اور جو بھی چیخ سنتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم پر ہی کوئی مصیبت پڑنے والی ہے۔ فَاحْذَرْهُمْ لہٰذا آپ ان سے محتاط اور ہوشیار رہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کو اور اہل ایمان کو کسی مصیبت میں مبتلا کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ ﴿ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُٞ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ ٠٠٤ ﴾ اللہ ان کو ہلاک کرے کہاں الٹے پھرے جا رہے ہیں، ایمان کی طرف آتے ہی نہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ ” واذا رایتہم “ بھی زجر ہے۔ جب منافقین کو آپ دیکھتے ہیں تو حسن و جمال اور جسمانی ڈیل ڈول کی وجہ سے وہ آپ کو بھلے معلوم ہوتے ہیں اور ان کی باتیں بھی آپ بغور سنتے ہیں، کیونکہ وہ فصاحت و بلاغت، شیریں کلامی ور چرب زبانی میں ماہر ہیں اور اپنی دلیری اور بہادری کی ڈینگیں مارتے ہیں۔ ” کانہم خشب مسندۃ “ یہ کلام مستانف ہے اور اس میں منافقین کے ایمان سے خالی ہونے کا بیان ہے جس طرح بیکار لکڑی دیوار کے ساتھ کھڑی کردی جاتی ہے جو نہ ستون ہو نہ شہتیر نہ کڑی الغرض فائدے سے خالی ہو اسی طرح یہ منافقین جو آپ کی مجلسوں میں دیواروں سے تکیہ لگا کر بیٹھتے ہیں محض بیکار اور ایمان سے خالی ہیں۔ شبھو فی جلوسہم مجالس رسول اللہ صلی اللہ علی ہو سلم مستندین فیہا وما ھم الا اجرام خالیۃ عن الایمان والخیر یخشب منصوبۃ مسندۃ الی الحائط فی کو نہم اشباھا خالیۃ عن الفائدۃ الخ (روح ج 8 ص 111) ۔ 6:۔ ” یحسبون “ منافقین کے دلوں میں چونکہ چور ہے اور وہ اپنی خباثتوں کو خوب جانتے ہیں اس لیے ہر وقت خوفزدہ اور ہراساں رہتے ہیں اور جب بھی کوئی آواز سنتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ ہماری خیر نہیں اور یہ ہماری ہی موت کا پیغام اور ہمارے ہی خلاف کوئی اعلان ہے یہ ملعون آپ کے سب سے بڑے دشمن ہیں ان سے بچیے اور ان کی چالوں سے خبردار رہیے وہ کس طرح حق سے کفر و ضلال کی طرف پھیرے جا رہے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(4) اے پیغمبران کی حالت یہ ہے کہ جب آپ ان کو دیکھیں تو ان کے قدوقامت اور ظاہری جسم آپ کو خوش نما معلوم ہوں اور ان کے ڈیل تجھ کو خوش لگیں اور جب یہ باتیں کریں تو آپ ان کی شیریں کلامی اور دلچسپ باتوں کی وجہ سے ان کی باتیں کان لگا کر سنیں گویا وہ خشک لکڑیاں ہیں جو کسی دیوار کے سہارے لگا دی گئی اور ٹکادی گئی ہیں وہ ہر بلند آواز کو اپنے ہی خلاف خطرہ سمجھتے ہیں جو کوئی پکارے یہ جانیں ہم پر ہی بلا ہے یہی لوگ حقیقی دشمن ہیں۔ اے پیغمبر آپ ان سے بچتے رہیے اللہ تعالیٰ ان کو ہلاک کرے اور خدا ان کو غارت کرے یہ کہاں پھر سے چلے جارہے ہیں۔ یعنی دیکھنے میں بڑے متین ڈیل ڈول ایسا کہ دیکھ کر اچنبھا ہو ظاہری قدوقامت کے اعتبار سے خوش نما باتیں ایسی دلچسپ اور شیریں کہ آپ کان لگا دیں لچھے دار گفتگو کریں حالت یہ کہ اندر سے بالکل خول اور بےکار جیسے خشک لکڑیاں کی دیوار کے سہارے رکھی ہیں محض بےکار کسی کام کے نہیں سوائے اس کے ایندھن کے کام آئیں اور آگ میں جلائے جاویں۔ ڈرپوک ایسے کہ ذرا غل غپاڑہ ہو کوئی چیخ کر بولے یا کہیں سے غل کی آواز آئے تو سمجھیں کہ ان پر ہی کوئی آفت آئی۔ یہ لوگ سخت اور کڑدشمن ہیں۔ اے پیغمبر ان کی شرارتوں اور ان کے دائوں پیچ اور ان کی ریشہ دوانیوں سے چوکنے اور ہوشیار رہیے خدا ان کو ہلاک کرے حق واضح ہوجانے کے بعد کہاں پھرے چلے جارہے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی دیکھنے میں مرد آدمی اور دل میں نامرد دغاباز۔ خلاصہ : یہ کہ دیکھنے میں مرد معقول اور دل ہیجڑوں جیسے۔