Surat ul Qalam

Surah: 68

Verse: 28

سورة القلم

قَالَ اَوۡسَطُہُمۡ اَلَمۡ اَقُلۡ لَّکُمۡ لَوۡ لَا تُسَبِّحُوۡنَ ﴿۲۸﴾

The most moderate of them said, "Did I not say to you, 'Why do you not exalt [ Allah ]?' "

ان سب میں جو بہتر تھا اس نے کہا میں تم سے نہ کہتا تھا کہ تم اللہ کی پاکیزگی کیوں نہیں بیان کرتے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ أَوْسَطُهُمْ ... The Awsat among them said, Ibn `Abbas, Mujahid, Sa`id bin Jubayr, Ikrimah, Muhammad bin Ka`b, Ar-Rabi` bin Anas, Ad-Dahhak and Qatadah all said, "This means the most just of them and the best of them." ... أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ لَوْلاَ تُسَبِّحُونَ Did I not tell you, `Why do you not Tusabbihun?' Mujahid, As-Suddi and Ibn Jurayj all said that, لَّكُمْ لَوْلاَ تُسَبِّحُونَ Why do you not Tusabbihun, this means "why do you not say, `If Allah wills"' As-Suddi said, "Their making exception due to the will of Allah in that time was by glorifying Allah (Tasbih)." Ibn Jarir said, "It is a person's saying, `If Allah wills."' It has also been said that it means that the best of them said to them, "Did I not tell you, why don't you glorify Allah and thank Him for what He has given you and favored you with" قَالُوا سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

28۔ 1 بعض نے تسبیح سے مراد انشاء اللہ کہنا مراد لیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ اَوْسَطُہُمْ اَلَمْ اَقُلْ لَّکُمْ ۔۔۔۔:” اوسطھم “ کا معنی ان کے درمیان والا بھی ہے اور ان میں سے افضل بھی ہے ، جیسے فرمایا :(وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا ) (البقرہ : ١٤٣)” اور اسی طرح ہم نے تمہیں سب سے بہتر امت بنایا “۔ تو ان میں سے جو بہتر تھا اس نے انہیں ان کے خبیث ارادے کے وقت نصیحت کی تھی ” لو لا تسبحون “ کہ تم اللہ کی تسبیح کیوں نہیں کرتے اور اس بری نیت سے توبہ کیوں نہیں کرتے ؟ مگر انہوں نے اس کی بات نہیں مانی تھی ، اب اس نے انہیں وہ بات یاد دلائی ۔ ’ لو لا تسبحون “ کا معنی بعض نے یہ کیا ہے کہ ” تم ان شاء اللہ کیوں نہیں کہتے ؟ “ مگر سارا پھل توڑنے کا ارادہ کر کے ” ان شاء اللہ “ پڑھ بھی لیتے تو کچھ فائدہ نہ تھا، اس لیے یہی معنی درست معلوم ہوتا ہے کہ اس نے کہا تم اپنے رب کو یاد کیوں نہیں کرتے، اس کا ہر عیب سے پاک ہونا خصوصاً اس قسم کے بخل سے اور مسکینوں کو محروم کرنے کے ارادے سے پاک ہونا کیوں یاد نہیں کرتے کہ تم بھی اس بخل اور کمینگی سے بچ جاؤ ۔ اس معنی کے درست ہونے کا ایک قرینہ یہ ہے کہ جب ان کے بھائی نے انہیں اپنی بات یاد دلائی تو انہوں نے ” سبحن ربنا “ کہہ کر اس وقت ” سبحان اللہ “ نہ کہنے کی تلافی کی کوشش کی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

قَالَ أَوْسَطُهُمْ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُونَ (Said he who was the best among them, |"Did I not say to you, &Why do you not pronounce tasbih (Allah&s purity)?|"....68:28). The middle brother was the best of them. He was righteous like his father. It used to please him to spend in the cause of Allah. He was not niggardly or stingy like the other brothers. He had advised them to recite tasbih which, literally, means to pronounce Allah&s purity. He told them that they were withholding the share of the poor with the fear that their fruit will be depleted and will not be replenished by Allah, if they gave the poor their share. He told them that Allah is pure from such pettiness. Instead, those who spend in the way of Allah, He will not only make their wealth full again or replace what they have spent, but also will give them over and above what they have spent. [ Mazhari ].

