Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 191

سورة الأعراف

اَیُشۡرِکُوۡنَ مَا لَا یَخۡلُقُ شَیۡئًا وَّ ہُمۡ یُخۡلَقُوۡنَ ﴿۱۹۱﴾۫ۖ

Do they associate with Him those who create nothing and they are [themselves] created?

کیا ایسوں کو شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہ کر سکیں اور وہ خود ہی پیدا کئے گئے ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Idols do not create, help, or have Power over Anything Allah admonishes the idolators who worshipped idols, rivals and images besides Him, although these objects were created by Allah, and neither own anything nor can they bring harm or benefit. These objects do not see or give aid to those who worship them. They are inanimate objects that neither move, hear, or see. Those who worship these objects are better than they are, for they hear see and have strength of their own. Allah said, أَيُشْرِكُونَ مَا لاَ يَخْلُقُ شَيْياً وَهُمْ يُخْلَقُونَ Do they attribute as partners to Allah those who created nothing but they themselves are created! meaning, `Do you associate with Allah others that neither create, nor have power to create anything!' Allah said in other Ayat, يأَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَن يَخْلُقُواْ ذُبَاباً وَلَوِ اجْتَمَعُواْ لَهُ وَإِن يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْياً لاأَّ يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ مَا قَدَرُواْ اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِىٌّ عَزِيزٌ O mankind! A similitude has been coined, so listen to it (carefully): Verily, those on whom you call besides Allah, cannot create (even) a fly, even though they combine together for the purpose. And if the fly snatches away a thing from them, they will have no power to release it from the fly. So weak are (both) the seeker and the sought. They have not estimated Allah His rightful estimate. Verily, Allah is All-Strong, Almighty. (22:73-74) Allah states that if all false gods of the disbelievers gather their strength, they would not be able to create a fly. Rather, if the fly steals anything from them, no matter how insignificant, and flew away, they would not be able to retrieve it. Therefore, if an object is this weak, how can it be worshipped and invoked for provisions and aid. This is why Allah said, لااَ يَخْلُقُ شَيْياً وَهُمْ يُخْلَقُونَ (... who created nothing but they themselves are created), these worshipped objects themselves were created and made. Prophet Ibrahim Al-Khalil proclaimed, أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ ("Worship you that which you (yourselves) carve." (37:95). Allah said next,

