Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 199

سورة الأعراف

خُذِ الۡعَفۡوَ وَ اۡمُرۡ بِالۡعُرۡفِ وَ اَعۡرِضۡ عَنِ الۡجٰہِلِیۡنَ ﴿۱۹۹﴾

Take what is given freely, enjoin what is good, and turn away from the ignorant.

آپ درگز ر کواختیار کریں نیک کام کی تعلیم دیں اور جاہلوں سے ایک کنارہ ہوجائیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Showing Forgiveness Allah says; خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ Show forgiveness, enjoin Al-'Urf (the good), and turn away from the foolish (don't punish them). Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam commented on Allah's statement, خُذِ الْعَفْوَ (Show forgiveness), "Allah commanded (Prophet Muhammad) to show forgiveness and turn away from the idolators for ten years. Afterwards Allah ordered him to be harsh with them." And more than one narration from Mujahid says, "From the (bad) behavior and actions of the people, of those who have not committed espionage." And Hashim bin Urwah said that his father said, "Allah ordered Allah's Messenger to pardon the people for their behavior." And in one narration, "pardon what I have allowed you of their behavior." In Sahih Al-Bukhari it is recorded that Hisham reported from his father Urwah from his brother Abdullah bin Az-Zubayr who said; "(The Ayah); خُذِ الْعَفْوَ (Show forgiveness) was only revealed about the peoples (bad) character." There is a narration from Mughirah from Hisham from his father from Ibn Umar; and another from Hisham from his father from A'ishah, both of whom said similarly. And Allah knows best. Ibn Jarir and Ibn Abi Hatim recorded that Yunus said that Sufyan bin Uyaynah narrated that Umay said, "When Allah, the Exalted and Most Honored, revealed this Ayah, خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ (Show forgiveness, enjoin Al-`Urf (what is good), and turn away from the foolish), to His Prophet, the Messenger of Allah asked, مَا هَذَا يَا جِبْرِيل `What does it mean, O Jibril! Jibril said, `Allah commands you to forgive those who wronged you, give to those who deprived you, and keep relations with those who cut theirs with you."' Al-Bukhari said, "Allah said, خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ (Show forgiveness, enjoin Al-`Urf and turn away from the ignorant). `Al-`Urf', means, righteousness." Al-Bukhari next recorded from Ibn Abbas that he said, "Uyaynah bin Hisn bin Hudhayfah stayed with his nephew Al-Hur bin Qays, who was among the people whom Umar used to have near him, for Umar used to like to have the reciters of the Qur'an (who memorized it) near him and would listen to their opinion, regardless of whether they were old or young men. Uyaynah said to his nephew, `O my nephew! You are close to this chief (Umar), so ask for permission for me to see him.' Al-Hur said `I will ask him for you,' and he asked Umar for permission for Uyaynah to meet him, and Umar gave him permission. When Uyaynah entered on Umar, he said, `O Ibn Al-Khattab! You neither give to us sufficiently nor rule with justice between us.' Umar became so angry that he almost punished Uyaynah. However, Al-Hur said, `O Chief of he Faithful! Allah, the Exalted, said to His Prophet, خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ (Show forgiveness, enjoin Al-`Urf, and turn away from the foolish), Verily this man (Uyaynah) is one of the fools!' By Allah, Umar did not do anything after he heard that Ayah being recited, and indeed, he was one who adhered to the Book of Allah, the Exalted and Most Honored." Al-Bukhari recorded this Hadith. Some scholars said that people are of two kinds, a good-doer, so accept his good doing and neither ask him more than he can bear nor what causes him hardship. The other kind is the one who falls in shortcomings, so enjoin righteousness on him. If he still insists on evil, becomes difficult and continues in his ignorance, then turn away from him, so that your ignoring him might avert his evilness. Allah said in other instances, ادْفَعْ بِالَّتِى هِىَ أَحْسَنُ السَّيِّيَةَ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ وَقُلْ رَّبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيـطِينِ وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَن يَحْضُرُونِ Repel evil with that which is better. We are best-acquainted with the things they utter. And say: "My Lord! I seek refuge with You from the whisperings (suggestions) of the Shayatin (devils). And I seek refuge with You, My Lord! lest they should come near me." (23:96-98) and, وَلاَ تَسْتَوِى الْحَسَنَةُ وَلاَ السَّيِّيَةُ ادْفَعْ بِالَّتِى هِىَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِى بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِىٌّ حَمِيمٌ وَمَا يُلَقَّاهَا إِلاَّ الَّذِينَ صَبَرُواْ وَمَا يُلَقَّاهَأ إِلاَّ ذُو حَظِّ عَظِيمٍ The good deed and the evil deed cannot be equal. Repel (the evil) with one which is better, then verily he, between whom and you there was enmity, (will become) as though he was a close friend. But none is granted it (the above quality) except those who are patient -- and none is granted it except the owner of the great portion in this world. (41:34-35) in reference to the advice contained in these Ayat, وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ And if an evil whisper from Shaytan tries to turn you away (from doing good), then seek refuge in Allah. Verily, He is the All-Hearer, the All-Knower) (41:36) Allah said in this honorable Surah,

اچھے اعمال کی نشاندہی ابن عباس فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ان سے وہ مال لے جو ان کی ضرورت سے زیادہ ہوں اور جسے یہ بخوشی اللہ کی راہ میں پیش کریں ۔ پہلے چونکہ زکوٰۃ کے احکام بہ تفصیل نہیں اترے تھے اس لئے یہی حکم تھا ۔ یہ بھی معنی کئے گئے ہیں کہ ضرورت سے زائد چیز اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا کرو ۔ یہ بھی مطلب ہے کہ مشرکین سے بدلہ نہ لے دس سال تک تو یہی حکم رہا کہ درگذر کرتے ہو پھر جہاد کے احکام اترے ۔ یہ بھی مطلب ہے کہ لوگوں کے اچھے اخلاق اور عمدہ عادات جو ظاہر ہوں انہی پر نظریں رکھ ان کے باطن نہ ٹٹول ، تجسس نہ کرو ۔ حضرت عبداللہ بن زبیر وغیرہ سے بھی یہی تفسیر مروی ہے یہی قول زیادہ مشہور ہے حدیث میں ہے کہ اس آیت کو سن کر حضرت جبرائیل سے آپ نے دریافت کیا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا یہ کہ جو تجھ پر ظلم کرے تو اس سے درگذر کر ۔ جو تجھے نہ دے تو اس کے ساتھ بھی احسان و سلوک کر ۔ جو تجھ سے قطع تعلق کرے تو اس کے ساتھ بھی تعلق رکھ ۔ مسند احمد میں ہے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا اور آپ کا ہاتھ تھام کر درخواست کی کہ مجھے افضل اعمال بتائیے آپ نے فرمایا جو تجھ سے توڑے تو اس سے بھی جوڑ ، جو تجھ سے روکے تو اسے دے ، جو تجھ پر ظلم کرے تو اس پر بھی رحم کر ۔ اوپر والی روایت مرسل ہے اور یہ روایت ضعیف ہے ۔ عرف سے مراد نیک ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ عینیہ بن حصن بن حذیفہ اپنے بھائی حر بن قیس کے ہاں آ کے ٹھہرا ۔ حضرت حر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے خاص درباریوں میں تھے آپ کے درباری اور نزدیکی کا شرف صرف انہیں حاصل تھا جو قرآن کریم کے ماہر تھے خواہ وہ جوان ہوں خواہ بوڑھے ۔ اس نے درخواست کی کہ مجھے آپ امیر المومنین عمر کے دربار میں حاضری کی اجازت دلوا دیجئے ۔ آپ نے وہاں جا کر ان کے لئے اجازت چاہی امیر المومنین نے اجازت دے دی ۔ یہ جاتے ہی کہنے لگے کہ اے ابن خطاب تو ہمیں بکثرت مال بھی نہیں دیتا اور ہم میں عدل کے ساتھ فیصلے بھی نہیں کرتا ۔ آپ کو یہ کلام بھی برا لگا ، ممکن تھا کہ اسے اس کی اس تہمت پر سزا دیتے لیکن اسی وقت حضرت حر نے کہا اے امیر المومنین اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا ہے کہ عفودرگذر کی عادت رکھ ، اچھائیوں کا حکم کرتا رہ اور جاہلوں سے چشم پوشی کر ۔ امیر المومنین یقین کیجئے کہ یہ نرا جاہل ہے قرآن کریم کی اس آیت کا کان میں پڑنا تھا کہ آپ کا تمام رنج و غم غصہ و غضب جاتا رہا ۔ آپ کی یہ تو عادت ہی تھی کہ ادھر کلام اللہ سنا ادھر گردن جھکا دی ۔ امیرالمومنین رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت سالم بن عبداللہ رحمہ اللہ کا ذکر ہے کہ آپ نے شامیوں کے ایک قافلے کو دیکھا ، جس میں گھنٹی تھی تو آپ نے فرمایا یہ گھنٹیاں منع ہیں ۔ انہوں نے کہ ہم اس مسئلے کو آپ سے زیادہ جانتے ہیں بڑی بڑی گھنٹیوں سے منع ہے اس جیسی چھوٹی گھنٹیوں میں کیا حرج ہے؟ حضرت سالم نے اسی آیت کا آخری جملہ پڑھ کر ان جاہلوں سے چشم پوشی کرلی ۔ عرف معروف عارف عارفہ سب کے ایک ہی معنی ہیں ۔ اس میں ہر اچھی بات کی اطاعت کا ذکر آ گیا پھر حکم دیا کہ جاہلوں سے منہ پھیر لیا کر گو یہ حکم آپ کو ہے لیکن دراصل تمام بندوں کو یہی حکم ہے ۔ مطلب یہ ہے ظلم برداشت کر لیا کرو تکلیف دہی کا خیال بھی نہ کرو ۔ یہ معنی نہیں کہ دین حق کے معاملے میں جو جہالت سے پیش آئے تم اس سے کچھ نہ کہو ، مسلمانوں سے جو کفر پر جم کر مقابلہ کرے تم اسے کجھ نہ کہنا ۔ یہ مطلب اس جملے کا نہیں ۔ یہ وہ پاکیزہ اخلاق ہیں جن کا مجسم عملی نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے کسی نے اسی مضمون کو اپنے شعروں میں باندھا ہے ۔ شعر ( خذا لعفو وامربالعرف کما امرت واعرض عن الجاھلین ولن فی الکلام بکل الانام فمستحسن من ذوی الجاھلین یعنی درگزر کیا کر ، بھلی بات بتا دیا کر جیسے کہ تجھے حکم ہوا ہے ، نادانوں سے ہٹ جا یا کر ، ہر ایک سے نرم کلامی سے پیش آ ۔ یاد رکھ کہ عزت و جاہ پر پہنچ کر نرم اور خوش اخلاق رہنا ہی کمال ہے ۔ بعض مسلمانوں کا مقولہ ہے کہ لوگ دو طرح کے ہیں ایک تو بھلے اور محسن جو احسان و سلوک کریں قبول کر لے اور ان کے سر نہ ہو جا کہ ان کی وسعت سے زیادہ ان پر بوجھ ڈال دے ۔ دوسرے بد اور ظالم انہیں نیکی اور بھلائی کا حکم دے پھر بھی اگر وہ اپنی جہالت پر اور بد کرداری پر اڑے رہیں اور تیرے سامنے سرکشی اختیار کریں تو تو ان سے روگردانی کر لے یہی چیز اسے اس کی برائی سے ہٹا دے گی جیسے کہ اللہ کا فرمان ہے آیت ( اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۭ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَصِفُوْنَ 96؀ ) 23- المؤمنون:96 ) بہترین طریق سے دفع کر دو تو تمہارے دشمن بھی تمہارے دوست بن جائیں گے لیکن یہ انہی سے ہو سکتا ہے جو صابر ہوں اور نصیبوں والے ہوں ۔ اس کے بعد شیطانی و سوسوں سے اللہ کی پناہ مانگنے کا حکم ہوا اس لئے کہ وہ سخت ترین دشمن ہے اور ہے بھی احسان فراموش ۔ انسانی دشمنوں سے بچاؤ تو عضو درگذر اور سلوک و احسان سے ہو جاتا ہے لیکن اس ملعون سے سوائے اللہ کی پناہ کے اور کوئی بچاؤ نہیں ۔ یہ تینوں حکم جو سورہ اعراف کی ان تین آیتوں میں ہیں یہی سورہ مومنون میں بھی ہیں اور سورہ حم السجدہ میں بھی ۔ شیطان تو حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے دشمن انسان ہے ۔ یہ جب غصہ دلائے جوش میں لائے فرمان الٰہی کے خلاف ابھارے جاہلوں سے بدلہ لینے پر آمادہ کرے تو اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگ لیا کرو ۔ وہ جاہلوں کی جہالت کو بھی جانتا ہے اور تیرے بچاؤ کی ترکیبوں کو بھی جانتا ہے ۔ ساری مخلوق کا اسے علم ہے وہ تمام کاموں سے خبردار ہے ۔ کہتے ہیں کہ جب اگلے تین حکم سنے تو کہا اسے اللہ ان کاموں کے کرنے کے وقت تو شیطان ان کے خلاف بری طرح آمادہ کر دے گا اور نفس تو جوش انتقام سے پر ہوتا ہی ہے کہیں ان کی خلاف ورزی نہ ہو جائے تو یہ پچھلی آیت نازل ہوئی کہ ایسا کرنے سے شیطانی وسوسہ دفع ہو جائے گا اور تم ان اخلاق کریمانہ پر عامل ہو جاؤ گے ۔ میں نے اپنی اسی تفسیر کے شروع میں ہی اعوذ کی بحث میں اس حدیث کو بھی وارد کیا ہے کہ دو شخص لڑ جھگڑ رہے تھے جن میں سے ایک سخت غضبناک تھا حضور نے فرمایا مجھے ایک ایسا کلمہ یاد ہے اگر یہ کہہ لے تو ابھی یہ بات جاتی رہے ۔ وہ کلمہ ( اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ) ہے کسی نے اس میں بھی ذکر کیا تو اس نے کہا کہ کیا میں کوئی دیوانہ ہو گیا ہوں؟ نزع کے اصلی معنی فساد کے ہیں وہ خواہ غصے سے ہو یا کسی اور وجہ سے ۔ فرمان قرآن ہے کہ میرے بندوں کو آگاہ کر دو کہ وہ بھلی بات زبان سے نکالا کریں ۔ شیطان ان میں فساد کی آگ بھڑکانا چاہتا ہے ۔ عیاذ کے معنی التجا اور استناد کے ہیں اور لاذ کا لفظ طلب خیر کے وقت بولا جاتا ہے جیسے حسن بن ہانی کا شعر ہے ۔ ( بامن الوذبہ فیما اوملہ ومن اعوذ بہ مما احاذرہ لا یجبر الناس عظماانت کا سرہ ولا یھیضون عظما انت جابرہ ) یعنی اے اللہ تو میری آرزوؤں کا مرکز ہے اور میرے بچاؤ اور پناہ کا مسکن ہے مجھے یقین ہے کہ جس ہڈی کو تو توڑنا جاہے اسے کوئی جوڑ نہیں سکتا اور جسے تو جوڑنا چاہے اسے کوئی توڑ نہیں سکتا ۔ باقی حدیثیں جو اعوذ کے متعلق تھیں وہ ہم اپنی اس تفسیر کے شروع میں ہی لکھ آئے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

199۔ 1 بعض علماء نے اس کے معنی کئے ہیں ' ضرورت سے زائد مال ہو، وہ لے لو ' اور یہ زکوٰۃ کی فضیلت سے قبل کا حکم ہے، لیکن دوسرے مفسرین نے اس سے اخلاقی ہدایت یعنی عفو و درگزر مراد لیا ہے اور امام بن جری اور امام بخاری وغیرہ نے اس کو ترجیح دی ہے، چناچہ امام بخاری نے اس کی تفسیر میں حضرت عمر کا واقعہ نقل کیا ہے کہ عیینہ بن حصن حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آ کر تنقید کرنے لگے کہ آپ زکوٰۃ میں نہ پوری عطاء دیتے ہیں اور نہ ہمارے درمیان انصاف کرتے ہیں جس پر حضرت عمر غضب ناک ہوئے یہ صورت حال دیکھ کر حضرت عمر کے مشیر حر بن قیس نے (جو عیینہ کے بھتیجے تھے) حضرت عمر سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم فرمایا تھا (درگزر اختیار کیجئے اور نیکی کا حکم دیجئے اور جاہلوں سے پرہیز کیجئیے ' اور یہ بھی جاہلوں میں سے ہے۔ ' جس پر حضرت عمر نے درگزر فرمایا اس کی تائید ان احادیث سے بھی ہوتی ہے جن میں ظلم کے مقابلے میں معاف کردینے، قطع رحمی کے مقابلے میں صلہ رحمی اور برائی کے بدلے احسان کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ 199۔ 2 عُرْف، ُ سے مراد معروف یعنی نیکی ہے۔ 199۔ 3 یعنی جب آپ نیکی کا حکم دینے میں اتمام حجت کر چکیں اور پھر بھی وہ نہ مانیں تو ان سے اعراض فرمالیں اور ان کے جھگڑوں اور حماقتوں کا جواب نہ دیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩٧] داعی حق کے لئے ہدایات۔ ١۔ عفو و درگزر & ٢۔ اچھی باتوں کا حکم & ٣۔ بحث میں پرہیز۔ ٤۔ جوابی کارروائی سے اجتناب :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہایت مختصر الفاظ میں تین نصیحتیں بیان فرمائی ہیں جو ہر داعی حق کے لیے نہایت اہم ہیں گویا داعی حق کو درپیش مسائل کا حل چند الفاظ میں بیان کر کے دریا کو کوزہ میں بند کردیا گیا ہے اور وہ یہ ہیں۔ ١۔ پچھلی چند آیات میں مشرکین کے معبودان باطل پر اور خود مشرکوں پر سنجیدہ الفاظ میں تنقید کی گئی ہے۔ جس کا یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ وہ آپ کے خلاف زہر اگلنا یا آپ کو برا بھلا کہنا شروع کردیں۔ اندریں صورت آپ کو درگزر کرنے کی روش اختیار کرنا چاہیے، حوصلہ اور برداشت سے کام لینا چاہیے۔ اپنے رفقاء کی کمزوریوں پر بھی اور اپنے مخالفین کی اشتعال انگیزیوں پر بھی اپنے مزاج کو ٹھنڈا رکھنا چاہیے کیونکہ دعوت حق کے دوران اشتعال طبع سے بسا اوقات اصلی مقصد کو نقصان پہنچ جاتا ہے اور یہ صفت آپ میں بدرجہ اتم موجود تھی۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت (فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَھُمْ ١٥٩۔ ) 3 ۔ آل عمران :159) ٢۔ صاف اور سادہ الفاظ میں ایسی بھلائیوں کی طرف دعوت دینا چاہیے جن کو عقل عامہ تسلیم کرنے کو تیار ہو اور اس انداز میں دینا چاہیے جسے لوگ گران بار محسوس نہ کریں اس کی بہترین مثال یہ واقعہ ہے کہ جب آپ نے معاذ بن جبل (رض) کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو یہ ہدایات فرمائیں۔ سب سے پہلے لوگوں کو ایک اللہ کی طرف دعوت دو پھر جب وہ اسلام لے آئیں تو انہیں بتلاؤ کہ تمہارے پروردگار نے تم پر دن بھر میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں پھر جب وہ اس پر عمل کرنے لگیں تو پھر بتلانا کہ تمہارے اموال پر اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ فرض کی ہے اور دیکھو زکوٰۃ وصول کرتے وقت ان کے عمدہ عمدہ مال لینے سے اجتناب کرنا اور مظلوم کی بددعا سے بچتے رہنا، کیونکہ اللہ اور مظلوم کی بددعا کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔ && (بخاری۔ کتاب الزکوۃ۔ باب لاتؤخَذَ کرائم اموال الناس فی الصدقۃ ) اس حدیث میں دعوت کی ترتیب اور خطاب کا جو انداز بیان کیا گیا ہے اس میں داعی حق کے لیے بیشمار اسباق موجود ہیں نیز آپ جب بھی کسی داعی کو روانہ فرماتے تو انہیں ارشاد فرماتے (بَشِّرُوْا وَلاَتُنَفِّرُوْا وَیَسِّرُوْا وَلاَ تُعَسِّرُوْا) (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب بعث ابی موسیٰ و معاذ الیٰ یمن) یعنی جہاں تم جاؤ تمہاری آمد لوگوں کے لیے خوشی کا باعث بنے نفرت کا باعث نہ بنے اور تم لوگوں کے لیے سہولت کا موجب بنو & تنگی اور سختی کا موجب نہ بنو۔ ٣۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ اعتراض برائے اعتراض اور بحث برائے بحث کرنے والوں سے کنارہ کش رہنے کی کوشش کرو اگر تم ان کی ہی باتوں میں الجھ گئے تو دعوت حق کے فروغ کا کام وہیں رک جائے گا لہذا ایسے لوگوں کے اعتراضات اور طعن وتشنیع کا جواب دینے میں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان سے بےنیاز ہو کر اپنا سفر جاری رکھنا چاہیے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

خُذِ الْعَفْوَ : یعنی توحید کی دعوت کے جواب میں آپ کو مشرکوں اور جاہلوں کی طرف سے بہت تکلیف اٹھانا پڑے گی۔ دیکھیے آل عمران (١٨٦) اور بقرہ (١٠٩) آپ اس کے مقابلے میں درگزر سے کام لیں۔ یہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حسن اخلاق کی تعلیم دی ہے اور آپ کے واسطے سے ہر وہ شخص مخاطب ہے جو اسلام کی دعوت کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے، جیسے فرمایا : (وَجَادِلْهُمْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ ۭ ) [ النحل : ١٢٥ ] ” اور ان سے اس طریقے سے بحث کر جو سب سے اچھا ہے۔ “ اور فرمایا : (وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ۠ ) [ آل عمران : ١٥٩ ] ” اور اگر تو بدخلق سخت دل ہوتا تو یقیناً وہ تیرے گرد سے منتشر ہوجاتے۔ “ وَاْمُرْ بالْعُرْفِ : ” عَرَفَ یَعْرِفُ “ سے مصدر بمعنی معروف ہے، وہ بات جس کا اچھا ہونا فطرت انسانی پہچانتی ہے اور شریعت اس کی تائید کرتی ہے۔ یعنی درگزر کا مطلب یہ نہیں کہ آپ انھیں نیکی کا حکم دینا چھوڑ دیں، بلکہ عفو و درگزر کا تعلق حسن اخلاق سے ہے۔ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ : اگر وہ ضد پر اڑ کر مخالفانہ رویہ اختیار کریں اور بےفائدہ تکرار کریں تو بجائے الجھنے کے آپ خاموشی اختیار کریں، خواہ وہ اس خاموشی کو کوئی معنی پہنا دیں۔ امید ہے کہ اس سے ان کے رویے میں تبدیلی پیدا ہوگی اور ان کی جارحیت کا وار خالی جائے گا۔ دیکھیے سورة قصص (٥٥) اور فرقان (٦٣) بعض علماء نے فرمایا کہ عفو و درگزر کا یہ حکم مکہ میں تھا، مدینہ میں جا کر قتال اور اقامت حدود کا حکم نازل ہوا تو یہ منسوخ ہوگیا۔ دیکھیے سورة بقرہ (١٠٩) مگر اس کے بعد بھی جو لوگ مسلمانوں میں سے جہالت اختیار کریں، جیسے منافق یا وہ کفار جن سے جنگ نہیں ہو رہی، ان سے درگزر کرنے، نیکی کا حکم دینے اور ان کی جہالت سے اعراض کا حکم اب بھی ہے، بلکہ دعوت کے وقت ان چیزوں کا خیال ہمیشہ رکھنا پڑے گا۔ ہاں حدود کے مجرموں یا جنگ پر آمادہ لوگوں سے ان کے لائق معاملہ کیا جائے گا اور اس کے واضح احکام قرآن و حدیث میں موجود ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Ideal Manifesto of Qur&anic Ethics The above verse provides us with a perfect code and model discipline of moral excellences. It was through this discipline that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was trained and then was conferred with the title of صاحِب خُلق عظیم (The manifestation of all moral excellences) which is unique to him out of the whole mankind. After giving a description of obstinate ignorance, and immoral behaviour of the adversaries of Islam in the foregoing verses, the Holy Qur&an, in contrast to the above, provides the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) with some moral teachings. The first is خُذِ الْعَفْوَ (Take to forbearance). The Arabic word عَفْوَ has many significations. Each of them can be taken to mean here. This is why the experts in the exegesis of the Qur&an have presented varied comments on this verse. The most agreed interpretation of this word is that it is an act which can be done with ease or without any difficulty. The first sentence therefore, shall mean |"Accept what people can do easily,|" implying that, in the matter of Islamic obligations, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) should not demand high standard of deeds from the people. Rather, he should accept the degree of perfection which can be achieved easily by the people. To make it more clear, let us take the example of Salah (the prayer) which in true sense means to isolate oneself from all the worldly thoughts and actions and stand before his Lord in perfect veneration. He is supposed to present his praise to his Lord directly as though he is addressing his Lord and making his supplications to Him directly with nothing and no one between him and His Lord. This state of mind shows itself in a worshipper by some expressive signs like خُشُوع و خُضُوع (submission and humbleness), which are achieved only by a few fortunate worshippers. This degree of veneration and love cannot be expected from all the worshippers. This verse has therefore, asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) not to demand the high stan¬dard of performance from the people, and to accept what degree of perfection they can achieve easily in their deeds. The above interpretation has been reported in Sahih al-Bukhari on the authority of Sayyidna ` Abdullah ibn Zubair (رض) . Another report cited by Ibn Kathir, has said that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، at the time of the revelation of this verse, said, |"I have been commanded (by Allah) to accept common or unexceptional obedience from the people in their worships and behaviour. I have, therefore, decided to do the same as long as I am in their company.