Allah ordered Iblis;
قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا
...
(Allah) said: "Get down from this,
because you defied My command and disobeyed Me. Get out,
...
فَمَا يَكُونُ لَكَ أَن تَتَكَبَّرَ فِيهَا
...
it is not for you to be arrogant here."
in Paradise, according to the scholars of Tafsir.
It could also refer to particular status which he held in the utmost highs.
Allah said to Iblis,
...
فَاخْرُجْ إِنَّكَ مِنَ الصَّاغِرِينَ
Get out, for you are of those humiliated and disgraced.
as just recompense for his ill intentions, by giving him the opposite of what he intended (arrogance).
This is when the cursed one remembered and asked for respite until the Day of Judgment,
قَالَ فَأَنظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ
نا فرمانی کی سزا
ابلیس کو اسی وقت حکم ملا کہ میری نافرمانی اور میری اطاعت سے رکنے کے باعث اب تو یہاں جنت میں نہیں رہ سکتا ، یہاں سے اتر جا کیونکہ یہ جگہ تکبر کرنے کی نہیں ۔ بعض نے کہا ہے ( فیھا ) کی ضمیر کا مرجع منزلت ہے یعنی جن ملکوت اعلی میں تو ہے اس مرتبے میں کوئی سرکش رہ نہیں سکتا ۔ جا یہاں سے چلا جا تو اپنی سرکشی کے بدلے ذلیل و خوار ہستیوں میں شامل کر دیا گیا ۔ تیری ضد اور ہٹ کی یہی سزا ہے ۔ اب لعین گھبرایا اور اللہ سے مہلت چاہنے لگا کہ مجھے قیامت تک کی ڈھیل دی جائے ۔ چونکہ جناب باری جل جلالہ کی اس میں مصلحتیں اور حکمتیں تھیں بھلے بروں کو دنیا میں ظاہر کرنا تھا اور اپنی حجت پوری کرنا تھی اس ملعون کی اس درخواست کو منظور فرما لیا ۔ اس حکام پر کسی کی حکومت نہیں ، اس کے سامنے بولنے کی کسی کو مجال نہیں ، کوئی نہیں جو اس کے ارادے کو ٹال سکے ، کوئی نہیں جو اس کے حکم کو بدل سکے ۔ وہ سریع الحساب ہے ۔