Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 175

سورة الأعراف

وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ الَّذِیۡۤ اٰتَیۡنٰہُ اٰیٰتِنَا فَانۡسَلَخَ مِنۡہَا فَاَتۡبَعَہُ الشَّیۡطٰنُ فَکَانَ مِنَ الۡغٰوِیۡنَ ﴿۱۷۵﴾

And recite to them, [O Muhammad], the news of him to whom we gave [knowledge of] Our signs, but he detached himself from them; so Satan pursued him, and he became of the deviators.

اور ان لوگوں کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنایئے کہ جس کو ہم نے اپنی آیتیں دیں پھر وہ ان سے بالکل نکل گیا ، پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا سو وہ گمراہ لوگوں میں شامل ہوگیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Story Bal`am bin Ba`ura Allah tells; وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِيَ اتَيْنَاهُ ايَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا ... And recite to them the story of him to whom We gave Our Ayat, but he threw them away, Abdur-Razzaq recorded that Abdullah bin Mas`ud said that this Ayah; "Is about Bal`am bin Ba`ura' a man from the Children of Israel." Shu`bah and several other narrators narrated this statement from Mansur who got it from Ibn Mas`ud. Sa`id bin Abi Arubah narrated that Qatadah said that Ibn Abbas said, "He is Sayfi, son of Ar-Rahib." Qatadah commented that Ka`b said, "He was a man from Al-Balqla' (a province of Jordan) who knew Allah's Greatest Name. He used to live in Bayt Al-Maqdis with the tyrants." Al-Awfi reported that Ibn Abbas said, "He is Bal`am bin Ba`ura', a man from Yemen whom Allah had given the knowledge of His Ayat, but he abandoned them." Malik bin Dinar said, "He was one of the scholars of the Children of Israel whose supplication was acceptable. They used to seek his lead in supplication in times of difficulty. Allah's Prophet Musa sent him to the King of Madyan to call him to Allah. That king appeased him and gave him land and gifts, and he reverted from the religion of Musa and followed the king's religion." Imran bin Uyaynah narrated that Husayn said that Imran bin Al-Harith said that Ibn Abbas said, "He is Bal`am son of Ba`ura'." Similar was said by Mujahid and Ikrimah. Therefore, it is well-known that this honorable Ayah was revealed about a man from the Children of Israel in ancient times, according to Ibn Mas`ud and several others among the Salaf. Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas said, "He is a man from the city of the tyrants (Jerusalem) whose name was Bal`am and who knew Allah's Greatest Name." Ali bin Abi Talhah also reported that Ibn Abbas that he said, "When Musa and those with him went to the city of the tyrants (Jerusalem), the cousins of Bal`am and his people came to him and said, `Musa is a strong man, and he has many soldiers. If he gains the upper hand over us, we will be destroyed. Therefore, supplicate to Allah that He prevents Musa and those with him from prevailing over us.' Bal`am said, `If I supplicate to Allah that He turns back Musa and those with him, I will lose in this life and the Hereafter.' They kept luring him until he supplicated against Musa and his people, and Allah took away what he bestowed on him (of knowledge). Hence Allah's statement, ... فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ ... but he threw them away; so Shaytan followed him up."' ... فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ and he became of those who went astray. Allah said next,

بلعم بن باعورا مروی ہے کہ جس کا واقعہ ان آیتوں میں بیان ہو رہا ہے اس کا نام بلعم بن باعورا ہے ۔ یہ بھی کہ کہا گیا ہے کہ اس کا نام ضفی بن راہب تھا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بلقاء کا ایک شخص تھا جو اسم اعظم جانتا تھا اور جبارین کے سات ہی بیت المقدس میں رہا کرتا تھا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ یمنی شخص تھا جس نے کلام اللہ کو ترک کر دیا تھا ، یہ شخص بنی اسرائیل کے علماء میں سے تھا ، اس کی دعا مقبول ہو جایا کرتی تھی ۔ بنی اسرائیل سختیوں کے وقت اسے آگے کر دیا کرتے تھے ۔ اللہ اس کی دعا مقبول فرما لیا کرتا تھا ۔ اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مدین کے بادشاہ کی طرف اللہ کے دین کی دعوت دینے کیلئے بھیجا تھا اس عقلمند بادشاہ نے اسے مکرو فریب سے اپنا کر لیا ۔ اس کے نام کئی گاؤں کر دیئے اور بہت کجھ انعام و اکرام دیا ۔ یہ بد نصیب دین موسوی کو چھوڑ کر اس کے مذہب میں جا ملا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا نام بلعام تھا ۔ یہ بھی ہے کہ یہ امیہ بن ابو صلت ہے ۔ ممکن ہے یہ کہنے والے کی یہ مراد ہو کہ یہ امیہ بھی اسی کے مشابہ تھا ۔ اسے بھی اگلی شریعتوں کا علم تھا لیکن یہ ان سے فائدہ نہ اٹھا سکا ۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کو بھی اس نے پایا آپ کی آیات بینات دیکھیں ، معجزے اپنی آنکھوں سے دیکھ لئے ، ہزارہا کو دین حق میں داخل ہوتے دیکھا ، لیکن مشرکین کے میل جول ، ان میں امتیاز ، ان میں دوستی اور وہاں کی سرداری کی ہوس نے اسے اسلام اور قبول حق سے روک دیا ۔ اسی نے بدری کافروں کے ماتم میں مرثئے کہے ، لعنتہ اللہ ۔ بعض احادیث میں وارد ہے کہ اس کی زبان تو ایمان لا چکی تھی لیکن دل مومن نہیں ہوا تھا کہتے ہیں کہ اس شخص سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ اس کی دعائیں جو بھی یہ کرے گا مقبول ہوں گی اس کی بیوی نے ایک مرتبہ اس سے کہا کہ ان تین دعاؤں میں سے ایک دعا میرے لئے کر ۔ اس نے منظور کر لیا اور پوچھا کیا دعا کرانا چاہتی ہو؟ اس نے کہا یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس قدر حسن و خوبصورتی عطا فرمائے کہ مجھ سے زیادہ حسین عورت بنی اسرائیل میں کوئی نہ ہو ۔ اس نے دعا کی اور وہ ایسی ہی حسین ہو گئی ۔ اب تو اس نے پر نکالے اور اپنے میاں کو محض بےحقیقت سمجھنے لگی بڑے بڑے لوگ اس کی طرف جھکنے لگے اور یہ بھی ان کی طرف مائل ہو گئی اس سے یہ بہت کڑھا اور اللہ سے دعا کی کہ یا اللہ اسے کتیا بنا دے ۔ یہ بھی منظور ہوئی وہ کتیا بن گئی ۔ اب اس کے بچے آئے انہوں نے گھیر لیا کہ آپ نے غضب کیا لوگ ہمیں طعنہ دیتے ہیں اور ہم کتیا کے بچے مشہور ہو رہے ہیں ۔ آپ دعا کیجئے کہ اللہ اسے اس کی اصلی حالت میں پھر سے لا دے ۔ اس نے وہ تیسری دعا بھی کر لی تینوں دعائیں یوں ہی ضائع ہوگئیں اور یہ خالی ہاتھ بےخیر رہ گیا ۔ مشہور بات تو یہی ہے کہ بنی اسرائیل کے بزرگوں میں سے یہ ایک شخص تھا ۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہدیا ہے کہ یہ نبی تھا ۔ یہ محض غلط ہے ، بالکل جھوٹ ہے اور کھلا افترا ہے ۔ مروی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب قوم جبارین سے لڑائی کے لئے بنی اسرائیل کی ہمراہی میں گئے انہی جبارین میں بلغام نامی یہ شخص تھا اس کی قوم اور اس کے قرابت دار چچا وغیرہ سب اس کے پاس آئے اور کہا کہ موسیٰ اور اس کی قوم کے لئے آپ بد دعا کیجئے ۔ اس نے کہا یہ نہیں ہو سکتا اگر میں ایسا کروں گا تو میری دنیا آخرت دونوں خراب ہو جائیں گی لیکن قوم سر ہوگئی ۔ یہ بھی لحاظ مروت میں آ گیا ۔ بد دعا کی ، اللہ تعالیٰ نے اس سے کرامت چھین لی اور اسے اس کے مرتبے سے گرا دیا ۔ سدی کہتے ہیں کہ جب بنی اسرائیل کو وادی تیہ میں چالیس سال گذر گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا انہوں نے فرمایا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تمہیں لے کر جاؤں اور ان جبارین سے جہاد کروں ۔ یہ آمادہ ہوگئے ، بیعت کر لی ۔ انہی میں بلعام نامی ایک شخص تھا جو بڑا عالم تھا اسم اعظم جانتا تھا ۔ یہ بد نصیب کافر ہو گیا ، قوم جبارین میں جا ملا اور ان سے کہا تم نہ گھبراؤ جب بنی اسرائیل کا لشکر آ جائے گا میں ان پر بد دعا کروں گا تو وہ دفعتاًہلاک ہو جائے گا ۔ اس کے پاس تمام دنیوی ٹھاٹھ تھے لیکن عورتوں کی عظمت کی وجہ سے یہ ان سے نہیں ملتا تھا بلکہ ایک گدھی پال رکھی تھی ۔ اسی بد قسمت کا ذکر اس آیت میں ہے ۔ شیطان اس پر غالب آ گیا اسے اپنے پھندے میں پھانس لیا جو وہ کہتا تھا یہ کرتا تھا آخر ہلاک ہو گیا ۔ مسند ابو یعلی موصلی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ اس سے ڈرتا ہوں جو قران پڑھ لے گا جو اسلام کی چادر اوڑھے ہوئے ہوگا اور دینی ترقی پر ہوگا کہ ایک دم اس سے ہٹ جائے گا ، اسے پس پشت ڈال دے گا ، اپنے پڑوسی پر تلوار لے دوڑے گا اور اسے شرک کی تہمت لگائے گا ۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر دریافت کیا کہ یا رسول اللہ مشرک ہونے کے زیادہ قابل کون ہوگا ؟ یہ تہمت لگانے والا ؟ وہ جسے تہمت لگا رہا ہے فرمایا نہیں بلکہ تہمت دھرنے والا ۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر ہم چاہتے تو قادر تھے کہ اسے بلند مرتبے پر پہنچائیں ، دنیا کی آلائشوں سے پاک رکھیں ، اپنی دی ہوئی آیتوں کی تابعداری پر قائم رکھیں لیکن وہ دنیوی لذتوں کی طرف جھک پڑا یہاں تک کہ شیطان کا پورا مرید ہوگیا ۔ اسے سجدہ کر لیا ۔ کہتے ہیں کہ اس بلعام سے لوگوں نے درخواست کی کہ آپ حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کے حق میں بد دعا کیجئے ۔ اس نے کہا اچھا میں اللہ سے حکم لے لوں ۔ جب اس نے اللہ تعالیٰ سے مناجات کی تو اسے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل مسلمان ہیں اور ان میں اللہ کے نبی موجود ہیں اس نے سب سے کہا کہ مجھے بد دعا کرنے سے روک دیا گیا ہے انہوں نے بہت سارے تحفے تحائف جمع کر کے اسے دیئے اس نے سب رکھ لئے ۔ پھر دوبارہ درخواست کی کہ ہمیں ان سے بہت خوف ہے آپ ضرور ان پر بد دعا کیجئے اس نے جواب دیا کہ جب تک میں اللہ تعالیٰ سے اجازت نہ لے لوں میں ہرگز یہ نہ کروں گا اس نے پھر اللہ سے مناجات کی لیکن اسے کچھ معلوم نہ ہو سکا اس نے یہی جواب انہیں دیا تو انہوں نے کہا دیکھو اگر منع ہی مقصود ہوتا تو آپ کو روک دیا جاتا جیسا کہ اس سے پہلے روک دیا گیا ۔ اس کی بھی سمجھ میں آ گیا اٹھ کر بد دعا شروع کی ۔ اللہ کی شان ہے بد دعا ان پر کرنے کے بجائے اس کی زبان سے اپنی ہی قوم کے لئے بد دعا نکلی اور جب اپنی قوم کی فتح کی دعا مانگنا چاہتا تو بنی اسرائیل کی فتح و نصرت کی دعا نکلتی ۔ قوم نے کہا آپ کیا غضب کر رہے ہیں؟ اس نے کہا کیا کروں؟ میری زبان میرے قابو میں نہیں ۔ سنو اگر سچ مچ میری زبان سے ان کے لئے بد دعا نکلی بھی تو قبول نہ ہوگی ۔ سنو اب میں تمہیں ایک ترکیب بتاتا ہوں اگر تم اس میں کامیاب ہوگئے تو سمجھ لو کہ بنی اسرائیل برباد ہو جائیں گے تم اپنی نوجوان لڑکیوں کو بناؤ سنگھار کرا کے ان کے لشکروں میں بھیجو اور انہیں ہدایت کر دو کہ کوئی ان کی طرف جھکے تو یہ انکار نہ کریں ممکن ہے بوجہ مسافرت یہ لوگ زناکاری میں مبتلا ہو جائیں اگر یہ ہوا تو چونکہ یہ حرام کاری اللہ کو سخت ناپسند ہے اسی وقت ان پر عذاب آ جائے گا اور یہ تباہ ہو جائیں گے ۔ ان بےغیرتوں نے اس بات کو مان لیا اور یہی کیا ۔ خود بادشاہ کی بڑی حسین و جمیل لڑکی بھی بن ٹھن کر نکلی اسے ہدایت کر دی گئی تھی کہ سوائے حضرت موسیٰ کے اور کسی کو اپنا نفس نہ سونپے ۔ یہ عورتیں جب بنی اسرائیل کے لشکر میں پہنچیں تو عام لوگ بےقابو ہوگئے حرام کاری سے بچ نہ سکے ۔ شہزادی بنی اسرائیل کے ایک سردار کے پاس پہنچی ۔ اس سردار نے اس لڑکی پر ڈورے ڈالے لیکن اس لڑکی نے انکار کیا ۔ اس نے بتایا کہ میں فلاں فلاں ہوں ، اس نے اپنے باپ سے یا بلعام سے پچھوایا اس نے اجازت دی ۔ یہ خبیث اپنا منہ کالا کر رہا تھا جسے حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے کسی صاحب نے دیکھ لیا اپنے نیزے سے ان دونوں کو پرودیا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے دست و بازی قوی کر دیئے اس نے یونہی ان دونوں کو چھدے ہوئے اٹھا لیا لوگوں نے بھی انہیں دیکھا ۔ اب اس لشکر پر عذاب رب بشکل طاعون آیا اور ستر ہزار آدمی فوراً ہلاک ہوگئے ۔ بلعام اپنی گدھی پر سوار ہو کر چلا وہ ایک ٹیلے پر چڑھ کر رک گئی اب بلعام اسے مارتا پیٹتا ہے لیکن وہ قدم نہیں اٹھاتی ۔ آخر گدھی نے اس کی طرف دیکھا اور کہا مجھے کیوں مار رہا ہے سامنے دیکھ کون ہے؟ اس نے دیکھ تو شیطان لعین کھڑا ہوا تھا یہ اتر پڑا اور سجدے میں گر گیا ۔ الغرض ایمان سے خالی ہو گیا اس کا نام یا تو بلعام تھا ۔ یا بلعم بن با عورا یا ابن ابر بار بن باعور بن شہوم بن قوشتم بن مآب بن لوط بن ہارون یا ابن مران بن آزر ۔ یہ بلقا کا رئیس تھا ، اسم اعظم جانتا تھا لیکن اخیر میں دین حق سے ہٹ گیا ۔ واللہ اعلم ۔ ایک روایت میں ہے کہ قوم کے زیادہ کہنے سننے سے جب یہ اپنی گدھی پر سوار ہو کر بد دعا کے لئے چلا تو اس کی گدھی بیٹھ گئی ۔ اس نے اسے مار پیٹ کر اٹھایا کچھ دور چل کر پھر بیٹھ گئی ۔ اس نے اسے پھر مار پیٹ کر اٹھایا ، اسے اللہ نے زبان دی ۔ اس نے کہا تیرا ناس جائے تو کہاں اور کیوں جا رہا ہے اللہ کے مقابلے اس کے رسول سے لڑنے اور مومنوں کو نقصان دلانے جا رہا ہے؟ دیکھ تو سہی فرشتے میری راہ روکے کھڑے ہیں ۔ اس نے پھر بھی کچھ خیال نہ کیا آگے بڑھ گیا ۔ حبان نامی پہاڑی پر چڑھ گیا جہاں سے بنو اسرائیل کا لشکر سامنے ہی نظر آتا تھا ۔ اب ان کیلئے بددعا اور اپنی قوم کے لئے دعائیں کرنے لگا لیکن زبان الٹ گئی دعا کی جگہ بد دعا اور بد دعا کی جگہ دعا نکلنے لگی ۔ قوم نے کہا کیا کر رہے ہو؟ کہا بےبس ہوں ۔ اسی وقت اس کی زبان نکل پڑی سینے پر لٹکنے لگی اس نے کہا لو میری دنیا بھی خراب ہوئی اور دین تو بالکل برباد ہو گیا پھر اس نے خوبصورت لڑکیاں بھیجنے کی ترکیب بتائی جیسے کہ اوپر بیان ہوا اور کہا کہ اگر ان میں سے ایک نے بھی بدکاری کر لی تو ان پر عذاب رب آ جائے گا ان عورتوں میں سے ایک بہت ہی حسین عورت جو کنانیہ تھی اور جس کا نام کستی تھا جو صور نامی ایک رئیس کی بیٹی تھی وہ جب بنی اسرائیل کے ایک بہت بڑے سردار زمری بن شلوم کے پاس سے گذری جو شمعون بن یعقوب کی نسل میں سے تھا وہ اس پر فریفتہ ہوگیا ۔ دلیری کے ساتھ اس کا ہاتھ تھامے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس گیا اور کہنے لگا آپ تو شاید کہدیں گے کہ یہ مجھ پر حرام ہے؟ آپ نے کہا بیشک ۔ اس نے کہا اچھا میں آپ کی یہ بات تو نہیں مان سکتا ، اسے اپنے خیمے میں لے گیا اور اس سے منہ کالا کرنے لگا ۔ وہیں اللہ تعالیٰ نے ان پر طاعون بھیج دیا ۔ حضرت فحاص بن غیرار بن ہارون اس وقت لشکر گاہ سے کہیں باہر گئے ہوئے تھے جب آئے اور تمام حقیقت سنی تو بیتاب ہو کر غصے کے ساتھ اس بد کردار کے خیمے میں پہنچے اور اپنے نیزے میں ان دونوں کو پرو لیا اور اپنے ہاتھ میں نیزہ لئے ہوئے انہیں اوپر اٹھائے ہوئے باہر نکلے کہنی کو کھ پر لگائے ہوئے تھے کہنے لگے یا اللہ ہمیں معاف فرما ہم پر سے یہ وبا دور فرما دیکھ لے ہم تیرے نافرمانوں کے ساتھ یہ کرتے ہیں ۔ ان کی دعا اور اس فعل سے طاعون اٹھ گیا لیکن اتنی دیر میں جب حساب لگایا گیا تو ستر ہزار آدمی اور ایک روایت کی رو سے بیس ہزار مر چکے تھے ۔ دن کا وقت تھا اور کنانیوں کی یہ چھوکریاں سودا بیچنے کے بہانے صرف اس لئے آئی تھیں کہ بنو اسرائیل بدکاری میں پھنس جائیں اور ان پر عذاب آ جائیں ۔ بنو اسرائیل میں اب تک یہ دستور چلا آتا ہے کہ وہ اپنے ذبیحہ میں سے گردن اور دست اور سری اور ہر قسم کا سب سے پہلا پھل فحاص کی اولاد کو دیا کرتے ہیں ۔ اسی بلعام بن باعورا کا ذکر ان آیتوں میں ہے ۔ فرمان ہے کہ اس کی مثال کتے کی سی ہے کہ کالی ہے تو ہانپتا ہے اور دھتکارا جائے تو ہانپتا رہتا ہے ۔ یا تو اس مثال سے یہ مطلب ہے کہ بلعام کی زبان نیچے کو لٹک پڑی تھی جو پھر اندر کو نہ ہوئی کتے کی طرح ہانپتا رہتا تھا اور زبان باہر لٹکائے رہتا تھا ۔ یہ بھی معنی ہیں کہ اس کی ضلالت اور اس پر جمے رہنے کی مثال دی کہ اسے ایمان کی دعوت ، علم کی دولت غرض کسی چیز نے برائی سے نہ ہٹایا جیسے کتے کی اس کی زبان لٹکنے کی حالت برابر قائم رہتی ہے خواہ اسے پاؤں تل روندو خواہ جھوڑ دو ۔ جیسے بعض کفار مکہ کی نسبت فرمان ہے کہ انہیں وعظ و پند کہنا نہ کہنا سب برابر ہے انہیں ایمان نصیب نہیں ہونے کا اور جیسے بعض منافقوں کی نسبت فرمان ہے کہ ان کے لئے تو استغفار کر یا نہ کر اللہ انہیں نہیں بخشے گا ۔ یہ بھی مطلب اس مثال کا بیان کیا گیا ہے کہ ان کافروں منافقوں اور گمراہ لوگوں کے دل بودے اور ہدایت سے خالی ہیں یہ کبھی مطمئن نہیں ہوتے ۔ پھر اللہ عزوجل اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ تو انہیں پند و نصیحت کرتا رہ تاکہ ان میں سے جو عالم ہیں ، وہ غور و فکر کر کے اللہ کی راہ پر آ جائیں یہ سوچیں کہ بلعام ملعون کا کیا حال ہوا دینی علم جیسی زبردست دولت کو جس نے دنیا کی سفلی راحت پر کھو دیا ۔ آخر نہ یہ ملا نہ وہ ۔ دونوں ہاتھ خالی رہ گئے ۔ اسی طرح یہ علماء یہود جو اپنی کتابوں میں اللہ کی ہدایتیں پڑھ رہے ہیں ، آپ کے اوصاف لکھے پاتے ہیں ، انہیں چاہئے کہ دنیا کی طمع میں پھنس کر اپنے مریدوں کو پھانس کر پھول نہ جائیں ورنہ یہ بھی اس کی طرح دنیا میں کھو دیئے جائیں گے انہیں چاہئے کہ اپنی علمیت سے فائدہ اٹھائیں ۔ سب سے پہلے تیری اطاعت کی طرف جھکیں اور اوروں پر حق کو ظاہر کریں ۔ دیکھ لو کہ کفار کی کیسی بری مثالیں ہیں کہ کتوں کی طرح صرف نگلنے اگلنے اور شہوت رانی میں پڑے ہوئے ہیں ۔ پس جو بھی علم و ہدایت کو چھوڑ کر خواہش نفس کے پورا کرنے میں لگ جائے وہ بھی کتے جیسا ہی ہے ۔ حضور فرماتے ہیں ہمارے لئے بری مثالیں نہیں اپنی ہبہ کی ہوئی چیز کو پھر لے لینے والا کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ گنہگار لوگ اللہ کا کچھ بگاڑتے نہیں یہ تو اپنا ہی خسارہ کر تے ہیں ۔ طاعت مولیٰ ، اتباع ہدی سے ہٹا کر خواہش کی غلامی دنیا کی چاہت میں پڑ کر اپنے دونوں جہان خراب کرتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

175۔ 1 مفسرین نے اسے کسی ایک متعین شخص سے متعلق قرار دیا ہے جسے کتاب الٰہی کا علم حاصل تھا لیکن پھر وہ دنیا اور شیطان کے پیچھے لگ کر گمراہ ہوگیا۔ تاہم اس کے تعیین میں کوئی مسند بات مروی بھی نہیں۔ اس لئے اس تکلف کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ عام ہے اور ایسے افراد ہر امت اور ہر دور میں ہوتے رہے ہیں، جو بھی اس صفت کا حامل ہوگا وہ اس کا مصداق قرار پائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧٧] دنیا اور خواہشات نفس کے پیچھے پڑنے والے لوگوں کی مثال :۔ اس شخص کا نام نہ قرآن میں مذکور ہے اور نہ احادیث میں اور جو مفسرین کے اقوال ہیں وہ بھی مختلف ہیں کیونکہ اللہ اور اس کے رسول کا طریق بیان ایسا ہے کہ عموماً کسی برے شخص کا نام لے کر اسے بدنام نہیں کیا جاتا بلکہ صرف اس کی خصلت کو بیان کردیا جاتا ہے تاکہ دوسرے لوگ اس سے بچ جائیں اور یہ بات انتہائی اخلاقی بلندی کی دلیل ہے کہ کسی کو بدنام بھی نہ کیا جائے اور اصل مقصد بھی حاصل ہوجائے اور اس کی مثال ہر اس شخص پر صادق آسکتی ہے جو ایسی صفات رکھتا ہو۔ یہ شخص آیات الٰہی کا عالم تھا باعمل اور مستجاب الدعوات تھا اور لوگوں میں اس کے زہد و اتقاء کی شہرت بھی تھی چند لوگوں نے اس کے پاس آ کر ایک ایسی دعا کی درخواست کی جو شرعاً ناجائز تھی پہلے تو اس نے ایسی ناجائز دعا کرنے سے انکار کردیا لیکن جب ان لوگوں نے اسے بہت سے مال و دولت کا لالچ دیا تو تھوڑی سی پس و پیش کے بعد وہ اس ناجائز کام پر آمادہ ہوگیا اس طرح اسے دنیوی فائدہ تو حاصل ہوگیا لیکن جس مقام بلند پر وہ جا رہا تھا اور آگے جانے کا اردہ رکھتا تھا اس سے گرگیا ۔ ایک دفعہ جب اس پر شیطان کا داؤ چل گیا تو آگے شیطان کا کام نسبتاً آسان تھا۔ چناچہ تھوڑے ہی عرصہ بعد وہ محض دنیوی مفادات کی خاطر اللہ کا پورا نافرمان بن گیا اور اپنے ارفع مقام سے گرتا گرتا زمین کی انتہائی پستی تک پہنچ گیا اس شخص یا اس جیسے شخص کی مثال اللہ تعالیٰ نے اس کتے سے دی ہے جس کی حرص اور لالچ کا عالم یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اس کی طرف پتھر پھینکے تو بھی یہی سمجھتا ہے کہ شاید اس نے کوئی ہڈی یا روٹی کا ٹکڑا پھینکا ہوگا۔ پھر وہ اسے نوچتا اور ایک بار ضرور منہ میں لیتا ہے اس کی زبان ہر وقت باہر نکلی اور رال ٹپکتی رہتی ہے اور ہر چیز کو اس لیے سونگھنے کی کوشش کرتا ہے کہ شاید کہیں سے کھانے کی بو پا سکے اس کی حرص و آز کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اگر اسے کھانے کے لیے کہیں سے مردار پڑا مل جائے اور وہ اس کی ضرورت سے بہت زیادہ ہو تو بھی اس کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ کوئی دوسرا کتا اس کے ساتھ اس مردار کے کھانے میں شریک نہ ہو اور یہ مثال ان دنیا کے کتوں پر راس آتی ہے جو اپنی خواہش اور دنیوی مفادات کی خاطر اپنی اچھی سے اچھی قدروں کو قربان کردینے پر تیار ہوجاتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ الَّذِيْٓ ۔۔ : ” سَلَخَ (ن، ف ) “ ” کھال اتارنا۔ “ ” مَسْلُوْخٌ“ وہ بکری جس کی کھال اتار لی گئی۔ ” اِنْسَلَخَ الْحَیَّۃُ “ ” سانپ اپنی کینچلی سے نکل گیا۔ “ (قاموس) ان الفاظ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کا قصہ یہاں عبرت کے لیے بیان کیا جا رہا ہے وہ ضرور کوئی خاص شخص ہے، لیکن قرآن اور صحیح حدیث میں نہ تو اس کے نام کی تصریح ہے اور نہ ہی زمانے کا ذکر ہے۔ صاحب المنار فرماتے ہیں کہ یہ ایک مثال ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتاری جانے والی آیات کو جھٹلانے والوں کی بیان فرمائی۔ یہ اس شخص کی مثال ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات کا علم عطا فرمایا، وہ ان کا عالم، ان کے قواعد کا حافظ اور اس کے احکام کو بیان کرنے اور بحث کرکے ثابت کرنے کے لائق ہوگیا مگر شیطان نے اسے اپنے پیچھے ایسا لگایا کہ وہ اس علم پر عامل نہ ہوا، بلکہ اس کا عمل اپنے علم کے سراسر مخالف رہا تو پھر اس سے ان آیات کا علم بھی چھن گیا، کیونکہ جس علم پر عمل نہ ہو وہ تھوڑی مدت ہی میں ختم ہوجاتا ہے۔ تو یہ شخص اس سانپ کی طرح ہوگیا جو اپنی کینچلی سے نکل جاتا ہے اور اسے اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے، یا اپنے علم و عمل میں مخالفت کی وجہ سے اس شخص کی طرح ہوگیا جو اپنے علم سے نکل جاتا ہے اور اسے چھوڑ دیتا ہے، جیسے کوئی شخص اپنے پرانے کپڑے اتار دیتا ہے اور سانپ اپنی کینچلی سے نکل جاتا ہے کہ ان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں رہتا۔ مثال کا خلاصہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی اپنے رسول پر نازل کردہ آیات کو جھٹلانے والے لوگ اس عالم کی طرح ہیں جو اپنے علم کے پھل سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہوگیا ہو، کیونکہ دونوں ہی نے دلائل و آیات میں اخلاص کے ساتھ عبرت حاصل کرنے کے لیے غور نہیں کیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The above verses have described the story of a religious leader of the Israelites who had a great following for his piety and knowledge but suddenly went astray and became among the rejected. This event contains a number of lessons and points of exhortation, and has a link with the preceding verses. The foregoing verses spoke of the covenant made by Allah with the children of Adam in general, and with certain people in varied circumstances. The above verses also made a mention of those people who did not fulfill their pledge with Allah. For example, the Israelites who were awaiting the arrival of a prophet and used to describe his attributes to others, but after the Holy Prophet made his appearance, they rejected him just for worldly considerations. The story of Bal&am bin Ba&ura The present verses have related the story of a saintly person among the Israelites. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has been asked to relate this story to his people to show how a devoted scholar and great spiritual leader was deprived of all the knowledge, wisdom, popularity and fame only by following the mundane desires. We do not find any personal identification or name of this person mentioned in the Holy Qur&an. There are, however, many Traditions reported by the exegetes of the Holy Qur&an and the Companions and their disciples, giving a variety of information about him. The most authentic and trusted by the majority of scholars is the Tradition reported by Ibn Marduwaih on the authority of the Companion ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) which is as follows: The name of this man was Bal&am bin Ba&ura. He belonged to Syria living in Canaan near Jerusalem. According to a report he was an Israelite by birth. He had knowledge of certain books revealed by Allah. The Qur&anic phrase اَلَذِی آتَینٰہُ آیٰتنا . |"The one whom We gave Our verses|" refers to the same knowledge. This event belongs to the period after the death of pharaoh and his people and the victory of the Israelites over Egypt. Allah commanded The Prophet Musa (علیہ السلام) and his people to fight war against a people called جَبَّارِین Jabbarin. The Jabbarin who had seen the fate of Pharaoh and his people were greatly frightened when they saw the army of the Prophet Musa علیہ السلام approaching them. They came to Bal&am and said that the Prophet Musa (علیہ السلام) was a strong man and that he had come with great army in order to expel them from their land. He should therefore pray Allah that He may turn them back without fighting war against them. Bal&am bin Ba` ura was known to be having the knowledge of |" اِسمِ اَعظَم & (the most gracious name of Allah). He used to pray with the help of this name and his prayers were generally granted. Bal&am said to them that Musa, being the prophet of Allah, had the support of Allah&s angels and he could not pray against him. He said that he knew the rank that Musa (علیہ السلام) held with Allah, and that by praying against him he will ruin himself both in this world and in the world to come. Being insisted by the people Bal&am promised that he will first seek the consent of Allah for such a prayer, and in case Allah permitted him to pray against Musa he shall do so accordingly. He performed some act to seek Allah&s consent and in a dream was prohibited by Allah from making such prayer. He came to the people and informed them of this prohibition. The Jabbarin presented him a gift of considerable value which he accepted. Subsequent to this gift their insistence increased. Some reports said that his wife advised him to accept the gift, and pray for them. Being blinded by the love of wealth and wife, he started praying against the Prophet Musa (علیہ السلام) and his people. An unusual thing happened at this occasion. By the will of Allah the words he wanted to utter against the Prophet Musa علیہ السلام in his invocation, were uttered against the people of Jabbarin themselves. They cried out and admonished him that he was invoking against themselves. Bal&am said that he was unable to utter a word against Musa (علیہ السلام) and that he had no control over his utterances. Consequently the Jabbarin met the fate of disaster from the heavenly punishment, and the punishment of Bal&am was that his tongue protruded from under his mouth so much so that it dangled on his chest. Bal&am having ruined his life both in this world and in the world to come and being deprived of all spiritual powers he had, made a suggestion to the people of Jabbarin saying, |"There is only one way you can overcome the Israelites. Decorate your beautiful girls and send them to the Israelites giving them instructions that they should not put on any resistance against whatever is done by the Israelites. Being away from their homes they are likely to involve themselves in adultery. Being the most detestable act to Allah, adultery has to incur the wrath of Allah. An adulterous people can never win over their enemy.|" This satanic suggestion was accepted by the people and they acted accordingly. A prominent person of the Israelites fell prey to this trap. The Prophet Musa (علیہ السلام) made all his effort to stop him from this act but he involved himself in this wicked act. Consequently plague overtook them as a punishment, with a death toll of seventy thousand people in one day. The person who had committed the sin was murdered along with the girl and was hung by the Israelites at a public place. Then they turned to Allah in repen¬tance and asked His forgiveness, which relieved them of this disgraceful punishment. The Holy Qur&an used the expression of &wriggling out& for Bal&am&s disregard to the knowledge and wisdom Allah had given to him through His verses. The Arabic expression فَانسَلَخَ مِنْهَا |"He wriggled out from the verses of Allah|" signifies coming out of an animal from its skin like a snake which leaves its old skin behind having no concern with it. This indicates that Bal&am had totally disregarded the knowl¬edge and wisdom he was granted by Allah. The text phrase: فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ |"So, Satan overtook him|" implies that as long as he possessed the knowledge of the verses of Allah, Satan was unable to possess him. As soon as Bal&am was deprived of this great gift of Allah, he overtook him and led him astray. Consequently he became one of the misguided people فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ |"And he became one of the misled.

