Surat ut Taghabunn

Surah: 64

Verse: 1

سورة التغابن

یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ۚ لَہُ الۡمُلۡکُ وَ لَہُ الۡحَمۡدُ ۫ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۱﴾

Whatever is in the heavens and whatever is on the earth is exalting Allah . To Him belongs dominion, and to Him belongs [all] praise, and He is over all things competent.

۔ ( تمام چیزیں ) جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کی پاکی بیان کرتی ہیں اسی کی سلطنت ہے اور اسی کی تعریف ہے اور وہ ہر ہرچیز پر قادر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Praising Allah and mentioning His Creation and Knowledge Allah the Exalted said, يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الاَْرْضِ ... Whatsoever is in the heavens and whatsoever is on the earth glorifies Allah. This is the last Surah among Al-Musabbihat. We mentioned before that all creatures praise the glory of Allah, their Creator and Owner. Allah said, ... لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ ... His is the dominion, and to Him belongs the praise, meaning, He is the One Who has control over all creation, the One praised for all He created and decreed. Allah's statement, ... وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ and He is Able to do all things. means that whatever He wills occurs without resistance, and whatever He does not will, never occurs. Allah said,

مسبحات کی سورتوں میں سب سے آخری سورت یہی ہے ، مخلوقات کی تسبیح الٰہی کا بیان کئی دفعہ ہو چکا ہے ، ملک و حمد والا اللہ ہی ہے ہر چیز پر اس کی حکومت کام میں اور ہر چیز کا اندازہ مقرر کرنے میں ۔ وہ تعریف کا مستحق ، جس چیز کا ارادہ کرے اس کو پورا کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہے نہ کوئی اس کا مزاحم بن سکے نہ اسے کوئی روک سکے وہ اگر نہ چاہے تو کچھ بھی نہ ہو ، وہی تمام مخلوق کا خلاق ہے اس کے ارادے سے بعض انسان کافر ہوئے بعض مومن ، وہ بخوبی جانتا ہے کہ مستحق ہدایت کون ہے؟ اور مستحق ضلالت کون ہے؟ وہ اپنے بندوں کے اعمال پر شاہد ہے اور ہر ایک عمل کا پورا پورا بدلے دے گا ، اس نے عدل و حکمت کے ساتھ آسمان و زمین کی پیدائش کی ہے ، اسی نے تمہیں پاکیزہ اور خوبصورت شکلیں دے رکھی ہیں ، جیسے اور جگہ ارشاد ہے ( ترجمہ ) الخ ، اے انسان تجھے تیرے رب کریم سے کس چیز نے غافل کر دیا ، اسی نے تجھے پیدا کیا پھر درست کیا پھر ٹھیک ٹھاک کیا اور جس صورت میں چاہا تجھے ترکیب دی اور جگہ ارشاد ہے ( ترجمہ ) الخ ، اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو قرار گاہ اور آسمان کو چھت بنایا اور تمہیں بہترین صورتیں دس اور پاکیزہ چیزیں کھانے کو عنایت فرمائیں ، آخر سب کو اسی کی طرف لوٹنا ہے ، آسمان و زمین اور ہر نفس اور کل کائنات کا علم اسے حاصل ہے یہاں تک کہ دل کے ارادوں اور پوشیدہ باتوں سے بھی وہ واقف ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 یعنی آسمان و زمین کی ہر مخلوق اللہ تعالیٰ کی ہر نقص وعیب سے تنزیہ و تقدیس بیان کرتی ہے زبان حال سے بھی اور زبان مقال سے بھی۔ جیسا کہ پہلے گزرا۔ 1۔ 2 یہ دونوں خوبیاں بھی اسی کے ساتھ خاص ہیں۔ اگر کسی کو کوئی اختیار حاصل ہے تو وہ اسی کا عطا کردہ ہے جو عارضی ہے، کسی کے پاس کچھ حسن و کمال ہے تو اسی مبدأ فیض کی کرم گستری کا نتیجہ ہے، اس لئے اصل تعریف کا مستحق بھی صرف وہی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢] یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو پیدا کیا تو پھر اس سے بےتعلق نہیں ہوگیا۔ جیسا کہ قدیم فلاسفہ کا نظریہ تھا۔ بلکہ ہر آن اس پر حکومت بھی کر رہا ہے۔ اور جس چیز کی تخلیق سے جو مقصد درکار تھا اسے اس کام پر لگا دیا ہے اور اس سے مطلوبہ مقصد حاصل کرنے کی وہ پوری قدرت رکھتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یُسَبِّحُ ِﷲِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ : اس کی وضاحت کے لیے دیکھئے سورة ٔ حدید (١) اور سورة ٔ حشر (١) کی تفسیر۔ ” یسبح “ (مضارع) کی وضاحت کے لیے دیکھئے سورة ٔ جمعہ کی پہلی آیت کی تفسیر ٢۔” لَہُ الْمُلْکُ “ کے لیے دیکھئے سورة ٔ ملک کی پہلی آیت کی تفسیر اور ” ولہ الحمد “ کے لیے دیکھئے سورة ٔ فاتحہ کی پہلی آیت کی تفسیر۔ ٣۔ فرمایا آسمان و زمین میں جو بھی چیز ہے وہ زبان قال و حال سے شہادت دے رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر عیب اور ہر کمی سے پاک ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی متعدد صفات خلق ، قدرت اور علم وغیرہ اور ان کے مظاہر بیان فرمائے جن سے اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی توحید ، تسبیح ، قیامت اور رسالت کا حق ہونا ثابت ہوتا ہے ، پھر کفار کے قیامت اور رسولوں کے انکار کا رد فرمایا اور انہیں اللہ ، اس کے رسول اور اس پر نازل کردہ وحی پر ایمان لانے کا حکم دیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر سب چیزیں جو کچھ کہ آسمانوں میں ہیں اور جو کچھ کہ زمین میں ہیں اللہ کی پاکی (قالاً یا حالاً ) بیان کرتی ہیں اسی کی سلطنت ہے اور وہی تعریف کے لائق ہے اور وہ ہر شے پر قادر ہے (یہ تمہید اگلے بیان کی ہے کہ وہ ایسے صفات کمال کے ساتھ متصف ہے تو اس کی اطاعت واجب اور معصیت قبیح ہے) وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا (جو مقتضی اس کا تھا کہ سب ایمان لاتے) سو (باوجود اس کے بھی) تم میں بعضے کافر ہیں اور بعضے مومن ہیں، اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال (ایمانیہ و کفریہ) کو دیکھ رہا ہے (بس ہر ایک کے مناسب جزا دے گا) اسی نے آسمانوں اور زمین کو ٹھیک طور پر (یعنی پر حکمت و پر منفعت) پیدا کیا اور تمہارا نقشہ بنایا سو عمدہ نقشہ بنایا (کیونکہ اعضاء انسانی کے برابر کسی حیوان کے اعضاء میں تناسب نہیں) اور اس کے پاس (سب کو) لوٹنا ہے (اور) وہ سب چیزوں کو جانتا ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور سب چیزوں کو جانتا ہے جو تم پوشیدہ کرتے ہو اور جو علانیہ کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ دلوں تک کی باتوں کو جاننے والا ہے اور یہ تمام امور مقتضی اس کو ہیں کہ تم اس کی اطاعت کیا کرو اور علاوہ ان مقتضیات کے کیا تم کو ان لوگوں کی خبر نہیں پہنچی ( کہ وہ خبر پہنچنا بھی مقتضی و جوب اطاعت کو ہے) جنہوں نے (تم سے) پہلے کفر کیا، پھر انہوں نے اپنے (ان) اعمال کا وبال (دنیا میں بھی) چکھا اور (اس کے علاوہ آخرت میں بھی) ان کے لئے عذاب درد ناک ہونے والا ہے یہ (وبال عاجل و عذاب آ جل) اس سبب سے ہے کہ ان لوگوں کے پاس ان کے پیغمبر دلائل واضحہ لے کر آئے تو ان لوگوں نے (ان رسولوں کی نسبت) کہا کہ کیا آدمی ہم کو ہدایت کریں گے (یعنی بشر کہیں پیغمبر یا ہادی ہوسکتا ہے) غرض انہوں نے کفر کیا اور اعراض کیا اور خدا نے (بھی ان کی کچھ) پرواہ نہ کی (بلکہ مقہور کردیا) اور اللہ (سب سے) بےنیاز (اور) ستودہ صفات ہے (اس کو نہ کسی معصیت سے ضرر اور نہ کسی کی اطاعت سے نفع، خود مطیع و عاصی ہی کا نفع اور ضرر ہے اور) یہ کافر (مضمون عذاب آخرت کا سن کر جیسا کہ لہم عذاب الیم میں مذکور ہے) یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ہرگز دوبارہ زندہ نہ کئے جاویں گے (جس کے بعد عذاب الیم کا وقوع بتلایا جاتا ہے) آپ کہہ دیجئے کہ کیوں نہیں، واللہ ضرور دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے پھر جو کچھ تم نے کیا ہے تم سب کو جتلا دیا جاوے گا (اور اس پر سزا دی جاوے گی) اور یہ (بعث و جزاء) اللہ کو (بوجہ کمال قدرت) بالکل آسان ہے سو (جب یہ مقتضیات ایمان کے مجتمع ہیں تو تم کو چاہئے کہ) تم اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس نور پر (یعنی قرآن پر) جو ہم نے نازل کیا ہے ایمان لاؤ اور اللہ تمہارے سب اعمال کی پوری خبر رکھتا ہے (اور اس دن کو یاد کرو) جس دن کہ تم سب کو اس جمع ہونے کے دن میں جمع کرے گا یہی دن ہے سو دوزیاں (کے ظاہر ہونے) کا (یعنی مسلمانوں کا نفع اور کافروں کا نقصان اس روز عملاً ظاہر ہوجاوے گا) اور (بیان اس کا یہ ہے کہ) جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہوگا اور نیک کام کرتا ہوگا اللہ اس کے گناہ دور کرے دے گا اور اس کو (جنت کے) ایسے باغون میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رہیں گے (اور) یہ بڑی کامیابی ہے اور جن لوگوں نے کفر کیا ہوگا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہوگا یہ لوگ دوزخی ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے اور وہ برا ٹھکانا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يُسَبِّــحُ لِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۝ ٠ ۚ لَہُ الْمُلْكُ وَلَہُ الْحَمْدُ۝ ٠ ۡوَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۝ ١ سبح السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] ، ( س ب ح ) السبح اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ ملك) بادشاه) المَلِكُ : هو المتصرّف بالأمر والنّهي في الجمهور وَالمِلْكُ ضربان : مِلْك هو التملک والتّولّي، ومِلْك هو القوّة علی ذلك، تولّى أو لم يتولّ. فمن الأوّل قوله : إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل/ 34] ، ومن الثاني قوله : إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة/ 20] ( م ل ک ) الملک ۔ بادشاہ جو پبلک پر حکمرانی کرتا ہے ۔ یہ لفظ صرف انسانوں کے منتظم کے ساتھ خاص ہے . اور ملک کا لفظ دو طرح پر ہوتا ہے عملا کسی کا متولی اور حکمران ہونے کو کہتے ہیں ۔ دوم حکمرانی کی قوت اور قابلیت کے پائے جانے کو کہتے ہیں ۔ خواہ نافعل اس کا متولی ہو یا نہ ہو ۔ چناچہ پہلے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوها[ النمل/ 34] بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں ۔ تو اس کو تباہ کردیتے ہیں ۔ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے فرمایا : ۔ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِياءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكاً [ المائدة/ 20] کہ اس نے تم میں پیغمبر کئے اور تمہیں بادشاہ بنایا ۔ حمد الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود : إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ . ( ح م د ) الحمدللہ ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گومن وجہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشاره پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پر مذ کور ہے ۔ شيء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . ( ش ی ء ) الشئی بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، قَدِيرُ : هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة/ 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة/ 264] . القدیر اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف/ 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١۔ ٢) آسمانوں و زمین میں جتنی مخلوقات اور زندہ چیزیں ہیں سب اسی کی تسبیح و تقدیس بیان کرتی ہیں اسی کی ہمیشہ کی سلطنت ہے اور آسمانوں اور زمین دونوں پر یا یہ کہ دنیا و آخرت والوں پر اسی کی حمد و ثنا واجب ہے۔ اور وہ امور دنیا و آخرت میں سے ہر ایک امر پر اور آسمان والوں اور زمین والوں کو آراستہ کرنے پر قادر ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١{ یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ } ” تسبیح کرتی ہے اللہ کی ہر وہ شے جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ شے جو زمین میں ہے۔ “ سورة التغابن اَلْـمُسَبِّحات کے سلسلے کی آخری سورت ہے۔ اس سلسلے کی سورتوں میں سے یہ دوسری سورت ہے جس کے آغاز میں یُسَبِّحُ کا صیغہ آیا ہے۔ اس سے پہلے یہ صیغہ سورة الجمعہ کی پہلی آیت میں آیا ہے۔ باقی تینوں اَلْـمُسَبِّحات کی ابتدا میں سَبَّحَ کا صیغہ آیا ہے۔ { لَـہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ } ” اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کے لیے حمد ہے۔ “ کل کائنات کی بادشاہی بھی اللہ ہی کی ہے اور کل شکر وسپاس اور تعریف و ثنا کا مستحق حقیقی بھی صرف وہی ہے۔ { وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ} ” اور وہ ہرچیز پر قادر ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1 For explanation, see E.N. I of the commentary on Surah AI-Hadid. A study of the following theme by itself shows why the discourse has ban begun with this sentence. What has been stated below about the Universe and Man is that AIIah alone is their Creator, Master, Ruler, and He has not made this universe without purpose and wisdom, that Man has not been created and left irresponsible, so that he may act as he may please, and there should be nobody to call him to account, and that the Ruler of this universe is not a care-free and ignorant king so that he may have no knowledge of what is happening in his kingdom. The best introduction to this theme could be the same as has been couched in this brief sentence. In view of the context, the introduction means: In whichever direction you may turn your gaze, from the earth to the limitless vastnesses of the heavens, you will clearly see that everything from a particle to the great galaxies not only testifies to the existence of God but also bears evidence that its God is free from every defcet. every weakness and error. Had them been the least probability of a defect or fault, weakness or deficiency, in His essence and attributes, in His acts and decrees, this perfect and wise system could not have come into being at aII, nor continue to function so consistently and immutably from eternity to eternity. 2 That is, "The Kingdom of the universe solely belongs to Him. He has not just created it and Ieft it alone after giving it the initial push, but He alone is actually ruling over it every moment. No one else has any role or share whatever in this rule and sovereignty. If others possess temporarily and on a limited scale some powers of ownership or rule somewhere in the universe, these are not their personal powers, which they might have acquired by virtue of their own power, but these have been granted to them by Allah. They possess these powers as long as Allah wills, and they can be withdrawn as and when He so desires." 3 In other words; He alone is worthy of all praise. Whatever other being has any praiseworthy quality, it has ban granted by Allah. And if hamd (praise) be taken in the sense of shukr (thankfulness) , the meaning would be: In reality Allah alone is worthy of being thanked, for all. good things in the world have been created by Him, and He alone is the teal Benefactor of aII kinds of creation. When we thank another being for favour, we thank it for the reason that Allah conveyed His blessing thought it or him to us, otherwise neither the being itself is the creator of the blessing nor could it convey the blessing to you without Allah's permission and help. 4 That is, "He is the possessor of absolute power: He can do whatever. He wills, there is no power to restrain or limit His Omnipotence.

سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :1 ( تشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، تفسیر سورہ الحدید ، حاشیہ 1 ۔ ) بعد کے مضمون پر غور کرنے سے یہ بات خود سمجھ میں آجاتی ہے کہ کلام کا آغاز اس فقرے سے کیوں کیا گیا ہے ۔ آگے کائنات بے مقصد اور بے حکمت نہیں بنائی ہے ۔ اور انسان یہاں غیر ذمہ دار بنا کر نہیں چھوڑ دیا گیا ہے کہ جو کچھ چاہے کرتا پھرے ، کوئی اس سے باز پُرس کرنے والا نہ ہو ۔ اور اس کائنات کا فرمانروا کوئی شہِ بے خبر نہیں ہے کہ اس کی سلطنت میں جو کچھ ہو رہا ہو اس کا کوئی علم اسے نہ ہو ۔ اس مضمون کی بہترین تمہید وہی ہو سکتی تھی جو اس مختصر سے فقرے میں ارشاد ہوئی ہے ۔ موقع و محل کے لحاظ سے اس تمہید کا مطلب یہ ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں کی انتہائی وسعتوں تک جدھر بھی تم نگاہ گے ، اگر تم عقل کے اندھے نہیں ہو تو تمہیں صاف محسوس ہو گا کہ ایک ذرے سے لے کر عظیم ترین کہکشانوں تک ہر چیز نہ صرف خدا کے وجود پر گواہ ہے بلکہ اس بات کی گواہی بھی دے رہی ہے کہ اس کا خدا ہر عیب اور نقص اور کمزوری اور غلطی سے پاک ہے ۔ اس کی ذات و صفات ، اور اس کے افعال و احکام میں کسی عیب و خطا ، یا کسی کمزوری اور نقص کا ادنیٰ درجے میں بھی کوئی احتمال ہوتا تو یہ کمال درجہ حکیمانہ نظام وجود ہی میں نہ آ سکتا تھا ، کجا کہ ازل سے ابد تک ایسے اٹل طریقہ سے چل سکتا ۔ سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :2 یعنی یہ پوری کائنات تنہا اسی کی سلطنت ہے ۔ وہ صرف اس کو بنا کر اور ایک دفعہ حرکت دے کر نہیں رہ گیا ہے بلکہ وہی عملاً اس پر ہر آن حکومت کر رہا ہے ۔ اس حکومت و فرمان روائی میں کسی دوسرے کا قطعاً کوئی دخل یا حصہ نہیں ہے ۔ دوسروں کو اگر عارضی طور پر اور محدود پیمانے پر اس کائنات میں کسی جگہ تصرف یا ملکیت یا حکمرانی کے اختیارات حاصل ہیں تو وہ ان کے ذاتی اختیارات نہیں ہیں جو انہیں اپنے زور پر حاصل ہوئے ہوں ، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے ہیں ، جب تک اللہ چاہے وہ انہیں حاصل رہتے ہیں ، اور جب چاہے وہ انہیں سلب کر سکتا ہے ۔ سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :3 بالفاظ دیگر وہی اکیلا تعریف کا مستحق ہے ، دوسری جس ہستی میں بھی کوئی قابل تعریف خوبی پائی جاتی ہے وہ اسی کی عطا کی ہوئی ہے ۔ اور اگر حمد کا شکر کے معنی میں لیا جائے تو شکر کا بھی اصل مستحق وہی ہے ، کیونکہ ساری نعمتیں اسی کی پیدا کی ہوئی ہیں اور ساری مخلوقات کا حقیقی محسن اس کے سوا کوئی نہیں ہے ۔ دوسری کسی ہستی کے کسی احسان کا ہم شکریہ ادا کرتے ہیں تو اس بنا پر کرتے ہیں کہ اللہ نے اپنی نعمت اس کے ہاتھوں ہم تک پہنچائی ، ورنہ وہ خود نہ اس نعمت کا خالق ہے ، نہ اللہ کی توفیق کے بغیر وہ اس نعمت کو ہم تک پہنچا سکتا تھا ۔ سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :4 یعنی وہ قادر مطلق ہے ۔ جو کچھ کرنا چاہے کر سکتا ہے ۔ کوئی طاقت اس کی قدرت کو محدود کرنے والی نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ٤۔ بےجان چیزوں کی تسبیح کا ذکر اوپر گزر چکا ہے لہ الملک ولہ الحمد کا یہ مطلب ہے کہ زمین و آسمان میں اسی کی ساری بادشاہت ہے اس لئے ہر ایک چیز زمین و آسمان کی اپنے اپنے حال کے موافق اسی کی حمد و ثنا میں لگی ہوئی ہے وھو علی کل شی قدیر کا یہ مطلب ہے کہ اس کی بادشاہت دنیا کے بادشاہوں کی طرح نہیں ہے کہ بعض باتیں ان کے اختیار سے خارج ہیں بلکہ وہ اپنی بادشاہت میں جو چاہے سو کرسکتا ہے۔ چناچہ اس کی تفصیل سورة تبارک الذی میں آئے گی۔ وھو الذی خلقکم فمنکم کافر و منکم مومن کی تفسیر اہل سنت کے مذہب کے موافق یہ ہے کہ دنیا کے پیدا کرنے سے پہلے جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے اس سب کو اور نیک اور بد لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی سے جان لیا ہے اور جو کچھ قیامت تک ہوگا وہ سب لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے۔ پھر انسان کو پیدا کرکے نیک و بد کام کا کرنا انسان کے اختیار پر چھوڑ دیا ہے جیسا کوئی کرے گا ویسا پائے گا۔ اب جو کچھ دنیا میں ہوتا ہے آخر وہ علم ازلی الٰہی کے مطابق پڑتا ہے کیونکہ ہر شخص اپنے اختیار سے وہی کام کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے علم ازلی سے معلوم کرلیا ہے لیکن اس علم ازلی کے موافق کسی کو کسی کام پر اللہ تعالیٰ نے مجبور نہیں کیا بلکہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی سے نیک و بد کو جان لیا تھا اس پر بھی اللہ تعالیٰ ہر ایک پیدا ہونے والے کو فطرۃ اسلام پر پیدا کرتا ہے پھر شعور پکڑنے کے بعد وہ لڑکا ماں باپ کی صحبت کے سبب سے یا شیطان کے بہکانے سے فطرۃ اسلام کو چھوڑ کر اور ڈھنگ سے لگ جاتا ہے چناچہ اس باب کی صحیح حدیثیں بھی اوپر گزر چکی ہیں اور تقدیر کے مسئلہ کے ذکر میں اس مسئلہ کی تفصیل بھی گزر چکی ہے اور یہ بھی گزر چکا ہے کہ ازلی بد کو نیک کردینا بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت سے باہر نہیں ہے حاصل کلام یہ ہے کہ جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کو معلوم اور اس کے رو برو ہے اس لئے فرمایا جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ وہ سب دیکھتا ہے اور یہ ہر چیز کا دیکھنا بھالنا اور انسان کی نیت تک کا جانچنا اور ہر شخص کے عملوں کے لکھنے کیلئے فرشتوں کا مقرر کرنا اس واسطے ہے کہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے اس کو وہ فرشتے لکھ لیں اور خصوصاً ایسی اچھی صورت و شکل میں انسان کو اس نے اسی عدل و انصاف کی بنیاد پر اس لئے پیدا کیا ہے کہ دنیا میں جو کچھ نیک و بد ہو رہا ہے وہ دنیا کے ختم تک ہوجائے تو اس کے بعد انسان کو پھر دوبارہ پیدا کرکے نوکس کو ان کی نیکی کی جزا دی جائے اور بدوں سے ان کی بدی کا مواخذہ کیا جائے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(64:1) یسبح للہ ما فی السموت والارض۔ (ملاحظہ ہو 57:1 ، 62:1) اللہ کی پاکی بیان کرتی ہیں جو چیزیں آسمانوں میں ہیں اور جو چیزیں زمین میں ہیں۔ لہ الملک ولہ الحمد : الملک بادشاہت۔ الحمد (ال استغراق کا ہے یعنی ہر قسم کی تعریف) تعریف۔ لہ میں لام تملک کا ہے ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع اللہ ہے ۔ لہ دونوں جگہ ذکر کیا گیا۔ یہ تقدیم مفید حصر ہے۔ یعنی اللہ ہی کے لئے ہر تعریف ہے اور اللہ ہی کی بادشاہت ہے۔ وھو علی کل شیء قدیر : جملہ ھذا کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ اور وہ ہرچیز پر قادر ہے۔ یا لہ کی ضمیر واحد مذکر سے حال ہے۔ درآں حالیکہ وہ ہر شے پر قادر ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 دنیا میں اگر کسی کو اتخیار اور تعریف حاصل ہے تو وہ اسی کا فیض اور عصیہ ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ١ تا ١٠۔ اسرار ومعارف۔ زمینوں اور آسمانوں کی ساری مخلوق اللہ کی پاکی بیان کرتی ہے اپنی زبان حال سے بھی اور پنے شعور کے مطابق زبان قال سے بھی کہ وہی حقیقی بادشاہ ہے اور تمام خوبیوں کا مالک ہر شے پر قادر ہے وہی عظیم ذات ہے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور پھر تم میں کچھ اپنے اختیار سے ایمان لائے اور کچھ نے کفر کیا۔ ایمان وکفر ہی دوقومی نظرئیے کی بنیاد ہے۔ قرآن میں یہ مضمون متعدد مقامات پر گزرچکا ہے کہ قوموں کی تقسیم صرف ایمان وکفر پر ہے اس کے بعد خاندان اور قبیلے ہیں جو پہچان کے لیے ہیں اور یہ کہ بنیادی طور پر سب انسان ایک جیسے اور فطری اوصاف لے کر پیدا ہوتے ہیں کوئی کافر پیدا نہیں ہوتا بلکہ جب سن شعور کو پہنچتا ہے تو اپنے اختیار سے کفر اختیار کرتا ہے لہذا دوسری قوم میں شمار ہونے لگتا ہے دنیا اقوام وملل میں تقسیم تھی اور ہر کوئی دوسرے سے برسرپیکار تھا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو بھائی بھائی کردیا۔ رنگ ونسل اور زبان وخاندان کا فرق وقوم کی شناخت نہ رہا نیز فرمایا کہ کفر بھی ملت واحدہ ہے یعنی دنیا میں صرف دوقومیں ہیں ایک مومن اور ایک کافر افسوسک ہ آج دین سے دوری کے باعث مسلمان پھر سے مختلف قوموں اور لسانی وصوبائی طبقوں میں بٹ کر اخوت اسلامی سے محروم ہوئے اور کفار انہیں سازش کرکے آپس میں لڑا رہے ہیں خاندان تو غیر اختیاری ہے کہ آدمی مرضی سے رنگ ونسل نہیں بدل سکتا جبکہ قوم مرضی سے اختیار کرسکتا ہے کہ ایمان لاکر یا انکار کرکے قوم بدل سکتا ہے اور اللہ ہر ایک کے کردار کو دیکھ رہا ہے۔ اس نے زمین وآسمان کو بالکل درست انداز سے پر کیا یعنی کوئی ذرہ ایسا نہیں کہ اسے کہیں اور ہونا چاہیے تھا اور ہے کسی اور جگہ ایساناحق ہرگز نہیں ورنہ اس طرح خوبصورتی سے اپنا اپنا کام نہ کرپاتے اور پھر اس نے تم انسانوں کو صورت گری کی اور بہت ہی بھلی صورت گری کی بہت ہی درست اعضاء وجوارح اور شکل و صورت کہ انسان اپنی زندگی سے لطف اندوز ہوسکتا ہے اور بھلے برے کی تمیز اور اختیار بھی دیا اس پر عمل کے لیے عقل وفکر اور دست وبازو بخشے مگر یہ سب فضول نہیں اس کا نتیجہ اور انجام یہ ہے کہ تمہیں لوٹ کر اس کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے اور وہ آسمانوں اور زمینوں کی ہر بات کو جانتا ہے جو تم پوشیدہ رکھتے ہو اسے بھی جانتا ہے اور جو تم ظاہر کرتے ہو وہ بھی اس کے علم میں ہے بلکہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے وہ اس سے بھی وا اقف ہے۔ یقینا تم اپنے سے پہلے لوگوں کے احوال سے بھی واقف ہو جو اپنے کرتوتوں کے باعث تباہ ہوئے اور آخرت میں بھی ان کے لیے دردناک عذاب ہے اس لیے کہ ان کے پاس اللہ کے رسول آئے اور ہدایت کا پیغام لائے مگر انہوں نے نہ مانا کہ یہ تو ہماری طرح کا بشر ہے بھلایہ کس طرح ہماری قیادت کا مستحق ہوا۔ بشر اور نور۔ کفار کا خیال تھا کہ نبی کوئی نوری مخلوق ہو جو کھاتا پیتاسوتاجاگتا نہ ہو اور یہ نہ جان سکے کہ نبی کی بشریت سب طرح کی نوری مخلوق سے افضل تر ہوتی ہے اور خود انسانی اوصاف رکھتا ہے اور اطاعت الٰہی عملا کرکے دکھاتا ہے آج کل بھی مسلمانوں میں نوربشر کا جھگڑا ہے حق یہ کہ نبی نور ہے جو (رح) اللہ تعالیٰ کے بعد تمام طرح کی نوری مخلوق سے افضل ہے اور بشر ہے جس کی مثل کوئی دوسرا نہیں۔ ان لوگوں نے کفر اختیار کیا اور نبی کا لایا ہوا دین نہ عقیدے کے اعتبار سے قبول کیا اور نہ عمل کے۔ عقیدہ وعمل۔ یاد رہے کہ نبی دو باتیں لے کرمبعوث ہوئے اول عقیدہ دوسرے عمل میں پھر دو حصے ہیں عبادات اور نظام حیات سب کا انکار کفر ہے عقیدے کا اقرار اور عبادات پر عمل مگر نظام حیات سے فرار منافقت ہے اور عقیدہ عبادت اور نظام حیات پر عمل اسلام ہے۔ مگر وہ لوگ نبی کی راہ سے منہ موڑ گئے تو یہ ان کی اپنی بھلائی کے لیے تھا اللہ تو بےنیاز ہے اسے کسی کی عبادت اور اطاعت کی احتیاج نہیں ۔ وہ ایسی ذات ہے کہ تمام خوبیاں اسی کو سزوار ہیں۔ کفار کو یہ زعم بھی ہے کہ مرکربات ختم ہوجائے گی اور انہیں دوبارہ زندہ نہ کیا جائے گا فرمادیجئے قسم ہے میرے پروردگار کی یعنی اس کی ربوبیت اس پر گواہ ہے کہ انسان کو پیدا کیا عقل شعور اور اختیار دیا ، نیک وبدواضح کیا اور ربوبیت کا تقاضا ہے کہ اس کا نتیجہ بھی مرتب فرمائے لہذا تم سب کو زندہ بھی کیا جائے گا اور جو عمل دنیا میں کیے ہیں ان سے آگاہ بھی کیا جائے گا اور یہ سب اللہ کے لیے مشکل نہیں کہ روزانہ دیکھتے ہو کتنی طرح کی مخلوق عدم سے وجود میں آرہی ہے جس روز تم سب جمع کیے جاؤ گے وہی دن تو کفار کے لیے اصل خسارے کا دن ہوگا ایمان نہ ہونے کی وجہ سے کس طرح کی رحمت کے مستحق بھی نہ ہوں گے جبکہ وہ مومن جو دنیا میں نبی کے حکم کے مطابق عمل کرنے میں کوشاں ہے اگر ان سے غلطی بھی ہوگئی تو اللہ معاف فرما کر ایسے حسین باغوں میں جگہ بخشے گا جہاں نہریں جاری ہوں گی اور ہمیشہ بہار ہوگی اور وہ ہمیشہ وہاں رہیں گے یہی سب سے بڑی کامیابی ہے جن لوگوں نے کفر کیا اور میری آیات کا انکار کیا وہ لوگ دوزخ میں ڈالے جائیں گے جہاں انہیں ہمیشہ رہنا ہوگ اور وہ بہت بری جگہ ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ صور۔ اس نے صورت شکل بنائی۔ لن یبعثوا۔ وہ ہرگز نہ اٹھائے جائیں گے۔ تنبون۔ تم ضرور اٹھائے جائو گے۔ التغابن۔ گھاتے اور نقصان کا دن۔ تشریح : ہماری دنیاوی زندگی ہار اور جیت کے چکر میں گزر جاتی ہے۔ جیت گئے تو خوشی کا ٹھکانا نہیں ہوتا اور اگر ہار گئے تو غم سے نڈھال اور مایوس ہر کر رہ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں بالکل واضح طریقہ پر ارشاد فرمایا دیا ہے کہ اس دنیا کا تغابن (ہار جیت) کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ ہار جیت کا اصل میدان قیامت کا ہولناک دن ہے۔ اس دن جو زندگی کی بازی ہار گیا اور شکست کھا گیا وہ انتہائی بدقسمت لوگوں میں سے ہوگا اور جو اپنے بہترین اعمال کے سبب جیت گیا اس کی خوشی کا اندازہ کرنا شمکل ہے۔ لیکن یہ ہارنے اور جیتنے والے کون لوگ ہوں گے ؟ فرمایا کہ جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ کفر و شرک، فسق و فجور اور اللہ کے رسول کی اطاعت سے منہ موڑا ہوگا وہ دنیا کے اعتبار سے کتنے ہی کامیاب کیوں نہ ہوں وہ آخرت کی حقیقی زندگی میں ناکام ترین لوگ ہوں گے۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جنہوں نے اللہ و رسول کی اطاعت و فرماں برداری، نیکی، تقویٰ اور پرہیز گاری کی زندگی کو اختیار کیا ہوگا وہ اگرچہ دنیاوی اعتبار سے کتنے ہی غریب و مفلس اور ناکام کیوں نہ ہوں وہ آخرت میں کامیاب و بامراد ہوں گے۔ سورة ٔ تغابن کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے ایک مربتہ پھر یاد دلایا ہے کہ کائنات کی سلطنت و حکومت اس بادشاہ (اللہ) کے لئے ہے جو تمام تعریفوں اور خوبیوں کا مالک ہے اور ہر چیز پر اس کی قدرت چھائی ہوئی ہے اور کائنات کا ذرہ ذرہ ہر وقت اس کی حمدو ثنا کر رہا ہے۔ اسی نے انسان کو بھی پیدا کیا ہے۔ حق تو یہ تھا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت و بندگی کی جاتی لیکن انسان کا ناشکرا پن یہ ہے کہ دنیا کے معمولی سے کھلونوں سے کھیلتے ہوئے اسی کو حقیقی زندگی سمجھتا ہے اور اللہ کا انکار کردیتا ہے۔ حالانکہ اللہ نے اس کائنات کے نظام کو بنا کر اس میں انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا کیا ہے۔ اللہ کو آدمی کے دل کا حال تک معلوم ہے اس نے انسانوں کی ہدایت کے لئے اپنے پیغمبروں کو بھیجا۔ جنہوں نے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی اطاعت کی اور ان کا کہا مانا وہ تو کامیاب رہے لیکن جنہوں نے ان کا نکار کیا اور اطاعت سے منہ موڑا۔ اللہ نے ان کو اس طرح تہس نہس کردیا کہ ان کے خوبصورت مکانات کھنڈروں میں تبدیل ہو کر قصے کہانیاں بن گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن لوگوں کو ان کے برے اعمال کی وجہ سے تباہ و برباد کیا گیا۔ وہ اور کائنات کے جتنے لوگ مرچکے ہیں یا مریں گے اللہ ان سب کو دوبارہ پیدا کرکے ان سے زندگی کا حساب کتاب لے گا۔ فرمایا کہ لوگو ! تم اللہ کے رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور ان کے ساتھ جو نور ہدایت یعنی قرآن کریم نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان لائو۔ کیونکہ ہار جیت کے فیصلے کا دن بہت قریب ہے۔ جس میں ایمان اور عمل صالح اختیار کرنے والوں کو نجات اور گناہوں سے معافی ہوگی اور ان کو ایسی جنتوں کا دن بہت قریب ہے۔ جس میں ایمان اور عمل صالح اختیار کرنے والوں کی نجات اور گناہوں سے معافی ہوگی اور ان کو ایسی جنتوں میں داخل کیا جائے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ کامیاب ترین لوگ ہوں گے لیکن جنہوں نے کفر و انکار کیا ہوگا تو ان کو ایسی جہنم میں ڈال دیا جائے گا جو ایک بدترین ٹھکانا اور ہمیشہ رہنے کی جگہ ہوگی۔ یہ ہے وہ ہار جیت کامیدان جس میں خوش قسمت اور بدقسمت لوگوں کا فیصلہ کیا جائے گا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورت : مسبِّحات میں سے یہ پانچویں سورت ہے۔ ارشاد ہوا کہ زمین و آسمانوں کی ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کررہی ہے۔ ہر کسی کی تسبیح میں یہ اقرار شامل ہے کہ زمین و آسمان کی بادشاہی ” اللہ “ کے لیے ہے اور وہی ہر قسم کی تعریف کے لائق ہے، نہ صرف زمین و آسمانوں کی ہر چیز کا بادشاہ ہے بلکہ وہ ہر چیز پر پوری طرح اقتدار اور اختیار بھی رکھتا ہے۔ اس فرمان میں یہ بات بالکل واضح کردی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اسے پیدا فرما کر یونہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ ساری کائنات اور اس کا نظام اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے وہ جو چاہے جب چاہے اور جس طرح چاہے اپنا حکم نافذ کرتا ہے۔ اس کے حکم کے سامنے کوئی چیزدم نہیں مار سکتی وہی لوگوں کو پیدا کرنے والا ہے پھر ان میں کوئی کافر ہوا اور کوئی مومن بنا۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھتا ہے جو لوگ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں جمع مخاطب کی ضمیر استعمال فرما کر خطاب کیا ہے کہ اے لوگو ! میں نے تمہیں پیدا کیا ہے لیکن تم میں کچھ لوگ میری ذات اور فرمان کا انکار کرتے ہیں اور کچھ میری ذات کا اقرار اور میرے حکم کو ماننے والے ہیں، یاد رکھو ! جو بھی تم عمل کرتے ہو میں اسے دیکھنے والا ہوں۔ یہ فرمان ایک لحاظ سے ہر انسان کو انتباہ ہے کہ اے انسان ! تجھے وہی کرنا چاہے جس کا تجھے حکم دیا گیا ہے، مگر لوگوں کی حالت یہ ہے کہ ان کی غالب اکثریت اپنے رب کے ساتھ کفر کرنے والی ہے۔ انسان کے کفر کرنے کی درج ذیل صورتیں ہیں۔ 1 ۔ اللہ کی ذات یا اس کی صفات کا انکار کرنا۔ 2 ۔ اللہ کے احکام کا انکار کرنا۔ 3 ۔ اللہ تعالیٰ پر اس طرح ایمان نہ لانا جس طرح ایمان لانے کا اس نے حکم دیا ہے۔ 4 ۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اس کے حکم کے مطابق ماننے کی بجائے ان میں تاویلات کرتا۔ 5 ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات یا صفات میں کسی کو شریک بنا نا۔ 6 ۔ اس کے احکام میں کسی ایک کا انکار کرنا۔ مسائل ١۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے۔ ٢۔ زمین و آسمانوں اور ہر چیز کا بادشاہ اور مختار کل ” اللہ “ ہے۔ ٣۔ تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں۔ ٤۔ اللہ ہی وہ ذات ہے جس نے انسانوں کو پیدا فرمایا۔ ٥۔ لوگوں میں کافر اور مومن دو قسم کے انسان ہوتے ہیں۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ہر حال میں دیکھنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے : ١۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے (البقرۃ : ٢٠) ٢۔ ” اللہ “ آسمانوں و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمراٰن : ٢٩) ٣۔ ” اللہ “ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو زمین میں داخل ہوتی اور نکلتی ہے۔ ( الحدید : ٤) ٤۔ ” اللہ “ آسمانوں و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ ( المجادلہ : ٧) ٥۔” اللہ “ حاضر اور غیب کو جاننے والا ہے۔ ( الرعد : ٩) ٦۔ تم جہاں کہیں بھی ہوگے اللہ تمہیں قیامت کے دن جمع فرمائے گا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ : ١٤٨) ٧۔ اللہ جسے چاہے عذاب دے جسے چاہے معاف کردے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ : ٢٨٤) ٨۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے احاطہ علم میں ہے۔ (الطلاق : ١٢) ٩۔ بیشک میرا پروردگار جو تم عمل کرتے ہو اس کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ (ھود : ٩٢) ١٠۔ یقیناً اللہ ہر چیز کو گھیرنے والا ہے۔ (حٰم السجدۃ : ٥٤) ١١۔ اللہ ہر چیزکا احاطہ کرنے والا ہے۔ (النساء : ١٢٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

زمین اور آسمانوں میں ، جو مخلوق بھی ہے ، وہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہے۔ اس کی تسبیح اور تعریف کررہی ہے۔ گویا اس پوری کائنات کی روح مومن ہے۔ اور اس پوری کائنات کا دل مومن ہے۔ اللہ اس پوری کائنات کا مالک ہے۔ اور اس کائنات کی ہر چیز میں اس کا شعور بھی ہے۔ اللہ اپنی ذات میں بھی ستودہ صفات ہے اور اس مخلوقات کے اندر بھی اس کی تعریف اور تمجید ہوتی ہے۔ اب اگر اس وسیع کائنات کے سمندر میں ایک اکیلا انسان کافر بن جائے اور اس کی روح اور اس کا قلب غافل اور منکر ہو ، وہ سرکش اور نافرمان ہو ، اللہ کی تسبیح نہ کرے ، اس کی طرف متوجہ نہ ہو تو یہ بالکل شاذ ہوگا ، اور انوکھا ہوگا ، اور عجیب ہوگا اور نمایاں طور پر الگ ہوگا۔ اس طرح جس طرح کسی کو یہ پوری کائنات دھتکار دے۔ وھو علی ................ قدیر (٣٦ : ١) ” اور وہ ہر چیز پر قادر ہے “۔ اللہ کی قدرت بےقید اور لامحدود ہے۔ قلب مومن میں قرآن اس حقیقت کو طبع کرتا ہے۔ یوں انسان اس حقیقت کو جانتا ہے اور اس کے مدلول سے متاثر ہوتا ہے۔ اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ قدرت جو چاہے اس کے ساتھ کرے۔ وہ اپنے آپ کو قدرت کے سپرد کردیتا ہے کہ قدرت اس معاملات کے اندر جو چاہے تصرف کرے۔ قدرت الٰہیہ کا یہ جامع تصور کہ ہر شے اس کی تسبیح کرتی ہے ، اس کی تعریف کرتی ہے اور اس کی طرف متوجہ ہے ، یہ اسلام کے اس عظیم جامع تصور کا ایک اہم پہلو ہے۔ دوسری چٹکی خود قلب انسانی کے اندر۔ انسان کا یہ چھوٹا سا دل اس عظیم کائنات کے سمندر کے اندر ہے۔ یہ پوری کائنات تسبیح الٰہی اور حمد الٰہی میں رطب اللسان ہے۔ یہ چھوٹا سا دل کبھی مومن بن جاتا ہے اور کبھی کافر۔ اس چھوٹے انسان کا چھوٹا قلب ہی اس کائنات میں ایسا موقف اختیار کرتا ہے ۔ کائنات کی کوئی شے اس کفر میں اس کا ساتھ نہیں دیتی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آسمان و زمین کی کائنات اللہ تعالیٰ کی تسبیح میں مشغول ہے، تم میں بعض کافر اور بعض مومن ہیں، اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے یہاں سے سورة التغابن شروع ہو رہی ہے یہ لفظ ” غبن “ سے لیا گیا ہے۔ غبن نقصان کو کہتے ہیں آخرت میں جو نقصان ہوگا اس سورت کے پہلے رکوع کے ختم کے قریب اس کو تغابن اور یوم آخرت کو یوم التغابن سے تعبیر فرمایا ہے اس لئے یہ سورة ، سورة التغابن کے نام سے معروف ہے اوپر چند آیات کا ترجمہ لکھا گیا ہے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی تنز یہہ بیان فرمائی ارشاد فرمایا کہ جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے وہ سب اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں زبان قال یا زبان حال سے سب تسبیح میں مشغول ہیں، پھر فرمایا ﴿ لَهُ الْمُلْكُ ﴾ (اسی کے لئے ملک ہے) ساری مخلوق اسی کی ملکیت ہے ﴿ وَ لَهُ الْحَمْدُ ﴾ (اور اسی کے لئے سب تعریفیں ہیں) اس کے تصرفات اور اختیارات میں کسی کو کوئی دخل نہیں اور وہ اپنے تمام تصرفات میں محمود ہے۔ ﴿وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ٠٠١﴾ (اور وہ ہر چیز پر قادر ہے) ۔ وہ جو بھی کرنا چاہے کرسکتا ہے کوئی چیز اس کے اختیار سے باہر نہیں۔ پھر دوسری اور تیسری آیت میں اللہ تعالیٰ کی شان خالقیت بیان فرمائی، فرمایا ﴿ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّ مِنْكُمْ مُّؤْمِنٌ ﴾ (اللہ تعالیٰ وہ جس نے تمہیں پیدا کیا سو تم میں سے بعض کافر ہوئے اور بعض مومن ہوئے) اللہ تعالیٰ نے پیدا فرما دیا سمجھ دے دی قوت فکریہ عطا فرمادی، انبیاء (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا کتابیں نازل فرمائیں، ہدایت پوری طرح سامنے آگئی۔ اس کے باوجود جسے کفر اختیار کرنا تھا وہ کفر پر اڑا رہا، اور جنہیں مومن ہونا تھا، انہوں نے ایمان اختیار کرلیا۔ ﴿ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ٠٠٢﴾ (اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو دیکھتا ہے) ۔ وہ اہل ایمان کے اعمال اور اہل کفر کے کام ان سب کو وہ دیکھتا ہے سب کے اعمال سے باخبر ہے ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق جزاء یا سزادے گا عمل کے عموم میں اعمال قلبیہ اور افعال جوارح سب داخل ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ ” یسبح للہ “ مقصود اصلی مسئلہ توحید کا اعادہ کیا گیا تاکہ قائین اس سے غافل نہ ہوجائیں اور سمجھ لیں کہ قتال اور انفاق فی القتال اسی مسئلہ کی خاط ہے۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اپنے حال کے مناسب اللہ کی تنزیہ و تقدیس میں مصروف ہے اور اس کے ہر شریک سے پاک ہونے کی مقر و معترف ہے۔ ” لہ الملک ولہ الحمد “ کیوں نہ ہو ؟ ساری کائنات میں اسی کا تصرف و اختیار نافذ ہے اس کے علاوہ تمام صفات کارسازی بھی اسی کے ساتھ مختص ہیں اور ہر چیز پر قدرت اور دسترس بھی اسی کو حاصل ہے۔ لہذا اس کائنات میں صرف وہی معبود برحق اور وہی کارساز ہے اور کوئی نہیں۔ ” لہ الملک ولہ الحمد “ میں چونکہ حصر ہے، اس لیے ” وھو علی کل شیئ قدیر “ میں حصر ہوگا، کیونکہ جب کلام کے ایک جزو میں حصر ہو تو اس کے باقی اجزا میں بھی حصر کا مفہوم ملحوظ ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) جو چیز آسمانوں میں ہے اور جو چیز زمین میں ہے سب اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کو پاکی کیساتھ یاد کرتی ہے اسی کاراج اور اسی کی حکومت ہے اور تمام تعریفیں اسی کو سزا وار ہیں اور وہ ہرچیز پر پوری طرح قادر ہے۔ یعنی آسمان و زمین کی تمام چیزیں زبان حال یا زبان قال سے اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس بیان کرتی ہیں اسی کا راج ہے اور حکومت و سلطنت حقیقت میں اسی کی ہے اگر یہاں مجازاً کسی کی حکومت ہے تو وہ بھی اسی کے حکم سے ہے ہر قسم کی تعریف کا بھی وہی سزاوار ہے اگر یہاں کسی کی تعریف ہوتی ہے تو وہ بھی حقیقت میں اسی کی تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے اور ہر چیز اس کی قدرت کاملہ کے ماتحت ہے۔