Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 181

سورة الأعراف

وَ مِمَّنۡ خَلَقۡنَاۤ اُمَّۃٌ یَّہۡدُوۡنَ بِالۡحَقِّ وَ بِہٖ یَعۡدِلُوۡنَ ﴿۱۸۱﴾٪  12

And among those We created is a community which guides by truth and thereby establishes justice.

اور ہماری مخلوق میں ایک جماعت ایسی بھی ہے جو حق کے موافق ہدایت کرتی ہے اور اس کے موافق انصاف بھی کرتی ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah said, وَمِمَّنْ خَلَقْنَا ... And of those whom We have created, in reference to some nations, ... أُمَّةٌ ... a community, that stands in truth, in words and action, ... يَهْدُونَ بِالْحَقِّ ... who guides (others) with the truth, they proclaim it and call to it, ... وَبِهِ يَعْدِلُونَ and establishes justice therewith. adhere to it themselves and judge by it. It was reported that this Ayah refers to the Ummah of Muhammad. In the Two Sahihs, it is recorded that Muawiyah bin Abi Sufyan said that the Messenger of Allah said, لاَا تَزَالُ طَايِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ لاَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ وَلاَا مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَة There will always be a group of my Ummah who are apparent on the Truth, unabated by those who fail or oppose them, until the (Last) Hour commences. In another narration, the Messenger said, حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللهِ وَهُمْ عَلَى ذَلِك Until Allah's command (the Last Hour) comes while they are still like this. and in yet another narration, وَهُمْ بِالشَّام And they will dwell in Ash-Sham (Greater Syria).

امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف یعنی بعض لوگ حق وعدل پر قائم ہیں ۔ حق بات ہی زبان سے نکالتے ہیں ، حق کام ہی کرتے ہیں ، حق کی طرف ہی اوروں کو بلاتے ہیں ، حق کے ساتھ ہی انصاف کرتے ہیں اور بعض آثار میں مروی ہے کہ اس سے مراد امت محمد یہ ہے چنانجہ حضرت قتادہ فرماتے ہیں مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب اس آیت کی تلاوت فرماتے تو فرماتے کہ یہ تمہارے لئے ہے تم سے پہلے یہ وصف قوم موسیٰ کا تھا ۔ ربیع بن انس فرماتے ہیں کہ حضور کا ارشاد ہے میری امت میں سے ایک جماعت حق پر قائم رہے گی یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ بن مریم اتریں وہ خواہ کبھی بھی اتریں ۔ بخاری و مسلم میں ہے آپ فرماتے ہیں میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر ظاہر رہے گا انہیں ان کی دشمنی کرنے والے کچھ نقصان نہ پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ قیامت آ جائے ایک اور روایت میں ہے یہاں تک کہ اللہ کا امر آ جائے وہ اسی پر رہیں گے ۔ ایک روایت میں ہے ( اس وقت ) وہ شام میں ہوں گے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨٢] ایک فرقہ ہمیشہ حق پر رہتا ہے :۔ بلکہ ہر امت میں ایک گروہ ایسا رہا ہے جو حق پر قائم رہتا ہے خواہ اس کی تعداد کتنی ہی کم ہو اور یہ اس لیے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں پر اتمام حجت ہوتی رہے چناچہ امت محمدیہ کے متعلق بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میری امت (73) تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی تاہم ان میں ایک فرقہ ایسا ہوگا جو ہمیشہ حق پر قائم رہے گا تاآنکہ قیامت قائم ہو۔ (بخاری۔ کتاب الاعتصام۔ باب لاتزال طائفۃ من امتی۔۔ ) اور سیدنا ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم بھی پہلے لوگوں کی راہوں پر جا پڑو گے اگر وہ بالشت بھر بڑھے تو تم ہاتھ بھر بڑھو گے۔ حتیٰ کہ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں گھسے تھے تو تم بھی ضرور گھسو گے۔ ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! پہلے لوگوں سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں ؟ فرمایا اور کون ہیں ؟ (مسلم، کتاب العلم، باب النھی عن اتباع متشابہ القرآن)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمِمَّنْ خَلَقْنَآ اُمَّةٌ يَّهْدُوْنَ بالْحَقِّ : یہی وصف اس سے پہلے آیت (١٥٩) میں موسیٰ (علیہ السلام) کی امت کے بعض اشخاص کا بیان ہوا ہے۔ یہاں مراد امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے، کیونکہ اب حق صرف اس امت کے پاس ہے۔ اس میں صحابہ کرام (رض) ، تابعین، سلف صالحین اور وہ تمام لوگ شامل ہیں جو کتاب و سنت کو چھوڑ کر نئے راستے اختیار نہیں کرتے، بلکہ صرف کتاب و سنت پر خود بھی عمل کرتے ہیں اور دوسرے لوگوں کی بھی اسی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں، کیونکہ حق یہی ہے اور اسی کے مطابق تمام معاملات میں لوگوں کے درمیان انصاف کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ اپنی آخری کوشش تک لگا دیتے ہیں، یعنی جہاد کرتے ہیں۔ معاویہ (رض) نے فرمایا کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا : ” میری امت میں سے ایک گروہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر قائم رہے گا، نہ انھیں وہ شخص نقصان پہنچا سکے گا جو انھیں چھوڑ دے اور نہ وہ جو ان کی مخالفت کرے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آئے گا اور وہ اسی پر قائم ہوں گے۔ “ [ بخاری، المناقب، باب : ٣٦٤١ ] اس جماعت کی خاص صفت کتاب و سنت پر عمل کے ساتھ کفار سے لڑنا بھی ہے۔ جابر بن سمرہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا، مسلمانوں کی ایک جماعت اس کی خاطر لڑتی رہے گی، یہاں تک کہ قیامت قائم ہو۔ “ [ مسلم، الإمارۃ، باب قولہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : لاتزال طائفۃ من أمتی۔۔ : ١٩٢٠ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The previous verses offered a remedy of calling Allah by His good names to those who were neglectfully not making proper use of their faculties. Now the verse 181 speaks of those who followed the right path. The verse said, “ And among those we have created, there are people who guide with truth and do justice thereby”. That is, they are a people who guide others to the straight path and decide all their matters according to the dictates of truth (the divine law). Ibn Jarir has reported from his own sources that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) recited this verse and said, The people referred to in this verse are my people who shall decide their controversies according to justice and truth and observe justice in all their dealings.|" ` Abd ibn Humaid has reported that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said addressing his companions, |"This verse has been revealed in your favour and prior to you there has been a group of people bearing the same attributes.|" Then he recited this verse: وَمِن قَوْمِ مُوسَىٰ أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ ﴿١٥٩﴾ |"And among the community of Musa there are people who guide with truth and do justice thereby.|" (7:159) That is to say, there was a group of people among the Israelites who had the attributes referred to in this verse, of guiding other people to the truth and deciding their matters according to the law of the Torah. Similarly, the Muslim Ummah has the same attributes as their distinct feature. The essence of the message is firstly, to guide people to the right path in accordance with the dictates of the Shari` ah, and secondly, to decide all their controversies according to the law of Islam. The above two features offer, in fact, the guaranteed way of success, both in this world and in the Hereafter. Any group or individuals who follow the truth and justice in all their modes of life, and do not exhibit their personal prejudices while making judgments even for their enemies, are the people of truth refered to in this verse. The same has been the main characteristic of the Muslim Ummah who strictly observed the demands of truth and justice in all their dealings and overlooked their personal priorities when making judgments between people. The history has recorded unique examples of such truthful practices from the lives of the blessed Companions and their disciples. From the day the Muslims started to show disregard to these two distinctive features of their character, an evident regression started to show itself in every sphere of their life. Remorsefully though, we have to acknowledge that majority of the Muslim Ummah have fallen prey to their personal desires. All their activities, their political, social and educational set ups are motivated by downtrodden worldly gains. Their guidance to other people is mainly aimed at getting some worldly benefits. Most of their family ceremonies are not only devoid of Islamic character, but demonstrate a behaviour opposed to Shari&ah. There are some family traditions designed in the name of religious ceremonies. Any one going against or showing dislike to these innovations has to face active opposition on their part. People are no more interested in organizing themselves purely for the propagation of truth and justice. There is none to make them realize that this course of thought and action has to bring disaster to the Muslims at large. The only way to restore the dignity of the Muslim Ummah and to bring them back to the path. of progress and prosperity is to follow the way of truth and justice suggested by this verse. Conscious efforts should be made to create an awareness of these values among the Muslims.

