Surat ut Taghabunn

Surah: 64

Verse: 4

سورة التغابن

یَعۡلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ یَعۡلَمُ مَا تُسِرُّوۡنَ وَ مَا تُعۡلِنُوۡنَ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ﴿۴﴾

He knows what is within the heavens and earth and knows what you conceal and what you declare. And Allah is Knowing of that within the breasts.

وہ آسمان و زمین کی ہر ہرچیز کا علم رکھتا ہے اور جو کچھ تم چھپاؤ اورجو ظاہر کرو وہ ( سب کو ) جانتا ہے اللہ تو سینوں کی باتوں تک کو جاننے والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

He knows what is in the heavens and on earth, and He knows what you conceal and what you reveal. And Allah is the All-Knower of what is in the breasts.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 یعنی اس کا علم کائنات ارضی و سماوی سب پر محیط ہے بلکہ تمہارے سینوں کے رازوں تک سے واقف ہے، اس سے قبل جو وعدے اور وعیدین بیان ہوئی ہیں، یہ ان کی تاکید ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩] یعنی جو باتیں تم دل میں چھپاتے یا چھپائے رکھتے ہو انہیں بھی جانتا ہے اور جو کچھ زبان سے کہہ دیتے ہو اسے بھی۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جو اعمال تم لوگوں سے چھپ چھپا کر کرتے ہو۔ اللہ انہیں جانتا ہے اور جو لوگوں کے سامنے کرتے ہو انہیں بھی۔ اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ جو کام تم نے کیا ہے وہ کس نیت اور کس ارادہ سے کیا ہے پھر اسی کے مطابق تمہیں بدلہ دیا جائے گا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی عدل صرف اللہ تعالیٰ ہی کرسکتا ہے۔ کیونکہ اس دنیا میں صرف ظاہری اعمال اور ان کی ظاہری صورت پر ہی انحصار کیا جاسکتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَیَعْلَمُ ۔۔۔۔: یہ اس سوال کا جواب ہے کہ جب انسان کے جسم کا ہر ذرہ منتشر ہوجائے گا اور اس نے جو کچھ کیا وہ معدوم ہوچکا ہوگا تو اسے دوبارہ کیسے زندہ کیا جائے گا اور اسکے اعمال کی کسی کو کیا خبرہو گی کہ ان کے مطابق اسے جزا یا سزا دی جائے ۔ فرمایا وہ ہر اس چیز کو جانتا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے (اور وہ ہر جاندار کے زندگی میں ٹھکانے کو جانتا ہے اور اس بات کو بھی مرنے کے بعد وہ کہاں ہے۔ دیکھئے ہود : ٦) اس لیے اسے کچھ مشکل نہیں کہ جو جہاں بھی ہے اسے دوبارہ زندہ کر دے اور وہ تمہارے اعمال سے واقف ہے خواہ تم انہیں چھپاتے ہو یا ظاہر کرتے ہو۔ ( دیکھئے رعد : ٩، ١٠) بلکہ وہ سینوں کی بات اور نیتوں کو بھی خوب جاننے والا ہے ، سو اسکے لیے تمہارے اعمال کا محاسبہ کچھ مشکل نہیں ۔ پچھلی آیات میں مذکور صفات خصوصاً خلق میں اس کی کامل قدرت کا بیان تھا ، اس آیت میں اس کے کامل عمل کا بیان ہے ، پھر جو علیم بھی ہے اور قدیر بھی اور جس نے پہلے ہر چیز کو پیدا کیا اور ہر چیز کا پورا علم رکھتا ہے ، وہ تمہیں دوبارہ پیدا کیوں نہیں کرسکتا اور محاسبہ کیوں نہیں کرسکتا ؟۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ۝ ٠ ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝ ٤ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا سرر (كتم) والسِّرُّ هو الحدیث المکتم في النّفس . قال تعالی: يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] ، وقال تعالی: أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْواهُمْ [ التوبة/ 78] ( س ر ر ) الاسرار السر ۔ اس بات کو کہتے ہیں جو دل میں پوشیدہ ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] وہ چھپے بھید اور نہایت پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ علن العَلَانِيَةُ : ضدّ السّرّ ، وأكثر ما يقال ذلک في المعاني دون الأعيان، يقال : عَلَنَ كذا، وأَعْلَنْتُهُ أنا . قال تعالی: أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْراراً [ نوح/ 9] ، أي : سرّا وعلانية . وقال : ما تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَما يُعْلِنُونَ [ القصص/ 69] . وعِلْوَانُ الکتابِ يصحّ أن يكون من : عَلَنَ اعتبارا بظهور المعنی الذي فيه لا بظهور ذاته . ( ع ل ن ) العلانیہ ظاہر اور آشکار ایہ سر کی ضد ہے اور عام طور پر اس کا استعمال معانی یعنی کیس بات ظاہر ہونے پر ہوتا ہے اور اجسام کے متعلق بہت کم آتا ہے علن کذا کے معنی میں فلاں بات ظاہر اور آشکار ہوگئی اور اعلنتہ انا میں نے اسے آشکار کردیا قرآن میں ہے : ۔ أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْراراً [ نوح/ 9] میں انہیں بر ملا اور پوشیدہ ہر طرح سمجھا تا رہا ۔ ما تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَما يُعْلِنُونَ [ القصص/ 69] جو کچھ ان کے سینوں میں مخفی ہے اور جو یہ ظاہر کرتے ہیں علوان الکتاب جس کے معنی کتاب کے عنوان اور سر نامہ کے ہیں ہوسکتا ہے کہ یہ علن سے مشتق ہو اور عنوان سے چونکہ کتاب کے مشمو لات ظاہر ہوتے ہیں اس لئے اسے علوان کہہ دیا گیا ہو ۔ ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم/ 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة/ 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود/ 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة/ 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال/ 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف/ 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال/ 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن/ 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔ صدر الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج/ 46] ، ثم استعیر لمقدّم الشیء كَصَدْرِ القناة، وصَدْرِ المجلس، والکتاب، والکلام، وصَدَرَهُ أَصَابَ صَدْرَهُ ، أو قَصَدَ قَصْدَهُ نحو : ظَهَرَهُ ، وكَتَفَهُ ، ومنه قيل : رجل مَصْدُورٌ: يشكو صَدْرَهُ ، وإذا عدّي صَدَرَ ب ( عن) اقتضی الانصراف، تقول : صَدَرَتِ الإبل عن الماء صَدَراً ، وقیل : الصَّدْرُ ، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] ، والْمَصْدَرُ في الحقیقة : صَدَرٌ عن الماء، ولموضع المصدر، ولزمانه، وقد يقال في تعارف النّحويّين للّفظ الذي روعي فيه صدور الفعل الماضي والمستقبل عنه . ( ص در ) الصدر سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه/ 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات/ 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے ۔ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج/ 46] بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ ہر چیز کے اعلیٰ ( اگلے ) حصہ کو صدر کہنے لگے ہیں جیسے صدرالقناۃ ( نیزے کا بھالا ) صدر المجلس ( رئیس مجلس ) صدر الکتاب اور صدرالکلام وغیرہ صدرہ کے معنی کسی کے سینہ پر مارنے یا اس کا قصد کرنے کے ہیں جیسا کہ ظھرہ وکتفہ کے معنی کسی کی پیٹھ یا کندھے پر مارنا کے آتے ہیں ۔ اور اسی سے رجل مصدور کا محاورہ ہے ۔ یعنی وہ شخص جو سینہ کی بیماری میں مبتلا ہو پھر جب صدر کا لفظ عن کے ذریعہ متعدی ہو تو معنی انصرف کو متضمن ہوتا ہے جیسے صدرن الابل عن الماء صدرا وصدرا اونٹ پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹ آئے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة/ 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے ۔ اور مصدر کے اصل معنی پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹنا کے ہیں ۔ یہ ظرف مکان اور زمان کے لئے بھی آتا ہے اور علمائے نحو کی اصطلاح میں مصدر اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے فعل ماضی اور مستقبل کا اشتقاق فرض کیا گیا ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور مخلوقات میں سے جو بھی چیزیں آسمانوں اور زمین میں ہیں وہ سب کو جانتا ہے اور تمہارے سب ان کاموں کو جو کہ تم خفیہ کرتے ہو اور جو کہ تم علانیہ کرتے ہو جانتا ہے اور وہ دلوں میں جو نیکی و برائی ہے اس سے بھی واقف ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤ { یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ } ” وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے “ اب دوسری جہت ملاحظہ کیجیے : { وَیَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ } ” اور وہ جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو۔ “ اور تیسری جہت کیا ہے ؟ { وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ۔ } ” اور اللہ اس سے بھی باخبر ہے جو تمہارے سینوں کے اندر ہے۔ “ اس آیت کے الفاظ اور مفہوم کے حوالے سے میں بہت عرصہ متردّد رہا کہ بظاہر تو یہاں الفاظ کی تکرار نظر آتی ہے کہ جو کچھ ہم چھپاتے ہیں وہی تو ہمارے سینوں میں ہوتا ہے ‘ لیکن تکرارِ محض چونکہ کلام کا عیب سمجھا جاتا ہے اس لیے مجھے یقین تھا کہ آیت کے تیسرے حصے میں ضرور کوئی نئی بات بتائی گئی ہے۔ پھر یکایک میرا ذہن اس طرف منتقل ہوگیا کہ مَا تُسِرُّوْنَ کے لفظ میں ہمارے ان خیالات و تصورات کا ذکر ہے جنہیں ہم ارادی طور پر چھپاتے ہیں ‘ جبکہ ” سینوں کے رازوں “ سے ہماری سوچوں کے وہ طوفان مراد ہیں جو ہمارے تحت الشعور (subconscious mind) میں اٹھتے رہتے ہیں اور جن سے اکثر و بیشتر ہم خود بھی بیخبر ہوتے ہیں ‘ بلکہ بسا اوقات ان خیالات کے بارے میں ہم دھوکہ بھی کھا جاتے ہیں۔ چناچہ آیت کے اس حصے کا مفہوم یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ تو تمہارے تحت الشعور کی تہوں میں اٹھنے والے ان خیالات کو بھی جانتا ہے جنہیں تم خود بھی نہیں جانتے ‘ کیونکہ وہ تو تمہارے جینز (genes) سے بھی واقف ہے : { ہُوَ اَعْلَمُ بِکُمْ اِذْ اَنْشَاَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاِذْ اَنْتُمْ اَجِنَّــۃٌ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّہٰتِکُمْج } (النجم : ٣٢) ” وہ تمہیں خوب جانتا ہے اس وقت سے جب اس نے تمہیں زمین سے اٹھایا تھا اور جب تم اپنی مائوں کے پیٹوں میں جنین کی شکل میں تھے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

8 Another translation can be: "Whatever you da secretly and whatever openly." 9 That is, "He is aware not only of those acts of tnan, which come to the notice of the people but He knows also those acts which remain hidden from them. Moreover, He dces not only see the superficial form of the acts, but also knows what intention and purpose underlay each act of man and with what motive and aim he did whatever he did- This is such a truth that if man ponders over it seriously, he can fully well understand that justice can be done only in the Hereafter, and only in God's Court can real justice be possibly done. Man's own intellect itself demands that man must be punished for each of his crimes. But everyone knows that in the world most of the crimes remain hidden. or the culprit escapes punishment because of insufficient evidence, or even if the crime becomes revealed, the culprit is so influential and powerful that he cannot be punished. Then the intellect of man also requires that man should not be punished only because his behaviour resembles a criminal act, but it should be ascertained that he has committed the act intentionally and deliberately and at the time he committed it, he was acting as a responsible agent, his intention in actual fact was to commit the crime, and he knew that what he was doing was a crime. That is why the worldly courts inquire into these things when they decide the cases, and regard such an inquiry as a demand of the rule of justice. Burt is there any means available in the world by which these things may be precisely ascertained beyond every shadow of doubt? Considered from this.viewpoint, this verse also bears a deep logical relevance to Allah Almighty's saying: e has created the earth and the heavens with Truth." The necessary demand of creating them with Truth is that perfect justice should prevail in this universe. Such justice can be established only when every act of a responsible man may not only remain concealed from the eyes of the one administering justice but the intention with which a person performed and act also should not remain hidden from him. And obviously, there cannot be any being, apart from the Creator of the universe, who can administer such justice, Now, if a person denies AIlah and the Hereafter, he in fact, asserts that we humans live in a universe which is devoid of justice, which is rather a place where justice cannot possibly be done. The person whose intellect, mind and conscience feel satisfied at such an assumption would be a shameless creature if be thought he was bing progressive and rationalistic and those people antiquated and retrogressive who accept a highly rational concept about the universe, which the Qur'an presents.

سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :8 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو کچھ تم چھپ کر کرتے ہو اور جو کچھ تم علانیہ کرتے ہو ۔ سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :9 یعنی وہ انسان کے صرف ان اعمال ہی سے واقف نہیں ہے جو لوگوں کے علم میں آ جاتے ہیں بلکہ ان اعمال کو بھی جانتا ہے جو سب سے مخفی رہ جاتے ہیں ۔ مزید براں وہ محض اعمال کی ظاہر شکل ہی کو نہیں دیکھتا بلکہ یہ بھی جانتا ہے کہ انسان کے ہر عمل کے پیچھے کیا ارادہ اور کیا مقصد کار فرما تھا اور جو کچھ اس نے کیا کس نیت سے کیا اور کیا سمجھتے ہوئے کیا ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہر انسان غور کرے تو اسے اندازہ ہو سکتا ہے انصاف صرف آخرت ہی میں ہو سکتا ہے اور صرف خدا ہی کی عدالت میں صحیح انصاف ہونا ممکن ہے ۔ انسان کی عقل خود یہ تقاضا کرتی ہے کہ آدمی کو اس کے ہر جرم کی سزا ملنی چاہیے ، لیکن آخر یہ بات کون نہیں جانتا کہ دنیا میں اکثر و بیشتر جرائم یا تو چھپے رہ جاتے ہیں یا ان کے لیے کافی شہادت بہم نہ پہنچنے کی وجہ سے مجرم چھوٹ جاتا ہے ، یا جرم کھل بھی جاتا ہے تو مجرم اتنا با اثر اور طاقتور ہوتا ہے کہ اسے سزا نہیں دی جا سکتی ۔ پھر انسان کی عقل یہ بھی چاہتی ہے کہ آدمی کو محض اس بنا پر سزا نہیں ملنی چاہیے کہ اس کے فعل کی صورت ایک مجرمانہ فعل کی سی ہے ، بلکہ یہ تحقیق ہونا چاہیے کہ جو فعل اس نے کیا ہے بالارادہ سوچ سمجھ کر کیا ہے ، اس کے ارتکاب کے وقت وہ ایک ذمہ دار عامل کی حیثیت سے کام کر رہا تھا ، اس کی نیت فی الواقع ارتکاب جرم ہی کی تھی ، اور وہ جانتا تھا کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے وہ جرم ہے ۔ اسی لیے دنیا کی عدالتیں مقدمات کا فیصلہ کرنے میں ان امور کی تحقیق کرتی ہیں اور ان کی تحقیق کو اصول انصاف کا تقاضا مانا جاتا ہے ۔ مگر کیا واقعی دنیا میں کوئی ذریعہ ایسا پایا جاتا ہے جس سے ان کی ٹھیک ٹھیک تحقیق ہو سکے جو ہر شبہ سے بالا تر ہو ؟ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ آیت بھی اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے گہرا منطقی ربط رکھتی ہے کہ اس نے زمین اور آسمانوں کو بر حق پیدا کیا ہے ۔ بر حق پیدا کرنے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس کائنات میں صحیح اور کامل عدل ہو ۔ یہ عدل لازماً اسی صورت میں قائم ہو سکتا ہے جبکہ عدل کرنے والے کی نگاہ سے انسان جیسی ذمہ دار مخلوق کا نہ صرف یہ کہ کوئی فعل چھپا نہ رہ جائے بلکہ وہ نیت بھی اس سے مخفی نہ رہے جس کے ساتھ کسی شخص نے کوئی فعل کیا ہو ۔ اور ظاہر ہے کہ خالق کائنات کے سوا کوئی دوسری ہستی ایسی نہیں ہو سکتی جو اس طرح کا عدل کر سکے ۔ اب اگر کوئی شخص اللہ اور آخرت کا انکار کرتا ہے تو وہ گویا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ہم ایک ایسی کائنات میں رہتے ہیں جو فی الحقیقت انصاف سے خالی ہے ، بلکہ جس میں سے انصاف کا کوئی امکان ہی نہیں ہے ۔ اس احمقانہ تخیل پر جس شخص کی عقل اور جس کا قلب و ضمیر مطمئن ہو وہ بڑا ہی بے شرم ہے اگر وہ اپنے آپ کو ترقی پسند یا عقلیت پسند سمجھتا ہو اور ان لوگوں کو تاریک خیال یا رجعت پسند سمجھے جو کائنات کے اس انتہائی معقول ( Rational ) تصور کو قبول کرتے ہیں جسے قرآن پیش کر رہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(64:4) ما تسرون : ما موصولہ۔ تسرون مضارع جمع مذکر حاضر۔ اسرار (افعال) مصدر۔ جو تم پوشیدہ رکھتے ہو، جو تم چھپاتے ہو وما تعلنون۔ اس کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ اور جو تم ظاہر کرتے ہو۔ تعلنون مضارع جمع مذکر حاضر۔ اعلان (افعال) مصدر۔ اعلان کرنا۔ آشکارا کرنا ، ظاہر کرنا۔ واللہ علیہم بذات الصدور : اللہ مبتداء ، باقی جملہ اس کی خبر۔ یہ جملہ معترضہ تذییلی ہے۔ اور اللہ کی صفات جو اوپر مذکور ہوئیں۔ ان کی تائید میں آیا ہے۔ علیہم، علم سے بروزن فعیل مبالغہ کا صیغہ ہے (خوب جاننے والا۔ علماء جمع۔ ب حرف جار ہے۔ ذات الصدور۔ مضاف مضاف الیہ مل کر مجرور۔ متعلق خبر۔ علامہ پانی پتی (رح) رقمطراز ہیں :۔ یعلم ماتسرون : یعنی اللہ تمہارے اسرار اور ان خیالات سے واقف ہے جو تمہارے سینوں کے اندر پوشیدہ ہوتے ہیں۔ جو چیز معلوم ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے خواہ وہ کلی ہو یا جزائی اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے۔ کیونکہ ہر چیز سے اس کی نسبت (یعنی تخلیقی تعلق و نسبت) ایک جیسی ہے۔ قدرت کا علم سے پہلے ذکر اس لئے کیا کہ کائنات اپنے خالق پر براہ راست دلالت کرتی ہے اور کائنات کا استحکام تخلیقی اور ہر حکمت بناوٹ اللہ کے علم کی دلیل ہے۔ علم کا دوبارہ ذکر در حقیقت مکرر و عید ہے ان لوگوں کے لئے جو اللہ کی نافرمانی اور خلاف رضا عمل کرتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 مطلب یہ ہے کہ تمہارا کوئی بڑے سے بڑا اور چھوٹے سے چھوٹا عمل اللہ تعالیٰسے پوشیدہ نہیں ہے کہ اس کی سزا سے بچ سکو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یہ تمام امور مقتضی اس کو ہیں کہ تم تم اس کی اطاعت کیا کرو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یعلم مافی ............................................ الصدور (٤٦ : ٤) ” زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا اسے علم ہے ، جو کچھ تم چھپاتے ہو ، اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو ، سب اس کو معلوم ہے ، اور وہ دلوں کا حال تک جانتا ہے “۔ اس حقیقت کا ایک مومن کے دل میں بیٹھنا ، اسے معرفت رب عطا کرتا ہے۔ اس طرح اپنے رب کی معرفت حاصل ہونے کے بعد اس کے آفاقی اور کائناتی ایمان کا یہ پہلو بہت مضبوط ہوجاتا ہے۔ وہ یہ شعور رکھتا ہے کہ وہ اللہ کی نظروں میں ہے۔ کوئی ایسا راز نہیں ہے جو اس پر مخفی ہو۔ اس کے ضمیر میں کوئی گہری سوچ بھی ایسی نہیں ہے جس سے اللہ باخبر نہ ہو۔ یہ تین آیات ہی انسان کے لئے اس قدر رہنمائی فراہم کردیتی ہیں کہ انسان اپنی حقیقت کو سمجھے ، اس کائنات کو سمجھے اور اس کائنات اور اپنے خالق کی ساتھ اپنا تعلق جوڑے۔ اللہ سے ڈرے۔ ہر حرکت اور ہر رخ میں۔ اب ہم آتے ہیں اس سورت کے دوسرے پیراگراف کی طرف۔ اس میں ان اقوام ماضیہ کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے رسولوں کی تکذیب کی۔ جن کا بڑا اعتراض یہ تھا کہ ایک بشر کو کس طرح رسول بنایا گیا ؟ مشرکین مکہ بھی یہی سوال دہراتے تھے اور اسی وجہ سے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی تعلیمات کی تکذیب کرتے تھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ مافی السموت ومافی الارض اور مافی الصدور کو جانتا ہے : چوتھی آیت میں اللہ تعالیٰ کی صفت علم کو بیان فرمایا، ارشاد فرمایا ﴿ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ﴾ (الآیۃ) (اور وہ ان سب چیزوں کو جانتا ہے جو آسمانوں میں ہیں اور زمین میں ہیں) ۔ ﴿ وَ يَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَ مَا تُعْلِنُوْنَ ﴾ (اور وہ تمہارے سب اقوال اور اعمال کو جانتا ہے جنہیں تم چھپاتے ہو اور جنہیں تم ظاہر کرتے ہو) ﴿ وَ اللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِذَات الصُّدُوْرِ ٠٠٤﴾ (اور وہ سینوں کی باتوں کو جاننے والا ہے) ۔ یعنی اس کا علم اقوال اور افعال تک ہی منحصر نہیں ہے بلکہ اس کے بندے جو کچھ سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں اگرچہ ادنی وسوسہ ہو اسے اس سب کا بھی علم ہے۔ ظاہر ہے ایسی ذات جلیل الصفات پر ایمان لانا اور اس کے احکام پر چلنا لازم ہے اور یہ مراقبہ بھی ضروری ہے کہ ہمارا خالق اور مالک سب کچھ جانتا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ ” یعلم ما فی السماوات “ جس طرح خالق و متصرف اور قادر و مکتار وہی ہے، اسی طرح عالم الغیب بھی وہی ہے لہذا وہی سب کا حاجت روا اور کارساز ہے۔ وہ زمین و آسمان کی ہر چیز تمہارے ظاہری اور باطنی اقوال وافعال اور تمہارے دلوں کی باتیں بھی جانتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(4) وہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کی اور زمین کی ہر ایک چیز کو جانتا ہے اور وہ ان چیزوں کو بھی جانتا ہے جو تم چھپاتے اور پوشیدہ رکھتے ہو اور ان چیزوں کو بھی جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ سینوں کی پوشیدہ باتوں تک کو خوب جاننے والا ہے۔