Surat ul Qalam
Surah: 68
Verse: 5
سورة القلم
فَسَتُبۡصِرُ وَ یُبۡصِرُوۡنَ ۙ﴿۵﴾
So you will see and they will see
پس اب تو بھی دیکھ لے گا اور یہ بھی دیکھ لیں گے ۔
فَسَتُبۡصِرُ وَ یُبۡصِرُوۡنَ ۙ﴿۵﴾
So you will see and they will see
پس اب تو بھی دیکھ لے گا اور یہ بھی دیکھ لیں گے ۔
5۔ 1 یعنی جب حق واضح ہوجائے گا اور سارے پردے اٹھ جائیں گے اور یہ قیامت کے دن ہوگا بعض نے اسے جنگ بدر سے متعلق فرمایا ہے۔
فَسَتُبْصِرُ وَیُبْصِرُوْنَ ۔۔۔۔: آپ کے خلق عظیم کا تقاضا یہی ہے کہ ان کے مجنون کہنے اور دوسری تکلیف دہ باتوں پر صبر کریں۔” چند ہی “ سے مراد وہ موقع ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مختلف طریقوں سے مدد کی ، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ آخر کار آپکے جانی دشمن فوج در فوج آپ پر ایمان لا کر آپ کے جاں نثار دوست بن گئے اور جو مخالف رہے وہ بدر واحد اور خندق و فتح مکہ وغیرہ میں مردار ہوئے یا ذلیل و خوار ہوئے اور تمام جزیرۂ عرب پر اسلام کی حکومت قائم ہوگئی ۔ پھر قیامت تک آپ کی امت کے ہاتھوں ہونے والے فتوحات اور اسلام کی سر بلندی سے بھی واضح ہوگیا کہ پاگل کون تھا ؟ اس کے علاوہ ” جلد ہی “ سے مراد قیامت کا دن بھی ہے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقام محمود پر تشریف فرما ہوں گے ، آپ کے ہاتھ میں ” لو اء الحمد “ ( حمد کا جھنڈا) ہوگا اور جب آپ حو ض پر اپنے امتیوں کو پانی پلا رہے ہوں گے اور آپ کو جھٹلانے والے مجرم جہنم کی طرف دھکیلے جائیں گے ، تب آپ بھی دیکھ لیں گے اور وہ بھی کہ دیوانہ کون ہے ؟
فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ بِأَييِّكُمُ الْمَفْتُونُ (So, you will see, and they will see which of you is demented....68:5-6]. The word maftun, in this context, means &demented&. In the preceding verses, the Holy Prophet &, was accused of being an insane and demented. This verse turns tables upon the accusers of the Holy Prophet *, and making a prophecy, tells them in challenging words that time will show whether it was he or they who suffered from insanity, or whether his claim to be Allah&s Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was the outpouring of heated brain, or whether they themselves were so demented as not to read the signs of time, and thus refuse to believe in him. These were the unfortunate, wretched ones who did not see the light of Truth and were thus disgraced and defeated in this world. But, on the other hand, there were thousands of other lucky ones who, at first did not see the light of Truth and denounced him as demented, soon saw the light and embraced the Faith of Islam. They took the love and obedience of the Holy Prophet * as the capital asset of success, prosperity and happiness.
فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُوْنَ (عنقریب آپ بھی دیکھ لیں گے اور یہ کفار بھی دیکھ لیں گے تم میں کون مجنون ہے) مفتون اس جگہ بمعنے مجنون ہے۔ پچھلی آیات میں آپ کو مجنون کہنے والوں کے طعنہ کو دلائل سے رد کیا گیا تھا اس آیت نے پیش گوئی کے طور پر یہ بتلایا کہ یہ بات یوں ہی ڈھکی چھپی رہنے والی نہیں ہے قریب آنے والے وقت میں سب آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ معاذ اللہ آپ مجنون تھے یا آپ کو مجنون کہنے والے پاگل دیوانے تھے چناچہ تھوڑے ہی عرصہ میں یہ بات کھل کر دنیا کے سامنے آگئی اور انہیں مجنون کہنے والوں میں سے ہزاروں حلقہ بگوش اسلام ہو کر آپ کے اتباع و محبت کو سرمایہ سعادت سمجھنے لگے اور بہت سے اشقیاء جن کو توفیق نہیں ہوئی وہ دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہوئے۔
فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُوْنَ ٥ ۙ بصر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل/ 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔
آیت ٥{ فَسَتُبْصِرُ وَیُبْصِرُوْنَ ۔ } ” تو عنقریب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی دیکھ لیں گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے۔ “ یہ بڑا پیارا اور ناصحانہ انداز ہے۔ جیسے کوئی بڑا کسی چھوٹے کو سمجھاتا ہے کہ آپ مخالفانہ باتوں پر آزردہ نہ ہوں ‘ کچھ ہی دنوں کی بات ہے ‘ اصل حقیقت بہت جلد کھل کر سامنے آجائے گی ۔ پھر کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں رہے گا :
(68:5) فستبصر : ف اور س کے لئے ملاحظہ ہو 67:29 متذکرۃ الصدر۔ تبصر مضارع واحد مذکر حاضر ابصار (افعال) مصدر۔ عنقریب تو (بھ) دیکھ لیگا۔ ویبصرون اور وہ (یعنی کافر لوگ بھی) دیکھ لیں گے۔ اس آیت کا ربط اگلی آیت سے ہے۔
فہم القرآن ربط کلام : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوانہ کہنے والوں کا انجام کفار قرآن مجید اور دعوت توحید کی مخالفت کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجنون کہنے کے ساتھ یہ الزام بھی دیتے تھے کہ آپ راہ راست سے بھٹک گئے ہیں کیونکہ آپ جو انہیں دعوت دیتے تھے وہ انہوں نے پہلے نہیں سنی تھی۔ وہ اس دعوت کو اپنی مذہبی اور معاشرتی روایات کے خلاف سمجھتے تھے اس لیے پراپیگنڈہ کرتے کہ آپ صراط مستقیم سے بھٹک گئے ہیں۔ سورة یٰس کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور قرآن کی قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صراط مستقیم پر گامزن ہیں۔ یہاں یہ ارشاد فرمایا کہ آپ کا رب اچھی طرح جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے بھٹک چکا ہے اور کون سیدھے راستے پر گامزن ہے۔ کفار کی مخالفت اور الزام بازی کے باوجود نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوری جرأت کے ساتھ دعوت کے کام کو جاری رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مکی زندگی کے ابتدائی سالوں میں ہی وہ حالات پیدا فرمادیئے کہ اہل مکہ سوچنے اور یقین کرنے پر مجبور ہوگئے کہ نبی کی دعوت جلد غلبہ پاجائے گی۔ اس لیے انہوں نے اپنے رویے کو تبدیل کرتے ہوئے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کی، جس کے لیے آپ کے چچا ابوطالب کے پاس حاضر ہو کر درخواست کرتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہماری مفاہمت کروائیں۔ جس کے لیے کچھ ہم نرم ہوتے ہیں اور کچھ اسے اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنا چاہیے۔ اس کی تفصیل سورة الکافرون میں دیکھنی چاہیے۔ کفار کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ کچھ آپ نرم ہوجائیں اور کچھ وہ نرم ہوجاتے ہیں۔ آپ کو حکم دیا جاتا ہے کہ جھوٹے لوگوں کی بات کو ہرگز نہیں ماننا اور نہ ہی ان کی قسموں پر یقین کرنا چاہیے۔ (أَنّ قُرَیْشًا حینَ قَالُوا لِأَبِی طَالِبٍ ہَذِہِ الْمَقَالَۃَ بَعَثَ إلَی رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ لَہُ یَا ابْنَ أَخِی إنّ قَوْمَک قَدْ جَاءُ ونِی فَقَالُوا لِی کَذَا وَکَذَا لِلّذِی کَانُوا قالُوا لَہُ فَأَبْقِ عَلَیّ وَعَلَی نَفْسِک وَلَا تُحَمّلْنِی مِنْ الْأَمْرِ مَا لَا أُطِیقُ فَظَنّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنّہُ قَدْ بَدَا لِعَمّہِ فیہِ أَنّہُ خَاذِلُہُ وَمُسْلِمُہُ وَأَنّہُ قَدْ ضَعُفَ عَنْ نُصْرَتِہِ وَالْقِیَامِ مَعَہُ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَا عَمّ وَاللّٰہِ لَوْ وَضَعُوا الشّمْسَ فِی یَمِینِی وَالْقَمَرَ فِی