Surat ul Qalam

Surah: 68

Verse: 31

سورة القلم

قَالُوۡا یٰوَیۡلَنَاۤ اِنَّا کُنَّا طٰغِیۡنَ ﴿۳۱﴾

They said, "O woe to us; indeed we were transgressors.

کہنے لگے ہائے افسوس! یقیناً ہم سرکش تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They said: "Woe to us! Verily, we were Taghin." meaning, `we have transgressed, trespassed, violated and exceeded the bounds until what this happened to us.' عَسَى رَبُّنَا أَن يُبْدِلَنَا خَيْرًا مِّنْهَا إِنَّا إِلَى رَبِّنَا رَاغِبُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

قَالُوا يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا طَاغِينَ ( [ and at last ] they said, |"Woe to us! In fact, we [ all ] were outrageous....68:31). At the beginning, they accused one another of the sin. Then when they considered the matter carefully, they admitted that they were all on the wrong. As a result, they lamented and admitted their guilt that amounted to repentance. On the basis of this repentance they hoped that Allah will give them in exchange a garden better than the one destroyed. Imam Baghawi reports from Sayyidna ` Abdullah Ibn Masud (رض) that, according to his information, when these brothers repented truly, Allah blessed them with a better vineyard that bore such large bunches of grapes that a single bunch could be loaded on a mule. [ Mazhari ].