|" A large number of the exegetes of the Holy Qur&an like Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Umar, ` Abdullah ibn Zubair, Sayyidah ` A&ishah رضی اللہ تعالیٰ عنہم and the scholar Mujahid have confirmed the same meaning of this Qur&anic phrase. Another meaning of the word is to pardon or to forgive. Some of the exegetes have adopted this meaning here. According to them this Qur&anic phrase has asked the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) to pardon the errors and shortcomings of the people. Imam Ibn Jarir al-Tabari, the great exegete of the Holy Qur&an has reported that at the time of revelation of this verse the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) asked the Archangel Jibra&il (علیہ السلام) about the implication of this verse. The Archangel after confirming the meaning from Allah answered that you have been commanded to pardon the one who does you wrong, and to be generous to the one who gives you nothing, and to continue your relation with one who breaks off his connections with you. Under the comment on this verse Ibn Marduwaih has reported, on the authority of Sayyidna Sa&ad ibn ` Ubadah (رض) ، that this verse was revealed when, in the battle of Uhud, Sayyidna Hamzah (رض) was martyred and parts of his body were savagely cut off. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، seeing his body in such miserable condition, said, |"I shall behave to seventy of their people the way they have behaved with Hamzah.|" This verse was revealed to him implying that it does not suit his dignified position. He should pardon and forgive people. This is supported by another Hadith reported by Imam Ahmad (رح) on the authority of &Uqbah ibn ` Amir (رض) saying that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had instructed him of the same. That is, to pardon the one who does wrong to him, to keep relation with one who cuts off his rela¬tion with him and to give the one who deprives him. Bayhaqi also has reported from Sayyidna ` Ali (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said to him. &I teach you the manners better than the manners of all the early and the later people, that you should give the one who deprives you, pardon the one who does wrong to you and continue your relation with one who breaks off with you. The above two meanings of the word عفو hough, are different from each other but the purest essence of both is one and the same, that is, he should not demand the high standard of worship and deeds from the people and pardon them for their errors, and should not take revenge of their wrongs, and be generous to them with no regard to receiving any return from them. The authentic records of the life of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) have shown that he demonstrated the truest picture of the above Qur&anic model of deeds and morals. This model appeared in full bloom when Makkah was conquered and his sworn enemies were at his mercy. At that time, he set all of them free saying that &far from any thoughts of seeking any revenge against them for their injustices, he would not even blame them in any way for what had happened between them in the past.& The second sentence of this manifesto or testament reads: وَأْمُرْ‌ بِالْعُرْ‌فِ (and bid the Fair - 199). The word: 4 (` عُرْ‌فِ ) meaning &recognized& refers to everything done in a way which is good and praiseworthy. The sense is that he should not seek to avenge the oppressive treatment meted out to him by his enemies, rather, he should forgive them but, along with it, he should also continue to ask them to do what was good and beneficial. Thus, he would not only be repaying evil with good and injustice with justice alone, in fact, he would be repaying them for all that by a higher degree of favor and grace - that of Ihsan. In the third sentence, it was said: وَأَعْرِ‌ضْ عَنِ الْجَاهِلِي (and ignore the ignorant). It means that he should, no doubt, forgo revenge against injustice, deal with his enemies having goodwill and concern for them, and softly explain the truth of the matter to them. But, in this process, there will be those ignorant diehards who would not still be impressed or affected by this highly gentle moral response. They would, in spite of that, display more of their ignorance and harshness. If so, he was advised not to be affected by their heart-rending comments and rustic challenges, offer no response in their terms, instead, stay away from and ignore them. Tafsir Ibn Kathir has said that &to ignore& also means that he should not repay evil with evil. It does not mean that he should stop giving good advice to them, for this would not be befitting in terms of the standing mission a prophet and messenger of Allah is charged with. At this stage, according to an event reported in the Sahih of al-Bukhari from Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) ، it was during the period of the Khilafah of Sayyidna ` Umar (رض) that ` Uyaiynah ibn Hisn came to Madinah and stayed there as a guest of his nephew, Hurr ibn Qays. Sayyidna Hurr (رض) was among the learned men of Madinah who used to attend the advisory council of Sayyidna ` Umar (رض) . ` Uyaiynah said to his nephew, Hurr ibn Qays, you are close to the Amir al-Mu&minin. Take an appointment for me to see him.& Sayyidna Hurr ibn Qays requested Sayyidna ` Umar (رض) that his uncle, ` Uyaiynah wanted to meet him. He gave the permission. But, once ` Uyaiynah was in the company of Sayyidna ` Umar al-Faruq (رض) ، he spoke to him in a manner that was uncivilized and contrary to facts while complaining that he neither gave them their full rights nor treated them with justice and equity. Sayyidna ` Umar (رض) was angry. Thereupon, Sayyidna Hurr ibn Qays submitted, &ya Amir al-Mu&minin, Allah Ta` ala has said: خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ‌ بِالْعُرْ‌فِ وَأَعْرِ‌ضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ (Take to forbearance, and bid the Fair and ignore the ignorant - 199) and this person too is one of the ignorant ones.& Hearing this verse, his anger subsided and he said nothing to him. This habit of Sayyidna ` Umar (رض) was well known. About him it was said: کَانَ وَ قَّافاً عندَ کِتابِ اللہِ عَسَّوَجَلَّ (He readily mellowed before the commandments of the Book of Allah, the Mighty, the Exalted). This verse carries a comprehensive statement of noble traits of character. Some scholars have explained these briefly by saying that there are two kinds of people: (1) Those who are good in deeds and (2) those who are evil and unjust. This verse tells us to treat both kinds nobly. As for those who do good, accept what they offer as such. Do not investigate too much and do not be unnecessarily inquisitive. Do not demand good at its highest from them and accept what they come up with as sufficient. As for the evildoing, the instruction given is: Teach them to do what is good. Show them the way of righteousness. If they do not accept it and choose to stick to their straying and error and talk haughtily and aggressively, the appropriate course is to stay away from them and avoid responding to their ignorant comments. It is hoped that this approach may bring them round at some stage when they may realize their error.

خلاصہ تفسیر لوگوں سے یہ برتاؤ رکھئے کہ ان کے اعمال و اخلاق میں سے) سرسری ( نظر میں جو) برتاؤ معقول و مناسب معلوم ہوں ان) کو قبول کرلیا کیجئے ( ان کی تہ اور حقیقت کی تلاش نہ کیجئے بلکہ ظاہری نظر میں سرسری طور پر جو کام کسی سے اچھا ہو اس کو بھلائی پر محمول کیجئے، باطن کا حال اللہ کے سپرد کیجئے کیونکہ پورا اخلاص و نیز شرائط قبول کی جامعیت اخص الخواص کا حصہ ہے، حاصل یہ کہ معاشرت میں سہولت رکھئے تشدد نہ کیجھئے، یہ برتاؤ تو اچھے کاموں میں ہے) اور ( جو کام ظاہر نظر میں بھی برا ہو اس میں یہ برتاؤ رکھئے کہ اس باب میں) نیک کام کی تعلیم کردیا کیجئے اور جاہلوں سے ایک کنارہ ہوجایا کیجئے ( اور ان کے بہت درپے نہ ہوجئے) اور اگر ( اتفاقا ان کی جہالت پر) آپ کو کوئی وسوسہ شیطان کی طرف سے (غصہ کا) آنے لگے (جس میں احتمال ہو کہ کوئی بات خلاف مصلحت کے صادر ہوجائے) تو (ایسی حالت میں فورا) اللہ کی پناہ مانگ لیا کیجئے بلا شبہ وہ خوب جاننے والا ہے ( آپ کے استعاذہ کو سنتا ہے، آپ کے مقصود کو جانتا ہے وہ آپ کو اس سے پناہ دے گا اور جس طرح استعاذہ و توجہ الی اللہ آپ کے لئے نافع ہے اسی طرح تمام خدا ترس لوگوں کے لئے بھی نافع ہے چنانچہ) یقینا ( یہ بات ہے کہ) جو لوگ خدا ترس ہیں جب ان کو کوئی خطرہ شیطان کی طرف سے (غصہ کا یا اور کسی امر کا) آجاتا ہے تو وہ ( فورا خدا کی) یاد میں لگ جاتے ہیں ( جیسے استعاذہ و دعا اور اللہ تعالیٰ کی عظمت و عذاب وثواب کو یاد کرنا) سو یکایک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں ( اور حقیقت امر ان پر منکشف ہوجاتی ہے جس سے وہ خطرہ اثر نہیں کرتا) اور ( برخلاف اس کے) جو شیاطین کے تابع ہیں وہ ( شیاطین) ان کو گمراہی میں کھینچتے چلے جاتے ہیں پس وہ ( تابعین گمراہی سے) باز نہیں آتے ( نہ وہ استعاذہ کریں نہ محفوظ رہیں، سو وہ مشرکین تو شیطان کے تابع ہیں یہ کب بازآئیں گے اس لئے ان کے غم و غصہ میں پڑنا بےکار ہے) معا رف ومسائل اخلاق قرآنی کا ایک جامع ہدایت نامہ : آیات مذکورہ قرآنی اخلاق فاضلہ کا ایک جامع ہدایت نامہ ہے جس کے ذریعہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تربیت کرکے آپ کو تمام اولین و آخرین میں صاحب خلق عظیم کا خطاب دیا گیا ہے۔ پچھلی آیتوں میں دشمنان اسلام کی کجروی، ہٹ دھرمی اور بد اخلاقیوں کا ذکر کرنے کے بعد ان آیات میں اس کے بالمقابل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اخلاق فاضلہ کی ہدایت دی گئی ہے جس کے تین جملے ہیں، پہلا جملہ خُذِ الْعَفْوَ ہے، عربی لغت کے اعتبار سے لفظ عفو کے کئی معنی ہوسکتے ہیں اور اس موقع پر ہر معنی کی گنجائش ہے، اسی لئے علماء تفسیر کی مختلف جماعتوں نے مختلف معنی لئے ہیں، جمہور مفسرین نے جس کو اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ عفو کہا جاتا ہے ہر ایسے کام کو جو آسانی کے ساتھ بغیر کسی کلفت اور مشقت کے ہوسکے، تو معنی اس جملہ کے یہ ہوئے کہ آپ قبول کرلیا کریں اس چیز کو جو لوگ آسانی سے کرسکیں یعنی واجبات شرعیہ میں آپ لوگوں سے اعلی معیار کا مطالبہ نہ کریں بلکہ وہ جس پیمانہ پر آسانی سے عمل پیرا ہوسکیں آپ اتنے ہی درجہ کو قبول کرلیا کریں، مثلا نماز کی اصل حقیقت تو یہ ہے کہ بندہ ساری دنیا سے منقطع اور یکسو ہو کر اپنے رب کے سامنے ہاتھ بانھدے ہوئے اس لئے کھڑا ہے کہ حمد و ثنا کے ساتھ اپنے معروضات کو بلاواسطہ بارگاہ الہی میں خود پیش کررہا ہے گویا وہ اس وقت براہ راست حق تعالیٰ شانہ سے مخاطب ہے، اس کے جو آثار خشوع، خضوع ادب و احترام کے ہونا چاہئیں، ظاہر ہے کہ لاکھوں نمازیوں میں سے کسی کسی اللہ کے بندے کو نصیب ہوتے ہیں عام لوگ اس درجہ کو نہیں پاسکتے تو اس آیت نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ تعلیم دی کہ آپ ان لوگوں سے اس اعلی معیار کا مطالبہ ہی نہ رکھیں، بلکہ جس درجہ کو وہ آسانی سے حاصل کرسکتے ہیں وہ ہی قبول فرما لیں، اسی طرح دوسری عبادات زکوة، روزہ، حج اور عام معاملات و معاشرت کے واجبات شرعیہ میں جو لوگ پورا پورا حق ادا نہیں کرسکتے ان سے سرسری اطاعت و فرمانبرداری ہی کو قبول کرلیا جائے۔ صحیح بخاری میں بروایت عبداللہ بن زبیر خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آیت کے یہی معنی نقل کئے گئے ہیں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کے نازل ہونے پر فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے اعمال و اخلاق میں سرسری اطاعت قبول کرنے کا حکم دیا ہے، میں نے عزم کرلیا ہے کہ جب تک میں ان لوگوں کے ساتھ ہوں ایسا ہی عمل کروں گا ( ابن کثیر) ائمہ تفسیر کی ایک بڑی جماعت حضرت عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن زبیر، صدیقہ عائشہ اور مجاہد رضوان اللہ علیھم اجمعین وغیرہ نے اس جملہ کے بھی یہی معنی قرار دیئے ہیں۔ دوسرے معنی عفو کے معافی اور درگزر کرنے کے بھی آتے ہیں، علماء تفسیر کی ایک جماعت نے اس جگہ یہی معنی مراد لے کر اس جملہ کا یہ مطلب قرار دیا ہے کہ آپ گناہگاروں خطاکاروں کے گناہ و قصور کو معاف کردیا کریں۔ امام تفسیر ابن جریر طبری نے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل امین سے آیت کا مطلب پوچھا، جبریل امین نے اللہ تعالیٰ سے دریافت کرنے کے بعد یہ مطلب بتلایا کہ اس آیت میں آپ کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ جو شخص آپ پر ظلم کرے آپ اس کو معاف کریں اور جو آپ کو کچھ نہ دے آپ اس پر بخشش کریں اور جو آپ سے تعلق قطع کرے آپ اس سے بھی ملا کریں۔ اس جگہ ابن مردویہ نے بروایت سعد بن عبادہ نقل کیا ہے کہ غزوہ احد میں جب آنحضرت کے چچا حضرت حمزہ کو شہید کیا گیا اور بڑی بےدردی سے ان کے اعضاء کاٹ کر لاش کی بےحرمتی کی گئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لاش کو اس ہیئت میں دیکھ کر فرمایا کہ جن لوگوں نے حمزہ کے ساتھ ایسا معاملہ کیا ہے میں ان کے ستر آدمیوں کے ساتھ ایسا معاملہ کرکے چھوڑوں گا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں آپ کو بتلایا گیا کہ آپ کا یہ مقام نہیں، آپ کے شایان شان یہ ہے کہ عفو و درگزر سے کام لیں۔ اس مضمون کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو امام احمد نے عقبہ بن عامر کی روایت سے نقل کی ہے کہ ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو مکارم اخلاق کی تعلیم دی وہ وہی تھی کہ جو شخص تم پر ظلم کرے اس کو معاف کردو، جو تم سے قطع تعلق کردے تم اس سے ملا کرو، جو تمہیں محروم کردے تم اس کو بخشش دیا کرو۔ اور بیہقی نے بروایت علی مرتضی نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا کہ میں تم کو اولین و آخرین کے اخلاق سے بہتر اخلاق کی تعلیم دیتا ہوں، وہ یہ ہے کہ جو شخص تم کو محروم کرے تم اس پر بخشش کرو، جو تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کردو، جو تم سے تعلق قطع کرے تم اس سے بھی ملا کرو۔ لفظ عفو کے پہلے اور دوسرے معنی میں اگرچہ فرق ہے لیکن حاصل دونوں کا ایک ہی ہے کہ لوگوں کے اعمال و اخلاق میں سرسری اطاعت و فرمانبرداری کو قبول فرمالیا کریں، زیادہ تجس اور تفتیش میں نہ پڑیں، اور ان سے اعلی معیار کی اطاعت کا مطالبہ نہ کریں اور ان کی خطاؤں اور قصور سے درگزر فرمائیں، ظلم کا انتقام نہ لیں، چناچہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعمال و اخلاق ہمیشہ اسی سانچے میں ڈھلے رہے، جس کا پورا مظاہرہ اس وقت ہوا جب مکہ فتح ہو کر آپ کے جانی دشمن آپ کے قبضہ میں آئے تو آپ نے سب کو آزاد کرکے فرما دیا کہ تمہارے مظالم کا بدلہ لینا تو کیا ہم تمہیں پچھلے معاملات پر ملامت بھی نہیں کرتے۔ دوسرا جملہ اس ہدایت نامہ کا وَاْمُرْ بالْعُرْفِ ہے، عرف بمعنی معروف ہر اچھے اور مستحسن کام کو کہتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آپ کے ساتھ برائی اور ظلم سے پیش آئیں آپ ان سے انتقام نہ لیں بلکہ معاف کردیں مگر ساتھ ہی ان کو نیک کام کی ہدایت بھی کرتے رہیں، گویا بدی کا بدلہ نیکی سے ظلم کا بدلہ صرف انصاف ہی سے نہیں بلکہ احسان سے دیں۔ تیسرا جملہ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ جاہلوں سے آپ کنارہ کش ہوجائیں، مطلب یہ ہے کہ ظلم کا انتقام چھوڑ کر آپ ان کے ساتھ خیر خواہی اور ہمدردی کا معاملہ کریں اور نرمی کے ساتھ ان کو حق بات بتلائیں مگر بہت سے جاہل ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس شریفانہ معاملہ سے متاثر نہیں ہوتے، اس کے باوجود جہالت اور سختی سے پیش آتے ہیں تو ایسے لوگوں کے ساتھ آپ کا معاملہ یہ ہونا چاہئے کہ ان کے دلخراش اور جاہلانہ کلام سے متاثر ہو کر انہیں جیسی سخت گفتگو نہ کریں بلکہ ان سے کنارہ کش ہوجائیں۔ امام تفسیر ابن کیثر نے فرمایا کہ کنارہ کش ہونے کا بھی مطلب یہ ہے کہ ان کی برائی کا جواب برائی سے نہ دیں، یہ معنی نہیں کہ ان کو ہدایت کرنا چھوڑ دیں کہ یہ وظیفہ رسالت و نبوت کے شایان شان نہیں۔ صحیح بخاری میں اس جگہ ایک واقعہ حضرت عبداللہ بن عباس سے نقل کیا ہے کہ حضرت فاروق اعظم کی خلافت کے زمانہ میں عیینہ ابن حصن مدینہ میں آیا اور اپنے بھتیجہ حر ابن قیس کا مہمان ہوا، حضرت حر بن قیس ان اہل علم حضرات میں سے تھے جو حضرت فاروق اعظم کی مجلس مشاورت میں شریک ہوا کرتے تھے، عیینہ نے اپنے بھتیجہ حر بن قیس سے کہا کہ تم امیر المومنین کے مقرب ہو میرے لئے ان سے ملاقات کا کوئی وقت لے لو، حر بن قیس نے فاروق اعظم سے درخواست کی کہ میرا چچا عیینہ آپ سے ملنا چاہتا ہے، آپ نے اجازت دے دی۔ مگر عیینہ نے فاروق اعظم کی مجلس میں پہنچ کر نہایت غیر مہذب اور غلط گفتگو کی کہ نہ آپ ہمیں ہمارا پورا حق دیتے ہیں نہ ہمارے ساتھ انصاف کرتے ہیں، فاروق اعظم کو اس پر غصہ آیا تو حر بن قیس نے عرض کیا کہ امیر المومنین، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (آیت) خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ ، اور یہ شخص بھی جاہلین میں سے ہے، یہ آیت سنتے ہی فاروق اعظم کا سارا غصہ ختم ہوگیا اور اس کو کچھ نہیں کہا، حضرت فاروق اعظم کی یہ عادت معروف و مشہور تھی کہ کان وقافا عند کتاب اللہ عز وجل یعنی کتاب اللہ کے احکام کے آگے گردن ڈالتے تھے۔ یہ آیت مکارم اخلاق کی جامع آیت ہے، بعض علماء نے اس کا خلاصہ یہ بیان فرمایا ہے کہ لوگ دو قسم کے ہیں ایک محسن یعنی اچھے کام کرنے والے، دوسرے بدکار ظالم، اس آیت نے دونوں طبقوں کے ساتھ اخلاق کریمانہ برتنے کی یہ ہدایت دی ہے کہ نیک کام کرنے والوں سے ان کی ظاہری نیکی کو قبول کرلو، زیادہ تفتیش و تجسس میں نہ پڑو، اور نیکی کے اعلی معیار کا ان سے مطالبہ نہ کرو بلکہ جتنا وہ آسانی سے کرسکیں اس کو کافی سمجھو، اور بدکاروں کے معاملہ میں یہ ہدایت کی کہ ان کو نیک کام سکھلاؤ اور نیکی کا راستہ بتلاؤ، اگر وہ اس کو قبول نہ کریں اور اپنی گمراہی اور غطلی پر جمے رہیں اور جاہلانہ گفتگو سے پیش آئیں تو ان سے علیحدہ ہوجائیں اور ان کی جاہلانہ گفتگو کا جواب نہ دیں، اس طرز سے یہ امید ہے کہ ان کو کسی وقت ہوش آئے اور اپنی غطلی سے باز آجائیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

خُذِ الْعَفْوَوَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰہِلِيْنَ۝ ١٩٩ عفو فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری/ 40] وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة/ 237] ( ع ف و ) عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری/ 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة/ 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ عرف المَعْرِفَةُ والعِرْفَانُ : إدراک الشیء بتفکّر وتدبّر لأثره، وهو أخصّ من العلم، ويضادّه الإنكار، قال تعالی: فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة/ 89] ، فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] ( ع رف ) المعرفۃ والعرفان کے معنی ہیں کسی چیز کی علامات وآثار پر غوروفکر کرکے اس کا ادراک کرلینا یہ علم سے اخص یعنی کم درجہ رکھتا ہے اور یہ الانکار کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛ فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة/ 89] پھر جس کو وہ خوب پہنچانتے تھے جب ان کے پاس آپہنچی تو اس کافر ہوگئے ۔ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ ان کو نہ پہچان سکے ۔ اعرض وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ ( ع ر ض ) العرض اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة/ 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء/ 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔ جهل الجهل علی ثلاثة أضرب : - الأول : وهو خلوّ النفس من العلم، هذا هو الأصل، وقد جعل ذلک بعض المتکلمین معنی مقتضیا للأفعال الخارجة عن النظام، كما جعل العلم معنی مقتضیا للأفعال الجارية علی النظام . - والثاني : اعتقاد الشیء بخلاف ما هو عليه . - والثالث : فعل الشیء بخلاف ما حقّه أن يفعل، سواء اعتقد فيه اعتقادا صحیحا أو فاسدا، كمن يترک الصلاة متعمدا، وعلی ذلک قوله تعالی: قالُوا : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] ( ج ھ ل ) الجھل ۔ ( جہالت ) نادانی جہالت تین قسم پر ہے ۔ ( 1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظام طبعی کے خلاف جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے ۔ ( 2) کسی چیز کے خلاف واقع یقین و اعتقاد قائم کرلینا ۔ ( 3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے خلاف سر انجام دنیا ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا کوئی شخص دیا ۔ دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے آیت : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة/ 67] میں ھزوا کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

