Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 159

سورة الأعراف

وَ مِنۡ قَوۡمِ مُوۡسٰۤی اُمَّۃٌ یَّہۡدُوۡنَ بِالۡحَقِّ وَ بِہٖ یَعۡدِلُوۡنَ ﴿۱۵۹﴾

And among the people of Moses is a community which guides by truth and by it establishes justice.

اور قوم موسیٰ میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جو حق کے مطابق ہدایت کرتی ہے اور اسی کے مطابق انصاف بھی کرتی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah says; وَمِن قَوْمِ مُوسَى أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ And of the people of Musa there is a community who lead (the men) with truth and establish justice therewith. Allah stated that of the Children of Israel there are some who follow the truth and judge by it, just as He said in other Ayat, مِّنْ أَهْلِ الْكِتَـبِ أُمَّةٌ قَأيِمَةٌ يَتْلُونَ ءَايَـتِ اللَّهِ ءَانَأءَ الَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ A party of the people of the Scripture stand for the right, they recite the verses of Allah during the hours of the night, prostrating themselves in prayer. (3:113) وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَـبِ لَمَن يُوْمِنُ بِاللَّهِ وَمَأ أُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَأ أُنزِلَ إِلَيْهِمْ خَـشِعِينَ للَّهِ لاَ يَشْتَرُونَ بِـَايَـتِ اللَّهِ ثَمَناً قَلِيلً أُوْلـيِكَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ And there are, certainly, among the People of the Scripture, those who believe in Allah and in that which has been revealed to you, and in that which has been revealed to them, humbling themselves before Allah. They do not sell the verses of Allah for a small price, for them is a reward with their Lord. Surely, Allah is Swift in account. (3:199) الَّذِينَ ءَاتَيْنَـهُمُ الْكِتَـبَ مِن قَبْلِهِ هُم بِهِ يُوْمِنُونَ وَإِذَا يُتْلَى عَلَيْهِمْ قَالُواْ ءَامَنَّا بِهِ إِنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّنَأ إنَّا كُنَّا مِن قَبْلِهِ مُسْلِمِينَ أُوْلَـيِكَ يُوْتُونَ أَجْرَهُم مَّرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُواْ Those to whom We gave the Scripture before it, they believe in it (the Qur'an). And when it is recited to them, they say: "We believe in it. Verily, it is the truth from our Lord. Indeed even before it we have been from those who submit themselves. These will be given their reward twice over, because they are patient. (28:52-54) and, قُلْ ءَامِنُواْ بِهِ أَوْ لاَ تُوْمِنُواْ إِنَّ الَّذِينَ أُوتُواْ الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَى عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلٌّذْقَانِ سُجَّدًا وَيَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَأ إِن كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولاً وَيَخِرُّونَ لِلٌّذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا Verily, those who were given knowledge before it, when it (this Qur'an) is recited to them, fall down on their faces in humble prostration. And they say: "Glory be to our Lord! Truly, the promise of our Lord must be fulfilled." And they fall down on their faces weeping and it increases their humility. (17:107-109)

انبیاء کا قاتل گروہ خبر ہے کہ امت موسیٰ میں بھی ایک گروہ حق کا ماننے والا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( لَيْسُوْا سَوَاۗءً ۭ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ قَاۗىِٕمَةٌ يَّتْلُوْنَ اٰيٰتِ اللّٰهِ اٰنَاۗءَ الَّيْلِ وَھُمْ يَسْجُدُوْنَ ١١٣؁ ) 3-آل عمران:113 ) ، اہل کتاب میں سے ایک جماعت حق پر قائم ہے ، راتوں کو اللہ کے کلام کی تلاوت کرتی رہتی ہے اور برابر سجدے کیا کرتی ہے اور آیت میں ہے ( وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ لَمَنْ يُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْھِمْ خٰشِعِيْنَ لِلّٰهِ ۙ لَا يَشْتَرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ثَـمَنًا قَلِيْلًا ۭ اُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ ١٩٩؁ ) 3-آل عمران:199 ) ، یعنی اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ پر اور اس پر جو تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے اور اس پر جو ان کی طرف اتارا گیا ہے ایمان کا اور اس کی حقانیت کا اعلان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اس سے پہلے ہی مسلمان تھے انہیں ان کے صبر کا دوہرا اجر ہے اور آیت میں ہے ( اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰھُمُ الْكِتٰبَ يَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ ۭ اُولٰۗىِٕكَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ ۭ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ ١٢١۝ۧ ) 2- البقرة:121 ) ، جو لوگ ہماری کتاب پائے ہوئے ہیں اور اسے حق تلاوت کی ادائیگی کے ساتھ پڑھتے ہیں وہ اس قرآن پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور فرمان ہے آیت ( قُلْ اٰمِنُوْا بِهٖٓ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖٓ اِذَا يُتْلٰى عَلَيْهِمْ يَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا ١٠٧؀ۙ{السجدہ} ) 17- الإسراء:107 ) جو لوگ پہلے علم دیئے گئے ہیں وہ ہمارے پاک قرآن کی آیتیں سن کر سجدوں میں گر پڑتے ہیں ۔ ہماری پاکیزگی کا اظہار کر کے ہمارے وعدوں کی سچائی بیان کرتے ہیں ۔ اپنی ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئے سجدے کرتے ہیں اور عاجزی اور اللہ سے خوف کھانے میں سبقت لے جاتے ہیں امام ابن جریر نے اپنی تفسیر میں اس جگہ ایک عجیب خبر لکھی ہے کہ ابن جریج فرماتے ہیں جب بنی اسرائیل نے کفر کیا اور اپنے نبیوں کو قتل کیا ان کے بارہ گروہ تھے ان میں سے ایک گروہ اس نالائق گروہ سے الگ رہا اللہ تعالیٰ سے معذورت کی اور دعا کی کہ ان میں اور ان گیارہ گروہوں میں وہ تفریق کر دے ۔ چنانچہ زمین میں ایک سرنگ ہو گئی یہ اس میں چلے گئے اور چین کے پرلے پار نکل گئے وہاں پر سچے سیدھے مسلمان انہیں ملے جو ہمارے قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے تھے ۔ کہتے ہیں کہ آیت ( وَّقُلْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ لِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اسْكُنُوا الْاَرْضَ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا ١٠٤؀ۭ ) 17- الإسراء:104 ) کا یہی مطلب ہے ۔ اس آیت میں جس دوسرے وعدے کا ذکر ہے یہ آخرت کا وعدہ ہے ۔ کہتے ہیں اس سرنگ میں ڈیڑھ سال تک وہ چلتے رہے ۔ کہتے ہیں اس قوم کے اور تمہارے درمیان ایک نہر ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

