Surat ut Taghabunn

Surah: 64

Verse: 14

سورة التغابن

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ مِنۡ اَزۡوَاجِکُمۡ وَ اَوۡلَادِکُمۡ عَدُوًّا لَّکُمۡ فَاحۡذَرُوۡہُمۡ ۚ وَ اِنۡ تَعۡفُوۡا وَ تَصۡفَحُوۡا وَ تَغۡفِرُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۴﴾

O you who have believed, indeed, among your wives and your children are enemies to you, so beware of them. But if you pardon and overlook and forgive - then indeed, Allah is Forgiving and Merciful.

اے ایمان والو! تمہاری بعض بیویاں اور بعض بچے تمہارے دشمن ہیں پس ان سے ہوشیار رہنا اور اگر تم معاف کردو اور درگزر کر جاؤ اور بخش دو تو اللہ تعالٰی بخشنے والا مہربان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Warning against the Fitnah of Spouses and Offspring Allah warns, يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلاَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ ... O you who believe! Verily, among your wives and your children there are enemies for you; therefore beware of them! Allah states that some wives and children are enemies to their husbands and fathers, in that they might be busied with them rather than with performing the good deeds. Allah said in another Ayah, يأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لاأَ تُلْهِكُمْ أَمْوَلُكُمْ وَلاأَ أَوْلَـدُكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُوْلَـيِكَ هُمُ الْخَـسِرُونَ O you who believe! Let not your properties or you children divert you from the remembrance of Allah. And whosoever does that then they are the losers. (63:9) Allah the Exalted said here, ... فَاحْذَرُوهُمْ ... therefore, beware of them! (for your religion, according to Ibn Zayd). Mujahid explained the Ayah, إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلاَدِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ (Verily, among your wives and your children there are enemies for you); by saying, "They might direct the man to sever his relation or disobey his Lord. The man, who loves his wives and children, might obey them in this case." Ibn Abi Hatim recorded that Ibn Abbas said to a man who asked him about this Ayah, يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلاَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ (O you who believe! Verily, among your wives and your children there are enemies for you; therefore beware of them!) "There were men who embraced Islam in Makkah and wanted to migrate to Allah's Messenger. However, their wives and children refused to allow them. Later when they joined Allah's Messenger, they found that those who were with him (the Companions) have gained knowledge in the religion, so they were about to punish their wives and children. Allah the Exalted sent down this Ayah, وَإِن تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ But if you pardon (them) and overlook, and forgive, then verily, Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful." At-Tirmidhi collected this Hadith and said that it is Hasan Sahih. Allah's statement, إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلاَدُكُمْ فِتْنَةٌ وَاللَّهُ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ

اللہ کی یاد اور دولت ارشاد ہوتا ہے کہ بعض عورتیں اپنے مردوں کو اور بعض اولاد اپنے ماں باپ کو یاد اللہ اور نیک عمل سے روک دیتی ہے جو درحقیقت دشمنی ہے ، جس سے پہلے تنبیہ ہو چکی ہے کہ ایسا نہ ہو تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں یاد اللہ سے غافل کر دیں اگر ایسا ہو گیا تو تمہیں بڑا گھاٹا رہے گا یہاں بھی فرماتا ہے کہ ان سے ہوشیار رہو ، اپنے دین کی نگہبانی ان کی ضروریات اور فرمائشات کے پورا کرنے پر مقدم رکھو ، بیوی بچوں اور مال کی خاطر انسان قطع رحمی کر گزرتا ہے اللہ کی نافرمانی پر تل جاتا ہے ان کی محبت میں پھنس کر احکام اسلامی کو پس پشت ڈال دیتا ہے ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں بعض اہل مکہ اسلام قبول کر چکے تھے مگر زن و فرزند کی محبت نے انہیں ہجرت سے روک دیا پھر جب اسلام کا خوب افشا ہو گیا تب یہ لوگ حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے دیکھا کہ ان سے پہلے کے مہاجرین نے بہت کچھ علم دین حاصل کر لیا ہے اب جی میں آیا کہ اپنے ہاں بچوں کو سزا دیں جس پر یہ فرمان ہوا کہ ان تعفوا الخ ، یعنی اب درگزر کرو آئندہ کے لئے ہوشیار رہو ، اللہ تعالیٰ مال و اولاد دے کر انسان کو پرکھ لیتا ہے کہ معصیت میں مبتلا ہونے والے کون ہیں اور اطاعت گذار کون ہیں؟ اللہ کے پاس جو اجر عظیم ہے تمہیں چاہئے اس پر نگاہیں رکھو جیسے اور جگہ فرمان ہے ( ترجمہ ) الخ ، یعنی بطور آزمائش کے لوگوں کے لئے دنیوی خواہشات یعنی بیویاں اور اولاد ، سونے چاندی کے بڑے بڑے لگے ہوئے ڈھیر ، شائستہ گھوڑے ، مویشی ، کھیتی کی محبت کو زینت دی گئی ہے مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان ہے اور ہمیشہ رہنے والا اچھا ٹھکانا تو اللہ ہی کے پاس ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ فرما رہے تھے کہ حضرت حسن اور حضرت حسین لانبے لانبے کرتے پہنے آ گئے دونوں بچے کرتوں میں الجھ الجھ کر گرتے پڑتے آ رہے تھے یہ کرتے سرخ ، رنگ کے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظریں جب ان پر پڑیں تو منبر سے اتر کر انہیں اٹھا کر لائے اور اپنے سامنے بٹھا لیا پھر فرمانے لگے اللہ تعالیٰ سچا ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سچ فرمایا ہے کہ تمہارے مال اولاد فتنہ ہیں میں ان دونوں کو گرتے پڑتے آتے دیکھ کر صبر نہ کر سکا آخر خطبہ چھوڑ کر انہیں اٹھانا پڑا ۔ مسند میں ہے حضرت اشعت بن قیس فرماتے ہیں کندہ قبیلے کے وفد میں میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ نے مجھ سے پوچھا تمہاری کچھ اولاد بھی ہے میں نے کہا ہاں اب آتے ہوئے ایک لڑکا ہوا ہے کاش کہ اس کے بجائے کوئی درندہ ہی ہوتا آپ نے فرمایا خبردار ایسا نہ کہو ان میں آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور انتقال کر جائیں تو اجر ہے ، پھر فرمایا ہاں ہاں یہی بزدلی اور غم کا سبب بھی بن جاتے ہیں یہ بزدلی اور غم و رنج بھی ہیں ، بزاز میں ہے اولاد دل کا پھل ہے اور یہ بخل ونامردی اور غمگینی کا باعث بھی ہے ، طبرانی میں ہے تیرا دشمن صرف وہی نہیں جو تیرے مقابلہ میں کفر پر جم کر لڑائی کے لئے آیا کیونکہ اگر تو نے اسے قتل کر دیا تو تیرے لئے باعث نور ہے اور اگر اس نے تجھے قتل کر دیا تو قطعاً جنتی ہو گیا ۔ پھر فرمایا شاید تیرا دشمن تیرا بچہ ہے جو تیری پیٹھ سے نکلا پھر تجھ سے دشمنی کرنے لگا تیرا پورا دشمن تیرا مال ہے جو تیری ملکیت میں ہے پھر دشمنی کرتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے اپنے مقدور بھر اللہ کا خوف رکھو اس کے عذاب سے بچنے کی کوشش کرو ، بخاری و مسلم میں ہے جو حکم میں کروں اسے اپنی مقدور بھر بجا لاؤ جس سے میں روک دوں رک جاؤ ، بعض مفسرین کا فرمان ہے کہ سورہ آل عمران کی آیت ( ترجمہ ) کی ناسخ یہ آیت ہے ، یعنی پہلے فرمایا تھا اللہ تعالیٰ سے اس قدر ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہئے لیکن اب فرما دیا کہ اپنی طاقت کے مطابق چنانچہ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں پہلی آیت لوگوں پر بڑی بھاری پڑی تھی اس قدر لمبے قیام اپنی طاقت کے مطابق چنانچہ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں پہلی آیت لوگوں پر بڑی بھاری پڑی تھی اس قدر لمبے قیام کرتے تھے کہ پیروں پر ورم آ جاتا تھا اور اتنے لمبے سجدے کرتے تھے کہ پیشانیاں زخمی ہو جاتی تھیں پس اللہ تعالیٰ نے یہ دوسری آیت اتار کر تخفیف کر دی اور بھی بعض مفسرین نے یہی فرمایا ہے اور پہلی آیت کو منسوخ اور اس دوسری آیت کو ناسخ بتایا ہے ، پھر فرماتا ہے اللہ اور اس کے رسول کے فرمانبردار بن جاؤ ان کے فرمان سے ایک انچ ادھر ادھر نہ ہٹو نہ آگے بڑھو نہ پیچھے سرکو نہ امر کو چھوڑو نہ نہی کے خلاف کرو ، جو اللہ نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے رشتہ داروں کو فقیروں ، مسکینوں کو اور حاجت مندوں کو دیتے رہو ، اللہ نے تم پر احسان کیا تم دوسری مخلوق پر احسان کرو تاکہ اس جہان میں بھی اللہ کے احسان کے مستحق بن جاؤ اور اگر یہ نہ کیا تو دونوں جہان کی بربادی اپنے ہاتھوں آپ مول لو گے ، ومن یوق کی تفسیر سورہ حشر کی اس آیت میں گذر چکی ہے ۔ جب تم کوئی چیز راہ اللہ دو گے اللہ اس کا بدلہ دے گا ہر صدقے کی جزا عطا فرمائے گا ، تمہارا مسکینوں کے ساتھ سلوک کرنا گویا اللہ کو قرض دینا ہے ۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کون ہے؟ جو ایسے کو قرض دے جو نہ تو ظالم ہے نہ مفلس نہ نادہندہ ، پس فرماتا ہے وہ تمہیں بہت کچھ بڑھا چڑھا کر پھیر دے گا ، جیسے سورہ بقرہ میں بھی فرمایا ہے کہ کئی کئی گنا بڑھا کر دے گا ، ساتھ ہی خیرات سے تمہارے گناہ معاف کر دے گا ، اللہ بڑا قدر دان ہے ، تھوڑی سی نیک کا بہت بڑا اجر دیتا ہے ، وہ بردبار ہے درگزر کرتا ہے بخش دیتا ہے گناہوں سے اور لغزشوں سے چشم پوشی کر لیتا ہے ، خطاؤں اور برائیوں کو معاف فرما دیتا ہے چھپے کھلے کا عالم وہ غالب اور باحکمت ہے ، ان اسماء حسنیٰ کی تفسیر کئی کئی مرتبہ اس سے پہلے گذر چکی ہے ، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور لطف و رحم سے سورۃ تغابن کی تفسیر ختم ہوئی ۔ فالحمد للہ ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 یعنی جو تمہیں عمل صالح اور اطاعت الٰہی سے روکیں، سمجھ لو وہ تمہارے خیر خواہ نہیں، دشمن ہیں۔ 14۔ 2 یعنی ان کے پیچھے لگنے سے بچو، بلکہ انہیں اپنے پیچھے لگاؤ تاکہ وہ بھی اطاعت الٰہی اختیار کریں، نہ کہ ان کے پیچھ لگ کر اپنی عاقبت خراب کرلو۔ 14۔ 3 اس کا سبب نزول یہ بیان کیا گیا ہے کہ مکہ میں مسلمان ہونے والے بعض مسلمانوں نے مکہ چھوڑ کر مدینہ آنے کا ارادہ کیا، جیسا کہ اس وقت ہجرت کا حکم نہایت تاکید کے ساتھ دیا گیا تھا۔ لیکن ان کے بیوی بچے آڑے آگئے اور انہوں نے انہیں ہجرت نہیں کرنے دی پھر بعد میں جب وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آگئے تو دیکھا کہ ان سے پہلے آنے والوں نے دین میں بہت زیادہ سمجھ حاصل کرلی تو انہیں اپنے بیوی بچوں پر غصہ آیا، جنہوں نے انہیں ہجرت سے روکا تھا، چناچہ انہوں نے ان کو سزا دینے کا ارادہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں انہیں معاف کرنے اور درگزر سے کام لینے کی تلقین فرمائی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١] بیوی اور اولاد کس صورت میں انسان کی دشمن ہوتی ہے :۔ یعنی ساری بیویاں یا ساری اولاد تمہاری دشمن نہیں بلکہ بعض بیویاں اور بعض اولاد تمہاری دشمن ہے۔ اور یہی وہ رشتے ہیں جو انسان کے بہت قریبی اور اسے بہت عزیز ہوتے ہیں۔ یہ اگر اللہ کے فرمانبردار ہوں گے تو تمہارے دوست اور نافرمان ہوں گے تو تمہارے دشمن ہیں۔ گویا ان سے بھی تمہاری محبت اور دوستی کی اصل بنیاد اللہ کی فرمانبرداری ہونی چاہئے۔ انہیں کی وجہ سے لوگ کسب حرام اور دوسرے گناہوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ انہی کی وجہ سے بعض مسلمان مدینہ کی طرف ہجرت کی جرأت نہیں کر رہے تھے۔ انہیں کی ہمدردیاں اگر کفار کے ساتھ ہوں تو تمہارے لئے کئی طرح کی مصیبتوں اور پریشانیوں کا سبب بھی بن سکتے ہیں اور تمہاری عاقبت بھی خراب کرسکتے ہیں۔ لہذا ان کے معاملہ میں تمہیں بالخصوص محتاط رہنا چاہئے۔ [٢٢] یعنی اگر تم ان میں کچھ غلط رجحانات دیکھو تو ایسا نہ کرو کہ ان پر اندھا دھند سختی شروع کردو۔ بیویوں کو طلاق دے دو یا بچوں کو گھر سے نکال دو ۔ بلکہ ایسا کرو گے تو معاشرتی نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ ایسے حالات میں بہتر صورت یہ ہے کہ ان کی اصلاح کی کوشش کرو اور درگزر سے کام لو۔ اور نرمی اور حسن سلوک سے کام لے کر انہیں اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرو۔ یہ طریق کار اس لحاظ سے بہتر ہے کہ اللہ تعالیٰ خود بھی از راہ کرم لوگوں کی خطائیں معاف کرتا رہتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَّکُمْ ۔۔۔۔:” عدوا “ ” فعول “ کا وزن ہے : واحد اور جمع دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے :” فاحذروھم “ سے ظاہر ہے کہ یہاں جمع کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ ” من ازواجکم “ میں ” من “ تبعیض کے لیے ہے ، یعنی بعض بیویاں اور اولادیں دشمن ہوتی ہیں سب نہیں ، بلکہ بعض دین میں مدد گار اور آنکھوں کی ٹھنڈک بھی ہوتی ہیں ۔ اس سے پہلی آیات میں اللہ کی اطاعت اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے ، اب ایک ایسی چیز سے ہوشیار رہنے کا حکم دیا جو عموماً اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے اور وہ آدمی کی بیوی اور اس کی اولاد ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی صورت گوارا نہیں کہ اس کا مومن بندہ اس سے بڑھ کر اور اس کے رسول سے بڑھ کر کسی سے محبت کرے ، یا کسی عزیز سے عزیز شخص کے تقاضے کو اللہ اور اس کے رسول کے تقاضے پر ترجیح دے۔ (دیکھئے توبہ : ٢٤) یہاں خاص طور پر بعض بیویوں اور بعض اولاد کا ذکر فرمایا، کیونکہ آدمی ہر وقت ان کے ساتھ رہتا ہے اور طبعی طور پر ان سے محبت ہوتی ہے ، اس لیے بعض اوقات وہ ان کی محبت میں آکر اللہ اور اس کے رسول کے احکام کو پس پشت پھینک دیتا ہے اور ان کے آرام و آسائش کی خاطر حلال و حرام میں تمیز نہیں کرتا ۔ ان کے اصرار پر کئی فرائض ترک کردیتا ہے ، کئی ناجائز کاموں کا ارتکاب کرلیتا ہے اور اسی طرح اپنی آخرت تباہ کرلیتا ہے ، ظاہر ہے جو اہل و عیال آخرت کی بربادی کا باعث بنیں ان سے بڑھ کر آدمی ان سے بڑھ کر آدمی کا کوئی دشمن نہیں ہوسکتا ۔ بعض بیویاں اور اولاد نا موافقت یا سرکشی کی وجہ سے فی الواقع بھی اپنے خاوند یا باپ کے ساتھ دشمنی رکھتے ہیں ، مگر یہ ایسے دشمن ہیں کہ آدمی ان سے مسلسل دشمنی نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی ان سے علیحدگی اختیار کرسکتا ہے ، بلکہ ان کے ساتھ گزارا ہی کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے فرمایا کہ ان کی دشمنی کا یہ علاج نہیں کہ انہیں مارو پیٹو ، خرچہ بند کر دو یا ان سے علیحدگی اختیار کرلو ، بلکہ مارنے پیٹنے اور سختی کرنے کی بجائے اگر انہیں معاف کر دو ، ان سے در گزر کرو اور ان کی غلطیوں پر پردہ ڈال دو تو تمہارے لیے بہتر اور اللہ کو پسند ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ بےحد پردہ ڈالنے والا اور نہایت رحم والا ہے۔ البتہ اس عفو و در گزر کے باوجود جتنی طاقت ہے اللہ کے تقویٰ پر قائم رہو اور انہیں اس کی تلقین کرتے رہو ۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم میں یقینا بہت سی حکمتیں ہیں ، کیونکہ بعض اوقات آدمی کی سختی کی وجہ سے اولاد بغاوت پر اتر آتی ہے ، جب کہ عفو و در گزر ، مسلسل نصیحت اور خود تقویٰ پر قائم رہنے سے ان کی اصلاح کی توقع زیادہ ہوتی ہے۔ عکرمہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے ابن عباس (رض) سے اس آیت ” یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَّکُمْ فَاحْذَرُوْہُمْ “ کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا :” یہ اہل مکہ میں سے کچھ لوگ تھے جو مسلمان ہوگئے اور انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آنے کا ارادہ کرلیا ( یاد رہے کہ ان دنوں ہر مسلمان ہونے کے لیے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا فرض تھا) مگر انہیں ان کی بیویوں اور بچوں نے نہیں چھوڑا کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتے ۔ پھر جب وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تو انہوں نے دوسرے لوگوں کو دیکھا کہ وہ دین کی سمجھ حاصل کرچکے تھے تو انہوں نے ارادہ کیا کہ اپنے بیوی بچوں کو سزا دیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔”(ترمذی ، التفسیر ، سورة التغابن : ٣٣١٧ وقال الالبانی حسن) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُ‌وهُمْ ( O those who believe, among your wives and your children there are some enemies for you, so beware of them…4:14). Tirmidhi, Hakim and others have recorded, with authentic chain of transmitters, on the authority of Sayyidna Ibn ‘Abbas (رض) ، that this verse was revealed regarding those Muslims who embraced Islam in Makkah after the migration of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to Madinah. They intended to migrate to Madinah and join the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، but their wives and children refused to allow them. [ Ruh ] This was the time when it was compulsory for every Muslim to migrate from Makkah. Therefore, the wives and children who stood in way of loyalty and obedience to Divine laws are referred to as their enemies, and it was emphasized that they should beware of them, because none can be greater enemy than one who involves a person in the eternal punishment and everlasting Fire of Hell. ‘Ata’ Ibn Rabah reports that this verse was revealed in connection with ‘Auf Ibn Malik Ashja’ i (رض) . He was in Madinah. Whenever the occasion arose to go to war or jihad and he would intend to participate in the jihad, his wife and children would complain: “ In whose care are you leaving us?” He would be influenced by their complaint and change his mind. [ Ruh and Ibn Kathir ] These two narratives are not in conflict with each other. Both narratives, in their own right, can be the cause of revelation, because wife and children that stand in the way of obeying Allah’ s laws, whether migration or jihad, they become the enemies of Allah. وَإِن تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُ‌وا فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ (And if you forgive and overlook and pardon, then Allah is Most-Forgiving, Very-Merciful…634:14). The Muslims who were warned by the previous verse that their wives and children were their enemies, decided that they would treat their family members harshly. On that occasion, this part of the verse was revealed. The verse purports to say that although your wives and children behaved like enemies and stood in your way to perform your duty towards Allah, do not treat them harshly and mercilessly, but rather treat them politely and leniently. This is better for you because Allah loves forgiving and showing mercy’. Ruling Scholars have deduced from the above verse that if the family members to anything in violation of the sacred laws, it is not appropriate to be disappointed with them totally, or to be hostile towards them, or to hate or curse them. [ Ruh ]

(آیت) يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَاَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْهُمْ ” یعنی اے مسلمانو ! تمہاری بعض بیبیاں اور اولاد تمہارے دشمن ہیں، ان کے شر سے بچتے رہو “۔ ترمذی و حاکم وغیرہ نے بسند صحیح حضرت ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت ان مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی جو ہجرت مدینہ کے بعد مکہ مکرمہ میں داخل اسلام ہوئے اور ارادہ کیا کہ ہجرت کر کے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوجائیں مگر ان کے اہل و عیال نے ان کو نہ چھوڑا کہ ہجرت کر کے چلے جائیں (روح) (اور یہ زمانہ وہ تھا کہ مکہ سے ہجرت کرنا ہر مسلمان پر فرض تھا) قرآن کریم کی آیت مذکورہ میں ایسی بیوی اور اولاد کو انسان کا دشمن قرار دیا اور ان کے شر سے بچتے رہنے کی تاکید فرمائی کیونکہ اس سے بڑا دشمن انسان کا کون ہوسکتا ہے جو اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے عذاب اور جہنم کی آگ میں مبتلا کر دے۔ اور حضرت عطاء بن ابی رباح کی روایت یہ ہے کہ یہ آیت عوف بن مالک اشجعی کے بارے میں نازل ہوئی، جن کا واقعہ یہ تھا کہ یہ مدینہ میں موجود تھے اور جب کسی غروہ و جہاد کا موقع آتا تو جہاد کے لئے جانے کا ارادہ کرتے تھے مگر ان کے بیوی بچے فریاد کرنے لگتے کہ ہمیں کس پر چھوڑ کر جاتے ہو، یہ ان کی فریاد سے متاثر ہو کر رک جاتے تھے (روح، ابن کثیر) ان دونوں روایتوں میں کوئی تضاد نہیں، دونوں ہی آیت کا سبب نزول ہو سکتے ہیں، کیونکہ اللہ کا فرض خواہ ہجرت ہو یا جہاد جو بیوی اور اولاد فرض کی ادائیگی میں مانع ہوں وہ اس کے دشمن ہیں۔ وَاِنْ تَعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ، سابقہ آیت میں جن کے بیوی بچوں کو دشمن قرار دیا ہے ان کو جب اپنی غلطی پر تنبیہ ہوا تو ارادہ کیا کہ آئندہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ سختی اور تشدد کا معاملہ کریں گے، اس پر آیت کے اس حصہ میں یہ ارشاد نازل ہوا کہ اگرچہ ان بیوی بچوں نے تمہارے لئے دشمن کا سا کام کیا کہ تمہیں ادائے فرض سے مانع ہوئے مگر اس کے باوجود ان کے ساتھ تشدد اور بےرحمی کا معاملہ نہ کرو بلکہ عفو و درگزر اور معافی کا برتاؤ کرو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ اللہ جل شانہ کی عادت بھی مغفرت و رحمت کی ہے۔ گناہ گار بیوی بچوں سے بیزاری اور بغض نہیں چاہئے : مسئلہ : علماء نے اس آیت سے استدلال کیا کہ اہل و عیال سے کوئی کام خلاف شرع بھی ہوجائے تو ان سے بیزار ہوجانا اور ان سے بغض رکھنا یا ان کے لئے بد دعا کرنا مناسب نہیں (روح )