قَالَ اَوْسَطُهُمْ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ لَوْلَا تُـسَبِّحُوْنَ ان میں سے جو درمیان آدمی تھا یعنی باپ کی طرح نیک صالح اللہ کی راہ میں خرچ پر خوش ہونے والا تھا دوسرے بھائیوں کی طرح بخیل سخت دل نہ تھا اس نے کہا کہ کیا میں نے تمہیں پہلے ہی نہیں کہا تھا کہ تم اللہ کے نام کی تسبیح کیوں نہیں کرتے، تسبیح کے لفظی معنی پاکی بیان کرنے کے ہیں، مطلب یہ ہے کہ فقراء و مساکین سے اپنا مال بچا لینے کی تدبیر کا منشاء یہ ہے کہ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تم کو اس کے بجائے اور نہ دے گا حالانکہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے وہ خرچ کرنے والوں کو اپنے پاس سے اور زیادہ دیتا ہے۔ (مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ اَوْسَطُہُمْ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ لَوْلَا تُـسَبِّحُوْنَ۝ ٢٨ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ وسط وَسَطُ الشیءِ : ما له طرفان متساویا القدر، ويقال ذلک في الكمّيّة المتّصلة کالجسم الواحد إذا قلت : وَسَطُهُ صلبٌ ، وضربت وَسَطَ رأسِهِ بفتح السین . ووَسْطٌ بالسّكون . يقال في الكمّيّة المنفصلة كشيء يفصل بين جسمین . نحو : وَسْطِ القومِ كذا . والوَسَطُ تارة يقال فيما له طرفان مذمومان . يقال : هذا أَوْسَطُهُمْ حسبا : إذا کان في وَاسِطَةِ قومه، وأرفعهم محلّا، وکالجود الذي هو بين البخل والسّرف، فيستعمل استعمال القصد المصون عن الإفراط والتّفریط، فيمدح به نحو السّواء والعدل والنّصفة، نحو : وَكَذلِكَ جَعَلْناكُمْ أُمَّةً وَسَطاً [ البقرة/ 143] وعلی ذلک قوله تعالی: قالَ أَوْسَطُهُمْ [ القلم/ 48] وتارة يقال فيما له طرف محمود، وطرف مذموم کالخیر والشّرّ ، ويكنّى به عن الرّذل . نحو قولهم : فلان وَسَطُ من الرجال تنبيها أنه قد خرج من حدّ الخیر . وقوله : حافِظُوا عَلَى الصَّلَواتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطى[ البقرة/ 238] ، فمن قال : الظّهر فاعتبارا بالنهار، ومن قال : المغرب «فلکونها بين الرّکعتین وبین الأربع اللّتين بني عليهما عدد الرّکعات، ومن قال : الصّبح فلکونها بين صلاة اللّيل والنهار . قال : ولهذا قال : أَقِمِ الصَّلاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلى غَسَقِ اللَّيْلِ الآية [ الإسراء/ 78] . أي : صلاته . وتخصیصها بالذّكر لکثرة الکسل عنها إذ قد يحتاج إلى القیام إليها من لذیذ النّوم، ولهذا زيد في أذانه : ( الصّلاة خير من النّوم) ومن قال : صلاة العصر فقد روي ذلک عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم فلکون وقتها في أثناء الأشغال لعامّة الناس بخلاف سائر الصلوات التي لها فراغ، إمّا قبلها، وإمّا بعدها، ولذلک توعّد النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم فقال : «من فاته صلاة العصر فكأنّما وتر أهله وماله» ( و س ط ) وسط الشئی ہر چیز کی در میانی جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے اس کے دونوں اطراف کا فاصلہ مساوی ہو اور اس کا استعمال کمیتہ متصلہ یعنی ایک جسم پر ہوتا ہے جیسے وسطہ صلب اس کا در میان سخت ہے ) ضر بت ہ وسط راسہ لیکن وسط ( بالسکون ) کمیت منفصلہ پر بولا جاتا ہے یعنی دو چیزوں کے در میان فاصل کو وسط کہا جاتا ہے جیسے ۔ وسط القوم کذا کہ وہ لوگوں کے در میان فاصل ہے ۔ نیز الوسط ( بفتح اسیں ) اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو دو مذموم اطراف کے در میان واقع ہو یعنی معتدل کو افراط وتفریط کے بالکل در میان ہوتا ہے مثلا جوہ کہ ببخل اور اسراف کے در میانی در جہ کا نام ہے اور معنی اعتدال کی مناسبت سے یہ عدل نصفۃ سواء کی طرح ہر عمدہ اور بہترین چیز کے لئے بولا جاتا ہے مثلا جو شخص اپنی قوم میں لحاظ حسب سب سے بہتر اور اونچے درجہ کا ہو اس کے متعلق ھذا وسطھم حسبا کہا جاتا ہے چناچہ اسی معنی ہیں ( امت مسلمہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَكَذلِكَ جَعَلْناكُمْ أُمَّةً وَسَطاً [ البقرة/ 143] اور اس طرح ہم نے تم کو امت معتدل بنایا ۔ اسی طرح آیت : ۔ قالَ أَوْسَطُهُمْ [ القلم/ 48] ایک جوان جوان میں فر زانہ نہ تھا بولا ۔ میں بھی اوسط کا لفظ اسی معنی پر محمول ہے اور کبھی وسط اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو نہ زیادہ اچھی ہو اور نہ بریوی بلکہ در میانے در جہ کی ہو ۔ اور کبھی کنایۃ رذیل چیز پر بھی بولا جاتا ہے جیسے کہا جاتا ہے ۔ فلان وسط من لرجال کہ فلاں کم در جے کا آدمی ہے یعنی در جہ خیر سے گرا ہوا ہے اور آیت کریمہ : ۔ حافِظُوا عَلَى الصَّلَواتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطى[ البقرة/ 238] مسلمانوں سب نمازیں خصوصا بیچ کی نماز یعنی عصر ایورے التزام کے ساتھ ادا کرتے رہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ وسطی سے مراد صلوۃ ظہر ہے کیونکہ وہ دن کے در میانی حصہ میں ادا کی جاتی ہے اور بعض اس سے صلوۃ مغرب مراد لیتے ہیں کیونکہ وہ تعداد رکعات کے لحاظ سے ثنائی اور رباعی نمازوں کے در میان میں ہے اور بعض نے صلوۃ فجر مراد لی ہے کیونکہ وہ دن اور رات کی نمازوں کے در میان میں ہے جیسا کہ دوسری آیت فرمایا : ۔ أَقِمِ الصَّلاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلى غَسَقِ اللَّيْلِ الآية [ الإسراء/ 78]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک ( ظہر عصر مغرب عشا کی ) نمازیں اور صبح کو قرآن پڑھا کرو ۔ اور صلوہ وسطیٰ کو خاص کر الگ ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ صبح کا وقت سستی اور غفلت کا وقت ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس وقت اٹھنے کے لئے نیند کی لذت کو چھوڑ نا پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ صبح کی اذان میں کا اضافہ کیا گیا ہے اور جو لوگ اس سے صلوۃ عصر مراد لیتے ہیں جیسا کہ آنحضرت سے ایک حدیث میں بھی مروی ہے تو وہ اس کے علیحدہ ذکر کرنے کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ عصر عوام کے کاروبار کا وقت ہوات ہے اس لئے اس نماز میں سستی ہوجاتی ہے بخلاف دوسری نمازوں کسے کہ ان کے اول یا آخر میں فر صت کا وقت مل جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زجرا فرمایا کہ جس نے عصر کی نماز ضائع کردی گویا اس نے اپنے اہل و عیال اور مال کو بر باد کردیا ۔ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) «لَمْ» وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی/ 6] ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔ «لَوْلَا» يجيء علی وجهين : أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] . والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن . ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ سبح السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] ، ( س ب ح ) السبح اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

