Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 120

سورة الأعراف

وَ اُلۡقِیَ السَّحَرَۃُ سٰجِدِیۡنَ ﴿۱۲۰﴾ۚۖ

And the magicians fell down in prostration [to Allah ].

اور وہ جو ساحر تھے سجدہ میں گر گئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Thus truth was confirmed, and all that they did was made of no effect. So they were defeated there and returned disgraced.And the sorcerers fell down prostrate. The magicians realized that this was from heaven and was by no means magic. They fell in prostration and proclaimed, قَالُواْ امَنَّا بِرِبِّ الْعَالَمِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٠] جادوگروں کا سجدے میں گرنا اور ایمان کا اعلان :۔ یعنی اس مقابلے میں جب فرعون اور اس کے درباری مغلوب اور سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) و ہارون (علیہ السلام) غالب آئے تو ان دونوں نبیوں نے سجدہ شکر ادا کیا انہیں دیکھ کر جادوگروں پر ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ وہ بھی بےاختیار ان کے ساتھ سجدہ میں گرگئے بعد...  میں اسی بھرے مجمع میں اپنے ایمان لانے کا اعلان کیا کہ ہم اس اللہ رب العالمین پر ایمان لاتے ہیں جو موسیٰ (علیہ السلام) و ہارون (علیہ السلام) کا پروردگار ہے اور یہ وضاحت اس لیے کی کہ فرعون بھی اپنے رب ہونے کا دعویٰ رکھتا تھا۔ رہی یہ بات کہ ان جادوگروں کے دلوں پر کیا گزری اور کیسے ایسی کیفیت طاری ہوگئی کہ وہ مجبوراً اپنے پروردگار کے سامنے سر بسجود ہوگئے اس کیفیت کی وضاحت کے لیے ہم یہاں معجزہ اور جادو کا فرق مختصراً بیان کرتے ہیں۔ معجزے اور جادو میں فرق :۔ ١۔ جادو میں اشیاء کی حقیقت نہیں بدلتی بلکہ لوگوں کی نظروں کو فریب دیا جاتا ہے جبکہ معجزے میں اس چیز کی حقیقت ہی بدل جاتی ہے۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا معجزے سے زندہ سانپ بن جاتا تھا تبھی تو وہ ان جعلی سانپوں کو نگلنے لگتا تھا جبکہ جادوگروں کے بنائے ہوئے سانپ ایک دوسرے کو نگل نہیں سکتے تھے اسی بنا پر جادوگر سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے تھے کیونکہ ایک ماہر فن ہونے کی حیثیت سے وہ یہ بات خوب جانتے تھے کہ جو چیز سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) نے پیش کی ہے وہ جادو کی انتہائی پرواز سے بھی ماوراء ہے۔ ٢۔ جادو شدہ چیز کا اہلاک ممکن ہے جیسے سیدنا موسیٰ کے عصا نے اژدہا بن کر جادوگروں کے بنائے ہوئے سانپوں یا لاٹھیوں کو نگل کر ان کا وجود ہی ختم کردیا تھا مگر معجزے میں ایسا اہلاک ممکن نہیں۔ وہ چیز یا تو اپنی سابقہ حالت پر لوٹ آتی ہے جیسے موسیٰ کا عصا پھینکنے پر اژدہا بن جانا پھر جب اسے پکڑتے تو وہ عصا بن جاتا تھا یا آپ (علیہ السلام) کا ہاتھ دوبارہ بغل میں ڈالنے پر اپنی سابقہ عام حالت پر آجاتا تھا۔ صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کی رگ کاٹی گئی تو وہ اسی پہاڑی میں چلی گئی جہاں سے نکلی تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں چاند پھٹا تو پھر جڑ کر پورا ہوگیا یا پھر اس حالت میں طویل مدت تک برقرار رہتی ہے جیسے چاہ زمزم یا عصا مارنے سے بارہ چشموں کا پھوٹنا۔ ٣۔ اگر کوئی قوم اپنے نبی سے کوئی خاص معجزہ طلب کرے اور وہی معجزہ اس نبی کو عطا کردیا جائے پھر بھی وہ قوم اپنی ضد پر اڑی رہے تو اس قوم پر عذاب کا نازل ہونا یقینی ہوتا ہے۔ جیسے صالح (علیہ السلام) کی قوم ثمود پر عذاب آیا تھا یا دسترخوان کا مطالبہ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے متنبہ فرمایا تھا لیکن جادو کا انکار کرنے سے کسی کا کچھ بھی نہیں بگڑتا خواہ مطالبے پر ہی کوئی چیز ظہور پذیر ہوئی ہو۔ ٤۔ معجزہ براہ راست اللہ کا فعل ہوتا ہے جس کا صدور نبی سے ہوتا ہے اور یہ کسی طبعی قانون یا اصل پر مبنی نہیں ہوتا جسے سیکھا اور سکھلایا جاسکے جبکہ جادو ایک فن ہے اور یہ سیکھا اور سکھلایا جاسکتا ہے اور اس کا ماحصل شعبدہ بازی ہوتا ہے جس سے لوگوں کو فریب دیا جاسکے اور اسے پیشہ بنا کر پیٹ کا دھندا کیا جاتا ہے۔ ٥۔ جادوگر کی تمام زندگی خوف، دہشت، ایذا رسانی اور بدعملی سے وابستہ ہوتی ہے لہذا لوگ اس کے شر سے بچنے کے لیے اس سے خوف کھاتے اور مرعوب ہوتے ہیں جبکہ نبی کی تمام زندگی صداقت & خلوص & مخلوق خدا کی ہمدردی & خیر خواہی & بھلائی اور تقویٰ و طہارت سے عبارت ہوتی ہے نبی کبھی اس معجزے کو پیشہ نہیں بناتا بلکہ کسی اہم موقع پر صداقت و حق کی حمایت میں اس کا مظاہرہ کرتا ہے اور وہ لوگوں میں معزز اور محبوب ہوتا ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاُلْقِيَ السَّحَرَةُ سٰجِدِيْنَ : یعنی چونکہ جادوگر جادو کی حقیقت کو سمجھتے تھے، اس لیے معجزہ دیکھ کر وہ بےاختیار سجدے میں گرپڑے، جیسے وہ خود نہ گرے ہوں بلکہ اندر سے کسی چیز نے انھیں گرا دیا ہو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Next, the verse said: فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١١٨﴾ فَغُلِبُوا هُنَالِكَ وَانقَلَبُوا صَاغِرِ‌ينَ ﴿١١٩﴾ وَأُلْقِيَ السَّحَرَ‌ةُ سَاجِدِينَ ﴿١٢٠﴾قَالُوا آمَنَّا بِرَ‌بِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٢١﴾ رَ‌بِّ مُوسَىٰ وَهَارُ‌ونَ ﴿١٢٢﴾ |"So, the truth prevailed and what they were doing became a nullity. So there they were overcome and turned humiliated. And the sorcerers were constrai... ned to fall in prostration. They said, |"We believe in the Lord of the worlds, the Lord of Musa and Harun.|" The sorcerers were so overawed by the miracle of the prophet Musa (علیہ السلام) that they fell in prostration. This may also imply that Allah blessed them with favour and put them in prostration. They added the phrase, the Lord of Musa and Harun (علیہما السلام) after saying, the Lord of the worlds, to make it clear that the Lord worshipped by Musa (علیہ السلام) and Harun (علیہ السلام) is, in fact, the Lord of the Universe, and not the Pharaoh as he pretended to be.  Show more