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَاَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْہُمْ۝ ٠ ۚ وَاِنْ تَعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ١٤ زوج يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة/ 39] ، وقال : وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] ، وزَوْجَةٌ لغة رديئة، وجمعها زَوْجَاتٌ ، قال الشاعر : فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتي وجمع الزّوج أَزْوَاجٌ. وقوله : هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] ، احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، أي : أقرانهم المقتدین بهم في أفعالهم، وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] ، أي : أشباها وأقرانا . وقوله : سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] ، وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فتنبيه أنّ الأشياء کلّها مركّبة من جو هر وعرض، ومادّة وصورة، وأن لا شيء يتعرّى من تركيب يقتضي كونه مصنوعا، وأنه لا بدّ له من صانع تنبيها أنه تعالیٰ هو الفرد، وقوله : خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] ، فبيّن أنّ كلّ ما في العالم زوج من حيث إنّ له ضدّا، أو مثلا ما، أو تركيبا مّا، بل لا ينفكّ بوجه من تركيب، وإنما ذکر هاهنا زوجین تنبيها أنّ الشیء۔ وإن لم يكن له ضدّ ، ولا مثل۔ فإنه لا ينفكّ من تركيب جو هر وعرض، وذلک زوجان، وقوله : أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] ، أي : أنواعا متشابهة، وکذلک قوله : مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143] ، أي : أصناف . وقوله : وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] ، أي : قرناء ثلاثا، وهم الذین فسّرهم بما بعد وقوله : وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] ، فقد قيل : معناه : قرن کلّ شيعة بمن شایعهم في الجنّة والنار، نحو : احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] ، وقیل : قرنت الأرواح بأجسادها حسبما نبّه عليه قوله في أحد التّفسیرین : يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] ، أي : صاحبک . وقیل : قرنت النّفوس بأعمالها حسبما نبّه قوله : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] ، وقوله : وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] ، أي : قرنّاهم بهنّ ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلک لا يكون علی حسب المتعارف فيما بيننا من المناکحة . ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى [ القیامة/ 39] اور ( آخر کار ) اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی ) مرد اور عورت ۔ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة/ 35] اور تیری بی بی جنت میں رہو ۔ اور بیوی کو زوجۃ ( تا کے ساتھ ) کہنا عامی لغت ہے اس کی جمع زوجات آتی ہے شاعر نے کہا ہے فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتیتو میری بیوی اور بیٹیاں غم سے رونے لگیں ۔ اور زوج کی جمع ازواج آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس/ 56] وہ اور ان کے جوڑے اور آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] جو لوگ ( دنیا میں ) نا فرمانیاں کرتے رہے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ( ایک جگہ ) اکٹھا کرو ۔ میں ازواج سے ان کے وہ ساتھی مراد ہیں جو فعل میں ان کی اقتدا کیا کرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر/ 88] اس کی طرف جو مختلف قسم کے لوگوں کو ہم نے ( دنیاوی سامان ) دے رکھے ہیں ۔ اشباہ و اقران یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ مراد ہیں اور آیت : ۔ سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس/ 36] پاک ہے وہ ذات جس نے ( ہر قسم کی ) چیزیں پیدا کیں ۔ نیز : ۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات/ 49] اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض مادہ و صورت سے مرکب ہیں اور ہر چیز اپنی ہیئت ترکیبی کے لحا ظ سے بتا رہی ہے کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور اس کے لئے صائع ( بنانے والا ) کا ہونا ضروری ہے نیز تنبیہ کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہی فرد مطلق ہے اور اس ( خلقنا زوجین ) لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ روئے عالم کی تمام چیزیں زوج ہیں اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک چیز کی ہم مثل یا مقابل پائی جاتی ہے یا یہ کہ اس میں ترکیب پائی جاتی ہے بلکہ نفس ترکیب سے تو کوئی چیز بھی منفک نہیں ہے ۔ پھر ہر چیز کو زوجین کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز کی ضد یا مثل نہیں ہے تو وہ کم از کم جوہر اور عرض سے ضرور مرکب ہے لہذا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر زوجین ہے ۔ اور آیت أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه/ 53] طرح طرح کی مختلف روئیدگیاں ۔ میں ازواج سے مختلف انواع مراد ہیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہوں اور یہی معنی آیت : ۔ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ہر قسم کی عمدہ چیزیں ( اگائیں ) اور آیت کریمہ : ۔ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام/ 143]( نر اور مادہ ) آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں ۔ میں مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة/ 7] میں ازواج کے معنی ہیں قرناء یعنی امثال ونظائر یعنی تم تین گروہ ہو جو ایک دوسرے کے قرین ہو چناچہ اس کے بعد اصحاب المیمنۃ سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير/ 7] اور جب لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے ۔ میں بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ جیسا کہ آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات/ 22] میں مذکور ہوچکا ہے اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا جیسا کہ آیت يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر/ 27- 28] اے اطمینان پانے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ آ ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔ میں بعض نے ربک کے معنی صاحبک یعنی بدن ہی کئے ہیں اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران/ 30] جب کہ ہر شخص اپنے اچھے اور برے عملوں کو اپنے سامنے حاضر اور موجود پائیگا ۔ میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان/ 54] اور ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ میں زوجنا کے معنی باہم ساتھی اور رفیق اور رفیق بنا دینا ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں بھی حور کے ساتھ اس فعل ( زوجنا ) کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے بعد باء لائی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حوروں کے ساتھ محض رفاقت ہوگی جنسی میل جول اور ازواجی تعلقات نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو قرآن بحور کی بجائے زوجناھم حورا کہتا جیسا کہ زوجتہ امرءۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اس عورت سے اس کا نکاح کردیا ۔ ولد الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] ( و ل د ) الولد ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ عدو العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال : رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] ( ع د و ) العدو کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام/ 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه/ 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ حذر الحَذَر : احتراز من مخیف، يقال : حَذِرَ حَذَراً ، وحذرته، قال عزّ وجل : يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر/ 9] ، وقرئ : وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَ 3» ، وقال تعالی: وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 28] ، وقال عزّ وجل : خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء/ 71] ، أي : ما فيه الحذر من السلاح وغیره، وقوله تعالی: هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون/ 4] ، وقال تعالی: إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن/ 14] ، وحَذَارِ ، أي : احذر، نحو : مناع، أي : امنع . ( ح ذ ر) الحذر ( س) خوف زدہ کرنے والی چیز سے دور رہنا کہا جاتا ہے حذر حذرا وحذرتہ میں اس سے دور رہا ۔ قرآن میں ہے :۔ يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر/ 9] آخرت سے ڈرتا ہو ۔ وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَاور ہم سب باسازو سامان ہیں ۔ ایک قرآت میں حذرون ہے هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون/ 4] یہ تمہاری دشمن میں ان سے محتاط رہنا ۔ إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن/ 14] تمہاری عورتوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ( بھی ) ہیں سو ان سے بچتے رہو۔ حذر ۔ کسی امر سے محتاط رہنے کے لئے کہنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 28] اور خدا تم کو اپنے ( غضب ) سے محتاط رہنے کی تلقین کرنا ہے الحذر بچاؤ ۔ اور آیت کریمہ :۔ خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء/ 71] جہاد کے لئے ) ہتھیار لے لیا کرو ۔ میں حذر سے مراد اسلحۃ جنگ وغیرہ ہیں جن کے ذریعہ دشمن سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے حذار ( اسم فعل بمعنی امر ) بچو جیسے مناع بمعنی امنع خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ عفو العَفْوُ : القصد لتناول الشیء، يقال : عَفَاه واعتفاه، أي : قصده متناولا ما عنده، وعَفَتِ الرّيحُ الدّار : قصدتها متناولة آثارها، وبهذا النّظر قال الشاعر : أخذ البلی أبلادها وعَفَتِ الدّار : كأنها قصدت هي البلی، وعَفَا النبت والشجر : قصد تناول الزیادة، کقولک : أخذ النبت في الزّيادة، وعَفَوْتُ عنه : قصدت إزالة ذنبه صارفا عنه، فالمفعول في الحقیقة متروک، و «عن» متعلّق بمضمر، فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری/ 40] ، وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة/ 237] ، ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ [ البقرة/ 52] ، إِنْ نَعْفُ عَنْ طائِفَةٍ مِنْكُمْ [ التوبة/ 66] ، فَاعْفُ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 159] ، وقوله : خُذِ الْعَفْوَ [ الأعراف/ 199] ، أي : ما يسهل قصده وتناوله، وقیل معناه : تعاط العفو عن الناس، وقوله : وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ [ البقرة/ 219] ، أي : ما يسهل إنفاقه . وقولهم : أعطی عفوا، فعفوا مصدر في موضع الحال، أي : أعطی وحاله حال العافي، أي : القاصد للتّناول إشارة إلى المعنی الذي عدّ بدیعا، وهو قول الشاعر : كأنّك تعطيه الذي أنت سائله وقولهم في الدّعاء : «أسألک العفو والعافية» أي : ترک العقوبة والسّلامة، وقال في وصفه تعالی: إِنَّ اللَّهَ كانَ عَفُوًّا غَفُوراً [ النساء/ 43] ، وقوله : «وما أكلت العافية فصدقة» «أي : طلّاب الرّزق من طير ووحش وإنسان، وأعفیت کذا، أي : تركته يعفو ويكثر، ومنه قيل : «أعفوا اللّحى» والعَفَاء : ما کثر من الوبر والرّيش، والعافي : ما يردّه مستعیر القدر من المرق في قدره . ( ع ف و ) العفو کے معنی کسی چیز کو لینے کا قصد کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ عفاہ واعتقادہ کسی کے پاس جو کچھ ہے وہ لینے کا قصد کیا عفت الریح الدرا ہوانے گھر کے نشانات مٹادیتے اسی معنی کے لحاظ سے شاعر نے کہا ہے ۔ ( 315 ) اخز البلی ایا تھا پوسید گی نے اس کے نشانات مٹا ڈالے عفت الدار گھر کے نشانات مٹ گئے گویا ان اثارنے ازخود مٹ جانے کا قصد کیا عفا النبت والشجرنباتات اور درخت بڑھ گئے جیسا کہ آخذ النبت فی الذیادۃ کا محاورہ ہے یعنی پودے نے بڑھنا شروع کیا ۔ عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری/ 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة/ 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ [ البقرة/ 52] ، پھر اس کے بعد ہم نے تم کو معاف کردیا ۔ إِنْ نَعْفُ عَنْ طائِفَةٍ مِنْكُمْ [ التوبة/ 66] اگر ہم تم میں سے ایک جماعت کو معاف کردیں ۔ فَاعْفُ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 159] تو ان کی خطائیں معاف کردو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ خُذِ الْعَفْوَ [ الأعراف/ 199]( اے محمد ) عفو اختیار کرو میں العفو ہر اس چیز کو کہا گیا جس کا قصد کرنا اور لینا آسان ہو ۔ اور بعض نے اس کے معنی کئے ہیں درگزر کیجئے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ [ البقرة/ 219] ( اے محمد ) لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ خدا کی راہ میں کس طرح کا مال خرچ کریں کہہ دو جو مال خرچ کرو ۔ میں عفو سے ہر وہ چیز مراد ہے جو ضروریات سے زائد ہو اور اس کے خرچ سے تکلیف نہ ہو اور اعطی عفوا اس نے اسے بےمانگے دے دیا یہاں عفوا مصدر اسم فاعل کے معنی میں ہے اور حال واقع ہوا ہے یعنی بخشش کرتے وقت اس کی حالت یہ تھی کہ گویا خود لے رہا ہے اور اس میں اس عمدہ معنی کی طرف اشارہ ہے جسے شاعر نے بیان کرتے ہوئے کہا ہے ( الطویل ) ( 316 ) کانک تعطیہ الذی انت سائلہ یعنی جب سائل اس کے پاس آتا ہے تو اس طرح خوش ہوتا ہے گویا جو چیز تم اس سے لے رہے ہو وہ اسے دے رہے ہو ۔ اور دعائے ماثورہ میں ہے ( 43 ) اسئلک العفو والعافیتہ یعنی اے اللہ تجھ سے عفو اور تندرستی طلب کرتا ہوں اور قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو عفو کہا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ اللَّهَ كانَ عَفُوًّا غَفُوراً [ النساء/ 43] بیشک خدا معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے ۔ اور حدیث میں ہے ( 44 ) مااکلکت العافیتہ فھو صدقتہ یعنی کھیتی سے جو کچھ پرندہ چرندا اور ضرورت مند انسان کھا جائیں وہ وہ صدقہ ہے ،۔ اعفیت کذا یعنی میں نے اسے بڑھنے دیا اسی سے اعفوا الحیي ہے ( 45 ) یعنی ڈاڑھی کے بال بڑھنے دو ۔ العفاء اون یا پرند کے پر جو بڑھ جائیں اور کسی سے دیگ مستعار لینے والا جو شوربہ اس کی دیگ میں اسے بھیجتا ہے اس شوربہ کو المعافی کہا جاتا ہے ۔ صفح صَفْحُ الشیءِ : عرضه وجانبه، كَصَفْحَةِ الوجهِ ، وصَفْحَةِ السّيفِ ، وصَفْحَةِ الحَجَرِ. والصَّفْحُ : تركُ التّثریب، وهو أبلغ من العفو، ولذلک قال : فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ [ البقرة/ 109] ، وقد يعفو الإنسان ولا يَصْفَحُ. قال : فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] ، فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر/ 85] ، أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف/ 5] ، وصَفَحْتُ عنه : أولیته مني صَفْحَةٍ جمیلةٍ معرضا عن ذنبه، أو لقیت صَفْحَتَهُ متجافیا عنه، أو تجاوزت الصَّفْحَةَ التي أثبتّ فيها ذنبه من الکتاب إلى غيرها، من قولک : تَصَفَّحْتُ الکتابَ ، وقوله : إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر/ 85] ، فأمر له عليه السلام أن يخفّف کفر من کفر کما قال : وَلا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ [ النحل/ 127] ، والمُصَافَحَةُ : الإفضاء بِصَفْحَةِ الیدِ. ( ص ف ح ) صفح ۔ کے معنی ہر چیز کا چوڑا پہلو یا جانب کے مثلا صفحۃ السیف ( تلوار کا چوڑا پہلو ) صفحتہ الحجر ( پتھر کی چوڑی جانب وغیرہ ۔ الصفح ۔ ( مصدر ) کے معنی ترک ملامت اور عفو کے ہیں مگر یہ عفو سے زیادہ بلیغ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ : فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ [ البقرة/ 109] تو تم معاف کرو داور درگزر کرو یہاں تک کہ خدا اپنا دوسرا حکم بھیجے ۔ میں عفو کے بعد صفح کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ بعض اوقات انسان عفو یعنی درگزر تو کرلیتا ہے لیکن صفح سے کا م نہیں لیتا یعنی کسی سے اس قدر درگزر کرنا کہ اسے مجرم ہی نہ گروانا جائزنیز فرمایا : فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] اس لئے درگذر کرو اور اسلام کہہ دو ۔ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر/ 85] تو تم ان سے اچھی طرح درگزر کرو ۔ أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف/ 5] بھلا اس لئے کہ تم حد سے نکلے ہوئے لوگ ہو ہم تم کو نصیحت کرنے سے باز رہیں گے ۔ صفحت عنہ (1) میں نے اس سے درگذر کرتے ہوئے اسے صفح جمیل کا والی بنایا یعنی اسکے جرم سے کلیۃ اعراض برتا (2) اس سے دور ہوتے ہوئے ایک جانب سے ملا (3) میں نے کتاب کے اس صفحہ سے تجاوز کیا جس میں اس کا جرم لکھ رکھا تھا ۔ اس صورت میں یہ تصفحت الکتاب سے ماخوذ ہوگا ۔ جس کے معنی کتاب کے صفحات کو الٹ پلٹ کردیکھنے کے ہیں قرآن میں ہے : إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر/ 85] اور قیامت توضرور آکر رہے گی لہذا تم ( ان سے ) ا چھی طرح سے درگذر کرو ۔ اس آیت میں آنحضرت کو حکم دیا گیا ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے غم کھانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : وَلا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ [ النحل/ 127] اور ان کے بارے میں غم نہ کرو اور جو یہ بد اندیش کر رہے ہیں اس سے تنگ دل نہ ہو ۔ المصافحۃ مصافحہ کرنا ۔ ہاتھ ملانا ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے ایمان والو تمہاری بیبیاں اور اولاد جو کہ مکہ مکرمہ میں ہیں اگر وہ تمہیں جہاد اور ہجرت سے روکیں تو وہ تمہارے دشمن ہیں تم ان سے ہوشیار رہو۔ اور اگر وہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کے آجائیں تو تم ان کو معاف کردو اور ان پر کوئی گرفت نہ کرو۔ شان نزول : اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَاَوْلَادِكُمْ (الخ) امام ترمذی اور حاکم نے تصحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ یہ آیت ان مکہ والوں کے بارے میں نازل ہوئی جو مشرف باسلام ہوگئے تھے تو انہوں نے اپنی بیبیوں اور اولاد کو مدینہ آنے کی دعوت دی تو انہوں نے آنے سے انکار کیا جب یہ حضرات حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے تو لوگوں کو دیکھا انہوں نے دین میں سمجھ حاصل کرلی ہے تو یہ حضرات سمجھ گئے کہ ان پر گرفت ہوگی تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ وان تعفوا و تصفحوا (الخ) اور ابن جریر نے عطاء بن یسار سے روایت کیا ہے کہ سورة تغابن پوری کی پوری مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے سوائے اس آیت کے اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَاَوْلَادِكُمْ (الخ) کے کیونکہ وہ اہل و عیال والے تھے جب وہ جہاد کا ارادہ کرتے تو ان کے گھر والے رونا شروع کردیتے اور ان کے ٹھہرانے کی کوشش کرتے اور کہتے کہ کس کے سہارے پر آپ ہمیں چھوڑ کر جاتے ہیں تو وہ نرم پڑجاتے، لہذا ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے اور بقایا آیات مدنی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤{ یٰٓــاَیـُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَّــکُمْ فَاحْذَرُوْہُمْ } ” اے ایمان کے دعوے دارو ! تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں ‘ سو ان سے بچ کر رہو۔ “ یہ بہت مشکل اور نازک معاملہ ہے۔ گزشتہ سورت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منافقین کی عداوت سے بھی انہی الفاظ میں خبردار کیا گیا تھا : { ہُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْہُمْ } (المنٰفقُون : ٤) کہ یہ لوگ تمہارے دشمن ہیں ‘ ان سے بچ کر رہیے ! جس طرح منافقین کی دشمنی تمہارے لیے نقصان دہ ہے ‘ اسی طرح تمہارے بیوی بچوں کی محبت بھی تمہیں نقصان پہنچا سکتی ہے۔ نقصان بیشک کسی کی دشمنی کی وجہ سے ہو یا محبت کی وجہ سے ‘ نقصان ہی ہے اور جو کوئی بھی آپ کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو وہ ظاہر ہے آپ کا دشمن ہے۔ بیوی کی بےجا فرمائشیں اور بچوں کی حد سے بڑھی ہوئی ضروریات اگر حلال کی کمائی سے پوری نہیں ہوں گی تو انسان کیا کرے گا ؟ ظاہر ہے حرام میں منہ مارے گا۔ اور اگر کوئی یہ نہیں کرے گا تو ڈالر اور پونڈ کمانے کے چکر میں ملک سے باہر چلا جائے گا۔ پیچھے سے بیوی بچے کیا کرتے ہیں ؟ بوڑھے والدین کس حال میں ہیں ؟ انہیں بیماری کی حالت میں ڈاکٹر کے پاس کون لے کر جائے گا ؟ اس کی بلا جانے ! اس کی اپنی مجبوری ہے ‘ مکان بنانا ہے ‘ بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانی ہے ‘ ان کی شادیاں کرنی ہیں اور اس سب کچھ کے لیے سرمایہ چاہیے ۔ اور ظاہر ہے سرمایہ گھر بیٹھے تو نہیں ملتا ‘ نہ ہی حلال کی کمائی سے ملتا ہے ۔ اگر کسی کو اللہ تعالیٰ نے دین کی سمجھ اور آخرت کی فکر عطا کی ہے اور وہ حرام سے بچتے ہوئے روکھی سوکھی کھا کر گزارا کرنا چاہتا ہے تو اسے صبح وشام بیوی کے طعنے چین نہیں لینے دیتے کہ تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے ‘ تمہیں بچوں کے مستقبل کی فکر بھی نہیں۔ ذرا ہمسائے سے ہی سبق حاصل کرلیتے ‘ کیا وہ مسلمان نہیں ہیں ؟ وہ تم سے زیادہ نمازیں پڑھتے ہیں ‘ ان کی داڑھی بھی تم سے لمبی ہے ‘ مگر وہ دین کے ساتھ ساتھ دنیا کو بھی نبھا رہے ہیں۔ ذرا دیکھوان کے بیوی بچے کیسے عیش کر رہے ہیں اور کون نہیں جانتا کہ یہ سب کچھ اوپر کی کمائی سے ہو رہا ہے۔ اب تم کیا ان سے بھی بڑے دین دار ہو کہ جو سب کچھ ان کے لیے حلال ہے تم اسے اپنے اوپر خواہ مخواہ حرام کرکے بیٹھ گئے ہو ؟ وغیرہ وغیرہ۔ آج ہمارے ہاں کے روایتی مسلمانوں کو تو بیوی بچوں کی دشمنی والی یہ بات سمجھ میں نہیں آئے گی ‘ لیکن اگر کوئی بندئہ مومن اللہ تعالیٰ کی توفیق سے کسی انقلابی تحریک کے کارکن کی حیثیت سے اقامت دین کی جدوجہد میں مصروف ہے تو اس پر یہ حقیقت بہت جلد واضح ہوجائے گی کہ اس راستے میں بیوی بچوں کی محبت کس طرح پائوں کی زنجیر بنتی ہے۔ یہ معاملہ چونکہ بہت نازک اور حساس ہے اس لیے اس سخت حکم کے بعد اگلے جملے میں اس ضمن میں نرمی اختیار کرنے کی ہدایت بھی کی جا رہی ہے۔ قوانین اور احکام کا یہ توازن کلام الٰہی کا خاص معجزہ ہے اور اس اعتبار سے یہ آیت اعجازِ قرآن کی بہت بڑی مثال ہے۔ ایک طرف متنبہ بھی کردیا کہ تمہیں اپنے اہل و عیال کے معاملے میں سانپ کی طرح ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ بیوی اور اولاد کی محبت تمہیں کسی غلط راستے پر ڈال دے۔ لیکن اگلے جملے میں عفو و درگزر کا حکم بھی دے دیا کہ تم اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے اپنے اہل و عیال کے معاملات کو نرمی اور حکمت سے نبٹائو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارا گھر صبح و شام میدانِ جنگ کا نقشہ پیش کرنے لگے : { وَاِنْ تَـعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۔ } ” اور اگر تم معاف کردیا کرو اور چشم پوشی سے کام لو اور بخش دیا کرو تو اللہ بہت بخشنے والا ‘ نہایت مہربان ہے۔ “ اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ بھی عفو و درگزر کا معاملہ فرمائے تو تم بھی اپنے اہل و عیال کے ساتھ ایسا ہی رویہ اختیار کرو۔ سورة النور کی اس آیت میں بھی بالکل یہی اسلوب نظر آتا ہے : { وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْاط اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۔ } ” اور چاہیے کہ وہ معاف کردیں اور درگزر سے کام لیں۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے ؟ اور اللہ بہت بخشنے والا ‘ نہایت مہربان ہے “۔ یہ آیت واقعہ افک کے حوالے سے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ آپ (رض) نے اپنے ایک نادار رشتہ دار (حضرت مسطح (رض) کی کفالت کا ذمہ لے رکھا تھا ‘ لیکن جب آپ (رض) کو معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ (رض) پر کیچڑ اچھالنے میں اس کا بھی حصہ تھا تو آپ (رض) نے اس کی مدد سے ہاتھ روک لیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر تم خود اللہ سے معافی کے خواستگار ہو تو تم اسے معاف کر دو ۔ بہرحال ان دونوں آیات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ نہ صرف اللہ تعالیٰ خود بہت معاف اور درگزر کرنے والا ہے بلکہ اپنے بندوں سے بھی وہ ایسے ہی رویے کو پسند کرتا ہے۔ زیر مطالعہ آیات میں اب تک ایمان کے چار ثمرات کا ذکر ہوا ہے۔ ان میں سے پہلے تین کا تعلق تو ایک فرد کی انفرادی زندگی سے ہے ‘ جبکہ چوتھا ثمرہ فرد کے گرد بننے والی اجتماعیت کے پہلے حلقے یعنی اس کے افراد خانہ سے متعلق ہے۔ انفرادی سطح کے تین ثمرات کو میں نے بندئہ مومن کی شخصیت کے چمن میں کھلنے والے خوبصورت پھولوں سے تشبیہہ دی ہے۔ ان میں سے دو پھول تو وہ ہیں جو اس کے دل کے اندر کھلتے ہیں اور باہر سے ہر کسی کو نظر نہیں آتے ‘ یعنی خوئے تسلیم و رضا اور توکل علی اللہ۔ جبکہ تیسرا پھول اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کا پھول ہے ‘ جو شخصیت کے خارج میں کھلتا ہے ۔ ظاہر ہے اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ کے حکم میں تو پورے کے پورے دین کا احاطہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے معاشرے میں رہتے ہوئے یہ پھول بجا طور پر بندئہ مومن کی شخصیت کا طرئہ امتیاز بنتا ہے۔ ایمان کے چوتھے ثمرے کا تعلق بندئہ مومن کی عائلی زندگی سے ہے۔ اس حوالے سے آیت زیر مطالعہ ہمیں انتہائی متوازن اور معتدل رویے کا شعور عطا کرتی ہے ۔ اس نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ہمیں اہل و عیال کی طبعی محبتوں کے منفی اثرات سے ہوشیار بھی رہنا ہے اور ساتھ ہی ساتھ عفو و درگزر کی حکمت عملی اپناتے ہوئے گھر کی فضا کو محاذ آرائی اور نفرت کے تکدر سے محفوظ رکھنے کی کوشش بھی کرتے رہنا ہے۔ اب اسی حوالے سے دوسری اصولی اور انتہائی اہم بات :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

29 This verse has two meanings. According to the first meaning, ii applies to most of those difficulties, which are encountered by many believing men from their wives and the women from their husbands and the parents from their children in following the way of God. It seldom so happens in the world that a man has a wife and a wife a husband, who are full companions and helpers of each other in the matter of faith and righteousness, and that both may also have such children as may be the comfort of their eyes as regards faith and deeds, morals and conduct. Hut generally it so happens that if the husband is righteous and honest, the wife and children look upon his honesty and piety and righteousness as a misfortune for themselves, and want that the husband and the father should earn Hell for their sake, and giving up the distinction between the lawful and the unlawful should provide means of luxury and enjoyment, sin and vice, for them in every passable way. On the contrary, many a time a pious believing woman happens to have a husband, Who does not at all approve her obedience to the Laws of God, and the children too, following in the footsteps of the father, make the wife of the mother miserable by their daviation and evil deeds. Then, particularly, when during the conflict between Islam and unbelief a man's faith demands that he should suffer losses for the sake of AIIah and this Religion, run risks, emigrate from the country or even endanger his life by joining the war against unbelief, the greatest hindrance in his way are the people of his own household. The second meaning relates to those special circumstances which most of the Muslims were facing at the time these verses were sent down. and today also they are faced by every person who embraces Islam in a non-Muslim society. At that dine in Makkah and in other parts of Arabia a situation that was commonly being experienced was that a man would embrace Islam, but his wife and children would not only be disinclined to accept it but would try their best to press him to give up Islam Arid similar were the situations encountered by the women, the alone embraced Islam in their families, Addressing the believers who may be confronted with either situation, three things have been impressed: First, they have been warned as if to say: "Although front the worldly point of view. these are the dearest relations of man yet from the religious point of view, they arc .`your enemies." This enmity may he for the reason that they hinder you from good and induce you to do evil, or that they restrain you from belief and pull you towards unbelief, or that their sympathies are with he unbelievers. ana through you if they ever come to know any of the war secrets of the Muslims, they convey it to the enemies of Islam. Owing to these the nature and quality of enmity may vary, but in any case it is enmity; and if you hold your faith dearer to your heart, you should regard them as your enemies. In their love you should never forget that between you and them there stands the barrier of belief and unbelief, or of obedience and disobedience." Then, it is said: "Beware of them." That is, "You should not ruin your eternal life for the sake of their worldly life. Let not their love so overwhelm you that they become a hindrance for you in your relationship with Allah and His Messenger and your loyalty to Islam. Do not place such reliance on them that the secrets of the Muslim community should come to their notice and through them reach your enemies only by your negligence and carelessness. This Is the Fame thing of which the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) has warned the Muslims in a Hadith: `A person will be brought up on the Day of Resurrection, and it will be proclaimed: `His wife and children ate up aII his good deeds'." In the end, it is said: "If you pardon and overlook and forgive, Allah is surely AII-Forgiving, All-Merciful. " It means: "You are being made aware of their enmity so that you may beware of them and do your best to save your faith from them, This warning does not, however, mean that you should treat your wife and children harshly, or strain your relations with them so as w make your own and their domestic lift miserable and wretched For if you did so, two of the disadvantages would obviously result: first, it may close down every avenue to the reformation of the wife and children for ever; second, it may give rise to suspicions and misgivings against Islam in the society and the people around may form the impression that a Muslim turns unduly rigid and ill-tempered for his own children in his own house as soon as he has embraced Islam. In this connection, one should also keep in mind that in the beginning when the people became Muslims, they encountered a special difficulty if their parents were unbelievers. They would press their children to give up the new Faith. They would face another difficulty when their wives and children (or in case of women, their husbands and children) persisted unbelief and would force them to abandon the Faith of Tnrth. About the first difficulty, instruction was given in AI-'Ankabut; 8 and Luqman; 14-15, saying: "Treat your parents well but if they press you to join with Me another about whom you have no knowledge, do not obey them at alI " About the second difficulty the Instruction has been given here, saying: "You must try to save your faith from your children and family members but do not treat them harshly, but rather politely and leniently." (For further explanation, see At-Taubah: 23-24; E N. 37 of AI-Mujadalah, E.N.'s 1 to 3 of Al-Mumtahanah; E.N. 18 of Munafiqun) .

سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :29 اس آیت کے دو مفہوم ہیں ۔ ایک مفہوم کے لحاظ سے اس کا اطلاق ان بہت سی مشکلات پر ہوتا ہے جو خدا کی راہ پر چلنے میں بکثرت اہل ایمان مردوں کو اپنی بیویوں سے اور عورتوں کو اپنے شوہروں سے اور والدین کو اپنی اولاد سے پیش آتی ہیں ۔ دنیا میں کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ ایک مرد کو ایسی بیوی اور ایک عورت کو ایسا شوہر ملے جو ایمان اور راست روی میں پوری طرح ایک دوسرے کے رفیق و مدد گار ہوں ، اور پھر دونوں کو اولاد بھی ایسی میسر ہو جو عقیدہ و عمل اور اخلاق و کردار کے اعتبار سے ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک بنے ۔ ورنہ بالعموم ہوتا یہ ہے کہ شوہر اگر نیک اور ایماندار ہے تو بیوی اور اولاد اسے ایسی ملتی ہے جو اس کی دیانت و امانت اور راست بازی کو اپنے حق میں بد قسمتی سمجھتی ہے اور یہ چاہتی ہے کہ شوہر اور باپ ان کی خاطر جہنم مول لے اور ان کے لیے حرام و حلال کی تمیز چھوڑ کر ہر طریقے سے عیش و طرب اور فسق و فجور کے سامان فراہم کرے ۔ اور اس کے برعکس بسا اوقات ایک نیک مومن عورت کو ایسے شوہر سے سابقہ پیش آتا ہے جسے اس کی پابندی شریعت ایک آنکھ نہیں بھاتی ، اور اولاد بھی باپ کے نقش قدم پر چل کر اپنی گمراہی اور بد کرداری سے ماں کی زندگی اجیرن کر دیتی ہے ۔ پھر خصوصیت کے ساتھ جب کفر و دین کی کشمکش میں ایک انسان کے ایمان کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے دین کی خاطر نقصانات برداشت کرے ، طرح طرح کے خطرات مول لے ، ملک چھوڑ کر ہجرت کر جائے ، یا جہاد میں جا کر اپنی جان تک جوکھوں میں ڈال دے ، تو سب سے بڑھ کر اس کی راہ میں اس کے اہل و عیال ہی رکاوٹ بنتے ہیں ۔ دوسرے مفہوم کا تعلق ان مخصوص حالات سے ہے جو ان آیات کے نزول کے زمانہ میں بکثرت مسلمانوں کو پیش آرہے تھے اور آج بھی ہر اس شخص کو پیش آتے ہیں جو کسی غیر مسلم معاشرے میں اسلام قبول کرتا ہے ۔ اس وقت مکہ معظمہ میں اور عرب کے دوسرے حصوں میں عموماً یہ سورت پیش آتی تھی کہ ایک مرد ایمان لے آیا ہے ، مگر بیوی بچے نہ صرف اسلام قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ، بلکہ خود اس کو اسلام سے پھیر دینے کے لیے کوشاں ہیں ۔ اور ایسے ہی حالات سے ان خواتین کو سابقہ پیش آتا تھا جو اپنے خاندان میں اکیلی اسلام قبول کرتی تھیں ۔ یہ دونوں قسم کے حالات جن اہل ایمان کو در پیش ہوں انہیں خطاب کرتے ہوئے تین باتیں فرمائی گئی ہیں : سب سے پہلے انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ دنیوی رشتے کے لحاظ سے اگرچہ یہ لوگ وہ ہیں جو انسان کو سب سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں ، لیکن دین کے لحاظ سے یہ تمہارے دشمن ہیں ۔ یہ دشمنی خواہ اس حیثیت سے ہو کہ وہ تمہیں نیکی سے روکتے اور بدی کی طرف مائل کرتے ہوں یا اس حیثیت سے کہ وہ تمہیں ایمان سے روکتے اور کفر کی طرف کھینچتے ہوں ، یا اس حیثیت سے کہ ان کی ہمدردیاں کفار کے ساتھ ہوں اور تمہارے ذریعہ سے اگر کوئی بات بھی مسلمانوں کے جنگی رازوں کے متعلق ان کے علم میں آ جائے تو اسے اسلام کے دشمنوں تک پہنچا دیتے ہوں ، اس سے دشمنی کی نوعیت و کیفیت میں تو فرق ہو سکتا ہے ، لیکن بہر حال یہ ہے دشمنی ہی ، اور اگر تمہیں ایمان عزیز ہو تو اس لحاظ سے تمہیں ان کو دشمن ہی سمجھنا چاہیے ، ان کی محبت میں گرفتار ہو کر کبھی اس بات کو نہ بھولنا چاہیے کہ تمہارے اور ان کے درمیان ایمان و کفر ، یا طاعت و معصیت کی دیوار حائل ہے ۔ اس کے بعد فرمایا گیا کہ ان سے ہوشیار رہو ۔ یعنی ان کی دنیا بنانے کے لیے اپنی عاقبت برباد نہ کر لو ۔ ان کی محبت کو کبھی اپنے دل میں اس حد تک نہ بڑھنے دو کہ وہ اللہ و رسول کے ساتھ تمہارے تعلق اور اسلام کے ساتھ تمہاری وفاداری میں حائل ہو جائیں ۔ ان پر کبھی اتنا اعتماد نہ کرو کہ تمہاری بے احتیاطی سے مسلمانوں کی جماعت کے اسرار انہیں معلوم ہو جائیں اور وہ دشمنوں تک پہنچیں ۔ یہ وہی بات ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک حدیث میں مسلمانوں کو خبر دار کیا ہے کہ یُؤْتیٰ برجلٍ یوم القیٰمۃ فیقالُ اکل عیالہ حَسَنا تِہٖ ۔ ایک شخص قیامت کے روز لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اس کے بال بچے اس کی ساری نیکیاں کھا گئے ۔ آخر میں فرمایا گیا کہ اگر تم عفو و در گزر سے کام لو اور معاف کر دو تو اللہ غفور و رحیم ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی دشمنی سے تمہیں صرف اس لیے آگاہ کیا جا رہا ہے کہ تم ان سے ہوشیار رہو اور اپنے دین کو ان سے بچنے کی فکر کرو ۔ اس سے آگے بڑھ کر اس تنبیہ کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ بیوی بچوں کو مارنے پیٹنے لگو ، یا ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ ، یا ان کے ساتھ تعلقات میں ایسی بد مزگی پیدا کر لو کہ تمہاری اور ان کی گھریلو زندگی عذاب بن کر رہ جائے ۔ یہ اس لیے کہ ایسا کرنے کے دو نقصانات بالکل واضح ہیں ۔ ایک یہ کہ اس سے بیوی بچوں کی اصلاح کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہو جانے کا خطرہ ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس سے معاشرے میں اسلام کے خلاف الٹی بدگمانیاں پیدا ہو سکتی ہیں اور گرد و پیش کے لوگوں کی نگاہ میں مسلمان کے اخلاق و کر دار کی یہ تصویر بنتی ہے کہ اسلام قبول کرتے ہی وہ خود اپنے گھر میں اپنے بال بچوں تک کے لیے سخت گیر اور بد مزاج بن جاتا ہے ۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ ابتدائے اسلام میں جب لوگ نئے نئے مسلمان ہوتے تھے ، تو ان کو ایک مشکل اس وقت پیش آتی تھی جب ان کے والدین کافر ہوتے تھے اور وہ ان پر دباؤ ڈالتے تھے کہ اس نئے دین سے پھر جائیں ۔ اور دوسری مشکل اس وقت پیش آتی جب ان کے بیوی بچے ( یا عورتوں کے معاملہ میں ان کے شوہر اور بچے ) کفر پر قائم رہتے اور دین حق کی راہ سے انہیں پھیرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ پہلی صورت کے متعلق سورہ عنکبوت ( آیت 8 ) اور سورہ لقمان ( آیات 14 ۔ 15 ) میں یہ ہدایت فرمائی گئی کہ دین کے معاملہ میں والدین کی بات ہرگز نہ مانو ، البتہ دنیا کے معاملات میں ان کے سا تھ حسن سلوک کرتے رہو ۔ دوسری صورت کا حکم یہاں بیان کیا گیا ہے کہ اپنے دین کو تو اپنے بال بچوں سے بچانے کی فکر ضرور کرو ، مگر ان کے ساتھ سخت گیری کا برتاؤ نہ کرو ، بلکہ نرمی اور عفو و در گزر سے کام لو ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، التوبہ ، آیات 23 ۔ 24 ۔ جلد پنجم ، المجادلہ ، حاشیہ 37 ۔ الممتحنہ ، حواشی 1 تا 3 ۔ المنافقون ، حاشیہ 18 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

3: جو بیوی بچے اِنسان کو اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی پر اُکسائیں وہ اِنسان کے دُشمن ہیں۔ البتہ اگر وہ اپنے اس عمل سے توبہ کریں تو یہ حکم دیا گیا ہے کہُ انہیں معاف کردیا جائے، اور درگذر سے کام لے کر اُن سے اچھا سلوک کیا جائے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٤۔ ١٨۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے ترمذی ٢ ؎ اور مستدرک حاکم میں روایت ہے جس کو ترمذی اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے حاصل اس روایت کا یہ ہے کہ ہجرت کے بعد فتح مکہ سے پہلے کچھ صحابہ مکہ میں رہ گئے تھے جب انہوں نے ہجرت کا ارادہ کیا تو ان کی بی بی بچوں نے ان کو ہجرت سے روکا اور رونا پیٹنا شروع کردیا جس سے وہ صحابہ جلدی ہجرت نہ کرسکے کچھ دنوں کے بعد جب وہ لوگ ہجرت کرکے مدینہ میں آئے تو ان کو اس کا بڑا پچھتاوا ہوا کہ جو صحابہ ان سے پہلے ہجرت نہ کرسکے۔ کچھ دنوں کے بعد جب وہ لوگ ہجرت کرکے مدینہ میں آئے تو ان کو اس کا بڑا پچھتاوا ہوا کہ جو صحابہ ان سے پہلے ہجرت کرکے مدینہ کو آگئے تھے وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صبحت میں دین کے بہت سے مسئلوں سے واقف ہوگئے جن مسئلوں سے یہ پیچھے ہجرت کرنے والے لوگ محروم رہ گئے۔ اس پچھتاوے کے غصہ میں ان لوگوں نے چاہا کہ اپنی بی بی بچوں کے ساتھ کسی بدسلوکی سے پیش آئیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرما دیا کہ بی بی بچوں کے ساتھ کوئی بدسلوکی تو نہیں کرنی چاہئے لیکن بی بی بچوں کی اس طرح کی محبت سے بچنا چاہئے جس میں دین کے کسی کام میں فتور پڑے اور یہ خیال رکھنا چاہئے کہ بی بی بچے اور مال و متاع دین کے حق میں دشمن اور بڑی فتنہ میں ڈالنے والی چیزیں ہیں۔ اللہ اور اللہ کے رسول کی فرمانبرداری کو مال و متاع اور بی بی بچوں کی الفت پر ہمیشہ مقدم رکھنا چاہئے بعض مفسروں نے لکھا ٣ ؎ ہے کہ آیت فاتقوا اللہ ما استطعتم سے آل عمران کی آیت یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ حق تقاتہ منسوخ ہے لیکن امام المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) اس کے مخالف ہیں اور یہ فرماتے ہیں کہ دونوں آیتوں میں طاقت بشری کے موافق تقویٰ کا اور عبادت کا حکم ہے اس لئے دونوں آیتوں میں سے کوئی آیت منسوخ نہیں ہے۔ بلکہ سورة تغابن کی آیت سورة آل عمران کی تفسیر ہے بی بی بچوں کے ذکر میں صدقہ خیرات کا ذکر بھی فرمایا تاکہ بی بی بچوں کے خرچ کے وقت یہ عقبیٰ کی بہتری کا خرچ بھی ہر ایمان دار شخص کو یاد رہے کہ دنیا کے خرچ اخراجات میں آدمی جو کچھ اٹھائے گا وہ تو گیا گزرا اور جو چھوڑ مرا وارثوں کا ہوگیا آدمی کے ساتھ جانے کا وہی روپیہ پیسہ ہے جو اس نے حلال کی کمائی میں سے عقبیٰ کے ثواب کے لئے اللہ کے نام پر دیا۔ اسی واسطے صدقہ خیرات کے خرچ کو خرچ کرنے والے کی بہتری اور بھلائی کا خرچ فرمایا۔ صحیح ١ ؎ مسلم میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدمی نے دنیا میں جو کچھ کھالیا یا پی لیا تو وہ گیا گزرا اور جو چھوڑ مرا وہ دوسروں کا ہوگیا ہاں نیک نیتی سے جو کچھ اس نے اللہ کے نام پر دیا وہ اس کے ساتھ جائے گا۔ اس باب میں اور بھی صحیح حدیثیں ہیں۔ یہ سب حدیثیں انفقوا خیرا لانفسکم کی تفسیر ہیں۔ اوپر گزر چکا ہے کہ صدقہ خیرات کے وقت شیطان آئندہ کی تنگ دستی سے آدمی کو ڈراتا ہے اس لئے فرمایا کہ جو شخص صدقہ خیرات کے وقت ایسے شیطانی وسوسوں سے بچا وہ اپنی مراد کو پہنچا کہ اس نے ایک ایک کے سات سات سو کمائے۔ آدمی صدقہ خیرات میں جو کچھ خرچ کرے گا اس کا عوض مع نفع کے اس کو عقبیٰ میں مل جائے گا اس واسطے صدقہ خیرات کو قرض فرمایا اچھی طرح قرض دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں دنیا کے دکھاوے کا اور دے کر پھر احسان جتلانے کا دخل نہ ہونا چاہئے۔ اجر کے بڑھنے کی تفسیر سورة بقر میں گزر چکی ہے۔ معتبر سند سے مسند ٢ ؎ ابی یعلی میں حضرت جابر کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا صدقہ آدمی کے صغیرہ گناہوں کو اس کے اعمال نامہ میں سے اس طرح مٹا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے صدقہ کے ذکر میں گناہوں کے معاف ہوجانے کا ذکر جو ان آیتوں میں فرمایا یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے اللہ تعالیٰ کے قدر دان ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اس نے اپنی قدر دانی سے تھوڑے سے صدقہ پر بہت سے اجر کا وعدہ فرمایا جس کی تفسیر سورة رعد میں گزر چکی۔ اللہ تعالیٰ کے صاحب تحمل ہونے کا یہ مطلب ہے کہ جس طرح اس نے اپنے تحمل سے ان آیتوں میں ان لوگوں کو روکا جو اپنی بی بی بچوں کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آنا چاہتے تھے اسی طرح وہ ہر گناہ گار کے مواخذہ میں تحمل کا برتاؤ کرتا ہے ورنہ اگر وہ ہر گناہ پر گناہ گاروں کو فوراً پکڑے تو دنیا تباہ ہوجائے چناچہ سورة النحل میں اس کی تفصیل آیۃ ولویو اخذ اللہ الناس بظلھم ما ترک علیھا من دابۃ کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔ عالم الغیب الشھادہ وھو العزیز الحکیم کا حاصل مطلب یہ ہے کہ اس علم سے کوئی چیز باہر نہیں ہے صدقہ خیرات یا اور کوئی نیک عمل جس نیت سے ہر شخص کرتا ہے اس کو سب معلوم ہے اسی کے موافق قامت کے دن فیصلہ ہوگا زبردست وہ ایسا ہے کہ اس نے پچھلی قوموں کو جب ہلاک کرنا چاہا تو کوئی ان کو اس کے عذاب سے بچا نہ سکا لیکن وہ اپنے تحمل سے درگزر کا برتاؤ کرتا ہے صاحب حکمت وہ ایسا ہے کہ آسمان و زمین و انسان ‘ احکام شریعت وغیرہ سب اس کی حکمت کے گواہ موجود ہیں۔ (٢ ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة التفابن ص ١٨٨ ج ٢۔ ) (٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣٧٦ ج ٤۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم کتاب الزھد ص ٤٠٧ ج ٢۔ ) (٢ ؎ الترغیب و الترہیب الترغیب فی اصدقۃ والحث علیھا الخ ص ١٠ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(64:14) ان من ازواجکم واولادکم عدوا لکم : ان حرف تحقیق اور حروف مشبہ بالفعل میں سے ہے خبر کی تاکید و تحقیق مزید کے لئے آتا ہے۔ عدوا بالنصب اسم ان ۔ اور من ازواجکم واولادکم اس کی خبر (تفسیر حقانی) من تبعیضیہ ہے ان میں سے بعض۔ ترجمہ ہوگا :۔ مسلمانو ! تمہاری بیویوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن بھی ہیں۔ فاحذروھم : ف سببیہ احذروا امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ حذر (باب سمع) مصدر۔ کسی خوف کی بات سے ڈرنا۔ بچنا۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب پس تم ان سے بچو۔ (یعنی ان کا کہا نہ مانو کہ ان کی وجہ سے ہجرت چھوڑ بیٹھو) ۔ وان تعفوا وتصفحوا وتغفروا۔ واؤ عاطفہ۔ ان شرطیہ۔ تعفوا اصل میں تعفون تھا۔ مضارع کا صیغہ جمع مذکر حاضر ان شرطیہ کے آنے سے نون اعرابی گرگیا۔ عفو (باب نصر) مصدر۔ بمعنی معاف کرنا۔ درگزر کرنا ۔ اور گار تم معاف کردو ، درگزر کرو۔ تصفحوا اصل میں تصفحون تھا ان شرطیہ کے عمل سے نون اعرابی حذف ہوا مضارع کا صیغہ جمع مذکر ہے۔ صفح (باب فتح) مصدر۔ تم درگزر کرو۔ تغفروا اصل میں تغفرون تھا۔ ان شرطیہ کے آنے سے نون اعرابی کرگیا مضارع کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے غفر (باب ضرب) مصدر۔ تم بخشو۔ تم معاف کردو۔ یہ جملہ شرط ہے اس کے بعد جواب شرط محذوف ہے۔ علامہ آلوسی (رح) لکھتے ہیں کہ :۔ اس کے بعد کا جملہ فان اللہ غفور رحیم ہی جواب کے قائم مقام ہے۔ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ بھی وہی معاملہ فرمائے گا جو تم ان (اپنے ازواج و اولاد) کے ساتھ کروگے۔ اور تم پر اپنا فضل کرے گا۔ کیونکہ وہ عزوجل بڑا غفور اور رحیم ہے۔ علامہ پانی پتی (رح) رقمطراز ہیں کہ :۔ ترمذی اور حاکم نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا :۔ جب وہ لوگ مدینہ پہنچ گئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ (ان سے پہلے ہجرت کرکے آنے والے) کچھ لوگ دینی مسائل سیکھ چکے ہیں ۔ یہ دیکھ کو ان کو اپنے اہل و عیال پر غصہ آیا اور انہوں نے ارادہ کیا کہ اپنے اہل و عیال کو سزا دیں۔ کیونکہ بیوی بچوں ہی نے ان کو ہجرت سے روک رکھا تھا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی :۔ وان تعفوا و تصفحوا ۔۔ الخ۔ یعنی اگر تم ان کا قصور معاف کردو گے اور ان سے درگزر کروگے اور ان کی خطا بخش دوگے تو اللہ بھی تم کو معاف فرمائے گا۔ اور تم پر مہربانی کرے گا کیونکہ اللہ ہی بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 بعض اوقات آدمی بیوی بچوں کی محبت میں پھنس کر اللہ و رسول کے احکام کو بھلا دیتا ہے اور اپنی آخرت تباہ کرلیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو اہل و عیال اس تباہی کا باعث نہیں ان سے بڑھ کر آدمی کا کوئی دشمن نہیں ہوسکتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰنے فرمایا کہ ایسے دشمنوں سے ہوشیار ہو ایسا نہ ہو کہ تم ان کی محبت میں پڑ کر اپنی آخرت تباہ کرلو۔ حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ مکہ معظمہ میں کچھ لوگ تھے جو مسلمان ہوچکے تھے اور ہجرت کر کے مدینہ آنا چاہتے تھے۔ لیکن ان کے بیوی بچوں نے انہیں ہجرت کرنے سے باز رکھا پھر جب وہ آخر کار ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے اور انہوں نے دیکھا کہ دوسرے لوگ آنحضرت کی صحبت میں رہ کر دین کا خوب علم حاصل کرچکے ہیں تو انہیں سخت افسوس ہوا اور انہوں نے اپنے بیوی بچوں کو سزا دینے کا ارادہ کیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ یعنی جیسا مصیبت میں تم کو صبر و رضا کا حکم کیا گیا ہے تاکہ وہ مانع عن الاخرة نہ ہو، اسی نعمت کے بارے میں تم کو عدم انہماک کا حکم کیا جاتا ہے تاکہ وہ بھی مانع عن الآخرت نہ ہو۔ 8۔ اس میں ترغیب ہے عفو کی اور یہ بعض اوقات واجب ہے جبکہ عقوبت سے احتمال غالب بےباکی کا ہو، اور بعض اوقات مندوب ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس فرمان سے پہلے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کا حکم ہوا اور پھر فرمایا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اسی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ رکھو۔ اللہ کی عبادت اور اس پر بھروسہ کرنے کے معاملے میں جو چیز آدمی کے راستے میں سب سے پہلے رکاوٹ بنتی ہے وہ بیوی، اولاد اور مال کی محبت ہے بسا اوقات یہ محبت اپنے آپ کے ساتھ دشمنی کرنے کے مترادف ثابت ہوتی ہے ایسی محبت سے احتیاط برتنے کا حکم ہے۔ جس کے لیے ارشاد ہوا کہ اے ایمان والو ! تمہاری بیویوں اور اولاد بھی تمہارے دشمن ہوتے ہیں اور تمہارے مال تمہارے لیے آزمائش ہیں جن سے تمہیں احتیاط برتنی چاہیے تاکہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت میں کمی واقع نہ ہو۔ اسی سورت کی آیت ١١ میں مومنوں کو یہ بتلایا ہے کہ جو بھی مصیبت آتی ہے اس کے پیچھے اللہ کا حکم کار فرما ہوتا ہے لہٰذا مومن کا فرض ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ پر بھروسہ کرے۔ مصیبت کا معنٰی دکھ اور آزمائش ہے جو مومن کو اس کی بیوی اور اولاد سے بھی پہنچ سکتی ہے۔ گویا کہ مصیبت خارجی ذرائع سے بھی آتی ہے اور داخلی اسباب بھی اس کا سبب بنتے ہیں۔ خارجی اسباب میں بیوی، اولاد اور مال بھی اس کا سبب بنتے ہیں بالخصوص دینی زندگی اپنانے میں اکثر اوقات بعض بیویاں اور اولاد دانستہ یا غیر دانستہ طور پر مومن کے راستے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں جو شخص اس آزمائش میں پورا اترے گا اللہ تعالیٰ اسے اجرعظیم سے سرفراز کرے گا۔ اگر بیوی اور اولاد آزمائش بن جائیں تو مومن کو بیوی اور اولاد کی خاطر اپنے دین کا سودا نہیں کرنا چاہیے۔ اس لیے حکم دیا گیا ہے کہ اپنی بیویوں اور اولاد سے بچتے رہو یعنی ان کی خاطر اپنا دین خراب اور آخرت برباد نہ کرو۔ البتہ گھریلو زندگی اور اپنی عزت بچانے کے لیے ان کے ساتھ معافی اور درگزر کا رویہ اختیار کرو اور یاد رکھو کہ یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے۔ معاف اور رحم کرنے کے الفاظ استعمال فرما کر مومن کو تسلی دی گئی ہے کہ اگر اپنے رب کے بتلائے ہوئے اصولوں کے مطابق چلو گے تو وقت آئے گا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس آزمائش میں سرخرو فرمائے گا، جو شخص ان اصولوں پر عمل نہیں کرتا وہ نہ صرف پریشانیوں کا شکار ہوتا ہے بلکہ اس کی برادری اور معاشرے میں عزت بھی ضائع ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومن کو اس کی اولاد اور بیوی کی آزمائش سے بچانے کے لیے تین الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ (تَعْفُوْا) ” تم معاف کرو۔ “ (وَتَصْفَحُوْا) ” اور ایک دوسرے کی اصلاح کرو۔ “ (وَتَغْفِرُوْا) ” اور بخش دو ۔ “ یہاں تک مال کا معاملہ ہے یہ تو سراسر آزمائش ہے اکثر دیکھا گیا ہے کہ جس کے پاس مال آتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کے راستے کو چھوڑ کر نافرمانی کے راستے پر چل نکلتا ہے اس بات کی اللہ تعالیٰ نے یوں نشاندہی فرمائی ہے : (کَلَّآاِِنَّ الْاِِنسَانَ لَیَطْغٰی اَنْ رَّاٰہُ اسْتَغْنٰی) (العلق : ٦، ٧) ” ہرگز نہیں یقیناً انسان سرکشی کرتا ہے۔ جب وہ اپنے آپ کو غنی دیکھتا ہے۔ “ ” حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔ اور وہ خود اس پر گواہ ہے اور وہ مال کی محبت میں بڑا سخت ہے۔ “ (العدیات : ٦ تا ٨) مسائل ١۔ بعض بیویاں اور اولاد بھی آدمی کے دشمن بن جاتے ہیں۔ ٢۔ نافرمان اولاد اور بیوی کے بارے میں حتیٰ الوسع معافی اور درگزر سے کام لینا چاہیے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے مال اور اولاد کو مومن کے لیے آزمائش قرار دیا ہے۔ ٤۔ دوسروں کو معاف کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بھی معاف کرتا ہے۔ ٥۔ آزمائش میں پورا اترنے والے کو اللہ تعالیٰ اجر عظیم سے سرفراز فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن مومن کے لیے آزمائش : ١۔ ایمان کے لیے آزمائش شرط ہے۔ (العنکبوت : ٢) ٢۔ اللہ نے پہلے لوگوں کو بھی آزمایا۔ (البقرۃ : ٢١٤) ٣۔ آزمائش میں ثابت قدمی کے بعد اللہ کی مدد یقینی اور قریب ہوا کرتی ہے۔ (البقرۃ : ٢١٤) ٤۔ جنت میں داخلے کے لیے آزمائش ضروری ہے۔ (آل عمران : ١٤٢) ٥۔ اللہ نے انسان کی آزمائش کے لیے موت وحیات کا سلسلہ بنایا ہے۔ (الملک : ٢) ٦۔ اللہ نے انسانوں کی آزمائش کے لیے بعض کو بعض پر فوقیت دی۔ ( الانعام : ١٦٥) ٧۔ مال واولاد انسان کے لیے آزمائش ہے اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔ (التغابن : ١٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان آیات کے بارے میں حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ پہلی آیت کے بارے میں ان سے کسی نے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ مکہ کے کچھ لوگ تھے جو اسلام لے آئے تھے۔ انہوں نے ارادہ کرلیا کہ وہ ہجرت کرکے رسول اللہ کے پاس آجائیں ، لیکن ان کی بیویوں اور ان کی اولاد نے ، اس سے انکار کردیا۔ اور ان کو نہ چھوڑا۔ پھر بعد میں جب وہ رسول اللہ کے پاس پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ لوگ تعلیم دین کے میدان میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔ تو انہوں نے ارادہ کرلیا کہ ان بیویوں اور اولاد کو سزا دیں۔ اللہ نے یہ آیات نازل کی : وان تعفوا ........................ غفور رحیم (٤٦ : ٤١) ” اگر تم عفو و درگزر سے کام لو اور معاف کردو تو اللہ غفور ورحیم ہے “۔ امام ترمذی نے اسے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اسناد حسن صحیح ہے۔ یہی عکرمہ مولی ابن عباس کی رائے ہے۔ لیکن آیت کی عبارت اور نص عام ہے۔ اور اس جزئی واقعہ تک اس کے مفہوم کو محدود نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تنبیہ بھی اس طرح ہے جس طرح اگلی آیت میں مال اور اولاد سے متنبہ کیا گیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بعض ازواج اور اولاد تمہارے دشمن ہیں : چوتھی نصیحت یہ فرمائی کہ تمہاری بیویوں اور اولاد میں ایسے (بھی) ہیں جو تمہارے دشمن ہیں لہٰذا تم ان سے ہوشیار رہو۔ فطری اور طبعی طور پر انسان کو نکاح کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جب نکاح ہوجاتا ہے تو اولاد بھی ہوتی ہے۔ میاں بیوی کی آپس میں محبت ہوتی ہے اور اولاد سے محبت ہونا امر طبعی ہے، اسلام نے بھی ان محبتوں کو باقی رکھا ہے لیکن اس کے لئے ایک حد بندی بھی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کا حق سب پر مقدم ہے، بیوی ہو یا شوہر بیٹا ہو یا بیٹی ہر ایک سے اتنی ہی محبت کی جاسکتی ہے جس کی وجہ سے اسلامی احکام پر چلنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ شریعت اسلامیہ کے مطابق چلتے رہیں۔ معالم التنزیل میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ مکہ معظمہ میں کچھ لوگ مسلمان ہوگئے تھے جب انہوں نے مدینہ منورہ کے لئے ہجرت کا ارادہ کیا تو ان کی ازواج اور اولاد نے انہیں ہجرت سے روک دیا اور یوں کہا کہ ہم نے تمہارے مسلمان ہونے پر صبر کرلیا لیکن تمہاری جدائی پر صبر نہیں کرسکتے ان کی یہ بات سن کر انہوں نے ہجرت کا ارادہ چھوڑ دیا۔ اس پر آیت کریمہ : ﴿ اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَ اَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْهُمْ ١ۚ ﴾ نازل ہوئی اور دوسرا سبب نزول یہ لکھا کہ حضرت عوف بن مالک الاشجعی (رض) بال بچہ دار تھے وہ جب جہاد کے لئے جانے کا ارادہ کرتے تو یہ لوگ رونے لگتے اور یوں کہتے کہ آپ ہمیں کس پر چھوڑے جارہے ہیں ؟ یہ سن کر انہیں ترس آجاتا تھا اور جہاد کی شرکت سے رہ جاتے تھے اس پر آیت بالا نازل ہوئی جس میں یہ بتادیا کہ بیوی بچے تمہیں نیک کام کرنے سے روکتے ہیں ان کی طرف سے ہوشیار رہو اور ان کی بات نہ مانو، دونوں روایتوں میں کوئی منافات نہیں ہے۔ لفظ ازواج جمع ہے زوج کی، یہ لفظ شوہر اور بیوی دونوں کے لئے بولا جاتا ہے لہٰذا آیت کریمہ کے عموم الفاظ سے معلوم ہوگیا کہ ہر شخص اس کا اہتمام کرے بیوی ہو یا شوہر آپس میں ایک دوسرے کی وجہ سے یا اولاد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے نافرمان نہ ہوجائیں۔ بیوی بچوں کی محبت میں اپنی جان کو ہلاکت میں نہ ڈالیں : بیوی اور شوہر اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق چلیں اور اولاد کو بھی اسی پر چلائیں، اللہ کی نافرمانی نہ شوہر کرے نہ بیوی کرے اور نہ اولاد کو کرنے دیں، اگر ازواج اور اولاد سے اتنی محبت کی کہ اللہ کے فرائض اور واجبات چھوٹنے لگے تو ان لوگوں کی محبت خود اپنے حق میں دشمن بن جائے گی پھر اس دشمنی کا مظاہرہ میدان حشر میں ہوگا ان کی وجہ سے جو گناہ كئے ان پر مواخذہ اور عذاب ہوگا۔ یہ انسان کی بیوقوفی ہے کہ بیوی بچوں کے لئے كمائے اور انہیں کھلائے پلائے لیکن اس میں حلال و حرام کا خیال نہ رکھے۔ حرام کمانے کا بھی گناہ اپنے سرلے اور حرام کھانے اور کھلانے کا بھی اور ان کی وجہ سے قیامت کے دن عذاب میں مبتلا ہوجائے۔ دنیا میں دیکھا جاتا ہے کہ بہت سے لوگ بیوی بچوں کی خواہش اور ضد کی وجہ سے گناہ کرلیتے ہیں سود پر قرض بھی لیتے ہیں دوسروں کے اموال میں خیانت بھی کرلیتے ہیں فضول خرچی بھی کرتے ہیں ہر تقریب میں بیوی کو نیا جوڑا پہنانے کے لئے ادھار بھی لیتے ہیں اور رشوت لے کر بھی گھر والوں کے اخراجات پورے کرتے ہیں۔ اور ان سب کا وبال اپنے سرلیتے ہیں، بیوی بچوں کو اس سے بحث نہیں کہ ہمارے ذمہ دار کا آخرت میں کیا بنے گا۔ انہیں تو اپنے نفس کے تقاضے پورے کرنا ہے، اگر اللہ کے قانون کو نہ دیکھا اور بیوی بچوں کی فرمائشیں پوری کردیں جن میں گناہوں کا ارتکاب کیا، پھر قیامت کے دن عذاب میں مبتلا ہوئے تو یہ کہاں کی سمجھداری ہے اس وقت یہ بیوی بچے دشمن نظر آئیں گے اور یہ سمجھ میں آجائے گا کہ انہوں نے میرے ساتھ دشمنوں والا برتاؤ کیا یہ مجھے نصیحت کر کے اللہ تعالیٰ کے دین پر چلنے کی تاکید کرتے اور حرام چیزوں سے اور حرام کاموں سے روکتے انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنی خواہشوں کو پورا کرنے میں مجھے رگڑ دیا اور مجھے حرام کاموں میں لگا دیا : (قال صاحب الروح قال غیر واحد ان عداوتھم من حیث انھم یحولون بینھم و بین الطاعات والامور النافعة لھم فی آخر تھم وقد یحملونھم علی السعی فی اکتساب الحرام و ارتکاب الاثم لمنفعة انفسھم ) ۔ یہ بیوی بچوں کی عام حالت ہے اور بہت سے اولاد اور ازدواج ایسے بھی ہوتے ہیں جو خیر کی دعوت دیتے ہیں اور خیر پر چلاتے ہیں اس لئے ﴿ اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَ اَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْهُمْ ﴾ فرمایا کہ تمہارے ازواج اور اولاد میں سے تمہارے دشمن (بھی) ہیں تو تم ان سے ہوشیار رہو۔ یہ نہیں فرمایا کہ سب ہی اولاد اور ازواج دشمن ہیں۔ معاف اور درگزر کرنے کی تلقین : ﴿وَ اِنْ تَعْفُوْا وَ تَصْفَحُوْا وَ تَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ٠٠١٤﴾ اور اگر تم معاف کرو اور درگزر کرو اور بخش دو سو اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔ بعض مرتبہ بیویوں کی اور اولاد کی فرمائشیں ایسی ہوتی ہیں کہ کبھی تو نفس کو فرمائش ہی ناگوار گزرتی ہے اور کبھی ان کو پورا کرنے کا موقع نہیں ہوتا ایسی صورت میں بھی طبیعت کونا گواری ہوتی ہے ارشاد فرمایا کہ اگر تم انہیں معاف کردو اور درگزر کردو تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا ہے مہربان ہے تم ان کو معاف کردو گے تو یہ عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمہارے گناہ معاف کرنے کا ذریعہ بن جائے گا۔ اللہ غفور ہے رحیم ہے اس کی مغفرت اور رحمت کے امید وار رہو۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ ” یا ایہا الذین امنوا “ یہ مسئلہ توحید کی تفصیل کے بعد مسلمانوں کو جماعتی نظم و نسق قائم رکھنے اور باہم اتحاد و اتفاق سے رہنے کی تلقین فرمائی تاکہ وہ دشمنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکیں۔ اولاد اور بیویوں کے دشمن ہونے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ حقیقت ہی میں تمہاری بعض بیویاں اور بعض اولاد تمہاری دشمن ہے اس لیے ان سے ہوشیار رہو۔ بعض بیویا یا اواد کی طرف سے مطالبہ ہوتا ہے جسے پورا کرنے کے لیے انسان محرمات و معاصی کے ارتکاب پر مجبور ہوجاتا ہے۔ وقد یحملونھم علی السعی فی اکتساب الحرام وارتکاب الاثام لمنفعۃ انفسہم (روح ج 28 ص 126) دوسری مطلب یہ کہ اولاد و ازواج بعض دفعہ دوسروں سے دشمنی کا باعث بن جاتے ہیں مثلا کسی مسلمان بھائی نے تمہارے اہل و عیال کے بارے میں گستاخی کر ڈالی، ان کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کرلیے تو اس سے برسر پیکار نہ ہوجاؤ بلکہ در گذر کرو اور معافی دیدو۔ قالہ الشیخ (رح) تعالی۔ ” ان تعفوا “ یعنی مقابلہ نہ کرو۔ ” و تصفحوا “ زبانی سرزنش سے بھی اعراض کرو اور اغماض سے کام لو۔ ” وتغفروا “ دل سے بھی در گذر کرو اور کدورت نہ رکھو۔ اگر تم مسلمان بھائیوں کو معاف کروگے تو اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کرے گا اور درگذر فرمائے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(14) اے ایمان والو ! تمہاری بیویوں میں سے بعض بیویاں اور تمہاری اولاد میں سے بعض اولاد تمہارے دشمن ہیں لہٰذا ان سے ہوشیار ہو اور تم ان کا کہنا ماننے سے بچتے رہو اور اگر تم ان سے معذرت کرنے پر ان کو معاف کردو اور ان سے درگزر کرو اور ان کو بخش دو تو اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ یعنی بعض ازواج اور بعض اولاد مانع عن الخیر ہوتی ہے اس سے ہوشیار رہنے کی تاکید فرمائی جیسا کہ بعض لوگوں کی بیویاں اور اولاد ہجرت کرنے سے مانع ہوتی تھیں یا جہاد میں جاتے وقت سمجھاتی تھیں کہ تم چلے جائو گے تو ہماری خبر گیری کون کرے گا اور ہم تباہ ہوجائیں گے اس لئے ان کو ہوشیاء فرمایا کہ ایسی بیویوں کا اور ایسی اولاد کا کہنا نہ مانو جو تم کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رسول کی اطاعت سے مانع ہوں۔ چنانچہ جب لوگ اپنی بیوی اور اپنی اولاد کے منع کرنے اور روکنے کے باوجود ہجرت کر گئے اور وہاں جاکر امن و عافیت اور مذہب کی آزادی دیکھی تو بیوی بچے معذرت کرنے اور اپنی غلطی معاف کرانے لگے اس پر فرمایا معاف کردینا اور درگز کردینا اور بخش دینا اچھی بات ہے اللہ تعالیٰ بھی بخشنے والا مہربان ہے اس لئے وہ معافی اور بخشش کو بہت پسند کرتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی آدمی جو روبیٹے کے واسطے بہت نیکی کھوتا ہے اور بہت برائی میں پڑتا ہے مگر تو بھی چاہیے کہ سلوک ان سے نیک ہی رکھے اور آپ بچتا رہے۔ خلاصہ : یہ کہ تماری بیویاں اور تمہاری اولاد تمہارے حق میں دشمن ہیں کہ تم کو نیک کاموں سے روکتے ہیں پھر اگر تمہاری تنبیہ پر وہ اظہار معذرت کریں اور اپنی غلطی کا اعتراف کریں تو تم درگز کرو اور معاف کردو اور بخش دو بیشک اللہ تعالیٰ غفورورحیم ہے بخشنے والوں کو پسند کرتا ہے اور بہرحال بیوی بچے حسن سلوک کے مستحق ہیں، چناچہ جب ہجرت کرنے کے بعد گھر والوں نے اپنی غلطی تسلیم کرلی تو خاوندوں نے اور باپوں نے معاف کردیا آگے اموال اور اولاد کی طرف سے پھر آگاہ فرمایا کہ بسا اوقات ان چیزوں کا انہماک اور شغل آخرت کے کاموں میں سستی اور کاہلی کا موجب ہوتی ہیں چناچہ ارشاد فرمایا۔