Idols do not create, help, or have Power over Anything
Allah admonishes the idolators who worshipped idols, rivals and images besides Him, although these objects were created by Allah, and neither own anything nor can they bring harm or benefit. These objects do not see or give aid to those who worship them. They are inanimate objects that neither move, hear, or see. Those who worship these objects are better than they are, for they hear see and have strength of their own.
Allah said,
أَيُشْرِكُونَ مَا لاَ يَخْلُقُ شَيْياً وَهُمْ يُخْلَقُونَ
Do they attribute as partners to Allah those who created nothing but they themselves are created!
meaning, `Do you associate with Allah others that neither create, nor have power to create anything!'
Allah said in other Ayat,
يأَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَن يَخْلُقُواْ ذُبَاباً وَلَوِ اجْتَمَعُواْ لَهُ وَإِن يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْياً لاأَّ يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ
مَا قَدَرُواْ اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِىٌّ عَزِيزٌ
O mankind! A similitude has been coined, so listen to it (carefully): Verily, those on whom you call besides Allah, cannot create (even) a fly, even though they combine together for the purpose. And if the fly snatches away a thing from them, they will have no power to release it from the fly. So weak are (both) the seeker and the sought. They have not estimated Allah His rightful estimate. Verily, Allah is All-Strong, Almighty. (22:73-74)
Allah states that if all false gods of the disbelievers gather their strength, they would not be able to create a fly. Rather, if the fly steals anything from them, no matter how insignificant, and flew away, they would not be able to retrieve it. Therefore, if an object is this weak, how can it be worshipped and invoked for provisions and aid. This is why Allah said,
لااَ يَخْلُقُ شَيْياً وَهُمْ يُخْلَقُونَ
(... who created nothing but they themselves are created), these worshipped objects themselves were created and made. Prophet Ibrahim Al-Khalil proclaimed,
أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ
("Worship you that which you (yourselves) carve." (37:95).
Allah said next,
انسان کا المیہ خود ساز خدا اور اللہ سے دوری ہے
جو لوگ اللہ کے سوا اوروں کو بوجتے ہیں وہ سب اللہ کے ہی بنائے ہوئے ہیں وہی ان کا پالنے والا ہے وہ بالکل بے اختیار ہیں کسی نفع نقصان کا انہیں اختیار نہیں وہ اپنے پجاریوں کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتے بلکہ وہ تو ہل جل بھی نہیں سکتے دیکھ اور سن بھی نہیں سکتے ۔ ان بتوں سے تو ان کے پجاری ہی توانا تندرست اور اجھے ہیں کہ ان کی آنکھیں بھی ہیں کان بھی ہیں یہ بیوقوف تو انہیں پوجتے ہیں جنہوں نے ساری مخلوق میں سے ایک چیز کو بھی پیدا نہیں کیا بلکہ وہ خود اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے ہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے کہ لوگو آؤ ایک لطیف مثال سنو تم جنہیں پکار رہے ہو یہ سارے ہی جمع ہو کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو ان کی طاقت سے خارج ہے ۔ بلکہ ان کی کمزوری تو یہاں تک ہے کہ کوئی مکھی ان کی کسی چیز کو چھین لے جائے تو یہ اس سے واپس بھی نہیں کر سکتے طلب کرنے والے اور جن سے طلب کی جا رہی ہے بہت ہی بودے ہیں تعجب ہے کہ اتنے کمزوروں کی عبادت کی جاتی ہے جو اپنا حق بھی ایک مکھی سے نہیں لے سکتے وہ تمہاری روزیوں اور مدد پر کیسے قادر ہوں گے؟ حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ کیا تم ان کی عبادت کرتے ہو جنہیں تم خود ہی گھڑتے اور بناتے ہو؟ وہ نہ تو اپنے پجاریوں کی مدد کر سکتے ہیں نہ خود اپنی ہی کوئی مدد کر سکتے ہیں ۔ یہاں تک کہ حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے انہیں توڑ توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا لیکن ان سے یہ نہ ہو سکا کہ اپنے آپ کو ان کے ہاتھ سے بچا لیتے ۔ ہاتھ میں تبر لے کر سب کو چورا کر دیا اور ان معبود ان باطل سے یہ بھی نہ ہو سکا کہ کسی طرح اپنا بچاؤ کر لیتے ، خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی حضرت معاذ بن عمرو بن جموح اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہما یہی کام کرتے تھے کہ رات کے وقت چپکے سے جا کر مشرکین کے بت توڑ آتے اور جو لکڑی کے ہوتے انہیں توڑ کر بیوہ عورتوں کو دے دیتے کہ وہ اپنا ایندھن بنالیں اور قوم کے بت پرست عبرت حاصل کریں ۔ خود حضرت معاذ کا باپ عمرو بن جموح بھی بت پرست تھا یہ دونوں نوجوان دوست وہاں بھی پہنچتے اور اس بت کو پلیدی سے آلودہ کر آتے ۔ جب یہ آتا تو اپنے خدا کو اس حالت میں دیکھ کر بہت پیچ و تاب کھاتا ، پھر دھوتا ، پھر اس پر خوشبو ملتا ۔ ایک مرتبہ اس نے اس کے پاس تلوار رکھ دی اور کہا دیکھ آج تیرا دشمن آئے تو اس تلوار سے اس کا کام تمام کر دینا ۔ یہ اس رات بھی پہنچے اور اس کی درگت کر کے پاخانے سے لیپ کر کے چلے آئے مگر تاہم اسے اثر نہ ہوا صبح کو اسی طرح اس نے دھو دھا کر ٹھیک ٹھاک کر کے خوشبو لگا کر بیٹھا کر ڈنڈوت کی یعنی ( اٹھک بیٹھک ) کی ۔ جب ان دونوں نے دیکھا کہ کسی طرح یہ نہیں مانتا تو ایک رات اس بت کو اٹھا لائے اور ایک کتے کا پلا جو مرا پڑا تھا اس کے گلے میں باندھ دیا اور محلے کے ایک کنویں میں ڈال دیا صبح اس نے اپنے بت کو نہ پا کر تلاش کی تو کنویں میں اسے نظر آیا کہ کتے کے مردہ بچے کے ساتھ پڑا ہوا ہے اب اسے بت سے اور بت پرستی سے نفرت ہو گئی اور اس نے کہا
عربی ( تاللہ لو کنت الھا مستدن لم تک والکلب جمیعافی قرن )
