Surat ul Qalam

Surah: 68

Verse: 19

سورة القلم

فَطَافَ عَلَیۡہَا طَآئِفٌ مِّنۡ رَّبِّکَ وَ ہُمۡ نَآئِمُوۡنَ ﴿۱۹﴾

So there came upon the garden an affliction from your Lord while they were asleep.

پس اس پر تیرے رب کی جانب سے ایک بلا چاروں طرف گھوم گئی اور یہ سو ہی رہے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Then there passed over it a Ta'if from your Lord while they were asleep. meaning, it was afflicted with some heavenly destruction. فَأَصْبَحَتْ كَالصَّرِيمِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 بعض کہتے ہیں، راتوں رات اسے آگ لگ گئی، بعض کہتے ہیں، جبرائیل (علیہ السلام) نے آکر اسے تہس نہس کردیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَطَافَ عَلَیْہَا طَآئِفٌ مِّنْ رَّبِّکَ ۔۔۔۔:” طائف “ پھرجانے والا ، چکر لگانے والا ۔ مراد اللہ کی طرف سے اچانک عذاب ہے جس کے ایک ہی چکر سے باغ کا نام و نشان مٹ گیا ، یعنی رات باغ کو آگ لگ گئی اور صبح زمین صاف تھی ، جس طرح کھیتی کٹنے کے بعد ہوتی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَطَافَ عَلَيْهَا طَائِفٌ مِّن رَّ‌بِّكَ (Then, there whirled around it a whirl (of calamity) from your Lord, while they were asleep….68:19). The word &whirl& refers to &a whirl of calamity& as a result of which Divine punishment overtook the garden in a sudden and swift sweep. Some narratives report that it was a fire which burnt every standing crop, and reduced it to black ashes. وَهُمْ نَائِمُونَ (...while they were asleep.... 68:19). In other words, the devastating disaster overtook the entire garden while its owners were asleep.

(آیت) فَطَافَ عَلَيْهَا طَاۗىِٕفٌ مِّنْ رَّبِّكَ (پھر پھر گیا اس کی اور باغ پر ایک پھرنے والا آپ کے رب کی طرف سے پھرنے والے سے مراد کوئی بلا اور آفت ہے جس سے کھیتی اور باغ تباہ ہوجائے۔ بعض روایات میں ہے کہ وہ ایک آگ تھی جس نے سب کھڑی کھیتی کو جلا کر خاک سیاہ کردیا وھم تائمون یعنی یہ واقعہ نزول عذاب کا رات کو اس وقت ہوا جبکہ یہ لوگ محو خواب تھے فَاَصْبَحَتْ كَالصَّرِيْمِ صرم کے معنی پھل وغیرہ کاٹنے کے ہیں۔ صریم بمعنے مصروم و مقطوع ہے مطلب یہ ہے کہ آگ نے اس کھیتی کو ایسا بنادیا کہ جیسے کھیتی کاٹ لینے کے بعد صاف زمین رہ جاتی ہے اور صریم کے معنی رات کے بھی آتے ہیں اس معنے کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ جیسے رات تاریک سیاہ ہوتی ہے یہ کھیتی بھی خاک سیاہ ہوگئی (مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَطَافَ عَلَيْہَا طَاۗىِٕفٌ مِّنْ رَّبِّكَ وَہُمْ نَاۗىِٕمُوْنَ۝ ١٩ طوف الطَّوْفُ : المشيُ حولَ الشیءِ ، ومنه : الطَّائِفُ لمن يدور حول البیوت حافظا . يقال : طَافَ به يَطُوفُ. قال تعالی: يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدانٌ [ الواقعة/ 17] ، قال : فَلا جُناحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِما[ البقرة/ 158] ، ومنه استعیر الطَّائِفُ من الجنّ ، والخیال، والحادثة وغیرها . قال : إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ [ الأعراف/ 201] ، وهو الذي يدور علی الإنسان من الشّيطان يريد اقتناصه، وقد قرئ : طيف «4» وهو خَيالُ الشیء وصورته المترائي له في المنام أو الیقظة . ومنه قيل للخیال : طَيْفٌ. قال تعالی: فَطافَ عَلَيْها طائِفٌ [ القلم/ 19] ، تعریضا بما نالهم من النّائبة، وقوله : أَنْ طَهِّرا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ [ البقرة/ 125] ، أي : لقصّاده الذین يَطُوفُونَ به، والطَّوَّافُونَ في قوله : طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلى بَعْضٍ [ النور/ 58] عبارة عن الخدم، وعلی هذا الوجه قال عليه السلام في الهرّة : (إنّها من الطَّوَّافِينَ عليكم والطَّوَّافَاتِ ) «5» . وَالطَّائِفَةُ من الناس : جماعة منهم، ومن الشیء : القطعة منه، وقوله تعالی: فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] ، قال بعضهم : قد يقع ذلک علی واحد فصاعدا «1» ، وعلی ذلک قوله : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] ، والطَّائِفَةُ إذا أريد بها الجمع فجمع طَائِفٍ ، وإذا أريد بها الواحد فيصحّ أن يكون جمعا، ويكنى به عن الواحد، ويصحّ أن يجعل کراوية وعلامة ونحو ذلك . والطُّوفَانُ : كلُّ حادثة تحیط بالإنسان، وعلی ذلک قوله : فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف/ 133] ، وصار متعارفا في الماء المتناهي في الکثرة لأجل أنّ الحادثة التي نالت قوم نوح کانت ماء . قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت/ 14] ، وطَائِفُ القوسِ : ما يلي أبهرها «2» ، والطَّوْفُ كُنِيَ به عن العَذْرَةِ. ( ط و ف ) الطوف ( ن ) کے معنی کسی چیز کے گرد چکر لگانے اور گھومنے کے ہیں ۔ الطائف چوکیدار جو رات کو حفاظت کے لئے چکر لگائے اور پہرہ دے طاف بہ یطوف کسی چیز کے گرد چکر لگانا گھومنا ۔ قرآن میں ہے : يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدانٌ [ الواقعة/ 17] نوجوان خدمت گزار جو ہمیشہ ایک ہی حالت میں رہیں گے ان کے آس پاس پھیریں گے ۔ فَلا جُناحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِما[ البقرة/ 158] اس پر کچھ گناہ نہیں کہ دونوں کا طواف کرے ۔ اور اسی سے بطور استعارہ جن خیال ، حادثہ وغیرہ کو بھی طائف کہاجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :إِذا مَسَّهُمْ طائِفٌ مِنَ الشَّيْطانِ [ الأعراف/ 201] جب ان کو شیطان کیطرف سے کوئی وسوسہ پیدا ہوتا ہے ۔ میں طائف سے وہ شیطان مراد ہے جو انسان کا شکار کرنے کے لئے اس کے گرد چکر کاٹتا رہتا ہے ایک قرآت میں طیف ہے ، جس کے معنی کسی چیز کا خیال اور اس صورت کے ہے جو خواب یابیداری میں نظر آتی ہے اسی سے خیال کو طیف کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ : فَطافَ عَلَيْها طائِفٌ [ القلم/ 19] کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے ( راتوں رات ) اس پر ایک آفت پھر گئی ۔ میں طائف سے وہ آفت یا حادثہ مراد ہے جو انہیں پہنچا تھا ۔ اور آیت کریمہ : أَنْ طَهِّرا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ [ البقرة/ 125] طواف کرنے والوں ۔۔۔ کے لئے میرے گھر کو صاف رکھا کرو۔ میں طائفین سے مراد وہ لوگ ہیں جو حج یا عمرہ کرنے کے لئے ) بیت اللہ کا قصد کرتے اور اس کا طواف کرتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلى بَعْضٍ [ النور/ 58] اور نہ ان پر جو کام کے لئے تمہارے اردگرد پھرتے پھراتے رہتے ہیں ۔ میں طوافون سے نوکر چاکر مراد ہیں ( جنہیں خدمت گزاری کے لئے اندروں خانہ آنا جا نا پڑتا ہے ) اسی بنا پر بلی کے متعلق حدیث میں آیا ہے (33) انما من الطوافین علیکم والطوافات ۔ کہ یہ بھی ان میں داخل ہے جو تمہارے گرد پھرتے پھراتے رہتے ہیں ۔ الطائفۃ (1) لوگوں کی ایک جماعت (2) کسی چیز کا ایک ٹکڑہ ۔ اور آیت کریمہ : فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ [ التوبة/ 122] تویوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں چند اشخاص نکل جاتے تاکہ دین کا علم سیکھتے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ کبھی طائفۃ کا لفظ ایک فرد پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الحجرات/ 9] ، اور اگر مومنوں میں سے کوئی دوفریق ۔۔۔ اور آیت کریمہ :إِذْ هَمَّتْ طائِفَتانِ مِنْكُمْ [ آل عمران/ 122] اس وقت تم میں سے دو جماعتوں نے چھوڑ دینا چاہا ۔ طائفۃ سے ایک فرد بھی مراد ہوسکتا ہے مگر جب طائفۃ سے جماعت مراد لی جائے تو یہ طائف کی جمع ہوگا ۔ اور جب اس سے واحد مراد ہو تو اس صورت میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جمع بول کر مفر د سے کنایہ کیا ہو اور یہ بھی کہ راویۃ وعلامۃ کی طرح مفرد ہو اور اس میں تا برائے مبالغہ ہو ) الطوفان وہ مصیبت یا حادثہ جو انسان کو چاروں طرف سے گھیرے اس بنا پر آیت کریمہ ؛فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف/ 133] تو ہم ان پر طوفان ( وغیرہ کتنی کھلی ہوئی نشانیاں بھیجیں ۔ میں طوفان بمعنی سیلاب بھی ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ نوح (علیہ السلام) کی قوم پر جو عذاب آیا تھا ۔ وہ پانی کی صورت میں ہی تھا اور دوسری جگہ فرمایا : فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت/ 14] پھر ان کو طوفان کے عذاب ) نے آپکڑا ۔ طائف القوس خانہ کمان جو گوشہ اور ابہر کے درمیان ہوتا ہے ۔ الطوف ( کنایہ ) پلیدی ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ نوم النّوم : فسّر علی أوجه كلّها صحیح بنظرات مختلفة، قيل : هو استرخاء أعصاب الدّماغ برطوبات البخار الصاعد إليه، وقیل : هو أن يتوفّى اللہ النّفس من غير موت . قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ الآية [ الزمر/ 42] . وقیل : النّوم موت خفیف، والموت نوم ثقیل، ورجل نؤوم ونُوَمَة : كثير النّوم، والمَنَام : النّوم . قال تعالی: وَمِنْ آياتِهِ مَنامُكُمْ بِاللَّيْلِ [ الروم/ 23] ، وَجَعَلْنا نَوْمَكُمْ سُباتاً [ النبأ/ 9] ، لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] والنُّوَمَة أيضا : خامل الذّكر، واستنام فلان إلى كذا : اطمأنّ إليه، والمنامة : الثّوب الذي ينام فيه، ونامت السّوق : کسدت، ونام الثّوب : أخلق، أو خلق معا، واستعمال النّوم فيهما علی التّشبيه . ( ن و م ) النوم ۔ اس کی تفسیر گئی ہے اور مختلف اعتبارات سے تمام وجوہ صحیح ہوسکتی ہیں ۔ بعض نے کہا نے کہ بخارات کی رطوبت سی اعصاب دماغ کے ڈھیلا ہونے کا نام نوم ہے ۔ اور بعض کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا بغیر موت کے روح کو قبض کرلینے کا نام نوم ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ الآية [ الزمر/ 42] خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرے نہیں ان کی ( روحیں ) سوتے میں ( قبض کرلیتا ہے ) اور بعض نوم کو موت خفیف اور موت کو نوم ثقیل کہتے ہیں رجل نووم ونومۃ بہت زیادہ سونے والا اور منام بمعنی نوم آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَمِنْ آياتِهِ مَنامُكُمْ بِاللَّيْلِ [ الروم/ 23] اور اسی کے نشانات ( اور تصرفات ) میں سے ہے تمہارا رات میں ۔۔۔ سونا ۔ وَجَعَلْنا نَوْمَكُمْ سُباتاً [ النبأ/ 9] تمہارے لئے موجب آرام بنایا ۔ لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند ۔ نیز النومۃ کے معنی خامل لذکر یعني گم نام بھی آتے ہیں ۔ کہاجاتا ہے ۔ استنام فلان الی ٰکذا ۔ کسی چیز سے اطمینان حاصل کرنا ۔ منامۃ ۔ لباس خواب ۔ نامت السوق کساد بازاری ہونا ۔ نام الثوب ( لازم ومتعدی ) کپڑے کا پرانا ہونا یا کرنا ۔ ان دونون معنی میں نام کا لفظ تشبیہ کے طور مجازا استعمال ہوتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

