Surat ul Mulk

Surah: 67

Verse: 18

سورة الملك

وَ لَقَدۡ کَذَّبَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ فَکَیۡفَ کَانَ نَکِیۡرِ ﴿۱۸﴾

And already had those before them denied, and how [terrible] was My reproach.

اور ان سے پہلے لوگوں نے بھی جھٹلایا تھا تو دیکھو ان پر میرا عذاب کیسا ہوا؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَقَدْ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ... And indeed those before them rejected, meaning, from the previous nations and the old generations that have passed. Then Allah says, ... فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ then how terrible was My reproach? meaning, `how was My rebuke of them and my punishment of them.' Meaning, it was great, severe and painful. The flight of Birds is by the Power of Allah and it is a Proof that He sees everything small and large Allah says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ۔۔۔۔: تاریخ سے عبرت حاصل کرنے کے لیے پہلے لوگوں کا خیال دیکھ لو۔ عرب میں عاد وثمود ، فرعون و قارون اور قوم لوط و شعیب کے واقعات معروف تھے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ كَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيْرِ۝ ١٨ ( قَدْ ) : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] ، قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] ، قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] ، لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] ، وغیر ذلك، ولما قلت لا يصحّ أن يستعمل في أوصاف اللہ تعالیٰ الذّاتيّة، فيقال : قد کان اللہ علیما حكيما، وأما قوله : عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] ، فإنّ ذلک متناول للمرض في المعنی، كما أنّ النّفي في قولک : ما علم اللہ زيدا يخرج، هو للخروج، وتقدیر ذلک : قد يمرضون فيما علم الله، وما يخرج زيد فيما علم الله، وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة . نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ . و ( قَدْ ) و ( قط) «2» يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر . ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف/ 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے ۔ قَدْ كانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ [ آل عمران/ 13] تمہارے لئے دوگرہوں میں ۔۔۔۔ ( قدرت خدا کی عظیم الشان ) نشانی تھی ۔ قَدْ سَمِعَ اللَّهُ [ المجادلة/ 1] خدا نے ۔۔ سن لی ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ( اے پیغمبر ) ۔۔۔۔۔ تو خدا ان سے خوش ہوا ۔ لَقَدْ تابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ [ التوبة/ 117] بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی ۔ اور چونکہ یہ فعل ماضی پر تجدد کے لئے آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے اوصاف ذاتیہ کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا ۔ لہذا عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضى [ المزمل/ 20] کہنا صحیح نہیں ہے اور آیت : اس نے جانا کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں ۔ میں قد لفظا اگر چہ علم پر داخل ہوا ہے لیکن معنوی طور پر اس کا تعلق مرض کے ساتھ ہے جیسا کہ ، ، میں نفی کا تعلق خروج کے ساتھ ہے ۔ اور اس کی تقدریروں ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور/ 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے كيف كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] . ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔ نكر الإِنْكَارُ : ضِدُّ العِرْفَانِ. يقال : أَنْكَرْتُ كذا، ونَكَرْتُ ، وأصلُه أن يَرِدَ علی القَلْبِ ما لا يتصوَّره، وذلک ضَرْبٌ من الجَهْلِ. قال تعالی: فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود/ 70] ، فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] وقد يُستعمَلُ ذلک فيما يُنْكَرُ باللّسانِ ، وسَبَبُ الإِنْكَارِ باللّسانِ هو الإِنْكَارُ بالقلبِ لکن ربّما يُنْكِرُ اللّسانُ الشیءَ وصورتُه في القلب حاصلةٌ ، ويكون في ذلک کاذباً. وعلی ذلک قوله تعالی: يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل/ 83] ، فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ ( ن ک ر ) الانکار ضد عرفان اور انکرت کذا کے معنی کسی چیز کی عدم معرفت کے ہیں اس کے اصل معنی انسان کے دل پر کسی ایسی چیز کے وارد ہونے کے ہیں جسے وہ تصور میں نہ لاسکتا ہو لہذا یہ ایک درجہ جہالت ہی ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود/ 70] جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہین جاتے ( یعنی وہ کھانا نہین کھاتے ۔ تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا ۔ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] تو یوسف (علیہ السلام) کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ اس کو نہ پہچان سکے ۔ اور کبھی یہ دل سے انکار کرنے پر بولا جاتا ہے اور انکار لسانی کا اصل سبب گو انکار قلب ہی ہوتا ہے ۔ لیکن بعض اوقات انسان ایسی چیز کا بھی انکار کردیتا ہے جسے دل میں ٹھیک سمجھتا ہے ۔ ایسے انکار کو کذب کہتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ۔ يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل/ 83] یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں مگر واقف ہوکر ان سے انکار کرتے ہیں ۔ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [ المؤمنون/ 69] اس وجہ سے ان کو نہیں مانتے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

28 The allusion is to the communities who had belied the Messengers, who had come to them previously and consequently been afflicted with Divine punishment.

سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :28 اشارہ ہے ان قوموں کی طرف جو اپنے ہاں آنے والے انبیاء کو جھٹلا کر اس سے پہلے مبتلائے عذاب ہو چکی تھیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(67:18) ولقد کذب الذین من قبلہم فکیف کان نکیر : قبلہم میں ہم ضمیر کا مرجع کفار مکہ ہیں۔ پہلا کلام خطابی ہے اور اب یہ کلام بصورت غائب، یہ التفات ضمائر کفار مکہ کی مسلسل روگردانی کے پیش نظر نفرت اور ناگوارہ کے اظہار کے لئے اختیار کیا گیا ہے۔ والالتفات الی الغیبۃ لابراز الاعراض عنہم (روح المعانی) الذین من قبلہم سے مراد وہ قومیں ہیں جو کفار مکہ سے قبل ہو گزریں اور جنہوں نے پیغمبروں کا جھٹلایا۔ مثلا قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود ، وغیرہ۔ فکیف کان نکیر سے قبل جملہ مقدرہ ہے۔ ” تم خود دیکھ لو “ میرا انکار کیسا تھا۔ اس کی ترکین نحوی مثل کیف کان نذیر ہے۔ لغات القرآن میں جمل، روح المعانی کے حوالہ سے نکیر کی تشریح یوں تحریر ہے :۔ نکیر، مصدر بمعنی انکار اصل میں نکیری تھا انکار سے مراد ان آیات میں زبانی یا دلی انکار نہیں بلکہ ان کی حالت کو برعکس اور مخالف حالت سے بدل ڈالنا مراد ہے یعنی تغییر الضد بالضد مثلا زندگی کو موت سے آبادی کو دیرانی سے بدل ڈالنا۔ (جمل) کس سخت، ہیبت ناک، دشوار مصیبت میں مبتلا کردینا ہی اللہ کی طرف سے انکار کرنے کا معنی ہے (روح المعانی)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 ” نکیر “ (عذاب) دراصل اس انتقامی کارروائی کو کہتے ہیں جو کسی کے خلاف اس کے طرز عمل کو غلط اور ناپسندیدہ سمجھ کر کی جاتی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ اس سے صاف معلوم ہوا کہ کفر مبغوض ہے، پس اگر کسی حکمت سے یہاں عذاب تل گیا تو دوسرے عالم میں حسب وعید واقع ہوگا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولقد کذب .................... نکیر (٧٦ : ٨١) ” ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگ جھٹلا چکے ہیں۔ پھر دیکھ لو کہ میری گرفت کیسی سخت تھی “۔ نکسیر کا مفہوم ہے غصہ اور سرزنش اور اس کے نتیجے میں آنے والی سزا۔ ان کو وہ واقعات معلوم ہیں کہ اللہ نے امم سابقہ کو پکڑا۔ انہی سے پوچھا جاتا ہے کہ تم ہی بتاﺅ کہ پکڑ کیسے رہی۔ فکیف کان نکیر (٧٦ : ٨١) ” کیونکہ آثار ان کے سامنے تھے۔ لہذا وہ جانتے کہ عذاب کیسا رہا۔ یہاں اللہ ان کی جس بےخوفی پر تنبیہ فرماتا ہے وہ ایسی بےخوفی ہے ، جس میں انسان اللہ سے غافل ہوجائے۔ ایسا امان ہے جس کے نتیجے میں انسان کے دل سے اللہ کی قدرت کا ڈر نکل جائے اور اللہ کی عظمت کا خیال نہ رہے۔ اس بےخوفی سے مراد وہ امن و اطمینان کی حالت نہیں ہے جو ذکر الٰہی کے نتیجے میں انسان کو حاصل ہوتی ہے۔ جو اللہ کی رحمت اور اس کی نگہبان کے یقین سے نصیب ہوتا ہے۔ مومن اللہ کی رحمت اور فضل کا امیدوار ہوتا ہے۔ لیکن غافل نہیں ہوتا۔ اللہ کو یاد کرنے والا مومن تو ہر وقت اس کی طرف نظریں اٹھائے ہوئے ہوتا ہے۔ اس سے حیا کرتا ہے ، اس کے غضب سے ڈرتا ہے۔ اور ہر وقت دعا کرتا ہے کہ اے اللہ تیری تقدیر میں میرے لئے جو مشکل لکھی ہے اس سے بچا اور عافیت نصیب کر۔ وہ ہر وقت ڈرتا ہے۔ امام احمد نے اپنی اسناد کے ساتھ حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : ” میں نے رسول اللہ کو کھبی بےفکری کی حالت میں یوں ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کی حلق کا کوا نظرآتا ہو۔ آپ صرف تبسم فرماتے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوں تھے کہ جب کوئی بادل دیکھتے یا تند ہوا دیکھتے تو آپ کے چہرے پر اثر ہوجاتا۔ تو میں نے کہا کہ اے رسول خدا لوگ جب بادل دیکھتے ہیں یا ہوا دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں اس امید پر کہ اس میں بارش ہوگی۔ اور میں دیکھتی ہوں کہ آپ جب ان چیزوں کو دیکھتے تو آپ کے چہرے پر کراہیت کے آثار نظر آتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” اے عائشہ .... اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اس میں عذاب الٰہی نہ ہو ، بعض اقوام کو ہوا سے عذاب دیا گیا ، ” ایک قوم نے عذاب دیکھا اور کہا یہ ہے بادل جو ہم پر بارش کردے گا “۔ (صحیحین) یہ ہے دائمی جاگتا احساس ، اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے نظام قضاوقدر کے بارے میں اور احادیث میں آپ کی سیرت سے بھی نقل ہوا ہے ، یہ احساس اللہ کی رحمت پر اطمینان اور اللہ کے فضل کی امیدواری کے خلاف نہیں ہے۔ یوں آیات میں بتایا جاتا ہے کہ تمام ظاہر اسباب کا ایک مسبب الاسباب ہے۔ تمام اسباب اول کی طرف لوٹایا جاتا ہے۔ اور وہ ذات باری ہے ، جس کے ہاتھ میں پوری بادشاہت ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ لہٰذا کسی گاﺅں کو زمین میں دھنسا دینا ، کسی کو آتش فشاں کی زد میں لانا ، کسی بستی کو زلزلے سے تباہ کردینا ، اور کسی بستی کو تیز ہواﺅں کی زد میں لانا صرف اللہ کی قدرت میں ہے۔ اور ان کے علاوہ یہ تمام کائناتی قوتیں اور یہ تمام طبیعیاتی قوتیں کیا کسی انسان کے ہاتھ میں ہیں۔ ان کا معاملہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ ان کے بارے میں جو اسباب گنواتے ہیں۔ وہ تو محض مفروضے ہیں جن کے ذریعہ انسان ان واقعات کی کوئی معقول تشریح کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان واقعات میں ان کا دخل وعمل کوئی نہیں ہوتا۔ اور نہ اپنے آپ کو ان واقعات سے بچا سکتے ہیں۔ اور انسان اس زمین کی پشت پر جو تبدیلیاں لاتے ہیں وہ ایک ہی جھٹکے سے نیست ونابود ہوجاتی ہیں۔ ایک آندھی اٹھتی ہے جس میں آگ ہوتی ہے تو وہ بھسم کرکے رکھ دیتی ہے۔ گویا کہ یہ کاغذی کھیل تھا۔ لہٰذا لوگوں کو چاہئے کہ وہ ہر معاملے کو صرف خالق کائنات کی طرف لوٹائیں اور اسے ہی تما حادثات کا سبب اول سمجھیں ، اسے ہی ان قوانین قدرت کا جاری کرنے والا سمجھیں جن کے مطابق کائنات چلائی جاتی ہے۔ اور وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوں کیونکہ آسمان ہی علامت بلندی ہے۔ اور یوں اللہ کو یاد کریں جس کے ہاتھ میں سب بادشاہیاں ہیں اور وہ سب چیزوں پر قاد رہے۔ انسان کے اندر جو قوت ہے وہ وہی ہے جو اسے خالق نے بخشی ہے۔ اس کے پاس وہی علم ہے جو خالق نے اسے دیا ہے۔ لیکن اس پوری کائنات کی زمام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اور اس کائنات کے قوانین اس اللہ کے بنائے ہوئے ہیں۔ اور اس کے اندر جو قوتیں ہیں وہ اللہ کی مدد کی وجہ سے ہیں۔ اور یہ قوتیں اللہ کے نظام قضا وقدر کے مطابق چلتی ہیں ان سے جو تکلیف انسان کو پہنچتی ہے ، ان سے جو نعمتیں انسان کو پہنچتی ہیں اور وقتاً فوقتاً جو واقعات وحادثات اس کائنات میں انسان کو پیش آتے رہتے ہیں وہ سب اللہ کی طرف سے ہیں اور جو بڑے بڑے حادثات انسان کو اس دنیا میں پیش آتے ہیں اور جن کے سامنے انسان بےبس کھڑا ہوتا ہے اور نہایت ہی بڑا نقصان اٹھاتا ہے ان کے جواب میں انسان صرف یہ کرسکتا ہے کہ وہ اللہ خالق کائنات کو یاد کرے اور اس کے سامنے دست بدعا ہو۔ جس نے ان قوتوں کو انسان کے لئے مسخر کیا ہے اور صرف اللہ سے معاونت طلب کرے کہ وہ ان قوتوں کو انسان کے لئے مسخر کردے۔ اور انسان جب اس حقیقت کو بھول جاتا ہے اور غرے میں مبتلا ہوکر دھوکہ کھا جاتا ہے اور اکڑتا ہے کہ اس نے تو اس کائنات کی بعض قوتوں کو مسخر کرلیا ہے ، تو ایسا شخص دراصل حقیقی علم سے دور ہوجاتا ہے اور اس کا رابطہ اب حقیقی علم سے کٹ جاتا ہے حالانکہ یہ حقیقی علم اسے اعلیٰ سرچشمے تک بلند کرتا ہے۔ اس طرح وہ مسخ ہوکر زمین پر گر جاتا ہے جبکہ حقیقی علم رکھنے والا شخص جو سچا مومن ہوتا ہے ، وہ سرنگوں ہوتا ہے لیکن وہ اس کائنات کے وسیع میلے تک رسائی حاصل کرلیتا ہے ، اس کا رابطہ باری تعالیٰ تک ہوجاتا ہے ۔ یہ ہے وہ رحمت خداوندی جس کا مزا وہی شخص لے سکتا ہے جس پر یہ رحمت ہوئی ہو اور یہ رحمت خداوندی اس شخص پر ہوتی ہے جس کے لئے اللہ لکھ دے۔ لیکن انسان جس پدر چاہے غرور کرے ، اس کائنات کی قوتیں اسے مجبور کردیتی ہیں کہ وہ عجز و انکسار کے ساتھ اپنی بےبسی کا اعتراف کرلے ، چاہے وہ حقیقی علم سے لذت آشنا ہو یا نہ ہو۔ وہ نئے نئے انکشافات کرتا ہے اور نئی نئی طبعی قوتیں کی تسخیر کرتا ہے ، اس کے بعد جب وہ کائناتی سرکش قوتوں کا کبھی سامنا کرتا ہے تو وہ اپنی عاجزی تسلیم کرلیتا ہے اور نہایت ذلت کے ساتھ تسلیم کرتا ہے۔ ٹھیک ہے کہ کبھی وہ تندطوفان سے کسی پناہ گاہ میں چھپ جاتا ہے لیکن یہ طوفان نہایت سرکشی سے اس کے اوپر سے گزرتا ہے اور یہ اس کی راہ نہیں روک سکتا۔ زیادہ سے زیادہ وہ جو کرسکتا ہے ، وہ یہ ہے کہ طوفان کی زد سے بچ سکتا ہے۔ لیکن یہ بھی کبھی کبھار۔ بعض اوقات یہ قوتیں اس قدر سرکش ہوتی ہیں کہ دیواروں سے پیچھے اور تہہ خانوں کے اندر اسے ہلاک کردیتی ہیں اور کبھی جب اس کو سمندر کی سرکشی سے واسطہ پڑتا ہے تو اس بڑے جہاز موجوں اور بگولوں کے اندر آکر غرق ہوجاتے ہیں اور یوں نظر آتے ہیں جس طرح بچوں کا کوئی کھیل تھا۔ رہے زلزلے اور آتش فشاں تو وہ تو اول روز سے آج تک ناقابل کنٹرول ہیں۔ یہ صرف عقل کا اندھا پن ہے جو کسی انسان کو یہ باور کراسکتا ہے کہ وہ اللہ کے سوا اکیلا بھی یہاں رہ سکتا ہے یا یہ کہ وہ اس کائنات کا مالک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اس زمین میں خدا کا نائب اور خلیفہ ہے۔ اور اسے علم ، قوت اور قدرت اسی قدر دی گئی جس قدر اللہ نے چاہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں اس کا محافظ اور نگہبان اللہ ہی ہے۔ وہ رازق بھی ہے اور معطی بھی ہے۔ اگر اللہ کا دست قدرت ایک لحظہ کے لئے بھی اس کی نگہبانی چھوڑ دے تو اس دنیا کی طبیعی قوتیں اسے ایک سیکنڈ کے اندر پیس کر رکھ دیں۔ بلکہ صرف مکھیاں اور چیونٹیاں ہی اسے کھا جائیں۔ لیکن وہ اللہ کے حکم سے یہاں محفوظ ہے اور معزز ہے۔ لہٰذا اسے معلوم ہونا چاہئے کہ یہ شرف وکرم کہاں سے اخذ کرتا ہے ، یہ تو اللہ کا فضل ہے جو اسے دیا گیا ہے۔ اب ڈراوے اور تنبیہ کے بعد اسے دوبارہ غور وفکر کی دعوت دی جاتی ہے۔ اور یہ ایک ایسے منظر میں جسے وہ بہت دیکھتا رہتا ہے ، ہر وقت دیکھتا رہتا ہے لیکن یہ انسان اس پر کم ہی غور کرتا ہے۔ حالانکہ وہ منظر قدرت الٰہی کا ایک بہت بڑا مظہر ہے اور اگر وہ اس پر غور کرے تو بہت کچھ اس سے سیکھ سکتا ہے۔ کیونکہ یہ اللہ کی قدرت کے آثار میں سے ایک عجیب اثر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(18) اور بلا شبہ جو لوگ ان سے پہلے ہوگزرے ہیں وہ بھی پیغمبروں کی تکذیب کرچکے ہیں پھر دیکھ لو میرے انکار کا انجام ان کے حق میں کیسا ہوا۔ یعنی ان پہلے لوگوں نے رسولوں کو جھٹلایا اور میں ان کی حرکات ناشائستہ پر انکار کیا پھر اس انکار کا انجام جو کچھ ہوا وہ تاریخی اعتبار سے تمہارے سامنے ہے۔ اوپر کی آیتوں میں اپنے انعامات اور احسانات کی جانب توجہ دلائی تھی ان آیتوں میں تنبیہہ فرمائی اور اپنی گرفت اور عذاب سے ڈرا۔ اب آگے پھر دلائل قدرت پر توجہ دلاتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے بعض نے نکیر کا ترجمہ عذاب بھی کیا ہے عام مفسرین نے انکاری علیہم سے تفسیر کی ہے لیکن اپنے اکابر میں سے بعض حضرات نے انکار ہم علی سے تفسیر فرمائی ہے حضرت حق جل مجدہ کا انکار یہی کہ اس کے اوامر کی مخالفت پر اس کی ناراضگی اور بندوں کا انکار یہ کہ اس کے احکام کی تعمیل سے روگردانی کریں۔ بہرحال ہم نے ترجمہ اور تیسیر میں دونوں باتوں کی رعایت رکھی ہے۔ فتامل