دعوت الی اللہ کا صحیح طریق کار قول باری ہے خذالعفو وامر بالعرف۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو اور معروف کی تلقین کیے جائو) ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) سے قول باری خذالعفو وامربالعرف واعرض عن الجاھلین، اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! نرمی اور درگزر کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کئے ج اور اور جاہلوں سے نہ الجھو) کی تفسیر میں روایت کی ہے۔ انہوں نے فرمایا : بخدا اللہ تعالیٰ نے یہ آیت لوگوں کے اخلاق کے بارے میں نازل کی ہے “۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا اثقل شئی فی میزان المومن یوم القیامۃ الخلق الحسن، قیامت کے دن ایک مومن کے میزان عمل میں اس کے عمدہ اخلاق سب سے زیادہ وزن والے ہوں گے) عطا نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ نسا مومن سب سے افضل ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا، ” جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں گے “۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی انہیں معاذ بن المثنیٰ اور سعید بن محمد الاعرابی نے، انہیں محمد بن کثیر نے ، انہیں سفیان ثوری نے عبداللہ بن سعید بن ابی سعیدالمقبری سے، انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انکم لاتسعون الناس باموالکم ولکن یسعھم منکم بسط الوجہ وحسن الخلق۔ تم اپنے مال و دولت کے ذریعے لوگوں سے بڑھ نہیں سکتے لیکن اپنی خندہ روئی اور حسن خلق کے ذریعے تم ان سے سبقت لے جاسکتے ہو) حسن اور مجاہد سے منقول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا تھا کہ لوگوں کے اخلاق و سیرت کے نرم گوشوں کو پذیرائی بخشی جائے۔ عفو، تسہیل اور تیسیہ یعنی آسان کرنے کو کہتے ہیں۔ آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ نرمی سے کام لیا جائے لوگوں کے اخلاق کے نرم گوشوں کو پذیرائی بخشی جائے اور ان کے ساتھ معاملات میں بال کی کھال نکالنے والا رویہ اختیار نہ کیا جائے تیز ان کا عذر قبول کرلیا جائے حضرت ابن عباس (رض) سے قول باری خذالعفو کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس سے لوگوں کے اموال میں ان کی ضرورت سے زائد مال مراد ہے۔ یہ بات زکواۃ کی فرضیت کا حکم نازل ہونے سے پہلے تھی۔ ضحاک اور سدی سے بھی یہی قول منقول ہے۔ ایک قول ہے کہ عفو کے اصل معنی ترک کے ہیں۔ اسی سے یہ قول باری ہے فمن عفی لہ من اخیہ شئی۔ جس شخص کے لئے اس کے بھائی کی طرف سے کوئی چیز چھوڑ دی جائے) یعنی ترک کردیا جائے گناہ معاف کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ اس پر ترک عقوبت کی جائے یعنی سزا نہ دیا جائے۔ قول باری وامربالمعروف کے متعلق قتادہ اور عروہ کا قول ہے کہ عرف معروف کو کہتے ہیں۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں ابراہیم بن عبداللہ نے انہیں سہل بن بکار نے انہیں عبدالسلام بن الخلیل نے عبیدہ الہجیمی سے، کہ ابوجری جابر بن سلیم نے کہا : میں اپنے جوان اونٹ پر سوار ہو کر مکہ چلا گیا، میں نے وہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلاش کیا۔ میں نے مسجد کے دروازے پر اپنا اونٹ بٹھا دیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد کے دروازے پر تھے۔ آپ کے جسم پر ایک اونی چادر تھی جس میں سرخ دھاریاں تھیں میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام کا جواب دیا پھر میں نے عرض کیا ہم بادیہ نشین لوگ ہیں ہمارے اندر طبیعت کی سختی پائی جاتی ہے آپ مجھے ایسے کلمات سکھا دیجئے جن سے مجھے نفع ہو “۔ یہ سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے تین دفعہ قریب آجانے کو کہا۔ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب ہوگیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” اپنی بات دہرائو “۔ میں نے اپنی بات دہرا دی۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” اللہ سے ڈرتے رہو، اور کسی بھی نیکی کو حقیر نہ سمجھو، اور یہ کہ اپنے بھائی کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملو، نیز یہ کہ اپنے ڈول کا زائد پانی اس شخص کے برتن میں ڈال دو جو پانی کا طلبگار ہو۔ اگر کوئی شخص تمہارے کردار کے کسی ایسے عیب کی تمہیں گالی دے جس کا اسے علم ہو تو تم جواب میں اس کے کردار کے کسی عیب کو گالی کے طور پر استعمال نہ کرو جس کا تمہیں علم ہو۔ اس لئے اس شخص کی اس حرکت پر اللہ تمہیں اجر دے گا اور اس پر گناہ کا بوجھ ڈال دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں تمہیں عطا کی ہیں ان میں سے کسی چیز کو برا بھلا نہ کہو اور گالی نہ دو “۔ ابوجری کہتے ہیں : اس ذات کی قسم جس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے پاس بلالیا۔ میں نے پھر کبھی کسی چیز کو گالی نہیں دی۔ نہ کسی بکری کو اور نہ کسی اونٹ کو “۔ معروف اس چیز کو کہتے ہیں جس کو بروئے کار لانا عقلی طور پر مستحسن ہو اور عقلاء کے نزدیک وہ ناپسندیدہ نہ ہو۔ قول باری ہے واعرض عن الجاھلین اس میں جاہلوں اور نادانوں سے ان کی جہالت اور نادانی کی بنا پر الجھنے سے منع کردیا گیا ہے اور ان سے اپنا دامن بچانے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ بات شاید قتال کے حکم کے نزول سے پہلے کی تھی اس لئے کہ اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم تھا کہ لوگوں تک اللہ تعالیٰ کی بات پہنچا دیں اور ان پر اتمام حجت کردیں اس کی نظیر یہ قول باری ہے فاعرض عمن تولی عن ذکرنا ولم یردالا الحیوۃ الدنیا۔ جو لوگ ہمارے ذکر سے روگردانی کرتے ہیں اور جن کے پیش نظر صرف یہی دنیاوی زندگی ہے ان سے نہ الجھو) جب قتال کا حکم نازل ہوگیا تو باطل پرستوں اور فسادیوں سے نمٹنے کا طریق کار متعین ہوگیا وہ یہ کہ کبھی تلوار کے ذریعے ان کے افعال کی تردید کی جائے کبھی کوڑے کے ذریعے اور کبھی ان کی تذلیل اور انہیں قید کرنے کے ذریعے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٩٩) نیکی اور احسان کا حکم کیجیے اور ابوجہل اور اس کے ساتھی جو مذاق اڑاتے ہیں ان سے درگزر کیجیے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩٩ (خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بالْعُرْفِ ) جیسا کہ مکی سورتوں کے آخر میں اکثر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب اور التفات ہوتا ہے یہاں بھی وہی انداز ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں سے بہت زیادہ بحث مباحثہ میں نہ پڑیں ‘ ان کے رویے سے درگزر کریں اور اپنی دعوت جاری رکھیں۔ (وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰہِلِیْنَ ) ۔ یہ جاہل لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے الجھنا چاہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کنارہ کشی کرلیں۔ جیسا کہ سورة الفرقان میں فرمایا : (وَاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۔ ) اور جب جاہل لوگ ان (رحمن کے بندوں ) سے الجھنا چاہتے ہیں تو وہ ان کو سلام کہتے (ہوئے گزر جاتے) ہیں۔ سورة القصص میں بھی اہل ایمان کا یہی طریقہ بیان کیا گیا ہے : (سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ ز لَا نَبْتَغِی الْجٰہِلِیْنَ ) تمہیں سلام ہو ‘ ہم جاہلوں کے منہ نہیں لگنا چاہتے۔ آیت زیرنظر میں ایک داعی کے لیے تین بڑی بنیادی باتیں بتائی گئی ہیں۔ عفو درگزر سے کام لینا ‘ نیکی اور بھلائی کی بات کا حکم دیتے رہنا ‘ اور جاہل یعنی جذباتی اور مشتعل مزاج لوگوں سے اعراض کرنا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٩٩۔ ٢٠٠۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری تو آنحضرت نے جبرئیل سے پوچھا کہ خذ العفو کا کیا مطلب ہے جبرئیل (علیہ السلام) نے کہا میں بغیر اللہ تعالیٰ سے پوچھے اس کا مطلب نہیں بتلا سکتا اور پلٹ کر گئے اور آکر یہ کہا کہ آپ صلہ رحمی کریں ان لوگوں کے ساتھ جو آپ سے محبت کو قطع کرنا چاہیں اور جو آپ کی عزت حرمت کرے اس پر بخشش کریں اور جو شخص آپ سے سختی برتے اس کو معاف کیجئے پھر اللہ پاک نے یہ خطاب کیا کہ آپ لوگوں کو معروف باتوں کا حکم دیں معروف کے معنی وہ نیک خصلت ہے جس کو عقلمند آدمی پسند کرے اور جس سے دل کو اطمینان حاصل ہو مراد اس سے احکام شرع کو نرمی سے پہنچانا ہے۔ پھر فرمایا کیا گروہ لوگ آپ کی باتوں کو نہ مانیں تو ان سے چشم پوشی کیجئے وہ جاہل ہیں جاہلوں کی بات کا جواب چشم پوشی اور خاموشی ہے۔ قیس بن سعد کہتے ہیں کہ جب حضرت حمزہ بن عبدالمطلب (رض) شہید ہوئے اور آپ کے سامنے لائے گئے تو آپ نے فرمایا کہ میں اپنے چچا حمزہ (رض) کے عوض ان میں سے ستر آدمیوں کو ماروں گا اور ان کے ناک کان کاٹوں گا اسی کو عرب میں مثلہ کہتے ہیں اسی وقت جبرئیل (علیہ السلام) یہ آیت لے کر آئے اس حدیث کو ابن مردویہ نے اپنی تفسیر میں معتبر سند سے نقل کیا ١ ؎ ہے پھر آپ کو یہ حکم ہوا کہ اگر شیطان آپ کے دل میں کچھ وسوسہ پیدا کرے تو آپ کو اللہ پاک سے پناہ مانگنی چاہیے وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ عبدالرحمن بن زید (رض) کہتے ہیں کہ جب یہ آیت واعرض عن الجاھلین اتری کہ اگر کوئی ایسا وسوسہ شیطان دل میں ڈالے جس کو حافظ ابوجعفر ابن جریر نے اپنی تفسیر میں خذ العفو کے اسی معنے کو قوی قرار دیا ٢ ؎ ہے کہ اس سے مطلب احکام شرع کا نرمی ہے، بخاری ومسلم میں انس بن مالک (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کو اپنی عمر اور رزق میں فراخی منظور ہو وہ صلہ رحمی کرے ٣ ؎ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش نے کو صلہ رحمی کہتے ہیں معتبر سند سے پیش آنے کی خصلت قیامت کے دن میزان میں بڑا بھاری نیک عمل ہے ٤ ؎۔ ان آیتوں میں صلہ رحمی اور لوگوں سے نرمی کے ساتھ پیش آنے اور غصہ کے وقت اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنے کا جو ذکر ہے ان حدیثوں کو اس کی تفسیر میں بڑا دخل ہے :۔ ١ ؎ تفسیر فتح البیان ج ٢ ص ١٣٤۔ ٢ ؎ تفسیر ابن جریر ج ٩ ص ١٥٦ طبع جدید ٣ ؎ صحیح بخاری ج ١ ص ٢٧٧ باب من احب البسط فی التررق ٤ ؎ الترغیب ج ٢ ص ١٤٨۔ الترغیب فی الخلق الحسن وفضلہ

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:199) خذ۔ تو پکڑ۔ تو لے۔ تو اختیار کر۔ اخذ سے امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ العفو۔ آسان ۔ حاجت سے زیادہ ۔ معاف کردینا ۔ عفا یفعوا (باب نصر) کا مصدر ہے اور اسم بھی ہے۔ عربی میں کہتے ہیں خذ ما عفالک جو تمہیں بآسانی بغیر مشقت کے ملے وہ لے لو۔ اور قرآن میں ہے : وسیئلونک ماذا ینفقون قل العفوا (2:219) (اے محمد) لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ خدا کی راہ میں کیا مال خرچ کریں۔ تو ان سے کہہ دو جو تمہاری حاجت سے زیادہ ہو (جس کے خرچ سے تمہیں تکلیف نہ ہو (جس کے خرچ سے تمہیں تکلیف ہو) اور معاف و درگزر کرنے کے معنوں میں قرآن اکثر استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے عفو ہے۔ ان اللہ کان عفوا غفورا (4:43) بیشک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔ اور ثم فعونا عنکم (2:52) پھر اس کے بعد ہم نے تم کو معاف کردیا۔ اور من عفاواصلح (42:40) مگر جو دوگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے ۔ آیہ ہذا میں معاف کرنے اور درگزر کرنے کے معنی ہیں۔ العرف۔ عرف بروزن فعل اسم ہے معروف کے معنوں میں ۔ پسندیدہ کام ۔ نیک کام ۔ نیکی۔ معروف ہر اس قول یا فعل کا نام ہے جو کہ اس کی خوبی شریعت یا عقل سے ثابت ہو۔ منکر کی ضد ہے جس سے مراد ہر وہ بات جو شریعت و عقل کی رو سے بری سمجھی جائے اعرض۔ تو منہ پھیر لے۔ تو کنارہ کش ہوجا۔ اعراض سے امر واحد حاضر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 خذ العفو، یعنی حتی الو سع تحمل اور صبر سے کام لو اور یہاں پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حسن اخلاق کی تعلیم دی ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطہ سے ہر وہ شخص مخاطب ہے جو دعوت اسلامی کافر یضہ سرانجام دے رہاہو جیسے فرمایا وجا دلھم بالتیھی احسن ولو کنت فظاغلیظ القلب ال ان فضو امن حولک ( کبیر) اس کے بعد وامر بالعرف کے حک سے اشارہ فرمایا کہ عفودر گذر کا تعلق صرف حسن اخلاق کی حد تک ہے ورنہ اقامت حدود میں کسی قسم کی چشم پوشی ہوسکتی، ( ایضا)10 یعنی اگر معاندا رویہ اختیار کریں اور بےفائدہ تکرار کریں تو بجائے الجھنے کے خامشی اختیار کرلو خواہ وہ اس خاموشی کو کوئی معنی پہنادیں شعبی کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی صلعم نے حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) سے اس کا مطلب دریافت کیا انہوں نے جواب دیا اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا ہے جو شخص بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر زیادتی کرے اس سے در گذر فرمائیں اور جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو محروم کرے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے دیں اور جو قطع رحمی کرے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے صلح رحمی کریں ( ابن جریر) امام جعفر صادق (رح) فرماتے ہیں مکار اخلاق کے مو ضوع پر اس سے جامع تر قرآن میں کوئی آیت نہیں ہے۔ (کبیر) بعض علما نے کا خیال ہے کہ خذالعفو کا حکم آیت قتال سے منسوخ ہے۔ ابن جریر نے اسی کو تر جیح دی ہے۔ نیز دیکھئے سورة بقرہ آیت 109، ( ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ خذ۔ اختیار کر۔ العفو۔ درگزر کرنا۔ وامر بالعرف۔ اور نیک کا حکم کر۔ اعرض۔ منہ پھیر لے۔ پرواہ نہ کر۔ ینزغن۔ چھیڑ چھاڑ کرتا ہے۔ نزغ۔ وسوسہ ۔ کوئی خیال۔ یمدون۔ وہ کھینچتے ہیں۔ الغی۔ گمراہی۔ لا یقصرون۔ وہ کمی نہیں کرتے ہیں۔ تشریح : اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اخلاق کریمانہ کے مقا پر فائز فرمایا ہے۔ آپ کی شان یہ ہے کہ خلق عظیم آپ کی سیرت کا اعلیٰ ترین پہلو ہے، ۔ آپ نے دشمنوں کے ساتھ بھی کرم کے وہ اندازہ اختیار فرمائے ہیں جس کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ آپ ساری کائنات کے لئے رحمت ہی رحمت ہیں لیکن زندگی میں بعض ایسے مواقع بھی آجایا کرتے ہیں جہاں انسانی جذباتی طور پر ہل کر رہ جاتا ہے۔ غزوہ احد ایک ایسا معرکہ تھا جس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا سید الشھداء حضرت حمزہ (رض) کو نہای بےدردی کے ساتھ شہید کیا گیا۔ ان کے جسم کے تمام اعضاء کو کاٹ ڈالا گیا۔ کلیجہ چبایا گیا جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے پیارے چچا کی لاش کو دیکھا تو آپ اپنے انسوؤں پر قابو نہ رکھ سکے کفار کی اس حرکت پر آپ کی طبیعت میں شدید غسہ کا پیدا ہونا ایک لازمی چیز ہے آپ کی زبان مبارک سے شدت غم کی وجہ سے یہ نکل گیا کہ جن لوگوں نے حضرت حمزہ (رض) کے ساتھ یہ معاملہ کیا ہے میں ان کے ستر آدمیوں کے خلاف یہی معاملہ کروں گا۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں ۔ جس میں حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اے ہمارے پیارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے خلق عظیم اور حلم و متانت کے یہ بات شایان شان نہیں ہے کہ آپ کسی سے بدلہ لیں بلکہ آپ درگزر کریں ۔ نیک کاموں کی تعلیم دیتے رہیں اور جاہلوں سے کنارہ فرما لیں شیطان کا کام تو وسوسے ڈالنا ہے لیکن اگر کبھی دل میں اس طرح کا کوئی خیال پیدا ہو تو آپ اللہ کی پناہ میں آجائیے کیوں خۃ جو تقویٰ والے ہیں جب شیطان سے ان کو کوئی خطرہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اللہ کی یاد میں لگ جاتے ہیں تو یکا یک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں لیکن جو لوگ شیطان کی پیروی کرتے ہیں وہ شیطان ان لوگوں کو گمراہی کی طرف اس طرح کھینچے چلا جاتا ہے کہ وہ اس میں کمی نہیں کرتے ۔ امام تفسیر حضرت ابن جریر (رح) نے اس سلسلہ میں یہ روایت نقل کی ہے کہ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو آپو نے جبریل امین سے ان آیات کے متعلق پوچھا حضرت جبرئیل نے اللہ تعالیٰ سے پوچھ کر یہ جواب دیا کہ اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ جو شخص آپ پر ظلم و زیادتی کرے آپ اس کو معاف کریں جو آپ سے ہاتھ کھنیچ لے اس کو سب کچھ دیں اور جو آپ سے تعلق قطع کرلے اس سے پھر بھی ملیں۔ قرآن کریم اور احادیث کی روشنی میں ان آیات میں امت کے لئے جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے۔ (1) ۔ بیشک شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی کی گئی ہے تو اس سے اس کا پورا پورا بدلہ لیا جاسکتا ہے لیکن کسی کی زیادتی کے باوجود اس کو معاف کردینا اور انتقام کی قدرت و طاقت رکھنے کے باوجود اس سے انتقام اور بدلہ نہ لینا اخلاق کریمانہ ہے۔ اس آیت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے امتیوں کو اسی بات کا حکم دیا گیا ہے۔ (2) معاف کردینے کے بعد لوگوں کی خیر خواہی بھلائی اور نیکی پر مائل کرنے کے جذبے میں کوئی کمی نہ آئے بلکہ پہلے کی طرح دوسروں کی بھلائی کیلئے کا کرتے چلے جانا یہ بھی بہت بڑے ظرف اور عزم و ہمت کی بات ہے۔ (3) جاہلوں اور نادانوں کا کام تو یہی ہے کہ وہ اپنی جہالت اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہی رہتے ہیں لیکن اہل ایمان کی شان یہ ہے کہ وہ جاہلوں کے پیچھے پڑ کر اپنی منزل کھوٹی نہیں کرتے بلکہ ان کو نظر انداز کرکے اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔ (4) شیطان کا کام انسانوں سے دشمنی نکالنا۔ ان کو بہکانا اور ان کے دلوں میں طرح طرح کے وسوسے ڈالنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب بھی کوئی جذباتی موقع آئے اور شیطان کسی طرح کے وسوسے ڈالنے کی کوشش کرے تو تم اللہ تعالیٰ کی پناہ تلاش کرلیا کرو تاکہ شیطان کی فریب کاری تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔ (5) فرمایا کہ جو لوگ تقویٰ کی زندگی اختیار کرتے ہیں جب بھی انہیں شیطان کی طرف سے کسی وسوسے کا اندیشہ ہوتا ہے تو اپنے رب کی عبادت و بندگی اختیار کرلیتے ہیں اگر غفلت کا پردہ پڑ بھی جائے تو وہ اللہ کے ذکر سے اس طرح اس عمل سے ہٹ جاتے ہیں کہ پھر انہیں صاف نظر آنے لگتا ہے اور وہ شیطان کے دھوکے اور فریب سے محفوظ ہوجاتے ہیں۔ (6) اس کے برخلاف جو لوگ شیطان کے جال میں پھنس جاتے ہیں وہ ان کو فریب دے کر بدعملی اور گمراہی میں اس طرح کھینچا چلا جاتا ہے کہ پھر اس کا اس سے بچنا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو مذکورہ ا آیات سے ثابت ہیں جن پر عمل کرنے سے انسان اخلاق کریمانہ کا پیکر بن جاتا ہے۔ اور ان کے برخلاف چلنے سے انسان شیطان کے وسوسوں فریب اور دھوکے کا شکار ہوجاتا ہے۔ ان آیات میں جو الفاظ ارشاد فرمائے گئے ہیں اگر دیکھا جائے تو اس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ کے ماننے والے صحابہ کرا م (رض) اور پوری امت کو بہت جامع ہدایات دی گئی ہیں۔ فرمایا گیا (1) خذ العفو (2) وامر بالعرف (3) اعرض عن الجاھلین (4) استعذ باللہ (5) تذکروا۔ (1) خذ العفو : در گزر کر دیجئے، معاف کرنے کو اختیار کیجئے سرسری برتائو کو قبول کرلیجئے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیشہ اپنے دشمنوں، مخالفوں اور زیادتی کرنے والوں سے درگزر کیا ہے آپ نے فرمایا کہ میرے رب نے مجھے اس بات کا حکم دیا ہے کہ غصہ اور خوشی دونوں حالتوں میں انصاف کی بات کہوں، جو مجھ سے کٹتا ہے میں اس سے جڑوں۔ جو مجے میرے حق سے محروم کردے میں اسے اس کا حق دوں۔ جو شخص میرے ساتھ ظلم و زیادتی کا معاملہ کرتا ہے اس کو معاف کردوں۔ آپ جب صحابہ کرام (رض) کو تبلیغ اسلام یا جہاد کے لئے بھتیجے تو اس کی نصیحت فرماتے کہ لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنا ان کو سختی اور مشکلات میں مت ڈالنا، ان کو خوشخبریاں دینا محض سزائیں ہی نہ دینا۔ یہ آپ کے ارشادات ہیں لکن فتح مکہ کے دن آپ نے جس طرح اپنے خون کے پیاسوں کو معاف کردی اور ان کے ظلم و ستم سے درگزر فرمایا وہ تاریخ انسانی کا عظیم واقعہ ہے جس کی مثال پوری تاریخ انسانیت میں ملنا مشکل ہے۔ دشمنوں کے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ کرنا اور اس کی باتیں کرنا بہت آسان ہے لکنا جب وہ لوگ سامنے ہوں جنہوں نے ایسے ایسے ظلم کئے ہوں جو ناقابل بیان ہوں طاقت و قوت ہونے کے باوجود بھی ان کو معاف کردیا جائے اسی کو اخلاق کریمانہ کہتے ہیں۔ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی اخلاق کریمانہ کے پیکر ہیں۔ آپ نے ساری دنیا کو دشمنوں سے بہترین معاملہ کرنے کو عملاً کر دکھایا جو ایک بہترین مثال ہے۔ (2) وامرا بالمعرف : نیک اور بہتر باتوں کی تعلیم دیجئے۔ عرف کے معنی نیکی بھلائی اور خیر خواہی کے ہیں حکم دیا جا رہا ہے کہ لوگوں کے ساتھ وہ معاملہ کیا جائے جو حقیقی نیکی ہو۔ نیکیوں اور بھلائی کی باتوں کو پھیلانا اور ان کی تعلیم دینا اس امت کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ قرآن کریم میں امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہترین امت قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تامرون باالمعروف و تنھون عن المنکر تم نیکیوں کی تعلیم دیتے ہو اور تمام برائیوں سے روکتے ہو۔ گویا ہر مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خود بھی اور دوسروں کو بھی نیک اور بھلے کاموں پر آمادہ کرتا رہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام (رض) نے اس فریضہ کی ادائیگی کے لئے بھی بہترین نمونے چھوڑے ہیں جن پر ساری انسانیت ناز کرسکتی ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جاں نثاروں نے ہمیشہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے وہ کام کئے ہیں جو بےمثال ہیں ۔ اور آج کائنات میں جو بھی روشنی نظر آتی ہے وہ ان ہی کا فیض نظر ہے۔ (3) اعرض عن الجاھلین : جاہلوں سے کنارہ کرلیجئے۔ جاہل صرف اسی کو نہیں کہتے کہ جس نے تعلیم حاصل نہ کی ہو بلکہ سب سے بڑا جاہل وہ ہے جو کسی کی عزت و عظمت سے ناواقف ہو کر ایسے جاہلانہ کام کر گزرے جس سے دوسروں کی دل آزادی، دل شکنی اور محرومی پیدا ہوجائے۔ فرمایا گیا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ نالائق، جاہل اور احمق لوگ آپ کی شان اور عظمت سے ناواقف ہیں۔ اگر ان کو آپ کی شان اور عظمت معلوم ہوجائے تو کبھی ایسی حرکتیں نہ کریں۔ آپ ایسے لوگوں کو نظر انداز کیجئے۔ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیجئے۔ اللہ خود ان سے نبٹ لے گا۔ آپ اپنی منزل کی طرف بڑھتے رہیے اور انسانیت کی فلاح و بہبود اور نیکی کے ہر کام کو پورے جذبے سے جاری رکھئے۔ (4) استعذ باللہ : اللہ کی پناہ طلب کرلیجئے۔ اس کی حفاظت میں آجائیے۔ اصل میں انبیاء کرام (علیہ السلام) معصوم ہوتے ہیں۔ ان کی حفاظت اللہ کی طرف سے کی جاتی ہے۔ شیطان وسوسے ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ شیطان کی مجال نہیں ہے کہ وہ انبیاء کرام (علیہم السلام) پر اپنا دائو چلا سکے۔ شیطان کی یہ تو ہمت نہیں ہے کہ وہ انبیاء کرام (علیہ السلام) سے کوئی گناہ کرا سکے۔ یہاں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ اگر کبھی بشریت کے تقاضے سے کوئی ایسا خیال آجائے جو بظاہر خطا ہو (حالانکہ انبیاء کرام (علیہ السلام) کی طرف کسی خطا کی نسبت بھی خطا ہے) تو اللہ کی پناہ میں آجانے سے وہ بات دور ہوجاتی ہے فرمایا گیا کہ اس وقت اللہ کی پناہ مانگ لیا کیجئے۔ جب تک کوئی بات خیال کی حد تک ہو اور عمل میں نہ ڈھل جائے تو وہ گناہ نہیں ہوتی۔ جیسے حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ الصلوۃ والسلام) سوچنے کی حدت تک یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ لوگ چاند، سورج، ستاروں کو اپنے معبود کہتے ہیں ان میں سے میرا رب کونسا ہوسکتا ہے ؟ جب وہ چاند، سورج، ستاروں کو ایک لگے بندھے نظام کے تحت دیکھتے ہیں کہ وہ وقت پر نکل رہے ہیں اور ڈوب رہے ہیں تو وہ سمجھ گئے کہ یہ تو کسی اور کے تابع ہیں جو ان کو اپنی رفتار سے چلا رہا ہے حضرت ابراہیم خلیل اللہ چلا اٹھے کہ میں اس کی طرف رجوع کرتا ہوں جس نے ان سب چیزوں کو پیدا کیا اور میری قوم جن مشرکانہ باتوں میں مبتلا ہے میں ان میں سے کسی کے ساتھ شرک میں نہ شریک رہا ہوں اور نہ ہوں گا۔ اس واقعہ کو اس لئے بیان کیا گیا ہے کہ سوچ کی بھی کچھ منزلیں ہوتی ہیں جب تک وہ عمل میں نہ ڈھل جائیں یا ان پر عمل نہ کیا جائے اس وقت تک ان پر کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ خلاصہ یہ ہے کہ انبیاء کرام (علیہ السلام) ہر خطا اور گناہ سے معصوم ہوتے ہیں لیکن اگر وہ کبھی کوئی ایسا خیال آجائے جو بظاہر گناہ ہے تو شیطان کے مقابلے میں اللہ کی پناہ مانگ لینے سے اللہ کی مدد پہنچ جاتی ہے۔ (5) تذکروا : آخری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور ذکر ایسی بڑی نعمت ہے کہ جب اللہ کو یاد کیا جائے گا تو شیطان کے کسی وسوسے کا اس پر اثر نہیں پڑے گا لیکن وہ لوگ جو شیطان کی پیروی کرنے والے ہیں شیان کا ان پر اتنا گہرا ثر پڑتا ہے کہ وہ ان کو گمراہیوں کی آخری حدوں تک پہنچا کر چھوڑتا ہے۔ اللہ کا ذکر کرنے والے کبھی بھی شیطان کے وسوسوں اور فریب کے سامنے بےبس نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو شیطانی وسوسوں اور فریب سے محفوظ فرمائے۔ ” آمین “۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی لوگوں کے اعمال و اخلاق میں تہ اور حقیقت تلاش نہ کیجیے بلکہ ظاہری نظر میں سرسری طور پر جو کام کسی سے اچھا ہو اس کو بھلائی پر محمول کیجیے باطن کا حال اللہ کے سپرد کیجیے حاصل یہ کہ معاشرت میں سہولت رکھیے تشدد نہ کیجیے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی توحید بتلانے اور سمجھانے پر مشرک اور کافر اشتعال میں آکر بد کلامی کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں درگزر کرنے کا حکم۔ یہاں مبلغ کو چار ہدایات دی گئی ہیں۔ ١۔ اختلاف اور اشتعال کے مقابلہ میں حوصلہ رکھنا اور درگزر کرنا۔ ٢۔ عرف کے مطابق تبلیغ کرنا۔ ٣۔ جہلا سے اعراض برتنا۔ ٤۔ انسان ہونے کے ناتے سے طبیعت میں غصہ اور اشتعال پیدا ہو تو شیطان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنا۔ تبلیغ کے میدان میں ایک مبلغ کو ہر قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس لیے اسے سمجھ داری اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اگر دین کا کارکن اور مبلغ مشتعل ہوجائے تو کام آگے بڑھنے کے بجائے نہ صرف رک جاتا ہے بلکہ معاملہ جنگ وجدال تک پہنچ جاتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فطری اور جبلی طور پر حوصلہ اور برد باری کے پیکر تھے۔ آپ کی حیات مبارکہ میں کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں کہ آپ نے اشتعال میں آکر کسی کو ترکی بہ ترکی جواب دیا ہو۔ اس کے باوجود آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ معافی اور درگزر کا رویہ اختیار کریں۔ یہی تعلیم آپ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری اور معاذ بن جبل کو (رض) کو یمن بھیجتے ہوئے دی تھی۔ پہلے آپ نے ارکان اسلام کی ترتیب بتلائی اور فرمایا کہ سب سے پہلے ان لوگوں کو توحید و رسالت سے آگاہ کرنا جب لوگ کلمہ طیبہ کی شہادت دیں تو پھر انھیں نماز پر لگانا اور نماز کے بعد زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دینا اور لوگوں سے زکوٰۃ لے کر وہاں کے غریبوں پر خرچ کرنا اور یاد رکھنا کہ لوگوں کے ساتھ نرمی اور آسانی کا رویہ اختیار کرتے ہوئے ان کے درمیان نفرت پیدا کرنے سے اجتناب کرنا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الرَّحِمَ شَجْنَۃٌ مِنْ الرَّحْمٰنِ فَقَال اللّٰہُ مَنْ وَصَلَکِ وَصَلْتُہٗ وَمَنْ قَطَعَکِ قَطَعْتُہٗ )[ رواہ البخاری : کتاب الادب، باب من وصل وصلہ اللہ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں انہوں نے فرمایا بلاشبہ رحم رحمٰن سے ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو کوئی تمہیں ملائے گا اسے میں ملاؤں گا اور جو کوئی تمہیں قطع کرے گا میں اسے قطع کروں گا۔ “ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَیْسَ الشَّدِید بالصُّرْعَۃِ إِنَّمَا الشَّدِیدُ الَّذِی یَمْلِکُ نَفْسَہٗ عِنْدَ الْغَضَبِ )[ رواہ البخاری : کتاب الادب، باب الحذر من الغضب ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا طاقتور وہ نہیں جو مد مقابل کو پچھاڑ دے بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر کنٹرول رکھے۔ “ (عن سُلَیْمَان بن صُرَدٍ (رض) قَالَ اسْتَبَّ رَجُلَانِ عِنْدَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَنَحْنُ عِنْدَہٗ جُلُوسٌ وَأَحَدُہُمَا یَسُبُّ صَاحِبَہٗ مُغْضَبًا قَدْ اِحْمَرَّ وَجْہُہٗ فَقَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنِّی لَأَعْلَمُ کَلِمَۃً لَوْ قَالَہَا لَذَہَبَ عَنْہُ مَا یَجِدُ لَوْ قَالَ أَعُوذ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیمِ فَقَالُوا للرَّجُلِ أَلَا تَسْمَعُ مَا یَقُول النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنِّی لَسْتُ بِمَجْنُونٍ ) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب الحذر من الغضب ] ” حضرت سلیمان بن صرد (رض) بیان کرتے ہیں دو آدمیوں نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں باہم گالی گلوچ کی اور ہم آپ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان دونوں میں سے ایک شدید غصے میں تھا وہ دوسرے کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کا چہرہ سرخ تھا۔ سرکار دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں ایسی بات جانتا ہوں اگر وہ اسے کہہ دے تو اس سے اس کا غصہ جاتا رہے۔ وہ کہے : اَعُوْذُ بالِلّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ” میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود سے۔ “ صحابہ کرام (رض) نے اس شخص سے کہا کیا تم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نہیں سنتے ہو ؟ اس شخص نے کہا میں پاگل تو نہیں ہوں۔ “ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا وَبَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا) [ رواہ البخاری : کتاب العلم، باب ماکا یتخولہم بالموعظۃ ] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آسانیاں پیدا کرو مشکلات پیدا نہ کرو لوگوں کو خوشخبریاں دو اور متنفر نہ کرو۔ “ ٢۔ دوسرا حکم آپ اور آپ کے حوالے سے ہر مبلغ کو یہ دیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو عرف کی تبلیغ کریں اور عرف کا معنیٰ نیک کام، تبلیغ اور نصیحت کرنا بھی ہے کہ مبلغ کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ وہ مرقع، مسبح، ردیف اور قافیہ ملانے کے بجائے سادہ اور مؤثر الفاظ میں لوگوں کو وعظ کرے۔ اس کے لب و لہجہ، انداز اور الفاظ میں تکلف نہیں ہونا چاہیے کیونکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ آپ اعلان فرمائیں کہ میں آپ سے تبلیغ کے بدلے نہ کوئی اجر طلب کرتا ہوں اور نہ ہی کسی قسم کا تکلف کرنے والا ہوں۔ (ص، آیت : ٨٦) اس کے ساتھ ہی مبلغ کو وعظ بالخصوص خطبہ جمعہ میں شعر و شاعری سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے آپ کو شعر و شاعری نہیں سکھلائی اور نہ ہی آپ کی شان کے لائق ہے کہ آپ شعر گوئی کا مظاہرہ کریں۔ ( یٰسٓ، آیت : ٦٩) (عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ رُوَیْبَۃَ (رض) قَالَ رَأٰی بِشْرَ بْنَ مَرْوَانَ عَلَی الْمِنْبَرِ رَافِعًا یَدَیْہِ فَقَالَ قَبَّحَ اللّٰہُ ہَاتَیْنِ الْیَدَیْنِ لَقَدْ رَأَیْتُ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَا یَزِیدُ عَلٰی أَنْ یَقُولَ بِیَدِہٖ ہٰکَذَا وَأَشَارَ بِإِصْبَعِہٖ الْمُسَبِّحَۃِ ) [ رواہ مسلم : کتاب الجمعۃ، باب تخفیف الصلاۃ والخطبۃ ] ” حضرت عمارہ بن رویبہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے بشر بن مروان کو منبر پر دیکھا کہ وہ دونوں ہا تھوں کو بلند کیے ہوئے تھے حضرت عمارہ کہنے لگے اللہ ان ہاتھوں کو تباہ کرے ! میں نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا آپ اس سے زیادہ اشارہ نہیں کرتے تھے یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنی انگشت شہادت کی طرف اشارہ کیا۔ “ ٣۔ اعراض : اس سے مراد بحث و تکرار اور جنگ جدال سے بچنا ہے۔ مبلغ تبلیغ کے میدان میں مخالف کی بدکلامی کا جواب ترکی بہ ترکی دے تو سننے والے اس کو اچھا نہیں سمجھتے۔ بدکلامی اور طعنہ زنی کرنے والے مبلغین کو یہ بات اچھی طرح سمجھنی چاہیے وہ کونسا الزام اور بدکلامی ہے۔ جس سے نبی اکرم اور انبیاء کو واسطہ نہیں پڑا لیکن آپ اور کسی نبی نے اپنے مخالف کو برا کہنا تو درکنار کوئی سطحی لفظ بھی نہیں بولا۔ ٤۔ وعظ و نصیحت کے میدان میں درگزر کرنے اور حوصلہ مندی کے باوجود بعض دفعہ ایسے جہلا سے واسطہ پڑتا ہے جو الجھے بغیر نہیں رہ سکتے ایسی صورت میں ایسے لوگوں سے اعراض کرنا چاہیے اگر ان کی اشتعال انگیز باتوں پر طبیعت میں غصہ پیدا ہوا تو اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنی چاہیے کیونکہ غصہ شیطان کی طرف سے ہوا کرتا ہے۔ جو لوگ گناہوں سے بچنے اور اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں جو نہی انھیں شیطان کا غلبہ یا اس کے اثرات محسوس ہوں تو وہ اس پر چوکنے ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر شیطان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب نہ کی جائے تو شیطان اور اس کے ساتھی انسان کو گمراہی میں مبتلا کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے۔ غصہ اور اشتعال ہمیشہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کی فریاد سننے والا اور مبلغ کی نیت اور مخالف کی جہالت کو جاننے والا ہے۔ (عن ابی ہُرَیْرَۃَ قال قال رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَأْتِی الشَّیْطَانُ أَحَدَکُمْ فَیَقُولُ مَنْ خَلَقَ کَذَا مَنْ خَلَقَ کَذَا حَتّٰی یَقُولَ مَنْ خَلَقَ رَبَّکَ فَإِذَا بَلَغَہُ فَلْیَسْتَعِذْ باللّٰہِ وَلْیَنْتَہٖ ) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب صفۃ ابلیس و جنودہ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے کسی ایک کے پاس شیطان آتا ہے اور کہتا ہے فلاں چیز کس نے پیدا کی ؟ فلاں چیز کس نے پیدا کی ؟ یہاں تک کہ وہ کہتا ہے تیرے رب کو کس نے پیدا کیا۔ جب کوئی اس خیال کو پہنچے تو اسے چاہیے کہ اللہ کی پناہ مانگے اور اس سے باز آجائے۔ “ مسائل ١۔ جھگڑے اور مخالفت میں حوصلے اور درگزر سے کام لینا چاہیے۔ ٢۔ برے خیالات آنے پر شیطان سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن جاہل لوگوں کی نشانیاں : ١۔ اللہ کے سوا کسی اور کو معبود بنانا جاہلوں کا کام ہے۔ (الاعراف : ١٣٨) ٢۔ جاہل اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کی ترغیب دیتے ہیں۔ (الزمر : ٦٤) ٣۔ اللہ تعالیٰ کی آیات سے روگردانی کرنا جاہلوں کا کام ہے۔ (النمل : ٥٥) ٤۔ بیویوں کو چھوڑ کر لونڈے بازی کرنا جاہلوں کا کام ہے۔ (النمل : ٥٥) ٥۔ سوال نہ کرنے والے حاجت مند کو جاہل لوگ غنی خیال کرتے ہیں۔ (البقرۃ : ٢٧٣) ٦۔ فضول جواب دینا جہالت کی نشانی ہے۔ (البقرۃ : ٦٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر 82 ایک نظر میں اس سورة کے آخر میں یہ ربانی ہدایت ہیں ، اللہ کی جانب سے خاص اپنے دوستوں کو یہ نصیحت کی جا رہی ہے۔ ان میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں سے خطاب ہے۔ اس وقت یہ لوگ ابھی مکہ ہی میں تھے۔ یہ ہدایات انہیں اس ہمہ گیر جاہلیت کے مقابلے کے لیے دی جا رہی ہیں جو مکہ اور اس کے ارد گرد پوری دنیا پر چھائی ہوئی تھی۔ یہ ہدایات اس ہمہ گیر جاہلیت کے مقابلے کے لیے خاص طور پر جاری ہوئی ہیں اور گمراہ انسانیت کو راہ ہدایت دکھانے کے لیے ہیں۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بحیثیت قائد دعوت یہ حکم دیا جاتا ہے کہ لوگوں کے لیے نہایت ہی یسر اور نرمی کے ساتھ پیش آئیں اور ایسی باتوں کا حکم دیں جنہیں سلیم فطرت انسانی افعال خیر سمجھتی ہو۔ تمہارے احکام و ہدایات میں تعقید اور تشدید نہ ہو ، اور جہاں جاہلیت اصلاح پذیر نہ ہو وہاں اس کے ساتھ الجھنے کے بجائے اس سے پہلو تہی کیا جائے ، لوگوں سے مجادلہ نہ کیا جاے ، ان کی فضول محفلوں میں شریک نہ ہوں اور اگر اہل جاہلیت آپ کو غصہ دلائیں اور حدود پار کریں اور ضد وعناد کا مظاہرہ کریں اور شیطان کی وسوسہ اندازیوں کے نتیجے میں آپ کو طیش آجائے تو آپ شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کریں اور تعوذ کے ذریعے اطمینان حاصل کرکے صبر کریں۔ خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ ۔ وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ ۭاِنَّهٗ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۔ اِنَّ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰۗىِٕفٌ مِّنَ الشَّيْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَا هُمْ مُّبْصِرُوْنَ ۔ اِنَّ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰۗىِٕفٌ مِّنَ الشَّيْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَا هُمْ مُّبْصِرُوْنَ ۔ اے نبی ! نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو ، معروف کی تلقین کیے جاؤ اور جاہلوں سے نہ الجھو اگر کبھی شیطان تمہیں اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو ، وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے حقیقت میں جو لوگ متقی ہیں ان کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال اگر انہیں چھو بھی جاتا ہے تو فوراً چوکنے ہوجاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آنے لگتا ہے کہ ان کے لیے صحیح طریق کار کیا ہے۔ اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان جاہلوں کے مزاج سے متعارف کرایا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ وہ کس قوت کی وسوسہ اندازی ہے جو ان لوگوں کو سرکشی اور گمراہی پر ابھار رہی ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وہ جو سلوک کر رہے ہیں اس کا ایک حصہ بھی یہاں بتایا جاتا ہے کہ وہ آپ سے خوارق عادت امور طلب کرتے ہیں چناچہ حضور کو ہدایت کی جاتی ہے کہ ان کے اس سلوک اور مطالبوں کا یہ جواب دیا جائے تاکہ ان کو معلوم ہو کہ رسالت کی حقیقت کیا ہے ؟ رسول کا مقام کیا ہے ؟ تاکہ رسالت اور رسول کے مقام و ماہیت کے بارے میں ان کے تصورات کی اصلاح کردی جائے۔ اور یہ بتایا جائے کہ رسول اور رب العالمین کے تعلق کی نوعیت کیا ہے ؟ وَاِخْوَانُهُمْ يَمُدُّوْنَهُمْ فِي الْغَيِّ ثُمَّ لَا يُقْصِرُوْنَ ۔ وَاِذَا لَمْ تَاْتِهِمْ بِاٰيَةٍ قَالُوْا لَوْلَا اجْتَبَيْتَهَا ۭقُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِعُ مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ مِنْ رَّبِّيْ ۚ هٰذَا بَصَاۗىِٕرُ مِنْ رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ ۔ رہے ان کے (یعنی شیاطین کے) بھائی بند ، تو وہ انہیں ان کی کج روی میں کھینچے لیے چلے جاتے ہیں اور انہیں بھٹکانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ اے نبی ! جب تم ان لوگوں کے سامنے کوئی نشانی (یعنی معجزہ) پیش نہیں کرتے تو یہ کہتے ہیں کہ تم نے اپنے لیے کوئی نشانی کیوں نہ انتخاب کرلی ؟ ان سے کہو " میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب نے میری طرف بھیجی ہے۔ یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمہارے رب کی طرف سے اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو اسے قبول کریں۔ بذریعہ وحی قرآن کے نزول کی طرف آیت سابقہ میں اشارہ کیا گیا تھا۔ اس مناسبت سے یہاں مسلمانوں کو وہ آداب سکھائے جاتے ہی جو تلاوت قرآن کے وقت ملحوظ رکھے جائیں گے۔ اللہ کے ذکر کے آداب اور یاد الہی پر دوام اور اسے عادت بنا لینے کی ہدایت اور کسی بھی وقت یاد الہی سے غافل نہ ہونے کی ہدایت ، بعینہ اسی طرح ہے جس طرح ملائکہ ہر وقت اللہ کی یاد کرتے رہتے ہیں ، تسبیح کرتے ہیں اور سجدہ ریز ہوتے ہیں لہذا انسانوں کے لیے یہ ضروری اور بہتر ہے کہ وہ غفلت نہ کریں اور تسبیح و تہلیل اور رکوع و سجود میں مشغول رہیں۔ وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ۔ وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّخِيْفَةً وَّدُوْنَ الْجَــهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ ۔ اِنَّ الَّذِيْنَ عِنْدَ رَبِّكَ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَيُسَبِّحُوْنَهٗ وَلَهٗ يَسْجُدُوْنَ جب قرآن تمہارے سامنے پڑھا جاے تو اسے توجہ سے سنو اور خاموش رہو ، شاید کہ تم پر بھی رحمت ہوجائے۔ اے نبی اپنے رب کو صبح و شام یاد کیا کرو ، دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ۔ تم ان لوگوں میں سے نہ ہوجاؤ جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ، جو فرشتے تمہارے رب کے حضور تقرب کا مقام رکھتے ہیں وہ کبھی اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں آخر اس کی عبادت سے منہ نہیں موڑتے اور اس کی تسبیح کرتے ہیں ، اور اس کے آگے جھکے رہتے ہیں۔ درس نمبر 82: تشریح آیات 199 تا 206:۔ تفسیر آیت 99: خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ ۔ اے نبی ! نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو ، معروف کی تلقین کیے جاؤ اور جاہلوں سے نہ الجھو مطلب یہ ہے کہ ممکن حد تک لوگوں کے ساتھ نرمی کرو۔ معاشرت ، باہم میل جول میں لوگوں سے اخلاق عالیہ کا بدرجہ کمال توقع نہ کرو۔ اور ایسے اخلاق بھی ان پر مسلط نہ کرو جو ان پر شاق گزریں اور ان کے لیے ان کا مظاہرہ ممکن نہ ہو۔ ان کے اندر جو غلطیاں پائی جاتی ہوں۔ ان میں جو کمزوریاں اور جو نقائص پائے جاتے ہوں ان کے بارے میں عفو و درگذر سے کام لو۔ لیکن یہ عفو و درگذر کی پالیسی ذاتی اور شخصی معاملات کے اندر ہے۔ شرعی فرائض و واجبات میں عفو و درگذر کی پالیسی اختیار نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ اسلامی عقائد میں سے کوئی عقیدہ ایسا نہیں ہے جس سے چشم پوشی کی جاسکتی ہو۔ اور اسلامی شریعت میں کوئی قانون ایسا نہیں ہے جس سے چھوٹ دی جاسکتی ہو۔ ہاں لوگ لین دین کے معاملات می ایک دوسرے کے ساتھ میل و جول اور معاشرت میں نرمی اور تسامح کرسکتے ہیں۔ باہم معاشرت میں نرمی سے لوگوں کی زندگی بہت ہی اچھے اسلوب میں گزر سکتی ہے ، خصوصاً بڑے لوگوں کی جانب سے چھوٹ لوگوں کی غلطیوں سے چشم پوشی کرنا ، انسانی کمزوریوں سے درگزر کرنا اور ان پر رحم کرنا اور ان کے ساتھ دریا دلی کا رویہ اختیار کرنا ، ان کے فرائض میں شامل ہے اور ان کے شایان شان تصور ہوتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک عظیم شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ معلم ، مر بھی ور مصلح بھی ہیں۔ اس لیے ان اوصاف حمیدہ کی رعایت کرنا ان کے شایان شان ہی نہیں ان کے فرائض میں سے ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ذاتی معاملات کبھی بھی کسی شخص پر طیش پر نہیں آئے ، لیکن اگر معاملہ دین کا ہوتا تو آپ کا چہرہ سرخ ہوجاتا۔ یہی حکم ان تمام افراد کے لیے ہے جو دعوت دین کا کام کرتے ہیں ، ان کے لیے بھی وہی حکم ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ۔ اس لیے انسانی نفوس کو راہ ہدایت پر لانے کے لیے ان کے ساتھ وسعت قلبی کا سلوک ہونا چاہئے۔ ان کے ساتھ اچھا رویہ خوش اخلاقی اور نرمی کا برتاؤ ہونا چاہیے مگر شرط یہ ہے کہ دین کے معاملے میں کوئی نرمی نہیں کی جاسکتی ، نہ اللہ کے دین میں افراط وتفریط سے کام لیا جاسکتا۔ وامر بالعرف۔ " معروف کی تلقین کر "۔ معروف سے مراد وہ کام ہے جو اچھا ہو ، جس کی بھلائی میں کوئی شبہ نہ ہو ، اور اس میں کسی کا اختلاف اور جھگڑا نہ ہو اور جس میں تمام سلیم الفطرت اور درست فکر و نظر رکھنے والے لوگوں کا اختلاف نہ ہو۔ جب نفس انسانی ان معروف امور کا عادی بن جائے تو پھر اس کی قیادت اور راہنمائی آسان ہوجاتی ہے اور وہ بغیر کسی مشقت کے اچھے کاموں کی طرف آگے بڑھتا ہے۔ حققت یہ ہے کہ جب آغاز ہی میں نفس انسانی کو مشقت ، مشکلات اور شدت اور سختی سے دوچار کردیا جائے تو اس اچانک سخت صورت حالات سے نفس انسانی بدک جاتا ہے اور اس کی اصلاح کے تمام راستے بند ہوجاتے ہیں۔ نفس انسانی کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ آغاز کار میں اسے آسان کام دئیے جائیں جو معروف اور مشہور ہوں تاکہ وہ خود مشکل کاموں کی طرف بڑھنے کا حوصلہ کرے اور بڑی سہولت سے وہ کام کر گزرے۔ و اعرض عن الجاھلین۔ " اور جاہلوں سے نہ الجھو "۔ جہالت رشد و ہدایت کے مقابلے میں ہے ، جہالت علم کے بالمقابل بھی ہے ، گمراہی اور بےعلمی گویا ہمسائے ہیں۔ اعراض کس طرح کریں ، یعنی جاہلوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیں۔ نیز جو باتیں وہ کرتے اور جو برے اعمال وہ کرتے ہیں ان کو اہمیت نہ دیں اور اگر ایسے حالات سامنے آجائیں تو شریفانہ انداز اختیار کرکے گزر جائیں۔ ان کے ساتھ بحث و تکرار نہ کریں جس کا نتیجہ ماسوائے کشیدگی کے اور کچھ نہیں ہوتا اور جس میں محض وقت اور قوت ضائع ہوتی ہے۔ بعض اوقات سکون اور اعراض کی وجہ سے ان کا نفسیاتی علاج بھی ہوجاتا ہے۔ یوں ان کے سرکش نفوس کی اصلاح ہوجاتی ہے اور یہ اصلاح بدکلامی اور بحث و مناظرے کے مقابلے میں زیادہ موثر ہوتی ہے۔ جس کے نتیجے میں عناد اور نفرت پیدا ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ الجھاؤ کے نتیجے میں مخاطبین کی اصلاح ہوگی یا نہ ہوگی یہ بات مشکوک ہے البتہ الجھنے والا داعی بہرحال ان لوگوں سے دور ہوجاتا ہے جن میں اصلاح احوال اور قبولیت حق کا مادہ ہوتا ہے۔ اور جب داعی لغو اور بدکلام لوگوں سے اعراض کردے۔ تو وہ پروقارنظر آتا ہے اور لوگ دیکھتے ہیں کہ داعی کے مخالف لوگ جہالت میں مبتلا ہیں ، احمقانہ کام کرتے ہیں تو اس وجہ سے وہ عوام الناس کی نظروں میں گر جاتے ہیں۔ ہر صاحب دعوت کو چاہئے کہ وہ اللہ کی ان ہدایات پر اچھی طرح غور و فکر کرے کیونکہ رب العالمین انسانی نفسیات کی داخلیات سے بھی اچھی طرح واقف ہے اسی لیے اس نے یہ ہدایات دی ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

190: یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے۔ “ وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّکَ الخ ”، “ نَزْغٌ ” سے شیطان کا وسوسہ ڈالنا مراد ہے۔ یعنی میں نے جو احکام صادر کیے ہیں۔ اگر شیطان ان کی مخالفت کا وسوسہ ڈالنے کی کوشش کرے تو آپ اللہ سے پناہ مانگیں۔ اس میں خطاب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے۔ مگر مراد آپ کی وساطت سے ہر مخاطب ہے۔ “ اِنَّهٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ” یہ ما قبل کی علت ہے “ اي ینخسنک بان یحملک بوسوة علی ما لا لیق فاطلب العیاذة بالله منه ” (بحر ج 4 ص 448) ۔ حم اسلجدة رکوع 5 میں ہے۔ “ اِنَّه ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ” یہاں ضمیر فصل اور خبر پر لام تعریف مفید حصر ہے یعنی چونکہ اللہ ہی سننے والا اور جاننے والا ہے اس لیے اسی سے پناہ مانگو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

199 اے پیغمبر ! آپ درگزر کرنے اور معاف کردینے کا شیوہ اختیار کیجئے اور بھلے کاموں کے کرنے کا حکم دیتے رہئے اور بیوقوفوں اور جاہلوں کو منہ نہ لگائیے اور ایسے لوگوں سے کنارہ کشی اور اغراض اختیار کیجئے۔