انسان کا المیہ خود ساز خدا اور اللہ سے دوری ہے جو لوگ اللہ کے سوا اوروں کو بوجتے ہیں وہ سب اللہ کے ہی بنائے ہوئے ہیں وہی ان کا پالنے والا ہے وہ بالکل بے اختیار ہیں کسی نفع نقصان کا انہیں اختیار نہیں وہ اپنے پجاریوں کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتے بلکہ وہ تو ہل جل بھی نہیں سکتے دیکھ اور سن بھی نہیں سکتے ۔ ان بتوں سے تو ان کے پجاری ہی توانا تندرست اور اجھے ہیں کہ ان کی آنکھیں بھی ہیں کان بھی ہیں یہ بیوقوف تو انہیں پوجتے ہیں جنہوں نے ساری مخلوق میں سے ایک چیز کو بھی پیدا نہیں کیا بلکہ وہ خود اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے ہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے کہ لوگو آؤ ایک لطیف مثال سنو تم جنہیں پکار رہے ہو یہ سارے ہی جمع ہو کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو ان کی طاقت سے خارج ہے ۔ بلکہ ان کی کمزوری تو یہاں تک ہے کہ کوئی مکھی ان کی کسی چیز کو چھین لے جائے تو یہ اس سے واپس بھی نہیں کر سکتے طلب کرنے والے اور جن سے طلب کی جا رہی ہے بہت ہی بودے ہیں تعجب ہے کہ اتنے کمزوروں کی عبادت کی جاتی ہے جو اپنا حق بھی ایک مکھی سے نہیں لے سکتے وہ تمہاری روزیوں اور مدد پر کیسے قادر ہوں گے؟ حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ کیا تم ان کی عبادت کرتے ہو جنہیں تم خود ہی گھڑتے اور بناتے ہو؟ وہ نہ تو اپنے پجاریوں کی مدد کر سکتے ہیں نہ خود اپنی ہی کوئی مدد کر سکتے ہیں ۔ یہاں تک کہ حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے انہیں توڑ توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا لیکن ان سے یہ نہ ہو سکا کہ اپنے آپ کو ان کے ہاتھ سے بچا لیتے ۔ ہاتھ میں تبر لے کر سب کو چورا کر دیا اور ان معبود ان باطل سے یہ بھی نہ ہو سکا کہ کسی طرح اپنا بچاؤ کر لیتے ، خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی حضرت معاذ بن عمرو بن جموح اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہما یہی کام کرتے تھے کہ رات کے وقت چپکے سے جا کر مشرکین کے بت توڑ آتے اور جو لکڑی کے ہوتے انہیں توڑ کر بیوہ عورتوں کو دے دیتے کہ وہ اپنا ایندھن بنالیں اور قوم کے بت پرست عبرت حاصل کریں ۔ خود حضرت معاذ کا باپ عمرو بن جموح بھی بت پرست تھا یہ دونوں نوجوان دوست وہاں بھی پہنچتے اور اس بت کو پلیدی سے آلودہ کر آتے ۔ جب یہ آتا تو اپنے خدا کو اس حالت میں دیکھ کر بہت پیچ و تاب کھاتا ، پھر دھوتا ، پھر اس پر خوشبو ملتا ۔ ایک مرتبہ اس نے اس کے پاس تلوار رکھ دی اور کہا دیکھ آج تیرا دشمن آئے تو اس تلوار سے اس کا کام تمام کر دینا ۔ یہ اس رات بھی پہنچے اور اس کی درگت کر کے پاخانے سے لیپ کر کے چلے آئے مگر تاہم اسے اثر نہ ہوا صبح کو اسی طرح اس نے دھو دھا کر ٹھیک ٹھاک کر کے خوشبو لگا کر بیٹھا کر ڈنڈوت کی یعنی ( اٹھک بیٹھک ) کی ۔ جب ان دونوں نے دیکھا کہ کسی طرح یہ نہیں مانتا تو ایک رات اس بت کو اٹھا لائے اور ایک کتے کا پلا جو مرا پڑا تھا اس کے گلے میں باندھ دیا اور محلے کے ایک کنویں میں ڈال دیا صبح اس نے اپنے بت کو نہ پا کر تلاش کی تو کنویں میں اسے نظر آیا کہ کتے کے مردہ بچے کے ساتھ پڑا ہوا ہے اب اسے بت سے اور بت پرستی سے نفرت ہو گئی اور اس نے کہا عربی ( تاللہ لو کنت الھا مستدن لم تک والکلب جمیعافی قرن ) یعنی اگر تو سچ مچ اللہ ہوتا تو کنوئیں میں کتے کے پلے کے ساتھ پڑا ہوا نہ ہوتا پھر حاضر حضور سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے اور مشرف بہ اسلام ہوگئے پھر تو اسلام میں پورے پکے ہوگئے ۔ احد کی لڑائی میں شریک ہوئے اور کفار کو قتل کر تے ہوئے شہید ہوگئے دعا ( رضی اللہ عنہ وارضاہ وجعل جنت الفردوس ماوا ) ۔ انہیں اگر بلا یا جائے تو یہ قبول کرنا تو درکنار سن بھی نہیں سکتے محض پتھر ہیں ، بےجان ہیں ، بے آنکھ اور بےکان ہیں جیسے کہ حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے والد! آپ ان کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو نہ سنیں نہ دیھکیں نہ تجھے کوئی نفع پہنچا سکیں نہ تیرے کسی کام آ سکیں ۔ انہیں پکارنا نہ پکارنا دونوں برابر ہیں ۔ یہ تو تم جیسے ہی بےبس اور اللہ کی مخلوق ہیں بتاؤ تو کبھی انہوں نے تمہاری فریاد رسی کی ہے؟ یا کبھی تمہاری دعا کا جواب دیا ہے؟ حقیقت میں ان سے افضل و اعلیٰ تو تم خود ہو ۔ تم سنتے دیکھتے چلتے پھرتے بولتے چالتے ہو یہ تو اتنا بھی نہیں کر سکتے ۔ اجھا تم ان سے میرا کچھ بگاڑ نے کی درخواست کرو میں اعلان کرتا ہوں کہ اگر ان سے ہو سکے تو بلا تامل اپنی پوری طاقت سے جو میرا بگاڑ سکتے ہوں بگاڑ لیں ۔ سنو میں تو اللہ کو اپنا حمایتی اور مددگار سمجھتا ہوں وہی میرا بچانے والا ہے اور وہ مجھے کافی وافی ہے اسی پر میرا بھروسہ ہے اسی سے میرا لگاؤ ہے ۔ میں ہی نہیں ہر نیک بندہ یہی کرتا ہے اور وہ بھی اپنے تمام سچے غلاموں کی نگہبانی اور حفاظت کرتا رہتا ہے اور کرتا رہے گا ۔ میرے بعد بھی ان سب کا نگراں اور محافظ وہی ہے ۔ حضرت ہود علیہ السلام سے آپ کی قوم نے کہا کہ ہمارا تو خیال ہے کہ تو جو ہمارے معبودوں پر ایمان نہیں رکھتا اسی سبب سے انہوں نے تجھے ان مشکلات میں ڈال دیا ہے ۔ اس کے جواب میں اللہ کے پیغمبر نے فرمایا سنو تم کو اور اللہ کو گواہ کر کے میں کہتا ہوں اور علیٰ الاعلان کہتا ہوں کہ میں تمہارے اللہ کے سوا اور تمام معبودوں سے بری اور بیزار اور ان سب کا دشمن ہوں ۔ تم میرا کچھ بگاڑ سکتے ہو تو بگاڑ لو تمہیں بھی قسم ہے جو ذرا سی کوتاہی کرو ۔ میرا توکل اللہ کی ذات پر ہے تمام جانداروں کی چوٹیاں اسی کے ہاتھ ہیں میرا رب ہی سچی راہ پر ہے حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا تھا کہ تم اور تمہارے بزرگ جن کی پرستش کرتے ہیں میں ان سب کا دشمن ہوں اور وہ مجھ سے دور ہیں سوائے اس رب العالمیں کے جس نے مجھے پیدا کیا اور میری رہبری کی ۔ آپ نے اپنے والد اور قوم سے بھی یہی فرمایا کہ میں تمہارے معبودان باطل سے بری اور بیزار ہوں سوائے اس سچے معبود کے جس نے مجھے پیدا کیا ہے وہی میری رہبری کرے گا ہم نے اسی کلمے کو اس کی نسل میں ہمیشہ کیلئے باقی رکھ دیا تاکہ لوگ اپنے باطل خیالات سے ہٹ جائیں ۔ پہلے تو غائبانہ فرمایا تھا پھر اور تاکید کے طور پر خطاب کر کے فرماتا ہے کہ جن جن کو اللہ کے سوا تم پکارتے ہو وہ تمہاری امداد نہیں کر سکتے اور نہ وہ خود اپنا ہی کوئی نفع کر سکتے ہیں ۔ یہ تو سن ہی نہیں سکتے تجھے تو یہ آنکھوں والے دکھائی دیتے ہیں لیکن دراصل ان کی اصلی آنکھیں ہی نہیں کہ کسی کو دیکھ سکیں ۔ جیسے فرمان ہے کہ اگر تم انہیں پکارو تو وہ سنتے نہیں چونکہ وہ تصاویر اور بت ہیں ان کی مصنوعی آنکھیں ہیں محسوس تو یہ ہوتا ہے کہ وہ دیکھ رہے ہیں لیکن دراصل دیکھ نہیں رہے چونکہ وہ پتھر بصورت انسان ہیں اس لئے ضمیر بھی ذوی العقول کی لائے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد کفار ہیں لیکن اول ہی اولیٰ ہے یہی امام ابن جریر کا اختیار کردہ اور قتادہ کا قول بھی یہی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩٠] مخلوق الٰہ نہیں ہوسکتی :۔ اس آیت میں الوہیت کا یہ معیار پیش کیا گیا ہے کہ جو مخلوق ہو وہ الٰہ نہیں ہوسکتی۔ اس معیار کے مطابق اللہ کے سوا سب الٰہ باطل قرار پاتے ہیں خواہ وہ فرشتے ہوں یا انبیاء ہوں، یا شجر و حجر ہوں یا اولیاء و بزرگ ہوں، خواہ وہ زندہ ہوں یا فوت شدہ۔ کیونکہ ان میں سے ہر چیز اللہ کی مخلوق ہے اور جو مخلوق ہے وہ فانی بھی ہوگا اور جو فانی ہے وہ الٰہ نہیں ہوسکتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَيُشْرِكُوْنَ مَا لَا يَخْلُقُ شَـيْــــًٔـا۔۔ : اس سلسلۂ کلام سے مقصود بتوں کی پرستش کی تردید ہے کہ ان میں معبود ہونے کی کوئی صفت نہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ انھوں نے کوئی چیز پیدا ہی نہیں کی، حتیٰ کہ وہ سب جمع بھی ہوجائیں تو مکھی تک بنانا بلکہ اس سے چھینی ہوئی چیز واپس لینا بھی ان کے اختیار میں نہیں۔ دیکھیے سورة حج (٧٣) وہ خود مخلوق ہیں، اپنے پوجنے والوں کی مدد تو درکنار اگر خود انھیں کوئی توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے تو وہ اپنے آپ کو بھی نہیں بچا سکتے، تو پھر خالق کو چھوڑ کر اس بےبس مخلوق کی پوجا کیوں ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَ يُشْرِكُوْنَ مَا لَا يَخْلُقُ شَـيْــــًٔـا وَّہُمْ يُخْلَقُوْنَ۝ ١٩١ ۡۖ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩١) اللہ تعالیٰ ان بتوں کے شرک سے بالکل پاک ہے، یہ بت کسی کو بھی پیدا نہیں کرسکتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩١ (اَیُشْرِکُوْنَ مَالاَ یَخْلُقُ شَیْءًا وَّہُمْ یُخْلَقُوْنَ ) ۔ فرشتے ‘ جنات ‘ انبیاء اور اولیاء اللہ سب کے سب خود اللہ کی مخلوق ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٩١۔ ١٩٨۔ ان آیتوں میں اللہ پاک نے مشرکوں کو یہ تنبیہ فرمائی کہ کیا تم ایسی چیزوں کو معبود ٹھہراتے ہو جن میں کسی شے کے پیدا کرنے کی قدرت نہیں ہے بلکہ وہ خود مخلوق ہیں اور عبادت تو خالق کارساز کو زیبا ہے مخلوق کسی طرح عبادت کی مستحق نہیں ہے ان بتوں سے تو ہزار درجہ تم بہتر ہو کر تم میں چلنے پھرنے کی طاقت ہے کھاتے پیتے ہو بتوں میں کیا قدرت ہے اگر کوئی آکر ان کے ٹکڑے کر ڈالے تو یہ کیا بچاؤ اپنا کرسکتے ہیں پھر جب اپنا اختیار انہیں نہیں ہے اور اپنے نفع نقصان سے بالکل یہ بیخبر ہیں تو تمہاری کیا مدد کرسکتے ہیں ایک مکھی جس میں کچھ بھی سکت نہیں ہے اگر ان کے پاس سے کوئی کھانے کی چیز لے بھاگے تو ان کا اتنا بس نہیں چل سکتا کہ اس مکھی سے چھوڑا لیویں تو پھر یہ دوسروں کو کیا مدد دے سکتے ہیں اگر تم ان کو کسی مطلب کے لئے بلاؤ تو ہرگز نہیں آئیں گے کیونکہ ان میں بصارت نہیں سننے کی قوت نہیں ان کو تمہارا پکارنا اور نہ پکارنا برابر ہے وہ تو خدا کی مخلوق میں تم سے بدتر ہیں تم انسان اشرف المخلوقات ہو اور یہ بت پتھر کی مورتیں ہیں اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو ان کو پکار کر دیکھو نہ ان کے پیر ہیں جو وہ جل سکیں نہ ان کے ہاتھ ہیں جو وہ کوئی چیز پکڑ سکیں نہ آنکھیں ہیں جو کسی شی کو دیکھیں نہ کان رکھتے ہیں جو کسی کی آواز سنیں پھر حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے فرمایا کہ ان مشرکوں سے کہو کہ تم اپنے معبودوں کی دہمکیاں دے کر کیا ڈراتے ہو جہاں تک ہو سکے کمی نہ کرو اپنے سارے معبودوں کو پکار کر اور جو کچھ جی میں آئے کر گزرو مجھے اس سے کچھ ضرر نہیں پہنچ سکتا کیونکہ میرا ولی اور حمایتی خدا وحدہ لاشریک ہے جس نے اپنے رسولوں پر کتابیں اتاریں ہیں وہ میری حمایت کریگا اور نیک لوگوں کی بھی وہی حمایت کرتا ہے اور جو معبود تمہارے ہیں ان میں خاک کسی قسم کی قدرت نہیں ہے نہ اپنی ذات کی بھلائی کی قدرت انہیں حاصل ہے نہ تمہیں کچھ ان سے مدد مل سکتی ہے اگر تم انہیں پکارو بھی تو وہ نہیں سن سکتے ہیں ظاہر میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ تمہیں دیکھ رہے ہیں بلکہ جو شخص ان تصویروں کی طرف نظر کرتا ہے اسے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ بت ادھر ہی نظر کئے ہوئے ہیں مگر درحقیقت آنکھ تو ہے نہیں جو دیکھ سکیں اہل معازی نے یہاں ایک قصہ بیان کیا ہے کہ جب حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ منورہ میں ہجرت کر کے آئے تو دو جوان معاذ بن عمر دالجموع (رض) اور معاذ بن جبل (رض) آپ کے پاس آکر مسلمان ہوگئے یہ دونوں راتوں کو توڑتے تھے تاکہ ان کی قوم کو عبرت ہو ایک اور شخص عمر بن الجموح اپنی قوم میں سردار شمار کیا جاتا تھا اس کے یہاں ایک بت تھا جس کو وہ روز خوشبو مل کر عبادت کرتا تھا یہ دونوں رات کو جاکر اس بت کو اوندھا کردیتے تھے اور نجاست اس کے بدن میں مل دیتے تھے عمر وبن الجموح صبح آکر دیکھتا تھا اور پھر وہ خوشبو لا کر اس کو ملتا تھا، ایک روز اس نے اس بت کے پاس تلوار رکھ دی تاکہ جو شخص اس بت کو تکلیف دینے آتا ہے اس سے بدلا لیوے مگر اس پتھر کے بت سے کیا ہوسکتا تھا جو ان دونوں سے کچھ بھی بدلا لیتا ایک روز ان دونوں نے اس بت کو کھینچ کر ایک مردار کتے کے پاس ڈال دیا پھر ایک روز اس بت کے پیر میں رسی باندھ کر اس کو کنویں میں لٹکا دیا آخر عمر وبن الجموح کی دل میں خیال