“12 پھیرا کرنے والی بلا سے مراد آگ کا بگولا ہے جس نے رات کے وقت اس باغ کو جلا ڈالا بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت جبریل ہیں جنہوں نے باغ کے تمام درختوں کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا (شوکانی) حدیث میں ہے کہ گناہ سے بچو … بعض گناہ ایسے ہیں جن کی بدولت انسان اس رزق سے محروم ہوجاتا ہے جو اس کے لئے تیار کیا گیا ہے پھر آنحضرت نے یہ آیت تلاوت کی اور فرمایا یہ لوگ اپنے گناہ کی بدولت اپنے باغ کی پیداوار سے محروم ہوگئے۔ ( شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فطاف ............................ کالصریم (٠٢) (٨٦ : ٩١۔ ٠٢) ” رات کو وہ سوئے پڑے تھے کہ تمہارے رب کی طرف سے ایک بلا اس باغ میں پھر گئی اور اس کا ایسا حال ہوگیا جیسے کٹی ہوئی فصل ہو “۔ یعنی اس بلانے رات کو اس کے تمام پھل ختم کردیئے۔ لیکن اس باغ کا منظر اب نظروں سے ہٹا لیجئے .... اب ان لوگوں کا منظر سامنے آتا ہے جنہوں نے رات کو تدبیر کی تھی اور حلفیہ فیصلہ کیا تھا۔ یہ لوگ صبح سویرے ایک دوسرے پر آوازیں بھی دے رہے ہیں تاکہ وہ اپنے منصوبے پر عمل کریں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

