Surat ut Taghabunn

Surah: 64

Verse: 7

سورة التغابن

زَعَمَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنۡ لَّنۡ یُّبۡعَثُوۡا ؕ قُلۡ بَلٰی وَ رَبِّیۡ لَتُبۡعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلۡتُمۡ ؕ وَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ ﴿۷﴾

Those who disbelieve have claimed that they will never be resurrected. Say, "Yes, by my Lord, you will surely be resurrected; then you will surely be informed of what you did. And that, for Allah , is easy."

ان کافروں نے خیال کیا ہے کہ دوبارہ زندہ نہ کئے جائیں گے آپ کہہ دیجئے کیوں نہیں اللہ کی قسم! تم ضرور دوبارہ اٹھائے جاؤ گے پھر جو تم نے کیا ہےاس کی خبر دیئے جاؤ گے اور اللہ پر یہ بالکل ہی آسان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Life after Death is True Allah says, زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَن لَّن يُبْعَثُوا ... The disbelievers pretend that they will never be resurrected. Allah the Exalted informs about the disbelievers, idolators and the atheists that they claim that they will not be resurrected, ... قُلْ بَلَى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّوُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ... Say: "Yes! By my Lord, you will certainly be resurrected, then you will be informed of what you did..." meaning, `you will be informed of all of your actions, whether major or minor, big or small,' ... وَذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ and that is easy for Allah. `resurrecting and recompensing you is easy for Allah.' This is the third Ayah in which Allah orders His Messenger to swear by His Lord, the Exalted and Most Honored, that Resurrection occurs. The first is in Surah Yunus, وَيَسْتَنْبِيُونَكَ أَحَقٌّ هُوَ قُلْ إِى وَرَبِّى إِنَّهُ لَحَقٌّ وَمَأ أَنتُمْ بِمُعْجِزِينَ And they ask you to inform them: "Is it true" Say: "Yes! By my Lord! It is the very truth! and you can not escape it!" (10:53), The second is in Surah Saba', وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لاَ تَأْتِينَا السَّاعَةُ قُلْ بَلَى وَرَبِّى لَتَأْتِيَنَّكُمْ Those who disbelieve say: "The hour will not come to us." Say: "Yes, by my Lord, it will come to you..." (34:3), and the third is this Ayah, زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَن لَّن يُبْعَثُوا قُلْ بَلَى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّوُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ وَذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ The disbelievers pretend that they will never be resurrected. Say: "Yes! By my Lord, you will certainly be resurrected, then you will be informed of what you did; and that is easy for Allah." Allah the Exalted said,

منکرین قیامت مشرکین و ملحدین اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کفار مشرکین ملحدین کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد نہیں اٹھیں گے ، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم ان سے کہہ دو کہ ہاں اٹھو گے پھر تمہارے تمام چھوٹے بڑے چھپے کھلے اعمال کا اظہار تم پر کیا جائے گا ، سنو تمہارا دوبارہ پیدا کرنا تمہیں بدلے دینا وغیرہ تمام کام اللہ تعالیٰ پر بالکل آسان ہیں ، یہ تیسری آیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قسم کھا کر قیامت کی حقانیت کے بیان کرنے کو فرمایا ہے ، پہلی آیت تو سورہ یونس میں ہے ( ترجمہ ) یعنی یہ لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہ حق ہے؟ تو کہہ میرے رب کی قسم وہ حق ہے اور تم اللہ کو ہرا نہیں سکتے ، دوسری آیت سورہ سبا میں ہے ۔ ( ترجمہ ) کافر کہتے ہیں ہم پر قیامت نہ آئے گی تو کہہ دے کہ ہاں میرے رب کی قسم یقینا اور بالضرور آئے گی ، اور تیسری آیت یہی ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ پر ، رسول اللہ پر ، نور منزل یعنی قرآن کریم پر ایمان لاؤ تمہارا کوئی خفیہ عمل بھی اللہ تعالیٰ پر پوشیدہ نہیں ۔ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تم سب کو جمع کرے گا اور اسی لئے اس کا نام یوم الجمع ہے ، جیسے اور جگہ ہے ( ترجمہ ) یہ لوگوں کے جمع کئے جانے اور ان کے حاضر باش ہونے کا دن ہے اور جگہ ہے ( ترجمہ ) یہ لوگوں کے جمع کئے جانے اور ان کے حاضر باش ہونے کا دن ہے اور جگہ ہے ( ترجمہ ) یعنی قیامت والے دن تمام اولین اور آخرین جمع کئے جائیں کے ، ابن عباس فرماتے ہیں یوم التغابن قیامت کا ایک نام ہے ، اس نام کی وجہ یہ ہے کہ اہل جنت اہل دوزخ کو نقصان میں ڈالیں گے حضرت مجاہد فرماتے ہیں اس سے زیادہ تغابن کیا ہو گا کہ ان کے سامنے انہیں جنت میں اور ان کے سامنے انہیں جہنم میں لے جائیں گے ۔ گویا اسی کی تفسیر اس کے بعد والی آیت میں ہے کہ ایماندار ، نیک اعمال والوں کے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے اور بہتی نہروں والی ہمیشہ رہنے والی جنت میں انہیں داخل کیا جائے گا اور پوری کامیابی کو پہنچ جائے گا اور کفر و تکذیب کرنے والے جہنم کی آگ میں جائیں گے جہاں ہمیشہ جلنے کا عذاب پاتے رہیں گے بھلا اس سے برا ٹھکانا اور کیا ہو سکتا ہے؟

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 یعنی یہ عقیدہ کے قیامت والے دن دوبارہ زندہ نہیں کیے جائیں گے یہ کافروں کا محض گمان ہے جس کی پشت پر دلیل کوئی نہیں۔ زعم کا اطلاق کذب پر بھی ہوتا ہے۔ 7۔ 2 قرآن مجید میں تین مقامات پر اللہ نے اپنے رسول کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنے رب کی قسم کھا کر یہ اعلان کرے کہ اللہ تعالیٰ ضرور دوبارہ زندہ فرمائے گا۔ ان میں سے ایک یہ مقام ہے اس سے قبل ایک مقام سورة یونس، اور دوسرا مقام سورة سبا ہے۔ 7۔ 3 یہ وقوع قیامت کی حکمت ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو کیوں دوبارہ زندہ کرے گا ؟ تاکہ وہاں پر ہر ایک کو اس کے عمل کی پوری جزا دی جائے۔ 7۔ 4 یہ دوبارہ زندگی، انسانوں کو کتنی ہی مشکل نظر آتی ہو، لیکن اللہ کے لئے بالکل آسان ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤] معاد کے انکار پر کوئی دلیل نہیں لائی جاسکتی :۔ حالانکہ ان کے پاس کوئی ایسا ذریعہ علم نہیں ہے۔ جس کی بنیاد پر وہ یقینی طور پر کہہ سکیں کہ دوبارہ زندگی نہیں ہوسکتی۔ انسان کے پاس ایسا ذریعہ علم نہ کبھی آج سے پہلے تھا، نہ آج ہے اور نہ ہی آئندہ کبھی ہوسکے گا۔ پھر اس دعویٰ کو اس زور شور سے پیش کرنا کیا معنی رکھتا ہے ؟ انسان زیادہ سے زیادہ یہی کچھ کہہ سکتا ہے کہ مرنے کے بعد جی اٹھنے اور نہ اٹھنے کے دونوں احتمال موجود ہیں۔ لیکن وہ جی اٹھنے کی تردید میں کوئی دلیل پیش نہیں کرسکتا۔ [١٥] تمہارے اس دعویٰ کے مقابلہ میں، میں اللہ کی طرف سے وحی کے علم کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ تم لوگ میری صداقت کے معترف رہے ہو اور میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تمہیں ضرور زندہ کیا جائے گا اور اس لئے زندہ کیا جائے گا کہ آج جو کچھ تم کر رہے ہو اس کا تم سے مؤاخذہ کیا جائے۔ ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دی جائے اور مظلوم کی دادرسی کی جائے۔ کائنات کا یہ نظام ہی اس بات پر شہادت دے رہا ہے کہ یہ کوئی اندھیر نگری نہیں ہے۔ کہ تم جو کچھ چاہو کرتے رہو، کرکے مرجاؤ اور تمہیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ زَعَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنْ لَّنْ یُّبْعَثُوْا :” زعم “ کا لفظ گمان کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے ، کسی بات کا دعویٰ کرنے کے معنی میں بھی اور جھوٹ کہنے کے معنی میں بھی ۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کا دعویٰ حرف تاکید ” لن “ کے ساتھ ذکر فرمایا ، مگر یہ دعویٰ کرنے کو زعم قرار دیا ۔ گویا ان کا تاکید کے ساتھ کہنا کہ انہیں ہرگز اٹھایا نہیں جائے گا ، سراسر گمان اور جھوٹ ہے۔ گمان اس لیے کہ ان کے پاس کوئی ایسا ذریعہ علم نہیں جس کی بنیاد پر وہ یقین سے کہہ سکیں کہ دوبا ہ زندگی نہیں ہوسکتی ۔ انسان کے پاس ایسا ذریعہ علم نہ کبھی آج سے پہلے تھا ، نہ آج ہے اور نہ ہی آئندہ ہوسکتا ہے ، پھر اس دعویٰ کو اس زور شور سے بیان کرنا کیا معنی رکھتا ہے ؟ انسان زیادہ سے زیادہ یہی کچھ کہہ سکتا ہے کہ مرنے کے بعد جی اٹھنے اور نہ اٹھنے کے دونوں احتمال موجود ہیں ، لیکن جی اٹھنے کی تردید میں وہ کوئی دلیل پیش نہیں کرسکتا ۔ ٢۔ قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ : یعنی جب وہ محض گمان کی بنیاد پر اتنی تاکید کے ساتھ قیامت کا انکار کر رہے ہیں تو آپ ان کے رد میں اس سے زیادہ تاکید کے ساتھ کہیں کہ میں تمہارے اس دعوے کے مقابلے میں اللہ کی طرف سے وحی کے علم کی بنیاد پر پورے یقین کے ساتھ اپنے رب کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ تم ضرور بالضرور اٹھائے جاؤ گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخاطب مانتے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو قسم کے ساتھ یہ بات کہنے کا حکم دیا ، تا کہ انہیں اس کا یقین ہوجائے ، کیونکہ انسان کی عادت ہے کہ قسم کھا کر بات کی جائے تو اسے یقین ہوجاتا ہے۔ یہ تیسری جگہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قسم کھا کر قیامت کا یقین دلانے کا حکم دیا ہے ۔ پہلے سورة ٔ یونس میں فرمایا :(وَیَسْتَنْبِئُوْنَکَ اَحَقٌّ ہُوَط قُلْ اِیْ وَرَبِّیْٓ اِنَّہٗ لَحَقٌّط وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ ) (یونس : ٥٣)” اور وہ تجھ سے پوچھتے ہیں کیا یہ سچ ہی ہے ؟ تو کہہ ہاں ! مجھے اپنے رب کی قسم ! یقینا یہ ضرور سچ ہے اور تم ہرگز عاجز کرنے والے نہیں ہو “۔ پھر سورة ٔ سبا میں فرمایا :(وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَاْتِیْنَا السَّاعَۃُط قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتَاْتِیَنَّکُمْ )” اور ان لوگوں نے کہا جنہوں نے کفر کیا ہم پر قیامت نہیں آئے گی ۔ کہہ دے کیوں نہیں ، قسم ہے میرے رب کی ! وہ تم پر ضرورہی آئے گی۔ “۔ ٣۔ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ : اس میں دوبارہ زندہ کیے جانے کا مقصد بیان فرمایا کہ ساری کائنات کو تمہارے فائدے کے لیے مسخر کرنے اور تمہیں ایمان و کفر میں اختیار دینے کے بعد یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تم سے کوئی باز پرس ہی نہ کی جائے ؟ اس لیے اٹھائے جانے کے بعد تمہیں وہ سب کچھ ضرور بالضرور بتایا جائے گا جو تم نے کیا ۔ بتانے سے مراد محاسبہ اور سزا دینا ہے ، جیسا کہ دھمکی دیتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ میں بہت جلد تمہیں بتاؤں گا کہ تم نے کیا کیا ۔ ٤۔ وَذٰلِکَ عَلَی اللہ ِ یَسِیْرٌ : یعنی تمہیں دوبارہ زندہ کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے بہت آسان اور بالکل معمولی بات ہے ، کیونکہ جس نے تمہیں پہلی دفعہ بنا لیا اس کے لیے دوبارہ بنا لینا تو زیادہ آسان ہے ۔ مزید دیکھئے سورة ٔ یٰسین (٧٨، ٧٩) ، لقمان (٢٨) اور سورة ٔ روم (٢٧) کی تفسیر۔ کفار مکہ جیسا کہ متعدد آیات سے ظاہر ہے ، اس بات کے قائل تھے کہ انسانوں کو اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا کیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

زَعَمَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنْ لَّنْ يُّبْعَثُوْا۝ ٠ ۭ قُلْ بَلٰى وَرَبِّيْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُـنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ۝ ٠ ۭ وَذٰلِكَ عَلَي اللہِ يَسِيْرٌ۝ ٧ زعم الزَّعْمُ : حكاية قول يكون مظنّة للکذب، ولهذا جاء في القرآن في كلّ موضع ذمّ القائلون به، نحو : زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا[ التغابن/ 7] ، لْ زَعَمْتُمْ [ الكهف/ 48] ، كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ [ الأنعام/ 22] ، زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ [ الإسراء/ 56] ، وقیل للضّمان بالقول والرّئاسة : زَعَامَةٌ ، فقیل للمتکفّل والرّئيس : زَعِيمٌ ، للاعتقاد في قوليهما أنهما مظنّة للکذب . قال : وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف/ 72] ، أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ [ القلم/ 40] ، إمّا من الزَّعَامَةِ أي : الکفالة، أو من الزَّعْمِ بالقول . ( ز ع م ) الزعمہ اصل میں ایسی بات نقل کرنے کو کہتے ہیں جس میں جھوٹ کا احتمال ہو اس لئے قرآن پاک میں یہ لفظ ہمیشہ اس موقع پر آیا ہے جہاں کہنے والے کی مذمت مقصود ہے چناچہ فرمایا : ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا[ التغابن/ 7] کفار یہ زعم کو کہتے ہیں ۔ لْ زَعَمْتُمْ [ الكهف/ 48] مگر تم یہ خیال کرتے ہو ۔ كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ [ الأنعام/ 22] جن کو شریک خدائی سمجھتے تھے ۔ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ [ الإسراء/ 56] جنہیں تم نے ) اللہ کے سوا ( معبود ) خیال کیا ۔ اور زعامۃ کے معنی ذمہ داری اٹھانے اور ریاست ( سرداری ) کے ہیں اور کفیل ( ضامن اور رئیں کو زعیم کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں کی بات میں جھوٹ کا احتمال ہوسکتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف/ 72] اور میں اس کا ذمہ دار ہوں ، أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ [ القلم/ 40] ان میں سے کون اس کا ذمہ دار ہے ۔ یہاں زعیم یا تو زعامہ بمعنی کفالۃ سے ہے اور یا زعم بلقول سے ہے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ بعث أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة/ 6] ، زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] ، ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان/ 28] ، فالبعث ضربان : - بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة . - وإلهي، وذلک ضربان : - أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد . والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] ، يعني : يوم الحشر، وقوله عزّ وجلّ : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] ، أي : قيّضه، وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل/ 36] ، نحو : أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون/ 44] ، وقوله تعالی: ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] ، وذلک إثارة بلا توجيه إلى مکان، وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل/ 84] ، قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام/ 65] ، وقال عزّ وجلّ : فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة/ 259] ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام/ 60] ، والنوم من جنس الموت فجعل التوفي فيهما، والبعث منهما سواء، وقوله عزّ وجلّ : وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة/ 46] ، أي : توجههم ومضيّهم . ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام/ 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة/ 6] جس دن خدا ان سب کو جلا اٹھائے گا ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 7] جو لوگ کافر ہوئے ان کا اعتقاد ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردیگا کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤگے ۔ ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان/ 28] تمہارا پیدا کرنا اور جلا اٹھا نا ایک شخص د کے پیدا کرنے اور جلانے اٹھانے ) کی طرح ہے پس بعث دو قسم پر ہے بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا ) دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم/ 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة/ 31] اب خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کرید نے لگا ۔ میں بعث بمعنی قیض ہے ۔ یعنی مقرر کردیا اور رسولوں کے متعلق کہا جائے ۔ تو اس کے معنی مبعوث کرنے اور بھیجنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل/ 36] اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا ۔ جیسا کہ دوسری آیت میں أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون/ 44] فرمایا ہے اور آیت : ۔ ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف/ 12] پھر ان کا جگا اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ ( غار میں ) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کو مقدار کس کو خوب یاد ہے ۔ میں بعثنا کے معنی صرف ۃ نیند سے ) اٹھانے کے ہیں اور اس میں بھیجنے کا مفہوم شامل نہیں ہے ۔ وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل/ 84] اور اس دن کو یا د کرو جس دن ہم ہر امت میں سے خود ان پر گواہ کھڑا کریں گے ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام/ 65] کہہ و کہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے عذاب بھیجے ۔ فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة/ 259] تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی ( اور ) سو برس تک ( اس کو مردہ رکھا ) پھر اس کو جلا اٹھایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کبھی تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھادیتا ہے ۔ میں نیند کے متعلق تونی اور دن کو اٹھنے کے متعلق بعث کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ نیند بھی ایک طرح کی موت سے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة/ 46] لیکن خدا نے ان کا اٹھنا ( اور نکلنا ) پسند نہ کیا ۔ میں انبعاث کے معنی جانے کے ہیں ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ يسير واليَسِيرُ والمَيْسُورُ : السّهلُ ، قال تعالی: فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء/ 28] واليَسِيرُ يقال في الشیء القلیل، فعلی الأوّل يحمل قوله : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب/ 30] ، وقوله : إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج/ 70] . وعلی الثاني يحمل قوله : وَما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب/ 14] الیسیر والمیسور سہل اور آسان قرآن میں ہے : ۔ فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء/ 28] تو ان سے نر می سے بات کہدیا کرو ۔ اور کبھی یسیر کے معنی حقیر چیز بھی آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب/ 30] اس کو دونی سزا دی جائیگی اور یہ بات خدا کو آسان ہے میں لفظ یسیرا کے معنی آسان اور سہل کے ہیں اور آیت وما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب/ 14] اور اس کے لئے بہت کم توقف کریں میں اس کے معنی بہت کم عرصہ کے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