گذرا کہ یہ دین محض ڈھکوسلا ہے یہ بت کچھ بھی قدرت نہیں رکھتے اور توبہ کر کے مسلمان ہوگیا اور ایسا پکا مسلمان ہوا کہ شہادت کا درجہ پایا جنگ احد میں شہید ہوگیا۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے انس بن مالک (رض) کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مشرک لوگ تمام دنیا کو جرمانہ کے طور پر معاوضہ دے کر دوزخ کے عذاب سے قیامت کے دن نجات چاہیں گے تو ان کی نجات ممکن نہیں ١ ؎ اسی طرح صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوسعید خدری (رض) کی حدیث بھی گذر چکی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص کے دل میں ذرا برابر بھی توحید ہوگی وہ دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کیا جاویگا ٢ ؎ ان حدیثوں کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیتوں اور حدیثوں کو بلا کر یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ مشرک کو تمام دنیا کا مال ومتاع عذاب سے بچنے کے لئے کافی نہیں اور صاحب توحید کو ذرہ برابر توحید بھی کافی ہوجاوے گی حاصل کلام یہ ہے کہ جو شخص ایسی حالت میں مریگا کہ سوا شرک کے اور طرح طرح کے گناہوں میں مبتلا ہوگا تو یہ بات اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ چاہے اللہ تعالیٰ بغیر کسی عذاب کے اس کو جنت میں داخل کرلے چاہے کسی قدر عذاب کے بعد مگر مشرک سے حق تعالیٰ کا وعدہ یہ ہے کہ اس کا نجات کسی طرح ممکن نہیں ہے۔ ١ ؎ یعنی ٣٢١ پر بحوالہ تفسیر ابن کثیر ج ٢ ص ٢٦١ ٢ ؎ صحیح بخاری ج ٢ ص ١١٠٧ باب قول اللہ وجوہ یومئذ ناضرۃ ابی ربھا ناظرۃ۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:191) مالا یخلق۔ میں ما موصولہ ہے۔ لا یخلق اور ہم یخلقون میں دونوں ضمیروں کا مرجع ما موصولہ ہے۔ لیکن یخلق میں ھو (مستتر) ضمیر واضد ہے اور یخلقون میں ہم ضمیر جمع ہے اس کی توضیح علماء نے یوں کی ہے کہ ما موصولہ کی دو حیثیتیں ہیں۔ لفظی اعتبار سے وہ واحد ہے اور لا یخلق میں اس کی اسی حیثیت کو معتبر رکھا گیا ہے اور معنوی لحاظ سے جمع ہے اور ہم یخلقون میں اسی معنوی حیثیت کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ دوسری بات جو یہاں غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ شرکاء سے یہاں مراد بت ہیں۔ اور وہ بےجان تھے قاعدہ کے مطابق تو ان کے لئے ضمیر مؤنث ہونی چاہیے تھی لیکن یہاں جمع مذکر کا صیغہ استعمال ہوا ہے اس کی توجیہہ یوں کی گئی ہے کہ کفار و مشرکین کا عقیدہ ان کے متعلق یہ تھا کہ یہ بت عقل و حیات رکھتے ہیں۔ اس لئے ان کے عقیدہ کے مطابق ان کا ذکر کیا گیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن ۔ لا یخلق۔ پیدا نہیں کیا۔ لا یتبعوکم۔ وہ تمہاری پیروی نہ کریں گے۔ صامتون۔ چپ رہنے والے۔ عباد۔ (عبد) ۔ بندے۔ فلیستجیبوا۔ پھر چاہیے کہ وہ کہا مانیں۔ ارج۔ (رجل) ۔ پاؤں۔ یمشون۔ وہ چلتے ہیں۔ یبطشون۔ وہ پکڑتے ہیں۔ کیدون۔ تم میرے خلاف تدبیریں کرو۔ لا تنظرون۔ مجھے مہلت نہ دو ۔ ولی اللہ۔ میرا حمایتی اللہ ہے۔ یتولی۔ وہ سنھالتا ہے۔ تشریح : سورة الاعراف چونکہ ختم پر ہے چناچہ اس سورت کی تمام باتوں کو شرک کی نفی میں مختصر جملوں میں سمیٹ دیا گیا ہے۔ اور یاددھانی کے طور پر ان کا نچوڑ پیش کردیا گیا ہے بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی ضروری ہدایات دی جا رہی ہیں۔ یہ سورة مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی جس سے اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ مکہ کی زندگی میں مشرکین مکہ کا سلوک آپ کے ساتھ اور آپ کے صحابہ (رض) کے ساتھ کیا ہوگا۔ شرک میں تین چیزیں ملی جلی ہوتی ہیں (1) عقیدہ (2) مظاہر عقیدہ یعنی بت درخت، سانپ، آگ، جادو، بارش، کڑک، وغیرہ۔ (3) ۔ رسومات پرستش۔ ان تینوں باتوں میں سب سے اہم مظاہر عقیدہ ہیں ان کے گرد ہی عقیدے اور پرستش کے سارے طریقے گھومتے نظر آتے ہیں۔ چناچہ ان آیات کا ہدف یہ مظاہر ہی ہیں ان دنوں بیم اور آج بھی بتوں اور شرک کی دوسری چیزوں کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے یہاں قرآن کریم کے دلائل درج ذیل ہیں۔ 1) یہ بت جو لوگوں کے ہاتھوں سے تراشتے ہوئے ہیں اپنی تخلیق میں دوسروں کے ہاتھوں کے محتاج ہیں نہ خود ہل سکتے ہیں نہ چل سکتے ہیں ایک چیونٹی کو بھی پیدا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ اگر کوئی ان کو توڑ دے تو یہ اپنا بچائو نہیں کرسکتے جس کا جی چاہے وہ توڑ دے یا پھینک دے یہ احتجاج بھی نہیں کرسکتے۔ جو اس قدر بےبس اور بےحس ہوں وہ نہ تو خالق ہیں نہ مالک ہیں نہ کسی کو نفع دے سکتے ہیں نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ 2) ان کے پاس نہ دماغ ہے نہ دل ہے جو صحیح اور غلط راہ کے درمیان تمیز کرسکے۔ 3) یہ اسی طرح کی مخلوق ہیں جیسے اور مجبورو محکوم ہیں۔ 4) ان میں دعا قبول کرنے یا نہ کرنے کی کوئی صلاحیت نہیں۔ ان کے پاس کچھ نہیں ہے جو وہ اپنے مانگنے والوں کو دے 5) ان کے پاس نہ پاؤں ہیں، نہ ہاتھ، نہ آنکھیں نہ کان۔ ان کے چہروں پر قلم سے یا پینٹ سے آنکھیں بنا دی گئی ہیں مگر وہ ایسی آنکھیں ہیں جن میں کوئی نور اور روشنی نہیں ہے۔ 6) یہ مجہول و مفعول اگر سارے کے سارے جمع ہوجائیں تو نہ کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ بگرے ہوئے کو سنوار سکتے ہیں۔ پھر ایسی بےحقیقت چیزوں سے مانگنا اور ان کو اپنا حاجت روا ماننا کہاں کا انصاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے مومنو ! آج ساری دنیا اس دھوکے میں مبتلا ہے ان کو ہماری طرف سے باخبر کردو اور ان کی بند آنکھوں کو کھول دو ۔ اور اس راستے میں کسی طرح کی فکر مت کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول اور اس کے راستے پر چلنے والوں کو خوف محافظ ہے۔ یہ بت اور ان کے ماننے والے اہل ایمان کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے۔ یہ وہ دلائل ہیں جو ان کے من گھڑت معبودوں کے خلاف بیان کئے گئے ہیں ان دلائل کی موجودگی میں کسی ہٹ دھرمی، کج بحشی ور کسی طرح کی باتوں کی گنجائش نہیں ہے لیکن پھر بھی ان بتوں کا بازار کیوں گرم ہے۔ غور کیا جائے تو صرف یہ بات نکل کر آئے گی کہ اس میں ذاتی مفاد اور ہر عمل کرنے کی آزادی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

