Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 202

سورة الأعراف

وَ اِخۡوَانُہُمۡ یَمُدُّوۡنَہُمۡ فِی الۡغَیِّ ثُمَّ لَا یُقۡصِرُوۡنَ ﴿۲۰۲﴾

But their brothers - the devils increase them in error; then they do not stop short.

اور جو شیاطین کے تابع ہیں وہ ان کو گمراہی میں کھینچے لے جاتے ہیں پس وہ باز نہیں آتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَإِخْوَانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ إِنَّ الْمُبَذرِينَ كَانُواْ إِخْوَنَ الشَّيَـطِينِ يَمُدُّونَهُمْ فِي الْغَيِّ ثُمَّ لاَ يُقْصِرُونَ and they never stop short. for the devils never cease inciting mankind to commit errors. Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas commented on Allah's statement, وَإِخْوَانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الْغَيِّ ثُمَّ لاَ يُقْصِرُونَ (But (as for) their brothers they plunge them deeper into error, and they never stop short), "Neither mankind stop short of the evil that they are doing nor the devils stop short of luring them." Therefore, لااَ يُقْصِرُونَ (they never stop short), refers to the devils getting tired or stopping their whispering. Allah said in another Ayah, أَلَمْ تَرَ أَنَّأ أَرْسَلْنَا الشَّيَـطِينَ عَلَى الْكَـفِرِينَ تَوُزُّهُمْ أَزّاً See you not that We have sent Shayatin against the disbelievers to push them to do evil! (19:83) persistently luring the disbelievers to commit evil, according to Ibn Abbas and others.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

202۔ 1 یعنی شیطان کافروں کو گمراہی کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں، پھر وہ کافر (گمراہی کی طرف جانے میں) یا شیطان انکو لے جانے میں کوتاہی میں کمی نہیں کرتے۔ یعنی لَا یَقْصِرُوْنَ کا فاعل کافر بھی بن سکتے ہیں اور اِخْوَان الْکُفَّاِرِ شیاطین بھی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٠٠] لیکن ایسا ہی وسوسہ اگر شیطان کسی کے نافرمان یا باغی کے دل میں ڈال دے اور ایسے لوگ فوراً اس وسوسہ میں پھنس کر معصیت کی رو میں بہہ جاتے ہیں اس کے بعد بھی شیطان انہیں معاف نہیں کرتا بلکہ ان کا حوصلہ بڑھاتا رہتا ہے اور اسے جب بھی موقع ملے اپنے ان بھائیوں کو گمراہی میں کھینچتا چلا جاتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِخْوَانُهُمْ يَمُدُّوْنَهُمْ فِي الْغَيِّ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے مقابلے میں ان کفار و منافقین کا جو اپنی شرارت اور خباثت نفس میں شیاطین کے بھائی ہیں، یہ حال ہے کہ ان کے بھائی شیاطین انھیں گمراہی میں بڑھاتے اور گھسیٹتے ہی لیے جاتے ہیں اور انھیں بھٹکانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ (ابن کثیر)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِخْوَانُہُمْ يَمُدُّوْنَہُمْ فِي الْغَيِّ ثُمَّ لَا يُقْصِــرُوْنَ۝ ٢٠٢ أخ أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران/ 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف/ 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف/ 85] ، ( اخ و ) اخ ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ } ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔{ أَخَا عَادٍ } ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ { وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا } ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ { وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ } ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ { وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا } ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔ مد أصل المَدّ : الجرّ ، ومنه : المُدّة للوقت الممتدّ ، ومِدَّةُ الجرحِ ، ومَدَّ النّهرُ ، ومَدَّهُ نهرٌ آخر، ومَدَدْتُ عيني إلى كذا . قال تعالی: وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه/ 131] . ومَدَدْتُهُ في غيّه، ومَدَدْتُ الإبلَ : سقیتها المَدِيدَ ، وهو بزر ودقیق يخلطان