یعنی اگر تو سچ مچ اللہ ہوتا تو کنوئیں میں کتے کے پلے کے ساتھ پڑا ہوا نہ ہوتا پھر حاضر حضور سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے اور مشرف بہ اسلام ہوگئے پھر تو اسلام میں پورے پکے ہوگئے ۔ احد کی لڑائی میں شریک ہوئے اور کفار کو قتل کر تے ہوئے شہید ہوگئے دعا ( رضی اللہ عنہ وارضاہ وجعل جنت الفردوس ماوا ) ۔ انہیں اگر بلا یا جائے تو یہ قبول کرنا تو درکنار سن بھی نہیں سکتے محض پتھر ہیں ، بےجان ہیں ، بے آنکھ اور بےکان ہیں جیسے کہ حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے والد! آپ ان کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو نہ سنیں نہ دیھکیں نہ تجھے کوئی نفع پہنچا سکیں نہ تیرے کسی کام آ سکیں ۔ انہیں پکارنا نہ پکارنا دونوں برابر ہیں ۔ یہ تو تم جیسے ہی بےبس اور اللہ کی مخلوق ہیں بتاؤ تو کبھی انہوں نے تمہاری فریاد رسی کی ہے؟ یا کبھی تمہاری دعا کا جواب دیا ہے؟ حقیقت میں ان سے افضل و اعلیٰ تو تم خود ہو ۔ تم سنتے دیکھتے چلتے پھرتے بولتے چالتے ہو یہ تو اتنا بھی نہیں کر سکتے ۔ اجھا تم ان سے میرا کچھ بگاڑ نے کی درخواست کرو میں اعلان کرتا ہوں کہ اگر ان سے ہو سکے تو بلا تامل اپنی پوری طاقت سے جو میرا بگاڑ سکتے ہوں بگاڑ لیں ۔ سنو میں تو اللہ کو اپنا حمایتی اور مددگار سمجھتا ہوں وہی میرا بچانے والا ہے اور وہ مجھے کافی وافی ہے اسی پر میرا بھروسہ ہے اسی سے میرا لگاؤ ہے ۔ میں ہی نہیں ہر نیک بندہ یہی کرتا ہے اور وہ بھی اپنے تمام سچے غلاموں کی نگہبانی اور حفاظت کرتا رہتا ہے اور کرتا رہے گا ۔ میرے بعد بھی ان سب کا نگراں اور محافظ وہی ہے ۔ حضرت ہود علیہ السلام سے آپ کی قوم نے کہا کہ ہمارا تو خیال ہے کہ تو جو ہمارے معبودوں پر ایمان نہیں رکھتا اسی سبب سے انہوں نے تجھے ان مشکلات میں ڈال دیا ہے ۔ اس کے جواب میں اللہ کے پیغمبر نے فرمایا سنو تم کو اور اللہ کو گواہ کر کے میں کہتا ہوں اور علیٰ الاعلان کہتا ہوں کہ میں تمہارے اللہ کے سوا اور تمام معبودوں سے بری اور بیزار اور ان سب کا دشمن ہوں ۔ تم میرا کچھ بگاڑ سکتے ہو تو بگاڑ لو تمہیں بھی قسم ہے جو ذرا سی کوتاہی کرو ۔ میرا توکل اللہ کی ذات پر ہے تمام جانداروں کی چوٹیاں اسی کے ہاتھ ہیں میرا رب ہی سچی راہ پر ہے حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا تھا کہ تم اور تمہارے بزرگ جن کی پرستش کرتے ہیں میں ان سب کا دشمن ہوں اور وہ مجھ سے دور ہیں سوائے اس رب العالمیں کے جس نے مجھے پیدا کیا اور میری رہبری کی ۔ آپ نے اپنے والد اور قوم سے بھی یہی فرمایا کہ میں تمہارے معبودان باطل سے بری اور بیزار ہوں سوائے اس سچے معبود کے جس نے مجھے پیدا کیا ہے وہی میری رہبری کرے گا ہم نے اسی کلمے کو اس کی نسل میں ہمیشہ کیلئے باقی رکھ دیا تاکہ لوگ اپنے باطل خیالات سے ہٹ جائیں ۔ پہلے تو غائبانہ فرمایا تھا پھر اور تاکید کے طور پر خطاب کر کے فرماتا ہے کہ جن جن کو اللہ کے سوا تم پکارتے ہو وہ تمہاری امداد نہیں کر سکتے اور نہ وہ خود اپنا ہی کوئی نفع کر سکتے ہیں ۔ یہ تو سن ہی نہیں سکتے تجھے تو یہ آنکھوں والے دکھائی دیتے ہیں لیکن دراصل ان کی اصلی آنکھیں ہی نہیں کہ کسی کو دیکھ سکیں ۔ جیسے فرمان ہے کہ اگر تم انہیں پکارو تو وہ سنتے نہیں چونکہ وہ تصاویر اور بت ہیں ان کی مصنوعی آنکھیں ہیں محسوس تو یہ ہوتا ہے کہ وہ دیکھ رہے ہیں لیکن دراصل دیکھ نہیں رہے چونکہ وہ پتھر بصورت انسان ہیں اس لئے ضمیر بھی ذوی العقول کی لائے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد کفار ہیں لیکن اول ہی اولیٰ ہے یہی امام ابن جریر کا اختیار کردہ اور قتادہ کا قول بھی یہی ہے ۔