Surat ul Qalam
Surah: 68
Verse: 2
سورة القلم
مَاۤ اَنۡتَ بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ بِمَجۡنُوۡنٍ ۚ﴿۲﴾
You are not, [O Muhammad], by the favor of your Lord, a madman.
تو اپنے رب کے فضل سے دیوانہ نہیں ہے ۔
مَاۤ اَنۡتَ بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ بِمَجۡنُوۡنٍ ۚ﴿۲﴾
You are not, [O Muhammad], by the favor of your Lord, a madman.
تو اپنے رب کے فضل سے دیوانہ نہیں ہے ۔
You, by the grace of your Lord, are not insane. meaning -- and all praise is due to Allah -- `you are not crazy as the ignorant among your people claim. They are those who deny the guidance and the clear truth that you have come with. Therefore, they attribute madness to you because of it.' وَإِنَّ لَكَ لاَإَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍ
2۔ 1 یہ جواب قسم ہے، جس میں کفار کے قول کا رد ہے، وہ آپ کو مجنون (دیوانہ) کہتے تھے۔
[٣] قریش کا آپ کو دیوانہ کہنا کن وجوہ کی بنا پر غلط ہے ؟ یہ سب صورتیں اس بات پر کھلی کھلی شہادت ہیں کہ آپ اللہ کے فضل سے دیوانہ نہیں ہیں اور قریش مکہ جو آپ کو اس لقب سے پکارتے ہیں تو یہ جھوٹے ہیں اور بکواس کرتے ہیں۔ کیونکہ دیوانے کے سامنے اپنی زندگی کا کوئی مقصد متعین نہیں ہوتا۔ جبکہ آپ برملا اللہ کی راہ کی طرف بلاتے ہیں۔ علاوہ ازیں دیوانے کے قول اور فعل میں کبھی مطابقت نہیں پائی جاتی۔ اس لئے کہ اسے اتنا ہوش نہیں ہوتا کہ وہ کہہ کیا چکا ہے اور کر کیا رہا ہے۔ تیسری یہ بات کہ دیوانہ ہمیشہ بےسروپا اور بہکی بہکی باتیں کرتا ہے۔ جبکہ آپ کو یہ لوگ صادق اور امین ہونے کا سرٹیفیکیٹ دے چکے ہیں۔ لہذا یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کے الزام کو درست سمجھا جائے۔ وہ تو محض بغض وعناد اور اپنی حسرت مٹانے کے لیے آپ کو دیوانہ کہہ دیتے ہیں۔
مَآ اَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍ ۔۔۔۔: اللہ تعالیٰ نے قلم کی اور اس چیز کی قسم کھائی جو لکھنے والے لکھتے ہیں اور اس کے جواب میں تین باتیں ارشاد فرمائیں ، پہلی یہ کہ آپ اللہ کے فضل سے مجنون ( دیوانے) نہیں ہیں ، دوسری یہ کہ آپ کے لیے ایسا اجر ہے جو منقطع ہونے والا نہیں اور تیسری یہ کہ یقینا آپ خلق عظیم پر ہیں ۔ قسم جواب قسم کی تاکید کے لیے کھائی جاتی ہے اور عام طور پر اس کے لیے شاہد اور دلیل ہوتی ہے ، یہاں قسم اور جواب قسم میں مناسبت یہ ہے کہ قلم اور قلم سے لکھنے والوں نے جو چھ لکھا ہے وہ اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ کفار کا یہ کہنا غلط ہے کہ آپ دیوانے ہیں ۔ تقدیر کے قلم نے لوح محفوظ میں ہزاروں سال پہلے آپ کی قسمت میں جو صدق و امانت ، نبوت و رسالت اور دنیا و آخرت میں کامیابی اور عزت و رفعت لکھ دی ہے اور پہلے صحائف میں آپ کے متعلق جو پیش گوئیاں اور فضائل لکھے ہوئے ہیں ، کراماً کاتبین آپ کے اعمال نامے میں جو کچھ لکھ رہے ہیں اور کسی بھی شخص کے اعمال نامے میں جو کچھ لکھا جا رہا ہے ، قرآن مجید میں جو عقائد ، احکام ، قصص اور گزشتہ و آئندہ کی خبریں لکھی ہوئی ہیں ، جن کا ایک شوشہ بھی نہ غلط ہوا ہے نہ ہوگا اور جس کی مثل چھوٹی سے چھوٹی سورت کوئی شخص پیش کرسکا ہے نہ کرسکے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ سے نکلنے والے الفاظ ، آپ کے افعال و حوال اور آپ کا بعض مواقع پر خاموش رہنا ، یہ سب کچھ جو یاد کرنے والوں نے یاد کیا اور لکھنے والوں نے لکھا ہے اور قیامت تک یاد کرتے اور لکھتے چلے جائیں گے ، اگر کوئی ان تمام لکھی ہوئی چیزوں پر غور کرے اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے بڑے بڑے عقل مندوں کی تحریروں کا موازنہ کرے اور سارے جہاں کے دیوانوں ، یا وہ گو شاعروں ، گپ بازوں اور افسانہ نویسوں کی لکھی ہوئی فضولیات کا بھی جائزہ لے تو وہ اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ لوح محفوظ میں جس کی قسمت میں اتنی سعادتیں لکھ دی گئی ہیں ، جس کی پیش گوئیاں پہلی آسمانی صحائف میں لکھی ہوئی ہیں ، جو امی ہونے کے باوجود قرآن جیسی عظیم کتاب لے کر آیا ہے ، جس کے اقوال و احوال اور افعال و تقریرات میں سے ہر چیز بےحد محبت و عقیدت سے لکھی گئی ہے اور قیامت تک محفوظ ہے اور تمام جہانوں کے لیے ہدایت کی روشنی مہیا کرتی ہے ، اور مہیا کرتی ہے ، اس کے متعلق کفارہ کا کہنا ’ ’ انک لمجنون “ کہ آپ دیوانے ہیں ( دیکھئے حجر : ٦) بالکل غلط ہے ، آپ اللہ کے فضل سے ہرگز دیوانے نہیں ہیں۔ کفار کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ زمانے کی گردش کے ساتھ آپ کا سلسلہ ختم ہوجائے گا ۔ ( طور : ٣٠) اور یہ کہ آپ ابتر ہیں (کوثر : ٣) اور یہ کہ آپ کے بعد کا نامل ینے والا بھی کوئی نہ ہوگا ۔ نہیں ، بلکہ یقین رکھو کہ آپ کے لیے وہ اجر ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوگا ۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کی امت کے اعمال حسنہ بھی آپ کے نامہ ٔ اعمال میں لکھے جاتے رہیں گے ، کیونکہ وہ آپ کی تعلیم ہی سے کیے گئے ہیں ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( من دل علی خیر فلہ ٗ مثل اجر فاعلہ) ( مسلم ، الامارۃ ، باب فضل اعانہ الغازی فی سبیل اللہ۔۔۔۔ ١٨٩٣)” جو کسی نیکی کی طرف رہنمائی کرے تو اسے وہ نیکی کرنے والے کی طرح اجر ملے گا “۔ اور کفار کا آپ کے متعلق یہ کہنا بھی غلط ہے کہ آپ شاعر ہیں یا کاہن ہیں نعوذ باللہ کذاب یا متکبر ہیں۔ ( دیکھئے قمر : ٢٥) نہیں ، بلکہ آپ خلق عظیم پر ہیں ۔ ان تینوں آیات میں مخاطب اگرچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں ، مگر اصل میں یہ باتیں کفار کو سمجھائی جا رہی ہیں۔ ٢۔ وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ :” خلق “ کے لفظی معنی ہیں وہ عادتیں جو پیدائشی طور پر انسان میں پائی جاتی ہیں ، یعنی وہ خصلتیں جو طبیعت میں پختہ ہوجائیں اور اس طرح عادت بن جائیں کہ بغیر سوچے سمجھے خود بخود سر زد ہوتی رہیں ” خلق “ کہلاتی ہیں۔ عام طور پر خلق سے مراد لوگوں سے اچھا برتاؤ اور انہیں خندہ پیشانی سے ملنا لیا جاتا ہے ، اگرچہ خلق کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے مگر یہ خلق کا محدود مفہوم ہے۔ صحابہ کرام (رض) میں سے ابن عباس (رض) نے ” خلق عظیم ‘ ‘ کی تفسیر دین سے کی ہے۔ ( طبریٰ ) اور عائشہ (رض) سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلق کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا :( کان خلقہ القرآن) (مسند احمد : ٦، ٩١، ح : ٢٤٦٠١۔ مسلم : ٧٤٦)” آپ کا خلق قرآن تھا “۔ یعنی ابن عباس (رض) کی تفسیر کے مطابق دین اسلام کی ہر بات پر آپ کا اس طرح عمل تھا جیسے وہ آپ کی طبعی عادت ہو اور بقول عائشہ (رض) قرآن مجید آپ کا خلق یعنی آپ کی طبیعت بن گیا تھا۔ وہ سب کچھ جو قرآن میں ہے آپ سے بلا تکلف خود بخود عمل میں آتا تھا، جیسے وہ آپ کی طبیعت خصلت ہے۔ قرآن میں جو حکم دیا گیا اس پر آپ کا عمل تھا اور جس سے منع کیا گیا اس سے مکمل اجتناب تھا ، جو خود بیان اختیار کرنے کی تلقین کی گئی آپ ان سے پوری طرح آراستہ تھا اور جن صفات کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتے تھے ۔ الغرض ، آپ میں تمام انسان خوبیاں جمع ہوگئی تھیں ، مثلاً شرف نسب ، کمال عقل ، درستی فہم ، کثرت علم ، شدت حیاء ، کثرت عبادت ، سخاوت ، صدق ، شجاعت ، صبر ، شکر ، مروت ، دوستی و محبت ، میانہ روی ، زہد ، تواضع ، شفقت ، عدل ، عفو ، برداشت ، صلہ رحمی ، حسن معاشرت ، حسن تدبیر ، فصاحت لسان ، قوت حواس ، حسن صورت وغیرہ جیسا کہ آپ کی زندگی کے حالات و واقعات میں مذکور ہے۔