بماء، وأَمْدَدْتُ الجیشَ بِمَدَدٍ ، والإنسانَ بطعامٍ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان/ 45] . وأكثر ما جاء الإمْدَادُ في المحبوب والمدُّ في المکروه نحو : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور/ 22] أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون/ 55] ، وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح/ 12] ، يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران/ 125] ، أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ [ النمل/ 36] ، وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم/ 79] ، وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف/ 202] ، وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان/ 27] فمن قولهم : مَدَّهُ نهرٌ آخرُ ، ولیس هو مما ذکرناه من الإمدادِ والمدِّ المحبوبِ والمکروهِ ، وإنما هو من قولهم : مَدَدْتُ الدّواةَ أَمُدُّهَا «1» ، وقوله : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف/ 109] والمُدُّ من المکاييل معروف . ( م د د ) المد کے اصل معنی ( لمبائی میں ) کهينچنا اور بڑھانے کے ہیں اسی سے عرصہ دراز کو مدۃ کہتے ہیں اور مدۃ الجرح کے معنی زخم کا گندہ مواد کے ہیں ۔ مد النھر در کا چڑھاؤ ۔ مدہ نھر اخر ۔ دوسرا دریا اس کا معاون بن گیا ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان/ 45] تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا رب سائے کو کس طرح دراز کرک پھیلا دیتا ہے ۔ مددت عینی الی کذا کسی کیطرف حریصانہ ۔۔ اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه/ 131] تم ۔۔ للچائی نظروں سے نہ دیکھنا ۔ مددتہ فی غیہ ۔ گمراہی پر مہلت دینا اور فورا گرفت نہ کرنا ۔ مددت الابل اونٹ کو مدید پلایا ۔ اور مدید اس بیج اور آٹے کو کہتے ہیں جو پانی میں بھگو کر باہم ملا دیا گیا ہو امددت الجیش بمدد کا مددینا ۔ کمک بھیجنا۔ امددت الانسان بطعام کسی کی طعام ( غلہ ) سے مددکرنا قرآن پاک میں عموما امد ( افعال) اچھی چیز کے لئے اور مد ( ثلاثی مجرد ) بری چیز کے لئے ) استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور/ 22] اور جس طرح کے میوے اور گوشت کو ان کا جی چاہے گا ہم ان کو عطا کریں گے ۔ أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون/ 55] کیا یہ لوگ خیا کرتے ہیں ک ہم جو دنیا میں ان کو مال اور بیٹوں سے مدد دیتے ہیں ۔ وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح/ 12] اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے گا ۔ يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران/ 125] تمہارا پروردگار پانچ ہزار فرشتے تمہاری مدد کو بھیجے گا ۔ أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ [ النمل/ 36] کیا تم مجھے مال سے مدد دینا چاہتے ہو ۔ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم/ 79] اور اس کے لئے آراستہ عذاب بڑھاتے جاتے ہیں ۔ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت اور سرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف/ 202] اور ان ( کفار) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں لیکن آیت کریمہ : وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان/ 27] اور سمندر ( کا تمام پانی ) روشنائی ہو اور مہار ت سمندر اور ( روشنائی ہوجائیں ) میں یمددہ کا صیغہ مدہ نھرا اخر کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ امداد یا مد سے نہیں ہے جو کسی محبوب یا مکروہ وہ چیز کے متعلق استعمال ہوتے ہیں بلکہ یہ مددت الداواۃ امد ھا کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی دوات میں روشنائی ڈالنا کے ہیں اسی طرح آیت کریمہ : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف/ 109] اگرچہ ہم دیسا اور سمندر اس کی مددکو لائیں ۔ میں مداد یعنی روشنائی کے معنی مراد ہیں ۔ المد۔ غلہ ناپنے کا ایک مشہور پیمانہ ۔ ۔ غوی الغَيُّ : جهل من اعتقاد فاسد، وذلک أنّ الجهل قد يكون من کون الإنسان غير معتقد اعتقادا لا صالحا ولا فاسدا، وقد يكون من اعتقاد شيء فاسد، وهذا النّحو الثاني يقال له غَيٌّ. قال تعالی: ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم/ 2] ( غ و ی ) الغی ۔ اس جہالت کو کہتے ہیں جو غلط اعتقاد پر مبنی ہو ۔ کیونک جہالت کبھی تو کسی عقیدہ پر مبنی ہوتی ہے اور کبھی عقیدہ کو اس میں داخل نہیں ہوتا پہلی قسم کی جہالت کا نام غی گمراہی ہے قرآن پاک میں ہے : ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم/ 2] کہ تمہارے رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ رستہ بھولے ہیں اور نہ بھٹکے ہیں قصر القِصَرُ : خلاف الطّول، وهما من الأسماء المتضایفة التي تعتبر بغیرها، وقَصَرْتُ كذا : جعلته قَصِيراً ، والتَّقْصِيرُ : اسم للتّضجیع، وقَصَرْتُ كذا : ضممت بعضه إلى بعض، ومنه سمّي الْقَصْرُ ، وجمعه : قُصُورٌ. قال تعالی: وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج/ 45] ، وَيَجْعَلْ لَكَ قُصُوراً [ الفرقان/ 10] ، إِنَّها تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات/ 32] ، وقیل : الْقَصْرُ أصول الشّجر، الواحدة قَصْرَةٌ ، مثل : جمرة وجمر، وتشبيهها بالقصر کتشبيه ذلک في قوله : كأنّه جمالات صفر [ المرسلات/ 33] ، وقَصَرْتُه جعلته : في قصر، ومنه قوله تعالی: حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن/ 72] ، وقَصَرَ الصلاةَ : جعلها قَصِيرَةً بترک بعض أركانها ترخیصا . قال : فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ [ النساء/ 101] وقَصَرْتُ اللّقحة علی فرسي : حبست درّها عليه، وقَصَرَ السّهمِ عن الهدف، أي : لم يبلغه، وامرأة قاصِرَةُ الطَّرْفِ : لا تمدّ طرفها إلى ما لا يجوز . قال تعالی: فِيهِنَّ قاصِراتُ الطَّرْفِ [ الرحمن/ 56] . وقَصَّرَ شعره : جزّ بعضه، قال : مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح/ 27] ، وقَصَّرَ في كذا، أي : توانی، وقَصَّرَ عنه لم : ينله، وأَقْصَرَ عنه : كفّ مع القدرة عليه، واقْتَصَرَ علی كذا : اکتفی بالشیء الْقَصِيرِ منه، أي : القلیل، وأَقْصَرَتِ الشاة : أسنّت حتی قَصَرَ أطراف أسنانها، وأَقْصَرَتِ المرأة : ولدت أولادا قِصَاراً ، والتِّقْصَارُ : قلادة قَصِيرَةٌ ، والْقَوْصَرَةُ معروفة «1» . ( ق ص ر ) القصر یہ طول کی ضد ہے اور یہ دونوں اسمائے نسبتی سے ہیں جو ایک دوسرے پر قیاس کے ذریعہ سمجھے جاتے ہیں ۔ قصرت کذا کے معنی کسی چیز کو کوتاہ کرنے کے ۔ ہیں اور تقصیر کے معنی اور سستی کے ہیں اور قصرت کذا کے معنی سکیٹر نے اور کسی چیز کے بعض اجزاء کو بعض کے ساتھ ملانا کے بھی آتے ہیں ۔ اسی سے قصر بمعنی محل ہے اس کی جمع قصور آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج/ 45] اور بہت سے محل : ۔ وَيَجْعَلْ لَكَ قُصُوراً [ الفرقان/ 10] نیز تمہارے لئے محل بنادے گا ۔ إِنَّها تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات/ 32] اس سے آگ کی اتنی ( بڑی بڑی ) چنگاریاں اٹھتی ہیں ۔ جیسے محل ۔ بعض نے کہا ہے کہ قصر جمع ہے اور اس کے معنی درخت کی جڑوں کے ہیں ۔ اس کا واحد قصرۃ ہے جیسے جمرۃ وجمر اور ان شراروں کو قصر کے ساتھ تشبیہ دینا ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری آیت میں ان کا ۔ كأنّه جمالات صفر [ المرسلات/ 33] گویا زور درنگ کے اونٹ ہیں ۔ کہا ہے کہ اور قصرتہ کے معنی محل میں داخل کرنے کے ہیں اور اسی سے ارشاد الہٰی ہے ۔ حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن/ 72] وہ حوریں ہیں جو خیموں میں ستور ہیں ۔ قصرالصلٰوۃ بموجب رخصت شرعی کے نماز کے بعض ارکان کو ترک کرکے اسے کم کرکے پڑھنا ۔ قرآن پاک میں ہے : فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ [ النساء/ 101] تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم کر کے پڑھو ۔ قصرت اللقحتہ علٰی فرسی اونٹنی کا دودھ اپنی گھوڑی کے لئے مخصوص کردیا قصرالسھم عن الھدف ۔ تیر کا نشانے تک نہ پہنچنا ۔ امراءۃ قاصرۃ الطرف وہ عورت ناجائز نظر اٹھا کے نہ دیکھے ۔ قرآن پاک میں ہے : فِيهِنَّ قاصِراتُ الطَّرْفِ [ الرحمن/ 56] ان میں نیچی نگاہ والی عورتیں ۔ قصری شعرہ بال کتروانا قرآن پاک میں ہے : مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح/ 27] اپنے سر منڈاوا کر اور بال کتروا کر ۔ قصرفی کذا : کسی کام میں سستی کرنا قصر عنہ کسی کام کے کرنے سے عاجز ہونا ۔ اقصرت عنہ ۔ باوجود قدرت کے کسی کام کرنے سے باز رہنا ۔ اقتصر علیٰ کذا تھوڑی چپز پر صبر کرنا ۔ اقتصرت الشاۃ بوڑھا ہونے کی وجہ سے بکری کے دانتوں کا کوتاہ ہوجانا ۔ اقصرت المرءۃ چھوٹی قد اولاد جننا تقصار چھوٹا سا رہا ۔ القوصرہ کھجور ڈالنے زنبیل جو کھجور پتوں یا نرکل کی بنئی ہوئی ہوتی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٠٢) جو شیاطین اور مشرکوں کے بھائی بند ہیں تو وہ ان کو کفر وگمراہی اور گناہ میں گھسیٹ کرلے جاتا ہے پھر وہ اس سے باز نہیں آتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠٢ (وَاِخْوَانُہُمْ یَمُدُّوْنَہُمْ فِی الْْغَیِّ ثُمَّ لاَ یُقْصِرُوْنَ ) ۔ شیطان کا جو دوست بنے گا پھر اس پر شیطان کا حکم تو چلے گا۔ شیاطین اپنے بھائی بندوں کو گمراہی میں گھسیٹتے ہوئے دور تک لے جاتے ہیں اور اس میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ یعنی گمراہی کی آخری حد تک پہنچا کر رہتے ہیں۔ جیسے بلعم بن باعوراء کو شیطان نے اپناشکار بنایا تھا اور اسے گمراہی کی آخری حد تک پہنچا کر دم لیا ‘ لیکن جو اللہ کے مخلص اور متقی بندے ہیں ان پر شیطان کا اختیار نہیں چلتا۔ ان کی کیفیت وہ ہوتی ہے جو اس سے پچھلی آیت میں بیان ہوئی ہے ‘ یعنی جو نہی منفی اثرات کا سایہ ان کو اپنی طرف بڑھتا ہوا محسوس ہوتا ہے وہ یکدم چونک کر اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

150. Here some important directives are addressed to the Prophet (peace be on him) regarding how he should preach the Message of Islam and how he should guide and reform people. The object of these directives is not merely to instruct the Prophet (peace be on him), but also to instruct all those who would shoulder the same responsibility after the Prophet (peace be on him) was no longer amidst them. The major directives are as follows: (1) The most important qualities that must be cultivated by anyone who calls others to the truth are tenderness, magnanimity, and forbearing. Such a person should also have the capacity to tolerate the lapses of his companions and to patiently endure the excesses of his opponents. He should also be able to keep his cool in the face of grave provocation and gracefully connive at the offensive behaviour of others. In facing the angry words, slander, persecution and mischief of his opponents, he should exercise the utmost self-restraint. Harshness, severity, bitterness. and vindictive provocativeness on his part are bound to undermine his mission. The same point seems to have been made in a Hadith in which the Prophet (peace be on him) says that he has been commanded by his Lord: '...to say the just word whether I am angry, or pleased; to maintain ties with nim who severs ties with me; and to give to him who denies me (my right); and to forgive him who wrongs me.' (See the comments of Qurtubi in his Tafsir on the verse - Ed.) The Prophet (peace be on him) also instructed all those whom he deputized for preaching: 'Give good news rather than arouse revulsion: make things easy rather than hard.' (Muslim, Kitab al-Ilm, Bab fi al-amr bi al-Taysir wa Tark al-Ta'sir'- Ed.) This distinguishing feature of the Prophet's personality has also been mentioned in the Qur'an. It was thanks to Allah's mercy that you were gentle to them. Had you been rough, hard-hearted, they would surely have scattered away, from you (AI 'Imran 3: 159). (2) The second key to the success in da'wah work is to stay away from excessive theorizing and intellectual hair-splitting. One should rather call people in clear and simple terms to those virtues which are recognized as such by the generality of mankind and appeal to common sense. The great advantage of this method is that the Message of Islam finds its way right to the hearts of people at all levels of understanding. Those who then seek to oppose the Message are soon exposed and end up antagonizing the common people. For