Surat ul Mulk

Surah: 67

Verse: 17

سورة الملك

اَمۡ اَمِنۡتُمۡ مَّنۡ فِی السَّمَآءِ اَنۡ یُّرۡسِلَ عَلَیۡکُمۡ حَاصِبًا ؕ فَسَتَعۡلَمُوۡنَ کَیۡفَ نَذِیۡرِ ﴿۱۷﴾

Or do you feel secure that He who [holds authority] in the heaven would not send against you a storm of stones? Then you would know how [severe] was My warning.

یا کیا تم اس بات سے نڈر ہوگئے ہو کہ آسمانوں والا تم پر پتھر برسادے؟ پھر تمہیں معلوم ہو ہی جائے گا کہ میرا ڈرانا کیسا تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَمْ أَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاء أَن يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ... Or do you feel secure that He, Who is over the heaven, will not send against you a Hasib? meaning, a wind containing gravel that will strike you, as Allah says in another Ayah, أَفَأَمِنتُمْ أَن يَخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ أَوْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لاَ تَجِدُواْ لَكُمْ وَكِيلً Do you then feel secure that He will not cause a side of the land to swallow you up, or that He will not send against you a violent sandstorm Then, you shall find no trustee. (17:68) And similarly, here Allah threatens them with His statement, فَسَتَعْلَمُونَ كَيْفَ نَذِيرِ Then you shall know how has been My warning. meaning, `how is My admonition and what will happen to those who disregard and reject it.' Then Allah says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 جیسے اس نے قوم لوط اور اصحاب فیل پر برسائے اور پتھروں کی بارش سے ان کو ہلاک کردیا۔ 17۔ 2 لیکن اس وقت یہ علم، بےفائدہ ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٠] آسمان میں کون ہے ؟ اللہ تعالیٰ کی ذات۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین کو تمہارے تابع فرمان بنادیا ہے اس میں محنت کرو اور جو جو فائدے اس سے اٹھا سکتے ہو اٹھاؤ مگر اس ذات سے بےخوف نہ ہوجانا جو تمہاری اور ان سب اشیاء کی خالق ومالک ہے۔ اسے ہر دم یاد رکھنا۔ یہ عین ممکن ہے کہ تم کسی جگہ زمین کھود رہے ہو یا کان کنی میں مصروف ہو تو اس میں دھنستے ہی چلے جاؤ۔ یا زمین میں زلزلہ آجائے۔ زمین پھٹ جائے اور تم اس میں غرق ہوجاؤ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم پر ایسی سخت آندھی بھیج دے جس میں پتھر کنکر ہوں۔ اور وہ تمہارا ستیاناس کردیں۔ لہذا زمین سے اللہ کی نعمتیں حاصل کرو تو اس کا شکر بھی بجا لایا کرو اور اگر تم ناشکری کرو گے اور اکڑ دکھاؤ گے تو تمہارا بھی وہ انجام ہوسکتا ہے جس سے سابقہ قومیں دوچار ہوئی تھیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآئِ اَنْ یُّرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا : جیسا کہ قوم لوط کے ساتھ ہوا ، فرمایا :(اِنَّـآ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِمْ حَاصِبًا اِلَّآ اٰلَ لُوْطٍط نَجَّیْنٰـہُمْ بِسَحَرٍ ) (القمر : ٣٤)” بیشک ہم نے ان پر پتھر برسانے والی ایک ہوا بھیجی ، سوائے لوط کے گھر والوں کے ، انہیں صبح سے کچھ پہلے بچا کر نکال لیا “۔ ٢۔” نذیر “ مصد رہے ، اصل میں ” نذیری “ تھا، میراڈرانا ۔ یاء حذف کردی اور راء پر کسرہ باقی رہنے دیا ، ورنہ اس پر رفع ہونا تھا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

أَمْ أَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاءِ أَن يُرْ‌سِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ۖ فَسَتَعْلَمُونَ كَيْفَ نَذِيرِ‌ (Or, have you become fearless of Him who is in the sky if He looses a violent wind with stones against you? So, you will soon come to know how was My warning! - 67:17). In other words, they at the moment feel secure that the Supreme Being in the heaven will not release against them a sudden squall of stones together with violent wind. Soon they will realise how true the Divine warning was, but by the time they realise its veracity it would be too late. Now that they are safe, sound and secure, it is the time for them to give it a thought. The next verse refers to the former nations who denied and rejected the truth and how they were annihilated by Divine scourge. Every person needs to draw a lesson from the punishment meted out to them. وَلَقَدْ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ‌ (And of course, those before them [ also ] rejected [ the truth ]. So, how was My censure?...67:18) The next verse turns once again to the central theme of the Surah, that is, the description of various forms and functions of Allah&s creation to prove His Oneness, His knowledge and power. Thus far human souls, forms and functions of the sky, the stars, the earth and so on were discussed. The next verse mentions birds that fly about in the atmosphere above us.

اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يُّرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ۭ فَسَتَعْلَمُوْنَ كَيْفَ نَذِيْرِ ۔ یعنی کیا تم اس سے بےخوف ہو کہ آسمان والا تم پر آسمان سے پتھر برسا دے، اس وقت تمہیں اس ڈرانے کا انجام معلوم ہوگا کہ اس وقت معلوم ہونا بےسود ہوگا آج جبکہ تم صحیح سالم محفوظ ومامون ہو اس کی فکر کرو اس کے بعد پچھلی ان قوموں کے واقعات کی طرف اشارہ کیا جن پر دنیا میں عذاب الٰہی نازل ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے حال سے عبرت حاصل کرو ولقد کذب الذین من قبلھم فکیف کان تکبر کا یہی مطلب ہے اس کے بعد پھر اصل مضمون سورت کی طرف رجوع ہے کہ ممکنات و مخلوقات کے حالات سے حق تعالیٰ کی توحید اور علم وقدرت پر استدلال ہے خود انسان کے نفوس، آسمان، ستارے، زمین وغیرہ کے حالات کا بیان پہلے آ چکا ہے آگے ان پرندوں کا ذکر ہے جو فضاء آسمانی میں اڑتے پھرتے ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يُّرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا۝ ٠ ۭ فَسَتَعْلَمُوْنَ كَيْفَ نَذِيْرِ۝ ١٧ أَمْ»حرف إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه : أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص/ 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ } ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔ رسل ( ارسال) والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] ( ر س ل ) الرسل الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔ ( حاصبا) اسم بمعنی الریح أو السحاب، جاء علی صيغة اسم الفاعل لفعل حصبه من باب ضرب أي رماه بالحصباء، وهي الحجارة الصغیرة علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا كيف كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] . ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔ النذیر والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح/ 2] ( ن ذ ر ) النذیر النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف/ 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧۔ ١٨) یا تم اس بات سے مطمئن ہوگئے کہ جو آسمان میں عرش پر قائم ہے کہ وہ قوم لوط کی طرح تم پر پتھر برسا دے عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ میرا عذاب سے ڈرانا کیسا صحیح تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

26 The object is to impress this: " Your very survival and well-being on the earth are at alI tunes dependent upon Allah Almighty's grace and bounty: you are not strutting about on this earth at will by your own power: you are under obligation only to Allah's protection for each moment of your life that you are passing here, otherwise Allah at any moment may cause such an earthquake to occur as may make this very earth to become your grave instead of the cradle that it is, or may cause a windstorm to blow razing all your towns and settlements to the ground. " 27 "My warning": the warning that was being given through the Holy Prophet (upon whom be peace) and the Qur'an to the disbelievers of Makkah to the effect: "If you do not refrain from your disbelief and polytheism and do not accept the message of Tauhid being given to you, you will be overtaken by the scourge of God."

سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :26 مراد یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ اس زمین پر تمہارا بقا اور تمہاری سلامتی ہر وقت اللہ تعالی کے فضل پر منحصر ہے ۔ اپنے بل بوتے پر تم یہاں مزے سے نہیں دندنا رہے ہو ۔ تمہاری زندگی کا ایک ایک لمحہ جو یہاں گزر رہا ہے ، اللہ کی حفاظت اور نگہبانی کار ہین منت ہے ۔ ورنہ کسی وقت بھی اس کے ایک اشارے سے ایک زلزلہ ایسا آ سکتا ہے کہ یہی زمین تمہارے لیے آغوش مادر کے بجائے قبر کا گڑھا بن جائے ، یا ہوا کا ایسا طوفان آ سکتا ہے جو تمہاری بستیوں کو غارت کر کے رکھ دے ۔ سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :27 تبیہ سے مراد وہ تنبیہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پاک کے ذریعہ سے کفار مکہ کو کی جا رہی تھی کہ اگر کفر و شرک سے باز نہ آؤ گے اور اس دعوت توحید کو نہ مانو گے جو تمہیں دی جا رہی ہے تو خدا کے عذاب میں گرفتار ہو جاؤ گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(67:17) ام امنتم میں ام بمعنی ہل استفہامیہ ہے اور استفہام انکاری ہے یعنی نہیں ہونا چاہیے۔ امنتم : ماضی جمع مذکر حاضر امن (باب سمع) مصدر (ملاحظہ ہو 67:16 متذکرۃ الصدر) یرسل : مضارع منصوب (بوجہ عمل ان) واحد مذکر غائب ارسال (افعال) مصدر وہ بھیجے، وہ بھیج دے۔ خاصبا : (منصوب بوجہ مفعول فعل یرسل کا) حصب (باب ضرب ونصر) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر۔ کنکریاں اڑانے والی تیز ہوا۔ باد سنگ بار۔ سخت آندھی، حصبا کنکریاں ۔ حصب کنکر۔ ایندھن ۔ جیسے انکم وما تعبدون من دون اللہ حسب جھنم (21:98) تم اور جن کی تم خدا کے سوا عبادت کرتے ہو دوزخ کا ایندھن ہوں گے۔ فستعلمون : ف عاطفہ س مضارع پر داخل ہوکر اس کو خالص مستقبل کے معنی میں کردیتا ہے تو تمہیں معلوم ہوجائے گا۔ اس کا عطف کلام سابق کے مضمون پر ہے یعنی میں تم کو ڈراتا ہوں اور جب تم کود عذاب کو دیکھ لوگے تو تمہیں معلوم ہوجائے گا۔ کیف نذیر : کیف حرف استفہام ہے بمعنی کیسا، کس طرح، کیونکر۔ نذیر اصل میں نذیری تھا۔ (مضاف مضاف الیہ) ی ضمیر واحد متکلم ساقط ہوگئی۔ کسرہ ی کے حذف ہوجانے کی دلیل ہے۔ میرا ڈرانا۔ نذیر یہاں بطور مصدر مستعمل ہے بمعنی انذار۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 جیسا کہ اس نے قوم لوط اور اصحاب فیل پر پتھرائو کیا۔9 یعنی سچ تھا یا جھوٹ ؟ لیکن تمہارا اس وقت جاننا تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا، لہٰذا اس وقت جو مہلت تمہیں مل رہی ہے اس سے فائدہ اٹھائو اور توبہ کرو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی مقتضاء تمہارے کفر کا یہی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا کہ تمہارے سامنے یہ ہمارا رسول ایمان کی دعوت پیش کرتا ہے اس کی بات مانو اور فرمانبرداری کرو۔ اس کی دعوت پر کان نہ دھرنے اور قبول نہ کرنے سے آسمان سے بھی عذاب آسکتا ہے اور زمین سے بھی جس ذات پاک کا حکم آسمانوں میں نافذ ہے کیا تم اس کی طرف سے نڈر ہوگئے ہو کہ وہ تمہیں زمین میں دھنسا دے۔ یہی زمین جس کو تمہارے قابو میں دیا ہے وہ اسی زمین کو تمہارے لیے ہلاکت اور عذاب کا سبب بنا سکتا ہے وہ اس زمین میں شگاف ڈال کر تمہیں اس میں دھنسانے لگے تو زمین تھرتھرا کر الٹ پلٹ ہونے لگے گی جس سے تم اس کے اندر چلے جاؤ گے اور اس ذات پاک کو یہ بھی قدرت ہے جس کا آسمان میں حکم اور تصرف جاری ہے کہ تم پر وہ ایک سخت ہوا بھیج دے زمین کے اوپر ہوا چلتی ہے یہاں سے وہاں جاتی ہے۔ عام حالات میں معتدل رہتی ہے کبھی تیز بھی ہوجاتی ہے لیکن عام طور سے اس کی رفتار میں اتنی تیزی نہیں ہوتی کہ لوگوں کو اٹھا کر پھینک دے اس کے خالق اور مالک جل مجدہ کو پوری طرح قدرت حاصل ہے کہ وہ ہوا کو خوب زیادہ تیز چلا دے جو زمین پر بسنے والوں کو تہس نہس کر دے جو لوگ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو قبول نہیں کرتے انہیں اس سے ڈرنا چاہیے کہ وہ ہوا کے ذریعہ تمہیں ختم نہ کر دے جیسا کہ بعض گزشتہ امتوں پر ہوا کا عذاب آیا تھا۔ ﴿فَسَتَعْلَمُوْنَ كَيْفَ نَذِيْرِ ٠٠١٧﴾ (سو عنقریب تم جان لو گے کہ میرا ڈرانا کیسا تھا) اگر دنیا میں عذاب نہ آیا تو یہ نہ سمجھا جائے کہ یہاں سے صحیح سالم گزر گئے گرفت نہیں، موت کے بعد جو کفر پر عذاب ہوگا وہ بہت سخت ہوگا۔ اس وقت سمجھ میں آئے گا کہ رسولوں کے ذریعہ جو اللہ تعالیٰ نے دین بھیجا تھا وہ حق تھا، ہم جو اس کے منکر ہوئے خود اپنا ہی برا کیا اور عذاب شدید میں گرفتار ہوئے ﴿ وَ لَقَدْ كَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيْرِ ٠٠١٨﴾ (اور ان سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں انہوں نے حق کو جھٹلایا سو کیسا تھا میرا عذاب۔ پرانے مکذبین (جھٹلانے والوں) کا انجام تمہیں معلوم ہے اس سے عبرت حاصل کرلو۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(17) کیا تم لوگ اس سے بےخوف اور نڈر ہوگئے ہو جو آسمان میں بھی حکمراں اور متصرف ہے کہ وہ تم پر پتھر برسانے والی ہوا بھیج دے اب عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا کہ میرا ڈرانا کیسا ہوا اور کیونکر تھا۔ یعنی جس کی حکومت دونوں جہان پر یکساں ہے وہ اگر چاہے تو تم پر ایسی ہوا اور آندھی بھیجے جو پتھر برسانے والی ہو۔ بہرحال اگر تم اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرو گے اور اس کے رسولوں کی مخالفت کرتے رہو گے تو تم کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ میراڈرانا کیسا تھا یعنی اگر دنیا میں کوئی عذاب عاجل نہ آیا تو مرتے ہی معلوم ہوجائیگا کہ میرا عذاب سے تم کو ڈرانا کیسا تھا۔