11:۔ ” فطاف علہا “۔ طائف سے جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں جو عذاب الٰہی لے کر آئے تھے۔ یہ فیصلہ کر کے وہ سو گئے، رات کو اللہ نے اس پر ایسا عذاب نازل فرمایا کہ سارا باغ تباہ و برباد ہوگیا اور زمین اس طرح صاف ہوگئی جس طرح وہاں سے سب کچھ کاٹ لیا گیا ہو۔ ” فتنادوا مصبحین “ صبح ہونے کو ہوئی تو سب نے ایک دوسرے کو آوازز دی کہ پھل توڑنا ہے تو جلدی جلدی باغ میں پہنچو۔ چناچہ سب روانہ ہوئے اور آہستہ آہستہ ایک دوسرے سے کہتے جارہے تھے کہ آج کوئی مسکین ہمارے قریب نہ آنے پائے۔ ” وغدوا علی حرد قادرین “ حرد، روکنا اور نہ دینا۔ چناچہ جب وہ وہاں پہنچے تو وہ خوش تھے اور اپنے زعم میں سمجھ رہے تھے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہیں اور آج وہ مسکینوں کو کچھ بھی نہیں دیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(19) پس وہ پڑے سوتے ہی رہے اور آپ کا پروردگار کی جانب سے ایک چکر لگانے اور گھونے والا اس باغ کا چکر لگا گیا اور اس پر گھوم گیا۔ یعنی حضرت حق تعالیٰ کی طرف سے ایک آگ یا گرم لو کا عذاب آیا اور اس باغ پر پھر گیا۔