Surat ul Qalam

Surah: 68

Verse: 50

سورة القلم

فَاجۡتَبٰہُ رَبُّہٗ فَجَعَلَہٗ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۵۰﴾

And his Lord chose him and made him of the righteous.

اس کے رب نے پھر نوازا اور اسے نیک کاروں میں کر دیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Then his Lord chose him and made him of the righteous. Imam Ahmad recorded from Abdullah that the Messenger of Allah said, لاَا يَنْبَغِي لاِاَحَدٍ أَنْ يَقُولَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى It is not befitting for anyone to say that I am better than Yunus bin Matta. Al-Bukhari recorded this Hadith and it is in the Two Sahihs reported from Abu Hurayrah. Concerning Allah's statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

50۔ 1 اس کا مطلب ہے کہ انہیں توانا اور تندرست کرنے کے بعد دوبارہ رسالت سے نواز کر انہیں اپنی قوم کی طرف بھیجا گیا، جیسا کہ (وَاَنْۢبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِّنْ يَّقْطِيْنٍ 146؀ۚ ) 37 ۔ الصافات :146) سے بھی واضح ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٧] یعنی ان کی نبوت کو بھی بحال کردیا گیا اور انہیں اسی قوم کی طرف دوبارہ بھیجا گیا جہاں سے وہ بھاگ کر چلے گئے تھے۔ آپ کا قصہ پہلے سورة یونس کی آیت نمبر ٩٨، سورة انبیاء کی آیت نمبر ٨٧، ٨٨ اور سورة صافات کی آیت نمبر ١٤٣ کے تحت گزر چکا ہے۔ وہ حواشی ملاحظہ کرلیے جائیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فاجتبہ ربہ فجعلہ من الصلحین : چنے ہوئے تو پہلے بھی تھے، اب ان کا مرتبہ اور بڑھا دیا اور انہیں اعلیٰ درجے کے نیک اور صالح بندوں میں داخل کردیا۔ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ماینبغی لعبد ان یقول انی خیر من یونس بن متی) (بخاری، الانبیاء ، باب قول اللہ تعالیٰ :(وان یونس …): ٣٣١٣)” کسی بندے کو لائق نہیں کہ وہ کہے میں یونس بن متی سے بہتر ہوں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاجْتَبٰىہُ رَبُّہٗ فَجَــعَلَہٗ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ۝ ٥٠ اجتباء : الجمع علی طریق الاصطفاء . قال عزّ وجل : فَاجْتَباهُ رَبُّهُ [ القلم/ 50] ، وقال تعالی: وَإِذا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قالُوا : لَوْلا اجْتَبَيْتَها [ الأعراف/ 203] ، أي : يقولون : هلّا جمعتها، تعریضا منهم بأنک تخترع هذه الآیات ولیست من اللہ . واجتباء اللہ العبد : تخصیصه إياه بفیض إلهيّ يتحصل له منه أنواع من النعم بلا سعي من العبد، وذلک للأنبیاء وبعض من يقاربهم من الصدیقین والشهداء، كما قال تعالی: وَكَذلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ [يوسف/ 6] ، فَاجْتَباهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ [ القلم/ 50] ، وَاجْتَبَيْناهُمْ وَهَدَيْناهُمْ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الأنعام/ 87] ، وقوله تعالی: ثُمَّ اجْتَباهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيْهِ وَهَدى [ طه/ 122] ، وقال عزّ وجل : يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ [ الشوری/ 13] ، وذلک نحو قوله تعالی: إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ [ ص/ 46] . الاجتباء ( افتعال ) کے معنی انتخاب کے طور پر کسی چیز کو جمع کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ وَإِذا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قالُوا : لَوْلا اجْتَبَيْتَها [ الأعراف/ 203] اور جب تم ان کے پاس ( کچھ دنوں تک ) کوئی آیت نہیں لاتے تو کہتے ہیں کہ تم نے ( اپنی طرف سے ) کیوں نہیں بنائی ہیں کے معنی یہ ہوں گے کہ تم خد ہی ان کو تالیف کیوں نہیں کرلیتے دراصل کفار یہ جملہ طنزا کہتے تھے کہ یہ آیات اللہ کی طرف سے نہیں ہیں بلکہ تم کود ہی اپنے طور بنالیتے ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ کا کسی بندہ کو جن لینا کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اسے اپنے فیض کے لئے برگزیدہ کرلیتا ہے جسے گونا گون نعمتیں جدو جہد کے بغیر حاصل ہوجاتی ہیں یہ انبیاء کے ساتھ خاص ہے اور صدیقوں اور شہدوں کے لئے جوان کئ قریب درجہ حاصل کرلیتے ہیں ۔ جیسا کہ یوسف کے متعلق فرمایا : ۔ وَكَذلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ [يوسف/ 6] اور اسی طرح خدا تمہیں برگزیدہ ( ممتاز ) کرے گا ۔ فَاجْتَباهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ [ القلم/ 50] پھر پروردگار نے ان کو برگزیدہ کر کے نیکو کاروں میں کرلیا ۔ وَاجْتَبَيْناهُمْ وَهَدَيْناهُمْ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الأنعام/ 87] ان کو برگزیدہ بھی کیا تھا اور سیدھا رستہ بھی دکھا یا تھا ۔ ثُمَّ اجْتَباهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيْهِ وَهَدى [ طه/ 122] پھر ان کے پروردگار نے ان کو نواز اتو ان پر مہر بانی سے توجہ فرمائی اور سیدھی راہ بتائی ۔ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ [ الشوری/ 13] جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ کا برگزیدہ کرلیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرے اسے اپنی طرف رستہ دکھا دیتا ہے اس احتیاء کو دوسرے مقام پر اخلاص سے تعبیر فرمایا ہے ۔ إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ [ ص/ 46] ہم نے ان کو ایک ( صفت ) خاص ( اخرت ) کے گھر کی یا سے ممتاز کیا تھا ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٠{ فَاجْتَبٰـٹـہُ رَبُّہٗ فَجَعَلَہٗ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ ۔ } ” تو اس کے ربّ نے اس کو ُ چن لیا اور اسے پھر صالحین میں سے کردیا۔ “ حضرت یونس (علیہ السلام) کے ذکر کے حوالے سے یہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک فرمان بھی سن لیجیے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (لَا تُفَضِّلُوْنِیْ عَلٰی یُوْنُسَ بْنِ مَتّٰی) (١) ” کہ مجھے یونس (علیہ السلام) ابن متیٰ پر بھی فضیلت نہ دو “۔ اس میں ان لوگوں کے لیے تنبیہہ ہے جو اپنا جوشِ خطابت اور زور قلم دوسرے انبیاء کرام پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فضیلت ثابت کرنے میں صرف کرتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلاشبہ پوری نوع انسانی سے افضل اور سید الانبیاء والمرسلن ہیں۔ لیکن ع ” حاجت ِ مشاطہ ّنیست صورت دل آرام را “۔ آج پوری دنیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت کی قائل ہے۔ اس حقیقت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ آج ایک عیسائی دانشور مائیکل ہارٹ اپنی کتاب ” The 100 “ میں یہ لکھنے پر مجبور ہے : |" My choice of Muhammad to lead the list of the world&s most influential persons may surprise some readers and may be questioned by others , but he was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels.|" ” حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دنیا کی بااثر ترین شخصیات میں سرفہرست رکھنے کے میرے اس فیصلے پر کچھ قارئین کو حیرت ہوگی اور بعض اس پر سوال بھی اٹھائیں گے ‘ لیکن پوری انسانی تاریخ میں صرف اور صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی واحد شخص ہیں جو مذہبی اور سیکولر دونوں محاذوں پر پوری طرح کامیاب رہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(68:50) فاجتہ ربہ جملہ معطوف ہے جس کا عطف جملہ مقدرہ پر ہے ای فتدارکتہ نعمۃ من ربہ (لیکن) اللہ کی طرف سے اس کی رحمت اس تک آپہنچی اور اسے توفیق توبہ نصیب ہوئی اور وہ (توبہ) مشرف بقبولیت ہوئی پس اس کے پروردگار نے اسے منتخب فرما لیا۔ فاجتبہ میں ف عاطفہ ہے اور تعقیب کا ہے اجتبی ماضی واحد مذکر غائب اجتباء (افتعال) مصدر بمعنی چن لینا۔ انتخاب کرلینا۔ پسند کرلینا۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب جس کا مرجع یونس (علیہ السلام) ہیں۔ ربہ مضاف مضاف الیہ۔ اس کا پروردگار۔ الصلحین۔ نیک مرد، نیک لوگ، کاملین، صلاح سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر ہے سو اس نے اس کو نیک اور صالحین ، کاملین میں شامل کرلیا۔ مراد یہ کہ نبیوں میں شامل کرلیا۔ (خازن) فائدہ : سورة ہذا کی آیات 48 تا 50 اور سورة صٰفٰت کی آیات 37:40 تا 147 کے مدنظر واقعہ یوں بنتا ہے :۔ جب کشتی منجدھار میں پھنس گئی تو اس وقت کے رواج کے مطابق ملاحوں نے قرعہ اندازی کی کہ کس کی وجہ سے کشتی ایسی حالت میں دو چار ہوگئی ہے۔ جب تین بار متواتر قرعہ حضرت یونس (علیہ السلام) کے نام نکلا تو انہوں نے آپ کو دریا میں پھینک دیا۔ اور ایک بڑی مچھلی نے ان کو نگل لیا اس وقت ان کی حالت یہ تھی کہ وہ اپنے کئے پر اپنے کو ملامت کر رہے تھے (37:42) (تفسیر ماجدی) اس وقت اگر آپ اپنے پروردگار کی تسبیح نہ کرتے تو قیامت تک اسی کے پیٹ میں رہتے یعنی ان کو مچھلی کے پیٹ سے نکلنا نصیب نہ ہوتا اور وہ اسی کی غذا بنا دئیے جاتے (37:143144) لیکن حضرت یونس جو صدموں اور غموں سے بھرے بیٹھے تھے تو سمندر اور مچھلی کے پیٹ کے اندھیروں سے اپنے پروردگار کو پکارا اور کہا :۔ لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین (21:87 اور 68:48) اگر اللہ تعالیٰ کا فضل دست گیری نہ کرتا اور ان کی پکار کو شرف قبولیت نہ بخشتا تو ان کو چٹیل میدان میں ایسی حالت میں پھینک دیا جاتا کہ صبر نہ کرنے اور اپنی قوم کو چھوڑ کر بغیر اذن خدا چلے آنے پر مورد مذمت ہوتے (68:49) لیکن اللہ کی طرف سے اس کی رحمت ان تک آن پہنچی اور توفیق توبہ نصیب ہوئی اور توبہ مشرف بہ قبولیت ہوئی اور اس نے ان کو مضمحل اور مریض کی حالت میں چٹیل میدان میں ڈال دیا اور ان پر ایک بیلدار درخت اگا دیا۔ (37:145146) ان کو (اپنے انعامات کے لئے) منتخب کرلیا۔ اور صالحین و کاملین میں شامل کرلیا۔ (68:50) اور ان کو ایک لاکھ آبادی یا اس سے بھی زیادہ کی طرف (پیغمبر بنا کر) بھیج دیا (37:147)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی ان کا متربہ اور بڑھایا اور انہیں اعلیٰ درجہ کے نیک اور شائستہ بندوں میں داخل رکھا۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : کسی شخص کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ میں (حضرت) یونس بن متی سے بہتر ہوں۔ (ابن کثیر) حضرت یونس کا قصہ سورة یونس آیت 98 اور سورة انبیاء آیت 8887 میں تفصیل سے گزر چکا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فاجتبہ ........................ الصلحین (٨٦ : ٠٥) ” آخر کار اس کے رب نے اسے برگزیدہ فرما لیا اور اسے صالح بندوں میں شامل کردیا “۔ یہ تجربہ خاتم النبین کے لئے پیش کیا گیا تاکہ آپ اپنے فرائض رسالت کی ادائیگی میں اس سے استفادہ کریں۔ کیونکہ آپ نے آخری رسالت کا کام تمام سابقہ تجربات کی روشنی میں کرنا تھا۔ تمام نصیحتیں ، تمام عبرتیں اور تمام تجربات کی فصل آپ نے کاٹنی تھی تاکہ آپ کے لئے اپنے کام میں فیصلے کرنے میں آسانی ہو۔ اور آپ یہ بوجھ اچھی طرح اٹھاسکیں۔ تاکہ آنے والے زمانے میں ، جدید سے جدید تر حالات میں بھی زندگی کی گاڑی ان اصولوں کے مطابق چلائی جاسکے اور جب مستقبل کوئی نیا مسئلہ لے کر آئے تو اس دعوت اور رسالت کے اصولوں میں اس کا حل موجود ہو۔ یہ تجربہ جس سے حضرت یونس (علیہ السلام) گزرے ، یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں کہ انہی کی طرح لوگ ہٹ دھرمی ، تکذیب اور سرکشی پر اترے ہوئے ہیں اور یہ نصیحت آپ کو اس وقت کی گئی جب حق و باطل کے معرکے کی ذمہ داری سے آپ کو سبکدوش کردیا گیا۔ یہ ذمہ داری اللہ نے لے لی۔ جس طرح چاہے گا ، جنگ کرے گا ، جس وقت چاہے گا ، کرے گا۔ آپ کو یہ حکم دے دیا کہ آپ صبر اور ثابت قدمی سے اپنا کام یعنی ابلاغ کرتے رہیں ، چاہے اس راہ میں جو مشکلات بھی آئیں ، تمام فیصلے وقت پر ہوں گے۔ مقام دعوت نہ چھوڑیں نہ جلدی کریں۔ دعوت اسلامی کی مشکلات اور مشقتوں میں سے سب سے بڑی مشقت صبر کرنا ہے۔ اور اس وقت کا انتظار کرنا ہے کہ جب اللہ اپنا آخری فیصلہ صادر کردے کیونکہ دعوت کامیابی کے وقت کا فیصلہ اللہ کے پاس ہے اور یہ فیصلہ اللہ اپنی حکمت کے مطابق صار فرماتا ہے۔ اس فیصلے کی گھڑی کے آنے سے پہلے اس راہ میں بڑی مشقتیں آتی رہتی ہیں ، لوگ جھٹلاتے ہیں ، پھر تشدد کرتے ہیں۔ چالیں چلتے ہیں اور سخت عناد رکھتے ہیں۔ باطل اپنی قوت کا مظاہرہ کرتا ہے اور وہ اسے اس طرح بڑھا کر پیش کرتا ہے جس طرح غبارے میں ہوا بھردی جاتی ہے۔ اور وہ خوفناک نظر آتا ہے ، لوگ ظاہری کامیابی اور باطل کی چلت پھرت سے مرعوب ہوکر اس کے پیچھے ہو لیتے ہیں ، پھر مشکل ترین مشقت یہ ہوتی ہے کہ داعی نہایت ثابت قدمی ، استقلال ، سنجیدگی کے ساتھ جم کر کام کرتا رہے اور وعدہ حق کی آمد کا انتظار کرے۔ کوئی شک نہ کرے ، کوئی تردد اسے نہ ہو ، سیدھی راہ پر جارہا ہو ، اگرچہ راہ میں رکاوٹیں آئیں تو گویا وقت کے آنے کا انتظار بڑی مشقت ہے۔ رہا اصل معرکہ تو یہ اللہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ وہی اس معرکے میں فریق ہے ، وہی تدبیر کررہا ہے۔ وہ ظالموں کی رسی دراز کررہا ہے۔ اور اس میں حکمت پوشیدہ ہے۔ یہی وعدہ ان مشکل حالات میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہوا اور بعد کے حالات نے اس کی تصدیق کی۔ آخر میں کافروں کے ایک دوسرے منظر کو یہاں لایا جاتا ہے۔ یہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت اور تبلیغ سن کر سخت غصے میں آتے تھے اور جل بھن جاتے تھے اور ان کے دل میں سخت عناد اور حسد پیدا ہوتا ہے ، جس کا اظہار ان کی نظروں سے ہوتا ۔ زہر آلود اور قہر آمیز نظروں سے یہ لوگ آپ کو گھورتے ہیں۔ قرآن کریم ان کو نہایت ہی خوبصورتی سے بیان کرتا ہے جس پر اضافہ ممکن نہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿فَاجْتَبٰىهُ رَبُّهٗ فَجَعَلَهٗ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ ٠٠٥٠﴾ (پھر ان کے رب نے ان کو چن لیا اور برگزیدہ بنا لیا اور انہیں صالحین میں شامل فرما دیا) بلا اذن خداوندی قوم کو چھوڑ کر چلے جانے کی خطا اجتہادی کا جو صدور ہوا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کو معاف فرما دیا اور صالحین کاملین ہی میں ان کا درجہ رکھا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(50) پھر اس کے رب نے اس کو نواز دیا اور اس کو نیک اور شائستہ لوگوں میں شامل رکھا۔ مچھلی کی مناسبت سے حضرت یونس (علیہ السلام) کو صاحب الحوت فرمایا ۔ حضرت یونس (علیہ السلام) نے قوم کی اذیت سے گھبرا کر قوم کے لئے بدعا کی پھر بلا اذن الٰہی عذاب کی تاریخ مقرر کردی پھر بستی سے نکل کر چلے گئے اور آخر مچھلی کے پیٹ میں محبوس کردیئے گئے بعض مفسرین نے ولا تکن کصاحب الحوت پر نہی کو ختم کردیا ہے جیسا کہ وقف لازم سے ظاہر ہے اس تقدیر پر مطلب یہ ہے کہ اے محمد تم جلدبازی میں یونس کی طرح نہ ہوجانا اگر حضرت یونس کا قصہ بطور اتمام چند آیتوں میں بیان کردیا۔ یعنی وہ وقت قابل ذکر ہے جب اس نے پکارا ایسی حالت میں جبکہ وہ غصے اور غم کے مار گھٹ رہا تھا یہ پکارنا مچھلی کے پیٹ میں پکارنا ہوگا اور بعض حضرات نے فرمایا۔ لا یکن حالک کحالہ وقت ندائہ اے لا توجد منک ماوجد منہ من المغاضبۃ والمعاتبۃ۔ اب اذنادی وھو مکظوم کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ غصے میں بھرا ہوا تھا اور اس نے غصے میں آکر اپنی قوم کے عذاب کے لئے پکارا مکظوم کسی کا غصہ میں بھرجانا یاغصے کے مارے دم گھٹنا بہرال ہم نے ترجمہ اور تیسیر میں اسی فرق کو ظاہر کردیا ہے اور ہم نے جو تقریر اختیار کی ہے وہ مچھلی کے پیٹ میں پکارنے والی تقریر اختیار کی ہے۔ یعنی حضرت یونس (علیہ السلام) کا پور ا قصہ یہ ہے کہ وہ مچھلی کے پیٹ میں اس حالت میں تھے کہ مختلف غموم کی وجہ سے وہ گھٹ رہے تھے انہوں نے پکارا اور ان کا پکارنا توبہ اور انابت الی اللہ کے لئے پکارنا تھا چناچہ حبس سے جو نجات طلب کی تھی اور لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین کے الفاظ کے ساتھ پکارا تھا تو ان کی پکار قبول ہوئی۔ چنانچہ حضرت حق تعالیٰ کے فضل سے ان کی دستگیری ہوئی اگر اس کے پروردگار کا فضل دستگیری نہ کرتا تو وہ چٹیل میدان میں مذمت کیا گیا اور الاہنا کھایا ہوا پڑا رہتا۔ پروردگار کے فضل اور فضل الٰہی کی دستگیری کا یہ اثر ہوا کو وہ چٹیل میدان میں محمودبنا کر ڈالا گیا مذموم بناکر نہیں۔ جو کچھ ہم نے عرض کیا اس سے سورة والصافات کی آیت میں اور سو رہ نون کی آیت میں کسی توجیہہ کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ فنبذنا بالعرآء وھو سقیم اور لنبذ بالعرآء وھو مذموم کا مطلب صاف سمجھ میں آگیا ہوگا اور جن حضرات نے پہلی تقریر کو اختیار کیا ہے وہ بھی صحیح ہے کیونکہ دونوں کا مطلب ایک ہی ہے۔ حضرت یونس علیہالسلام کی پکار اپنی قوم پر عذاب کے لئے ہو یا مچھلی کے پیٹ میں محبوس ہونے کے وقت ہو آخر میں خلاصہ ایک ہی ہے چٹیل میدان میں غیر مذموم ڈالنے کے بعد جو ان کی عزت افزائی ہوئی اور ان کی قدرومنزلت کو بڑھایا گیا اس کی تفصیل والصافات میں گزر چکی ہے۔ اسی کو یہاں بیان فرمایا۔ باجتبہ ربہ فجعلہ من الصلحین۔ جب حضرت حق تعالیٰ اپنے کسی بندے کی توبہ قبول فرمالیتے ہیں اور ان کی نظر عنایت اور نظر شفقت کسی کو نواز لیتی ہے تو اس کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہوتا ہے جیسا کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کے ساتھ ہوا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) سے صرف ایک اجتہادی غلطی ہوئی جس کو زیادہ سے زیادہ ترک اولیٰ کہا جاسکتا ہے۔ لیکن بڑوں کی بڑی شان ہے ایک اجتہادی غلطی کا اثر کتنا وسیع ہوا اور کہاں جاکر ختم ہوا یہ تمام قصہ سنا کر اپنے پیغمبر کو سمجھایا کہ تم کہیں قوم کی ناشائستہ حرکات سے متاثر ہوکر عذاب میں جلدی نہ کر بیٹھنا اور حضرت یونس (علیہ السلام) کو جلد بازی سے جو پریشانی اٹھانی پڑی تھی اس میں مبتلا نہہوجانا بلکہ جب ہم نے بتادیا کہ ہم مہلت دیا کرتے ہیں اور قوموں کو ان کے مقررہ وقت پر پکڑا کرتے ہیں تو آپ صبر سے انتظار کیجئے اور عقوبت و عذاب میں جلدی نہ کیجئے۔ کہتے ہیں آپ شاید کسی قبیلے کے لئے یا جنگ احد میں جو لوگ میدان جنگ سے بھاگ گئے تھے ان کے لئے بددعا کرنا چاہتے تھے اس پر یہ آیتیں نازل فرمائیں اور اسی بنا پر سورة نون کی ان آیتوں کو مدنی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ مدینے میں نازل ہوئی تھی۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی اللہ کا حکم دیکھے تو بددعا کر اور دیری کے سبب جھنجھلا کر نہ کر حضرت یونس (علیہ السلام) کی طرح حضرت نے فرمایا جو کوئی کہے میں یونس (علیہ السلام) سے بہتر ہوں وہ جھوٹا ہے۔ خلاصہ : یہ کہ بعض جاہل واعظ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے مابین مقابلہ کیا کرتے ہیں اور حضرت یونس (علیہ السلام) کی شان کو گرا کر بیان کرتے ہیں اور ان پر میری عظمت ظاہر کرتے ہیں تو یہ لوگ جھوٹے ہیں انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام سب اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں اور سب واجب التعظیم ہیں ان میں اس ترح مقابلہ کرنا جس سے کسی دوسرے نبی کی تحقیر یا اس کی شان کا استحقاف ہوا ایسا کرنا غلطی اور گمراہی ہے۔ لانفرق بین احد من رسلہ