ان میں سے درمیانہ عمر والے نے یا یہ کہ جو بات میں یا عقل میں کسی قدر اچھا آدمی تھا اس نے کہا کہ کیوں میں نے تمہیں کہا نہ تھا کہ انشاء اللہ کیوں نہیں کہہ لیتے اور اس شخص نے اپنے ساتھیوں سے جبکہ وہ قسمیں کھا رہے تھے تب یہ بات کہی تھی سو سب کہنے لگے کہ ہم اپنے پروردگار سے توبہ کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨{ قَالَ اَوْسَطُہُمْ اَلَمْ اَقُلْ لَّکُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُوْنَ ۔ } ” ان کے درمیان والے نے کہا : میں تمہیں کہتا نہ تھا کہ تم (اپنے رب کی) تسبیح کیوں نہیں کرتے ؟ “ یہ انہی کے کسی نیک فطرت بھائی کا ذکر ہے جو گاہے بگاہے انہیں روکتا ٹوکتا تھا اور انہیں یاد دہانی کراتا رہتا تھا کہ تم اللہ کو بھولے ہوئے ہو اور اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے سے پہلوتہی کرتے ہو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

17 This means that when they were saying on oath: "We shall surely pluck the fruit of our garden tomorrow," this person had warned them at that time, saying: "Have you forgotten God? Why don't you say: If Allah so wills?" But they did not listen to him. Then, while they were making up their mind not to give away anything to the needy. he again advised them to remember Allah and to desist from their evil intention, but they persisted in what they had resolved.

سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :17 اس کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ قسم کھا کر کہہ رہے تھے کہ کل ہم اپنے باغ کے پھل ضرور توڑیں گے اس وقت اس شخص نے ان کو تنبیہ کی تھی کہ تم خدا کو بھول گئے ۔ ان شاء اللہ کیوں نہیں کہتے؟ مگر انہوں نے اس کی پروا نہ کی ۔ پھر جب وہ مسکینوں کو کچھ نہ دینے کا فیصلہ کر رہے تھے اس وقت بھی اس نے انہیں نصیحت کی کہ اللہ کو یاد کرو اور اس بری نیت سے باز آ جاؤ ، مگر وہ اپنی بات پر جمے رہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

11: ان بھائیوں میں ایک دُوسروں کی بہ نسبت اچھا تھا، اُس نے پہلے بھی بھائیوں سے کہا تھا کہ اللہ کا ذِکر کرو، اور غریبوں کو منع نہ کرو، لیکن بعد میں وہ بھی دُوسرے بھائیوں کے ساتھ شامل ہوگیا تھا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(68:28) قال اوسطھم۔ مضاف مضاف الیہ۔ ان میں سے کا درمیانہ۔ اس سے مراد یا تو ان کا منجھلا بھائی ہے یا بمعنی اعقلہم ہے ان میں سب سے زیادہ عقلمند۔ زیرک۔ الم اقل لکم : جملہ استفہام تقریری ہے ہمزہ استفہامیہ۔ لو اقل مضارع نفی جحد بلم صیغہ واحد متکلم۔ کیا میں نے تم کو نہیں کہا تھا لولا تسبحون : لولا کیوں نہیں۔ تسبحون : مضارع جمع مذکر غائب ۔ تسبیح (تفعیل) مصدر۔ تم تسبیح کرتے ہو۔ تم پاکی بیان کرتے ہو۔ یہاں آیت زیر غور میں مراد ہے تم انشاء اللہ کہتے ہو۔ لو لا تسبحون۔ تم انشاء اللہ کیوں نہیں کہتے۔ یہاں انشاء اللہ کہنے کو تسبیح قرار دیا ہے اس لئے کہ انشاء اللہ کہنے میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اس بات کا اقرار ہوتا ہے کہ اللہ کی مشیت کے بغیر کسی کو کسی بات پر قدرت نہیں ہوتی (یہی تسبیح کا مفہوم ہے) ۔ ابو صالح نے کہا ہے کہ وہ لوگ انشاء اللہ کہنے کے موقع پر سبحان اللہ کہا کرتے تھے اسی لئے انشاء اللہ کی جگہ تسبحون کہا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 ” لولا تسبحون “ کے لفظی معنی ہیں ” تم تسبیح کیوں نہیں کرتے “ اس مقام پر تسبیح سے مراد ” انشاء اللہ “ بھی ہوسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرنا اور قول و عمل سے اس کا شکر بجالانا بھی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(28) ان لڑکوں میں سے منجھلے لڑکے نے کہا کیوں میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کیوں نہیں کرتے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اللہ کی طرف سے سمجھتے یہ نعمت اور فقیر سے دریغ نہ کرتے۔ خلاصہ : یہ ہے کہ جب اس باغ کو اجڑا ہوا دیکھا اور اس کے کھیت کو جھلسا ہوا پایا اور یہ سمجھ لیا کہ یہ باغ تو ہمارا ہی ہے مگر اس پر خدا کا قہر نازل ہوا ہے اور یہ عذاب کی وجہ سے اجرا ہے تب انہوں نے کہا بل نحن محرومون اور جب اپنی محرومی قسمت کا ان کو یقین ہوگیا تب ان کے منجھلے بھائی نے جوان سب میں بہتر اور باپ کا مسلک سے قریب تھا دوسرے بھائیوں سے کہا کیوں میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم اللہ تعالیٰ کی پاکی کیوں نہیں بیان کرتے اللہ تعالیٰ کے نام پر جو مساکین آتے ہیں ان کا بھی خیال رکھو اور باپ کا جو بھلا طریقہ تھا اور جس طرح وہ فقراء کے حقوق کا خیال رکھتا تھا اسی طرح تم بھی رکھو اور کل کے لئے انشاء اللہ تو کہہ لو۔ غرض جو کچھ اس بھائی نے ان کو سمجھایا تھا وہ سب ان کو یاد دلایا اس باغ کا نام مفسرین نے ضروان بتایا ہے۔ علی حرد قادرین کا ترجمہ کئی طرح کیا گیا ہے ۔ حرد کے بہت سے معنی اہل لغت نے کئے ہیں منع کرنا، روک لینا، جلدی چلنا، قصد نیت، ارادہ ، غرض اس بھائی کے کہنے سے سب بھائیوں کو احساس ہوا اور اپنی غلطی کا سب اعتراف کرنے لگے۔