Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 13

سورة الأعراف

قَالَ فَاہۡبِطۡ مِنۡہَا فَمَا یَکُوۡنُ لَکَ اَنۡ تَتَکَبَّرَ فِیۡہَا فَاخۡرُجۡ اِنَّکَ مِنَ الصّٰغِرِیۡنَ ﴿۱۳﴾

[ Allah ] said, "Descend from Paradise, for it is not for you to be arrogant therein. So get out; indeed, you are of the debased.

حق تعالٰی نے فرمایا تو آسمان سے اتر تجھ کو کوئی حق حاصل نہیں کہ تو آسمان میں رہ کر تکبر کرے سو نکل بیشک تو ذلیلوں میں سے ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah ordered Iblis; قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا ... (Allah) said: "Get down from this, because you defied My command and disobeyed Me. Get out, ... فَمَا يَكُونُ لَكَ أَن تَتَكَبَّرَ فِيهَا ... it is not for you to be arrogant here." in Paradise, according to the scholars of Tafsir. It could also refer to particular status which he held in the utmost highs. Allah said to Iblis, ... فَاخْرُجْ إِنَّكَ مِنَ الصَّاغِرِينَ Get out, for you are of those humiliated and disgraced. as just recompense for his ill intentions, by giving him the opposite of what he intended (arrogance). This is when the cursed one remembered and asked for respite until the Day of Judgment, قَالَ فَأَنظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ

نا فرمانی کی سزا ابلیس کو اسی وقت حکم ملا کہ میری نافرمانی اور میری اطاعت سے رکنے کے باعث اب تو یہاں جنت میں نہیں رہ سکتا ، یہاں سے اتر جا کیونکہ یہ جگہ تکبر کرنے کی نہیں ۔ بعض نے کہا ہے ( فیھا ) کی ضمیر کا مرجع منزلت ہے یعنی جن ملکوت اعلی میں تو ہے اس مرتبے میں کوئی سرکش رہ نہیں سکتا ۔ جا یہاں سے چلا جا تو اپنی سرکشی کے بدلے ذلیل و خوار ہستیوں میں شامل کر دیا گیا ۔ تیری ضد اور ہٹ کی یہی سزا ہے ۔ اب لعین گھبرایا اور اللہ سے مہلت چاہنے لگا کہ مجھے قیامت تک کی ڈھیل دی جائے ۔ چونکہ جناب باری جل جلالہ کی اس میں مصلحتیں اور حکمتیں تھیں بھلے بروں کو دنیا میں ظاہر کرنا تھا اور اپنی حجت پوری کرنا تھی اس ملعون کی اس درخواست کو منظور فرما لیا ۔ اس حکام پر کسی کی حکومت نہیں ، اس کے سامنے بولنے کی کسی کو مجال نہیں ، کوئی نہیں جو اس کے ارادے کو ٹال سکے ، کوئی نہیں جو اس کے حکم کو بدل سکے ۔ وہ سریع الحساب ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

13۔ 1 مِنْھَا کی ضمیر کا مرجع اکثر مفسرین نے جنت قرار دیا اور بعض نے اس مرتبہ کو جو ملکوت اعلٰی میں اسے حاصل تھا۔ فاضل مترجم نے اسی دوسرے مفہوم کے مطابق آسان ترجمہ کیا ہے۔ نکل بیشک تو ذلیلوں میں سے ہے (2) 13۔ 2 اللہ کے حکم کے مقابلے میں تکبر کرنے والا احترام و تعظیم کا نہیں، ذلت اور خواری کا مستحق ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢] حقیقتاً ابلیس کے تین قصور تھے ایک اللہ کے حکم کو نہ مانا، دوسرے فرشتوں کی جس جماعت میں وہ رہتا تھا سجدہ کرتے وقت وہ اس جماعت سے الگ ہوا تیسرے اس نافرمانی پر نادم ہونے کی بجائے تکبر کیا، خود کو بڑا سمجھا اور سیدنا آدم (علیہ السلام) کو حقیر سمجھا لہذا اس پر اللہ کی لعنت و پھٹکار ہوئی اور ذلیل و خوار ہوا اور یہ لعنت و پھٹکار ہمیشہ کے لیے اس کا مقدر ہوگئی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَمَا يَكُوْنُ لَكَ اَنْ تَتَكَبَّرَ فِيْهَا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کبریائی ( بڑائی) میری رداء (اوپر کی چادر) اور عزت میری ازار (نیچے کی چادر) ہے جو ان میں سے ایک بھی مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے گا میں اسے آگ میں پھینکوں گا۔ “ [ مسلم، البر والصلۃ، باب تحریم الکبر : ٢٦٢٠، عن أبی ہریرہ ] یعنی تکبر کے بعد جنت میں رہنے کا شرف تیرے پاس رہنا ممکن ہی نہیں۔ یہی حال ہر تکبر اور غرور والے کا ہوگا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ فَاہْبِطْ مِنْہَا فَمَا يَكُوْنُ لَكَ اَنْ تَتَكَبَّرَ فِيْہَا فَاخْرُجْ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِيْنَ۝ ١٣ هبط الهُبُوط : الانحدار علی سبیل القهر كهبوط الحجر، والهَبُوط بالفتح : المنحدر . يقال : هَبَطْتُ أنا، وهَبَطْتُ غيري، يكون اللازم والمتعدّي علی لفظ واحد . قال تعالی: وَإِنَّ مِنْها لَما يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ [ البقرة/ 74] يقال : هَبَطْتُ وهَبَطْتُهُ هَبْطاً ، وإذا استعمل في الإنسان الهُبُوط فعلی سبیل الاستخفاف بخلاف الإنزال، فإنّ الإنزال ذكره تعالیٰ في الأشياء التي نبّه علی شرفها، كإنزال الملائكة والقرآن والمطر وغیر ذلك . والهَبُوطُ ذکر حيث نبّه علی الغضّ نحو : وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] ، فَاهْبِطْ مِنْها فَما يَكُونُ لَكَ أَنْ تَتَكَبَّرَ فِيها [ الأعراف/ 13] ، اهْبِطُوا مِصْراً فَإِنَّ لَكُمْ ما سَأَلْتُمْ [ البقرة/ 61] ولیس في قوله : فَإِنَّ لَكُمْ ما سَأَلْتُمْ [ البقرة/ 61] تعظیم وتشریف، ألا تری أنه تعالیٰ قال : وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ البقرة/ 61] ، وقال جلّ ذكره : قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْها جَمِيعاً [ البقرة/ 38] ويقال : هَبَطَ المَرَضُ لحم العلیل : حطّه عنه، والهَبِيط : الضّامر من النّوق وغیرها إذا کان ضمره من سوء غذاء، وقلّة تفقّد . ( ھ ب ط ) الھبوط ( ض ) کے معنی کسی چیز کے قہرا یعنی بےاختیار ی کی حالت میں نیچے اتر آنا کے ہیں جیسا کہ پتھر بلندی سے نیچے گر پڑتا ہے اور الھبوط ( بفتح لہاء ) صیغہ صفت ہے یعنی نیچے گر نے والی چیز ھبط ( فعل لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے جیسے انا میں نیچے اتار دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْها لَما يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ [ البقرة/ 74] اور بعض پتھر ایسے بھی ( ہوتے ہیں ) جو اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں ۔ اور جب لفظ ھبوط انسان کے لئے بولا جاتا ہے تو اس میں استخفاف اور حقارت کا پہلو پایا جاتا ہے بخلاف لفظ انزال ( الا فعال کے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے بہت سے موقعوں پر با شرف چیزوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے جیسے ملائکہ قرآن بارش وغیرہ اور جہاں کہیں کسی چیز کے حقیر ہونے پر تنبیہ مقصؤد ہے وہاں لفظ ھبوط استعمال کیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة/ 36] اور ہم نے حکم دیا کہ تم ( سب ) اتر جاؤ تم ایک کے دشمن ایک ۔ فَاهْبِطْ مِنْها فَما يَكُونُ لَكَ أَنْ تَتَكَبَّرَ فِيها [ الأعراف/ 13] تو بہشت سے نیچے اتر کیونکہ تیری ہستی نہیں کہ تو بہشت میں رہ کر شیخی مارے ۔ اهْبِطُوا مِصْراً فَإِنَّ لَكُمْ ما سَأَلْتُمْ [ البقرة/ 61] اچھا تو ) کسی شہر میں اتر پڑوں کہ جو مانگتے ہو ( وہاں تم کو ملے گا ۔ یہاں یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ سے ان کا شرف ظاہر ہوتا ہے کیونکہ اس کے مابعد کی آیت : ۔ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ البقرة/ 61] اور ان پر ذلت اور محتاجی لیسدی گئی اور وہ خدا کے غضب میں آگئے ان ہم کو دور کرنے کے لئے کافی ہے ۔ قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْها جَمِيعاً [ البقرة/ 38] ہم نے حکم دیا کہ تم سب کے سب ) یہاں سے اتر جاؤ محاورہ ہے ھیط المرض لھم العلیل بیمار ینے اس کے گوشت کو کم کردیا یعنی ( لاغر کردیا اور الھبط اونٹ وغیرہ کو کہتے ہیں جو غذا کے ناقص اور مالک کی بےاعتنائی کی وجہ سے لاغر ہوجائے ۔ تَّكَبُّرُ والتَّكَبُّرُ يقال علی وجهين : أحدهما : أن تکون الأفعال الحسنة كثيرة في الحقیقة وزائدة علی محاسن غيره، وعلی هذا وصف اللہ تعالیٰ بالتّكبّر . قال : الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ [ الحشر/ 23] . والثاني : أن يكون متکلّفا لذلک متشبّعا، وذلک في وصف عامّة الناس نحو قوله : فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 72] ، وقوله : كَذلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ [ غافر/ 35] ومن وصف بالتّكبّر علی الوجه الأوّل فمحمود، ومن وصف به علی الوجه الثاني فمذموم، ويدلّ علی أنه قد يصحّ أن يوصف الإنسان بذلک ولا يكون مذموما، وقوله : سَأَصْرِفُ عَنْ آياتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الأعراف/ 146] فجعل متکبّرين بغیر الحقّ ، وقال : عَلى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ [ غافر/ 35] بإضافة القلب إلى المتکبّر . ومن قرأ : بالتّنوین جعل المتکبّر صفة للقلب، التکبر ۔ اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ایک یہ فی الحقیقت کسی کے افعال حسنہ زیادہ ہوں اور وہ ان میں دوسروں سے بڑھا ہوا ہو ۔ اسی معنی میں اللہ تعالیٰ صفت تکبر کے ساتھ متصف ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ [ الحشر/ 23] غالب زبردست بڑائی ۔ دوم یہ کہ کوئی شخص صفات کمال کا اعاء کرے لیکن فی الواقع وہ صفات حسنہ عاری ہو اس معنی کے لحاظ سے یہ انسان کی صفت بن کر استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ فرمایا ہے ؛فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ [ الزمر/ 72] متکبروں کا کیا بڑا ٹھکانا ہے ۔ كَذلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ [ غافر/ 35] اسی طرح خدا ہر سرکش متکبر کے دل پر مہر لگا دیتا ہے ۔ تو معنی اول کے لحاظ سے یہ صفات محمود میں داخل ہے اور معنی ثانی کے لحاظ سے صفت ذم ہے اور کبھی انسان کے لئے تکبر کرنا مذموم نہیں ہوتا جیسا کہ آیت ؛سَأَصْرِفُ عَنْ آياتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الأعراف/ 146] جو لوگ زمین میں ناحق غرور کرتے ہیں ان کو اپنی آیتوں سے پھیردوں گا ۔ سے معلوم ہوتا ہے کہ تکبر الحق نہ ہو تو مذموم نہیں ہے : اور آیت ؛ عَلى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ [ غافر/ 35] ہر متکبر جابر کے دل پر ۔ اور بعض نے قلب کی طرف مضاف ہے ۔ اور بعض نے قلب تنوین کے ساتھ پڑھا ہے اس صورت میں متکبر قلب کی صفت ہوگا ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ صغر والصَّاغِرُ : الرّاضي بالمنزلة الدّنيّة، قال تعالی: حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صاغِرُونَ [ التوبة/ 29] . ( ص غ ر ) الصغریہ صغر صغر وصغار ا کے معنی ذلیل ہونے کے ہیں اور ذلیل اور کم مر تبہ آدمی کو جو اپنی ذلت پر قائع ہو صاغر کہتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صاغِرُونَ [ التوبة/ 29] یہاں تک کہ ذلیل ہوکر اپنے ہاتھ سے جز یہ دیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣۔ ١٤۔ ١٥) اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا، آسمان سے اتر جا اور یہ کہ فرشتوں کی شکل و صورت سے خارج ہوجا، اب تجھے فرشتوں کا لباس پہن کر انسانوں پر تکبر کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں، تو فرشتوں کے لباس سے نکل جا اور یہاں سے دور ہوجا، تو اپنے تکبر کی وجہ سے ذلیلوں میں شمار ہوگیا، شیطان کہنے لگا کہ قیامت تک مجھے موت سے مہلت دیجیے، ارشاد ہوا کہ صور پھونکے جانے تک تجھ کو موت سے مہلت دی گئی ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

11. Implicit in the Qur'anic expression (sagharin) is the idea of contentment with one's disgrace and indignity, for saghir is he who invites disgrace and indignity, upon himself. Now, Satan was a victim of vanity and pride, and for that very reason defied God's command to prostrate himself before Adam. Satan was therefore, guilty of self-inflicted degradation. False pride, baseless notions of glory, ill-founded illusions of greatness failed to confer any greatness upon him. They could only bring upon him disgrace and indignity. Satan could blame none but himself for this sordid end.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :11 اصل میں لفظ صاغیرین استعمال ہوا ہے ۔ صاغر کے معنی ہیں الراضی بالذُّل ، یعنی وہ جو ذلت اور صغار اور چھوٹی حیثیت کو خود اختیار کرے ۔ پس اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ بندہ اور مخلوق ہونے کے باوجود تیرا اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہونا اور اپنے رب کےحکم سے اس بنا پر سرتابی کرنا کہ اپنی عزّت و برتری کا جو تصوّر تو نے خود قائم کر لیا ہے اس کے لحاظ سے وہ حکم تجھے اپنے لیے موجب توہین نظر آتا ہے ، یہ دراصل یہ معنی رکھتا ہے کہ تو خود اپنی ذلت چاہتا ہے ۔ بڑائی کا جھوٹا پندار ، عزت کا بے بنیاد اِدعا ، اور کسی ذاتی استحقاق کے بغیر اپنے آپ کو خواہ مخواہ بزرگی کے منصب پر فائز سمجھ بیٹھنا ، تجھے بڑا اور ذی عزت اور بزرگ نہیں بنا سکتا بلکہ یہ تجھے چھوٹا اور ذلیل اور پست ہی بنائے گا اور اپنی اس ذلّت و خواری کا سبب تو آپ ہی ہوگا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(13 ۔ 16) ۔ جب شیطان نے بموجب حکم خدا کے حضرت آدم کو سجدہ نہ کیا اور اپنے آپ کو بہتر اور بڑا جانا تو خدا تعالیٰ نے اس کو ذلیل و خوار کر کے جنت سے نکال دیا اور فرمایا کہ جنت میں رہ کر تجھ کو تکبر کرنا نہیں پہنچتا کیونکہ جنت فرمانبرداروں کی جگہ ہے نافرمانوں کی جگہ نہیں ہے اس لئے تو اس سے نکل اور زمین پر اتر جا کہ تیرے تکبر کی یہی سزا ہے اس وقت شیطان نے سوچ کر اپنے لئے قیامت تک جیتے رہنے کی مہلت مانگی خدا تعالیٰ نے اس کو پہلے صورت کی مہلت دی تاکہ شیطان کے بہکانے کے بعد فرمانبردار اور نافرمان بندے پہچانے جاویں مہلت مل جانے کے بعد شیطان نے سرکشی سے کہا کہ جس طرح میں گمراہ ہوا اسی طرح میں تیرے بندوں کو جو آدم (علیہ السلام) کی نسل سے ہوں گے گمراہ کروں گا اور ہر طرف سے سامنے اور پیچھے اور دائیں اور بائیں سے ان کے پاس آکر ان کو بہکاؤں گا حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ سامنے سے مراد دینا ہے اور پیچھے سے آخرت یا دائیں سے نیکیاں بائیں سے بدیاں مطلب یہ کہ دنیا کی رغبت اور آخرت سے عفلت نیکیوں سے نفرت بدیوں کی زینت دکھا کر ان کو تیرے سیدھے راستہ پر چلنے سے روکوں گا حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے قول میں یہ بھی ہے کہ من فوقہم اس واسطے نہیں فرمایا کہ رحمت اوپر سے اترتی ہے خدا کی رحمت اور بندے کے درمیان میں شیطان حائل نہیں ہوسکتا اس لئے اوپر کی جانب سے شیطان نہیں آتا اور نیچے کی رحمت اور بندے کے درمیان میں شیطان حائل نہیں ہوسکتا اس لئے اوپر کی جانب سے شیطان نہیں آتا اور نیچے کی طرف سے بھی تکبر کے سبب سے آنا کوئی پسند نہیں کرتا علاوہ اس کے جس کے پاس نیچے کی طرف سے جاؤ اس کو گھبراہٹ اور نفرت ہوتی ہے اور وہ شیطان کی غرض کے بالکل خلاف ہے اس لئے اوپر اور نیچے کی طرف سے شیطان بندے کے پاس نہیں آتا انہیں چار طرف سے کہ جن کا ذکر آیت شریف میں ہے شیطان بندے کے پاس آکر بندے کو بہکاتا ہے ان آیتوں میں تو اکیلے شیطان کی فَاھْبِطْ مِنْہَا فرمایا اور آگے کی آیتوں میں جمع کے لفظوں سے اِھْبِطُوَا فرمایا یہ سورة بقرہ میں گذر چکا ہے کہ جو علماء اس قصہ میں سانپ کی شراکت کو صحیح کہتے ہیں ان کا یہ قول ہے کہ سجدہ نہ کرنے کے گناہ پر جب شیطان جنت سے نکالا گیا تو وہ کسی طرح سے آدم (علیہ السلام) کو بہکانے کے لئے جنت میں جانا چاہتا تھا لیکن جو فرشتے جنت کے دروازوں پر تعینات ہیں وہ شیطان کو جنت میں نہیں جانے دیتے تھے اس لئے شیطان سانپ کے منہ میں بیٹھ کر جنت میں گیا اور آدم (علیہ السلام) کو بہکانا جب تک سانپ جنت کے جانوروں میں سے تھا ان علماء کے قول کے موافق آدم (علیہ السلام) حوا۔ ابلیس اور سانپ ان چاروں کو جمع کے لفظوں سے اھبطوا فرمایا ہے حافظ ابو جعفر ابن جریر نے اپنی تفسیر میں سانپ کی شراکت کے قصہ کو حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اور عبد اللہ بن مسعود (رض) کے معتبر قول سے نقل کیا ہے اس واسطے یہی تفسیر صحیح معلوم ہوتی ہے کہ جمع کے لفظوں میں اھبطوا جہاں فرمایا ہے اس میں آدم ( علیہ السلام) حوا ‘ ابلیس اور سانپ یہ چاروں شریک ہیں کیونکہ جب اسباب میں دو معتبر صحابیوں کا قول موجود ہے اور اس تفسیر کے مقدمہ میں یہ گذر چکا ہے کہ تفسیر کے باب میں صحابی کا صحیح قول حدیث نبوی کا حکم رکھتا ہے تو اس قصے میں سانپ کی شراکت کو نامعتبر نہیں قرار دیا جاسکتا ہے حاصل کلام ہے کہ ابلیس ملعون جنت سے دو دفعہ نکالا گیا ہے ان آیتوں کے موافق ایک دفعہ کیلا نکالا گیا اور فریب سے پھر جنت میں پہنچا اور آگے کی آیتوں کے موافق دوسری دفعہ آدم ‘ حوا ‘ اور سانپ کے ساتھ نکالا گیا۔ دوسرے صور کے بعد جب سب لوگ قبروں سے اٹھیں گے شیطان نے اس وقت تک کے جینے کی مہلت اللہ تعالیٰ سے مانگی تھی جس سے اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ ملعون موت کی تکلیف سے بچ جاوے کیونکہ دوسرے صور کے بعد پھر موت نہیں ہے اگرچہ ان آیتوں میں شیطان کی مہلت کی منصوری کا ذکر مختصر طور پر ہے لیکن سورة حجر اور سورة میں آویگا کہ شیطان کے جینے کی مہلت اللہ تعالیٰ نے وقت معلوم تک منظور فرمائی ہے وقت معلوم کی تفسیر امام المفسریں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے پہلے صور کی فرمائی ہے اس لئے ان آیتوں کی صحیح تفسیر یہی ہے جو اوپر بیان کی گئی کہ شیطان کے جینے کی مدت پہلے صور کی فرمائی ہے اس لئے ان آیتوں کی صحیح تفسیر یہی ہے جو اوپر بیان کی گئی کہ شیطان کے جینے کی مدت پہلے صور تک ہے مسند امام احمد اور مستدرک حاکم کے حوالہ سے ابو سعید خدری (رض) کی صحیح حدیث گذر چکی ہے اور آگے بھی آتی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جب شیطان نے اللہ تعالیٰ کے روبرو بنی آدم کے بہکانے کی قسم کھائی تو اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے جاہ و جلال کی قسم کھا کر توبہ اور استغفار کرنے والے گناہ گاروں کے گناہ معاف فرما دینے کا وعدہ فرمایا اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:13) فاہبط منھا۔ امر واحد مذکر حاضر ۔ تو اترجا ۔ ھبط یھبط (ضرب) اترنا۔ ھبوط۔ مصدر ۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب۔ اس سے مراد یا تو جنت ہے یا آسمان سے زمین کی طرف مراد ہے ہبوط۔ بلندی سے پستی کی طرف ذلت و خواری کی صورت میں نیچے آنے کو کہتے ہیں۔ یہاں یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ ہماری بارگاہ سے دفع ہوجاؤ۔ فما یکون لک۔ یہ تیرے لئے درست نہیں ہے۔ تجھ کو کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ ان تتکبرفیہا کہ تو تکبر و غرور کرے اس جگہ۔ (جنت یا سمار یا بارگاہ خداوندی میں) یعنی تیرا کوئی حق نہیں کہ تکبر کرے اور پھر بھی تو یہاں رہے۔ الصغرین۔ ذلیل۔ بےعزت لوگ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 جو بھی غرور تکبر سے کام لے گا وہ ذلیل و خوار ہوگا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” قَالَ فَاہْبِطْ مِنْہَا فَمَا یَکُونُ لَکَ أَن تَتَکَبَّرَ فِیْہَا فَاخْرُجْ إِنَّکَ مِنَ الصَّاغِرِیْنَ (13) ” فرمایا : ” اچھا “ تو یہاں سے نیچے اتر تجھے حق نہیں ہے کہ یہاں بڑائی کا گھمنڈ کرے ۔ نکل جا کہ درحقیقت تو ان لوگوں میں سے ہے جو خود اپنی ذلت چاہتے ہیں ۔ “ یہاں اب اس کا علم اس کے لئے نفع بخش نہیں رہا ‘ وہ اللہ کی ذات وصفات سے خوف واقف ہے ۔ لیکن یہ علم اس کے لئے نفع بخش نہیں ہے ۔ یہی حال ہر اس شخص کا ہوگا جس تک اللہ کا حکم پہنچ جاتا ہے اور اس کے بعد وہ پھر اپنی فکر ونظر کے گھوڑے دوڑاتا ہے اور خود فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اسے قبول کرے یا نہ کرے ۔ ایک مسئلہ اس کے سامنے ہے جس کا فیصلہ اللہ کی عدالت سے ہوگیا ہے لیکن وہ اسے نہیں مانتا ‘ وہ اپنا فیصلہ خود کرتا ہے اور اس کے ذریعہ اللہ کے فیصلے کو رد کرتا ہے ۔ پس یہ جان بوجھ کر اور اچھی طرح سمجھ کر کفر کا ارتکاب ہے ۔ ابلیس کے پاس علم ومعرفت کی کمی نہ تھی ‘ اس کا اعتقاد متزلزل نہ تھا۔ چناچہ وہ جنت سے بھگایا گیا ‘ اللہ کی رحمت سے محروم ہوگیا اور اس پر لعنت لکھ دی گئی ۔ اس کے اوپر ذلت مسلت کردی گئی ۔ لیکن یہ شدید فطرت اس بات کو سمجھنے کی سعی ہی نہیں کرتی کہ اس آدم کی وجہ سے وہ راندہ درگاہ ہوا ۔ چناچہ اب وہ توبہ کرنے بجائے انتقام پر اتر اتا ہے ۔ اب وہ اپنے سر پر وہ ذمہ داریاں لیتا ہے جو اس شر کے ساتھ مناسب ہیں جس میں وہ مبتلا ہوگیا ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ابلیس کا نکالا جانا : ابلیس کو اس کی انا (میں) لے ڈوبی۔ اگر وہ واقعتہً آدم (علیہ السلام) سے افضل ہوتا تب بھی احکم الحاکمین کا حکم بجا لانا ضروری تھا۔ لیکن اللہ کے حکم کو غلط قرار دیا اور حجت بازی پر اترآیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (فَاھْبِطْ مِنْھَا فَمَا یَکُوْنُ لَکَ اَنْ تَتَکَبَّرَ فِیْھَا) (تو یہاں سے اتر جا تیرے لیے یہ درست نہیں تھا کہ تو اس میں تکبر کرے) (فَاخْرُجْ اِنَّکَ مِنَ الصّٰغِرِیْنَ ) (تو نکل جا بیشک تو ذلیلوں میں سے ہے) مِنْھَا اور فِیْھَا کی ضمیر کس طرف راجع ہے اس کے بارے میں صاحب روح المعانی (ج ٨ ص ٩٠) لکھتے ہیں کہ ضمیر جنت کی طرف راجع ہے اور ابلیس پہلے سے وہاں رہتا تھا پھر حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ اس سے مراد دنیا کا ایک باغیچہ ہے جو عدن میں تھا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) وہیں پیدا کیے گئے تھے۔ (ابلیس کو وہیں سجدہ کرنے کا حکم ہو) اس نے سجدہ نہ کیا اور تکبر کیا تو وہاں سے نکل جانے کا حکم فرما دیا۔ پھر لکھتے ہیں کہ بعض حضرات نے سماء یعنی آسمان کی طرف ضمیر راجع کی ہے اور لکھا ہے کہ یہ ایک جماعت کا قول ہے لیکن اس پر یہ اشکال کیا ہے کہ ابلیس کے مردود اور ملعون ہونے کے بعد حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی کو جنت عالیہ میں ٹھہرایا گیا اور اس کے بعد ابلیس نے وسوسہ ڈالا اور ان کو بہکایا۔ اگر وہ اس سے پہلے ہی آسمان سے اتار دیا گیا تھا تو پھر اس نے کیسے وسوسہ ڈالا۔ اور یہ اشکال اس صورت میں بھی ہوتا ہے جبکہ سجدہ کا واقعہ عدن والے باغ میں مانا جائے، سجدہ کا انکار کرنے کے بعد عدن والے باغ سے نکال دینے کے بعد اس نے کیسے وسوسہ ڈالا ؟ سیدھی اور صاف بات جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہی ہے کہ ابلیس عالم بالا میں یعنی اوپر ہی رہتا تھا اور سجدہ کا حکم جو ہوا وہ بھی وہیں عالم بالا ہی میں ہوا تھا۔ جب ابلیس نے سجدہ نہ کیا تو ابلیس وہاں سے نکال دیا گیا اور آدم و حوا ( علیہ السلام) کو جنت میں ٹھہرنے کا حکم دیا گیا۔ ابلیس عالم بالا سے نکالا تو گیا لیکن ابھی زمین پر نہیں آیا تھا کہ اس نے دونوں میاں بیوی کے دل میں وسوسہ ڈالا اور ان کو بہکا کر شجرہ ممنوعہ کھلانے پر آمادہ کردیا۔ وسوسہ کس طرح ڈالا اس کا کوئی جواب یقینی طور پر نہیں دیا جاسکتا۔ حضرت حسن بصری (رح) سے مروی ہے کہ جنت کے دروازے پر کھڑے ہو کر دور سے آواز دیدی تھی۔ اس بارے میں اور بھی اقوال ذکر کیے گئے ہیں۔ صحیح علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے بہر حال ابلیس ذلت کے ساتھ نکالا گیا۔ ملعون ہوا۔ اللہ کی رحمت سے دور ہوا۔ اس پر پھٹکار پڑی، دھتکارا گیا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

13 اللہ تعالیٰ نے فرمایا جا یہاں سے نیچے اتر جا تجھ کو کوئی حق نہیں اور تیرے لئے اس امر کی بالکل گنجائش نہیں کہ تو یہاں رہ کر تکبر کرے لہٰذا یہاں سے نکل جا یقیناً تو ذلیلوں میں سے ہے اور تیرا شمار ذلیلوں میں ہونے لگا یعنی اس ادعا کے اور اظہار تکبر کے بعد تو عالم بالا کی مخلوق کے ہمراہ نہیں رہ سکتا اس عالم بالا سے مراد ظاہر تو یہی ہے کہ آسمان مراد ہیں اور ہوسکتا ہے کہ جنت ہو اللہ تعالیٰ کے حکم پر اعتراض کرنے اور تکبر کے ارتکاب کے بعد تیرا شمار ذلیل لوگوں میں ہوگیا۔