186: مشرکین کی انتہائی کم عقلی اور ہٹ دھرمی کا ذکر فرمایا کہ وہ کیسی عاجز مخلوق کو خدا کے ساتھ شریک بناتے ہیں وہ اس قدر عاجز و لاچار ہیں کہ اپنی مدد نہیں کرسکتے تو ان کی کیا مدد کریں گے۔ “ وَ اِنْ تَدْعُوْھُمْ اِلَی الْھُدٰي الخ ” خطاب مشرکین سے ہے اور اس میں ان کے معبودوں کی انتہائی بےبسی کا بیان ہے۔ یعنی تمہاری مدد کرنا تو درکنار وہ تو تمہاری بات کا جواب بھی نہیں دے سکت۔ ان میں اتنی قدرت ہی نہیں۔ “ والمعنی ان ھذا المعبود الذي یعبدہ المشرکون معلوم من حاله انه کما لا ینفع ولا یضر فکذا لا یصح فیه اذا دعی الی الخیر الاتباع ” (کبیر ج 4 ص 492) یا خطاب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام سے ہے اور “ اَلْھُدٰي ” سے دین اسلام مراد ہے۔ یعنی اگر آپ ان مشرکین کو توحید اور دین اسلام کی دعوت دیں تو ان پر کوئی اثر نہیں ہوگا اور وہ آپ کی بات نہیں مانیں گے۔ علامہ آلوسی نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

191 کیا یہ لوگ ایسوں کو خدا کا شریک تجویز کرتے ہیں اور ایسوں کو شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کو بھی پیدا نہیں کرسکتے اور ان کی حالت یہ ہے کہ وہ خود ہی مخلوق اور اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے ہیں۔ یعنی لوگوں کو حالت یہ ہے کہ جب حمل ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے ہیں کہ ساتھ خیر کے تندرست اور صحیح سالم بچہ عنایت فرما جب بچہ حسب منشا ہوجاتا ہے تو دوسروں کی طرف اس اولاد کو منسوب کرتے ہیں کہ فلاں بزرگ یا فلاں پیر یا فلاں دیوتا نے دیا ہے یا اس کے شرکیہ نام رکھتے ہیں یا غیروں کے روبرو بچہ سے ماتھارکھواتے ہیں کہ تم نے یہ اولاد دی ہے۔ یہ سب باتیں شرک ہیں جو پیر یا دیوتا خود ہی پیدا ہونے میں اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے وہ کسی کو کیا پیدا کرسکتا ہے یا کسی کو کیا اولاد دے سکتا ہے ان تمام شرکیہ اور شرک آمیز باتوں سے اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے اور بلند ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اس آیت میں مرد اور عورت کو فرمایا ہے آدم (علیہ السلام) اور حواؔ کو نہیں گو اول ان کا ذکر ہوچکا یا یوں کہئے کہ جو کچھ انسانوں میں ہونا مقدر تھا وہ حضرت آدم (علیہ السلام) میں اول ظہورپکڑ گیا اس میں وہ نمونہ تقدیر تھے اولاد کے گناہ ان میں نظر آئے جیسے آئینے میں صورت… چناچہ نفس کی خواہش اور اللہ کی بےحکمی اور کہہ کر بھول جانا اور دے کر منکر ہونا یہ سب اولاد کی خوئیں ان میں نظر آچکیں۔ 12 اس آیت میں مفسرین کے دو 2 قول تھے ایک یہ کہ اس قسم کا واقعہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حوا کو پیش آیا اور دوسرا قول یہ ہے کہ ان کی اولاد اور اولاد کی اولاد کی حالت کا ذکر فرمایا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) نے دوسرے قول کو ترجیح دی اور پہلے قول کی توجیہہ فرمائی۔