خلاصہ تفسیر اور ان لوگوں کو ( عبرت کے واسطے) اس شخص کا حال پڑھ کر سنایئے کہ اس کو ہم نے اپنی آیتیں دیں ( یعنی احکام کا علم دیا) پھر وہ ان ( آیتوں) سے بالکل ہی نکل گیا پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا، سو وہ گمراہ لوگوں میں داخل ہوگیا اور اگر ہم چاہتے تو اس کو ان آیتوں ( کے مقتضا پر عمل کرنے) کی بدولت بلند مرتبہ کردیتے ( یعنی اگر وہ ان آیتوں پر عمل کرتا جس کا وابستہ قضاء و قدر ہونا امر معلوم ہے تو اس کا رتبہ قبول بڑھتا) لیکن وہ تو دنیا کی طرف مائل ہوگیا اور ( اس میلان کے سبب) اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرنے لگا ( اور آیات و احکام پر عمل چھوڑ دیا) سو ( آیات کو چھوڑ کر جو پریشانی اور ذلت دائمی اس کو نصیب ہوئی اس کے اعتبار سے) اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی کہ اگر تو اس پر حملہ کرے ( اور مار کر نکال دے) تب بھی ہانپے یا اس کو ( اس کی حالت) پر چھوڑ دے تب بھی ہانپے ( کسی حالت میں اس کو راحت نہیں، اسی طرح یہ شخص ذلت میں تو کتے کے مشابہ ہوگیا اور پریشانی میں کتے کی اس صفت میں شریک ہوا پس جیسی اس شخص کی حالت ہوئی) یہی حالت ( عام طور پر) ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو ( جو کہ توحید و رسالت پر دال ہیں) جھٹلایا ( کہ وضوح حق کے بعد محض ہوٰی پرستی کے سبب حق کو ترک کرتے ہیں) سو آپ اس حال کو بیان کردیجئے شاید وہ لوگ (اس کو سن کر) کچھ سوچیں، ( حقیقت میں) ان لوگوں کی حالت بھی بری حالت ہے جو ہماری آیات (دالہ علی التوحید والرسالة) کو جھٹلاتے ہیں اور ( اس تکذیب سے) وہ اپنا ( ہی) نقصان کرتے ہیں۔ معارف ومسائل مذکورہ آیات میں بنی اسرائیل کا ایک عبرت ناک قصہ مذکور ہے جس میں بنی اسرائیل کے ایک بڑے عالم اور مشہور مقتدا کا علم و معرفت کے اعلی معیار پر ہونے کے بعد دفعة گمراہ و مردود ہوجانے کا واقعہ مع اس کے اسباب کے بیان کیا گیا ہے اور اس میں بہت سی عبرتیں ہیں۔ اور مناسبت اس واقعہ کی پچھلی آیتوں سے یہ ہے کہ ان میں عہد و میثاق کا ذکر تھا جو ازل میں حق تعالیٰ نے تمام بنی آدم سے اور پھر خاص خاص حالات میں خاص خاص اقوام یہود و نصاری وغیرہ سے لئے تھے، اور مذکورہ آیات میں اس کا بھی ذکر آیا تھا کہ عہد کرنے والوں میں بہت سے لوگ اس عہد پر قائم نہیں رہے، جیسے یہود کہ حضرت خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس دنیا میں تشریف لانے سے پہلے آپ کے آنے کا انتظار کرتے اور آپ کی صفات و شمائل لوگوں سے بیان کیا کرتے اور ان کی تصدیق کیا کرتے تھے، مگر جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے تو دنیا کی ذلیل اغراض کی خاطر آپ پر ایمان لانے اور آپ کا اتباع کرنے سے باز رہے۔ بنی اسرائیل کے ایک عالم مقتدا کی گمرای کا عبرتناک واقعہ : ان آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوتا ہے کہ آپ اپنی قوم کے سامنے یہ واقعہ پڑھ کر سنائیے جس میں بنی اسرائیل کے ایک بڑے عالم و عارف اور مشہور پیشوا کا ایسا ہی حال عروج کے بعد تنزل اور ہدایت کے بعد گمراہی کا مذکور ہے کہ وسیع علم اور پوری معرفت حاصل ہونے کے باوجود، جب نفسانی اغراض اس پر غالب آئیں تو یہ سب علم و معرفت اور مقبولیت ختم ہو کر گمراہ اور ذلیل و خوار ہوگیا۔ قرآن کریم میں اس شخص کا نام اور کوئی تشخص مذکور نہیں، ائمہ تفسیر صحابہ وتابعین سے اس کے بارے مختلف روایتیں مذکور ہیں، جن میں زیادہ مشہور اور جمہور کے نزدیک قابل اعتماد روایت وہ ہے جو حضرت ابن مردویہ نے حضرت عبداللہ بن عباس سے نقل کی ہے کہ اس شخص کا نام بلعم بن باعوراء ہے یہ ملک شام میں بیت المقدس کے قریب کنعان کا رہنے والا تھا، اور ایک روایت میں ہے کہ بنی اسرائیل میں سے تھا، اللہ تعالیٰ کی بعض کتابوں کا علم اس کو حاصل تھا، قرآن کریم میں جو اس کی صفت میں (آیت) الَّذِيْٓ اٰتَيْنٰهُ اٰيٰتِنَا فرمایا ہے اس سے اسی علم کی طرف اشارہ ہے۔ جب غرق فرعون اور فتح مصر کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کو قوم جبارین سے جہاد کرنے کا حکم ملا اور جبارین نے دیکھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) تمام بنی اسرائیل کا لشکر لے کر پہنچ گئے اور ان کے مقابل قوم فرعون کا غرق و غارت ہونا ان کو پہلے سے معلوم ہوچکا تھا تو ان کو فکر ہوئی اور جمع ہو کر بلعم بن با عوراء کے پاس آئے اور کہا کہ موسیٰ (علیہ السلام) سخت آدمی ہیں اور ان کے ساتھ بہت سے لشکر ہیں اور وہ اس لئے آئے ہیں کہ ہم کو ہمارے ملک سے نکال دیں، آپ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ ان کو ہمارے مقابلہ سے واپس کردیں، وجہ یہ تھی کہ بلعم بن باعوراء کو اسم اعظم معلوم تھا وہ اس کے ذریعہ جو دعا کرتا تھا قبول ہوتی تھی۔ بلعم نے کہا افسوس ہے تم کیسی بات کہتے ہو، وہ اللہ کے نبی ہیں ان کے ساتھ اللہ کے فرشتے ہیں میں ان کے خلاف بددعا کیسے کرسکتا ہوں حالانکہ ان کا مقام جو اللہ کے نزدیک ہے وہ بھی میں جانتا ہوں اگر میں ایسا کروں گا تو میرا دین دنیا دونوں تباہ ہوجائیں گے۔ ان لوگوں نے بےحد اصرار کیا تو اس پر بلعم نے کہا کہ اچھا میں اپنے رب سے اس معاملہ میں معلوم کرلوں کہ ایسی دعا کرنے کی اجازت ہے یا نہیں، اس نے اپنے معمول کے مطابق معلوم کرنے کے لئے استخارہ یا کوئی عمل کیا، خواب میں اس کو بتلایا گیا کہ ہرگز ایسا نہ کرے، اس نے قوم کو بتلا دیا کہ مجھے بددعا کرنے سے منع کردیا گیا ہے، اس وقت قوم جبارین نے بلعم کو کوئی بڑا ہدیہ پیش کیا جو درحقیقت رشوت تھی، اس نے ہدیہ قبول کرلیا تو پھر اس قوم کے لوگ اس کے پیچھے پڑگئے کہ آپ ضرور یہ کام کردو اور الحاح و اصرار کی حد نہ رہی، بعض روایات میں ہے کہ اس کی بیوی نے مشورہ دیا کہ یہ رشوت قبول کرلیں اور ان کا کام کردیں، اس وقت بیوی کی رضا جوئی اور مال کی محبت نے اس کو اندھا کردیا تھا، اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے خلاف بددعا کرنا شروع کی۔ اس وقت قدرت الہیہ کا عجیب کرشمہ یہ ظاہر ہوا کہ وہ جو کلمات بددعا کے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے لئے کہنا چاہتا تھا اس کی زبان سے وہ الفاظ بددعا خود اپنی قوم جبارین کے لئے نکلے، وہ چلا اٹھے کہ تم تو ہمارے لئے بددعا کر رہے ہو، بلعم نے جواب دیا کہ یہ میرے اختیار سے باہر ہے میری زبان اس کے خلاف پر قادر نہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس قوم پر بھی تباہی نازل ہوئی اور بلعم کو یہ سزا ملی کہ اس کی زبان اس کے سینہ پر لٹک گئی، اور اب اس نے اپنی قوم سے کہا کہ میری تو دنیا و آخرت تباہ ہوگئی اب دعا تو میری چلتی نہیں لیکن میں تمہیں ایک چال بتاتا ہوں جس کے ذریعہ تم موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم پر غالب آسکتے ہو۔ وہ یہ ہے کہ تم اپنی حسین لڑکیوں کو مزین کر کے بنی اسرائیل کے لشکر میں بھیج دو اور ان کو یہ تاکید کردو کہ بنی اسرائیل کے لوگ ان کے ساتھ جو کچھ کریں کرنے دیں، رکاوٹ نہ بنیں، یہ لوگ مسافر ہیں، اپنے گھروں سے مدت کے نکلے ہوئے ہیں، اس تدبیر سے ممکن ہے کہ یہ لوگ حرام کاری میں مبتلا ہوجائیں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک حرام کاری انتہائی مبغوض چیز ہے جس قوم میں یہ ہوا، اس پر ضرور قہر و عذاب نازل ہوتا ہے، وہ فاتح و کامران نہیں ہوسکتی۔ بلعم کی یہ شیطانی چال ان کی سمجھ میں آگئی، اس پر عمل کیا گیا، بنی اسرائیل کا ایک بڑا آدمی اس چال کا شکار ہوگیا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو اس وبال سے روکا مگر وہ باز نہ آیا، اور شیطانی جال میں مبتلا ہوگیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بنی اسرائیل میں سخت قسم کا طاعون پھیلا جس سے ایک روز میں ستر ہزار اسرئیلی مرگئے، یہاں تک کہ جس شخص نے برا کام کیا تھا اس جوڑے کو بنی اسرائیل نے قتل کرکے منظر عام پر ٹانگ دیا کہ سب لوگوں کو عبرت حاصل ہو اور توبہ کی، اس وقت یہ طاعون رفع ہوا۔ قرآن مجید کی مذکور الصدر آیات میں اس کے متعلق فرمایا (آیت) فَانْسَلَخَ مِنْهَا یعنی ہم نے اپنی آیات اور ان کا علم و معرفت اس شخص کو عطا کیا تھا لیکن وہ اس سے نکل گیا، انسلاخ کا لفظ اصل میں جانور کے کھال کے اندر سے یا سانپ کا کیچلی کے اندر سے نکل جانے کے لئے بولا جاتا ہے اس جگہ علم آیات کو ایک لباس یا کھال کے ساتھ تشبیہ دے کر یہ بتلایا گیا کہ یہ شخص علم و معرفت سے بالکل جدا ہوگیا، (آیت) فَاَتْبَعَهُ الشَّيْطٰنُ یعنی پیچھے لگ گیا اس کے شیطان، مطلب یہ ہے کہ جب تک علم آیات اور ذکر اللہ اس کے ساتھ تھا، شیطان کا قابو اس پر نہ چل سکتا تھا جب وہ جاتا رہا تو شیطان اس پر قابو یافتہ ہوگیا (آیت) فَكَانَ مِنَ الْغٰوِيْنَ ، یعنی پھر ہوگیا وہ گمراہوں میں سے، مطلب یہ ہے کہ شیطان کے قابو میں آنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ گمراہوں میں شامل ہوگیا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاتْلُ عَلَيْہِمْ نَبَاَ الَّذِيْٓ اٰتَيْنٰہُ اٰيٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْہَا فَاَتْبَعَہُ الشَّيْطٰنُ فَكَانَ مِنَ الْغٰوِيْنَ۝ ١٧٥ تلاوة تختص باتباع کتب اللہ المنزلة، تارة بالقراءة، وتارة بالارتسام لما فيها من أمر ونهي، وترغیب وترهيب . أو ما يتوهم فيه ذلك، وهو أخصّ من القراءة، فکل تلاوة قراءة، ولیس کل قراءة تلاوة، لا يقال : تلوت رقعتک، وإنما يقال في القرآن في شيء إذا قرأته وجب عليك اتباعه . هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت[يونس/ 30] ، وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال/ 31] التلاوۃ ۔ بالخصوص خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتابوں کے اتباع تلاوۃ کہا جاتا ہے کبھی یہ اتباع ان کی قراءت پڑھنے ) کی صورت میں ہوتی ہے اور کبھی ان کے ادا مرد نواحی ( احکام ) ترغیب وترہیب اور جو کچھ ان سے سمجھا جا سکتا ہے ان کی اتباع کی صورت ہیں ، مگر یہ لفظ قرآت ( پڑھنے ) سے خاص ہے یعنی تلاوۃ کے اندر قراۃ کا مفہوم تو پایا جاتا ہے مگر تلاوۃ کا مفہوم قراء ۃ کے اندر نہیں آتا چناچہ کسی کا خط پڑھنے کے لئے تلوت رقعتک نہیں بالتے بلکہ یہ صرف قرآن پاک سے کچھ پڑھنے پر بولا جاتا ہے کیونکہ اس کے پڑھنے سے اس پر عمل کرنا واجب ہوجاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ هنالک تتلوا کلّ نفس ما أسلفت «3» [يونس/ 30] وہاں ہر شخص اپنے ( اپنے ) اعمال کی ) جو اس نے آگے بھجیے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت تتلوا بھی ہے یعنی وہاں ہر شخص اپنے عمل نامے کو پڑھ کر اس کے پیچھے چلے گا ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا [ الأنفال/ 31] اورا ن کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے سلخ السَّلْخُ : نزع جلد الحیوان، يقال : سَلَخْتُهُ فَانْسَلَخَ ، وعنه استعیر : سَلَخْتُ درعه : نزعتها، وسَلَخَ الشهر وانْسَلَخَ ، قال تعالی: فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ [ التوبة/ 5] ، وقال تعالی: نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهارَ [يس/ 37] ، أي : ننزع، وأسود سَالِخٌ ، سلخ جلده، أي : نزعه، ونخلة مِسْلَاخٌ: ينتثر بسرها الأخضر . ( س ل خ ) السلخ اس کے اصل معنی کھال کھینچنے کے ہیں ۔ جیسے محاورہ ہے ۔ سلختہ فانسلخ میں نے اس کی کھال کھینچی تو وہ کھچ گئی پھر اسی سے استعارہ کے طور پر زرہ اتارنے اور مہینہ کے گزر جاں ے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے سلخت درعہ میں نے اس کی زرہ اتار لی ۔ سلخ الشھر و انسلخ مہینہ گزر گیا ۔ قرآن میں ہے ۔ فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ [ التوبة/ 5] جب غربت کے مہینے گزر جائیں ۔ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهارَ [يس/ 37] کہ اس میں سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں ۔ شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو غوی الغَيُّ : جهل من اعتقاد فاسد، وذلک أنّ الجهل قد يكون من کون الإنسان غير معتقد اعتقادا لا صالحا ولا فاسدا، وقد يكون من اعتقاد شيء فاسد، وهذا النّحو الثاني يقال له غَيٌّ. قال تعالی: ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم/ 2] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِّ [ الأعراف/ 102] . وقوله : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ مریم/ 59] ، أي : عذابا، فسمّاه الغيّ لمّا کان الغيّ هو سببه، وذلک کتسمية الشیء بما هو سببه، کقولهم للنّبات ندی «1» . وقیل معناه : فسوف يلقون أثر الغيّ وثمرته . قال : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] ، وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء/ 224] ، إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ [ القصص/ 18] ، وقوله : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى[ طه/ 121] ، أي : جهل، وقیل : معناه خاب نحو قول الشاعر : ومن يغو لا يعدم علی الغيّ لائما وقیل : معنی ( غَوَى) فسد عيشُه . من قولهم : غَوِيَ الفصیلُ ، وغَوَى. نحو : هوي وهوى، وقوله : إِنْ كانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ [هود/ 34] ، فقد قيل : معناه أن يعاقبکم علی غيّكم، وقیل : معناه يحكم عليكم بغيّكم . وقوله تعالی: قالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنا هؤُلاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنا أَغْوَيْناهُمْ كَما غَوَيْنا تَبَرَّأْنا إِلَيْكَ [ القصص/ 63] ، إعلاما منهم أنّا قد فعلنا بهم غاية ما کان في وسع الإنسان أن يفعل بصدیقه، فإنّ حقّ الإنسان أن يريد بصدیقه ما يريد بنفسه، فيقول : قد أفدناهم ما کان لنا وجعلناهم أسوة أنفسنا، وعلی هذا قوله تعالی: فَأَغْوَيْناكُمْ إِنَّا كُنَّا غاوِينَ [ الصافات/ 32] ، فَبِما أَغْوَيْتَنِي [ الأعراف/ 16] ، وقال : رَبِّ بِما أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ [ الحجر/ 39] . ( غ و ی ) الغی ۔ اس جہالت کو کہتے ہیں جو غلطاعتقاد پر مبنی ہو ۔ کیونک جہالت کبھی تو کسی عقیدہ پر مبنی ہوتی ہے اور کبھی عقیدہ کو اس میں داخل نہیں ہوتا پہلی قسم کی جہالت کا نام غی ) گمراہی ہے قرآن پاک میں ہے : ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم/ 2] کہ تمہارے رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) نہ رستہ بھولے ہیں اور نہ بھٹکے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِّ [ الأعراف/ 102] اور ان ( کفار ) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ مریم/ 59] سو عنقریب ان کو گمراہی ( کی سزا ) ملے گی ۔ میں غی سے عذاب مراد ہے اور عذاب کو غی اس لئے کہاجاتا ہے کہ گمراہی عذاب کا سبب بنتی ہے لہذا عذاب کو غی کہنا مجازی ہے یعنی کسی شے کو اس کے سبب نام سے موسوم کردینا جیسا کہ نبات کو ندی ( طرادت ) کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے آیت کے یہ معنی کہتے ہیں کہ یہ لوگ عنقریب ہی اپنی گمراہی کا نتیجہ اور ثمرہ پالیں گے مگر مآل کے لحاظ سے دونوں معنی ایک ہی ہیں ۔ غاو بھٹک جانے والا گمراہ جمع غادون وغاوین جیسے فرمایا : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء/ 91] اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی ۔ وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء/ 224] اور شاعروں کی پیروی گمرا ہلوگ کیا کرتے ہیں ۔ ( الغوی ۔ گمراہ غلط رو ۔ جیسے فرمایا :إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ [ القصص/ 18] کہ تو تو صریح گمراہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى[ طه/ 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا ( تو وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ میں غویٰ کے معنی یہ ہیں ک آدم نے جہالت کا ارتکاب کیا اور بعض نے اس کے معنی خاب کئ ہیں یعنی انہوں نے سراسر نقصان اٹھایا ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (334) ومن یغولا بعدم علی الغی لائما اور اگر ناکام ہوجائے تو ناکامی پر بھی ملامت کرنے والون کی کمی نہیں ہے ؛بعض نے غوی کے معنی ففدعیشہ کئے ہیں یعنی اس کی زندگی تباہ ہوگئی اور یہ غوی الفصیل وغویٰ جیسے ھویٰ وھوی ٰ ۔ سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں اونٹ کے بچے نے بہت زیادہ دودھ پی لیا جس سے اسے بدہضمی ہوگئی اور آیت کریمہ : إِنْ كانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ [هود/ 34] اور اگر خدا یہ چاہے کہ تمہیں گمراہ کرے ۔ میں یغویکم سے مراد گمراہی کی سزا دینے کے ہیں اور بعض نے اس کے معنی گمراہی کا حکم لگانا بھی کئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : قالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنا هؤُلاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنا أَغْوَيْناهُمْ كَما غَوَيْنا تَبَرَّأْنا إِلَيْكَ [ القصص/ 63]( تو جن لوگوں پر ) عذاب کا حکم ثابت ہوچکا ہوگا وہ کہیں گے کہ ہمارے پروردگار ی وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہی کیا تھا اور جس طرح ہم خود گمراہ تھے اسی سطرح انہیں گمراہ کیا تھا ۔ میں بتایا گیا ہے کہ کفار قیامت کے دن اعلان کریں گے کہ ہم ان کے ساتھ انتہائی مخلصانہ سلوک کیا تھا جو کہ ایک انسان اپنے دوست سے کرسکتا ہے کیونکہ انسان کا سب سے بڑا فرض ی ہے کہ وہ اپنے دوست کے لئے بھی وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے تو وہ کہیں گے کہ ہم انہیں اپنی طرف سے فائدہ پہنچایا اور انہیں اپنے جیسا سمجھا تھا اور یہی معنی آیت ؛ فَأَغْوَيْناكُمْ إِنَّا كُنَّا غاوِينَ [ الصافات/ 32] ہم نے تم کو بھی گمراہ کیا ( اور ) ہم نے خود بھی گمراہ تھے ۔ کے ہیں ۔ فَبِما أَغْوَيْتَنِي [ الأعراف/ 16] جیسا کہ تم نے مجھے رستے سے الگ کیا ہے میں بھی زمین میں لوگوں کے لئے ( گناہوں کو ) آراستہ کر دکھاؤں گا اور ان ۔ کو بہکاؤں گا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧٥) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کو اس شخص کا حال سنایئے جسے ہم نے اسم اعظم دیا اور پھر وہ اس سے بالکل نکل گیا اور گمراہ لوگوں میں داخل ہوگیا۔ ہو بلعم باعوراء ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسم اعظم کی بدولت اسے ہدایت دی تھی اس نے اس کے ذریعے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف بددعا کی تھی، اللہ تعالیٰ نے اس سے اس کا علم چھین لیا اور یہ تفسیر بھی کی گئی ہے کہ یہ شخص امیہ ابن ابی الصلت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے علم اور کلام کے حسن کے ساتھ عزت دی تھی مگر جب یہ ایمان نہ لایا تو اللہ تعالیٰ نے یہ دولت اس سے چھین لی، شیطان نے اس کو دھوکا دیا تو یہ گمراہ کافروں میں سے ہوگیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧٥ (وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَاَ الَّذِیْٓ اٰتَیْنٰہُ اٰیٰتِنَا) یہاں پر اس واقعے کے لیے لفظ نبأ استعمال ہوا ہے جس کے لغوی معنی خبر کے ہیں۔ اس سے وا ضح ہوتا ہے کہ یہ کوئی تمثیل نہیں بلکہ حقیقی واقعہ ہے۔ دوسرے جو یہ فرمایا گیا کہ اس شخص کو ہم نے اپنی آیات عطا کی تھیں ‘ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ شخصصاحب کرامت بزرگ تھا۔ اس واقعے کی تفصیل ہمیں تورات میں بھی ملتی ہے جس کے مطابق یہ شخص بنی اسرائیل میں سے تھا۔ اس کا نام بلعم بن باعور اء تھا اور یہ ایک بہت بڑا عابد ‘ زاہد اور عالم تھا۔ (فَانْسَلَخَ مِنْہَا فَاَتْبَعَہُ الشَّیْطٰنُ ) یہاں پر یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ پہلے انسان خود غلطی کرتا ہے ‘ شیطان اسے کسی برائی پر مجبور نہیں کرسکتا ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق (اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطٰنٌ الاَّ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغٰوِیْنَ ) (الحجر) شیطان کو کسی بندے پر کوئی اختیار حاصل نہیں ‘ لیکن جب بندہ اللہ کی نافرمانی کی طرف لپکتا ہے اور برائی کر بیٹھتا ہے تو وہ شیطان کا آسان شکار بن جاتا ہے۔ شیطان ایسے شخص کے پیچھے لگ جاتا ہے اور اگر وہ توبہ کر کے رجوع نہ کرے تو اسے تدریجاً دُور سے دور لے جاتا ہے یہاں تک کہ اسے برائی کی آخری منزل تک پہنچا کر دم لیتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

138. The words of the text seem to indicate that the person mentioned must indeed be a specific rather than an imaginary figure mentioned for the sake of parable. It may, be borne in mind that God and His Messenger (peace be on him) usually mention evil without specific references to any individual. This is obviously in keeping with their dignity. Only examples of evil are mentioned since those examples are meant for didactic purposes, and this is done without smearing anyone's reputation. Some commentators on the Qur'an, however, have applied the statement made here to some persons who lived in the time of the Prophet (peace be on him) as well as before him. Some of them mention the name of Bal'am b. Ba'ura', others that of Umayyah b. Abi al-Salt, and still others that of Sayfi b. al-Rahib. (See the comments of Qurtubi on verses 175 and 176 - Ed.) Nonetheless, in the absence of any authentic information about the identity of the persons under discussion, we might as well consider the description made here to fit a certain type of person.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :138 ان الفاظ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ضرور کوئی متعین شخص ہوگا جس کی طرف اشارہ فرما یا گیا ہے لیکن اللہ اور اس کے رسول کی یہ انتہائی اخلاقی بلندی ہے کہ وہ جب کبھی کسی کی برائی کو مثال میں پیش کرتے ہیں تو بالعموم اس کے نام کی تصریح نہیں کرتے بلکہ اس کی شخصیت پر پردہ ڈال کر صرف اس کی بری مثال کا ذکر کردیتے ہیں تا کہ اس کی رسوائی کیے بغیر اصل مقصد حاصل ہو جائے ۔ اسی لیے نہ قرآن میں بتایا گیا ہے اور نہ کسی صحیح حدیث میں کہ وہ شخص جس کی مثال یہاں پیش کی گئی ہے ، کون تھا ۔ مفسرین نے عہد رسالت اور اس سے پہلے کی تاریخ کے مختلف اشخاص پر اس مثال کو چسپاں کیا ہے ۔ کوئی بلعم بن باعوراء کا نام لیتا ہے ، کوئی اُمیّہ بن ابی الصَّلت کا ، اور کوئی صَیفی ابن الراہب کا ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خاص شخص تو پردہ میں ہے جو اس تمثیل میں پیش نظر تھا ، البتہ یہ تمثیل ہر اس شخص پر چسپاں ہوتی ہے جس میں یہ صفت پائی جاتی ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

