Surat ut Taghabunn

Surah: 64

Verse: 2

سورة التغابن

ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ فَمِنۡکُمۡ کَافِرٌ وَّ مِنۡکُمۡ مُّؤۡمِنٌ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ ﴿۲﴾

It is He who created you, and among you is the disbeliever, and among you is the believer. And Allah , of what you do, is Seeing.

اسی نے تمہیں پیدا کیا سو تم میں سے بعضے تو کافر ہیں اور بعض ایمان والے ہیں اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالٰی خوب دیکھ رہا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ فَمِنكُمْ كَافِرٌ وَمِنكُم مُّوْمِنٌ ... He it is Who created you, then some of you are disbelievers and some of you are believers. meaning, Allah created you with these characteristics and He willed that for you. Therefore, there will be believers and disbelievers. Surely, Allah is the One Who sees those who deserve guidance and those who deserve misguidance. He is the Witness over His servant's deeds and He will completely recompense them. This is why Allah the Exalted said, ... وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ And Allah is All-Seer of what you do. Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 یعنی انسان کے لیے خیروشر، نیکی اور بدی اور کفر و ایمان کے راستوں کی وضاحت کے بعد اللہ نے انسان کو ارادہ واختیار کی جو آزادی دی ہے اس کی رو سے کسی نے کفر کا اور کسی نے ایمان کا راستہ اپنایا ہے اس نے کسی پر جبر نہیں کیا ہے۔ اگر وہ جبر کرتا تو کوئی بھی شخص کفر کا راستہ اختیار کرنے پر قادر نہ ہوتا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣] اس آیت کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ پیدا تو تمہیں اللہ نے کیا ہے پھر کوئی تو یہ بات تسلیم کرلیتا ہے کہ واقعی ہمارا خالق اللہ ہے اور کوئی یہ بات بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ وہ سرے سے اللہ کی ہستی کا انکار کردیتا ہے کہ ہم تو زمانہ کی گردش کے تحت پیدا ہوتے اور مرتے رہتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اللہ نے انسان کو فطرت سلیمہ پر پیدا کیا تھا۔ کہ وہ بھی اللہ کی باقی تمام مخلوق کی طرح اس کا مطیع و منقاد بن کر رہے۔ لیکن کچھ لوگ تو اس فطرت سلیمہ پر قائم رہتے ہیں اور کچھ ماحول سے متاثر ہو کر کفر کی راہیں اختیار کرلیتے ہیں اور اس مطلب کی توثیق اس ارشاد نبوی سے ہوجاتی ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ : (انسان کا) ہر بچہ فطرت (سلیمہ) پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی (وغیرہ) بنا دیتے ہیں && (بخاری۔ کتاب القدر۔ باب جف القلم علیٰ علم اللّٰہ۔۔ ) اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو قوت ارادہ و اختیار اور عقل وتمیز دے کر پیدا کیا تھا۔ اب جو شخص ان اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا غلط استعمال کرتا ہے۔ وہ کفر کی راہ پر جا پڑتا ہے اور جو صحیح استعمال کرتا ہے۔ وہی مومن ہوتا ہے۔ [٤] صرف دیکھتا ہی نہیں بلکہ اس کی تمہیں جزا یا سزا بھی دے گا۔ وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ اگر کسی مومن نے کوئی نیک کام کیا تھا تو اس میں خلوص نیت کا کتنا حصہ تھا۔ اسی کے مطابق وہ اس کی جزا میں کمی یا اضافہ بھی کرے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ فَمِنْکُمْ کَافِرٌ وَّمِنْکُمْ مُّؤْمِنٌ: یعنی اتنی صفات کے مالک ہی نے تمہیں پیدا کیا اور دوسری مخلوقات کی طرح تمہیں بھی ہر بات میں اپنے تکوینی حکم کا پابند کردینے کے بجائے ایمان و فکر دونوں راستے واضح فرما کر تمہیں ان میں سے کسی ایک پر چلنے کا اختصار بخشا ۔ اب حق تو یہ تھا کہ تم اپنے پیدا کرنے والے کا شکر ادا کرتے ہوئے اس پر ایمان لاتے ، مگر اس کے بجائے تم دو گروہوں میں بٹ گئے ، چناچہ تم میں سے کچھ کفر کرنے والے ہیں اور کچھ ایمان لانے والے ۔ اب یہ خیال مت کرنا کہ تمہارے اس کفر پر تم سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی ، یا ایمان لانے پر کوئی جزا نہیں ملے گی ، بلکہ تم جو کچھ کر رہے ہو ، اللہ تعالیٰ اسے پوری طرح دیکھنے والا ہے ، وہ ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق سزا یا جزا دے گا ۔ یہاں ” فمنکم کافر “ کا ذکر پہلے اس لیے فرمایا کہ مقصود ناراضی کا اظہار ہے کہ اتنی صفات کے مالک اور اپنے خالق کے ساتھ بھی ختم میں سے کئی کفر کرنے والے ہیں ۔ اس کے علاوہ اس بات کا اظہار بھی ہے کہ کفر کرنے والے زیادہ ہیں۔ ( دیکھئے بنی اسرائیل : ٨٩۔ سبا : ٢٠) اس آیت میں وہی بات بیان ہوئی ہے جو تفصیل کے ساتھ سورة ٔ الدھر کی ان آیات میں ہے ، فرمایا :(اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰـہُ سَمِیْعًام بَصِیْرًا اِنَّا ھَدَیْنٰـہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا اِنَّـآ اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ سَلٰسِلَاْ وَاَغْلٰلاً وَّسَعِیْرًا اِنَّ الْاَبْرَارَ یَشْرَبُوْنَ مِنْ کَاْسٍ کَانَ مِزَاجُھَا کَافُوْرًا ) (الدھر : ٢ تا ٥)” بلاشبہ ہم نے انسان کو ایک ملے جلے قطرے سے پیدا کیا ، ہم اسے آزماتے ہیں ، سو ہم نے اسے خوب سننے والا ، خوب دیکھنے والا بنادیا ۔ بلا شبہ ہم نے اسے راستہ دکھادیا ، خواہ وہ شکر کرنے والا بنے اور خواہ نا شکرا ۔ یقینا ہم نے کافروں کے لیے زنجیریں اور طوق اور بھڑکتی ہوئی آگ تیار کی ہے۔ بلا شبہ نیک لوگ ایسے جام سے پئیں گے جس میں کافور ملا ہوا ہوگا ۔ ٢۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ خلق کے وقت کوئی کافر نہیں ہوتا ، بلکہ پیدا ہوتے وقت ہر انسان فطرت پر ہوتا ہے ، پھر بعد میں کفر اختیار کرتا ہے یا ایمان پر قائم رہتا ہے ۔ تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ روم ( ٣٠ تا ٣٢) کی تفسیر۔ ٣۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ تمام لوگوں کی دو ہی قسمیں ہیں ، یا تو مومن ہیں جو اللہ تعالیٰ پر ، اس کے فرشتوں پر ، اس کی کتابوں پر ، اس کے رسولوں پر ، یوم آخرت پر اور تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں یا پھر کافر ہیں ، تیسری کوئی قسم نہیں جو نہ مومن ہوں نہ کافر ۔ مومن گناہ کرے تو اس کی وجہ سے اسے ایمان سے خارج یا کافر قرار نہیں دیا جائے گا اور نہ ہی یہ کہا جائے گا کہ یہ نہ مومن ہے نہ کافر ، بلکہ وہ نا قص ایمان والا مومن ہے اور اسے اس وقت تک مومن ہی کہا جائے گا جب تک وہ ان چیزوں پر ایمان رکھتا ہے جن کا دین ہونا سب کو معلوم ہے۔ اگر وہ ان میں سے کسی چیز کا انکار کرے یا ایسا کام کرے جو مرتد ہونے کی علامت ہے تو پھر وہ مومن نہیں بلکہ کافر ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ فَمِنكُمْ كَافِرٌ‌ وَمِنكُم مُّؤْمِنٌ (He is the One who created you, then some of you are disbelievers, and some of you are believers…64:2). In the phrase fa-minkum, the particle ‘fa’ [ translated here as ‘then’] denotes ‘one thing happening after another’. In this instance, the phrase ‘khalaqakum’ [ created you ] indicates that at the inception of creation there were no unbelievers [ kafis ]. Human beings were, subsequently, divided into believers and non-believers by their own free will and choice with which Allah has invested them. They are rewarded or punished on account of exercising the free will and choice. A Prophetic Tradition states: کُلُّ مَولُودٍ یُّولَدُ علَی الفِطرَۃِ فَاَبَوَاہُ یُھِّدَانِہٖ وَ یُنَصِّرَانِہٖ (Everyone is born a Muslim, but his parents make him a Jew, a Christian…) [ Qurtubi ]. Two Nations Theory The Holy Qura’ n