when the common people obserse on the one hand decent and righteous people being opposed for the simple reason that they are inviting people to universally-known virtues, and on the other hand observe those opponents resorting to all kinds of immoral and inhuman means, they are bound to incline to support the standard bearers of truth and righteousness. This process goes on until a point where the only opponents left are those whose self-interest is inextricably linked with the prevailing unrighteous system, or those's who have been totally blinded by their bigoted adherence to ancestral tradition or by their irrational biases. The wisdom underlying the Prophet's method accounts for his phenomenal success and for the speedy spread of Islam in and around Arabia within a short span of time. People flocked to Islam in vast numbers so much so that in some lands eighty and ninety per cent of the population embraced Islam. In fact there are even instances of a hundred per cent of the population embracing Islam. (3) The interest of the Islamic mission requires, on the one hand, that righteousness should be enjoined on those who have the propensity to become righteous. On the other hand, it also requires that those who are overly insistent in their adherence to falsehood, should be left alone, and that their acts of provocation be ignored. Those who seek to spread Islam should confine their efforts to persuading only those who are prepared to consider the Message of Islam in reasonable manner. When someone becomes altogether unreasonable and quarrelsome, and resorts to indecent methods of taunting and reviling Islam, Muslims should simply refuse to become adversative. For all the time and effort devoted to reforming such people will be totally wasted. (4) The moment the proponent of the Islamic Message feels that he is being provoked by the excesses, mischief, and uncalled-for objections and accusation, he should realize that he is being influenced by Satan. In such a situation he should immediately seek refuge with God, and restrain himself lest his impulsiveness damage his cause. The cause of Islam can be served only by those who act cool-headedly. Only those steps are appropriate which have been taken after due consideration rather than under the influence of impulse and emotion. Satan, however, is ever on the look-out for opportunities to sabotage the efforts made in the cause of Islam. He, therefore, ensures that those who are working for the Islamic cause are subjected to unjust and mischievous attacks from their opponents. The purpose underlying this is to provoke the workers for the cause of Islam to engage in the senseless and harmful task of mounting counter-attacks against their opponents. The appeal that Satan makes to those well-meaning, religious people is often couched in religious phraseology and is backed up by religious argument. But the fact is that those counter-attacks are undertaken merely under the impulse of man's lower self. The last two verses, therefore, make it clear that those who are God-fearing are always very sensitive to provocations under the impulse of Satan, and as soon as they become aware of such a provocation, they promote the best interests of the cause of truth rather than satisfy their vengeful feelings. As for those who are driven by egotistical impulses, they succumb to the promptings of Satan and are eventually set on an erroneous path. They fall victim to Satan, act virtually as his puppet, and subsequently their degradation knows no limit. They pay their opponents back in the same coin, tit for