مَآ اَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍ ٢ ۚ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ جُنون : حائل بين النفس والعقل، وجُنَّ فلان قيل : أصابه الجن، وبني فعله کبناء الأدواء نحو : زکم ولقي «1» وحمّ ، وقیل : أصيب جنانه، وقیل : حيل بين نفسه وعقله، فجن عقله بذلک وقوله تعالی: مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ [ الدخان/ 14] ، أي : ضامّة من يعلمه من الجن، وکذلک قوله تعالی: أَإِنَّا لَتارِكُوا آلِهَتِنا لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات/ 36] جنون ( ایضا ) جنوں ۔ دیونگی ۔ قرآن میں سے : ما بصاحبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ [ سبأ/ 46] کہ ان کے رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی طرح کا بھی ) جنون ۔۔ نہیں ہے ۔ اور دیوانگی کو جنون اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کے دل اور عقل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔ جن فلان ۔ اسے جن لگ گیا ۔ امراض کے معانی میں دوسرے افعال کی طرح یہ بھی فعل مجہول ہی استعمال ہوتا ہے جیسے زکم ( اسے زکام ہوگیا ) لقی ( اے لقوہ ہوگیا ) حم ( اے بخار ہوگیا ) وغیرہ ۔ بعض نے کہا ہے جن فلان کے معنی ہیں ۔ اس کے قلب کو عارضہ ہوگیا اور بعض نے کہا کہ دیوانگی نے اس کی عقل کو چھپالیا اور آیت کریمہ :۔ مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ [ الدخان/ 14] کے معنی ہیں کہ اسے وہ جن چمٹا ہوا ہے جو اسے تعلیم دیتا ہے اور یہی معنی آیت :۔ أَإِنَّا لَتارِكُوا آلِهَتِنا لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات/ 36] کو بھلاک ایک دیوانے شاعر کے کہنے سے کہیں اپنے معبودوں کو چھوڑ دینے والے ہیں ۔ میں شاعر مجنون کے ہیں ۔
آیت ٢ { مَـآ اَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍ ۔ } ” آپ اپنے رب کے فضل و کرم سے مجنون نہیں ہیں۔ “ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جو لوگ آپ کو مجنون کہہ رہے ہیں وہ خود احمق ہیں جو یہ تک نہیں جانتے کہ مجنون کیسے ہوتے ہیں۔ کیا ان لوگوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پاکیزہ اور اعلیٰ اخلاق کی حامل سیرت نظر نہیں آتی ؟ کیا یہ لوگ واقعتا سمجھتے ہیں کہ مجنون لوگوں کی زندگی کا نقشہ بھی ایسا ہی ہوتا ہے ؟ تو اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ ان لوگوں کی فضول اور لایعنی باتوں سے رنجیدہ نہ ہوں۔
1 The great commentator Mujahid says that by pen here is meant the Pen with which the Qur'an was being written down. From this it automatically follows that that which was being written implies the Holy Qur'an itself. 2 That is for which an oath has been sworn by the Pen and by the Book. It means that this Qur'an which is being inscribed by the hands of the writers of Revelation, is by itself enough to refute the slander of the disbelievers who say that the Holy Prophet (upon whom be peace) is, God forbid, a madman, Before his claim to the Prophethood, the people of Makkah looked upon him as the best of their men and trusted his honesty, intelligence and sagacity. But when he started reciting the Qur'an before them they began to call him a madman. This meant that the Qur'an itself in their sight was the cause because of which they accused him of madness; Therefore, it was said: "The Qur'an by itself is a sufficient proof for the refutation of this slander. The presentation of this highly eloquent Revelation which consists of sublime themes, is an argument which proves that Muhammad (upon whom be Allah's peace and blessings) has been especially favoured by Allah, and nor an argument which might be used to prove that he has, God forbid, gone mad." Here, one should remember that although the address apparently is directed to the Holy Prophet, yet the real object is to nail the calumny of the disbelievers. Therefore, no ane should have the doubt that this verse was sent down only to assure the Holy Prophet that he was not mad. Obviously, the Holy Prophet himself had no such doubt for removing which he might have stood in need of such an assurance. The object was to tell the disbelievers, as if to say: "The Qur'an because of which you-are calling the one presenting it a madman, is by itself an argument that your accusation is false." (For further explanation' see E.N. 22 of Surah At-Tur)
سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :2 یہ ہے وہ بات جس پر قلم اور کتاب کی قسم کھائی گئی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ یہ قرآن جو کاتبین وحی کے ہاتھوں سے ثبت ہو رہا ہے ، بجائے خود کفار کے اس بہتان کی تردید کے لیے کافی ہے کہ معاذ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجنون ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوائے نبوت سے پہلے تو اہل مکہ آپ کو اپنی قوم کا بہترین آدمی مانتے تھے اور آپ کی دیانت و امانت اور عقل و فراست پر اعتماد رکھتے تھے ۔ مگر جب آپ نے ان کے سامنے قرآن پیش کرنا شروع کیا تو وہ آپ کو دیوانہ قرار دینے لگے ۔ اس کے معنی یہ تھے کہ قرآن ہی ان کے نزدیک وہ سبب تھا جس کی بنا پر انہوں نے آپ پر دیوانگی کی تہمت لگائی ۔ اس لیے فرمایا گیا کہ قرآن ہی اس تہمت کی تردید کے لیے کافی ثبوت ہے ۔ یہ اعلی درجہ کا فصیح و بلیغ کلام ، جو ایسے بلند پایہ مضامین پر مشتمل ہے ، اس کا پیش کرنا تو اس بات کی دلیل ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کا خاص فضل ہوا ہے ، کجا کہ اس امر کی دلیل بنایا جائے کہ آپ معاذ اللہ دیوانے ہو گئے ہیں ۔ اسی مقام پر یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہاں خطاب تو بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ، لیکن اصل مقصود کفار کو ان کی تہمت کا جواب دینا ہے ۔ لہذا کسی شخص کو یہ شبہ نہ ہو کہ یہ آیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطمینان دلانے کے لیے نازل ہوئی ہے کہ آپ مجنون نہیں ہیں ۔ ظاہر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے متعلق تو ایسا کوئی شبہ نہ تھا کہ اسے دور کرنے کے لیے آپ کو یہ اطمینان دلانے کی ضرورت ہوتی ۔ مدعا کفار سے یہ کہنا ہے کہ تم جس قرآن کی وجہ سے اس کے پیش کرنے والے کو مجنون کہہ رہے ہو وہی تمہارے اس الزام کے جھوٹے ہونے کی دلیل ہے ( مزید تشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم تفسیر سور ۃ طور ، حاشیہ 22 ) ۔
(68:2) ما انت بنعمۃ ربک بمجنون۔ جملہ جواب قسم ہے باء ثانیہ زائدہ ہے تاکید نفی کا فائدہ دیتی ہے۔ مجنون خبر ہے ما کی۔ اور پہلی باء ملا بست کے لئے ہے ۔ اور جار مجرور خبر کی ضمیر سے موضع حال میں ہے۔ یعنی فضل خدا کی موجودگی میں آپ دیوانہ نہیں ہیں۔ نعمۃ سے مراد نبوت، شرافت۔ کمال فہم و عقل ، عظمت مرتبہ، علوم اور دوسرے مکارم ہیں۔ بغوی (رح) نے لکھا ہے کہ کافر کہتے تھے : یایھا الذی نزل علیہ الذکر انک لمجنون (15:6) اے وہ شخص جس پر نصیحت (کی کتاب) نازل ہوئی ہے تو تو دیوانہ ہے۔ کافروں کے اس قول کے جواب میں آیت مذکروہ ما انت بنعمۃ ربک بمجنون ۔۔ الخ نازل ہوئی۔ چونکہ کفار کا انکار شدید اور قوی تھا ان کے قول کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے آیت مذکورہ کو قسم کے ساتھ مؤکد کیا اور خبر (مجنون) پر باء کو داخل کرکے نفی کو محکم کردیا۔