has divided mankind here into two groups: a believing group and a non-believing one. This indicates that the children of ‘Adam (علیہ السلام) is one single brotherhood, and all human beings are members of this brotherhood. Kufr [ unbelief ] is the only dividing line that severs relationship with this brotherhood and creates another group. He who becomes a Kafir has severed the relationship of human brotherhood. Thus group-formation can only take place on the basis of ‘Iman and Kufr. Neither colour nor language, neither lineage nor family, neither land, territory or geographical region can divide human brotherhood into rival groups. The offspring of one father may live in different cities, or use different languages, or have different colours, but it does not divide them into different groups. Despite differences of colour, language, country or territory, they are members of the same brotherhood. No sane person will ever regard them as different groups. In the Days of Ignorance, ethnicity and tribal divisions had become the basis of factionalism but the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) broke down these idols, which they pursued. By the express text of the Holy Qur’ an اِنَّمَا المُؤمِنُونَ اِخوَۃٌ ‘All believers are but brothers’ irrespective of their country or territory, their colour or family, or their language. They all belong to one brotherhood. So likewise, the non-believers, in the sight of Islam, belong to a single community. The above verse also bears evidence to the fact that Allah has divided all mankind into two groups – the believers and the non-believers. The variety of the perfect power of Allah, and having many socio-economic benefits, it is a great blessing, but it is not permitted to use it as the basis of factionalism or group-foration among mankind. Moreover, the binary division of mankind on the basis of ‘Iman and Kufr is a matter of free will and choice. Both ‘Iman and Kufr may be adopted by one’ s free will. If a person chooses out of his own free will to abandon his group and join another, he can do it very easily: He may give up his articles of faith, choose another faith and thus join the other group. On the other hand, the affiliations of race, lineage, colour, language or territory are not within the power or control of anyone. No one can change his affiliation with his race, colour or language. It is this Islamic brotherhood that, in a short span of time, from east to west, north to south, white and black, and Arabs and non-Arabs, whose might and power could not be resisted by the nations of the world, and therefore they revived once again the idols that were shattered by the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and Islam. They partitioned the one mighty ummah and Muslims in to small bits and pieces of nations based on territory, homeland, language and colour, race and lineage, and caused them to collide with one another. This cleared the way for the enemies of Islam to attack, the consequences of which are visible to every eye today. The Muslims of east and west were one nation and one heart, but are now divided into small groups fighting one another. As against this, the Shaitanic forces of Kufr, despite mutual disagreements, look like a united force against the Muslims.