کفار مکہ یہ دعوے کرتے ہیں کہ وہ مرنے کے بعد زندہ نہیں کیے جائیں گے۔ آپ ان سے فرما دیجیے کہ تم مرنے کے بعد ضرور زندہ کیے جاؤ گے اور پھر وہ جو کچھ تم نے دنیا میں نیکی و برائی کی ہے تمہیں سب جتلا دے گا یہ دوبارہ زندہ کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے بالکل آسان ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧{ زَعَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنْ لَّنْ یُّبْعَثُوْا } ” کافروں کو یہ زعم ہے کہ وہ (مرنے کے بعد) ہرگز اٹھائے نہیں جائیں گے۔ “ { قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَـبَّـؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ } ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ کہہ دیجیے : کیوں نہیں ! مجھے میرے رب کی قسم ہے ‘ تم لازماً اٹھائے جائو گے ‘ پھر تمہیں لازماً جتلایا جائے گا ان اعمال کے بارے میں جو تم نے کیے ہیں۔ “ اس اسلوب میں جو زور اور تاکید ہے انسانی زبان سے اس کا بیان ناممکن ہے ! اللہ کا فرمان ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قسم اور انتہائی تاکیدی صیغوں کا استعمال ! اس سے بڑھ کر زوردار عبارت بھلا اور کونسی ہوگی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنوہاشم کو دعوت کے سلسلے میں جو خطبہ دیا تھا اس کا مضمون اور اسلوب بھی اس جملے سے ملتا جلتا ہے۔ میرے کتابچے ” دعوت الی اللہ “ میں اس خطبے کا پورا متن موجود ہے ۔ اس کتابچے کا انگریزی ترجمہ بھی Call to Allah کے عنوان سے ہوچکا ہے۔ اس خطبے کا اسلوب ملاحظہ ہو : (وَاللّٰہِ لَتَمُوْتُنَّ کَمَا تَنَامُوْنَ ، ثُمَّ لَتُبْعَثُنَّ کَمَا تَسْتَـیْقِظُوْنَ ، ثُمَّ لَتُحَاسَبُنَّ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ، ثُمَّ لَتُجْزَوُنَّ بِالْاِحْسَانِ اِحْسَانًا وَبالسُّوْئِ سُوْئً ، وَاِنَّھَا لَجَنَّــۃٌ اَبَدًا اَوْ لَـنَارٌ اَبَدًا) (١) ” خدا کی قسم تم سب مر جائو گے جیسے (روزانہ) سو جاتے ہو ! پھر یقینا تم اٹھائے جائو گے جیسے (ہر صبح) بیدار ہوجاتے ہو۔ پھر لازماً تمہارے اعمال کا حساب کتاب ہوگا ‘ اور پھر لازماً تمہیں بدلہ ملے گا اچھائی کا اچھائی اور برائی کا برائی ‘ اور وہ جنت ہے ہمیشہ کے لیے یا آگ ہے دائمی۔ “ { وَذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ ۔ } ” اور یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔ “ یہ ابتدائی سات آیات ایمان کے بیان سے متعلق تھیں۔ ان میں پہلی چار آیات ذات و صفاتِ باری تعالیٰ پر ایمان سے متعلق ہیں ۔ پھر دو آیات ایمانِ رسالت کے بارے میں ہیں ‘ جبکہ ساتویں آیت کا تعلق ایمان بالآخرت سے ہے۔ اب اگلی تین آیات میں ایمان کی زوردار دعوت دی جا رہی ہے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

14 That is, "This was the second basic error in which the deniers of the Tnrth have been involved in every age, and which has ultimately brought about their ruin. Although no denier of the Hereafter ever had any means of knowing, nor has he today, nor will he have in the future, that there is no life after death, vet these ignorant people have always asserted the same thing, whereas there neither exists any intellectual basis for denying the Hereafter with absolute certainty nor any scientific basis for it. 15 This is the third place where AIIah Almighty has instructed His Prophet to tell the people by swearing an oath by his Lord that such a thing shall certainly happen. First, in Surah Yunus, it was said: "They ask: Is what you say really true Tel! them: Yes, by my Lord, it is absolutely true and you have no power to avert it.;(v. 53) . Then, in Surah Saba, it was said: "The disbelievers say: How is it that Resurrection is not overtaking us? Say, by my Lord, it will surely overtake you.' (v. 3) Here, the question arises: What difference does it make for a disbeliever in the Hereafter whether you give him the news of its coming by swearing an oath or without swearing an oath? when he does not believe in it at aII, will he believe in it only because you arc asserting this on oath? The answer is: In the first place, the addressees of the Holy Prophet (upon whom be AIlah s peace) were the people, who knew from their personal knowledge and experience that he had never uttered a lie in his life. Therefore, even if they might have forged the most shameless slander against him with their tongue, yet in their hearts they could never conceive that a truthful man like him could say a thing on oath by Allah of which he himself was not convinced by knowledge and experience. Secondly, the Holy Prophet did not only present the doctrine of the Hereafter but also gave highly rational Arguments for it. What distinguishes a Prophet from others is that the arguments, however strong and cogent, that others may give for the Hereafter, can at the most make the listener admit that the occurrence of the Hereafter is more reasonable and probable than its absence. On the contrary, a Prophet stands at A notch higher level than a philosospher. His real position is not that be has arrived at the conclusion of the necessity of the Hereafter by the exercise of reason But his real position is that he has the knowledge that the Hereafter shall occur and says with conviction that it shall surely occur. Therefore, only a Prophet can swear an oath to declare this but not a philosopher. Then, faith in the Hereafter can be generated only by a 'Prophet's statement; the reasoning of a philosopher does not have the power to induce even himself to adopt it as his religious creed on the basis of his own argument, not to speak of another person. if the philosopher is really correct, he cannot go beyond 'should be or ought to be;' only a Prophet can assert with conviction that a thing "is and certainly is." 16 This is the purpose for which the children of Adam will be resurrected; this also contains the answer to the question: what is the special need for it? If one keeps in view what has been discussed con cerning vv. 1.4 above, one can easily understand that in this universe, which has been created with the tnrth, it would be highly unreasonable to imagine about man who has been given freedom to choose