159۔ 1 اس سے مراد وہی چند لوگ ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے، عبد اللہ بن سلام وغیرہ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦١] ہر معاشرہ میں کچھ انصاف پسند لوگ بھی موجود ہوتے ہیں :۔ اس سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دور نبوی میں یہود کے گروہوں میں ایک گروہ انصاف پسند موجود تھا۔ اگرچہ یہ گروہ قلیل تعداد میں تھا تاہم اس آیت کو صرف دور نبوی سے مختص کرنے کی کوئی وجہ نہیں بلکہ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں دور نبوی تک ایک ایسا انصاف پسند گروہ موجود رہا ہے تو یہ زیادہ مناسب ہوگا جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگرچہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ تاہم ان میں سے ایک گروہ ایسا ہوگا جو تاقیامت حق پر قائم رہے گا اور اگر ربط مضمون کے لحاظ سے یہ کہا جائے کہ جب بنی اسرائیل گؤ سالہ پرستی جیسے بڑے شرک میں مبتلا تھے تو اس وقت بھی امت میں ایک انصاف پسند گروہ موجود تھا جو دوسروں کو ہدایت پر رہنے کی تلقین کرتا تھا تو یہ بھی مناسب ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓي اُمَّةٌ۔۔ : اس سے مراد وہ یہودی ہیں جو تورات پر قائم رہے اور وہ جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد پر آپ پر ایمان لے آئے، جیسے عبداللہ بن سلام (رض) اور ان کے ساتھی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Truthful among the Israelites The verse 159 said: وَمِن قَوْمِ مُوسَىٰ أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ ﴿١٥٩﴾ &|"Among the commu¬nity of Musa there are people who guide to the truth, and do justice thereby.|" That is, there is a group among the Israelites who follows the truth and decides their controversies according to the dictates of the Truth - Islam. Which are the people referred to in this verse as following the truth among the Israelites? This refers to the people who faithfully followed the commandments of the Torah and the Injil at the time they were revealed, and those who readily accepted the faith of Islam after the appearance of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) according to the predictions contained in the Torah and the Injil. The Holy Qur&an has referred to this group in a number of verses in commendable terms. There is a verse which said: مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ يَتْلُونَ آيَاتِ اللَّـهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ |"Among the people of the Book there are those who are steadfast, they recite the verses of Allah in the night hours, and they prostrate.|" (3:113) الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ مِن قَبْلِهِ هُم بِهِ يُؤْمِنُونَ ﴿٥٢﴾ |"Those to whom We gave the book before this, they do believe in this (Qura&n) |". (28:52) Under the comments on this verse we find a narrative in the commentaries of Ibn Jarir and Ibn Kathir رحمۃ اللہ علیہما . A group of Israelites who greatly despised the corrupt practices of the Israelites had prayed Allah for having a separate land away from the other tribes so that they might practice according to the original faith preached by the Prophet Musa (علیہ السلام) ، Allah carried them to a land somewhere in the Far East where they faithfully practiced their faith. Another favour of Allah bestowed upon them was that in the time of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) they were granted an opportunity to embrace Islam directly on the hands of the Holy Prophet. In the night of Ascension (شَبِ مِعرَاج ) the Archangel Jibra&il (علیہ السلام) (Gabriel) took the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to these people on the way to heavens. They accepted the faith and the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم taught them some Surahs (chapters) of the Holy Qur&an. The Prophet of Allah asked them if they had some means of weighing and measuring and what other means of subsistence did they have? They answered that their usual practice was that they cultivated the land and collected the whole produce together in a heap. The people came and took from it according to their need. They said, |"We do not, therefore, need any weights and measures.|" The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) asked them if any one of them ever told lies. They said that no one among them ever told lies because it was a usual practice that any person speaking a lie was burnt up by a heavenly fire. He asked them as to why all their houses were of the same type? They answered, that it was to avoid the possibility of showing off one&s affluence as compared to others. He asked them why they had built up their graves in front of their houses? They said that this made them remember their death all the times. After the Holy Prophet returned from heavens to Makkah, this verse was revealed to him. Al-Qurtubi, under the comments of this verse has narrated this event along with other suggestions and has remarked that this narrative was not authentic. Ibn Kathir, however, has termed it as an unusual event but did not reject it. In short, this verse makes us understand that there has always been a group among the Israelites who followed the Truth. Be they the people described above or the ones who embraced Islam after the appearance of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) .