قَالُوْا يٰوَيْلَنَآ اِنَّا كُنَّا طٰغِيْنَ ، یعنی ابتداء ایک دوسرے پر الزام ڈالنے کے بعد جب غور کیا تو پھر سب نے اقرار کرلیا کہ ہم سب ہی سرکش گناہگار ہیں یہ اعتراف ندامت کے ساتھ ان کی توبہ کے قائم مقام تھا اسی بناء پر ان کو اللہ سے یہ امید ہوئی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس باغ سے بہتر باغ عطا فرما دیں گے۔ امام بغوی نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے نقل کیا ہے کہ ابن مسعوں نے فرمایا کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ جب ان سب لوگوں نے سچے دل سے توبہ کرلی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے بہتر باغ عطا فرما دیا جس کے انگوروں کے خوشے اتنے بڑے تھے کہ ایک خوشہ ایک خچر پر لادا جاتا تھا۔ (مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالُوْا يٰوَيْلَنَآ اِنَّا كُنَّا طٰغِيْنَ۝ ٣١ ويل قال الأصمعيّ : وَيْلٌ قُبْحٌ ، وقد يستعمل علی التَّحَسُّر . ووَيْسَ استصغارٌ. ووَيْحَ ترحُّمٌ. ومن قال : وَيْلٌ وادٍ في جهنّم، قال عز وجل : فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة/ 79] ، وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم/ 2] وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الجاثية/ 7] ، فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا [ مریم/ 37] ، فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا [ الزخرف/ 65] ، وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ، وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] ، يا وَيْلَنا مَنْ بَعَثَنا[يس/ 52] ، يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا ظالِمِينَ [ الأنبیاء/ 46] ، يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا طاغِينَ [ القلم/ 31] . ( و ی ل ) الویل اصمعی نے کہا ہے کہ ویل برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور حسرت کے موقع پر ویل اور تحقیر کے لئے ویس اور ترحم کے ویل کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ اور جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ویل جہنم میں ایک وادی کا نام ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة/ 79] ان پر افسوس ہے اس لئے کہ بےاصل باتیں اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور پھر ان پر افسوس ہے اس لئے کہ ایسے کام کرتے ہیں وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم/ 2] اور کافروں کے لئے سخت عذاب کی جگہ خرابی ہے ۔ ۔ فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا [ الزخرف/ 65] سو لوگ ظالم ہیں ان کی خرابی ہے ۔ وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ناپ تول میں کمی کر نیوالا کے لئے کر ابی ہے ۔ وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ [ الهمزة/ 1] ہر طعن آمیز اشارتیں کرنے والے چغلخور کی خرابی ہے ۔ يا وَيْلَنا مَنْ بَعَثَنا[يس/ 52]( اے ہے) ہماری خواب گا ہوں سے کسی نے ( جگا ) اٹھایا ۔ يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا ظالِمِينَ [ الأنبیاء/ 46] ہائے شامت بیشک ہم ظالم تھے ۔ يا وَيْلَنا إِنَّا كُنَّا طاغِينَ [ القلم/ 31] ہائے شامت ہم ہی حد سے بڑھ گئے تھے ۔ طغی طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣١۔ ٣٣) اور پھر متفق ہو کر کہنے لگے بیشک ہم مسکینوں کو نہ دینے کی نیت کر کے نافرمانی کرنے والے تھے، شاید ہمارا پروردگار ہمیں اس باغ سے اچھا باغ جنت میں بدلہ میں دے دے ہم اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ جو اپنے مال میں سے اللہ کا حق ادا نہ کرے دنیا میں اس کو اسی طرح عذاب ہوا کرتا ہے جیسا کہ ان لوگوں کا باغ جل گیا اور اس کے بعد بھوک کی تکلیف میں گرفتار ہوئے یا یہ کہ دنیا کا عذاب اسی طرح ہوا کرتا ہے جیسا کہ مکہ والے قتل اور بھوک کے عذاب میں گرفتار ہیں اور جو شخص توبہ نہ کرے اس کے لیے آخرت کا عذاب اس دنیا کے عذاب سے بھی بڑھ کر ہے۔ کیا اچھا ہوتا اگر اہل مکہ اس چیز کو جان لیتے مگر نہ یہ لوگ اس کو جانتے ہیں اور نہ اس کی تصدیق کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(68:31) یویلنا : یا کلمہ ندا۔ ویلنا مضاف مضاف الیہ ۔ ویل ہلاکت، موت، بدبختی، جہنم میں ایک کنویں کا نام ۔ ویلنا۔ کلمہ حسرت و ندامت ہے۔ بمعنی ہائے ہماری موت و ہائے ہماری بدبختی۔ ہائے افسوس۔ طغین۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ طغیان (باب نصر، سمع) مصدر سے۔ طغی یطغی اس نے سرکشی کی۔ اس نے سر اٹھایا۔ اس نے حد سے تجاوز کیا۔ پانی کی حد سے نکل جانا ۔ طغیانی کہلاتا ہے ۔ طغین۔ سرکش۔ حد سے نکلنے والے۔ شریر۔ طاغی کی جمع۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 ” حد سے بڑھنا یہی تھا کہ انہوں نے خدا کا خیال چھوڑ دیا اور اس کے دیئے ہوئے مال کو اپنا سمجھنے لگے۔ اس لئے ایسی تجویزیں سوچنے پر اتر آئے کہ فقیروں اور محتاجوں کو ان کے حق سے محروم کردیا۔ حتی کہ ” انشاء اللہ “ کہنے کی بھی ضرورت محسوس نہ کی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قالوا ........................ رغبون (٢٣) (٨٦ : ١٣۔ ٢٣) ” آخر کار انہوں نے کہا ” افسوس ہمارے حال پر ، بیشک ہم سرکش ہوگئے تھے۔ بعید نہیں کہ ہمارا رب ہمیں بدلے میں اس سے بہتر باغ عطا فرمائے ، ہم اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہیں “۔ اور قبل اس کے کہ اس منظر پر سے پردہ گر جائے ، ہم یہ نصیحت سنتے ہیں :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(31) آخر کہنے لگے ہائے ہماری خرابی ہم سب ہی حد سے بڑھ جانے والے تھے۔ یعنی الزام دینے ملامت کرنے اور اولا ہنادینے سے کیا فائدہ آئو سب مل کر اللہ تعالیٰ کی جناب میں توبہ کریں اور کھلے الفاظ میں اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں۔