Surat ul Haaqqaa
Surah: 69
Verse: 37
سورة الحاقة
لَّا یَاۡکُلُہٗۤ اِلَّا الۡخَاطِئُوۡنَ ﴿٪۳۷﴾ 5
None will eat it except the sinners.
جسے گنہگاروں کے سوا کوئی نہیں کھائے گا ۔
لَّا یَاۡکُلُہٗۤ اِلَّا الۡخَاطِئُوۡنَ ﴿٪۳۷﴾ 5
None will eat it except the sinners.
جسے گنہگاروں کے سوا کوئی نہیں کھائے گا ۔
So no friend has he here this Day. Nor any food except filth from the washing of wounds. None will eat it except the Khati'un. meaning, there is no one today who can save him from the punishment of Allah, nor any close friend or intercessor whose request would be honored. He will have no food here except for the filthy washing of wounds. Qatadah said, "It will be the worst food of the people of the Hellfire." Ar-Rabi` and Ad-Dahhak both said, "It (Ghislin) is a tree in Hell." Shabib bin Bishr reported from Ikrimah that Ibn Abbas said, `Ghislin will be the blood and fluid that will flow from their flesh." Ali bin Abi Talhah reported from Ibn Abbas that he said, "Ghislin is the pus of the people of the Hellfire."
37۔ 1 خاطئون سے مراد اہل جہنم ہیں جو کفر و شرک کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوں گے اس لیے کہ یہ گناہ ایسے ہیں جو خلود فی النار کا سبب ہیں۔
[٢١] اس نے دنیا میں خود غرضی کا رویہ اختیار کیا، نہ کسی کی مدد کی، نہ ہمدردی کی، نہ ہی کبھی اسے ایسا خیال تک آیا تھا۔ لہذا آج اسے بھی غم خوار اور ہمدرد میسر نہ آئے گا۔ اور جب وہ بھوک سے بےتاب ہوجائے گا تو اسے اپنے جیسے دوزخیوں کے زخموں کا دھو ون دیا جائے گا یہی اس کی خوراک ہوگی اور یہی اس کا مشروب ہوگا۔ اور یہ بات تو واضح ہے کہ زخموں کا دھو ون نہ کوئی خوراک ہے اور نہ مشروب ہے۔ مگر ایسے مجرموں کو یہی کچھ کھانا پڑے گا۔ کوئی اور چیز انہیں مہیا نہیں کی جائے گی۔ پھر مجرموں کی بھی کئی اقسام ہیں کچھ دوزخی ایسے ہوں گے جنہیں کھانے کو تھوہر دیا جائے گا اور پینے کو کھولتا ہوا پانی۔
لایاکلمہ الا الخاطون :” الخاطون “ ” خاطی “ کی جمع ہے، جو جان بوجھ کر نا درست کام کرے، جیسے فرمایا :(ان قتلھم کان خطاً کبیراً ) (بنی اسرائیل : ٣١)” بیشک ان کا قتل ہمیشہ سے بہت بڑا گناہ ہے۔ “ اگر کسی سے قصد وار ارادہ کے بغیر نادرست کام ہوجائے تو وہ ” مخطی “ ہے۔ (المفردات و التسہیل)
لَّا يَاْكُلُہٗٓ اِلَّا الْخَاطِـــُٔوْنَ ٣٧ ۧ أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔ خطأ الخَطَأ : العدول عن الجهة، وذلک أضرب : أحدها : أن ترید غير ما تحسن إرادته فتفعله، وهذا هو الخطأ التامّ المأخوذ به الإنسان، يقال : خَطِئَ يَخْطَأُ ، خِطْأً ، وخِطْأَةً ، قال تعالی: إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء/ 31] ، وقال : وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف/ 91] . والثاني : أن يريد ما يحسن فعله، ولکن يقع منه خلاف ما يريد فيقال : أَخْطَأَ إِخْطَاءً فهو مُخْطِئٌ ، وهذا قد أصاب في الإرادة وأخطأ في الفعل، وهذا المعنيّ بقوله عليه السلام : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» «3» وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» «4» ، وقوله عزّ وجلّ : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ النساء/ 92] . والثّالث : أن يريد ما لا يحسن فعله ويتّفق منه خلافه، فهذا مخطئ في الإرادة ومصیب في الفعل، فهو مذموم بقصده وغیر محمود علی فعله، والخَطِيئَةُ والسّيّئة يتقاربان، لکن الخطيئة أكثر ما تقال فيما لا يكون مقصودا إليه في نفسه، بل يكون القصد سببا لتولّد ذلک الفعل منه ( خ ط ء ) الخطاء والخطاء ۃ کے معنی صحیح جہت سے عدول کرنے کے ہیں اس کی مختلف صورتیں ہیں ۔ ( 1 ) کوئی ایسا کام بالا رادہ کرے جس کا ارادہ بھی مناسب نہ ہو ۔ یہ خطا تام ہے جس پر مواخزہ ہوگا ا س معنی میں فعل خطئی یخطاء خطاء وخطاء بولا جا تا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء/ 31] کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت جرم ہے ۔ وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف/ 91] اور بلا شبہ ہم خطا کار تھے ۔ ( 2 ) ارادہ تو اچھا کام کرنے کا ہو لیکن غلطی سے برا کام سرزد ہوجائے ۔ کہا جاتا ہے : ۔ اس میں اس کا ارادہ وہ تو درست ہوتا ہے مگر اس کا فعل غلط ہوتا ہے اسی قسم کی خطا کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» میری امت سے خطا سے خطا اور نسیان اٹھائے گئے ہیں ۔ نیز فرمایا : وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» جس نے اجتہاد کیا ۔ لیکن اس سے غلطی ہوگئی اسے پھر بھی اجر ملے گا قرآن میں ہے : ۔ اور جو غلطی سے مومن کو مار ڈالے تو ایک تو غلام کو ازاد کردے ۔ ( 3 ) غیر مستحن فعل کا ارادہ کرے لیکن اتفاق سے مستحن فعل سرزد ہوجائے ۔ اس صورت میں اس کا فعل تو درست ہے مگر ارادہ غلط ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل بھی قابل ستائس نہیں ہوگا ۔ الخطیتۃ یہ قریب قریب سیئۃ کے ہم معنی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَحاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ [ البقرة/ 81] اور اسکے گناہ ہر طرف سے اس کو گھیر لیں گے ۔ لیکن زیادہ تر خطئۃ کا استعمال اس فعل کے متعلق ہوتا ہے جو بزات خود مقصود نہ ہو بلکہ کسی دوسری چیز کا ارادہ اس کے صدر کا سبب بن جائے
(69:37) لایاکلہ میں ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب کا مرجع غسلین ہے۔ لایاکلہ الا الخاطئون استثناء مفرغ ہے (یعنی وہ استثناء جس کا مستثنی منہ مذکور نہ ہو) یعنی خطا کاروں کے سوا اس کو کوئی نہ کھائے گا۔ خاطئون : گنہگار، خطا (باب سمع) مصدر۔ (خ ط ء مادہ) بمعنی چوک جانا۔ گناہ کرنا الخطاء کے معنی صحیح جہت سے عدول کرنے کے ہیں۔ اس کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) کوئی ایسا کام بالا رادہ کرے جس کا ارادہ بھی مناسب نہ ہو۔ یہ خطاء تام ہے جس پر مؤاخذہ ہوگا۔ اس معنی میں فعل خطی یخطأ خطأ بولا جاتا ہے۔ جیسے قرآن مجید میں ہے :۔ ان قتلہم کان کبیرا۔ (17:31) کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت جرم ہے (2) امادہ تو اچھا کام کرنے کا ہو لیکن غلطی سے برا کام سرزد ہوجائے۔ اس صورت میں کہا جائے گا اخطأ یخطی، یخطاء فھو مخطیء (باب افعال) (3) غیر مستحسن فعل کا ارادہ کرے لیکن اتفاق سے مستحسن فعل سرزد ہوجائے۔ اس صورت میں فعل تو درست ہے لیکن ارادہ غلط ہے لہٰذا اس کا قصد و مذموم ہوگا مگر فعل بھی قابل ستائش نہیں ہے۔ خاطئون بالارادہ گناہ کرنے والے کو کہتے ہیں خطا سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر بالارادہ گناہ کا ارتکاب کرنے والے (المفردات)
لا یا ................ الخاطﺅن (٩٦ : ٧٣) ” جسے خطاکاروں کے سوا اور کوئی نہیں کھاتا “۔ گنہگار ، جن کی فطرت میں یہ گناہ رچے بسے ہوں۔ یہ ہیں وہ وجوہات جن کی وجہ سے یہ شخص پکڑے جانے ، طوق پہنائے جانے ، آگ میں جلائے جانے کا مستحق ہو اور اسے اس قدر طویل بیڑیاں پہنائی گئیں۔ جہنم اور اس کے اندر بیڑیاں ، یہ جہنم کے عذاب کے درجات میں سے شدید درجہ ہے۔ یہ تو اس شخص کی حالت ہے جو مساکین کے طعام پر لوگوں کو ابھارتا نہیں ، لیکن اس ” شخص “ کا عذاب تم خود سوچو جو بچوں ، عورتوں اور بوڑھوں کو زندہ رکھتا ہے اور ان کے سر پرستوں کو ناحق سرکشوں اور جباروں کی طرح پکڑتا ہے اور جو ان کے ہاتھ سے لقمے اور کپڑے بھی چھین لیتا ہے اور وہ سخت سردیوں کے اندر ننگے آسمان کے نیچے ہوتے ہیں۔ ایسے ” ڈکٹیٹر “ کہاں جائیں گے جبکہ وہ زمین میں جگہ جگہ پائے جاتے ہیں۔ ذرا سوچ لو ، کہ ان کے لئے اللہ نے کیا تیار کیا ہوگا جبکہ صرف مسکینوں کے کھانے پر لوگوں کو نہ ابھارنے پر یہ شخت سزا رکھی گئی ہے۔ یہ سخت ، اور پرتاثیر منظر اس شدید سورت میں اس لئے لایا گیا کہ یہ ابتدائی ایام کی سورت ہے اور اس وقت عرب سوسائٹی نہایت اجذ اور سخت تھی۔ اور ان کو اسی طرح کے سخت مناظر دکھانے کی ضرورت تھی تاکہ اس سے ذرا خائف ہوجائیں اور اپنی روش میں قدرے نرمی اختیار کریں اور اس شرمندگی سے اپنے آپ کو بچانے کی سعی کریں اور جب بھی انسانیت اس قسم کے مختلف النوع معاشرتی سطح پر ہوتی ہے ، جس میں ایک طرف اس قسم کے سخت اور اجذ لوگ ہوتے ہیں دوسری طرف ایسے لوگوں کے مقابلے میں نرم خو اور اثر لینے والے بھی موجود ہوتے ہیں۔ یعنی جن میں لوگوں کی نفسیاتی حالت مختلف درجات پر ہوتی ہے اس لئے قرآن مجید کے انداز خطاب میں یہ سب لوگ پیش نظر ہوتے ہیں اور دعوت کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ اس سے مختلف سطح کے لوگ فائدہ اٹھاسکیں ۔ آج بھی بعض علاقوں میں سنگدل لوگ رہتے ہیں۔ ایسے مزاج کے لوگ بھی ہیں جو نہایت ہی سخت اور ان پر ایسے ہی الفاظ اثر انداز ہوسکتی ہے جو شعلہ بار ہوں ، جس طرح اس سورت میں ہیں۔ وہ ایسے ہی مناظر سے ڈرسکتے ہیں جو اس سورت میں بیان ہوئے ہیں۔ اس قسم کے سخت الفاظ اور سخت مناظر کے زیر سایہ ، جو اس سورت میں مسلسل چلے آرہے ہیں جن میں وہ مناظر بھی ہیں کہ لوگوں کو اس دنیا میں عذاب الٰہی میں گرفتار بتایا گیا ہے اور وہ مناظر بھی ہیں جن میں یہ پوری کائنات اڑتی دکھائی گئی ہے۔ پھر قیامت کے مناظر جہاں تمام انسانوں کو ننگا دکھایا گیا ہے اور وہ مناظر جن میں لوگ خوشی کے مارے اڑتے بھی دکھائے گئے ہیں۔ ان تمام مناظر کے بعد اب ایک نہایت ہی سنجیدہ ، فیصہ کن اور دو ٹوک بات آتی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو بات کررہے ہیں ، اس کی حقیقت کیا ہے۔ جبکہ یہ لوگ اس میں شک کرتے ہیں۔ اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور تکذیب کرتے ہیں۔
(37) کہ اس کھانے کو سوائے گناہ گاروں کے اور کوئی نہیں کھائے گا۔ ان آیتوں میں دین حق کے منکروں کا انجام بیان فرمایا، قیامت میں جب نامہ اعمال اڑائے اور بکھیرے جائیں گے اس وقت منکروں کے بائیں ہاتھوں میں نامہ اعمال دیا جائے گا اور چونکہ نامہ عمل کا بائیں ہاتھ میں آنا علامت ہے تباہی اور بربادی کی اس لئے یہ شخص چیخنا اور پیٹنا شروع کرے گا ہائے میری کتاب اور میرا لکھا میرے ہاتھ میں نہ دیا جاتا اور میرے حساب کی مجھ کو خبر نہ ہوتی اور دنیا میں جو موت آئی تھی بس وہی موت فیصلہ کن ہوتی اور اس کے بعد کوئی قصہ نہ رہتا یا یہ مطلب کہ یہ موجودحالت ہی موجب موت ہوتی یعنی قیامت ہی میری موت کا سبب ہوجاتی اور آگے کوئی قصہ باقی نہ رہتا۔ اسی طرح دنیوی مال اور دنیوی وجاہت و سلطنت پر افسوس کرے گا کہ اس دن کوئی چیز کام نہ آئے گی، کم از کم ایک انسان کو اپنے اعضا اور اپنے جوارح پر وجاہت اور قابو حاصل ہوتا ہے لیکن قیامت کے دن ہاتھ پائوں بھی کہنے میں نہ ہوں گے۔ ارشاد ہوگا ملائکہ کو جو محافظ جہنم ہیں اور جن کا نام زبانیہ ہے کہ اس کو پکڑلو اور طوق اس کے زیب گلو کرو یعنی دونوں ہاتھوں کو گلے کے ساتھ ملا کر جکڑ دو اور اس کو دوزخ میں داخل کرو پھر ایک ایسی زنجیر میں جس کی مساحت اور پیمائش شتر گز ہو اس زنجیر میں اس کو داخل کرو یعنی جکڑ دو ۔ آگے عذاب کی وجہ بیان کی کہ یہ اللہ تعالیٰ جو بزرگ و برتر ہے اس پر ایمان نہیں رکھتا تھا اور باوجود منکر ہونے کے بخیل اس قدر تھا کہ کسی مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب وتحریص نہ کرتا تھا یعنی اپنے گھر والوں اور اپنے متعلقین کو بھی ترغیب و تاکید نہ کرتا تھا کہ فقیروں اور محتاجوں کو کھانا کھلایا کرو اس کا نہ تو آج کے دن یہاں کوئی ہمدردی کرنے والا دوست اور قرابت دار ہے اور نہ سوائے کچلہو یعنی خون آلود پیپ کے جو زخموں کا غسالہ ہوتا ہے کوئی اور چیز اس کے کھانے کو و ہے یہ اہل جہنم کے زخموں کا غسالہ نہیں کھاتے مگر اسی قسم کے گناہ گار کھاتے ہیں۔ اب آگے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت اور منکرین دین حق کے اعتراضات کا جواب ہے۔