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں ایک حق پرست جماعت : دوسری آت میں ارشاد فرمایا (آیت) وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓي اُمَّةٌ يَّهْدُوْنَ بالْحَقِّ وَبِهٖ يَعْدِلُوْنَ ، یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جو خود بھی حق کا اتباع کرتی ہے اور اپنے نزاعی معاملات کے فیصلوں میں حق کے موافق فیصلے کرتی ہے۔ سابقہ آیات میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کی کجروی، کج بحثی اور گمراہی کا بیان ہوا تھا، اس آیت میں بتلایا گیا کہ پوری قوم بنی اسرائیل ایسی نہیں بلکہ ان میں کچھ لوگ اچھے بھی ہیں جو حق کا اتباع کرتے ہیں، اور حق فیصلے کرتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے تورات و انجیل کے زمانہ میں ان کی ہدایات کے موافق پورا عمل کیا، اور جب خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے تو تورات و انجیل کی بشارت کے موافق آپ پر ایمان لائے اور آپ کا اتباع کیا، بنی اسرائیل کی اس حق پرست جماعت کا ذکر بھی قرآن میں بار بار آیا ہے، ایک جگہ ارشاد ہے (آیت) من اھل الکتب امۃ قآئمة یتلون ایت اللہ انآء الیل وھم یسجدون، یعنی اہل کتاب میں ایک ایسی جماعت بھی ہے جو حق پر قائم ہے، اللہ کی آیات کو رات بھر تلاوت کرتے ہیں اور سجدے کرتے ہیں، ایک جگہ ارشاد ہے (آیت) الذین اتینھم الکتب من قبلہ ھم بہ یؤ منون یعنی وہ لوگ جن کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کتاب ( تورات و انجیل دی گئی تھی وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاتے ہیں۔ اور ابن جریر، ابن کثیر وغیرہ نے اس جگہ ایک عجیب حکایت نقل کی ہے کہ اس جماعت سے وہ جماعت مراد ہے جو بنی اسرائیل کی گمراہی اور بد اعمالیوں، قتل انبیاء وغیرہ سے تنگ آکر ان سے الگ ہوگئی تھی بنی اسرائیل کے بارہ قبائل میں سے ایک قبیلہ تھا جنہوں نے اپنی قوم سے تنگ آکر یہ دعا کی کہ یا اللہ ہمیں ان لوگوں سے دور کہیں اور بسا دیجئے تاکہ ہم اپنے دین پر پختگی سے عمل کرتے رہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے ان کو ڈیڑھ سال کی مسافت پر مشرق بعید کی کسی زمین میں پہنچا دیا جہاں وہ خالص عبادت میں مشغول رہے، اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبعوث ہونے کے بعد بھی نیرنگ قدرت سے ان کے مسلمان ہونے کا یہ سامان ہوا کہ شب معراج میں جبریل امین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرف لے گئے وہ لوگ آپ پر ایمان لائے آپ نے ان کو کچھ قرآن کی سورتیں پڑھائیں اور ان سے دریافت کیا کہ کیا تمہارے پاس ناپ تول کا کچھ انتظام ہے اور تم لوگوں کے معاش کا کیا سامان ہے ؟ جواب دیا کہ ہم زمین میں غلہ بوتے ہیں جب تیار ہوجاتا ہے کاٹ کر وہیں ڈھیر لگا دیتے ہیں ہر شخص کو جتنی ضرورت ہوتی ہے وہاں سے لے آتا ہے، ناپنے تولنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی، آپ نے دریافت کیا کہ کیا تم میں کوئی شخص جھوٹ بھی بولتا ہے ؟ عرض کیا کہ نہیں، کیونکہ اگر کوئی ایسا کرے تو فورا ایک آگ آکر اسے جلا دیتی ہے، آپ نے دریافت کیا کہ تم سب کے مکانات بالکل یکساں کیوں ہیں ؟ عرض کیا اس لئے کہ کسی کو کسی پر بڑائی جتلانے کا موقع نہ ملے، پھر دریافت کیا کہ تم نے اپنے مکانات کے سامنے اپنی قبریں کیوں بنا رکھی ہیں ؟ عرض کیا تاکہ ہمیں موت ہر وقت مسحضر رہے، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب معراج سے واپس مکہ میں تشریف لائے تو یہ آیت نازل ہوئی (آیت) وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓي اُمَّةٌ يَّهْدُوْنَ بالْحَقِّ وَبِهٖ يَعْدِلُوْنَ ، تفسیر قرطبی نے اسی روایت کو اصل قرار دیا ہے اور دوسرے احتمالات بھی لکھے ہیں، ابن کثیر نے اس کو حکایت عجیبہ تو فرمایا مگر رد نہیں کیا، البتہ تفسیر قرطبی میں اس کو نقل کر کے کہا ہے کہ غلبا یہ روایت صحیح نہیں۔ بہرحال اس آیت سے یہ مفہوم ہوا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں ایک جماعت ایسی ہے جو ہمیشہ حق پر قائم رہی خواہ یہ وہ لوگ ہوں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کی خبر پاکر مشرف باسلام ہوگئے، یا وہ بنی اسرائیل کا بارہواں قبیلہ ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے زمین کے کسی خاص حصہ میں رکھا ہوا ہے جہاں دوسروں کی رسائی نہیں۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓي اُمَّۃٌ يَّہْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِہٖ يَعْدِلُوْنَ۝ ١٥٩ الأُمّة : كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام/ 38] أي : كل نوع منها علی طریقة قد سخرها اللہ عليها بالطبع، فهي من بين ناسجة کالعنکبوت، وبانية کالسّرفة «4» ، ومدّخرة کالنمل ومعتمدة علی قوت وقته کالعصفور والحمام، إلى غير ذلک من الطبائع التي تخصص بها كل نوع . وقوله تعالی: كانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً [ البقرة/ 213] أي : صنفا واحدا وعلی طریقة واحدة في الضلال والکفر، وقوله : وَلَوْ شاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً واحِدَةً [هود/ 118] أي : في الإيمان، وقوله : وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ [ آل عمران/ 104] أي : جماعة يتخيّرون العلم والعمل الصالح يکونون أسوة لغیرهم، وقوله : إِنَّا وَجَدْنا آباءَنا عَلى أُمَّةٍ [ الزخرف/ 22] أي : علی دين مجتمع . قال : وهل يأثمن ذو أمّة وهو طائع وقوله تعالی: وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ [يوسف/ 45] أي : حين، وقرئ ( بعد أمه) أي : بعد نسیان . وحقیقة ذلك : بعد انقضاء أهل عصر أو أهل دين . وقوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً لِلَّهِ [ النحل/ 120] أي : قائما مقام جماعة في عبادة الله، نحو قولهم : فلان في نفسه قبیلة . وروي :«أنه يحشر زيد بن عمرو بن نفیل أمّة وحده» وقوله تعالی: لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ [ آل عمران/ 113] أي : جماعة، وجعلها الزجاج هاهنا للاستقامة، وقال : تقدیره : ذو طریقة واحدة فترک الإضمار أولی. الامۃ ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ } ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں ۔ میں امم سے ہر وہ نوع حیوان مراد ہے جو فطری اور ت سخیری طور پر خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہو ۔ مثلا مکڑی جالا بنتی ہے اور سرفۃ ( مور سپید تنکوں سے ) اپنا گھر بناتی ہے اور چیونٹی ذخیرہ اندوزی میں لگی رہتی ہے اور چڑیا کبوتر وغیرہ وقتی غذا پر بھروسہ کرتے ہیں الغرض ہر نوع حیوان اپنی طبیعت اور فطرت کے مطابق ایک خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہے اور آیت کریمہ :۔ { كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً } ( سورة البقرة 213) ( پہلے تو سب ) لوگ ایک امت تھے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تما لوگ صنف واحد اور ضلالت و کفر کے ہی کے مسلک گامزن تھے اور آیت کریمہ :۔ { وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً } ( سورة المائدة 48) اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ہی شریعت پر کردیتا ۔ میں امۃ واحدۃ سے وحدۃ بحاظ ایمان مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ { وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ } ( سورة آل عمران 104) کے معنی یہ ہیں کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی بھی ہونی چاہیے جو علم اور عمل صالح کا راستہ اختیار کرے اور دوسروں کے لئے اسوۃ بنے اور آیت کریمہ ؛۔ { إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ } ( سورة الزخرف 22 - 23) ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک متفقہ دین پر پایا ہے ۔ میں امۃ کے معنی دین کے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہی ع (25) وھل یاثمن ذوامۃ وھوطائع ( طویل ) بھلا کوئی متدین آدمی رضا اور رغبت سے گناہ کرسکتا ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ } ( سورة يوسف 45) میں امۃ کے معنی حین یعنی عرصہ دارز کے ہیں اور ایک قرات میں بعد امہ ( ربالھاء ) ہے یعنی نسیان کے بعد جب اسے یاد آیا ۔ اصل میں بعد امۃ کے معنی ہیں ایک دور یا کسی ایک مذہب کے متبعین کا دورگزر جانے کے بعد اور آیت کریمہ :۔ { إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا } ( سورة النحل 120) کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابراہیم عبادت الہی میں ایک جماعت اور قوم بمنزلہ تھے ۔ جس طرح کہ محاورہ ہے ۔ فلان فی نفسہ قبیلۃ کہ فلاں بذات خود ایک قبیلہ ہے یعنی ایک قبیلہ کے قائم مقام ہے (13) وروی انہ یحشر زیدبن عمرابن نفیل امۃ وحدہ اورا یک روایت میں ہے کہ حشر کے دن زید بن عمر و بن نفیل اکیلا ہی امت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ :۔ { لَيْسُوا سَوَاءً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ } ( سورة آل عمران 113) وہ سب ایک جیسے نہیں ہیں ان اہل کتاب میں کچھ لوگ ( حکم خدا پر ) قائم بھی ہیں ۔ میں امۃ بمعنی جماعت ہے زجاج کے نزدیک یہاں قائمۃ بمعنی استقامت ہے یعنی ذو و طریقہ واحدۃ تو یہاں مضمر متردک ہے حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ عدل العَدَالَةُ والمُعَادَلَةُ : لفظٌ يقتضي معنی المساواة، ويستعمل باعتبار المضایفة، والعَدْلُ والعِدْلُ يتقاربان، لکن العَدْلُ يستعمل فيما يدرک بالبصیرة كالأحكام، وعلی ذلک قوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] ، والعِدُل والعَدِيلُ فيما يدرک بالحاسّة، کالموزونات والمعدودات والمکيلات، فالعَدْلُ هو التّقسیط علی سواء، وعلی هذا روي : «بالعَدْلِ قامت السّموات والأرض» «5» تنبيها أنه لو کان رکن من الأركان الأربعة في العالم زائدا علی الآخر، أو ناقصا عنه علی مقتضی الحکمة لم يكن العالم منتظما . والعَدْلُ ضربان : مطلق : يقتضي العقل حسنه، ولا يكون في شيء من الأزمنة منسوخا، ولا يوصف بالاعتداء بوجه، نحو : الإحسان إلى من أحسن إليك، وكفّ الأذيّة عمّن كفّ أذاه عنك . وعَدْلٌ يُعرَف كونه عَدْلًا بالشّرع، ويمكن أن يكون منسوخا في بعض الأزمنة، کالقصاص وأروش الجنایات، وأصل مال المرتدّ. ولذلک قال : فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة/ 194] ، وقال : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری/ 40] ، فسمّي اعتداء وسيئة، وهذا النحو هو المعنيّ بقوله : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل/ 90] ، فإنّ العَدْلَ هو المساواة في المکافأة إن خيرا فخیر، وإن شرّا فشرّ ، والإحسان أن يقابل الخیر بأكثر منه، والشرّ بأقلّ منه، ورجلٌ عَدْلٌ: عَادِلٌ ، ورجالٌ عَدْلٌ ، يقال في الواحد والجمع، قال الشاعر : 311- فهم رضا وهم عَدْلٌ«1» وأصله مصدر کقوله : وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق/ 2] ، أي : عَدَالَةٍ. قال تعالی: وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری/ 15] ، وقوله : وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء/ 129] ، فإشارة إلى ما عليه جبلّة النّاس من المیل، فالإنسان لا يقدر علی أن يسوّي بينهنّ في المحبّة، وقوله : فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء/ 3] ، فإشارة إلى العَدْلِ الذي هو القسم والنّفقة، وقال : لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة/ 8] ، وقوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] ، أي : ما يُعَادِلُ من الصّيام الطّعام، فيقال للغذاء : عَدْلٌ إذا اعتبر فيه معنی المساواة . وقولهم :«لا يقبل منه صرف ولا عَدْلٌ» «2» فالعَدْلُ قيل : هو كناية عن الفریضة، وحقیقته ما تقدّم، والصّرف : النّافلة، وهو الزّيادة علی ذلک فهما کالعَدْلِ والإحسان . ومعنی أنه لا يقبل منه أنه لا يكون له خير يقبل منه، وقوله : بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام/ 1] ، أي : يجعلون له عَدِيلًا فصار کقوله : هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل/ 100] ، وقیل : يَعْدِلُونَ بأفعاله عنه وينسبونها إلى غيره، وقیل : يَعْدِلُونَ بعبادتهم عنه تعالی، وقوله : بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل/ 60] ، يصحّ أن يكون من قولهم : عَدَلَ عن الحقّ : إذا جار عُدُولًا، وأيّام مُعْتَدِلَاتٌ: طيّبات لِاعْتِدَالِهَا، وعَادَلَ بين الأمرین : إذا نظر أيّهما أرجح، وعَادَلَ الأمرَ : ارتبک فيه، فلا يميل برأيه إلى أحد طرفيه، وقولهم : ( وضع علی يدي عَدْلٍ ) فمثل مشهور «1» . ( ع د ل ) العدالۃ والمعادلۃ کے لفظ میں مساوات کے معنی پائے جاتے ہیں اور معنی اضافی کے اعتبار سے استعمال ہوتا ہے یعنی ایک دوسرے کے ہم وزن اور برابر ہوتا اور عدل عدل کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن عدل کا لفظ معنوی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے احکام شرعیہ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] او عدل ذلک صیاما یا اس کے برابر روزے رکھنا اور عدل وعدیل کے الفاظ ان چیزوں کے لئے بولے جاتے ہیں جن کا اور اک حواس ظاہرہ سے ہوتا ہے جیسے وہ چیزیں جن کا تعلق ماپ تول یا وزن سے ہوتا ہے پس عدل کے معنی دو چیزوں کا برابر ہونا کے ہیں چناچہ اسی معنی میں مروی ہے بالعدل قامت السموت والاارض کہ عدل ہی سے آسمان و زمین قائم ہیں یعنی اگر عناصر اربعہ جن کائنات نے ترکیب پائی ہے میں سے ایک عنصر میں بھی اس کی معینہ مقدار سے کمی یا بیشی ہوجائے تو نظام کائنات قائم نہیں رہ سکتا ، العدل دو قسم پر ہے عدل مطلق جو عقلا مستحن ہوتا ہے یہ نہ تو کسی زمانہ میں منسوخ ہوا ہے اور نہ ہی کسی اعتبار سے تعدی کے ساتھ متصف ہوسکتا ہے مثلا کیسی کے احسان کے بدلہ میں اس پر احسان کرنا اور جو تمہیں تکلف نہ دے اسے ایزا رسانی باز رہنا قغیرہ ۔ دوم عدل شرعی جسے شریعت نے عدل کہا ہے اور یہ منسوخ بھی ہوسکتا ہے جیسے قصاص جنایات کی دیت اور مال مرتد کی اصل وغیرہ چناچہ آیات : ۔ فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة/ 194] پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ۔ واپس ہی تم اس پر کرو ۔ وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری/ 40] اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے ۔ میں زیادتی اور برائی کی سزا کا کام بھی زیادتی اور برائی ہی قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل/ 90] خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ میں عدل کے یہی معنی مراد کیونکہ کسی چیز کے برابر اس کا بدلہ دینے کا نام عدل یعنی نیکی کا بدلہ نیکی سے اور برائی کا بدلہ برائی سے اور نیکی کے مقابلہ میں زیادہ نیکی اور شر کے مقابلہ میں مسامحت سے کام لینے کا نام احسان ہے اور لفظ عدل واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے رجل عدل عادل ورجال عدل شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 303 ) فھم رضا وھم عدل وہ راضی رہنے والے اور عدال ہیں ۔ دراصل عدل کا لفظ مصدر ہے چناچہ آیت : ۔ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق/ 2] اور اپنے میں سے دو منصب مردوں کو گواہ بنالو میں عدل کے معنی عدالہ ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری/ 15] اور مجھے حکم ہوا کہ تم میں انصاف کروں لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة/ 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر امادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو ۔ انصاف کیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء/ 129] اور تم خواہ کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہر گز برابری نہیں کرسکو گے ۔ میں انسان کے طبعی میلان کی طرف اشارہ ہے کہ تمام بیویوں سے برابر وجہ کی محبت اس کی قدرت سے باہر ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء/ 3] اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ سب عورتوں سے یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت کانی ہے ۔ میں عدل سے نان ونفقہ اور ازواجی تعلقات میں برابر ی مرادی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] اس کے برابر روزے رکھنا ۔ میں عدل سے مراد یہ ہے کہ وہ روزے طعام سے فدیہ کے برابر ہوں کیونکہ فدیہ میں مساوت کے معنی ملحوظ ہوں تو اسے بھی عدل کہہ دیا جاتا ہے اور ( 33 ) لایقبل منہ صرف ولا عدل میں بعض نے کہا ہے کہ عدل کا لفظ فریضہ سے کنایہ ہے مگر اس کے اصل معنی وہی ہیں جو ہم بیان کرچکے ہیں اور صرف کا لفظ نافلۃ سے اور یہ اصل فرض سے بڑھ کر کام کرنے کا نام ہے لہذا یہ باہم تقابل کے اعتبار سے عدل اور احسان کے ہم مثل ہیں اور لایقبل منہ کے معنی یہ ہیں کہ اسکے پاس کسی قسم کی نیکی ہوگی جو قبول کی جائے اور یہ آیت : ۔ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام/ 1] کے معنی یہ ہیں کہ وہ دوسروں کو خدا کی مثل اور نظیر قرار دیتے ہیں ۔ لہذا یہ آیت : ۔ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل/ 100] کے ہم معنی ہوگی بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ وہ افعال الہیہ کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں بعض نے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے عدول کرنا مراد لیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل/ 60] بلکہ یہ لوگ رستے سے الگ ہورہے ہیں ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہوسکتی ہے یعنی اس کے معنی یعدلون بہ کے ہیں ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ عدل عن الحق سے مشتق ہو جس کے معنی حق سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ ایام معتد لات معتدل زمانہ یعنی جب رات دن برابر ہوتے ہیں ۔ عادل بین الامرین اس نے دو چیزوں کے درمیان موازنہ کیا عادل الامر کسی معاملہ میں پھنس گیا اور کسی ایک جانب فیصلہ نہ کرسکا اور جب کسی شخص کی زندگی سے مایوسی ہوجائے تو اس کے متعلق کہا جاتا ہے : ۔ یعنی اب وہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥٩) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جو اللہ کے موافق عمل کرتی ہے اور وہ نہر رمل کے پرے رہنے والے لوگ ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥٩ (وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓی اُمَّۃٌ یَّہْدُوْنَ بالْحَقِّ وَبِہٖ یَعْدِلُوْنَ ) ۔ اگرچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کی اکثریت نافرمانوں پر مشتمل تھی مگر آپ ( علیہ السلام) کے پیروکاروں میں حق پرست اور انصاف پسند افراد بھی موجود تھے جو لوگوں کو حق بات کی تلقین کرتے تھے اور ان کے فیصلے بھی عدل و انصاف پر مبنی ہوتے تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