89: عام طور سے مفسرین نے اس آیت کے بارے میں یہ کہا ہے کہ اس میں بلعام بن باعور کی طرف اشار ہے۔ فلسطین کے علاقے مو آب میں یہ ایک عابد و زاہد شخص تھا، اور اس کے بارے میں یہ بات مشہور تھا کہ اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اس وقت اس علاقے پر بت پرست قوموں کا قبضہ تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے غرق ہونے کے بعد بنی اسرائیل کا لشکر لے کر اس علاقے پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فوجیں مو آب کے دروازے تک پہنچ گئیں تو وہاں کے بادشاہ نے بلعام سے کہا کہ وہ ان کے خلاف بد دعا کرے تاکہ وہ ہلاک ہوجائیں، بلعام نے شروع میں انکار کیا، مگر بادشاہ نے اسے رشوت دی تو وہ بد دعا پر راضی ہوگیا۔ مگر جب دعا کرنی شروع کی تو الفاظ بد دعا کے بجائے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حق میں دعا کے نکلے۔ بعد میں بلعام نے بادشاہ کے لوگوں کو یہ مشورہ دیا کہ وہ اپنی عورتوں کو بنی اسرائیل کے خیموں میں بھیج دیں، تاکہ وہ بدکاری میں مبتلا ہوجائیں، بدکاری کی یہ خاصیت ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے قہر کا سبب بنتی ہے۔ اس لئے بنی اسرائیل اپنی بدکاری کی وجہ سے اللہ کی مدد سے محروم ہوجائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ بنی اسرائیل اس فتنے میں مبتلا ہوگئے جس کی وجہ سے ان میں عذاب کے طور پر طاعون کی وبا پھوٹ پڑی۔ یہ قصہ بائبل میں بھی تفصیل کے ساتھ مذکور ہے (دیکھئے، گنتی، باب 22 تا 25، اور 16:31) قرآنِ کریم نے یہاں اس شخص کا نام نہیں لیا جس کی طرف ان آیات میں اشارہ ہے اور نہ یہ بیان فرمایا ہے، کہ اس شخص نے اﷲ تعالیٰ کے احکام کو چھوڑ کر کس طرح اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کی۔ اور جو قصہ اوپر بیان کیا گیا ہے، وہ بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے۔ اس لئے یقین کے ساتھ یہ کہنا مشکل ہے کہ ان آیات میں وہی مراد ہے۔ تاہم قرآنِ کریم کا اصل مقصد اس شخص کی تعیین پر موقوف نہیں ہے۔ سبق یہ دینا مقصود ہے کہ جس شخص کو اﷲ تعالیٰ نے علم اور عبادت کے شرف سے نوازا ہو، اس کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ احتیاط اور تقویٰ سے کام لینا چاہئے۔ اگر ایسا شخص اﷲ تعالیٰ کی آیات کی خلاف ورزی کر کے ناجائز خواہشات کے پیچھے چل پڑے، تو اس کا انجام دُنیا اور آخرت دونوں میں بُرا ہوتا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٧٥۔ اس آیت میں اللہ پاک نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرمایا کہ تم یہود کو اس شخص کے حال کی اطلاع دیدو جس کو اللہ نے اپنی نشانیاں دی تھیں اور وہ نشانیاں اس کے کفر کی وجہ سے اس طرح اس سے نکل گئیں جیسے سانپ اپنی کینچلی سے نکل جاتا ہے یہ شخص ملبعم باعورا تھا بنی اسرائیل کے منتخب علماء میں اس کا شمار کیا جاتا تھا اور بعضوں نے کہا ہے کہ کنعانیوں میں سے یہ شخص تھا لوگوں نے اس سے کہا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر بد دعا کرو اس نے جو بددعا کی تو اس کی زبان منہ سے باہر نکل آئی اور سینے تک لٹگ گئی یہ شخص خدا کا مقرب تھا مگر دنیا کے لالچ سے شیطان کا تابع ہوگیا اور خدا کی معصیت کرتے کرتے گمراہ ہوگیا اس کا مفصل قصہ جو حضرت ابن عباس (رض) وغیرہ نے بیان فرمایا ہے وہ یوں ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) قوم جبارین کی جنگ کے ارادہ سے سر زمین کنعان میں جو ملک شام میں واقع ہے پہنچے تو بلعم باعورا کی قوم اس کے پاس آئی بلعم باعورا اسم اعظم جانتا تھا لوگوں نے اس سے کہا کہ تم دیکھتے ہو کہ موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے ملک پر چڑھ آئے ہیں اور یہ بڑے سخت وقوی آدمی ہیں ان کے ساتھ لشکر بھی بیشمار ہے یہ لوگ ہمیں قتل کر ڈالیں گے اور ملک سے نکال ڈالیں گے اور بنی اسرائیل ہماری جگہ حکومت کرنے لگیں گے۔ تمہیں خدا نے وہ علم عطا کیا ہے کہ جس کے سبب سے تمہاری دعا کبھی ٹلتی نہیں ہے تم خدا سے دعا کرو کہ یہ لوگ الٹے چلے جاویں بلعم باعورا نے کہا کہ یہ سخت مشکل ہے وہ خدا کے رسول ہیں ان کے ساتھ مومنین کے علاوہ فرشتے بھی ہوں گے میں خدا کی جتنی باتیں جانتا ہوں تم نہیں جانتے اگر میں دعا کروں گا تو میری دنیا و آخرت خراب ہوجاوے گی مگر قوم نے اپنا اصرار نہ چھوڑا پیچھے پڑگئے اور نہایت ہی عاجزی و منت کرنے لگے آخر بلعم نے کہا کہ ٹھہر جاؤ میں اس کا استخارہ کرلوں بلعم کی یہ عادت تھی کہ جب دعا کا ارادہ کرتا تھا تو خواب میں اس کا استخارہ پہلے کرلیا کرتا تھا اس مرتبہ اس کو خواب میں یہ حکم ہوا تھا کہ ہرگز موسیٰ (علیہ السلام) پر بددعا نہ کرنا اس نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا کہ میں بددعا نہیں کرسکتا مجھے خواب میں منع کردیا گیا ہے پھر لوگوں نے اس کے پاس کچھ رشوت کے طور پر تحفہ بھیجا اور دعا کو کہا اس نے پھر وہی جواب دیا کہ میں استخارہ کرلوں اس مرتبہ اس کو کچھ نہیں معلوم ہوا اس نے ان لوگوں سے بیان کیا کہ آج رات کو کوئی بات نہیں معلوم ہوئی قوم نے کہا کہ اب ضرور بددعا کرو کیونکہ یہ امر اگر خدا کو منظور نہ ہوتا تو اس مرتبہ بھی وہ منع کرنا اور بہت ہی اصرار کے ساتھ منت وعاجزی کرنے لگی۔ آخر ان کی باتوں میں آکر اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر پہاڑ کی طرف چلا جس کا نام حسبان تھا اسی کے سامنے بنی اسرائیل اترے تھے تھوڑی دور اونٹنی چل کر بیٹھ گئی اس نے اتر کر اسے مارا اور پھر سوار ہو کر چلا مگر اونٹنی چار چار پانچ پانچ قدم چل چل کر بیٹھ جاتی تھی اللہ جل شانہ نے اونٹنی کو گویائی دی وہ بولی کہ اے بلعم تو کس بات کا ارادہ کرتا ہے کیا خدا کے رسول اور مومنوں کے واسطے بددعا کرے گا میرے سامنے فرشتوں کے پرے کے پرے کھڑے ہیں میں کس طرح آگے چلوں مگر وہ اس بات کا مطلق دل میں خوف نہ لایا پھر اللہ پاک نے حجت تمام کر کے اونٹنی کو رستہ دے دیا وہ پہاڑ کی طرف اس کو لے گئی جب یہ پہاڑ پر چڑھ گیا تو دعا کرنے لگا جو بددعا بنی اسرائیل کے لئے کرنا چاہتا تھا وہ اپنی قوم کو کرنے لگا اور جو دعا اپنی قوم کے لئے کرتا تھا وہ بنی اسرائیل کے واسطے منہ سے نکلتی تھی اس کی قوم نے اس سے کہا کہ اے بلعم ہوش میں آ یہ کیا کرتا ہے ہمارے لئے بدعا کرتا ہے اور بنی اسرائیل کے واسطے دعا کر رہا ہے اس نے کہا کہ میری زبان قابو میں نہیں ہے اسی وقت اللہ تعالیٰ نے اس کی زبان منہ سے باہر نکال دی اور سینہ تک لٹکادی پھر بلعم باعورا نے کہا کہ میں نے تمہارے کہنے سے اپنی دنیا اور آخرت دونوں بگاڑ دیں اب میرے قبضہ میں کوئی بات نہیں ہے ہاں ایک حیلہ سمجھ میں آتا ہے تم اپنی عورتوں کو زیوروں سے آراستہ کر کے بنی اسرائیل کے لشکر میں بھیج دو اور عورتوں سے کہہ دو کہ بنی اسرائیل میں سے اگر کوئی مرد کسی عورت کی طرف مخاطب ہو تو وہ عورت انکار نہ کرے اگر ایک شخص نے بھی زنا کرلیا تو کام بن جائیگا غرضیکہ کنعانیوں کی عورتیں سنگار کر کے لشکر کی طرف گئیں شمعون بن یعقوب ایک شخص لشکر کا سپہ سالار تھا اسے ایک عورت بہت پسند آئی وہ اسے لے کر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس گیا اور کہا کہ میرا گمان اس عورت کی نسبت یہ ہے کہ آپ اس کو حرام سمجھیں گے موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ یہ مجھ پر بھی حرام ہے اور تجھ پر بھی حرام ہے اس نے یہ بات سنتے ہی قسم کھالی کہ میں آپ کی اطاعت نہیں کرونگا اور خیمہ میں عورت کو لے جاکر فعل بد کا مرتکب ہوا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خدا نے طاعون بھیج دیا ایک دم میں ستر ہزار آدمی اس وبا سے ہلاک ہوگئے اور بعضے مفسروں نے یہ بیان کیا ہے کہ یہ شخص جس کی شان میں یہ میت اتری ہے امیہ بن ابوصلت تھا جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں ہوا ہے اس کو اگلی پچھلی کتابوں سے واقفیت تھی پڑھا بھی کتاب تھا اسے معلوم تھا کہ ایک رسول اللہ تعالیٰ بھیجنے والا ہے یہ اپنے خیال میں یقین کئے بیٹھا تھا کہ وہ نبی میں ہونگا جب اللہ پاک نے آنحضرت کو رسول مقرر کیا تو اس نے حسد کے مارے آپ کی مخالفت شروع کی اور باوجود طرح طرح کے معجزے دیکھنے کے آپ پر ایمان نہیں لایا اگرچہ سوا اس کے بعضے مفسروں نے اس آیت کی شان نزول اور قصوں کی بھی قرار دیا ہے لیکن اس تفسیر کے مقدمہ میں یہ بات بیان ہوچکی ہے کہ علی بن ابی طلحہ کی حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت تفسیر کے باب میں بڑی معتبر روایت ہے۔ تفسیر ابن جریر میں اسی روایت سے بلعم باعورا کے قصہ کو آیت کی شان نزول قرار دیا گیا ہے اس لیے یہی شان نزول صحیح ١ ؎ ہے۔ معتبر سند سے ابن ماجہ اور طبرانی میں زیدبن ثابت (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص عقبے سے غافل ہو کر اپنی زندگی کا دارومدار دنیا کمانے پر رکھے گا اس کو دنیا تو اسی قدر ملے گی جس قدر اس کی تقدیر میں ہے لیکن عقبیٰ کی غفلت کے سبب سے اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو دنیا میں بہت پریشان رکھے گا جس سے ایسا شخص دنیا کی زندگی اطمینان سے کبھی صبر نہیں کرسکتا ٢ ؎ اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت اور حدیث کے ملانے سے یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ بلعم باعورا کی طرح جو شخص عقبیٰ سے غافل ہر کر اپنی زندگی کا مدار دنیا کمانے پر رکھے گا اس کا وہی انجام ہوگا جو بلعم باعورا کا ہوا :۔ ١ ؎ تفسیر ابن کثیر ج ٩ ص ١٢٤۔ ١٢٦ و تفسیر ابن کثیر ج ٢ ص ٢٦٥ ٢ ؎ ابن ماجہ ص ٣١٢ باب اہم بالدنیا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:175) اتل۔ تو پڑھ۔ تو تلاوت کر۔ تلاوۃ سے جس کے معنی پڑھنے ۔ تلاوت کرنے اور معنی میں تدیر کرنے کے ہیں۔ امر واحد مذکر حاضر۔ (خطاب حضرت رسول کریم سے ہے) ۔ نبأ خبر ۔ حال ۔ نبا الذی حال اس شخص کا۔ اتینہ ایتنا۔ ہم نے اس کو اپنی نشانیاں دیں۔ ہم نے اس کو اپنی نشانیوں کا علم دیا۔ فانسلخ منھا۔ وہ چھوڑ نکلا۔ وہ گزر گیا۔ السلخ کے اصل معنی ہیں کھال کھینچنا۔ (باب انفعال) سے۔ جیسے محاورہ ہے سلختہ فانسلخ میں نے اس کی کھال کھینچی تو وہ کھنچ گئی۔ اسی سے ہے سلخت درعہ۔ میں نے اس کی زرہ کھینچی یعنی اتارلی۔ گزرجانے کے معنی میں قرآن میں آیا ہے فاذا انسلخ الاشھر الحرم (9:5) جب حرمت کے مہینے گزر جائیں۔ سانپ کی کنچلی اتار دینے کو عربی میں کہتے ہیں انسلخت الحبۃ من جلدھا (سانپ پنی جلد سے نکل گیا) پس فانسلخ منھا کا یہ مطلب ہوا کہ : اس شخص نے ان آیات و ہدایات کو چھوڑ دیا۔ اور گمراہی میں چلا گیا۔ اتبعہ۔ وہ اس کے پیچھے لگ گیا۔ غوین۔ اسم فاعل جمع مذکر ۔ غاوی واحد ۔ گمراہ کج رو۔ بھا۔ میں ضمیر ایتنا کی طرف راجع ہے۔ اخلد الی الارض۔ ای مال الی الدنیا ورغب فیہا (لیکن وہ دنیا کی طرف مسائل ہوگیا اور اس کی رغبت اس میں رچ بس گئی۔ تحمل علیہ۔ تو اس پر حملہ کرے۔ یلھث۔ ہانپنا۔ زبان باہر نکالنا۔ وہ زبان باہر نکال دیتا ہے (باب فتح) لہث ولہاث کتے وغیرہ کا عاجزی اور پیاس سے زبان باہر نکالنا۔ لہاث۔ پیا کی گرمی۔ موت کی سختی ۔ باب سمع۔ پیاسا ہونا۔ لہثان پیاس ۔ التھاث (باب افتعال) پیاس و تکان وغیرہ سے زبان باہر نکال دینا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 ان الفاظ سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ جس شخش کا قصہ یہاں برائے عبرت بیان کیا جا رہا ہے واہ ضرور کوئی متعین شخص ہے لیکن قرآن و صحیح حدیث میں نہ تو اس کے نام کی تصریح ہے اور نہ زمانہ ہی کی تعین مذکور ہے بعض علمائے تفسیر نے اس کا نام بلعم بن اسرائیل میں ایک مستجاب الد عوۃ آدمی تھا اور حضرت موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) نے اسے اہل مدین کو ایمان کی دعوت دینے کے لے بھیجا تھا مگر نفسانی خواہشوں سے مغلوب ہو کر انہی میں شامل ہوگیا اور موسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کی مخالفت کرنے لگا ،۔ آیت فانلسخ منھا میں غالبا اسی طرف اشارہ ہے، بعض نے امیہ بن ابی مصلت ثقفی کا نام بھی ذکر کیا ہے جو کہ شرئع متقد مہ کا عالم ہونے کے باوجود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ لا یا اور بدر کے دن جو مشرک قتل ہوگئے تھے بڑے بلیغانہ انداز میں ان کے مر ثیے کہتے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے متعلق فرمایا تھا لسانہ مومن وہ قلبہ کافر کہ اس کی زبان تو مومن ہے مگر دل کافر ہے یہی حال عموما شاعروں کا ہوتا ہے۔ بہر حال اسے باوجود علم و فضل کے مسلمان ہونے کی تو فیق نہ ہوئی واللہ اعلم ( ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تشریح آیات نمبر 175 تا 177 یہ کوئی مخصوص شخص تھا یا بات عام کی جارہ ہے اس کا علم تو اللہ تعالیٰ کو ہے ۔ بہر حال مفسرین کا خیال اس طرف گیا ہے کہ اس سے مراد ایک مخصوص شخص ہے جس کا نام بلعم ابن باعورا تھا جو اپنے وقت کا بہت بڑاعالم ، عارف اور مشہور پیشوا تھا لیکن اپنے تمام تر علم وتقویٰ کے باوجود جب وہ دنیا کے لالچ میں اندھا ہوگیا تو اس کی ساری علمی عظمتوں کو اس سے چھین لیا گیا اگر وہ اپنے علم کا حق ادا کرتا اس کے احکامات کی پابندی کرتا تو یقینا اس کا مقام ہی کچھ اور ہوتا لیکن جب اس پر دنیا پر ستی کا غلبہ ہوگیا تو وہ اپنی بنیادی عظمتوں سے محروم ہوگیا۔ اگر اس آیت کا مفہوم کو عام رکھا جائے تو اس میں تما وہ لوگ آجاتے ہیں جن کو اللہ نے اپنے دین کا علم عطا فرمایا اس علم کا تقاضا تو یہ ہے کہ وہ خود بھی سگ دنیا سے بچتے اور دوسروں کو بھی بچاتے لیکن جب وہ سگ دنیابن گئے تو اوروں کی دنیا پرستی لالچ اور حرص سے کسیے روکیں گے۔ ترک دنیا جس کو رہبانیت کہتے ہیں اس کا سلام سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ لوگوں کا گھڑا ہوا وہ طریقہ زندگی ہے جس کو نہ تو اللہ نے پسند فرمایا ہے اور نہ اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لیکن دنیا کے لالچ میں دین کو بھی بیچ ڈالنا اور اپنے مفاد کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی محبت کو چھوڑ بیٹھنا انتہائی بد قسمتی ہے۔ البتہ دین کی عظمتوں کو قاتم رکھتے ہوئے اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کیلئے جدوجہد کرنا ممنوع نہیں ہے بلکہ بہتر ہے۔ یہاں قرآن کریم جس چیز سے منع کررہا ہے وہ دنیاکا کتا بن جانے سے منع کر رہا ہے یعنی محض لذت اور شہوت کے پے چھ غرق رہنا۔ اللہ کے حقوق اور اس کے بندوں کے حقوق کو بھول جانا تمام تو جہات کا مرکز و محور اپنے نفس کو بنا لینا ۔ ایسے شخص کی مثال کتے سے دی گئی ہے جس کی ہر وقت لٹکی ہوئ زبان اور ٹپکتی ہوئی رال اسکے چوبیس گھنٹے حرص و ہوس کا پتہ دیتی ہے جس کا نعرہ ہے ” ہائے پیٹ ‘ ہائے جنس، آجکل تمام دنیا پرستوں کا نعرہ ایک ہی ہے جس میں جسم و جنس کی خواہشات ہی سب کچھ ہیں۔ یہ شیطان کے ہاتھ میں دو عظیم ہتھیار ہیں وہ ان ہتھیاروں سے بڑے بڑے خواص کو شکار کرتا ہے علم والے، کرسی والے، دولت والے ، طاقت والے سب اس کی لپیٹ میں ہیں۔ اس جگہ ایک ایسے شخص کی مثال دی گئی ہے جسے اللہ نے اپنی آیات کا فہم و تدبر نصیب کیا تھا۔ مگر وہ علم اور دین کی پابندیوں سے فرار ہو کر سگ دنیا بن کر رہ گیا۔ شیطان اس کو ایک ایسی پستی کی طرف دھکیلتا رہا یہاں تک کہ اس کو اسفل سافلین تک پہنچا دیا ۔ یہی ہر اس شخص کو بد قسمتی ہے جو حق و صداقت سے منہ موڑ کر اللہ کی آیات کو جھٹلاتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی احکام کا علم دیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نئے خطاب کا آغاز۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرمایا ہے کہ آپ لوگوں کے سامنے اس شخص کا واقعہ بیان فرمائیں جس کو ہم نے علم کے زیور سے آراستہ فرمایا تھا مگر اس نے اس زیور کو اتار پھینکا اور شیطان کی اتباع کرتے ہوئے گمراہ لوگوں میں شمار ہوا یہ کس شخص کا واقعہ ہے، کہاں کا رہنے والا تھا اور اس کا نام کیا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث کی مقدس دستاویزات میں اس کا پتہ نہیں چلتا۔ اکثر مفسرین نے صحابہ کرام ] کے اقوال نقل کیے ہیں جن کی بنیاد اسرائیلی روایات پر ہے۔ چناچہ لکھتے ہیں : اس شخص کا نام بلعم بن بعور یا امیہ بن صلت تھا۔ یہ یہودیوں کا بڑا عالم تھا لیکن انتہائی ضمیر فروش ہونے کی وجہ سے فتویٰ فروشی اور دین کو ایک پیشہ اور دکھلاوے کے طور پر استعمال کرتا تھا۔ اس سے مراد کوئی شخص ہو اصل تو ایک کردار کی نشان دہی کی جا رہی ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے علم کی دولت سے مالا مال کیا مگر اس نے اسے منصب کے حصول، دنیا کے لالچ، ذاتی شہرت اور شخصی احترام کے لیے استعمال کیا جو سراسر شیطان کی پیروی کا راستہ ہے اور شیطان انسان کو گمراہ کرکے چھوڑتا ہے۔ اس نام نہاد عالم کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا اور وہ بالآخر گمراہوں میں شمار ہوا۔ ارشاد ہوتا ہے کہ اگر ہم چاہتے تو اسے اپنے عطا کردہ علم کے ساتھ فکر کی بلندی اور کردار کی رفعت عطا کرتے۔ لیکن اس نے اپنی خواہش کی پیروی کرتے ہوئے رفعت و بلندی کے بجائے زمین کے ساتھ چمٹنا پسند کرلیا ہے یہاں زمین کے ساتھ چمٹنے سے مراد فکر و کردار کی پستی اور دنیا کی طرف مائل ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اصول اور ضابطہ یہ ہے کہ انسان کو ہدایت اور گمراہی کے راستے کی نشاندہی کرکے کھلا چھوڑ دیا جائے تاکہ انسان جس راستہ کو پسند کرتا ہے اسے اختیار کرسکے۔ علم کا بنیادی مقصد اس کے ذریعے رہنمائی پانا ہے اگر کوئی شخص صاحب علم ہو کر بھی جہالت اور گمراہی کے راستہ کو پسند کرتا ہے تو اسے ہدایت پر کیوں کر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ ایسے علم والے کی مثال تو اس کتے کی ہے جس پر حملہ کیا جائے یا نہ کیا جائے اور اس پر بوجھ ڈالا جائے یا نہ ڈالا جائے وہ ہر صورت زبان لٹکائے ہانپتا پھرتا ہے۔ کتے کو دیکھنے والا اس بات کا اچھی طرح اندازہ کرسکتا ہے کہ کتا سدھایا ہوا ہو یا آوارہ، سردی ہو یا گرمی، بھوکا ہو یا اس کا پیٹ بھرا ہوا ہو۔ وہ ہر وقت ہانپتا ہے اور چلتے پھرتے زمین سونگھتا اور جگہ جگہ اپنی زبان مارتا پھرتا ہے۔ یہ ایسا جانور ہے جو کبھی سیر چشم نہیں ہوتا یہاں تک کہ اگر آپ اسے پتھر ماریں تو وہ اسے بھی چاٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ اتنا بد خصلت اور لالچی جانور ہونے کے باوجود اپنے مالک کا وفادار اور سدھایا ہوا کتا اپنے آقا کے حکم پر عمل کرتا ہے۔ لیکن ایک دنیا پرست عالم کا حال اس سے بھی بدتر ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرتا ہے۔ اقبال کے بجائے زوال اور استغنا کے بجائے بھوک اور لالچ میں آگے ہی بڑھتا جاتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ ایسے علماء پکار اٹھتے ہیں کہ واقعی ہم نے اپنے آپ کو ہلاکت کے گڑھے میں ڈال لیا ہے اور ہم اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ہیں۔ یہاں بین السطور یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر کوئی ذیادتی نہیں کی اگر یہ ہدایت کے طالب ہوتے تو انھیں ہدایت دی جاتی لیکن یہ ہدایت کے بجائے گمراہی کے طالب ہوئے اس لیے انھیں گمراہ ہی رہنے دیا گیا جس طرح اللہ تعالیٰ کا ئنات کے چپے چپے اور ذرے ذرے کا مالک ہے اسی طرح ہدایت اور گمراہی بھی اپنی ملکیت قرار دے کر اسے اپنی طرف منسوب کرتا ہے۔ لہٰذا گمراہ لوگ نقصان ہی اٹھائیں گے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم سے رہنمائی نہ پانے والا شیطان کی پیروی کرتا ہے۔ ٢۔ شیطان انسان کو گمراہ کرکے چھوڑتا ہے۔ ٣۔ دین کے بدلے دنیا پسند کرنے والا عالم کتے کی مانند ہے۔ ٤۔ کتا نہایت ہی حریص جانور ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے والے لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن اعتصام بالکتاب کا حکم : ١۔ اللہ کی رسی کے ساتھ اعتصام کا حکم۔ (آل عمران : ١٠٣) ٢۔ توبہ اور اپنی اصلاح کرنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اعتصام کرنا ہے۔ (النساء : ١٤٦) ٣۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کے احکام ماننا اللہ سے اعتصام کرنا ہے۔ (النساء : ١٧٦) ٤۔ جو نیکی کے کام کرے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اعتصام کرے اللہ اس کی مدد فرمائے گا۔ (الحج : ٧٨) نفسانی خواہش کی پیروی کے نقصانات : ١۔ جس نے اپنی خواہش کو رب بنالیا ہے کیا آپ اس کے ذمہ دار ہیں ؟ (الفرقان : ٤٣) ٢۔ اپنی خواہش کی پیروی کرنے والا اللہ کے ذکر سے غافل ہوتا ہے۔ (الکہف : ٢٨) ٣۔ قیامت کا منکر اپنے نفس کا بندہ ہوتا ہے اس سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔ (طٰہٰ : ١٦) ٤۔ جس نے اپنی خواہشات کی پیروی کی وہ گمراہ ہوا۔ (القصص : ٥٠) ٥۔ ظالم اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں۔ (الروم : ٢٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

تفسیر آیات 175 ۔ 177: اب فطرت کی راہ سے انحراف کی ایک مثال پیش کی جاتی ہے ، جس میں ایک شخص اپنا عہد فطرت توڑتا ہے اور ہدایت کے بعد اللہ کی آیات اور نشانات سے پھرجاتا ہے۔ اللہ نے اپنی آیات اور دلائل اس کے سامنے بکھیر دئیے ، وہ اپنی فکر و نظر سے انہیں دیکھ سکتا تھا اور ان میں غور کرسکتا تھا۔ لیکن وہ اس سے نکل بھاگا اور وہ اس طرح نکل گیا جس طرح کوئی اپنے لباس سے نکل جائے اور زمین پر گر جائے اپنی نفسانی خواہشات کے تابع ہوجائے اس نے اللہ کے ساتھ کیے ہوئے میثاق کو مضبوطی سے نہ پکڑا اور نہ ان آیات نے اس کے لیے ہدایت کا سامان فراہم کیا۔ شیطان اس پر حاوی ہوگیا اور وہ اللہ کے دائرہ امن سے نکل گیا۔ گمراہ ، بےقرار اور ادھر ادھر بھاگتا رہا۔ لیکن قرآن کریم نے اس شخص کی مثال نہایت ہی معجزانہ انداز میں دی ہے۔ اس مثال میں ایک متحرک منظر ہے۔ جس میں اس شخص کے خدوخال بالکل واضح نظر آتے ہیں۔ اس منظر کے تاثرات نہایت حقیقی اور واقعات فطری اور عبارت نہایت ہی زندہ اور اشاریت سے بھرپور ہے۔ ۔۔۔ وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ الَّذِيْٓ اٰتَيْنٰهُ اٰيٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَاَتْبَعَهُ الشَّيْطٰنُ فَكَانَ مِنَ الْغٰوِيْنَ اور اے نبی ان کے سامنے اس شخص کا حال بیان کرو جس کو ہم نے اپنی ٓیات کا علم عطا کیا تھا مگر وہ ان کی پابندے سے نکل بھاگا۔ آخر کار شیطان اس کے یچھے پڑگیا۔ یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا۔ یہ ایک عجیب منظر ہے ، جدید ترین فنی تصویر کشی۔ الفاظ کی تصویر کشی۔ ایک شخص کو آیات و نشانات دئیے جاتے ہیں ، اسے فضل و کرم کی خلعت پہنائی جاتی ہے ، اس کو علم کا لباس دیا جاتا ہے اور اسے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں کہ وہ راہ ہدایت لے ، اللہ سے جڑے اور سربلندی اختیار کرے لیکن وہ اس صورت حالات سے اپنے آپ کو نکال دیتا ہے۔ لباس فاخرہ کو اتار کر ننگا ہوجاتا ہے اور سربلندی اور طہارت کے بجائے کیچڑ میں اپنے آپ کو لت پت کردیتا ہے۔ خواہشات نفس کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ اس نے پہلا فطری عہد بھی توڑ دیا۔ پھر اس نے ان آیات و دلائل کو بھی ترک کردیا جن میں اس کے لیے سامان ہدایت تھا۔ وہ آیات و ہدایات سے نکل رہا ہے یوں کہ یہ آیات و ہدایات اس کے لیے گویا گوشت پوست ہیں اور یہ زبردست جدوجہد نہایت مشقت کے ساتھ ان سے نکل رہا ہے۔ یوں جس طرح زندہ انسان سے چمڑا کھینچا جا رہا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ دلائل ایمان انسانی جسم کے ساتھ اس طرح چمٹے ہوئے ہیں جس طرح چمڑا جسم کے ساتھ پیوستہ ہوتا ہے۔ وہ آیات سے نکل رہا ہے۔ وہ گویا ننگا ہورہا ہے ، اپنے آپ کو بچانے والے گوشت و پوست سے نکل رہا ہے اور راہ ہدایت کو چھوڑ کر خواہشات نفسانیہ کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ گویا وہ آفاق کی سر بلندیوں سے گر کر کیچڑ میں لت پت ہورہا ہے۔ یوں شیطان اس پر حملہ آور ہوتا ہے اور اب اس کے بچانے والا کوئی ذریعہ نہیں۔ چناچہ شیطان اس کے پیچھے پڑتا ہے اور اسے اپنے قابو میں لے آتا ہے۔ اب ہم اچانک ایک نہایت ہی خوفناک منظر کے سامنے ہیں۔ یہ نہایت ہی برا اور پریشان کن منظر ہے۔ ہمارے سامنے اس قسم کی مخلوق ہے جو کیچڑ میں لت پت ہے۔ زمین پر گری پڑی ہے۔ اچانک یہہ مخلوق مسخ ہو کر کتے کی شکل میں آجاتی ہے ، تم اسے دھتکارتے ہو تب بھی زبان لٹکائے ہوئے ہے اور اگر تم اسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے ہوئے ہے۔ غرض یہ متحرک مناظر تسلسل کے ساتھ ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ہماری قوت متخیلہ ان مناظر کے ساتھ ساتھ چلتی ہے نہایت روشن تاثرات لیے ہوئے چلتی ہے۔ اور جب ہماری متخیلہ اس آخری منظر پر پہنچتی ہے جس میں ایک کتاب زبان لٹکائے ہوئے نظر آتا ہے تو اچانک اس پورے منظر پر درج ذیل تبصرہ سنا جاتا ہے۔ ذٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ ۔ یہی مثال ہے ان لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں ، تم یہ حکایات ان کو سناتے رہو ، شاید کہ یہ کچھ غور و فکر کریں یہ ہے ان کی مثال۔ حقیقت یہ ہے کہ ہدایت کے دلائل اور ایمان کے موجبات خود ان کی فطرت میں ملے ہوئے تھے اور یہ دلائل اور اشارات ان کے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات کے اندر بھی موجود تھے ، لیکن یہ لوگ اپنے آپ کو کھینچ کر ان سے نکال لائے۔ اب یہ مسخ شدہ اجسام تھے ، جو ٹنگے تھے اور مقام انسانیت سے گر کر یہ لوگ حیوانیت تک اتر آئے تھے۔ یہ اس کتے کی طرح تھے جو کیچر میں لت پت ہو۔ ان کے پاس تو ایمان اور دلائل ہدایت کے وہ پر تھے جن کے ذریعے یہ اعلیٰ علیین تک پرواز کرسکتے تھے۔ ان کی تخلیق بھی بہترین ڈیزائن میں ہوئی تھی لیکن افسوس ہے کہ انہوں نے اعلی علیین کے مقابل میں اسفل سافلین کے مقام کو اپنے لیے پسند کیا۔ بڑی ہی بری مثال ہے ایسے لوگوں کی جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا اور وہ آپ ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے۔ کیا اس مثال سے کوئی اور بری مثال ہوسکتی ہے کہ کوئی خود اپنی کھال سے کھینچ کر باہر نکل آئے اور ہدایت سے بالکل ننگا ہپوجائے اور یہ کہ کوئی خواہشات نفسانیہ کی تسکین کے لیے کیچڑ میں لت پت ہو۔ ان لوگوں سے زیادہ اپنے اوپر ظلم کرنے والا اور کون ہوگا کہ وہ خود اپنی ہی کھال کھینچ کر اپنی ہڈیوں اور گوشت کو ننگا کردے۔ اپنے حامی اور مددگار کو تباہ کردے اور اپنے گوشت کو شیطانی درندوں کے نوچنے کے لیے ننگا اور آسان کردے۔ اور پھر شیطان ایسے شخص کو مرتبہ انسانیت سے گرا کر مرتبہ حیوانیت تک لے آئے اور وہ اسی طرح حیران و پریشان ہوجائے جس طرح باؤلا کتا زبان لٹکائے ہوئے ہوتا ہے۔ یہ قرآن کریم ہی کا حصہ ہے کہ اس نے ایسی صورت حالات کی تصویر کشی ایسے موثر الفاظ میں کی ، اس طرح کہ اس کا اعجاز بالکل واضح ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا ایسے لوگوں کی کوئی مخصوص مثال بھی اس وقت تھی یا ایک عمومی بات کو یہاں مثال کی شکل میں لایا گیا ہے ؟ کیا ان مثالوں کے مصداق کے بارے میں ذخیرہ روایات میں کچھ ہے ؟ بعض روایات میں آتا ہے کہ فلسطین میں ایک صالح شخص تھا۔ یہ اس سے قبل گزرا ہے جب بنی اسرائیل فلسطین میں داخل ہوئے تھے۔ اس شخص کے انحراف اور اس کی اخلاقی بربادی کا ایک طویل قصہ بیان کیا جاتا ہے۔ بہرحال وہ شخص بھی اس مثال کا مصداق بن سکتا ہے لیکن چونکہ یہ اسرائیلی روایات اسلامی تفاسیر میں داخل ہوگئی ہیں لہذا اس قصے کی تمام تفصیلات کو درست تسلیم کرنا ضروری نہیں ہے۔ پھر ان اسرائیلی روایات کے اندر چونکہ بےحد اختلاف و اضطراب ہے ، اس لیے بھی ان کے بارے میں محتاط رویہ اختیار کرنا ضروری ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ بنی اسرائیل میں سے ایک شخص بلعام ابن باعور نامی تھا ، یہ شخص فلسطین کے جابر حکمرانوں میں سے تھا۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ عربوں کا امیہ ابن الصلت تھا۔ بعض روایات میں ابو عامر فاسق کو اس کا مصداق قرار دیا گیا ہے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ یہ شخص حضرت موسیٰ کے معاصر تھا۔ بعض روایات میں ہے کہ یہ حضرت یوشع ابن نون کے دور میں تھا۔ اور حضرت یوشع ابن نون نے تیہ میں بنی اسرائیل کی چالیس سالہ سرگردانی کے بعد ان جابر حکمرانوں کے ساتھ معرکہ آرائی کی تھی۔ جبکہ موسیٰ (علیہ السلام) کے دور میں ان جباروں کے ساتھ معرکہ آرائی کرنے سے بنی اسرائیل نے معذرت کردی تھی۔ انہوں نے حضرت موسیٰ سے کہہ دیا تھا کہ جاؤ تم اور تمہارے رب دونوں لڑو ، ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ اس شخص کو جو آیات دی گئی تھیں وہ اسم اعظم تھا۔ جس کے ساتھ ہر دعا مستجاب ہوتی ہے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ اس شخص کو کتاب الہی دی گئی تھی۔ یہ نبی تھا اور اس کے بعد اس کے بارے میں بڑی اختلافی بحثیں ہوئیں۔ یہاں ظلال القرآن میں اپنے منہاج کے مطابق ہم ان تفصیلات میں نہیں جاتے۔ اس لیے کہ قرآن کریم نے نص میں ان تفصیلات کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا ، نہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس سلسلے میں کوئی مرفوع حدیث منقول ہے۔ بہرحال قرآن کریم نے جس واقعی صورت حال کی طرف اشارہ کیا ہے وہ اس دنیا میں انسانی تاریخ میں بار بار دہرائی جاتی ہے کہ ایک شخص کے سامنے آیات دلائل پیش ہوئے ہیں۔ وہ ان کی حقانیت کو جانتے ہیں لیکن ان کو تسلیم کرکے اپنی زندگی کو ان کے مطابق درست نہیں کرتے۔ اکثر لوگ جنہیں دینی علم دیا جاتا ہے لیکن وہ خود اپنے علم سے ہدایت نہیں لیتے بلکہ وہ اپنے علم کو تحریف کتاب کا ذریعہ بناتے ہیں اور یہ لوگ ذاتی خواہشات کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ ان لوگوں کی خواہشات اور ان لوگوں کے اوپر تسلط حاصل کرنے والوں کی خواہشات یعنی اس عارضی دنیا کے مفادات کے ہاتھ ہی میں ان کی نکیل ہوتی ہے۔ ہم نے کئی علمائے دین کو دیکھا ہے کہ وہ ایک حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن وہ لائن پر نہیں آتے۔ ادھر ادھر ہوجاتے ہیں بلکہ اپنی زبان سے ایسی باتوں کا اعلان کرتے ہیں جنہیں خود بھی سچا نہیں سمجھتے۔ ایسے لوگ اپنے علم کو تحریف و انحراف کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اور اپنے فتاوی اہل اقتدار کے حق میں استعمال کرتے ہیں اور اس طرح وہ ایسے اہل اقتدار کے اقتدار کو اور مضبوط کرتے ہیں جو اس زمین پر اللہ کے اقتدار کے لیے چیلنج ہوتے ہیں۔ ہم نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قانون صرف اللہ کا حق ہے ، اور جو شخص قانون سازی کا حق اپنے لیے مخصوص کرے وہ در اصل مدعی الوہیت ہے اور جو شخص بھی خدائی کا دعوی کرے وہ کافر ہے۔ جو شخص کسی انسان کے لیے اس حق کو تسلیم وہ بھی کافر ہے۔ اس کے باوجود اور اس بات کو جانتے ہوئے وہ ان لوگوں سے کوئی سروکار نہیں رکھتا جو اپنے آپ کو قانون ساز کہتے ہیں اور الوہیت اور خدائی کے مدعی ہیں اور جن کے بارے میں خود اس عالم دین نے فتوی دے رکھا ہے کہ وہ کافر ہیں بلکہ یہ عالم دین ایسے لوگوں کو مسلمان بھی کہتا ہے اور جو وہ کرتے ہیں اس کو اسلام کہتا ہے اور اس کے بعد وہ ایک سال جو کچھ لکھتا ہے تو سود کو حرام قرار دیتا ہے اور دوسرے سال اپنی تحریروں میں سود کو حرام قرار دیتا ہے۔ ان میں سے بعض لوگ فسق و فجور کو ایک مبارک امر قرار دیتے ہیں۔ فسق و فجور کو اسلام نام اور عنوان دیتے ہیں اور اسے اسلام لباس میں لاتے ہیں۔ اب یہ شخص کیا اس تبصرے کا مصداق نہ ہوگا کہ جسے اللہ نے ایسی آیات دیں اور علم دیا اور وہ اللہ کے دلائل و علم سے نکل بھاگا ، شیطان نے اسی پر گرفت مضبوط کرلی اور یہ شخص گمراہیوں میں سے ہوگیا۔ قرآن کریم جس شخص کے بارے میں خبر دے رہا وہ شخص اسی کا مصداق ہوگا۔ اس کو اللہ نے علم دیا ، سربلندی کے ذرائع دئیے لیکن وہ بلندیوں کی طرف سفر کرنے کے بجائے پستیوں کی طرف گرتا رہا۔ ذرا قرآن کریم کے اس تبصرے اور اس خبر کو پڑھییے۔ وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ الَّذِيْٓ اٰتَيْنٰهُ اٰيٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَاَتْبَعَهُ الشَّيْطٰنُ فَكَانَ مِنَ الْغٰوِيْنَ ۔ وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنٰهُ بِهَا وَلٰكِنَّهٗٓ اَخْلَدَ اِلَى الْاَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوٰىهُ ۚ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ الْكَلْبِ ۚ اِنْ تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ اَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَثْ ۭ ذٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ ۔ سَاۗءَ مَثَلَۨا الْقَوْمُ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَاَنْفُسَهُمْ كَانُوْا يَظْلِمُوْنَ اور اے نبی ان کے سامنے اس شخص کا حال بیان کرو جس کو ہم نے اپنی ٓیات کا علم عطا کیا تھا مگر وہ ان کی پابندے سے نکل بھاگا۔ آخر کار شیطان اس کے یچھے پڑگیا۔ یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا۔ اگر ہم چاہتے تو اسے ان آیتوں کے ذریعے سے بلندی عطا کرتے ، مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا اور اپنی خواہش نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا ، لہذا اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اسے چھڑو تب بھی زبان لٹکائے رہے۔ جس شخص کی خبر قرآن دے رہا ہے یہی ہمارے دور کے ایسے لوگوں پر صادق آتی ہے۔ یہ مثال ہر اس شخص پر فٹ ہے جسے اللہ نے علم دیا نکال کے لیکن وہ اس علم کے تقاضوں پر نہ چلا۔ اس نے ایمان کی راہ اختیار نہ کی ، اللہ کی نعمتوں سے کھینچ کر نکل گیا۔ اور شیطان کا تابع مہمل ہوگیا۔ اب وہ باؤلے کتے کی طرح زبان لٹکائے پھرتا رہے گا۔ جس طرح قرآن ہمارے احساس میں ڈالتا ہے۔ یہ شخص اغراض دنیا کے پیچھے زبان لٹکائے بھاگ رہا ہے اور اغراض دنیا ہی کی وجہ سے یہ انعامات الہیہ سے اپنے آپ کو کھینچ کر باہر لے آیا ہے ، اور یہ کتے کی طرح زبان لٹکائے ہوئے ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ایسا شخص اغراض دنیا کی جانب سے کبھی بھی مطمئن نہ ہوگا۔ جس شخص کی نکیل اغراض دنیا کے ہاتھ میں چلی جائے وہ ان سے چھوٹ نہیں سکتا ، چاہے تم انہیں ہزار وعظ و نصیحت کرو۔ وہ اس راہ پر زبان لٹکائے سرکاری دفاتر کا طواف کرے گا اور کرتا رہے گا۔ انسانی زندگی کا گہرا مطالعہ کیجئے۔ اس مثال کا مصداق تو ہر جگہ اور ہر زمانے میں موجود ہے۔ بلکہ زمانے گزر جاتے ہیں اور ایسے لوگ ہر طرف نظر آتے ہیں۔ ہر طرف سے بڑھے چلے آتے ہیں اور جن لوگوں کو اللہ بچا لیتا ہے وہ قدرت نادرہ ہوتے ہیں۔ جو آیات الہیہ کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہوتے ہیں ، جو زمین کی پستیوں کی طرف آنے کے بجائے بلندیوں کی طرف اٹھتے ہیں ، جو خواہشات نفسانیہ کو دباتے ہیں جنہیں شیطان ذلیل نہیں کرسکتا۔ یہ لوگ اپنی ناک میں ای کسی نکیل نہیں ڈالتے۔ اس سمت نہیں جاتے جس کا سرا اہل اقتدار کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ غرض یہ ایک ایسی تمثیل ہے جس کے مصداق کبھی ختم نہیں ہوتے۔ ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ تعجب ہے کہ آپ ایسے لوگوں کو بہت دور بنی اسرائیل کی تاریخ میں تلاش کرتے ہیں۔ حضور کو حکم دیا گیا کہ آپ اپنی قوم پر یہ آیات پڑھیں اور انہیں خبردار کریں کہ وہ ان آیات الہیہ سے اپنے آپ کو کھینچ کر باہر نہ کردیں۔ لہذا حضور کے بعد ہمیں ان آیات کی تلاوت کرکے لوگوں کو سمجھانا چاہیے کہ وہ ان آیات کی مضبوط پناہ گاہ سے اپنے آپ کو باہر نہ نکالیں۔ اور ان کو اللہ کے علوم میں سے جو حصہ ملا ہے ، اسے ترک کرکے وہ اس انجام تک اپنے آپ کو نہ پہنچائیں۔ نیز اپنے آپ کو اس صورت حال میں مبتلا نہ کریں کہ انسان کتوں کی طرح زبان لٹکائے خواہشات دنیا کے پیچھے بھاگتا پھرے ، جن کی کوئی انتہا نہیں ہے اور اپنے آپ پر وہ ظلم نہ کریں جو ایک دشمن اپنے دشمن پر بھی نہیں کرتا کیونکہ اپنے آپ کو ایسی شکل میں ڈال کر وہ صرف اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں۔ ہم نے اپنے دور میں ایسے اہل علم کو دیکھا ہے کہ جو اپنے اوپر اس قسم کے ظلم کرنے میں بہت ہی حریص ہیں۔ ایسے لوگ ہیں جو جہنم کے ٹھکانے کے حصول کے لیے اپنی پوری قوت صرف کر رہے ہیں۔ ایسے لوگ صبح سے شام تک اپنے لیے جہنم کے ٹھکانے کو مضبوط کر رہے ہیں اور رات دن زبان لٹکائے اس کے پیچھے پھر رہے ہیں نہ ان پر نصیحت کا اثر ہوتا ہے اور نہ کسی کی دھتکار کا۔ ایسی ہی حالت میں یہ لوگ آخر کار اس دنیا سے کوچ کرجاتے ہیں۔ اے اللہ ہمیں بچائیو ! ہمارے قدم مضبوط کیجیو۔ اور ہم پر صبر کی بارش کیجیو اور ہمیں اہل اسلام کے ساتھ موت اور خیر نصیب کیجیے۔ ۔۔۔۔ قرآن کریم نے ایک شخص کے بارے جو خبر ایک تمثیل کی صورت میں دی ہے ہمیں چاہے کہ ہم اس پر قدرے طویل اور دوبارہ غور کریں۔ یہ ایک ایسے صاحب علم کی تمثیل ہے ، جس پر خواہشات نفس اور لذات دنیاوی اس قدر بوجھ ڈال دیں کہ وہ اس بوجھ کو نہ سہار سکے اور زمین پر گر جائے اور ان شہوات کی جاذبیت کی وجہ سے وہ براہ راست ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ سکے۔ وہ اپنی خواہشات نفس کے پیچھے پڑجائے اور شیطان اس کے پیچھے پڑجائے اور اسے اپنی گرفت میں لے کر اپنی مرضی سے چلانا شروع کردے اور اس کے منہ میں خواہشات نفسانیہ کی لگام پڑی ہو۔ چونکہ صرف علم انسان کو نجات نہیں دے سکتا۔ اسی لیے قرآنی منہاج تربیت نفس انسانی کی تربیت اور اسلامی زندگی کی ترویج کے لیے ایک خاص منہاج وضع کرتا ہے۔ اسلام صرف علم پیش نہیں کرتا بلکہ علم کو ایک زندہ اور متحرک شکل دیتا ہے تاکہ اسلامی مقاصد ذہنی اور فکری دنیا میں بھی سامنے آئیں اور عملی زندگی میں بھی سامنے آئیں۔ اسلامی منہاج یہ نہیں ہے کہ اسلامی عقائد کو محض نظریات کی شکل میں پیش کرے۔ محض تحقیق و توفیق کے لیے۔ اور انسان کے فکر و نظر اور اس کے عمل اور تگ و دو پر اس کا کوئی اثر نہ ہو۔ اس قسم کی مجرد تحقیقات محض جامہ علم ہوتی ہیں ، ایسا علم انسان کو اپنی خواہشات نفسانیہ کی زد سے نہیں بچا سکتا۔ نہ دنیا میں اسے سربلند کرسکتا ہے ، خصوصا سفلی جذبات و خواہشات سے۔ ایسا علم شیطان کا مقابلہ نہیں کرسکتا بلکہ یہ شیطان کے لیے راہ ہموار کرتا ہے اور اس کی وجہ سے انسان شیطان کی غلامی اختیار کرلیتا ہے۔ اسلام دین کے بارے میں محض تحقیقات میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ مثلاً اسلامی نظام کے بارے میں " تحقیقات " اسلامی فقہ کے بارے میں " تحقیقات " اسلام کے اقتصادی نظام کے بارے میں " تحقیقات " اسلام کے سائنسی نظریات کے بارے میں تحقیقات ، علوم نفس کے بارے میں اسلامی تحقیقات وغیرہ وغیرہ۔ اسلام عقائد اسلامی کو ایک متحرک ، ترقی پذیر ، زندہ اور بیدار اور غالب اور سربلند ہونے والے عقائد کی شکل میں لاتا ہے۔ عقل و نظریہ پر چھانے کے بعد یہ عقائد فوراً ایک مسلمان کو اسلام مقاصد پورے کرنے کے لیے متحرک کردیتے ہیں۔ جب کسی مردہ ضمیر آدمی کے قلب و نظر میں بھی یہ عقائد جاگزیں ہوتے ہیں تو اسے زندہ کردیتے ہیں اور یہ عقائد قبول کرنے والا اپنے آپ کو جھاڑ کر اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور اسلام کی سربلندی کے لیے جدوجہد شروع کردیتا ہے۔ اس کی فطرت فوراً پہلے فطری عہد کی طرف لوٹ جاتی ہے اور یہ شخص بلند مقاصد کے لیے متحرک ہوجاتا ہے اور اسے دنیا کی آلودگیاں اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکتیں۔ یہ کبھی فسق وفجور کے کیچڑ میں لت پت نہیں ہوتا۔ قرآن اسلام کو ایک منہاج فکر و تدبر کی صورت میں پیش کرتا ہے اور یہ دنیا کے تمام مناہج سے ممتاز نظر آتا ہے۔ یہ آیا ہی اس لیے ہے کہ دنیا کے بوجھ اتار دے اور انہیں شیطان کی گمراہیوں سے نجات دے۔ قرآن اسلام کو حق و باطل کے لیے ایک معیار اور میزان کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس معیار کے ذریعہ لوگوں کے ذرائع ادراک اور ان کی عقلوں کو پرکھا جاتا ہے ، لوگوں کی حرکات ، ان کے رجحانات اور ان کے تصورات کو اس کے مطابق جانچا جاتا ہے۔ اسلام سے قبل دنیا میں کوئی ایسا معیار نہ تھا کہ اسے کام میں لایا جاتا اور یہ میزان اور معیار جسے رد کردے وہ ردی ہوگا اسے پھینک دیا جائے گا۔ اسلام انسانیت کو ترقی دے کر ایک نہایت ہی بلند مقام تک لے جانا چاہتا ہے لیکن شاہراہ ترقی پر اسلام اسے نہایت ہی دھیمی رفتار سے لے جانا چاہتا ہے۔ یہ کام وہ اپنے منصوبے اور اپنے اندازوں کے مطابق کرتا ہے ، ترقی کی اس شاہراہ پر چلنے کے لیے اسلام لوگوں کو اپنا ایک مفصل نظام زندگی دیتا ہے۔ ان کو ایک مفصل نظام قانون دیتا ہے ، ان کو ایک مستقل نظام اقتصاد دیتا ہے ، ان کے لیے سوسائٹی کے اصول اور سیاست کے اصول منضبط کرتا ہے ، اس کے بعد وہ لوگوں کو وضع اصول کے بعد آزادی دیتا ہے کہ ان اصول کی روشنی میں وہ اپنے لیے تفصیلی نظام وضع کریں۔ یہ اس دنیا میں رات و دن ترقی کرتے ہیں لیکن ان کے دلوں میں حرارت ایمان موجود رہتی ہے۔ وہ ایک حقیقی نظام قانون وضع کرتے ہیں اور اس سے وہ اپنی تمام ضروریات کا حل نکالتے ہیں۔ اس طرح سلامی نظام حیات ، اسلامی زندگی کی شکل میں نفس انسان کی قیادت کرتا ہے ، رہی وہ تحقیقات جو محض نظری قیل و قال تک محدود ہوتی ہیں تو ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ نہ تو شیطان کے مقابلے میں ایک فرد کو فائدہ دے سکتا ہے اور نہ اسلامی خطوط پر انسانی زندگی کو عملاً منظم کرسکتا ہے ، نہ انسانی زندگی کو ترقی کی راہ پر ڈال سکتا ہے اس منظر میں جو مثال دی گئی ہے ، اب اس پر یہاں ایک مختصر تبصرہ کیا جاتا ہے (ملاحظہ ہو اگلی آیت کی تفسیر)

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ایک ایسے شخص کا تذکرہ جو اتباع ھویٰ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی آیات کو چھوڑ بیٹھا جس شخص کا ان آیات میں ذکر ہے یہ کون شخص تھا اس کے بارے میں تفسیر درمنثور (ص ١٤٥ ج ٣) میں متعدد اقوال نقل کیے ہیں۔ ان میں حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے اقوال بھی ہیں اور ان کے علاوہ تابعین میں سے سعید بن مسیب اور مجاہد اور قتادہ کے اقوال بھی نقل کیے ہیں۔ حضرت قتادہ نے تو یہ فرمایا کہ جس شخص پر ہدایت پیش کی جائے اور وہ اس کے قبول کرنے سے انکار کر دے اس شخص کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ مثال بیان فرمائی ہے۔ لیکن قرآن مجید کا سیاق بتاتا ہے کہ یہ ایک واقعہ بھی ہے۔ واقعہ بیان فرما کر عبرت حاصل کرنے کے لیے (فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ ) جو فرمایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی شخص کا واقعی قصہ ہے محض مثال ہی نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے مروی ہے کہ جس شخص کا اس آیت کریمہ میں واقعہ بیان فرمایا ہے اس کا نام بلعم بن باعوراء ہے۔ یہ شخص جبارین یعنی عمالقہ میں سے تھا جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) وہاں تشریف لے گئے اور ان کے شہروں میں داخل ہونے کا ارادہ فرمایا تو بلعم کے چچا کے بیٹے اور قوم کے دوسرے افراد اس کے پاس آئے اور اس سے کہا کہ موسیٰ قوت و شوکت والے آدمی ہیں اور ان کے ساتھ بہت سے لشکر ہیں وہ لشکروں کے ذریعہ ہم پر غلبہ پانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لہٰذا تو اللہ تعالیٰ سے دعاء کر کہ اللہ تعالیٰ موسیٰ کو اور اس کے ساتھیوں کو ہم سے دفع کر دے بلعم نے جواب دیا کہ میں تو ایسا نہیں کرسکتا۔ اگر میں اللہ سے یہ دعاء کروں کہ موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو تم سے ہٹا دے تو میری دنیا و آخرت دونوں ہی برباد ہوجائیں گی۔ لیکن وہ لوگ برابر اصرار کرتے رہے۔ لہٰذا اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کے لیے بد دعا کردی اور اس طرح اللہ کی آیات سے نکل گیا۔ آیات الٰہیہ کے جاننے پر جو اس کی ذمہ داری تھی اس کو پس پشت ڈال دیا اور ان آیات سے بےتعلق ہوگیا اور شیطان اس کے پیچھے لگ گیا جس کی وجہ سے وہ بالکل ہی گمراہ ہوگیا اور بعض روایات میں یہ ہے کہ جب بلعم نے بد دعاء کرنے سے انکار کردیا اور لوگ برابر اصرار کرتے ہی رہے تو اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے بد دعا کرنی شروع کی لیکن زبان سے اپنی قوم کے لیے بد دعا نکل رہی تھی۔ اس کی قوم نے کہا کہ یہ کیا کر رہے ہو ؟ کہنے لگا میں کیا کروں میری زبان سے تمہارے ہی لیے بد دعا نکلتی ہے اور اگر میں موسیٰ اور اس کی قوم کے لیے بد دعاء کروں تو وہ قبول نہیں ہوگی، بلعم اپنی قوم سے ہدیہ کے عنوان سے رشوت لے چکا تھا۔ اب اس نے اپنی قوم کو یہ رائے دی کہ تم اپنی عورتوں کو سنگھار کے ساتھ بنی اسرائیل میں بھیج دو ۔ وہ لوگ ان سے زنا کریں گے تو ان پر اللہ کی طرف سے عذاب آجائے گا چناچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ بنی اسرائیل زنا میں مبتلا ہوگئے۔ لہٰذا اللہ نے ان پر طاعون بھیج دیا، جس میں ستر ہزار بنی اسرائیل مرگئے۔ (تفسیر درمنثور ص ١٤٧ ج ٣) اس روایت میں یہ اشکال ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قیادت میں تو بنی اسرائیل نے عمالقہ پر حملہ کرنے اور ان کے شہر میں داخل ہونے کا ارادہ ہی نہیں کیا پھر یہ واقعہ کیسے پیش آیا ؟ عمالقہ پر حملہ کرنے کا واقعہ تو حضرت یوشع (علیہ السلام) کے زمانہ میں پیش آیا تھا۔ حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت یوں بھی ہے کہ بلعم اہل یمن سے تھا۔ اللہ نے اس کو اپنی آیات عطا فرمائیں اور اس نے ان کو چھوڑ دیا، اور حضرت ابن عباس (رض) سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ شخص بنی اسرائیل میں سے تھا، بہر حال یہ سب باتیں اسرائیلیات ہیں کوئی بھی پائے ثبوت کو نہیں پہنچتی۔ ایک قول یہ بھی ہے جو حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے مروی ہے کہ یہ آیت امیہ بن ابی الصلت کے بارے میں نازل ہوئی۔ وہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اسلام کی دعوت دی اور اسے (بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ یٰسٓ وَ الْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ ) پڑھ کر سنایا تو اس کا ارادہ ہوا کہ اسلام قبول کرے۔ لیکن جب اسے بدر کے واقعات کی خبر ملی تو اسلام کا ارادہ چھوڑ دیا اور طائف میں جا کر مرگیا۔ یہ روایت درمنثور (ص ١٤٦ ج ٣) میں نسائی، ابن جریر، ابن المنذر اور طبرانی وغیر ہم کے حوالہ سے نقل کی ہے نیز صاحب درمنثور نے مجاہد سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ بلعم کو نبوت عطا کی گئی تھی اس نے اپنی قوم سے رشوت لے لی اور ان لوگوں نے یہ شرط کر کے رشوت دی کہ وہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دے اور خاموش رہے یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ کرے چناچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ یہ بات تو بالکل ہی غلط ہے کیونکہ حضرات انبیاء کرام سے اس قسم کے امور کا صادر ہونا شرعی اصول کے مطابق ناممکن ہے۔ بہر حال صاحب قصہ جو بھی ہو۔ اس کی تعیین پر آیت کی تفسیر موقوف نہیں ہے، جس شخص کا یہ واقعہ ہے وہ اللہ پاک کی طرف سے آزمائش میں ڈالا گیا اور وہ نا کام ہوا، اس نے دنیاوی زندگی ہی کو ترجیح دی اور اللہ کی آیات کو چھوڑ دیا اور خواہشات کے پیچھے پڑگیا لہٰذا گمراہ ہوا اسی کو فرمایا :

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

173: یہ ان کے قول کے رد کی چوتھی وجہ ہے۔ یعنی اگر وہ بخشے ہوئے ہوتے اور ان کو کسی عمل خیر کی حاجت اور گناہوں سے بچنے کی ضرورت نہ ہوتی تو ان ہی میں کے ایک نیک اور پارسا آدمی کو اس کے گناہ عظیم کی وجہ سے ہم ذلت کے گڑھے میں کیوں ڈال دیتے۔ ان آیتوں میں بلعم بن باعوراء کے قصے کی طرف اشارہ ہے۔ بلعم بن باعوراء بنی اسرائیل میں سے تھا اور اس کے پاس آسمانی کتاب کا علم تھا وہ بہت نیک اور صالح تھا کہتے ہیں وہ اسم اعظم جانتا تھا اس لیے بہت مستجاب الدعوات تھا۔ بعد میں دولت کے لالچ اور اپنی بیوی کے بہکانے سے آیات و ہدایات کو چھوڑ کر گمراہ ہوگیا۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جبارین سے جہاد کا ارادہ کیا تو وہ بلعم کے پاس آئے اور اس سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر بد دعاء کرنے کی درخواست کی پہلے تو اس نے انکار کیا اور کہا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کا پیغمبر ہے اور اس کے ساتھ فرشتے اور مومنین ہیں اس لیے میں اس پر کس طرح بد دعا کرسکتا ہوں۔ آخر ان کے اصرار اور کچھ تحفے تحائف پیش کرنے اور بیوی کے بہکانے پر وہ مان گیا۔ جونہی اس نے اللہ کے نبی کے خلاف زبان کھولی۔ اللہ نے اس کی ساری روحانیت سلب کرلی۔ تمام کمالات زائل ہوگئے۔ ایمان سے محروم کردیا گیا اور اس کی زبان منہ سے نکل کر نیچے لٹک گئی جس طرح شدت گرما کی وجہ سے کتے کی زبان باہر نکل آتی ہے اور وہ ہانپنے لگتا ہے۔ اس میں اس کی ذلت کا اظہار ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

175 اور اے پیغمبر آپ ان لوگوں کو عبرت دلانے کی غرض سے اس شخص کا حال پڑھ کر سنا دیجئے جس کو نے اپنی آیتیں عطا فرمائی تھیں یعنی اپنے احکام کا علم و فہم عطا فرمایا تھا مگر وہ ان آیات و احکام اور دلائل واضحہ کو چھوڑ نکلا اور ان آیتوں سے بالکل ہی نکل گیا پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا اور وہ شخص گمراہوں میں شامل ہوگیا اور وہ گمراہ اور گم کردہ راہ لوگوں میں سے ہوگیا۔