وَاُلْقِيَ السَّحَرَةُ سٰجِدِيْنَ ، ښقَالُوْٓا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ، رَبِّ مُوْسٰي وَهٰرُوْنَ ، یعنی جادوگر سجدے میں ڈال دیئے گئے اور کہنے لگے کہ ہم رب العلمین یعنی رب موسیٰ و ہارون پر ایمان لے آئے۔ سجدے میں ڈال دیئے گئے فرما کر اس طرف اشارہ فرما دیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ دیکھ ... کر یہ لوگ کچھ ایسے مبہوت اور مجبور ہوگئے کہ بےاختیار سجدہ میں گر گئے۔ اور اس کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرما کر ان کو سجدہ میں ڈال دیا۔ اور رب العالمین ” کے ساتھ رب موسیٰ و ہارون “ بڑھا کر اپنی بات کو فرعون کے مقابلہ میں واضح کردیا کیونکہ وہ بیوقوف تو اپنے آپ ہی کو رب العالمین کہتا تھا، اس لئے رب موسیٰ و ہارون کہہ کر اس کو بتلا دیا کہ ہم تیری خدائی کے قائل نہیں رہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاُلْقِيَ السَّحَرَۃُ سٰجِدِيْنَ۝ ١٢٠ لقی( افعال) والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] ، ( ل ق ی ) لقیہ ( س) ...  الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ سجد السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات، وذلک ضربان : سجود باختیار، ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] ، أي : تذللوا له، وسجود تسخیر، وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] ( س ج د ) السجود ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ ) سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔ سجود تسخیر ی جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢٠ (وَاُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سٰجِدِیْنَ ) ۔ یعنی ایسے لگا جیسے جادوگروں کو کسی نے سجدے میں گرادیا ہے۔ ان پر یہ کیفیت حق کے منکشف ہوجانے کے بعد طاری ہوئی۔ یہ ایک ایسی صورت حال تھی کہ جب کسی با ضمیر انسان کے سامنے حق کو مان لینے کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ (option) رہ ہی نہیں جاتا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

55 یہاں قرآن کریم نے مجہول کا صیغہ القی استعمال فرمایا ہے جس کے لفظی معنی گرگئے نہیں بلکہ گرادئیے گئے، ہیں۔ اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ حالات ایسے پیش آئے کہ ان کے ضمیر نے انہیں بے ساختہ سجدے میں گر جانے پر مجبور کردیا۔ اوپر ترجمے میں اس پہلو کی رعایت کی کوشش کی گئی ہے۔ یہاں ایمان کی یہ طاقت بھ... ی ملاحظہ فرمائیے کہ جو جادوگر چند لمحوں پہلے اپنے مذہب کی دفاعی کارروائی پر بھی فرعون سے انعام مانگ رہے تھے، اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد ان میں یہ عظیم حوصلہ پیدا ہوگیا کہ وہ فرعون جیسے جابر حکمران کی دھمکیوں کو ذرا بھی خاطر میں نہیں لائے، اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانے کا اشتیاق ظاہر کرنے لگے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:120) القی۔ وہ ڈالا گیا ۔ وہ پھینک دیا گیا۔ القاء سے ماضی مجہول کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حقیقت کو دیکھ کر وہ اس طرح بےاختیار سجدہ میں گرگئے گویا کسی بیرونی طاقت نے ان کو سجدہ میں گرا دیا ہے۔ امام رازی (رح) نے لکھا ہے کہ وہ اس طرح فوراً سجدہ میں گرے کہ معلوم ہوتا تھا ... کہ کسی بیرونی طاقت نے پکڑ کر ان کو سجدہ میں گرا دیا ہے سورۂ ھود میں ہے وجاء ہ قومہ یھرعون الیہ (11:78) اور اس کی قوم کے لوگ دوڑتے ہوئے اس کے پاس آئے (یعنی وہ یوں دوڑ کر آئے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ ان کو پیچھے سے کوئی ہانک کر بھگائے لا رہا ہے۔ یعنی ان کی شدت جذبات اور سرعت کار سے یوں نظر آرہا تھا کہ ان کو اس فعل پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اس اظہار کے لئے فعل مجہول لایا گیا ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی اس طرح بےاختیار ہو کر گرپڑے جیسے اندر سے کسی چیز نے انہیں یک لخت گرادیا ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس منظر میں ایک کے بعد خلاف توقع دوسرے مناظر آتے ہیں۔ اب ایک عظیم منظر اچانک نظروں کے سامنے ہے۔ وَاُلْقِيَ السَّحَرَةُ سٰجِدِيْنَ ۔ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ۔ رَبِّ مُوْسٰي وَهٰرُوْنَ ۔ اور جادوگروں کا حال یہ ہوا کہ گویا کسی چیز نے اندر سے انہیں سجدے میں گرا دیا۔ کہنے لگے ہم نے مان ل... یا رب العالمین کو۔ اس رب کو جسے موسیٰ اور ہارون مانتے ہیں۔ یہ ہے انسانی ضمیر میں سچائی کا رعب اور دبدبہ۔ انسانی شعور اچانک روشن ہوجاتا ہے اور جب کوئی دل قبولیت حق کے لئے تیار ہوجاتا ہے تو اس کے اندر اچانک سچائی کا چراغ روشن ہوجاتا ہے اور وہ یقین سے بھر جاتا ہے۔ یہ جادوگر اپنے فن کی حدود سے اور اس کی ماہیت سے اچھی طرح باخبر تے اور اگر حضرت موسیٰ جادوگر ہوتے تو وہ اور لوگوں کے مقابلے میں انہیں بہت جلد پہچان لیتے۔ حضرت موسیٰ کے ہاتھوں جس معجزے کا ظہور ہوا وہ انسانی قدرت اور جادو کے دائرے سے ورا تھا۔ ایک ماہر فنکار اپنے فن کے بارے میں حقیقت کو بہت جلد تسلیم کرلیتا ہے ، بشرطیکہ حقیقت اس پر منکشف ہوجائے۔ اس لئے کہ صاحب فن حقیقت کے قریب ہوتا ہے ، اور اس کا علم ان لوگوں سے زیادہ ہوتا ہے جو صرف سطحی معلومات رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جادوگر چیلنج اور تحدی کے موقف کو چھوڑ کر تسلیم و رضا کا پیکر بن گئے کیونکہ وہ اپنے دلوں کے اندر یقین پا رہے تھے اور یہ حقیقت ان کے شعور کا حصہ بن گئی تھی۔ لیکن کوئی بھی طاغوتی طاقت اس بات کو نہیں سمجھ سکتی کہ انسان کا دل کس طرح نور سے بھر جاتا ہے یا یہ کہ انسان کو ایمان کی یہ شرح صدر کس طرح ہوجاتی ہے اور انسان کے دل میں یقین کی گرمی کس طرح پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ طاغوتی قوتیں چونکہ طویل عرصے تک لوگوں کو غلام بنائے رکھتی ہیں اس لئے انہیں یہ زعم ہوجاتا ہے کہ وہ معاملات کو اپنے ڈھب پر ڈالنے کی قوت رکھتی ہیں اور لوگوں کے دل و دماغ و پھر بدل سکتی ہیں۔ حالانکہ انسان کا دل تو رحمن کی انگلیوں میں ہوتا ہے ، وہ جس طرح چاہے اسے پھیر دے۔ جادوگروں کی جانب سے اعلان شکست اور اعلان ایمان فرعون کے لئے ناقابل تصور اور تعجب خیز تھا۔ کیونکہ ان لوگوں کے دلوں میں تو ایمان کا شائبہ تک نہ تھا اور نہ ان کے ضمیر میں ایمان کا کوئی دخل و عمل اس کے علم میں تھا۔ پھر اس کے لئے یہ اچانک اعلان ایمان اس قدر خطرناک تھا کہ اس سے اس کی حکومت خطرے میں پڑگئی۔ اس کے قدم ڈگمگانے لگے تھے۔ جادوگر صرف جادوگر ہی نہ تھے بلکہ وہ اس وقت کی عبادت گاہوں کے کاہن اور علماء و خطباء تھے ، جب کسی ملک کے تمام مذہبی راہنما ایمان لے آئیں تو پھر حکومت کے لئے اپنی جگہ پر ٹھہرنا ممکن نہیں رہتا۔ خصوصاً ایسے حالات مبارزت میں کہ وہ مقابلے کے لئے میدان میں آئے ہوں۔ ایسے حالات میں کہ جب طاغوتی نظام بذات خود خطرے میں ہو تو اہل طاغوت سب کچھ کر گزرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اب آگے یہ ہوا کہ جادو گروں نے یہ سمجھ لیا کہ ہم نے جس سے مقابلہ کیا یہ جادو گر نہیں ہے، یہ واقعی اللہ کا رسول ہے اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد ہے۔ جب حق واضح ہوگیا تو ان سے نہ رہا گیا اور فوراً سجدہ میں گرگئے اور یہ اعلان کردیا کہ ہم رب العالمین پر ایمان لے آئے جو موسیٰ اور ہارون کا رب ہے۔ چونکہ...  ایمانیات کا تفصیلی علم نہ تھا اس لیے انہوں نے اجمالی ایمان کا اعلان کردیا۔ قرآن مجید میں لفظ سجدوا یا خروا سجدوا کے بجائے (وَ اُلْقِیَ السَّحَرَۃُ ) فرمایا جس میں یہ بتادیا کہ ان کے دل میں حق نے اس قدر گھر کرلیا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے سجدہ کرنے پر مجبور ہوگئے۔ وہ تو حضرت موسیٰ کا مقابلہ کر کے فرعون سے انعام لینے کے متمنی تھے اور ہوا یہ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی غلامی کے گن گانے لگے۔ (قَالَ فِرْعَوْنُ اٰمَنْتُمْ بِہٖ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَکُمْ ) (فرعون نے کہا تم میری اجازت سے پہلے ایمان لے آئے) بادشاہوں کا یہ طریقہ ہے کہ وہ عوام کے قلوب پر بھی حکومت کرنا چاہتے ہیں اور پختہ وفا داری اسی کو سمجھتے ہیں کہ عوام اسی دین پر رہیں جو شاہان مملکت ان کے لیے تجویز کریں۔ اسی بنیاد پر فرعون نے یہ کہا کہ میری اجازت کے بغیر تم کیسے مسلمان ہوگئے۔ جب فرعون نے دیکھا کہ عوام کو اپنی خدائی اور حکومت کا وفا دار رکھنے اور موسیٰ سے دور رکھنے کے لیے جو جادو گروں سے مقابلہ کا مظاہرہ کرایا تھا اس کا نتیجہ بر عکس نکلا۔ اور جادو گر ہی موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے تو اب تو لینے کے دینے پڑگئے اور عوام کو اپنی طرف کرنے کے لیے اس نے جادو گروں کو خطاب کیا کہ تم میری اجازت سے پہلے اس شخص پر ایمان لے آئے (اِنَّ ھٰذَا لَمَکْرٌ مَّکَرْتُمُوْہُ فِی الْمَدِیْنَۃِ ) (بلاشبہ یہ ایک مکر ہے جو تم سب نے مل کر اس شہر میں کیا ہے) اور میری سمجھ میں آگیا کہ یہی شخص ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا۔ استاد اور شاگردوں کی ملی بھگت ہے (لِتُخْرِجُوْا مِنْھَآ اَھْلَھَا) (تاکہ تم اس شہر سے اس کے رہنے والوں کو نکال دو ) (فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ) (سو تم سب عنقریب جان لو گے) پھر ان کی سزا کا اعلان کرتے ہوئے فرعون نے کہا (لَاُقَطِّعَنَّ اَیْدِیَکُمْ وَ اَرْجُلَکُمْ مِّنْ خِلَافٍ ثُمَّ لَاُصَلِّبَنَّکُمْ اَجْمَعِیْنَ ) (میں ضرور ضرور تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹ ڈالوں گا پھر تم سب کو سولی پر لٹکا دوں گا) ظالموں کا یہی طریقہ رہا ہے کہ جب دلیل سے عاجز ہوجاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ماروں گا اور قتل کر ڈالوں گا۔ (قَالُوْٓا اِنَّآ اِلٰی رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَ ) (جادو گروں نے جواب دیا کہ بلاشبہ ہمیں اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے) مطلب یہ تھا کہ ہمیں تیری دھمکی کی کوئی پرواہ نہیں۔ قتل کر یا کچھ کر اب تو ہم اپنے رب کے ہوگئے اگر تو قتل کر دے گا تو ہمارا کچھ نقصان نہ ہوگا۔ ہمارا رب ہمیں ایمان لانے پر جو انعامات عطا فرمائے گا ان کے مقابلہ میں یہ دنیا کی ذرا سی زندگی اور تیری رضا مندی کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ جب دلوں میں ایمان جگہ کرلیتا ہے تو دنیا کی ہر مصیبت، ہیچ ہوجاتی ہے اور ظالموں سے مقابلہ کرنا اور دلیری کے ساتھ جواب دینا آسان ہوجاتا ہے۔ سورة طہٰ میں جادو گروں کا ایک اور جواب بھی ذکر فرمایا ہے۔ (قَالُوْا لَنْ نُّؤْثِرَکَ عَلٰی مَا جَآءَ نَا مِنَ الْبَیّْنٰتِ وَ الَّذِیْ فَطَرَنَا فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ اِنَّمَا تَفْضِیْ ھٰذِہِ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا اِنَّآاٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِیَغْفِرَلَنَا خَطٰیٰنَا وَ مَآ اَکْرَھْتَنَا عَلَیْہِ مِنَ السِّحْرِ وَ اللّٰہُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی) (وہ کہنے لگے کہ ہم ان دلائل کے مقابلہ میں جو ہمارے پاس پہنچ گئے اور اس ذات کے مقابلہ میں جس نے ہمیں پیدا فرمایا تجھے ہرگز ترجیح نہیں دیں گے سو تو فیصلہ کر دے جو بھی تجھے فیصلہ کرنا ہے۔ تو اسی دنیا والی زندگی ہی میں فیصلہ کرے گا، بلاشبہ ہم اپنے رب پر ایمان لائے تاکہ وہ ہماری خطائیں معاف فرما دے اور جو کچھ تو نے جادو کروانے کے بارے میں ہم پر زبردستی کی وہ بھی ہمیں معاف فرما دے اور اللہ بہتر ہے اور باقی رہنے والا ہے) ۔ جادو گروں نے فرعون سے مزید کہا (وَ مَا تَنْقِمُ مِنَّآ اِلَّآ اَنْ اٰمَنَّا بِاٰیٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَآءَ تْنَا) کہ یہ جو تو ہم سے ناراض ہو رہا ہے اور ہم سے انتقام لینے کا اعلان کر رہا ہے اس کا سبب کچھ نہیں ہے نہ ہم نے چوری کی نہ ڈاکہ ڈالا نہ کسی کو قتل کیا بس یہی بات تو ہے کہ جب ہمارے پاس ہمارے رب کی دلیلیں آگئیں تو ہم ایمان لے آئے۔ یہ بات نہ کوئی عیب کی ہے نہ جرم کی ہے۔ نہ اس پر ہم سزا کے مستحق ہوتے ہیں۔ اس کے بعد فرعون کی طرف سے اعراض کر کے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوئے اور دعا میں عرض کیا (رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ ) (کہ اے ہمارے رب ہم پر صبر ڈال دے) اگر یہ واقعی اپنے قول کے مطابق عمل کرنے لگے تو ہمیں صبر عطا فرما دیجیے اور اتنا زیادہ صبر دیجیے جیسا کہ کوئی چیز انڈیل دی جاتی ہے اور ہمیں اس حال میں وفات دیجیے کہ ہم مسلمان ہوں۔ خدا نخواستہ ایسا نہ ہو کہ فرعون کی طرف سے قتل کے فیصلہ پر عمل ہونے لگے تو ہم اپنے ایمان والے فیصلہ میں ڈھیلے پڑجائیں (والعیاذ باللہ من ذالک) ۔ صاحب روح المعانی نے حضرت ابن عباس وغیرہ (رض) سے نقل کیا ہے کہ فرعون نے جو قتل وغیرہ کی دھمکی دی تھی یہ اس نے کردیا اور بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اس پر قادر نہیں ہوسکا۔ تفسیر درمنثور (ص ١٠٧ ج ٣) میں حضرت قتادہ سے نقل کیا ہے کہ ذکرلنا انھم اول النھار سحرۃً و آخرہ شھداء (کہ جادو گر دن کے اول حصہ میں جادو گر تھے اور آخر حصہ میں شہید تھے) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون نے ان کو شہید کردیا تھا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

120 اورتمام جادو سجدے میں گرپڑے۔