116. This marks the resumption of the main theme of the discourse which had been interrupted by the parenthesis (see verses 157-8) calling people to affirm the prophethood of Muhammad (peace be on him). >117. The translators generally render the verse as the following: Of the people of Moses there is a section who guide and do justice in the light of truth. (Translation by Abdullah Yusuf Ali.) They do so because, in their view, the present verse describes the moral and intellectual state of the Israelites at the time when the Qur'an was revealed. However, the context seems to indicate that the above account refers to the state of the Israelites at the time of the Prophet Moses. Thus, the purpose of the verse is to emphasize that even in the days of their calf-worship when God rebuked them, all members of Israel were not corrupt; that a sizeable section of them was righteous.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :117 بیشتر مترجمین نے اس آیت کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ موسیٰ کی قوم میں ایک گروہ ایسا ہے جو حق کے مطابق ہدایت اور انصاف کرتا ہے ، یعنی ان کے نزدیک اس آیت میں بنی اسرائیل کی وہ اخلاقی و ذہنی حالت بیان کی گئی ہے جو نزولِ قرآن کے وقت تھی ۔ لیکن سیاق و سباق پر نظر کرتے ہوئے ہم اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ اس آیت میں بنی اسرائیل کا وہ حال بیان ہوا ہے جو حضرت موسیٰ کے زمانے میں تھا ، اور اس سے مدعا یہ ظاہر کرنا ہے کہ جب اس قوم میں گوسالہ پرستی کے جرم کا ارتکاب کیا گیا اور حضرت حق کی طرف سے اس پر گرفت ہوئی تو اس وقت ساری قوم بگڑی ہوئی نہ تھی بلکہ اس میں ایک اچھا خاصا صالح عنصر موجود تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

78: یہودیوں کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی جو دعوت دی گئی، اور اس سے پہلے ان کی بہت سی بد عنوانیاں بیان ہوئیں، اس سے یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ تمام بنی اسرائیل بد عنوانیوں کے مرتکب ہیں، اس لئے جملہ معترضۂ کے آخر میں اﷲ تعالیٰ نے یہ وضاحت فرمادی کے سارے بنی اسرائیل ایک جیسے نہیں ہیں، بلکہ اُن میں حق کو ماننے والے، اس پر عمل کرنے والے اور اُس کی طرف لوگوں کو ہدایت دینے والے بھی موجود ہیں، اس میں وہ بنی اسرائیل بھی داخل ہیں جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے دین حق پر قائم رہے، اور وہ بھی جو آپ پر ایمان لائے، مثلا حضرت عبداللہ بن سلامؓ وغیرہ۔ اس وضاحت کے بعد آگے پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے بنی اسرائیل کا جو واقعہ دور سے چلا آرہا ہے، اس کو دوبارہ شروع کیا جارہا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

تفسیر وغیرہ میں اس آیت کی شان نزول جو لکھی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کی شان میں اتری ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کی امت میں سے تھے اور حضرت پر ایمان لائے جیسے عبداللہ بن سلام (رض) وغیرہ ان ہی کو فرمایا کہ موسیٰ کی قوم میں ایک گروہ ہے جو حق بات کا پری دار صاحب انصاف ہے اور بعض مفسروں نے یہ بیان کیا ہے کہ اوپر کی آیتوں میں جو موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ بیان ہو اس کے متعلق اللہ پاک نے یہاں تک یہ بیان فرمایا تھا کہ سامری نے گوسالہ بنالیا اور بنی اسرائیل کو شریک کر کے اس کو پوجنے لگا اور ستر آدمی موسیٰ (علیہ السلام) چن کر اپنے ساتھ کوہ طور پر لائے جو زلزلہ سے ہلاک ہوگئے اب اس آیت میں یہ فرمایا سب کی سب موسیٰ کی قوم ایسی نہیں تھی جو گمراہ ہوگئے تھے ایک فرقہ وہ بھی تھا جو حق پر تھا ابن جربج نے اپنی تفسیر کے اس موقعہ پر یہ ذکر کیا ہے کہ بنی اسرائیل نے جب انبیاء کو قتل کیا تو بارہ فرقے ہوگئے ایک فرقہ ان میں سے اس بات پر بالکل ناخوش ہوا اور اپنا عذر اللہ پاک سے ظاہر کیا اللہ پاک نے ایک نقب زمین میں پیدا کردی وہ لوگ اس نقب کی راہ سے چین کے قریب نکلے اور وہاں اپنے دین پر قائم ہیں ٣ ؎ مگر قاضی شوکانی نے اپنی تفسیر میں اس قصہ کو صحت سے دور تر بتلایا ہے ٤ ؎ حاصل یہ ہے کہ قرآن شریف کی یہت سی آیتوں سے یہ بات نکلتی ہے کہ ہاں یہود کی مذمت کا ذکر آتا ہے اس مذمت میں سے اللہ تعالیٰ مسلمان اہل کتاب کا دل بڑھانے کے لئے عبداللہ بن سلام (رض) اور ان کے ساتھیوں کو نکال لیتا ہے چناچہ امام المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے صحیح قول کے حوالہ سے سورة آل عمران کی آیت لیسوسواء (٣: ١١٣) کی شان نزول میں اس کا تذکرہ گزر چکا ہے اس سبب سے پہلی شان نزول صحیح معلوم ہوتی ہے۔ صحیح بخاری کے حوالہ سے ابوصخر عقیلی کی حدیث جو گزر چکی ہے ٥ ؎ اس حدیث کو یہود کی مذمت کی اوپر کی آیتوں کی اور اس آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیتوں میں یہود کے جن دوگرو ہوں کا ذکر ہے حدیث میں ان دونوں گروہوں میں سے ایک شخص کا ذکر ہے جس میں ایک باپ تھا اور ایک بیٹا وبہ یعدلون اس کا مطلب یہ ہے کہ عبداللہ بن سلام کے گروہ کے لوگ قابل مذمت یہود کے گروہ کی طرح نبی آخرالزمان کے اوصاف اور تورات کے مسائل کے ظاہر کرنے میں ناحق پسندی اور ناانصافی نہیں کرتے :۔ ٢ ؎ تفسیر جامع البیان مع حاشیہ اس آیت کے تحت ٣ ؎ تفسیر ابن جریر ج ٩ ص ٨٧۔ ٨٨ طبع جدید ٤ ؎ تفسیر فتح البیان ج ٢ ص ١٠٠ ٥ ؎ یعنی ص ٣٠٦ پر بحوالہ تفسیرابن کثیر ج ٢ ص ٢٥١۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:159) امۃ گروہ ۔ جماعت، نیز اس کے معنی مدت، طریقہ، دین بھی ہیں ۔ امۃ بمعنی گروہ۔ باعتبار لفظ واحد ہے اور باعتبار معنی جمع ہے یھدون۔ مضارع جمع مذکر غائب ۔ وہ ہدایت کرتے ہیں۔ ھدایۃ مصدر (باب ضرب) ھدی یھدی۔ وبہ یعدلون۔ اور اسی حق کے ساتھ عدل کرتے تھے۔ ہ ضمیر الحق کی طرف راجع ہے۔ یعدلون۔ عدل یعدل (ضرب) سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 مراد ہیں وہ یہودی جو تورات پر قائم رہے یا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے جیسے عبد اللہ سلام اور ان ساتھی، ( کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تشریح : آیت نمبر 159 تا 160 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب تمام بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر صحرائے سینا سے گذر رہے تھے تاکہ بنی اسرائیل کو فلسطین میں آباد کردیں ۔ اس موقع پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کی گنتی کرانے کے بعد ان کو بارہ قبیلوں میں تقسیم کردیا۔ جیسا کہ آپ نے اس سے پہلے پڑھ لیا ہے کہ جب حضرت یعقوب (علیہ السلام) فلسطین سے مصر آئے ہیں اس وقت حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور ان کے گھر والوں کی تعداد ایک سو سے بھی کم تھی۔ روایات کے مطابق حضرت یوسف (علیہ السلام) کے دور سلطنت کے چھ سال کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے اور انہوں نے بی اسرائیل کی اصلاح و تربیت فرمائی اور فرعون کی طاقت سے ٹ کرلی اس وقت بنی اسرائیل کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی تھی فرعون کے غرق ہونے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) قوم بنی اسرائیل کو مصر سے فلسطین کی طرف لے کر جارہے تھے اور صحرائے سینا کے اس علاقے سے گذر رہے تھے جہاں دور دور تک آبادی کا نام نشان تک نہ تھا، کھلا آسمان تھا، کھانے اور پینے کا کوئی انتظام نہ تھا، چونکہ بنی اسرائیل کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی تھی اس لئے انتظامی لحاظ سے ان کو بارہ خاندانوں میں تقسیم کر کے ان پر ایک ایک نگران مقرر کردیا گیا تاکہ ان کے دنیاوی امور کے ساتھ ان کی اخلاقی اصلاح بھی ہوتی جائے۔ جہاں ان میں وہ لوگ تھے جن کا کام ہی شرارتیں کرنا اور ہر برے راستے کو اختیار کرنا ان کا مزاج بن چکا تھا ان ہی میں ایک جماعت ایسے نیک لوگوں کی بھی تھی جو حق و صداقت کے علم بردار اور زندگی کا اعتدال رکھنے والے تھے ایسے لوگوں پر اللہ کا خاص کرم تھا لیکن مزاج کے اعتبار سے جو لوگ نافرمانی کا راستہ اختیار کرنے والے تھے انہوں نے اللہ کے احکامات ماننے سے انکار کردیا اور اس طرح ان پر چالیس سال تک کے لئے شہری زندگی اور اس کی راحتوں کو حرام کردیا گیا۔ صحرائے سینا کا وہ مقام جہاں ان کو چالیس سال تک کے لئے مارے مارے پھرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا تھا اس کو میدان تیہ کہتے ہیں ۔ یہ دن بھر اس صحرائی زندگی سے نکلنے کے لئے راستے تلاش کرتے، تھک کر سوجاتے اور یہ سمجھتے کہ ہم اس راستے کے قریب پہنچ چکے ہیں جہاں سے اس میدان نکلنا آسان ہوگا لیکن جب وہ سو کر اٹھتے تو ہر صبح وہ ہیں ہوتے تھے جہاں سے چلے تھے اپنے نبی کے بغیر ان کو وہ راستہ تو نہ مل جسے وہ برسوں سے تلاش کر رہے تھے مگر جب بھی وہ اپنے نبی حضرت موسیٰ سے کسی نعمت کی فرمائش کرتے اللہ تعالیٰ اس کو پورا کردیتا تھا۔ ارشادہوا کہ موسیٰ اپنے عصا کو پتھر پر مار یئے موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک مخصوص پتھر پر ماراتو اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے، کانے کو مانگا تو اللہ نے ان کو اسی صحرا میں من سلویٰ عطا فرمایا۔ کہنے لگے کہ ہم صحرا کی دھوپ سے جھلسنے لگے ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی تو ان پر بادل کا سایہ ہوگیا، جہاں وہ جاتے بال ساتھ ساتھ سایہ کئے ہوئے ہوتا ۔ اگر غور کیا جائے تو انسان کی بنیادی ضروریات میں تین ہی چیزیں اہم ہیں کھانا ، پانی اور چھت اور تینوں چیزیں اللہ نے اسی صحرا میں عطا فرمانے کے بعد اس اصول کو بتا دیا کہ اللہ وسائل کا محتاج نہیں ہے وہ جب چاہے جہاں جیسے چاہے ہر چیز اپنے بندوں تک پہنچا دینے کی طاقت اور قدرت رکھتا ہے ۔ اگر بنی اسرائیل کھانے پینے اور سایہ کے علاوہ اللہ سے ہدایت بھی مانگتے تو ان کو مل سکتی تھی لیکن انہوں نے جب بھی مانگا دنیا ہی کو مانگا اگر وہ آخرت کی کامیابی مانگل لیتے تو ارحم الرحمین ان کو دنیا و آخرت سب ہی کچھ دیدیتا۔ یہ انسان کی سب سے بڑی بھول ہے کہ وہ ہر وقت دنیا ہی مانگتا رہتا ہے۔ اگر وہ آخرت بھی مانگے تو اس کو آخرت اور اس کی ابدی راحتیں بھی نصیب ہوسکتی ہیں ۔ اسی لئے اہل ایمان کو یہ دعا سکھائی گئی ہے کہ اے ہمارے رب ہماری دنیا بھی اچھی کر دے اور ہماری آخرت بھی اچھی کردے اور ہمیں جہنم کی آگ سے بچالیجئے گا “ آج ہماری دعائیں بھی دنیا مانگنے تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں اور ہر شخص کی دعا دنیا کی فلاح و بہود تک محدود ہو کر رہ گئی ہے لیکن اہل ایمان جب بھی اللہ سے مانگتے ہیں تو وہ سب سے پہلے آخرت کی کامیابی اور پھر دنیا کی الجھنوں سے نجات کی درخواست کرتے ہیں۔ اللہ ایسے لوگوں کو دنیا و آخرت کی کامیابیاں عطا کرتا ہے ۔ بنی اسرائیل کی یہ بہت بڑی بد قسمتی تھی کہ وہ اپنے پیغمبر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے دنیا کی چیزیں مانگتے تھے اور ان کو آخرت کی کوئی فکر نہ تھی نتیجہ یہ ہوا کہ چالیس سال تک اس سزا کو بھگتنے کے بعد جب وہ شہری زندگی سے قریب ہوئے تو وہاں بھی اپنے مزاج کی خرابی کا اظہار کرنے لگے عاجزی کے بجائے تکبر اور توبہ کے بجائے دنیا طلبی کرنے ل کے۔ قرآن کریم قوموں کی زندگی کو آئینہ بنا کر پیش کرتا ہے اور اہل ایمان کو یہ سمجھاتا ہے کہ تم بھی اس آئینہ کو دیکھ لو اگر تمہیں ان جیسی شکل و صورت نظر آٗئے تو پھر تو بہ کرکے نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دامن تھام لو تاکہ تم بھی ان ہی مصیبتوں میں گرفتار نہ ہو جائو جس میں پچھلی قومیں مبتلا ہو کر اپنی دنیا و آخرت کو برباد کر بیٹھی تھیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم لوگوں پر ظلم اور زیادتی نہیں کرتے بلکہ لوگ اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں ۔ اللہ تو اپنے بندوں پر بہت مہر بان ہے ۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ مراد اس سے عبداللہ بن سلام وغیرہ ہیں اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کی نبوت جیسے شہادت دلائل سے ثابت ہے اسی طرح شہادت اہل علم سے بھی موید ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ : قرآن مجید کا یہ اسلوب بیان ہے کہ وہ کسی بات کو واقعہ برائے واقعہ اور داستان گوئی کے لیے بیان نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قصہ کے سوا کسی ایک نبی کا قصہ کسی ایک مقام پر مسلسل بیان نہیں کیا گیا بلکہ قصہ کا وہی حصہ بیان کیا جاتا ہے جس سے ایک خاص نقطہ اور نصیحت بیان کرنا مقصود ہوتی ہے۔ پھر قرآن مجید کا کمال اور اس کی انصاف پسندی یہ ہے کہ اس نے کسی قوم کے جرائم بیان کرتے ہوئے اس قوم کو کلیتاً مجرم قوم قرار نہیں دیا بلکہ ان کے اچھے لوگوں کو مستثنیٰ قرار دے کر ان کے اچھے کردار کی تعریف کی ہے۔ اسی اصول اور اسلوب کے پیش نظر یہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے ان اچھے لوگوں کی تعریف کی جا رہی ہے جو حالات کی سنگینی کے باوجود نہ صرف حق پر قائم رہے بلکہ حق کی تلقین اور ہمیشہ عدل کی بات کرتے رہے۔ جنھیں تھوڑے ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ایک امت قرار دیا ہے کیونکہ حق پر قائم رہنے والے لوگ خواہ کتنے ہی تھوڑے کیوں نہ ہوں وہ اپنے صالح کردار اور توحید پر مبنی عقیدہ کی وجہ سے ایک امت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اسی لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ایک امت قرار دیا ہے۔ (النمل، آیت : ١٢١) قرآن مجید میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے جن پاکباز لوگوں کو امت کے درجے پر فائز کیا گیا ہے ان کی وضاحت کرتے ہوئے مفسرین نے لکھا ہے کہ ان سے مراد موسیٰ (علیہ السلام) کے سچے متبعین اور ان کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے لوگ ہیں۔ جب نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا اعلان ہوا تو جو آپ کی رسالت پر ایمان لائے ہیں۔ یہی لوگ حق کی رہنمائی کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے والے تھے۔ (عَن سَعِیدِ بْنِ زَیْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَیْلٍ ، وَعُمَرَ بْنَ الْخَطّابِ (رض) قَالَا لِرَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَتَسْتَغْفِرُ لِزَیْدِ بْنِ عَمْرٍو ؟ قَالَ نَعَمْ فَإِنّہُ یُبْعَثُ أُمَّۃً وَّاحِدًا) [ سیرۃ ابن ہشام ] ” حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل اور عمر بن خطاب (رض) دونوں نے رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا آپ زید بن عمر و کے لیے استغفار کرتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں بلاشبہ وہ اکیلا ایک جماعت کی طرح ہے۔ “

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

شدید زلزلے کے بعد کیا واقعات پیش آئے جس میں بنی اسرائیل کے ستر لیڈر ہلاک کرد دیے گئے ؟ یاں صرف یہ بات آتی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی اس اچانک موت پر الہ کے ہاں نہایت ہی عاجزی سے دعا کی ، یہ نہیں بتایا کہ ان لوگوں کا کیا بنا لیکن دوسری سورتوں میں یہ قصہ جس طرح لایا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کی دعاء کی وجہ سے اللہ نے انہیں زندہ کردیا اور یہ لوگ پکے مومن کی طرح اپنی قوم کی طرح اپنی قوم کی طرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ لوٹے۔ لیکن قصے کی اگلی کڑیاں لانے سے قبل یہاں اس حقیقت کو بیان کردیا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ کی قوم میں سے کچھ لوگ اچھے بھی تھے ، وہ حق کو قبول کرتے تھے۔ حضرت موسیٰ کے دور میں ان میں اچھے لوگ بھی تھے۔ ان میں سے ایک طبقہ ایسا تھا جو حق بات کرتا تھا اور انصاف سے کام لیتا تھا۔ اور خود حضور کے دور میں بھی ان میں سے بعض حق پرستوں نے اسلام کو قبول کیا۔ خصوصاً ان لوگوں نے جو اپنے ہاں موجود تورات میں نبی امی کے بارے میں لکھا ہوا پاتے تھے۔ ان کے سرخیل آپ کے صحابی حضرت عبداللہ ابن سلام تھے اور یہ اس وقت کے یہودیوں کا مقابلہ ان پیشین گوئیوں سے کرتے تھے جو نبی آخر الزمان کے بارے میں تورات میں موجود تھیں۔ نیز ان کے ہاں جو شریعت کے نصوص تھے وہ بھی اسلامی نظام قانون کے ساتھ ہم رنگ تھے۔ اب اس اہم ضمنی بات کے بعد اصل قصے کا مضمون یوں آگے بڑھتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

157: اس سے مراد وہ یہودی ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے تھے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن سلام وغیرہ (رض)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

159 اور موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم میں سے ایک جماعت ایسی بھی ہے جو لوگوں کو راہ حق بتاتی ہے اور اسی حق کے مطابق جملہ معاملات میں انصاف کرتی ہے۔ یعنی اسلام کا راستہ بتاتی ہے اور اسلام کے موافق معاملات باہمی میں انصاف کرتی ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں وہی لوگ تھے کہ جب حضرت پہنچے تو ایمان لائے جیسے عبداللہ بن سلام (رض) ۔ 12