5۔ مطلب یہ کہ آپ نبی برحق ہیں اور یہ قسمیں اس مدعا کے نہایت مناسب ہیں کیونکہ منجملہ مقادیر کے نزول قرآن بھی ہے، پس اس میں اشارہ ہے کہ نبوت آپ کی علم الہی میں پہلے ہی سے محقق و موکد ہے، پس ثبوت اس کا متعین ہوا اور کاتبان اعمال آپ کے مصدقین و منکرین کے اعمال کو لکھ رہے ہیں، پس انکار نبوت پر سزا ہوگی، اس سے ڈر کر ایمان لانا واجب ہے۔
فہم القرآن ربط کلام : قلم اور اس کے لکھنے والوں کی عظمت کا ذکر فرما کر کفار کے بدترین الزام کی تردید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صورت اور سیرت کے اعتبار سے سب سے ممتاز پیدا فرمایا تھا۔ اسی سورت کی آیت ٤ میں آپ کے عظیم اخلاق کی تعریف فرمائی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صورت و سیرت اور حسن اخلاق کو آپ کے بدترین دشمن بھی جانتے اور مانتے تھے مگر قرآن بالخصوص دعوت توحید کی وجہ سے لوگ نہ صرف آپ کے مخالف ہوئے بلکہ ہر قسم کی سچائی کا انکار کرتے ہوئے آپ کو مجنون کہتے تھے، حالانکہ وہ جانتے تھے کہ دیوانہ اس قسم کی حرکات اور باتیں نہیں کرتا لیکن پھر بھی آپ کو مجنون قراردیتے تھے۔ یہ آپ کی ذات پر بہت بڑا اور بدترین الزام تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قلم کی قسم کھا کر فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اپنے رب کے فضل وکرم سے مجنون نہیں ہیں۔ آپ کے لیے بیش بہا اجر ہے جو کبھی کم نہیں ہوگا۔ جسے آپ بھی دیکھیں گے اور آپ کے مخالف بھی دیکھ لیں گے اور انہیں یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ دیوانہ کون ہے ؟ اللہ تعالیٰ آپ کو ایسا اجر دے گا جو اعلیٰ اور سب سے زیادہ ہوگا۔ کفار لوگوں کے سامنے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی مجنون کہتے اور کبھی شاعر کہتے اور اپنے ساتھیوں کو دلاسہ دیتے کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں اپنے نظریات پر قائم رہیے ! یہ عنقریب حوادث زمانہ کا شکار ہو کر ختم ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس صورت حال میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطمینان دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آپ کو ان کی یا وہ گوئی کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ آپ اپنے رب کے فضل سے کاہن اور دیوانہ نہیں ہیں۔ پاگل تو وہ ہیں جو بیک وقت متضاد باتیں کررہے ہیں۔ ان کے پاگل پن کی دلیل یہ ہے کہ ایک طرف آپ کو کاہن کہتے ہیں اور دوسری طرف آپ کو مجنون کہتے ہیں۔ حالانکہ مجنون اور کاہن کے درمیان زمین اور آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ مجنون شخص اَب نارمل (UBNORMAL) اور حواس باختہ ہوتا ہے۔ اسے کچھ خبر نہیں ہوتی کہ وہ اپنے منہ سے کیا کہہ رہا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے لباس کا بھی خیال نہیں رکھ سکتا۔ مجنون کے مقابلے میں کاہن شخص اپنے فن میں ماہر اور چالاک ہوتا ہے وہ لوگوں کو پھنسانے اور بھلانے کے لیے ایسے الفاظ اور انداز اختیار کرتا ہے کہ عقل مند اور جہاندیدہ لوگ بھی اس کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ مجنون کو اپنے تن کی ہوش نہیں ہوتی، کاہن باتوں باتوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتا ہے۔ جہاں تک شاعر کا معاملہ ہے شاعر کے کلام میں نہ صرف مبالغہ پایا جاتا ہے بلکہ اس کے کلام میں تضاد بیانی بھی ہوا کرتی ہے۔ شاعروں کی غالب ترین اکثریت بےعمل ہوتی ہے وہ جو کہتے ہیں اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے، ان کے مقابلے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری دنیا کے لیے اسوہ حسنہ بنائے گئے ہیں، نبوت کے اعلیٰ مقام پر فائزہونے سے پہلے بھی آپ اعلیٰ کردار اور عظیم اخلاق کے پیکر تھے اور اہل مکہ آپ کو عظیم دانشور سمجھتے تھے اکثر شاعر عاشق مزاج ہوتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زندگی بھر کسی غیرمحرم عورت کو نظر اٹھا کر نہیں دیکھا۔ شاعر کا کلام زیادہ عرصہ تک باقی نہیں رہتانبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کلام پیش کررہے تھے اس کی رہتی دنیا تک گارنٹی دی گئی ہے۔ شاعراپنا کلام پیش کرکے لوگوں سے مالی یا اخلاقی داد وصول کرتے ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان باتوں سے مبرّہ اور ارفع تھے۔ آپ نے زندگی بھر اپنے خطاب میں کبھی شعر نہیں پڑھا اور نہ ہی آپ کی شان اور مقام کے لائق تھا۔ (یٰسٓ: ٦٩) یہاں تک اہل مکہ کی اس بات کا تعلق ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام اور کام بہت جلد حوادث زمانہ کا شکار ہوجائے گا۔ اس بات کا انہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان اطہر سے یوں چیلنج دیا گیا ہے کہ تم بھی انتظار کرو میں بھی انتظار کرتا ہوں۔ زمانہ گواہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ہرزہ سرائی کرنے والے مٹ گئے لیکن آپ کا نام اور کام ہر دور میں زندہ رہا اور رہے گا۔ اس لیے فرمایا کہ کیا ان کی عقلیں انہیں ایسی باتیں سکھاتی ہیں یا حقیقت میں یہ لوگ باغی اور شرارتی ہیں گویا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالف بےعقل بھی تھے، باغی اور شرارتی بھی۔ بےعقل اور شرارتی لوگ اپنے کام میں حقیقی کامیابی نہیں پایا کرتے۔ (عَنْ اَنَسٍ (رض) قَالَ خَدَمْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَشْرَ سِنِیْنَ فَمَا قَالَ لِیْ اُفٍّ وَّلَا لِمَ صَنَعْتَ وَلَا اَلَّا صَنَعْتَ ) (رواہ البخاری : بَابٌ حُسْنِ الْخُلُقِ وَالسَّخَاءِ وَمَا یُکْرَہُ مِنَ الْبُخْلِض) حضرت انس (رض) نے بتایا کہ میں نے نبی رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دس سال خدمت کی۔ آپ نے مجھے کبھی اف تک نہ کہا اور نہ کبھی یہ کہا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا ؟ یا وہ نہیں کیا ؟ “ (عَنْ اَنَسٍ (رض) قَالَ کُنْتُ اَمْشِیْ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَعَلَیْہِ بُرْدٌ نَجْرَانِیٌّ غَلِیْظُ الْحَاشِیَۃِ فَاَدْرَکَہٗ اَعْرَابِیٌّ فَجَبَذَہٗ بِرِدَاءِہٖ جَبْذَۃً شَدِیْدَۃً وَرَجَعَ نَبِیُّ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فِیْ نَحْرِ الْاَعْرَابِیِّ حَتّٰی نَظَرْتُ اِلٰی صَفْحَۃِ عَاتِقِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَدْ اَثَّرَتْ بِھَا حَاشِیَۃُ الْبُرْدِ مِنْ شِدَّۃِ جَبْذَتِہٖ ثُمَّ قَالَ یَامُحَمَّدُ ! مُرْلِیْ مِنْ مَّال اللّٰہِ الَّذِیْ عِنْدَکَ فَالْتَفَتَ اِلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثُمَّ ضَحِکَ ثُمَّ اَمَرَ لَہٗ بِعَطَاءٍ ) (رواہ البخاری : باب مَا کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یُعْطِی الْمُؤَلَّفَۃَ قُلُوبُہُمْ وَغَیْرَہُمْ مِنَ الْخُمُسِ وَنَحْوِہِ ) ” حضرت انس (رض) ہی سے روایت ہے کہ میں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چل رہا تھا اور آپ پر گہری حاشیہ دار نجرانی چادر تھی۔ ایک دیہاتی سامنے آیا اور اس نے بڑے زور سے آپ کی چادر کھینچی۔ نبی رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے سینے کی طرف جھک گئے۔ یہاں تک کہ میں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گردن مبارک کے ایک طرف، چادر کے کنارے کو زور سے کھینچنے کی رگڑ کا نشان دیکھا، دیہاتی نے کہا، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اللہ کے عطا کردہ مال میں سے مجھے بھی کچھ دیں۔ آپ نے اس کی طرف دیکھا مسکرائے اور اس کو کچھ دینے کا حکم دیا۔ “ ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دو کاموں میں اختیار دیا جاتا تو آپ دونوں میں سے آسان کام کو اختیار کرتے بشرطیکہ وہ گناہ کا کام نہ ہوتا۔ اگر کام گناہ کا ہوتا تو آپ سب سے زیادہ اس سے دور رہتے۔ آپ نے اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہ لیا البتہ جب اللہ کی حرمتوں کو پامال کیا جاتا تو اللہ کے لیے انتقام لیتے۔ “ (رواہ البخاری : کتاب المناقب، باب صفۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (وَ عَنْہُ قَالَ قَالَ رسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ مِنْ خِیَارِکُمْ اَحْسَنَکُمْ اَخْلَاقًا) (رواہ البخاری : باب صفۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ تم میں سے وہ بہتر ہیں ‘ جو اخلاق کے لحاظ سے بہتر ہیں۔ “ مسائل ١۔ نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجنون نہیں تھے بلکہ آدم (علیہ السلام) کی ساری اولاد میں سب سے اعلیٰ اخلاق کے مالک اور سب سے بڑھ کر دانشور تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صورت و سیرت اور اخلاق کے حوالے سے بےمثال بنایا تھا۔ ٣۔ کفار نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اور گستاخیاں کرنے کی وجہ سے دنیا میں برا انجام دیکھا اور قیامت کے دن بھی برے اور بڑے عذاب کا سامنا کرنا کریں گے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر حوالے سے افضل اور عظیم تر بنایا : ١۔ آدم (علیہ السلام) کو اللہ نے خلیفہ بنایا۔ (البقرۃ : ٣٠) ٢۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ نے اپنا خلیل بنایا۔ (النساء : ١٢٥) ٣۔ سلیمان (علیہ السلام) کو اللہ نے سب سے بڑا حکمران بنایا۔ (ص : ٣٥) ٤۔ داؤد (علیہ السلام) کو اللہ نے دانائی عطا فرمائی۔ (ص : ٢٠) ٥۔ یعقوب (علیہ السلام) کو اللہ نے صبر جمیل عطا فرمایا۔ (یوسف : ٨٣) ٦۔ یوسف (علیہ السلام) کو اللہ نے حکمرانی اور پاک دامنی عطا فرمائی۔ (یوسف : ٣١) ٧۔ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رحمۃ للعالمین وخاتم النبیّین اور خلق عظیم کا مالک بنایا۔ (الانبیاء : ١٠٧، الاحزاب : ٤٠)
دوسرے اس بات کی تردید کے لئے جو کفار الزام لگاتے تھے کہ حضور اکرم مجنون ہیں تو اللہ تعالیٰ یہاں تردید کرتا ہے کہ رب کے فضل وکرم سے آپ مجنون نہیں ہیں۔ ماانت ............ بمجنون (٨٦ : ٢) ” تم اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہو “۔ ایک مختصر سی آیت میں ایک بات کو ثابت کیا جاتا ہے اور ایک کی نفی کردی جاتی ہے۔ ثابت یہ کیا جاتا ہے کہ آپ پر اللہ کا فضل وکرم ہے۔ اور نفی اس بات کی جاتی ہے کہ آپ مجنون نہیں ہیں۔ اور اثبات رحمت نہایت ہی اپنائیت کے ساتھ ہے۔ ربک یعنی تمہارے رب کے فضل وکرم سے۔ جب انسان قبل نبوت کی سیرت کے واقعات پڑھتا ہے تو وہ متعجب ہوتا ہے کہ اس شخص پر یہ لوگ ایسا الزام لگاتے ہیں جس کے بارے میں وہ جانتے تھے کہ وہ بہت بڑا دانا شخص ہے۔ نبوت سے کئی سال پہلے جب ان کے درمیان حجر اسود کے نصب کرنے پر اختلاف ہوگیا تو آپ نے بڑی عقلمندی سے مسئلہ کو حل کردیا۔ پھر انہوں نے آپ کو امین کا لقب دیا۔ اور آپ کے پاس وہ اپنی امانتیں رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ ہجرت کے وقت تک امانتیں آپ کے پاس رکھی جاتی تھیں۔ سخت دشمنی کی حالت میں بھی ان کا اعتماد تھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہجرت کے بعد ایک زمانہ تک مکہ میں رہے تاکہ لوگوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیں جو آپ کے پاس رکھی ہوئی تھیں۔ پھر یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے کبھی جھوٹ نہ سنا تھا۔ جب ہر قل نے ابوسفیان سے پوچھا کیا نبوت سے پہلے تم نے کبھی اس پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا ؟ ابوسفیان ارچہ آپ کا سخت دشمن تھا مگر اس نے کہا ” نہیں “۔ تو اس پر ہرقل نے کہا جو شخص تم میں سے کسی پر جھوٹ نہیں باندھتا وہ خدا پر کس طرح جھوٹ باندھ سکتا ہے کہ لوگوں سے سچ کرے اور خدا سے جھوٹ۔ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ مکہ کے لوگوں نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں یہ اور اس قسم کی دوسری باتیں کرنے کی جرات کی۔ حالانکہ آپ بہت بلند اخلاق ، مہربان ، سچے اور ان کے درمیان نہایت ہی عقلمند مشہور تھے۔ لیکن محبت ونفرت انسان کو اندھا اور بہرہ کردیتی ہیں۔ اور انسان اپنے مقاصد کے لئے جھوٹ بولنے پر بھی آمادہ ہوجاتا ہے۔ اور ہر شخص جانتا ہے کہ کہنے والا کذاب ہے۔ ماانت ................ بمجنون (٨٦ : ٢) ” تم اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہو “۔ یوں نہایت محبت اور ہمدردی کے ساتھ آپ پر سے اس الزام کی نفی کی جاتی ہے۔ اور آپ کو اس سے باعزت طور پر بری قرار دیا جاتا ہے۔ اور ان کے کافرانہ عناد اور مذموم الزام کو رد کردیا جاتا ہے۔
(2) کہ آپ اپنے پروردگار کے فضل سے مجنون اور دیوانے نہیں ہیں۔ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق دین حق کے منکر عجیب عجیب بےتکی اور سراپا لغو باتیں کہا کرتے تھے منجملہ ان کے آپ کو عام طور سے دیوانہ اور مجنون بھی کہتے ہیں۔ چنانچہ سورة حجر میں گزر چکا ہے یایھا الذی نزل علیہ الذکر انک لمجنون۔ حضرت حق جل مجدہ کافروں کے ان الفاظ کا رد فرماتا ہے اور تاکید کے طور پر قلم اور قلم سے لکھنے والے جو کچھ لکھتے ہیں اس کی قسم کھا کر کفار کے اس قول کی نفی فرماتا ہے کہ آپ ہرگز مجنون نہیں ہیں۔ قلم سے مراد وہ قلم ہے جس سے مقادیر خلق لوح محفوظ پر لکھے گے اور جس کو اول ماخلق اللہ القلم کا شرف حاصل ہوا وما یسطرون سے شاید ان فرشتوں کا لکھنا مراد ہے جو کاتب اعمال ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے یہی تفسیر منقول ہے بعض حضرات نے وما یسطرون کو عام رکھا ہے یعنی جو بھی لکھنے والے لکھتے رہتے ہیں خواہ وہ تحریرات عالم بالا کی ہوں یا نامہ اعمال کی ہوں یا زمین کے لکھنے والے لکھتے ہوں چونکہ تحریرات کو دوام حاصل ہے اور قلم اور قلم کی تحری کو ممالک کے انتظام میں بڑا دخل ہے اور امور سلطنت کا انصرام اور امور سلطنت کا ترقی کا دارومدار قلم اور قلم کی تحریرات پر منحصر ہے اور امم سابقہ کے حالات کا معلوم ہونا اور تاریخی واقعات کا معلوم ہونا سب تحریر اور فرشتوں پر موقوف ہے اور زبانی باتوں کا وجود محض عارضی ہے اور دیوانے آدمی کی بات کو تو بالکل ثبات نہیں۔ یہاں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیم جو ہمہ گیر تعلیم ہے اس کی نہ صرف اشاعت اور تمام عالم میں پھیلانا مقصود ہے بلکہ اس کو دوام اور قیامت تک اس تعلیم کا دنیا میں قائم رہنا اور لوگوں کا اس مشعل ہدایت سے راہ پانے کا اظہار اور اعلان مقصود ہے اس لئے قلم اور جو کچھ اس قلم سے فرشتے یا اہل زمین لکھتے رہتے ہیں اس کی قسم کھا کر فرمایا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اپنے پروردگار کے فضل و کرم سے مجنون یا دیوانے نہیں ہیں بلکہ آپ کے لئے تو کفار کی ان باتوں سے بڑا اجر اور بڑا مرتبہ ہے۔