یَسَارِی عَلَی أَنْ أَتْرُکَ ہَذَا الْأَمْرَ حَتّی یُظْہِرَہُ اللہُ أَوْ أَہْلِکَ فیہِ مَا تَرَکْتہ قالَ ثُمّ اسْتَعْبَرَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَبَکَی ثُمّ قَامَ فَلَمّا وَلّی نَادَاہُ أَبُو طَالِبٍ فَقَالَ أَقْبِلْ یَا ابْنَ أَخِی، قَالَ فَأَقْبَلَ عَلَیْہِ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ اذْہَبْ یَا ابْنَ أَخِی، فَقُلْ مَا أَحْبَبْت، فَوَاَللہِ لَا أُسْلِمْک لِشَیْءِ أَبَدًا) (سیرت ابن ہشام : باب مشی قریش الی ابی طالب ) ” جب قریش آپ کے چچا ابو طالب کے پاس آئے انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں برا بھلا کہا تو آپ کے چچا ابو طالب نے آپ سے کہا کہ اے بھتیجے تیری قوم میرے پاس آئی تھی اور انہوں نے مجھے تیرے بارے بہت برا ہے کہ میں تمہیں اس بات سے روکتا ہوں جو مکہ والوں کو کہتا ہے۔ تو اپنے آپ پر رحم کر اور مجھ پر بھی رحم کر اور مجھ پر ایسا بوجھ نہ ڈال جس کی میں طاقت نہیں رکھتا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیال کیا کہ آپ کا چچا آپ کو چھوڑ کر الگ ہونا چاہتا ہے اور وہ اس بات سے عاجز آگیا ہے کہ وہ آپ کی مدد کرئے یا آپ کے ساتھ کھڑا ہو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چچا کو فرمایا اے چچا اگر میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں پر چاند لا کر رکھ دیں کہ میں اس دین کو چھوڑ دوں پھر بھی میں اس دین کو نہیں چھوڑسکتا۔ حتی کہ اللہ تعالیٰ اس کو غالب کردیں یا میں قتل کردیا جاؤں۔ یہ کہتے ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور واپس جانے لگے تو ابوطالب نے کہا کہ اے بھتیجے قریب آؤ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قریب ہوے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا نے کہا جاؤ جو بات تمہیں پسند ہے اس کا اعلان کرو اللہ کی قسم میں تمہیں کسی بات سے منع نہیں کروں گا۔ “ مسائل ١۔ اہل مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجنون کہتے تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہدایت یافتہ اور گمراہ لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہے۔ ٣۔ کفرو شرک کے ساتھ دین اور ایمان میں مفاہمت نہیں ہوسکتی۔ ٤۔ جھوٹے لوگوں کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن حق اور باطل، نیک اور بد برابر نہیں ہوسکتے : ١۔ حق آگیا اور باطل بھاگ گیا، باطل کا کام ہی بھاگ جانا ہے۔ (بنی اسرائیل : ٨١) (الحشر : ٢٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ باطل کو مٹاتا اور حق کو واضح کرتا ہے۔ (الشوریٰ : ٢٤) ٣۔ روشنی اور اندھیرا برابر نہیں ہوسکتے۔ (فاطر : ٢٠) ٤۔ اللہ تعالیٰ حق کو حق اور باطل کو باطل کردیتا ہے اگرچہ مجرم اسے ناپسند سمجھیں۔ (الانفال : ٨) (السجدۃ : ١٨)
فستبصر ............................ بالمھتد (٧) (٨٦ : ٥ تا ٧) ” عنقریب تم بھی دیکھ لوگے اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ تم میں سے کون گمراہی میں مبتلا ہے۔ تمہارا رب ان لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں ، اور وہی ان کو بھی اچھی طرح جانتا ہے جو راہ راست پر ہیں “۔ المفتون (٨٦ : ٦) سے مراد ہے گمراہ۔ اللہ فرماتا ہے کہ اللہ ہدایت یافتہ لوگوں کو بھی جانتا ہے اور گمراہوں کو بھی۔ یا اس کے معنی ہیں وہ شخص جو آزمائش میں ڈال دیا گیا ہے اور جس کا نتیجہ نکلنے والا ہے۔ دونوں مفہوم قریب قریب ہیں۔ اس وعدے میں رسول اللہ اور مومنین کے لئے اطمینان ہے جبکہ مخالفین کے لئے دھمکی ہے۔ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جنون کا الزام لگایا تھا۔ اس جنون سے ان کی مراد یہ نہ تھی کہ آپ کی عقل چلی گئی ہے کیونکہ واقعی صورت حال اس کی تکذیب کررہی تھی بلکہ اس سے مراد لیتے تھے کہ آپ پر جنون کا اثر ہوگیا ہے اور اس میں ان کا اشارہ اس طرف تھا کہ ہر شاعر کے ساتھ ایک شیطان ہوتا ہے ، جو اس پر شعر وحی کرتا ہے۔ اشارتاً وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف اس بات کو منسوب کرتے تھے جبکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو تعلیمات پیش کرتے ، ان کا تعلق نہ شعر سے تھا اور جنون کی باتوں سے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ تسلی دیتا ہے کہ مستقبل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حقیقت کو بھی ظاہر کردے گا اور آپ کی تکذیب کرنے والوں کی حقیقت کو بھی۔ اور معلوم ہوجائے گا کہ دونوں میں سے کون گمراہ ہے ؟ اور مزید اطمینان کے لئے کہا جاتا ہے کہ رب تعالیٰ تو جانتا ہے کہ کون گمراہ ہے اور کون راہ راست پر ہے۔ یہ کلام تو وہی وحی کررہا ہے۔ لہٰذا اس سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے۔ یہ ایسی بات ہے جس کی وجہ سے آپ دشمنوں کی ہر زیادتی کو برداشت کرلیتے تھے اور اس کے نتیجے میں آپ کے دشمن پریشان ہوجاتے تھے اور آپ کی ثابت قدمی کی وجہ سے ان کے اندر قلق اور تزلزل پیدا ہوجاتا تھا ، جیسا کہ اگلی آیات میں آتا ہے۔ اگلی آیت میں آپ کو بتایا جاتا ہے کہ اندر سے ان لوگوں کا حال بہت پتلا ہے۔ ان کی سوچ اندر سے کھوکھلی ہوچکی ہے۔ بظاہر تو وہ مخاصمت کرتے ہیں ، جھگڑتے ہیں ، حق کا انکار کرتے ہیں ، آپ ہر طرح کے الزامات لگاتے ہیں ، لیکن اندر سے ان کے اندر تزلزل پیدا ہوگیا ہے۔ وہ ہل گئے ہیں اور جن عقائد پر وہ جمے ہوئے نظر آتے ہیں ، درحقیقت ان کے ایک بڑے حصے پر خود ان کو اعتماد نہیں ہے۔ یہ سودا بازی کے لئے تیار ہیں ، یہ چاہتے ہیں کہ کچھ آپ نرم ہوں اور کچھ یہ نرم ہوں لیکن جن لوگوں نے نظریاتی انقلاب لانا ہوتا ہے وہ تب ہی لاسکتے ہیں جب وہ اپنے اخلاقی نظریات پر جم جائیں۔ ان لوگوں کے جو عقائد ہیں یہ ان کے بارے میں کچھ زیادہ سنجیدہ نہیں ہیں۔ انہوں نے چند ظاہری رسول کو پکڑا ہوا ہے جن کے ساتھ ان کے مفادات وابستہ ہیں۔ لہٰذا ان کی کوئی بات نہ مانو۔
﴿فَسَتُبْصِرُ وَ يُبْصِرُوْنَۙ٠٠٥﴾ (سو آپ دیکھ لیں گے اور وہ لوگ بھی دیکھ لیں گے) ﴿ بِاَىيِّكُمُ الْمَفْتُوْنُ ٠٠٦﴾ (کہ تم میں سے کسے جنون ہے) جو لوگ آپ کو دیوانہ کہتے تھے (العیاذ باللہ) پہلے دلائل سے ان کی تردید کی پھر فرمایا کہ عنقریب ہی آپ بھی دیکھ لیں گے اور یہ لوگ بھی دیکھ لیں گے کہ دیوانہ کون ہے ؟ حضرت ابن عباس (رض) سے اس کا مطلب یوں منقول ہے کہ یہ اہل باطل جو آپ کو دیوانہ بتا رہے ہیں روز قیامت ان کو پتہ چل جائے گا کہ یہ خود ہی دیوانہ تھے۔ اور بعض حضرات نے آیت کا یہ مطلب بتایا ہے کہ عنقریب ہی سب کے سامنے اسی دنیا میں بات آجائے گی کہ دیوانہ کون ہے، چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات پھیلی دعوت آگے بڑھی، اہل عرب مسلمان ہوئے اور جو دشمن تھے جانثار ہوگئے اور جنہیں قبول حق کی توفیق نہ ہوئی وہ ذلیل اور خوار ہوئے غزوہٴ بدر کے واقعہ نے سب کو بتادیا کہ دیوانہ کہنے والے ہی دیوانے تھے۔ (روح المعانی صفحہ ٢٩: ج ٢٩)
4:۔ ” فستبصر ویبصورن “ یہ مشرکین پر زجر ہے۔ ” المفتون “ مصدر ہے۔ یعنی الفتنۃ بمعنی الجنون (روح) ۔ بہت جلد دنیا ہی میں جب اسلام کو غلبہ حاصل ہوجائے گا اور یہ صنادید کفر اور اراکین شرک مسلمانوں کے ہاتھوں مغلوب و مقہور ہوں گے تو ان کا سارا غرور خاک میں مل جائے گا اس وقت آپ بھی مشاہدہ کرلیں گے اور وہ خود بھی دیکھ لیں گے کہ حقیقت میں دیوانہ اور مجنون کون ہے ؟ حاصل یہ ہے کہ اس وقت انہیں معلوم ہوجائے گا کہ حقیقت میں دیوانے تو وہ خود ہیں۔ جنہوں نے دین حق سے اعراض کر کے دنیا اور آخرت میں ذلت و رسوائی مول لی اور اللہ کے سچے پیغمبر (علیہ السلام) کو جھوٹے طعنوں کا نشانہ بتاتے رہے۔