خلاصہ تفسیر اور ہماری مخلوق جن و انس میں ( سب گمراہ ہی نہیں بلکہ) ایک جماعت ( ان میں) ایسی بھی ہے جو ( دین) حق ( یعنی السلام) کے موافق ( لوگوں کو) ہدایت ( بھی) کرتے ہیں اور اسی کے موافق ( اپنے اور غیروں کے معاملات میں) انصاف بھی کرتے ہیں اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں ہم ان کو بتدریج ( جہنم کی طرف) لئے جارہے ہیں اس طور کہ ان کو خبر بھی نہیں اور ( دنیا میں عذاب نازل کر ڈالنے سے) ان کو مہلت دیتا ہوں، بیشک میری تدبیر بہت مضبوط ہے کیا ان لوگوں نے اس بات میں غور نہ کیا کہ ان کا جن سے سابقہ ہے ان کو ذرا بھی جنون نہیں وہ تو صرف ایک صاف صاف ( عذاب سے) ڈرانے والے ہیں ( جو کہ اصالةً پیغمبر کا کام ہوتا ہے) اور کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا آسمانوں اور زمین کے عالم میں اور ( نیز) دوسری چیزوں میں جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہیں ( تاکہ ان کو توحید کا علم استدلالی حاصل ہوجاتا) اور اس بات میں ( بھی غور نہیں کیا) کہ ممکن ہے کہ ان کی اجل قریب ہی آپہنچی ہو ( تاکہ احتمال عذاب سے ڈرتے اور اس سے بچنے کی فکر کرتے اور اس فکر سے دین حق مل جاتا اور امکان قرب اجل ہر وقت ہے اور جب قرآن جیسے موثر کلام سے ان کی فکر تک کو حرکت نہیں ہوتی تو) پھر قرآن کے بعد کونسی بات پر یہ لوگ ایمان لائیں گے۔ معارف ومسائل پچھلی آیات میں اہل جہنم کے حالات وصفات اور ان کی گمراہی کا یہ سبب بیان کیا تھا کہ انہوں نے خداداد عقل و بصیرت اور فطری قوتوں کو ان کے اصلی کام میں نہ لگایا اور ضائع کردیا پھر اس کے بعد ان کے مرض کا علاج اسماء الہیہ اور ذکر اللہ کے ذریعہ بتلایا گیا تھا، مذکورہ آیات سے پہلی آیت میں ان کے بالمقابل اہل ایمان اور اہل حق کا ذکر ہے جنہوں نے عقل خداداد سے کام لے کر صحیح راستہ اختیار کیا، ارشاد ہے (آیت) وَمِمَّنْ خَلَقْنَآ اُمَّةٌ يَّهْدُوْنَ بالْحَقِّ وَبِهٖ يَعْدِلُوْنَ ، یعنی جن لوگوں کو ہم نے پیدا کیا ہے ان میں ایک امت ایسی ہے جو حق کے موافق ہدایت کرتے ہیں یعنی لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتے ہیں، اور جب ان کے آپس میں کوئی نزاع یا مقدمہ پیش آئے تو اپنے جھگڑوں کا فیصلہ بھی حق یعنی قانون الہی کے ماتحت کرتے ہیں۔ امام تفسیر ابن جریر نے اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کو تلاوت کرکے ارشاد فرمایا کہ یہ امت جس کا ذکر اس آیت میں ہے، میری امت ہے، جو اپنے سب جھگڑوں کے فیصلے حق و انصاف یعنی قانون الہی کے مطابق کریں گے اور لینے دینے کے تمام معاملات میں حق و انصاف کو سامنے رکھیں گے۔ اور عبد بن حمید کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو خطاب کرکے فرمایا کہ یہ آیت تمہارے حق میں آئی ہے اور تم سے پہلے بھی ایک امت کو یہ صفات عطا ہوچکی ہیں، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی، (آیت) وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓي اُمَّةٌ يَّهْدُوْنَ بالْحَقِّ وَبِهٖ يَعْدِلُوْنَ ، مراد یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت میں بھی ایک جماعت ان صفات کی حامل تھی کہ لوگوں کی رہنمائی میں اور باہمی جھگڑوں کے تصفیہ میں حق یعنی شریعت الہیہ کا مکمل اتباع کرتی تھی، اور امت محمدیہ کو بھی حق تعالیٰ نے ان صفات میں خصوصی امتیاز بخشا ہے۔ خلاصہ اس کا دو خصلتیں ہیں ایک یہ کہ دوسرے لوگوں کی قیادت اور رہنمائی یا مشورہ میں شریعت کا اتباع کریں، دوسرے یہ کہ اگر کوئی جھگڑا آپس میں پیش آجائے تو اس کا فیصلہ شریعت کے قانون کے مطابق کریں۔ غور کیا جائے تو یہی دو صفتیں ہیں جو کسی قوم اور جماعت کی خیر و خوبی اور فلاح دنیا و آخرت کی ضامن ہوسکتی ہیں کہ صلح و جنگ اور دوستی اور عداوت کی ہر حالت میں ان کا نصب العین حق و انصاف ہی ہو، اپنے دوستوں اور رفیقوں کو جو طریقہ کار بتلائیں اس میں بھی حق کا اتباع ہو اور دشمنوں اور حریفوں کے جھگڑوں میں بھی حق کے آگے اپنے سارے خیالات و خواہشات کو ترک کردیں، جس کا خلاصہ ہے حق پر ستی۔ امت محمدیہ کی دوسری تمام امتوں پر فضیلت اور فوقیت کا راز اور ان کا طغرائے امتیاز یہی حق پرستی ہے کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی کو حق کے تابع بنایا، جس جماعت یا پارٹی کی قیادت اور رہنمائی کی وہ بھی خالص حق کے تقاضوں کے مطابق کی، اپنی ذاتی خواہشات اور خاندانی یا قومی رسوم کو اس میں مطلق دخل نہیں دیا، اور باہمی نزاعات میں بھی ہمیشہ حق کے سامنے گردن جھکا دی، صحابہ وتابعین کی پوری تاریخ اس کی آئینہ دار ہے۔ اور جب سے اس امت میں ان دو خصلتوں کے اندر خلل اور نقصان آیا اسی وقت سے اس کا تنزل و انحطاط شروع ہوگیا۔ نہایت رنج و افسوس کا مقام ہے کہ آج یہی حق پرست امت خالص ہوا پرست بن کر رہ گئی ہے، اس کی پارٹیاں اور جماعتیں بنتی ہیں تو وہ بھی خالص نفسانی اغراض اور دنیا کی حقیر و ذلیل منفعت کی بنیادوں پر بنتی ہیں، ایک دوسرے کو جن امور کی پابندی طرف دعوت دی جاتی ہے وہ بھی خالص اہواء نفسانی یا خاندانی رسوم ہوتی ہیں، کوئی ان کے خلاف کرنے لگے تو سب اس کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں، لیکن حق و شریعت کے مطابق چلنے کا نہ کہیں معاہدہ ہوتا ہے نہ کوئی اس کی پیروی کرنے کے لئے کسی کو کہتا ہے نہ اس کی خلاف ورزی کرنے سے کسی کی پیشانی پر بل آتا ہے۔ اسی طرح باہیمی جھگڑوں اور نزاعی مقدمات میں دنیا کے چند روزہ موہوم نفع کی خاطر اللہ کے قانون کو چھوڑ کر طاغوتی قوانین کے ذریعہ فیصلہ کرانے پر راضی ہیں۔ اسی کا یہ انجام بد ہے جو ہر جگہ ہر ملک میں مشاہدہ میں آرہا ہے کہ یہ امت ہر جگہ ذلیل و خوار نظر آتی ہے، الا ماشاء اللہ، انہوں نے حق سے منہ موڑا، حق نے ان کی نصرت و امداد سے رخ پھیرلیا۔ حق پرستی کے بجائے ہَوا پرستی اختیار کرکے شخصی طور پر کسی کسی فرد کو جو دنیوی منافع مل گئے وہ اس پر مگن ہیں، مگر پوری قوم و ملت کی تباہی جو اس کا لازمی نتیجہ ہے اس کا کوئی دیکھنے سننے والا نہیں، اگر پوری امت کی فلاح و ترقی پیش نظر ہو تو اس کے سوا کوئی راہ نہیں کہ ان قرآنی اصول کو مضبوطی سے پکڑا جائے، خود بھی اس پر عمل کیا جائے اور دوسروں کو بھی اس کا پابند بنانے کی کوشش کی جائے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمِمَّنْ خَلَقْنَآ اُمَّۃٌ يَّہْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِہٖ يَعْدِلُوْنَ۝ ١٨١ ۧ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے الأُمّة : كل جماعة يجمعهم أمر ما إمّا دين واحد، أو زمان واحد، أو مکان واحد سواء کان ذلک الأمر الجامع تسخیرا أو اختیارا، وجمعها : أمم، وقوله تعالی: وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ [ الأنعام/ 38] أي : كل نوع منها علی طریقة قد سخرها اللہ عليها بالطبع، فهي من بين ناسجة کالعنکبوت، وبانية کالسّرفة «4» ، ومدّخرة کالنمل ومعتمدة علی قوت وقته کالعصفور والحمام، إلى غير ذلک من الطبائع التي تخصص بها كل نوع . وقوله تعالی: كانَ النَّاسُ أُمَّةً واحِدَةً [ البقرة/ 213] أي : صنفا واحدا وعلی طریقة واحدة في الضلال والکفر، وقوله : وَلَوْ شاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً واحِدَةً [هود/ 118] أي : في الإيمان، وقوله : وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ [ آل عمران/ 104] أي : جماعة يتخيّرون العلم والعمل الصالح يکونون أسوة لغیرهم، وقوله : إِنَّا وَجَدْنا آباءَنا عَلى أُمَّةٍ [ الزخرف/ 22] أي : علی دين مجتمع . قال : وهل يأثمن ذو أمّة وهو طائع وقوله تعالی: وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ [يوسف/ 45] أي : حين، وقرئ ( بعد أمه) أي : بعد نسیان . وحقیقة ذلك : بعد انقضاء أهل عصر أو أهل دين . وقوله : إِنَّ إِبْراهِيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً لِلَّهِ [ النحل/ 120] أي : قائما مقام جماعة في عبادة الله، نحو قولهم : فلان في نفسه قبیلة . وروي :«أنه يحشر زيد بن عمرو بن نفیل أمّة وحده» وقوله تعالی: لَيْسُوا سَواءً مِنْ أَهْلِ الْكِتابِ أُمَّةٌ قائِمَةٌ [ آل عمران/ 113] أي : جماعة، وجعلها الزجاج هاهنا للاستقامة، وقال : تقدیره : ذو طریقة واحدة فترک الإضمار أولی. الامۃ ہر وہ جماعت جن کے مابین رشتہ دینی ہو یا وہ جغرافیائی اور عصری وحدت میں منسلک ہوں پھر وہ رشتہ اور تعلق اختیاری اس کی جمع امم آتی ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ } ( سورة الأَنعام 38) اور زمین پر جو چلنے پھر نے والے ( حیوان ) دو پروں سے اڑنے والے پرند ہیں وہ بھی تمہاری طرح جماعتیں ہیں ۔ میں امم سے ہر وہ نوع حیوان مراد ہے جو فطری اور ت سخیری طور پر خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہو ۔ مثلا مکڑی جالا بنتی ہے اور سرفۃ ( مور سپید تنکوں سے ) اپنا گھر بناتی ہے اور چیونٹی ذخیرہ اندوزی میں لگی رہتی ہے اور چڑیا کبوتر وغیرہ وقتی غذا پر بھروسہ کرتے ہیں الغرض ہر نوع حیوان اپنی طبیعت اور فطرت کے مطابق ایک خاص قسم کی زندگی بسر کر رہی ہے اور آیت کریمہ :۔ { كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً } ( سورة البقرة 213) ( پہلے تو سب ) لوگ ایک امت تھے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تما لوگ صنف واحد اور ضلالت و کفر کے ہی کے مسلک گامزن تھے اور آیت کریمہ :۔ { وَلَوْ شَاءَ اللهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً } ( سورة المائدة 48) اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ہی شریعت پر کردیتا ۔ میں امۃ واحدۃ سے وحدۃ بحاظ ایمان مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ { وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ } ( سورة آل عمران 104) کے معنی یہ ہیں کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی بھی ہونی چاہیے جو علم اور عمل صالح کا راستہ اختیار کرے اور دوسروں کے لئے اسوۃ بنے اور آیت کریمہ ؛۔ { إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ } ( سورة الزخرف 22 - 23) ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک متفقہ دین پر پایا ہے ۔ میں امۃ کے معنی دین کے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہی ع (25) وھل یاثمن ذوامۃ وھوطائع ( طویل ) بھلا کوئی متدین آدمی رضا اور رغبت سے گناہ کرسکتا ہے اور آیت کریمہ :۔ { وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ } ( سورة يوسف 45) میں امۃ کے معنی حین یعنی عرصہ دارز کے ہیں اور ایک قرات میں بعد امہ ( ربالھاء ) ہے یعنی نسیان کے بعد جب اسے یاد آیا ۔ اصل میں بعد امۃ کے معنی ہیں ایک دور یا کسی ایک مذہب کے متبعین کا دورگزر جانے کے بعد اور آیت کریمہ :۔ { إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا } ( سورة النحل 120) کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ابراہیم عبادت الہی میں ایک جماعت اور قوم بمنزلہ تھے ۔ جس طرح کہ محاورہ ہے ۔ فلان فی نفسہ قبیلۃ کہ فلاں بذات خود ایک قبیلہ ہے یعنی ایک قبیلہ کے قائم مقام ہے (13) وروی انہ یحشر زیدبن عمرابن نفیل امۃ وحدہ اورا یک روایت میں ہے کہ حشر کے دن زید بن عمر و بن نفیل اکیلا ہی امت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ :۔ { لَيْسُوا سَوَاءً مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ } ( سورة آل عمران 113) وہ سب ایک جیسے نہیں ہیں ان اہل کتاب میں کچھ لوگ ( حکم خدا پر ) قائم بھی ہیں ۔ میں امۃ بمعنی جماعت ہے زجاج کے نزدیک یہاں قائمۃ بمعنی استقامت ہے یعنی ذو و طریقہ واحدۃ تو یہاں مضمر متردک ہے حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ عدل العَدَالَةُ والمُعَادَلَةُ : لفظٌ يقتضي معنی المساواة، ويستعمل باعتبار المضایفة، والعَدْلُ والعِدْلُ يتقاربان، لکن العَدْلُ يستعمل فيما يدرک بالبصیرة كالأحكام، وعلی ذلک قوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] ، والعِدُل والعَدِيلُ فيما يدرک بالحاسّة، کالموزونات والمعدودات والمکيلات، فالعَدْلُ هو التّقسیط علی سواء، وعلی هذا روي : «بالعَدْلِ قامت السّموات والأرض» «5» تنبيها أنه لو کان رکن من الأركان الأربعة في العالم زائدا علی الآخر، أو ناقصا عنه علی مقتضی الحکمة لم يكن العالم منتظما . والعَدْلُ ضربان : مطلق : يقتضي العقل حسنه، ولا يكون في شيء من الأزمنة منسوخا، ولا يوصف بالاعتداء بوجه، نحو : الإحسان إلى من أحسن إليك، وكفّ الأذيّة عمّن كفّ أذاه عنك . وعَدْلٌ يُعرَف كونه عَدْلًا بالشّرع، ويمكن أن يكون منسوخا في بعض الأزمنة، کالقصاص وأروش الجنایات، وأصل مال المرتدّ. ولذلک قال : فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة/ 194] ، وقال : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری/ 40] ، فسمّي اعتداء وسيئة، وهذا النحو هو المعنيّ بقوله : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل/ 90] ، فإنّ العَدْلَ هو المساواة في المکافأة إن خيرا فخیر، وإن شرّا فشرّ ، والإحسان أن يقابل الخیر بأكثر منه، والشرّ بأقلّ منه، ورجلٌ عَدْلٌ: عَادِلٌ ، ورجالٌ عَدْلٌ ، يقال في الواحد والجمع، قال الشاعر : 311- فهم رضا وهم عَدْلٌ«1» وأصله مصدر کقوله : وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق/ 2] ، أي : عَدَالَةٍ. قال تعالی: وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری/ 15] ، وقوله : وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء/ 129] ، فإشارة إلى ما عليه جبلّة النّاس من المیل، فالإنسان لا يقدر علی أن يسوّي بينهنّ في المحبّة، وقوله : فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء/ 3] ، فإشارة إلى العَدْلِ الذي هو القسم والنّفقة، وقال : لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة/ 8] ، وقوله : أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] ، أي : ما يُعَادِلُ من الصّيام الطّعام، فيقال للغذاء : عَدْلٌ إذا اعتبر فيه معنی المساواة . وقولهم :«لا يقبل منه صرف ولا عَدْلٌ» «2» فالعَدْلُ قيل : هو كناية عن الفریضة، وحقیقته ما تقدّم، والصّرف : النّافلة، وهو الزّيادة علی ذلک فهما کالعَدْلِ والإحسان . ومعنی أنه لا يقبل منه أنه لا يكون له خير يقبل منه، وقوله : بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام/ 1] ، أي : يجعلون له عَدِيلًا فصار کقوله : هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل/ 100] ، وقیل : يَعْدِلُونَ بأفعاله عنه وينسبونها إلى غيره، وقیل : يَعْدِلُونَ بعبادتهم عنه تعالی، وقوله : بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل/ 60] ، يصحّ أن يكون من قولهم : عَدَلَ عن الحقّ : إذا جار عُدُولًا، وأيّام مُعْتَدِلَاتٌ: طيّبات لِاعْتِدَالِهَا، وعَادَلَ بين الأمرین : إذا نظر أيّهما أرجح، وعَادَلَ الأمرَ : ارتبک فيه، فلا يميل برأيه إلى أحد طرفيه، وقولهم : ( وضع علی يدي عَدْلٍ ) فمثل مشهور «1» . ( ع د ل ) العدالۃ والمعادلۃ کے لفظ میں مساوات کے معنی پائے جاتے ہیں اور معنی اضافی کے اعتبار سے استعمال ہوتا ہے یعنی ایک دوسرے کے ہم وزن اور برابر ہوتا اور عدل عدل کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن عدل کا لفظ معنوی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے احکام شرعیہ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] او عدل ذلک صیاما یا اس کے برابر روزے رکھنا اور عدل وعدیل کے الفاظ ان چیزوں کے لئے بولے جاتے ہیں جن کا اور اک حواس ظاہرہ سے ہوتا ہے جیسے وہ چیزیں جن کا تعلق ماپ تول یا وزن سے ہوتا ہے پس عدل کے معنی دو چیزوں کا برابر ہونا کے ہیں چناچہ اسی معنی میں مروی ہے بالعدل قامت السموت والاارض کہ عدل ہی سے آسمان و زمین قائم ہیں یعنی اگر عناصر اربعہ جن کائنات نے ترکیب پائی ہے میں سے ایک عنصر میں بھی اس کی معینہ مقدار سے کمی یا بیشی ہوجائے تو نظام کائنات قائم نہیں رہ سکتا ، العدل دو قسم پر ہے عدل مطلق جو عقلا مستحن ہوتا ہے یہ نہ تو کسی زمانہ میں منسوخ ہوا ہے اور نہ ہی کسی اعتبار سے تعدی کے ساتھ متصف ہوسکتا ہے مثلا کیسی کے احسان کے بدلہ میں اس پر احسان کرنا اور جو تمہیں تکلف نہ دے اسے ایزا رسانی باز رہنا قغیرہ ۔ دوم عدل شرعی جسے شریعت نے عدل کہا ہے اور یہ منسوخ بھی ہوسکتا ہے جیسے قصاص جنایات کی دیت اور مال مرتد کی اصل وغیرہ چناچہ آیات : ۔ فَمَنِ اعْتَدى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ [ البقرة/ 194] پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ۔ واپس ہی تم اس پر کرو ۔ وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُها [ الشوری/ 40] اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے ۔ میں زیادتی اور برائی کی سزا کا کام بھی زیادتی اور برائی ہی قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسانِ [ النحل/ 90] خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ میں عدل کے یہی معنی مراد کیونکہ کسی چیز کے برابر اس کا بدلہ دینے کا نام عدل یعنی نیکی کا بدلہ نیکی سے اور برائی کا بدلہ برائی سے اور نیکی کے مقابلہ میں زیادہ نیکی اور شر کے مقابلہ میں مسامحت سے کام لینے کا نام احسان ہے اور لفظ عدل واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے رجل عدل عادل ورجال عدل شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 303 ) فھم رضا وھم عدل وہ راضی رہنے والے اور عدال ہیں ۔ دراصل عدل کا لفظ مصدر ہے چناچہ آیت : ۔ وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ [ الطلاق/ 2] اور اپنے میں سے دو منصب مردوں کو گواہ بنالو میں عدل کے معنی عدالہ ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ [ الشوری/ 15] اور مجھے حکم ہوا کہ تم میں انصاف کروں لا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا[ المائدة/ 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر امادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو ۔ انصاف کیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّساءِ [ النساء/ 129] اور تم خواہ کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہر گز برابری نہیں کرسکو گے ۔ میں انسان کے طبعی میلان کی طرف اشارہ ہے کہ تمام بیویوں سے برابر وجہ کی محبت اس کی قدرت سے باہر ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَواحِدَةً [ النساء/ 3] اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ سب عورتوں سے یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت کانی ہے ۔ میں عدل سے نان ونفقہ اور ازواجی تعلقات میں برابر ی مرادی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَوْ عَدْلُ ذلِكَ صِياماً [ المائدة/ 95] اس کے برابر روزے رکھنا ۔ میں عدل سے مراد یہ ہے کہ وہ روزے طعام سے فدیہ کے برابر ہوں کیونکہ فدیہ میں مساوت کے معنی ملحوظ ہوں تو اسے بھی عدل کہہ دیا جاتا ہے اور ( 33 ) لایقبل منہ صرف ولا عدل میں بعض نے کہا ہے کہ عدل کا لفظ فریضہ سے کنایہ ہے مگر اس کے اصل معنی وہی ہیں جو ہم بیان کرچکے ہیں اور صرف کا لفظ نافلۃ سے اور یہ اصل فرض سے بڑھ کر کام کرنے کا نام ہے لہذا یہ باہم تقابل کے اعتبار سے عدل اور احسان کے ہم مثل ہیں اور لایقبل منہ کے معنی یہ ہیں کہ اسکے پاس کسی قسم کی نیکی ہوگی جو قبول کی جائے اور یہ آیت : ۔ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ [ الأنعام/ 1] کے معنی یہ ہیں کہ وہ دوسروں کو خدا کی مثل اور نظیر قرار دیتے ہیں ۔ لہذا یہ آیت : ۔ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ [ النحل/ 100] کے ہم معنی ہوگی بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ وہ افعال الہیہ کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں بعض نے اللہ تعالیٰ کی عبادت سے عدول کرنا مراد لیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ [ النمل/ 60] بلکہ یہ لوگ رستے سے الگ ہورہے ہیں ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہوسکتی ہے یعنی اس کے معنی یعدلون بہ کے ہیں ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ عدل عن الحق سے مشتق ہو جس کے معنی حق سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ ایام معتد لات معتدل زمانہ یعنی جب رات دن برابر ہوتے ہیں ۔ عادل بین الامرین اس نے دو چیزوں کے درمیان موازنہ کیا عادل الامر کسی معاملہ میں پھنس گیا اور کسی ایک جانب فیصلہ نہ کرسکا اور جب کسی شخص کی زندگی سے مایوسی ہوجائے تو اس کے متعلق کہا جاتا ہے : ۔ یعنی اب وہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٨١) اور امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچائی اور حق کا حکم دیتی ہے اور خود بھی حق پر عمل پیرا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٨١ (وَمِمَّنْ خَلَقْنَآ اُمَّۃٌ یَّہْدُوْنَ بالْحَقِّ وَبِہٖ یَعْدِلُوْنَ ) ۔ یقیناً ہر دور میں کچھ لوگ حق کے علمبردار رہے ہیں اور ایسے لوگ ہمیشہ رہیں گے۔ جیسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ضمانت دی ہے : (لَا تَزَالُ طَاءِفَۃٌ مِنْ اُمَّتِیْ ظَاھِرِیْنَ عَلَی الْحَقِّ ) (١) میری امت میں ایک گروہ ضرور حق پر قائم رہے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٨١۔ اس سے اوپر کی آیت میں اللہ پاک نے فرمایا تھا کہ گمراہوں کو دوزخ کے واسطے پیدا کیا گیا ہے اس کے بعد اب اہل جنت کا ذکر اس آیت میں بیان فرمایا کہ دنیا میں ایک گروہ وہ بھی ہے جو ہمیشہ دین حق پر قائم اور اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہے گا اور اپنے ہر کام کا اسی پر دار و مدار رکھ کر فیصلہ کیا کریگا بعضے مفسروں کا قول ہے کہ یہ فرقہ ہر ایک نبی کی امت میں تھا جب سے دنیا قائم ہے اور اکثر مفسرین کا بیان ہے کہ یہ آیت خاص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے کہ امت محمدیہ میں سے ایک گروہ ہے جو ہمیشہ حق پر رہے گا یہاں تک کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اتریں ١ ؎ گے۔ صحیحین میں معاویہ بن ابی سفیان کی حدیث ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ امت محمدیہ میں سے ایک گروہ قیامت تک حق پر قائم رہے گا نہ کسی کی مخالفت اس کو ضرر پہنچائے گی نہ کسی کی بےحرمتی کرنے سے اس کو نقصان پہنچے ٢ ؎ گا۔ جابر (رض) کی صحیح حدیث مسند امام احمد کے حوالہ سے اوپر گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس آخری زمانہ میں اگر موسیٰ (علیہ السلام) زندہ ہوتے تو شریعت محمدی کی پیروی ان پر بھی لازم ہوتی ٣ ؎ ان حدیثوں کی موافق صحیح تفسیر آیت کی یہی ہے کہ اس آخری شریعت سے پچھلی سب شریعتیں منسوخ ہوگئیں اس لئے جس گروہ کا آیت میں ذکر ہے قرآن شریف کے نازل ہونے کے بعد وہ گروہ شریعت محمدی کی پیروی کرنے والے لوگوں کے سوا دوسری کسی امت میں سے لوگوں کا نہیں ہوسکتا کیونکہ پچھلی امتیں تو درکنار اس آخری زمانہ میں شریعت محمدی کی پیروی تو ایسی ضرور ہے کہ پہلے انبیاء پر بھی وہی لازم ہے اس صحیح تفسیر کے بعد مفسروں کا وہ اختلاف بھی اب باقی نہیں رہتا جس کا ذکر اوپر گذرا۔ ١ ؎ تفسیر ہذا جلد اول ص ١٣٨ و جامع ترمذی ص ١٨٦ باب ماجاء فی جامع الدعوات ٢ ؎ الترغیب ج ١ ص ٢٩٩ الترغیب نے کلمات یتفتح بہا الدعا الخ ٣ ؎ تفسیر فتح البیان ص ١٢١ ج ٢

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:181) یعدلون۔ عدل و انصاف کرتے ہیں۔ بہ میں ضمیر الحق کی طرف راجع ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 مراد صحا بہ کرام (رض) تابیعن (رح) یعنی سلف صالح اور وہ لوگ جو ان کے راستے کو چھوڑ کر نئے نئے طر یقے اختیار نہیں کرتے، حدیث میں ہے کہ میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔ ( بخاری مسلم فراخی کے دروازہ کھول دینگے اور خوب مالا مال کر دینگے حتی کہ کہ وہ دنیا کی نعمتوں سے بد مست ہو کر آخرت کی جو ابدہی کو فراموش کر بیٹھینگے نیز دیکھئے سورة الانعام آیت 54 ۔ 55، ( کبیر، ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

تفسیر آیات 181 تا 183:۔ اس کے بعد اب ہدایت و ضلالت کے اعتبار سے لوگوں کی اقسام بیان کی جا رہی ہیں ، اس سے پہلے بتایا جاتا چکا ہے کہ بعض لوگ پیدائشی طور پر جہنمی ہیں۔ ان کے دل ہیں مگر ان کے ساتھ سوچتے نہیں ، ان کی آنکھیں ہیں مگر ان کے ساتھ دیکھتے نہیں ، ان کے کان ہیں مگر ان کے ساتھ سنتے نہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو اللہ کے ناموں میں الحاد کرتے ہیں اور اللہ کے اس حسنیٰ کو غلط جگہ استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک گروہ ایسا بھی ہے جس نے سچائی کو پختگی کے ساتھ پکڑا ہوا ہے اور وہ لوگوں کو بھی سچائی کی طرف بلاتے ہیں۔ وہ سچائی کے مطابق فیصلے صادر کرتے ہیں اور اس سے ذرہ بھر انحراف نہیں کرتے۔ ایک گروہ ایسا ہے جو ضد کی وجہ سے حق کا انکار کرتا ہے۔ اللہ کی آیات کو جھٹلاتا ہے۔ پہلا گروہ تو وہ ہے کہ ان کا وجود اس سرزمین پر مستحکم ہے۔ یہ لوگ جمے ہوئے ہیں اور یہ حق کے نگہبان ہیں۔ اور جو لوگ انحراف کرتے ہیں اور جو ٹیرھی راہوں پر چلتے ہیں یہ ان کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں اور جب دوسرے لوگ حق کی تکذیب کرتے ہیں اور حق کو چھوڑ دیتے یہ لوگ حق کو مضبوطی سے پکڑتے ہیں۔ رہے فریق مخالف تو ان کا انجام خوفناک ہوگا اور ان کے مقابلے میں اللہ کی تدبیر مستحکم ہوگی۔ وَمِمَّنْ خَلَقْنَآ اُمَّةٌ يَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِهٖ يَعْدِلُوْنَ ۔ وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا سَنَسْـتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ ۔ وَاُمْلِيْ لَهُمْ ڵ اِنَّ كَيْدِيْ مَتِيْنٌ۔ ہماری مخلوق میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ ہدایت اور حق کے مطابق انصاف کرتا ہے۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا ہے ، تو انہیں ہم بتدریج ایسے طریقہ سے تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہوگی۔ میں ان کو ڈھیل دے رہا ہوں ، میری چال کا کوئی توڑ نہیں ہے۔ یہ جو حاملین حق ہیں اگر انسانیت میں یہ نہ ہوں تو انسانیت عزت اور شرف کی مستحق ہی نہ ہو ، یہ گروہ جسے قرآن کریم اسلامی اصطلاح کے مطابق امت کہتا ہے اس دنیا میں ہر وقت کسی نہ کسی شکل میں موجود ہوتا ہے۔ یہ وہ جماعت ہوتی ہے جس کا ایک ہی نظریہ ہوتا ہے ، جو اس نظریہ اور عقیدے پر باہم منظم اور مربوط ہوتی ہے اور اس کی قیادت بھی ایک ہی ہوتی ہے۔ یہی امت ہے جو حق پر جمی ہوئی ہے۔ جو حق پر عمل پیرا ہوتی ہے ، اور یہ اس سچائی کی نگہبان ہوتی ہے۔ اور یہ اس نظریہ کی شہادت لوگوں پر دیتی ہے اور گمراہیوں کے خلاف اللہ اس امت کے ذریعے شہادت اور حجت قائم کرتے ہیں۔ اور ذرا اس کی صفت پر غور کریں۔ یہدون بالحق و بہ یعدلون۔ یہ گروہ حق سے ہدایت لیتا ہے اور حق کی ہدایت دیتا ہے اور حق کے مطابق انصاف کرتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کرہ ارض پر سے اس امت کا وجد ختم نہیں ہوسکتا۔ اگرچہ اس کے افراد کی تعداد کم ہوجائے۔ یہ لوگ سچائی کی ہدایت دیتے اور اس کے پیرو میں ہیں اور یہ لوگ کسی بھی وقوت اس دعوت سے خاموش نہیں ہوتے۔ وہ اس حق پر عمل کرتے ہیں اور دوسروں کو اس طرف بلاتے ہیں۔ وہ اس حق کو اپنے تک ہی محدود نہیں رکھتے بلکہ اسے دوسروں تک بھی پہنچاتے ہیں۔ ان کے اردگرد ایسی قیادت موجود ہوتی ہے اور اس قیادت نے حق کو ترک کردیا ہوتا ہے اور انہوں نے اپنے اس فطری عہد کو بھی بھلا دیا ہوتا ہے جو انہوں نے اللہ سے کر رکھا تھا۔ غرض اس گروہ کا عمل مثبت ہوتا ہے اور وہ صرف اپنے آپ تک محدود نہیں ہوتے بلکہ وہ اس کے حامل ہوتے ہیں اور دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ اور وہ اس سچائی کے ساتھ قیادت کرتے ہیں۔ ان کی ڈیوٹی یہاں تک ہی ختم نہیں ہوجاتی کہ بس وہ حق کی دعوت دے دیں بلکہ ان کے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ لوگوں کی زندگیوں میں اس حق کو قائم کریں۔ اس کے مطابق فیصلے کریں۔ دنیا میں نظام عدل قائم کریں اور ظاہر ہے کہ نظام عدل اس حق کے بغیر قائم ہی نہیں ہوسکتا۔ یہ حق اس لیے نہیں آیا کہ اسے صرف پڑھایا جائے اور ایک علمی مشغلہ ہو ، یہ حق اس لیے بھی نہیں آیا کہ یہ محض وعظ اور نصیحت ہو ، بلکہ یہ اس لیے آیا ہے کہ حق لوگوں کے درمیان فیصلے کردے۔ پہلے وہ لوگوں کے اعتقادی تصورات اور نظریات کے فیصلے کرے کہ کیا عقیدہ درست ہے اور کیا نظریہ غلط ہے۔ چناچہ حق سب سے پہلے تطہیر افکار کا کام کرتا ہے اور لوگوں کی فکری اساس کو درست کرتا ہے۔ اس کے بعد یہ حق لوگوں کا ربط اللہ سے قائم کرکے اللہ کے سامنے جو مراسم عبودیت ادا کیے جاتے ہیں ان کو درست کرتا ہے۔ اور اس کے بعد یہ حق لوگوں کا ربط اللہ سے قائم کرکے اللہ کے سامنے جو مراسم عبودیت ادا کیے جاتے ہیں ان کو درست کرتا ہے۔ اور اس کے بعد لوگوں کی اجتماعی زندگی کو اس حق پر استوار کرکے اسے ایک نظام زندگی کی شکل میں قائم کرتا ہے۔ لوگوں کی اجتماعی زندگی اور ان کی سوسائٹی کو حق کے اصولوں پر قائم کرکے ، اس اجتماعی نظام میں حق کے قوانین اور شریعت کو نافذ کرتا ہے۔ چناچہ لوگوں کے اخلاق و عادات ، ان کے رسم و رواج ، ان کے طرز عمل اور سلوک کو سچائی پر ، منظم اور استوار کیا جاتا ہے یہ سب کچھ درست تصورات اور عقائد کی اساس پر ہوتا ہے۔ اس کے بعد لوگوں کے طرز فکر ، ان کے علوام اور ان کی ثقافتی سرگرمیوں کو بھی اس نظام حق پر ترقی دی جاتی ہے۔ یہ ہے وہ ڈیوٹی جو اس امت کو دی گئی ہے۔ اسی کے ساتھ یہ امت ممتاز اور متعارف ہے اور یہ اس امت کی شناخت ہے۔ غرض اس دین کا مزاح بالکل واضح ہے اور اس کے بارے میں کسی قسم کی غلط فہمی یا التباس ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ ٹھوس مزاج ہے اور یہ بدل ہی نہیں سکتا ، جو لوگ دین میں الحد کی مساعی کرنا چاہتے ہیں وہ بسیار سعی نامسعود کے ساتھ دین کے اس سخت مزاج کو بدل نہیں سکتے۔ یہ لوگ اس سلسلے میں ان تھک مساعی کرتے ہیں ، مسلسل اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں ، یہ لوگ ہر قسم کے وسائل و ذرائع کام میں لا کر اس دین کے نقطہ نظر کو بدلنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں تمام تجربات سے استفادہ کرتے ہیں ، اس پوری دنیا میں جو لوگ احیائے اسلام کا کام کرتے ہیں اور جو اس سچائی کو سینے سے لگا کر مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ ان کے خلاف اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ہر حربے کو استعمال کرتے ہیں۔ ان کو مٹانے کی سعی کرتے ہیں اور انہوں نے تمام اسلامی علاقوں میں اپنے ایجنٹوں کی تنظیمیں اور حکومتیں قائم کر رکھی ہیں ، پھر یہ لوگ ان علاقوں پر دین فروش علماء کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور یہ علماء دین اسلام کی تحریف کا کام کرتے ہیں۔ یہ لوگ حرام کو حلال کرتے ہیں اور حلال کو حرام کرتے ہیں ، اللہ کی شریعت کو نرم کرتے ہیں اور ہر قسم کے فسق و فجور کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ، اور فحاشی کو رواج دیتے ہیں ، اور فحاشی اور فسق و فجور کو اسلامی عنوانات دیتے ہیں۔ یہ لوگ ایسے لوگوں کو تلاش کرتے ہیں جو جدید مادی ترقیات سے متاثر ہوں ، اور جدید نظریات سے مرعوب ہوں اور انہیں اپنے جھولوں میں بٹھا کر ورغلاتے ہیں۔ اس طرح یہ لوگ اسلام کو اپنی ٹھوس اساس سے ہٹا کر جدید نظریات کا رنگ دیتے ہیں یوں اسلام کے اندر جدید نظریات ، تہذیب جدید کے شعارات اور جدید رسوم اور قوانین اسلام کے نام سے داخل کرتے ہیں۔ یہ لوگ یہ تاثر دیتے ہیں کہ اسلامی تہذیب ایک تاریخی خادثہ تھا اور اسے کسی صورت میں بھی دوبارہ زندہ نہیں کیا جاسکتا۔ نہ اس حادثے کا اعادہ ممکن ہے۔ یہ لوگ اسلام کی عظمت رفتہ کو رفت و گزشت سے تعبیر کرکے مسلمانوں کے جذبات کو سن کرنا چاہتے ہیں اور پھر ان کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ آج اسلام اگر زندہ رہنا چاہتا ہے تو وہ ایک عقیدے اور مراسم عبودیت تک محدود ہو کر زندہ رہ سکتا ہے۔ اس کا سیاسی اور قانونی نظام نہیں چل سکتا۔ اسلام کے لیے عظمت رفتہ کے قصے کہانیاں ہی بہتر اور کافی و شافی ہیں۔ اگر یہ نہیں تو پھر یہ ممکن ہے کہ اسلام کے اندر اس قدر تغیرات پیدا کیے جائیں کہ وہ جدید دور کے حالات کے تابع ہوجائے اور وہ اپنے آپ کو لوگوں کی خواہشات اور ان کی واقعی صورت حالات کے مطابق ڈھال لے ، اور عالم اسلام میں یہ لوگ خود جو لادینی نظریات رائج کر رہے ہیں ان کو وہ اسلام قرار دینے کے درپے ہیں۔ یہ لوگ قرآن کی ایسی تعبیرات کرتے ہیں جو قدیم قرآن میں متعارف نہ تھیں بلکہ خدا اور جبریل اور مصطفیٰ کو بھی ان کا پتہ نہ تھا۔ یہ لوگ جس طرح قرآن کو بدلنا چاہتے ہیں اسی طرح اسلامی معاشروں کو بھی بدلنا چاہتے ہیں۔ اور یہ اس لیے کہ دین اسلام کو ایسے افراد کار ہی نہ ملیں جو اس کے کام کے ہوں۔ عالم اسلام میں یہ لوگ ایسا معاشرہ وجود میں لانا چاہتے ہیں جو جنسی بےراہ روی گندے کے تالاب میں غرق ہو اور لوگ فحاشی اور بدکاری اور بد اخلاقی میں غرق ہوں اور جنہیں دنیاوی عیش و مستی کے سوا کسی اور غرض سے سروکار نہ ہو اور وہ دنیا میں اس قدر غرق ہوں کہ انہیں حق و صلاحیت اور اصل قرآنی ہدایات سننے کے مواقع ہی نہ ہوں ، اس طرح کہ غلطی سے بھی ان کے کانوں تک اسلامی ہدایات نہ پہنچ سکیں۔ یہ وہ ہمہ گیر معرکہ ہے جو اس وقت امت کے خلاف اور اس دین کے خلاف چار دانگ عالم میں برپا ہے ، وہ امت جو اس دین سے ہدایت لیتی ہے اور اس کی داعی ہے اور جو اس کا نظام عدل دنیا میں قائم کرنا چاہتی ہے۔ یہ وہ ہمہ گیر معرکہ آرائی ہے جس میں دشمنان اسلام ہر قسم کا ہتھیار کام میں لا رہے ہیں۔ بےحد و حساب وسائل اس میں جھونک رہے ہیں۔ اس لیے دشمن اپنی تمام تر قوتوں کو منظر کرکے انہیں وسائل دے کر اور نشر و اشاعت کے تمام ذرائع اور جدید سے جدید ذرائع ابلاغ دے کر میدان میں لایا ہے۔ ان قوتوں کی پشت پر عالمی تنظیمیں اور ادارے ہیں ، اور یہ عالمی کفالت اور ضمانت نہ ہو تو دشمنان اسلام کے یہ ایجنٹ اور یہ ادارے اور حکومتیں اس امت کے داعیوں کے سامنے ایک دن بھی ٹک نہ سکیں۔ لیکن اس ہمہ گیر معرکہ آرائی اور وسیع و عریض مہمات کے باوجود معلوم ہوتا ہے کہ یہ دین نہایت ہی سخت جان دین ہے۔ یہ امت جو اس دین کے لیے کوشاں ہے ، نہایت ہی سخت جان ہے۔ اپنی قلت تعداد اور اپنے قلت وسائل کے باوجود اور اپنی کمزوریوں کے باوجود وہ اس وحشیانہ حملے کے مقابلے میں ڈٹی ہوئی ہے۔ ذرا دوبارہ غور کیجیے۔ وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا سَنَسْـتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ ۔ وَاُمْلِيْ لَهُمْ ڵ اِنَّ كَيْدِيْ مَتِيْنٌ۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا ہے ، تو انہیں ہم بتدریج ایسے طریقہ سے تباہی کی طرف لے جائیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہوگی۔ میں ان کو ڈھیل دے رہا ہوں ، میری چال کا کوئی توڑ نہیں ہے۔ یہ لوگ اس قوت ، اس الہی قوت کو خاطر میں نہیں لاتے ، اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مذکورہ بالا مہم جاری رکھے ہوئے ہیں ، حالانکہ امت مسلمہ نے اسلام کو مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے وہ اسلام کی قوت پر مجتمع ہے۔ یہ وہ قوت ہے کہ آیات الہیہ کی تکذیب کرنے والے اس کو سمجھ نہیں پا رہے ۔ وہ لوگ اس حقیقت کو سمجھ نہیں پا رہے کہ اللہ نے ان لوگوں کو ڈھیل دے رکھی ہے ، اور یہ ڈھیل ایک مقررہ وقت تک ہے ، اور ان کو یہ یقین ہی نہیں ہے کہ اللہ کی تدبیر نہایت ہی مستحکم ہوتی ہے۔ ان دشمنان اسلام نے ایک دوسرے کے ساتھ دوستیاں گانٹھ رکھی ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس زمین پر ان کا راج ہے۔ لیکن یہ لوگ خدا کی قوت کبری کو دیکھ نہیں پا رہے۔ غرض جھٹلانے والوں کے ساتھ اللہ کا معاملہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اللہ ان کو ڈھیل دئیے رکھتا ہے اور سرکشی اور نافرمانی کے لیے انہیں طویل مہلت دیتا ہے۔ چناچہ یہ لوگ اللہ کی اسکیم میں پوری طرح پکڑے جاتے ہیں اور یہ تدبیر عام شخص کی نہیں ہوتی کہ اللہ جیسے جبار اور صاحب قوت متین کی تدبیر ہوتی ہے۔ لیکن دشمنان اسلام غافل ہیں اس بات سے کہ آخری انجام ان لوگوں کا ہی ہوگا جو متقین ہیں اور جو حق پر ہیں اور حق کے داعی ہیں اور حق کا نظام عدالت قائم کرنا چاہتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

179: اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو مذکورہ بالا اوصاف رکھنے والوں کے علاوہ ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

181 اور جن لوگوں کو ہم نے پیدا کیا ہے ان میں سے ایک جماعت ایسی بھی ہے جو دین حق کے موافق لوگوں کو ہدایت بھی کرتی ہے اور اسی دین حق کے مطابق معاملات کے متعلق لوگوں میں انصاف بھی کرتی ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی شرع پر مطلب یہ ہے کہ تمام مخلروق یکساں نہیں ہے جہاں بہت سے برے ہیں وہاں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے کردار اور ان کا انصاف شریعت اسلامی کے موافق ہے۔