either belief or unbelief, who has been granted authority to appropriate many of the things in this universe, and who after choosing the way of belief or unbelief has accomplished much good or done evil on his own responsibility by making the right or the wrong use of his authority during his life, that when he has done alI this , the good done by the virtuous and the evil committed by the criminal one should neither bear any fruit, nor should there be any time when his deeds and actions should be subjected to security The person who asserts such an irrational thing inevitably commits one of the two absurdities: either he thinks that although this universe is based on wisdom, yet a creature like ntan, who has been endowed with authority, has been created and left irresponsible here; or he thinks that this universe is a random creation devoid of the wisdom of a Wise Creator. In the first place, he makes a contradictory statement, for the existence of an irresponsible creature, endowed with authority. in a miverse based on wisdom, is clearly against justice and wisdom. In the second case, he cannot give any rational being like man should come into being in a haphazardly created, foolish universe, and how he conceived the idea of justice. Only a stubborn person could uphold the belief that folly could generate wisdom and injustice justice, or the one who has become a mental patient because of his obsession for hair splitting. 17 This is the second argument for the Hereafter. The first argument was for its necessity and this second is for its possibility. Obviously, when God could create such a grand and wonderful system of the universe without any difficulty and when He could create human beings in the world in the first instance, it cannot be difficult for Him to resurrect the same human beings and summon them before Himself for the purpose of accountability.

سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :14 یعنی ہر زمانے میں منکرین حق دوسری جس بنیادی گمراہی میں مبتلا رہے ہیں ، اور جو بالآخر ان کی تباہی کی موجب ہوئی ، وہ یہ تھی ۔ اگرچہ کسی منکر آخرت کے پاس نہ پہلے یہ جاننے کا کوئی ذریعہ تھا ، نہ آج ہے ، نہ کبھی ہو سکتا ہے کہ مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے ۔ لیکن ان نادانوں نے ہمیشہ بڑے زور کے ساتھ یہی دعویٰ کیا ہے ، حالانکہ قطعیت کے ساتھ آخرت کا انکار کر دینے کے لیے نہ کوئی عقلی بنیاد موجود ہے نہ علمی بنیاد ۔ سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :15 یہ تیسرا مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے کہ اپنے رب کی قسم کھا کر لوگوں سے کہو کہ ضرور ایسا ہو کر رہے گا ۔ پہلے سورہ یونس میں فرمایا : وَیَسْتَنْبِئُوْ نَکَ اَحَقٌّ ھُوَ ، قُلْ اِیْ وَرَبِّیْٓ اِنَّہ لَحَقٌّ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ ۔ وہ پوچھتے ہیں کیا واقعی یہ حق ہے ؟ کہو ، میرے رب کی قسم یہ یقیناً حق ہے اور تم اتنا بل بوتا نہیں رکھتے کہ اسے ظہور میں آنے سے روک دو ( آیت 53 ) ۔ پھر سورہ سبا میں فرمایا : وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَأتِیْنَا السَّاعَۃُ ، قُلْ بَلیٰ وَرَبِّی لَتَأتِیَنَّکُمْ ۔ منکرین کہتے ہیں کیا بات ہے کہ قیامت ہم پر نہیں آ رہی ہے ! کہو ، قسم ہے میرے رب کی وہ تم پر آ کر رہے گی ( آیت 30 ) ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک منکر آخرت کے لیے آخر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ آپ اسے آخرت کے آنے کی خبر قسم کھا کر دیں یا قسم کھائے بغیر دیں ؟ وہ جب اس چیز کو نہیں مانتا تو محض اس بنا پر کیسے مان لے گا کہ آپ قسم کھا کر اس سے یہ بات کہہ رہے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مخاطب وہ لوگ تھے جو اپنے ذاتی علم اور تجربے کی بنا پر یہ بات خوب جانتے تھے کہ یہ شخص کبھی عمر بھر جھوٹ نہیں بولا ہے ، اس لیے چاہے زبان سے وہ آپ کے خلاف کیسے ہی بہتان گھڑتے رہے ہوں ، اپنے دلوں میں وہ یہ تصور تک نہ کر سکتے تھے کہ ایسا سچا انسان کبھی خدا کی قسم کھا کر وہ بات کہہ سکتا ہے جس کے بر حق ہونے کا اسے کامل یقین نہ ہو ۔ دوسرے یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم محض آخرت کا عقیدہ ہی بیان نہیں کرتے تھے ، بلکہ اس کے لیے نہایت معقول دلائل بھی پیش فرماتے تھے ۔ مگر جو چیز نبی اور غیر نبی کے درمیان فرق کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک غیر نبی آخرت کے حق میں جو مضبوط سے مضبوط دلائل دے سکتا ہے ان کا زیادہ سے زیادہ فائدہ نس یہی ہو سکتا ہے کہ آخرت کے نہ ہونے کی بہ نسبت اس کا ہونا معقول تر اور اغلب تسلیم کر لیا جائے ۔ اس کے برعکس نبی کا مقام ایک فلسفی کے مقام سے بالا تر ہے ۔ اس کی اصل حیثیت یہ نہیں ہے کہ عقلی استدلال سے وہ اس نتیجہ پر پہنچا ہو کہ آخرت ہونی چاہیے ۔ بلکہ اس کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ اس بات کا علم رکھتا ہے کہ آخرت ہو گی اور یقین کے ساتھ کہتا ہے کہ وہ ضرور ہو کر رہے گی ۔ اس لیے ایک نبی ہی قسم کھا کر یہ بات کہہ سکتا ہے ، ایک فلسفی اس پر قسم نہیں کھا سکتا ۔ اور آخرت پر ایمان ایک نبی کے بیان ہی سے پیدا ہو سکتا ہے ، فلوسفی کا استدلال اپنے اندر یہ وقت نہیں رکھتا کہ دوسرا شخص تو در کنار ، فلسفی خود بھی اپنی دلیل کی بنا پر اپنا ایمانی عقیدہ بنا سکے ۔ فلسفی اگر واقعی صحیح الفکر فلسفی ہو تو وہ ہونا چاہیے سے آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ ہے اور یقیناً ہے کہنا صرف ایک بی کا کام ہے ۔ سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :16 یہ وہ مقصد ہے جس کے لیے بنی آدم کو مرنے کے بعد دو بارہ اٹھایا جائے گا ، اور اسی میں اس سوال کا جواب بھی ہے کہ ایسا کرنے کی آخر ضرورت کیا ہے ۔ اگر وہ بحث آدمی کی نگاہ میں ہو جو سورۃ کے آغاز سے آیت نمبر 4 تک کی گئی ہے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اس بر حق کائنات میں جس مخلوق کو کفر و ایمان میں سے کسی ایک راہ کے اختیار کرنے کی آزادی دی گئی ہو ، اور جسے اس کائنات میں بہت سی چیزوں پر تصرف کا اقتدار بھی عطا کیا گیا ہو ، اور جس نے کفر یا ایمان کی راہ اختیار کر رکے عمر بھر اپنے اس اقتدار کو صحیح یا غلط طریقے سے استعمال کر کے بہت سی بھلائیاں یا بہت سی برائیاں خود اپنی ذمہ داری پر کی ہوں ، اس کے بارے میں یہ تصور کرنا انتہائی غیر معقول ہے کہ یہ سب کچھ جب وہ کر چکے تو آخر کار بھلے کی بھلائی اور برے کی برائی ، دونوں بے نتیجہ رہی اور سرے سے کوئی وقت ایسا آئے ہی نہیں جب اس مخلوق کے اعمال کی جانچ پڑتال ہو ۔ جو شخص ایسی غیر معقول بات کہتا ہے وہ لا محالہ دو حماقتوں میں سے ایک حماقت کا ارتکاب کرتا ہے ۔ یا تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ کائنات ہے تو مبنی بر حکمت ، مگر یہاں انسان جیسی با اختیار مخلوق کو غیر ذمہ دار بنا کر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ یا پھر وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ ایک الل ٹپ بنی ہوئی کائنات ہے جسے بنانے میں سرے سے کسی حکیم کی حکمت کار فرما نہیں ہے ۔ پہلی صورت میں وہ ایک متناقض بات کہتا ہے کیونکہ مبنی بر حکمت کائنات میں ایک با اختیار مخلوق کا غیر ذمہ دار ہونا صریحاً خلاف عدل و حکمت ہے ۔ اور دوسری صورت میں وہ اس بات کی کوئی معقول توجیہ نہیں کر سکتا کہ ایک الل ٹپ بنی ہوئی نے حکمت کائنات میں انسان جیسی ذی عقل مخلوق کا وجود میں آنا آخر ممکن کیسے ہوا اور اس کے ذہن میں عدل و انصاف کا تصور کہاں سے آگیا ؟ بے عقلی کی عقل کی پیدائش اور بے عدلی سے عدل کا تصور برآمد ہو جانا ایک ایسی بات ہے جس کا قائل یا تو ایک ہٹ دھرم آدمی ہو سکتا ہے ، یا پھر وہ جو بہت زیادہ فلسفہ بگھارتے بگھارتے دماغی مریض ہو چکا ہو ۔ سورة التَّغَابُن حاشیہ نمبر :17 یہ آخرت کی دوسری دلیل ہے ۔ پہلی دلیل آخرت کے ضروری ہونے کی تھی ، اور یہ دلیل اس کے ممکن ہونے کی ہے ۔ ظاہر ہے کہ جس خدا کے لیے کائنات کا اتنا بڑا نظام بنا دینا دشوار نہ تھا اور جس کے لیے اس دنیا میں انسانوں کو پیدا کرنا دشوار نہیں ہے ، اس کے لیے یہ بات آخر کیوں دشوار ہو گی کہ انسانوں کو دوبارہ پیدا کر کے اپنے سامنے حاضر کرے اور ان کا حساب لے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٧۔ ١٠۔ جو لوگ حشر کے منکر ہیں قرآن شریف میں طرح طرح سے اللہ تعالیٰ نے ان کو قائل کیا ہے کہیں یہ فرمایا ہے کہ ایک دفعہ اللہ تعالیٰ نے جو تمام جہان کو پیدا کیا ہے وہ تو ان لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ہے اور یہ ہر انسان کا عقلی تجربہ ہے کہ جو کام ایک دفعہ ہو چکتا ہے۔ دوسری دفعہ اس کا کرنا بالکل نہایت آسان ہوجاتا ہے پھر کونسی عقل سے یہ لوگ حشر کا انکار کرتے ہیں کہیں یہ فرمایا کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے کچھ عقل دی ہے وہ جو کام کرتا ہے کسی مصلحت اور فائدہ کے لئے کرتا ہے۔ وہ خدا جس نے عقل کو سب عقل مندوں کو پیدا کیا اس کے کام کو یہ لوگ بےفائدہ اور عبث کیوں ٹھہراتے ہیں اتنا نہیں سمجھتے کہ جزا سزا کا ایک دن نہ ہو اور نیک و بد کو ایک ہی حال پر چھوڑ دیا جائے تو جہان کا پیدا کرنا عبث اور بےفائدہ ٹھہرے گا۔ لیکن منکروں کے انکار کا جواب اپنے رسول کی قسم کھا کر یہ دینے کو فرمایا ہے کہ ضرور ایک دن حشر ہوگا۔ اس طرح کا جواب اس لئے دیا ہے کہ انسان کی عادت میں یہ بات داخل ہے کہ قسم کھا کر جو بات کہی جائے اس کا انسان کو اعتبار ہوجاتا ہے اس طرح کی قسم کی آیت ایک سورة یونس میں اور دوسری سورة سباء میں گزر چکی ہے یہ قسم کی تیسری آیت ہے اس قدر سمجھانے اور قسم کھانے کے بعد بھی جن لوگوں کو حشر کا انکار ہے یا جو لوگ زبان سے تو حشر کا اقرار کرتے ہیں مگر اپنے اس اقرار کے پابند ہو کر حشر کا سامان پورا نہیں کرتے ایسے لوگوں کا اس قدر حال قابل افسوس ہے کہ خود اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے حال پر افسوس ظاہر فرمایا ہے جس کا ذکر سورة یٰسین میں گزر چکا ہے۔ منکر حشر کو حشر کے قائم ہونے پر طرح طرح سے قائل کرکے فرمایا کہ جب حشر کا قائم ہونا یقینی ہے تو اس دن کی آفتوں سے بغیر اس کے نجات نہیں ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول کی فرمانبردار قبول کی جائے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی معرفت قرآن میں جو فرمانبرداری کے طریقے بتائے ہیں ان کے موافق عمل کیا جائے اور یہ جان لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر ایک شخص کے ہر طرح کے عمل کی پوری خبر ہے۔ اسی کے موافق حشر کے دن جزا و سزا کا وہ فیصلہ فرمائے گا۔ صحیح ١ ؎ مسلم کی ابو موسیٰ اشعری کی حدیث اوپر گزر چکی ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ ہر شخص کے دن بھر کے عملوں کا اعمال نامہ رات ہوجانے سے پہلے اور رات بھر کے عملوں کا اعمال نامہ سورج کے نکلنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ملاحظہ میں پہنچ جاتا ہے یہ بھی اوگر گزر چکا ١ ؎ ہے کہ وہ اعمال نامے سربمہر قیامت تک رکھے جاتے ہیں قیامت کے دن وہ کھولے جائیں گے اور ہر ایک عمل کی جزا و سزا کا فیصلہ ہوگا۔ قرآن شریف کو نور اس لئے فرمایا کہ جس طرح اندھیرے میں آدمی کو روشنی سے سیدھا راستہ معلوم ہوجاتا ہے اسی طرح قرآن شریف آدمی کو جہالت کے اندھیرے سے نکال کر نجات کا راستہ بتا دیتا ہے۔ حشر کے دن اگلی پچھلی ساری مخلوق محشر کے میدان میں اکٹھی ہوگی اس واسطے اس دن کا نام یوم الجمع ہے۔ معتبر سند سے ابن ٢ ؎ ماجہ میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہر کے لئے ایک ٹھکانا جنت میں اور ایک دوزخ میں اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے قیامت کے دن جو لوگ ہمیشہ کے لئے دوزخی قرار پائیں گے جنتیوں کے اصل مقاموں کے علاوہ ان دوزخیوں کے مقامات بھی جنتیوں کو مل جائیں گے قیامت کا نام یوم التغابن ہونے کی یہ حدیث تفسیر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیشہ دوزخ میں رہنے والے لوگ اس دن اس ہار میں رہیں گے کہ اپنا جنت کا مقام جنتیوں کہ ہاتھ ہار بیٹھیں گے۔ اب نیک و بد لوگوں کا جو نتیجہ اس دن ہوگا اس کا ذکر فرمایا کہ نیک لوگ ہمیشہ جنت میں رہیں گے اور بد لوگ ہمیشہ دوزخ میں۔ ابو سعید خدری ٣ ؎ کی حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ جس شخص کے دل میں ذرہ بھر ایمان ہوگا وہ دوزخ میں ہمیشہ نہ رہے گا اس سے معلوم ہوا کہ ہمیشہ دوزخ میں وہی شخص رہے گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان نہ ہوگا جنتیوں کے حال میں گناہوں کے معاف فرمانے کا جو ذکر فرمایا اس کی تفسیر صحیح بخاری ٤ ؎ و مسلم کی ابن عمر کی روایت سے اوپر گزر چکی ہے کہ کلمہ گو بعض گناہ گاروں سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جس طرح دنیا میں میں نے تمہارے گناہوں کو خلق اللہ پر ظاہر کرکے تم کو رسوا نہیں کیا آج بھی اپنی رحمت سے تمہارے گناہ میں معاف کرتا ہوں اس باب میں اور بھی صحیح حدیثیں ہیں۔ وبئس المصیر کا مطلب یہ ہے کہ اب تو یہ منکرین حشر دوزخ کا حال اس کان سے سن کر اس کان سے اڑا دیتے ہیں لیکن جب دوزخ سے انکا پالا پڑے گا تو ان کو معلوم ہوجائے گا کہ ان کے لئے وہ بہت بری جگہ ہے۔ (١ ؎ صحیح مسلم باب معنی قول اللہ عز و جل ولقدراہ نزلۃ اخری الایۃ ٩٩ ج ١۔ ) (١ ؎ الترغیب و الترہیب الترغیب فی الاخلاص و الصدق ص ٦٥ ج ١۔ ) (٢ ؎ ابن ماجہ باب صفۃ الجنۃ ص ٢٣٢۔ ) (٣ ؎ صحیح بخاری باب تفاضل اھل الایمان فی الاعمال ص ٨ ج ١۔ ) (٤ ؎ صحیح بخاری باب ستر المومن علی نفسہ ص ٨٩٦ ج ٢۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(64:7) زعم ماضی واحد مذکر غائب زعم (باب نصر) مصدر۔ زعم اصل میں ایسی بات نقل کرنے کو کہتے ہیں جس میں جھوٹ کا احتمال ہو اس لئے قرآن مجید میں یہ لفظ ہمیشہ اسی موقع پر آیا ہے جہاں کہنے والے کی مذمت مقصود ہو چناچہ فرمایا۔ زعم الذین کفروا (64:7 آیت ہذا) کفاریہ زعم کرتے ہیں اور بل زعمتم (18:48) مگر تم یہ خیال کرتے ہو۔ اور اسی مادہ (زع م) سے زعامۃ سے ب کا صلہ کے ساتھ بمعنی مال وغیرہ کا ضامن بننا بھی ہے۔ چناچہ قرآن مجید میں آیا ہے :۔ وانا بہ زعم (12:72) اور میں اس کا ذمہ دار ہوں۔ ان لن یبعثوا : ان مخففہ ہے ان سے۔ بےشک۔ لن یبعثوا مضارع منفی مجہول تاکید یہ لن۔ ان کو (ہرگز موت کے بعد دوبارہ زندہ کرکے) اٹھایا نہیں جائے گا۔ بعث (باب فتح) مصدر سے۔ قل : ای قل لہم یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ بلی وربی لتبعثن : بلی کا استعمال دو جگہ پر ہوتا ہے۔ (1) ایک تو نفی ما قبل کی تردید کے لئے جیسا کہ آیت زیر غور میں ہے۔ زعم الذین کفروا ان لن یبعثوا قل بلی وربی لتبعثن (کافروں کا خیال ہے یا وہ دعوی کرتے ہیں کہ ہرگز وہ نہیں اٹھائے جائیں گے تو کہہ دے کیوں نہیں قسم ہے میرے رب کی تمہیں ضرور اٹھایا جائے گا۔ (2) دوسرے یہ کہ اس استفہام کے جواب میں آئے جو نفی پر واقع ہو۔ جیسے :۔ (1) استفہام حقیقی جیسے الیس زید بقائم (کیا زید کھڑا نہیں) اور جواب میں کہا جاوے بلی۔ (2) استفہام توبیخی، جیسے ایحسب الانسان الن نجمع عظامہ ۔ بلی قادرین علی ان نسوی بنانہ (75:403) کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ ہم ہرگز اس کی ہڈیاں جمع نہیں کریں گے۔ کیوں نہیں بلکہ ہم قدرت رکھتے ہیں کہ اس کی پور پور درست کردیں۔ (3) یا استفہام تقریری ہو۔ جیسے الست بربکم قالوا بلی شھدنا (7:172) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ انہوں نے کہا ہاں ! (تو ہی ہے) ہم گواہ ہیں (نیز ملاحظہ ہو 3:76) وربی : واؤ حرف جر ہے لیکن یہاں بطور واؤ قسم مستعمل ہے۔ یہ صرف اسم ظاہر پر آتا ہے۔ جیسے واللہ (خدا کی قسم) والتین (قسم ہے انجیر کی) ۔ ربی مضاف مضاف الیہ۔ میرا رب وربی (مجھے) اپنے رب کی قسم۔ فائدہ : بعث بعد الموت پر قرآن مجید میں رب کی قسم تین دفعہ کھائی گئی ہے :۔ (1) آیت ہذا : قل بلی وربی (64:7) (2) ویستبئونک احق ھو قل ای وربی انہ لحق ۔ (10:53) اور تم سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا یہ سچ ہے کہہ دو ہاں خدا کی قسم سچ ہے۔ (3) وقال الذین کفروا لاتاتینا الساعۃ قل بلی وربی لتاتینکم (34:3) اور کافر کہتے ہیں کہ قیامت (کی گھڑی) ہم پر نہیں آئے گی۔ کہہ دو ! کیوں نہیں (آئے گی) میرے رب کی قسم وہ تم پر ضرور آکر رہے گی۔ لتبعثن مضارع مجہول بلام تاکید و نون ثقیلہ جمع مذکر حاضر۔ بعث (باب فتح) مصدر بمعنی بیدار کرنا۔ زندہ کرنا۔ مردہ کو زندہ کرکے دوبارہ اٹھانا۔ تم ضرور اٹھائے جاؤ گے ۔ یہ جواب قسم ہے۔ (وربی کے جواب میں) ثم لتنبؤن : ثم تراخی فی الوقت کے لئے ہے۔ بمعنی پھر۔ ازاں بعد۔ لتنبئون مضارع مجہول بلام تاکید و نون ثقیلہ۔ صیغہ جمع حاضر۔ تمہیں بتایا جائے گا۔ تمہیں خبر دی جائے گی۔ تنبئۃ (تفعیل) مصدر۔ بمعنی آگاہ کرنا ۔ خبر دینا۔ بتلانا۔ یعنی تمہارے اعمال کا محاسبہ ہوگا اور ان پر جزا و سزا ملے گی۔ یہ جملہ بعث بعد الموت کی تاکید کے لئے آیا ہے۔ وذلک علی اللہ یسیر : واؤ عاطفہ ، ذلک : یعنی یہ دوبارہ زندہ کرکے اٹھانا اور اعمال کا محاسبہ کرنا۔ یسیر : صفت مشبہ کا صیغہ واحد مذکر۔ ی س ر مادہ۔ آسان ۔ سہل، ذلک مبتدائ۔ یسیر اس کی خبر۔ علی اللہ متعلق خبر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 کیونکہ دوبارہ پیدا کرنا پہلی بار پیدا کرنے کی بنسبت آسان تر ہے اور کفار مکہ … جیسا کہ متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے۔ اس چیز کیقائل تھے کہ انسانوں کو پہلی بار اللہ تعالیٰنے پیدا کیا ہے … یہ تیسری آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو آخرت کے آنے پر قسم کھانے کا حکم دیا ہے۔ دیکھیے ( سورة یونس) سورة ساء 30)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ہلاک ہونے والی اقوام کا ایک اور سنگین جرم۔ انسان جب آخرت کی جوابدہی کے عقیدے کا انکار کرتا ہے تو پھر وہ شتر بےمہار بن جاتا ہے جس بنا پر وہ بڑے بڑے حقائق کو ٹھکرا دیتا ہے جن حقائق کو انسان ٹھکراتا ہے ان میں آخرت کا عقیدہ بھی شامل ہے۔ قیامت کا انکار کرنے والے سب سے بڑی دلیل یہ دیتے ہیں کہ جب انسان کی ہڈیاں بوسیدہ ہوجاتی ہیں اور وہ مٹی کے ساتھ مٹی بن جاتی ہیں تو پھر اس کو کیسے زندہ کیا جاسکتا ہے۔ قرآن مجید نے دوبارہ زندہ ہونے کے درجنوں دلائل دیئے ہیں حتی کہ یہاں تک فرمایا کہ اے نبی ! انہیں فرمادیں ! ” کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا یا کوئی ایسی مخلوق جو تمہارے دلوں میں بڑی ہے عنقریب وہ کہیں گے کون ہمیں لوٹائے گا ؟ فرما دیں جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا۔ پھر وہ آپ کے سامنے اپنے سر ہلائیں گے اور کہیں گے یہ کب ہوگا ؟ فرمادیں امید ہے عنقریب ہوگا۔ جس دن وہ تمہیں بلائے گا تم اس کی تعریفیں کرتے ہوئے چلے آؤ گے اور سمجھو گے کہ تم تھوڑا عرصہ ہی دنیا میں ٹھہرے تھے۔ “ (بنی اسرائیل : ٥٠ تا ٥٢) یہاں ارشاد ہوا کہ اے رسول ! انہیں فرمائیں ! کیوں نہیں ! مجھے اپنے رب کی قسم ! نہ صرف تمہیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا بلکہ تمہیں وہ سب کچھ بتلایاجائے گا جو کچھ تم نے دنیا میں کیا ہوگا۔ تمہیں دوبارہ زندہ کرنا اور تمہارے اعمال سے تمہیں آگاہ کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے بالکل آسان ہے، بہتر یہی ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول اور جو کچھ اللہ اس نے اپنے رسول پر نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ اور ہر دم خیال رکھو کہ جو تم عمل کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے ہر حال میں باخبر ہوتا ہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک آدمی نے بہت زیادہ گناہ کیے تھے جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ جب وہ مرجائے تو اس کو جلا دینا پھر اس کے جسم کا نصف حصہ خشکی میں پھینک دینا اور نصف حصہ سمندر میں بہا دینا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اس کو پکڑ لیا تو اسے ایسا عذاب دے گا اس طرح کا عذاب جہاں والوں میں سے کسی کو نہیں ہوگا جب وہ مرگیا تو اس کے بیٹوں نے اس کے حکم کی تعمیل کی۔ اللہ تعالیٰ نے سمندر کو حکم دیا۔ اس نے اس کا نصف حصہ جمع کردیا اللہ تعالیٰ نے خشکی کو حکم دیا اس نے بھی اس کا نصف حصہ اکٹھا کردیا پھر اسے فرمایا کہ تو نے ایسا کیوں کیا اس نے کہا اے میرے رب ! تو جانتا ہے کہ میں نے تیرے خوف سے یہ وصیت کی تھی اللہ تعالیٰ نے اس کو معاف فرما دیا۔ “ (رواہ مسلم : باب فِی سَعَۃِ رَحْمَۃِ اللَّہِ تَعَالَی وَأَنَّہَا سَبَقَتْ غَضَبَہُ ) مسائل ١۔ قیامت کے منکرین کا کہنا ہے کہ ہمیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے حلفاً کہلوایا ہے کہ وہ ہر صورت لوگوں کو دوبارہ زندہ کرے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے لیے لوگوں کو دوبارہ زندہ کرنا اور انہیں ان کے اعمال بتلانا بالکل آسان ہے۔ ٤۔ لوگوں کو اوٹ پٹانگ باتیں کرنے کی بجائے اللہ نے جو کچھ اپنے رسول پر نازل کیا ہے اس پر ایمان لانا چاہیے۔ ٥۔ لوگ جو بھی عمل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ہر حال میں ان سے باخبر رہتا ہے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن زندہ ہونے کے دلائل : ١۔ وہ کہتے ہیں ہمیں کون دوبارہ زندہ کرے گا ؟ فرما دیجیے جس نے پہلی بار پیدا کیا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٥١) ٢۔ ہم نے زمین سے تمہیں پیدا کیا اسی میں لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ اٹھائیں گے۔ (طٰہٰ : ٥٥) ٣۔ اللہ ہی مخلوق کو پیدا کرنے والا ہے، پھر وہی اسے دوبارہ لوٹائے گا۔ (یونس : ٤) ٤۔ اللہ وہ ذات ہے جس نے مخلوق کو پہلی بار پیدا کیا، پھر وہ اسے لوٹائے گا اور یہ کام اس کے لیے آسان ہے۔ (الروم : ٢٧) ٥۔ اللہ ہی نے مخلوق کو پیدا کیا، پھر وہ اسے دوبارہ پیدا کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (الروم : ١١) ٦۔ کیا ” اللہ “ کو اس بات پر قدرت نہیں ؟ کہ وہ مردوں کو زندہ فرمائے۔ (القیامہ : ٤٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

مشرکین اور کافرین کے اس قول کو کہ ہمیں دوبارہ نہ اٹھایا جائے گا ، آغاز ہی سے زعم باطل کہا اور یہ بتادیا کہ یہ سفید جھوٹ ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا جاتا کہ آپ ان سے سخت ترین الفاظ میں کہہ دیں کہ تمہیں اٹھایا جائے گا۔ اور اس تاکید کو اپنے رب کے نام سے حلف اٹھا کر مزید موکد کردیں۔ آخر رسول جب اپنے رب کے نام کی قسم اٹھا کر کوئی بات کرے تو اس سے مزید تاکید اور کیا ہوسکتی ہے۔ قل بلیٰ وربی لتبعثن (٤٦ : ٧) ” ان سے کہو میرے رب کی قسم تم ضرور اٹھائے جاﺅ گے “۔ اور نہ صرف یہ کہ اٹھائے جاﺅ گے بلکہ۔ ثم لتنبون بما عملتم (٤٦ : ٧) ” پھر تمہیں بتایا جائے گا کہ تم نے کیا کچھ کیا ہے “۔ اس میں سے کوئی چیز بھی چھوٹی ہوئی نہ ہوگی۔ اور اللہ تمہارے اعمال سے اچھی طرح باخبر ہوگا ، اس لئے وہ قیامت کے دن بتادے گا۔ وذلک علی اللہ یسیر (٤٦ : ٧) ” اور ایسا کرنا اللہ کے لئے بہت آسان ہے “۔ وہ زمین و آسمان کی ہر چیز کو جانتا ہے ، وہ ظاہری اور خفیہ سب چیزوں کو جانتا ہے۔ وہ ان رازوں سے واقف ہے جو دلوں کے راز ہیں۔ اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے جیسا کہ سورت کے آغاز میں بطور تمہید یہی فقرہ آیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منکرین قیامت کا باطل خیال : ساتویں آیت میں منکرین قیامت کا تذکرہ فرمایا ﴿ زَعَمَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اَنْ لَّنْ يُّبْعَثُوْا ١ؕ﴾ (الآیہ) (جن لوگوں نے کفر کیا انہوں نے یہ جھوٹا خیال کیا کہ وہ ہرگز دوبارہ نہیں اٹھائے جائیں گے) ۔ ﴿قُلْ بَلٰى وَ رَبِّيْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ١ؕ﴾ (اے محمد آپ فرما دیجئے کہ ہاں قسم ہے میرے رب کی تم ضرور ضرور اٹھائے جاؤ گے اور ضرور ضرور اپنے اعمال سے باخبر كئے جاؤ گے) ﴿ وَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيْرٌ٠٠٧﴾ (اور یہ قبروں سے اٹھانا اور اعمال کا جتانا اللہ کے لئے آسان ہے) کوئی شخص یہ نہ سمجھ لے کہ یہ دشوار کام ہے یہ کیسے ہوگا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7:۔ ” زعم الذین کروا “ یہ مشرکین مکہ کے لیے تخویف اخروی اور ان پر شکوی ہے۔ ان مشرکین کا خیال ہے جو سراسر باطل ہے کہ انہیں موت کے بعد دوبارہ ہرگز زندہ نہیں کیا جائے گا۔ ” قل بلی و ربی “ یہ ان کے زعم باطل کا جواب ہے۔ فرمایا آپ ان سے فرما دیں کیوں نہیں ؟ تمہیں یقینا دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ اور تمہیں تمہارے تمام اعمال سے آگاہ کیا جائے گا۔ انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنا اور سب کے اعمال کا مکمل ریکارڈ محفوظ رکھنا اللہ تعالیٰ کے لیے نہایت آسان ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(7) دین حق کے منکر بڑے زور سے دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ہرگز دو بار اٹھائے نہ جائیں گے اور دوبارہ زندہ نہ کیے جائیں گے آپ فرمادیجئے کیوں نہیں قسم ہے میرے پروردگار کی تم سب ضرور مرنے کے بعد زندہ کئے جائو گے پھر جو کچھ تم نے کیا ہے اس سب سے تم کو آگاہ کیا جائے گا اور تم کو وہ جتایا جائے گا اور یہ دوبارہ زندہ کرنا اور اعمال کا حساب لینا اللہ تعالیٰ پر بہت آسان ہے۔ یعنی یہ کافر جب آخرت کا ذکر سنتے ہیں تو آخرت کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں وہ ہرگز دوبارہ زندہ نہ ہوں گے۔ حضرت حق نے فرمایا اے پیغمبر جس قدر یہ تاکید کے ساتھ کہہ رہے ہیں آپ اس سے بڑھ کر میرے نام کی قسم کھا کر اپنی بات کو ثابت کیجئے کہ تم سب ضرور زندہ کرکے اٹھائے جائو گے اور تم کو تمہارے اعمال جتائے جائیں گے اور یہ کام اللہ تعالیٰ پر کچھ مشکل نہیں بلکہ بہت آسان ہے۔