The previous verses offered a remedy of calling Allah by His good names to those who were neglectfully not making proper use of their faculties. Now the verse 181 speaks of those who followed the right path. The verse said, “ And among those we have created, there are people who guide with truth and do justice thereby”. That is, they are a people who guide others to the straight path and decide all their matters according to the dictates of truth (the divine law). Ibn Jarir has reported from his own sources that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) recited this verse and said, The people referred to in this verse are my people who shall decide their controversies according to justice and truth and observe justice in all their dealings.|" ` Abd ibn Humaid has reported that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said addressing his companions, |"This verse has been revealed in your favour and prior to you there has been a group of people bearing the same attributes.|" Then he recited this verse: وَمِن قَوْمِ مُوسَىٰ أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ ﴿١٥٩﴾ |"And among the community of Musa there are people who guide with truth and do justice thereby.|" (7:159) That is to say, there was a group of people among the Israelites who had the attributes referred to in this verse, of guiding other people to the truth and deciding their matters according to the law of the Torah. Similarly, the Muslim Ummah has the same attributes as their distinct feature. The essence of the message is firstly, to guide people to the right path in accordance with the dictates of the Shari` ah, and secondly, to decide all their controversies according to the law of Islam. The above two features offer, in fact, the guaranteed way of success, both in this world and in the Hereafter. Any group or individuals who follow the truth and justice in all their modes of life, and do not exhibit their personal prejudices while making judgments even for their enemies, are the people of truth refered to in this verse. The same has been the main characteristic of the Muslim Ummah who strictly observed the demands of truth and justice in all their dealings and overlooked their personal priorities when making judgments between people. The history has recorded unique examples of such truthful practices from the lives of the blessed Companions and their disciples. From the day the Muslims started to show disregard to these two distinctive features of their character, an evident regression started to show itself in every sphere of their life. Remorsefully though, we have to acknowledge that majority of the Muslim Ummah have fallen prey to their personal desires. All their activities, their political, social and educational set ups are motivated by downtrodden worldly gains. Their guidance to other people is mainly aimed at getting some worldly benefits. Most of their family ceremonies are not only devoid of Islamic character, but demonstrate a behaviour opposed to Shari&ah. There are some family traditions designed in the name of religious ceremonies. Any one going against or showing dislike to these innovations has to face active opposition on their part. People are no more interested in organizing themselves purely for the propagation of truth and justice. There is none to make them realize that this course of thought and action has to bring disaster to the Muslims at large. The only way to restore the dignity of the Muslim Ummah and to bring them back to the path. of progress and prosperity is to follow the way of truth and justice suggested by this verse. Conscious efforts should be made to create an awareness of these values among the Muslims.
خلاصہ تفسیر اور ہماری مخلوق جن و انس میں ( سب گمراہ ہی نہیں بلکہ) ایک جماعت ( ان میں) ایسی بھی ہے جو ( دین) حق ( یعنی السلام) کے موافق ( لوگوں کو) ہدایت ( بھی) کرتے ہیں اور اسی کے موافق ( اپنے اور غیروں کے معاملات میں) انصاف بھی کرتے ہیں اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں ہم ان کو بتدریج ( جہنم کی طرف) لئے جارہے ہیں اس طور کہ ان کو خبر بھی نہیں اور ( دنیا میں عذاب نازل کر ڈالنے سے) ان کو مہلت دیتا ہوں، بیشک میری تدبیر بہت مضبوط ہے کیا ان لوگوں نے اس بات میں غور نہ کیا کہ ان کا جن سے سابقہ ہے ان کو ذرا بھی جنون نہیں وہ تو صرف ایک صاف صاف ( عذاب سے) ڈرانے والے ہیں ( جو کہ اصالةً پیغمبر کا کام ہوتا ہے) اور کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا آسمانوں اور زمین کے عالم میں اور ( نیز) دوسری چیزوں میں جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں ( تاکہ ان کو توحید کا علم استدلالی حاصل ہوجاتا) اور اس بات میں ( بھی غور نہیں کیا) کہ ممکن ہے کہ ان کی اجل قریب ہی آپہنچی ہو ( تاکہ احتمال عذاب سے ڈرتے اور اس سے بچنے کی فکر کرتے اور اس فکر سے دین حق مل جاتا اور امکان قرب اجل ہر وقت ہے اور جب قرآن جیسے موثر کلام سے ان کی فکر تک کو حرکت نہیں ہوتی تو) پھر قرآن کے بعد کونسی بات پر یہ لوگ ایمان لائیں گے۔ معارف ومسائل پچھلی آیات میں اہل جہنم کے حالات وصفات اور ان کی گمراہی کا یہ سبب بیان کیا تھا کہ انہوں نے خداداد عقل و بصیرت اور فطری قوتوں کو ان کے اصلی کام میں نہ لگایا اور ضائع کردیا پھر اس کے بعد ان کے مرض کا علاج اسماء الہیہ اور ذکر اللہ کے ذریعہ بتلایا گیا تھا، مذکورہ آیات سے پہلی آیت میں ان کے بالمقابل اہل ایمان اور اہل حق کا ذکر ہے جنہوں نے عقل خداداد سے کام لے کر صحیح راستہ اختیار کیا، ارشاد ہے (آیت) وَمِمَّنْ خَلَقْنَآ اُمَّةٌ يَّهْدُوْنَ بالْحَقِّ وَبِهٖ يَعْدِلُوْنَ ، یعنی جن لوگوں کو ہم نے پیدا کیا ہے ان میں ایک امت ایسی ہے جو حق کے موافق ہدایت کرتے ہیں یعنی لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتے ہیں، اور جب ان کے آپس میں کوئی نزاع یا مقدمہ پیش آئے تو اپنے جھگڑوں کا فیصلہ بھی حق یعنی قانون الہی کے ماتحت کرتے ہیں۔ امام تفسیر ابن جریر نے اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کو تلاوت کرکے ارشاد فرمایا کہ یہ امت جس کا ذکر اس آیت میں ہے، میری امت ہے، جو اپنے سب جھگڑوں کے فیصلے حق و انصاف یعنی قانون الہی کے مطابق کریں گے اور لینے دینے کے تمام معاملات میں حق و انصاف کو سامنے رکھیں گے۔ اور عبد بن حمید کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو خطاب کرکے فرمایا کہ یہ آیت تمہارے حق میں آئی ہے اور تم سے پہلے بھی ایک امت کو یہ صفات عطا ہوچکی ہیں، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی، (آیت) وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓي اُمَّةٌ يَّهْدُوْنَ بالْحَقِّ وَبِهٖ يَعْدِلُوْنَ ، مراد یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت میں بھی ایک جماعت ان صفات کی حامل تھی کہ لوگوں کی رہنمائی میں اور باہمی جھگڑوں کے تصفیہ میں حق یعنی شریعت الہیہ کا مکمل اتباع کرتی تھی، اور امت محمدیہ کو بھی حق تعالیٰ نے ان صفات میں خصوصی امتیاز بخشا ہے۔ خلاصہ اس کا دو خصلتیں ہیں ایک یہ کہ دوسرے لوگوں کی قیادت اور رہنمائی یا مشورہ میں شریعت کا اتباع کریں، دوسرے یہ کہ اگر کوئی جھگڑا آپس میں پیش آجائے تو اس کا فیصلہ شریعت کے قانون کے مطابق کریں۔ غور کیا جائے تو یہی دو صفتیں ہیں جو کسی قوم اور جماعت کی خیر و خوبی اور فلاح دنیا و آخرت کی ضامن ہوسکتی ہیں کہ صلح و جنگ اور دوستی اور عداوت کی ہر حالت میں ان کا نصب العین حق و انصاف ہی ہو، اپنے دوستوں اور رفیقوں کو جو طریقہ کار بتلائیں اس میں بھی حق کا اتباع ہو اور دشمنوں اور حریفوں کے جھگڑوں میں بھی حق کے آگے اپنے سارے خیالات و خواہشات کو ترک کردیں، جس کا خلاصہ ہے حق پر ستی۔ امت محمدیہ کی دوسری تمام امتوں پر فضیلت اور فوقیت کا راز اور ان کا طغرائے امتیاز یہی حق پرستی ہے کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی کو حق کے تابع بنایا، جس جماعت یا پارٹی کی قیادت اور رہنمائی کی وہ بھی خالص حق کے تقاضوں کے مطابق کی، اپنی ذاتی خواہشات اور خاندانی یا قومی رسوم کو اس میں مطلق دخل نہیں دیا، اور باہمی نزاعات میں بھی ہمیشہ حق کے سامنے گردن جھکا دی، صحابہ وتابعین کی پوری تاریخ اس کی آئینہ دار ہے۔ اور جب سے اس امت میں ان دو خصلتوں کے اندر خلل اور نقصان آیا اسی وقت سے اس کا تنزل و انحطاط شروع ہوگیا۔ نہایت رنج و افسوس کا مقام ہے کہ آج یہی حق پرست امت خالص ہوا پرست بن کر رہ گئی ہے، اس کی پارٹیاں اور جماعتیں بنتی ہیں تو وہ بھی خالص نفسانی اغراض اور دنیا کی حقیر و ذلیل منفعت کی بنیادوں پر بنتی ہیں، ایک دوسرے کو جن امور کی پابندی طرف دعوت دی جاتی ہے وہ بھی خالص اہواء نفسانی یا خاندانی رسوم ہوتی ہیں، کوئی ان کے خلاف کرنے لگے تو سب اس کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں، لیکن حق و شریعت کے مطابق چلنے کا نہ کہیں معاہدہ ہوتا ہے نہ کوئی اس کی پیروی کرنے کے لئے کسی کو کہتا ہے نہ اس کی خلاف ورزی کرنے سے کسی کی پیشانی پر بل آتا ہے۔ اسی طرح باہیمی جھگڑوں اور نزاعی مقدمات میں دنیا کے چند روزہ موہوم نفع کی خاطر اللہ کے قانون کو چھوڑ کر طاغوتی قوانین کے ذریعہ فیصلہ کرانے پر راضی ہیں۔ اسی کا یہ انجام بد ہے جو ہر جگہ ہر ملک میں مشاہدہ میں آرہا ہے کہ یہ امت ہر جگہ ذلیل و خوار نظر آتی ہے، الا ماشاء اللہ، انہوں نے حق سے منہ موڑا، حق نے ان کی نصرت و امداد سے رخ پھیرلیا۔ حق پرستی کے بجائے ہَوا پرستی اختیار کرکے شخصی طور پر کسی کسی فرد کو جو دنیوی منافع مل گئے وہ اس پر مگن ہیں، مگر پوری قوم و ملت کی تباہی جو اس کا لازمی نتیجہ ہے اس کا کوئی دیکھنے سننے والا نہیں، اگر پوری امت کی فلاح و ترقی پیش نظر ہو تو اس کے سوا کوئی راہ نہیں کہ ان قرآنی اصول کو مضبوطی سے پکڑا جائے، خود بھی اس پر عمل کیا جائے اور دوسروں کو بھی اس کا پابند بنانے کی کوشش کی جائے۔