معاوف و مسائل (آیت) خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّمِنْكُمْ مُّؤْمِنٌ، یعنی اللہ تعالیٰ نے تم کو پیدا کیا پھر تم میں بعض کافر ہوگئے بعض مومن رہے، اس میں لفظ فمنکم کا حرف فا جو تعقیب (یعنی ایک چیز کا دوسرے کے بعد ہونے) پر دلالت کرتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اول تخلیق و آفرینش میں کوئی کافر نہیں تھا، یہ کافر مومن کی تقسیم بعد میں اس کسب و اختیار کے تابع ہوئی جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو بخشا ہے اور اسی کسب و اختیار کی وجہ سے اس پر گناہ وثواب عائد ہوتا ہے، ایک حدیث سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (کل مولود یولد علی الفطرة فابو اہ یھودانہ وینصرانہ الحدیث) ” یعنی ہر پیدا ہونے والا انسان فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے (جس کا تقاضا مومن ہونا ہے) مگر پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی وغیرہ بنا دیتے ہیں (قرطبی) دو قومی نظریئے : قرآن حکیم نے اس جگہ انسان کو دو گروہوں میں تقسیم کیا ہے، کافر، مومن جس سے معلوم ہوا کہ اولاد آدم (علیہ السلام) سب ایک برادری ہے اور دنیا کے پورے انسان اس برادری کے ارفاد ہیں، اس برادری کو قطع کرنے اور ایک الگ گروہ بنانے والی چیز صرف کفر ہے جو شخص کافر ہوگیا، اس نے انسانی برادری کا رشتہ توڑ دیا، اس طرح پوری دنیا میں انسانوں میں تحزب اور گروہ بندی صرف ایمان و کفر کی بنا پر ہو سکتی ہے، رنگ اور زبان، نسب و خاندان، وطن اور ملک میں سے کوئی چیز ایسی نہیں جو انسانی برادری کو مختلف گروہوں میں بانٹ دے، ایک باپ کی اولاد اگر مختلف شہروں میں بسنے لگے یا مختلف زبانیں بولنے لگے یا ان کے رنگ میں تفاوت ہو تو وہ الگ الگ گروہ نہیں ہوجاتے، اختلاف رنگ و زبان اور وطن و ملک کے باوجود یہ سب آپس میں بھائی ہی ہوتے ہیں، کوئی سمجھدار انسان ان کو مختلف گروہ نہیں قرار دے سکتا۔ زمانہ جاہلیت میں نسب اور قبائل کی تفریق کو قومیت اور گروہ بندی کی بنیاد بنادیا گیا، اسی طرح ملک و وطن کی بنیاد پر کچھ گروہ بندی ہونے لگی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سب بتوں کو توڑا اور مسلمان خواہ کسی ملک اور کسی خطہ کا ہو کسی رنگ اور خاندان کا ہو، کوئی زبان بولتا ہو، ان سب کو ایک برادری قرار دیا بنص قرآن (آیت) انما المؤ منون اخوة (مومنین سب کے سب آپس میں بھائی بھائی ہیں) اسی طرح کفار کسی ملک و قوم کے ہوں وہ اسلام کی نظر میں ملت واحدہ ہیں یعنی ایک قوم ہیں۔ قرآن کریم کی مذکورة الصدر آیت بھی اس پر شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کل بنی آدم کو صرف کافر مومن دو گروہوں میں تقسیم فرمایا، اختلاف رنگ و زبان کو قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ملہ کی نشانی اور انسانی کے لئے بہت سے معاشی فوائد پر مشتمل ہونے کی بنا پر ایک عظیم نعمت تو قرار دیا ہے مگر اس کو بنی آدمی میں گروہ بندی کا ذریعہ بنانے کی اجازت نہیں دی۔ اور ایمان و کفر کی بنا پر دو قوموں کی تقسیم یہ ایک امر اختیاری پر مبنی ہے، کیونکہ ایمان بھی اختیاری امر ہے اور کفر بھی، اگر کوئی شخص ایک قومیت چھوڑ کر دوسری میں شامل ہونا چاہئے تو بڑی آسانی سے اپنے عقائد بدل کر دوسرے میں شامل ہوسکتا ہے، بخلاف نسب و خاندان، رنگ اور زبان اور ملک و وطن کے کہ کسی انسان کے اختیار میں نہیں کہ اپنا نسب بدل دے یا رنگ بدل دے، زبان اور وطن اگرچہ بدلے جاسکتے ہیں مگر زبان و وطن کی بنیاد پر بننے والی قومیں دوسروں کو عادةً اپنے اندر جذب کرنے پر کبھی آمادہ نہیں ہوتیں خواہ ان کی ہی زبان بولنے لگے اور ان کے وطن میں اباد ہوجائے۔ یہی وہ اسلامی برادری اور ایمانی اخوت تھی جس نے تھوڑے ہی عرصہ میں مشرق و مغرب، جنوب و شمال، کالے گورے، عرب عجم کے بیشمار افراد کو ایک لڑی میں پرو دیا تھا جس کی قوت و طاقت کا مقابلہ دنیا کی قومیں نہ کرسکیں تو انہوں نے پھر ان بتوں کو زندہ کیا جن کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اسلام نے پاش پاش کردیا تھا، مسلمانوں کی عظیم ترین ملت واحدہ کو ملک و وطن اور زبان اور رنگ اور نسب اور خاندان کے مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کر کے ان کو باہم ٹکرا دیا، اس طرح دشمنان اسلام کی یلغار کے لئے میدان صاف ہوگیا جس کا نتیجہ آنکھیں آج دیکھ رہی ہیں کہ مشرق و مغرب کے مسلمان جو ایک قوم، ایک دل تھے اب چھوٹے چھوٹے گروہوں میں منحصر ہو کر ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں اور ان کے مقابلہ پر کفر کی طاغوتی قوتیں باہمی اختلاف رکھنے کے باوجود مسلمانوں کے مقابلہ میں ملت واحدہ ہی معلوم ہوتی ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ہُوَالَّذِيْ خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّمِنْكُمْ مُّؤْمِنٌ۝ ٠ ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ۝ ٢ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے بصیر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة : بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به «2» ، وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم/ 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف/ 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة/ 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم/ 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔ اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف/ 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة/ 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢ { ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ فَمِنْکُمْ کَافِرٌ وَّمِنْکُمْ مُّؤْمِنٌ} ” وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے ‘ پھر تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مومن۔ “ ظاہر ہے تمام انسانوں کا خالق اللہ ہے۔ اس لحاظ سے ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے خالق کا شکر گزار بن کر رہے ‘ اسی کو اپنا معبود جانے اور اسی کے آگے جھکے ۔ لیکن بہت سے انسان اللہ تعالیٰ کے منکر اور نافرمان ہیں۔ بظاہر تو یہ بہت عجیب بات ہے کہ مخلوق کا کوئی فرد اپنے خالق کا منکر یا نافرمان ہو لیکن واقعہ بہرحال یہی ہے۔ { وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ۔ } ” اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔ “ آیت کے مضمون کے اعتبار سے اس جملے میں بہت بڑی وعید بھی پنہاں ہے اور ایک بشارت بھی مضمر ہے۔ یعنی اللہ ایک ایک انسان کے اعتقاد و نظریہ سے باخبر ہے۔ وہ ایک ایک انسان کی ایک ایک حرکت کو بھی دیکھ رہا ہے۔ وقت آنے پر وہ اپنے سب نافرمانوں سے نپٹ لے گا۔ ان الفاظ کا بشارت والا پہلو یہ ہے کہ جو اس کے شکر گزار اور مطیع فرمان ہوں گے ان کو وہ انعام و اکرام سے نوازے گا۔ اس لیے کہ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور سب کی روش سے آگاہ ہے !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5 It has four meanings and aII arc correct in their respective places: First, that "He alone is your Creator, yet some of you deny His being the Creator and others acknowledge this tnrth. " This meaning becomes obvious when the first and the second sentences arc read together. Second. that "He Himself has created you with the nature that if you choose to adopt unbelief, you may do so, and if you choose to affirm belief, you may do so. He has not compelled you to either accept or reject the Faith therefore, you yourselves arc responsible for your adopting belief or unbelief." This meaning is confirmed by the following sentence: "AIlah sees whatever you do." That is, By giving you this choice He has put you to the test, and He is watching how you exercise this choice." The third meaning is. "He had created you with a sound, wholesome nature, which demanded that you should all adopt the way of the Faith, yet some of you adopted unbelief, which was opposed to the nature and purpose of their creation, and some of you adopted the way of the Faith, which was in conformity with their nature This theme becomes obvious when this verse is read along with verse 30 of Surah Ar-Rum which says: "Set your face sincerely and truly towards Faith, and be steadfast on the Nature whereupon AIIah has created mankind. There can be no alteration in the Nature made by AIIah. This is the right and true Faith.' And this very theme is explained by several Ahadith in which the Holy Prophet (upon whom be Allah's peace) has repeatedly stated that every man has been created on true human nature; then polytheism and deviation befall him from outside (For futher explanation, see E.N.'s 42 to 47 of the commentary of Surah Ar-Rum) Here, it may he pointed out that no Divine Book has ever presented the concept o£ man's being a sinner by birth, which Christianity has embraced as its fundamental doctrine for 1,500 years. Recently even Catholic scholars themselves have started expressing the view that there is no basis for this doctrine in the Bible. The famous German biblical scholar Rev. Herbert Haag, writes in his book, Is Original Sin in Scripture "Among the earliest Christians, at least till the 3rd century A.D., there existed no such creed that man was a sinner by birth, and when this idea started spreading among the people, the Christian scholars continued to contradict it for two centuries. At last in the 5th century A.D. St Augustine by the power of his logic made this idea a part of the fundamental beliefs of Christianity: 'Mankind is heir to the original sin committed by Adam, and there is no way to salvation for man except through the Atonement made by Christ." The fourth meaning is: "Only AIlah brought you into existence from nonexistence: you were not, then you became. This was such a simple thing that if you had thought over it seriously and seen that life is the actual blessing through which you are benefiting by the other blessings in the world, none of you would have adopted the attitude of disbelief and rebellion against your Creator. But some of you did not give it due thought, or thought wrongly, and adopted the way of disbelief, and some others adopted the same way of belief and faith which was the very demand of correct thinking. 6 In this sentence "seeing" does not merely mean to see, but it automatically gives the meaning that man will be rewarded or punished according to his actions and deeds. It is just like a master's taking a person into service and then telling him: "I shall sec how you perform your duties," which implies: "If you perform your duties well, 1 shall reward you fully; otherwise I shall call you to account for your negligence."

سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :5 اس کے چار مفہوم ہیں اور چاروں اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں : ایک یہ کہ وہی تمہارا خالق ہے ، پھر تم میں سے کوئی اس کے خالق ہونے کا انکار کرتا ہے اور کوئی اس حقیقت کو مانتا ہے ۔ یہ مفہوم پہلے اور دوسرے فقرے کو ملا کر پڑھنے سے متبادر ہوتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ اسی نے تم کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ تم کفر اختیار کرنا چاہو تو کر سکتے ہو ، اور ایمان لانا چاہو تو لا سکتے ہو ۔ ایمان و کفر میں سے کسی کے اختیار کرنے پر بھی اس نے تمہیں مجبور نہیں کیا ہے ۔ اس لیے اپنے ایمان و کفر ، دونوں کے تم خود ذمہ دار ہو ۔ اس مفہوم کی تائید بعد کا یہ فقرہ کرتا ہے کہ اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے جو تم کرتے ہو ۔ یعنی اس نے یہ اختیار دے کر تمہیں امتحان میں ڈالا ہے اور وہ دیکھ رہا ہے کہ تم اپنے اس اختیار کو کس طرح استعمال کرتے ہو ۔ تیسرا مفہوم یہ ہے کہ اس نے تو تم کو فطرت سلیمہ پر پیدا کیا تھا جس کا تقاضا یہ تھا کہ تم سب ایمان کی راہ اختیار کرتے ، مگر اس صحیح فطرت پر پیدا ہونے کے بعد تم میں سے بعض لوگوں نے کفر اختیار کیا جو ان کی خلقت و آفرینش کے خلاف تھا ، اور بعض نے ایمان کی راہ اختیار کی جو ان کی فطرت کے مطابق تھی ۔ یہ مضمون اس آیت کو سورہ روم کی آیت 30 کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے سمجھ میں آتا ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ یک سُو ہو کر اپنا رخ اس دین پر جمادو ، قائم ہو جاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے ، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت نہ بدلی جائے ، یہی بالکل راست اور درست دین ہے ۔ اور اسی مضمون پر وہ متعدد احادیث روشنی ڈالتی ہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بار بار یہ فرمایا ہے کہ ہر انسان صحیح فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور بعد میں خارج سے کفر و شرک اور گمراہی اس پر عارض ہوتی ہے ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، تفسیر سورہ روم ، حواشی 42 تا 47 ) ۔ اس مقام پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ کتب آسمانی نے بھی انسان کے پیدائشی گناہگار ہونے کا وہ تصور پیش نہیں کیا ہے جسے ڈیڑھ ہزار سال سے عیسائیت نے اپنا بنیادی عقیدہ بنا رکھا ہے ۔ آج خود کیتھولک علماء یہ کہنے لگے ہیں کہ بائیبل میں اس عقیدے کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے ۔ چنانچہ بائیبل کا ایک مشہور جرمن عالم ریورینڈ ہر برٹ ہاگ ( Haag ) اپنی تازہ کتاب Is Original Sin In Scripture میں لکھتا ہے کہ ابتدائی دور کے عیسائیوں میں کم از کم تیسری صدی تک یہ عقیدہ سرے سے موجود ہی نہ تھا کہ انسان پیدائشی گنہگار ہے ، اور جب یہ خیال لوگوں میں پھیلنے لگا تو دو صدیوں تک عیسائی اہل علم اس کی تردید کرتے رہے ۔ مگر آخر کار پانچویں صدی میں سینٹ آگسٹائن نے اپنی منطق کے زور سے اس بات کو مسیحیت کے بنیادی عقائد میں شامل کر دیا کہ نوع انسانی نے آدم کے گناہ کا وبال وراثت میں پایا ہے اور مسیح کے کفارے کی بدولت نجات پانے کے سوا انسان کے لیے کوئی راہ نجات نہیں ہے ۔ چوتھا مفہوم یہ ہے کہ اللہ ہی تم کو عدم سے وجود میں لایا ۔ تم نہ تھے اور پھر ہو گئے ۔ یہ ایک ایسا معاملہ تھا کہ اگر تم اس پر سیدھے اور صاف طریقے سے غور و فکر کرتے اور یہ دیکھتے کہ وجود ہی وہ اصل نعمت ہے جس کی بدولت تم دنیا کی باقی دوسری نعمتوں سے متمتع ہو رہے ہو ، تو تم میں سے کوئی شخص بھی اپنے خالق کے مقابلہ میں کفر و بغاوت کا رویہ اختیار نہ کرتا ۔ لیکن تم میں سے بعض نے سوچاہی نہیں ، یا غلط طریقے سے سوچا اور کفر کی راہ اختیار کرلی اور بعض نے ایمان کا وہی راستہ اختیار کیا جو فکر صحیح کا تقاضہ تھا ۔ سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :6 اس فقرے میں دیکھنے کا مطلب محض دیکھنا ہی نہیں ہے ، بلکہ اس سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جیسے تمہارے اعمال ہیں ان کے مطابق تم کو جزا یا سزا دی جائے گی ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی حاکم اگر کسی شخص کو اپنی ملازمت میں لے کر یہ کہے کہ میں دیکھتا ہوں تم کس طرح کام کرتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ٹھیک طرح کام کرو گے تو تمہیں انعام اور ترقی سے نوازوں گا ، ورنہ تم سے سخت مواخذہ کروں گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(64:2) ھوالذی خلقکم : جملہ مستانفہ ہے۔ وہی تو ہے جس نے تمہیں پیدا کیا۔ فمنکم کافر : ف تعقیب کا ہے۔ یعنی پیدائش کے بعد کچھ لوگوں نے کفر اختیار کیا۔ ومنکم مؤمن : خلق کی تشریح اور تفصیل ہے۔ کافر مبتداء منکم من تبعیضیہ ہے کم ضمیر ضمر مذکر حاضر۔ خبر۔ اسی طرح ومنکم مومن اس جملہ کا عطف جملہ ماقبل پر ہے۔ مومن مبتداء منکم خبر۔ خدا نے تم کو سب صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا پھر ان صلاحیتوں کو غلط یا صحیح انداز سے استعمال کرکے تم میں سے کئی کافر ہوگئے اور کئی مومن بن گئے۔ واللہ بما تعملون بصیر : اللہ مبتداء بصیر خبر، بما تعلمون متعلق خبر، اور اللہ تعالیٰ (خوب دیکھ رہا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 اللہ تعالیٰکا علم اور چیز اور ہے اور اس کی مرضی اور چیز کسی شخص کے متعلق اگر اس نے تقدیر میں یہ لکھا کہ وہ کافر ہوگا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کی مرضی بھی یہ تھی کہ وہ کافر ہو۔ مرضی تو اس کی یہ تھی کہ تمام لوگ ایمان کا راستہ اتخیار کریں اور اسی لئے اس نے رسول بھیجے اور کتابیں نازل کیں لیکن اس کے ساتھ وہ چونکہ جبر کرنا نہیں چاہتا تھا اس لئے اس نے لوگوں کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی کہ چاہے ایمان کا راستہ اختیار کریں اور چاہے کفر کا۔ اس آزادی سے غلط فائدہ اٹھا کر بعض لوگوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا۔ وہ اپنی مخلوق کے حال و مستقبل سے پوری طرح باخبر ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ھوالذی .................... مومن (٤٦ : ٢) ” وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا ، پھر تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مومن “۔ یہ انسان اللہ کی قدرت اور اللہ کے ارادے سے وجود میں آیا ہے۔ اور یہ اللہ ہی ہے جس نے انسان کے اندر کفر کے رجحان کے امکانیات اور ایمان کے رجحان کے امکانیات رکھے۔ اس حضرت انسان کے اندر مختلف الجہات استعدادیں بیک وقت ودیعت کردیں اور پھر اللہ نے اسے نیک وبد کی تمیز بھی عطا کی۔ اور اسی استعداد کے مطابق اس انسان کے اندر ایمان پیدا ہوا۔ ایمان اللہ کی طرف سے ایک بڑی امانت ہے اور اس کی بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ اس کے بعد اللہ نے اسے دین و شریعت بھی عطا کی جس کے مطابق وہ اپنے ایمان اور عمل کو وزن کرتا ہے۔ یہ دین اس نے رسولوں پر نازل فرمایا اور یوں اللہ تعالیٰ نے انسان کی معاونت کی کہ وہ اس امانت کو اٹھائے اور دوسرے انسانوں کی اس میں داخل ہونے کے لئے مدد دے۔ واللہ ................ بصیر (٤٦ : ٢) ” اور اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے جو تم کرتے ہو “۔ وہ دیکھ رہا ہے کہ انسان کر کیا رہا ہے ؟ وہ انسانوں کی نیت اور رجحان سے واقف ہے لہٰذا انسان کو عمل بھی کرنا چاہئے اور ڈرنا بھی چاہئے کیونکہ نگران علیم وبصیر ہے ، کہیں سویا ہوا نہیں ہے۔ انسان کی حقیقت اور اس جہاں میں اس کے مقام وموقف کے بارے میں یہ تصور ، اس کائنات کے بارے میں اسلام کے واضح سیدھے تصور کا ایک حصہ ہے کہ انسان کو یہاں استعداد واختیار دیا گیا ہے اور وہ اپنے خالق کے سامنے اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے اور خالق علیم وبصیر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3:۔ ” ھو الذی خلقکم “ توحید پر عقلی دلیل ہے۔ پہلے بیان سے معلوم ہوگیا کہ ساری کائنات میں متصرف و کارساز اور قادر علی الاطلاق اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ یہاں بیان وہ گا کہ ساری کائنات کا پیدا کرنے والا اور زمین و آسمان کی ہر ہر چیز کو جاننے والا بھی وہی ہے۔ اسی لیے وہی سب کا کارساز ہے۔ ” فمنکم کافر ومنکم مومن “ یہ درمیان میں ضمنًا شکوی ہے۔ تم سب کو اللہ نے پیدا فرمایا، اس لیے چاہئے تو یہ تھا کہ تم سب اس کے فرمانبردار اور شکرگذار بندے بن جاتے مگر تم میں سے کچھ لوگ کافر بھی نکلے کہ اللہ کی توحید اور اس کے رسولوں کا انکار کیا اور اس کے احکام سے بغاوت کی لیکن وہ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے اس لیے تمہیں ان عملوں کی پوری پوری سزا ملے گی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(2) وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا پھر تم میں سے کوئی کافر ہے اور بعض تم میں سے مومن ہیں اور جو کچھ تم کررہے ہو وہ سب اللہ تعالیٰ کے پیش نظر ہے۔ یعنی اسی نے تم سب کو پیدا کیا ہے۔ اس احسان کا تقاضا یہ تھا کہ تم سب اہل ایمان اور مومن ہوتے لیکن ہوا یہ کہ تم میں سے بعض کافر ہیں اور بعض مومن ہیں یعنی اس نے تو سب کو صحیح فطرت پر پیدا کیا تھا لکین کوئی اس فطرت صحیحہ پر قائم رہا اور بعض نے دوسری راہ اختیار کرلی بہرحال اللہ تعالیٰ ہر شخص کے اعمال کو دیککھ رہا ہے جو ایمان کے ساتھ اعمال پر قائم رہے گا اس کو اس کا صلہ عطا فرمائے گا اور جو کفر کی راہ پر چلے گا ان کو ان کے اعمال کی سزادے گا۔