tat. What has been said above also has another import. It seeks to remind the God-fearing that their ways should be perceptibly different from the ways of those who do not fear God. The God-fearing not only avoid evil, but the very idea of committing it pricks their conscience and rankles their hearts. They have an instinctive revulsion against evil, a revulsion similar to what a cleanliness-loving man feels at the sight of a big stain or a splash of filth on his clothes. This feeling causes the God-fearing to remove every stain of evil. Quite contrary are those who have no fear of God, who have no desire to stay away from evil and who are in harmony with the ways of Satan. Such people are always given to evil thoughts and wrong-doing.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :150 ان آیات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت تبلیغ اور ہدایت و اصلاح کی حکمت کے چند اہم نکات بتائے گئے ہیں اور مقصود صرف حضور ہی کو تعلیم دینا نہیں ہے بلکہ حضور کے ذریعہ سے ان سب لوگوں کو بھی حکمت سکھانا ہے جو حضور کے قائم مقام بن کر دنیا کو سیدھی راہ دکھانے کے لیے اُٹھیں ۔ ان نکات کو سلسلہ وار دیکھنا چاہیے: ۔ ( ١ ) داعی حق کے لیے جو صفات سب سے زیادہ ضروری ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے نرم خو متحمل اور عالی ظرف ہونا چاہیے ۔ اس کو اپنے ساتھیوں کے لیے شفیق ، عامتہ الناس کے لیے رحیم اور اپنے مخالفوں کے لیے حلیم ہونا چاہیے ۔ اس کو اپنے رفقا کی کمزوریوں کو بھی برداشت کرنا چاہیے اور اپنے مخالفین کی سختیوں کو بھی ۔ اسے شدید سے شدید اشتعال انگیز مواقع پر بھی اپنے مزاج کو ٹھنڈا رکھنا چاہیے ، نہایت ناگوار باتوں کو بھی عالی ظرفی کے ساتھ ٹال دینا چاہیے ، مخالفوں کی طرف سے کیسی ہی سخت کلامی بہتان تراشی ، ایذا رسانی اور شریرانہ مزاحمت کا اظہار ہو ، اس کو درگزر ہی سے کام لینا چاہیے ۔ سخت گیری ، درشت خوئی ، تلخ گفتاری اور منتقمانہ اشتعال طبع اس کام کے لیے زہر کا حکم رکھتا ہے اور اس سے کام بگڑتا ہے بنتا نہیں ہے ۔ اسی چیز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمایا ہے کہ میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ ” غضب اور رضا ، دونوں حالتوں میں انصاف کی بات کہوں ، جو مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں ، جو مجھے میرے حق سے محروم کرے میں اسے اس کا حق دوں ، جو میرے ساتھ ظلم کرے میں اس کو معاف کردوں“ ۔ اور اسی چیز کی ہدایت آپ ان لوگوں کو کرتے تھے جنہیں آپ دین کے کام پر اپنی طرف سے بھیجتے تھے کہ بشروا ولا تنفروا و یسرواولا تعسروا ، یعنی”جہاں تم جاؤ وہاں تمہاری آمد لوگوں کے لیے مژدہ جانفزا ہو نہ کہ باعث نفرت ، اور لوگوں کے لیے تم سہولت کے موجب بنو نہ کہ تنگی و سختی کے “ ۔ اور اسی چیز کی تعریف اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمائی ہے کہ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْ ا مِنْ حَوْ لکَ ۔ یعنی”یہ اللہ کی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے نرم ہو ورنہ اگر تم درشت خو اور سنگدل ہوتےتو یہ سب لوگ تمہارے گردو پیش سے چَھٹ جاتے“ ۔ ( آل عمران ، ١۵۹ ) ( ۲ ) دعوت حق کی کامیابی کا گُر یہ ہے کہ آدمی فلسفہ طرازی اور دقیقہ سنجی کے بجائے لوگوں کو معروف یعنی ان سیدھی اور صاف بھلائیوں کی تلقین کرے جنہیں بالعموم سارے ہی انسان بھلا جانتے ہیں یا جن کی بھلائی کو سمجھنے کے لیے وہ عقلِ عام ( Common sense ) کافی سونی ہے جو ہر انسان کو حاصل ہے ۔ اس طرح داعی حق کا اپیل عوام و خواص سب کو متاثر کرتا ہے اور ہر سامع کے کان سے دل تک پہنچنے کی راہ اب نکال لیتا ہے ۔ ایسی معروف دعوت کے خلاف جو لوگ شورش برپا کرتے ہیں وہ خود اپنی ناکامی اور اس دعوت کی کامیابی کا سامان فراہم کرتے ہیں ۔ کیونکہ عام انسان ، خواہ وہ کتنے ہی تعصبات میں مبتلا ہوں ، جب یہ دیکھتے ہیں کہ ایک طرف ایک شریف النفس اور بلند اخلاق انسان ہے جو سیدھی سیدھی بھلائیوں کی دعوت دے رہا ہے اور دوسری طرف بہت سے لوگ اس کی مخالفت میں ہر قسم کی اخلاق و انسانیت سے گری ہوئی تدبیریں استعمال کر رہے ہیں ، تو رفتہ رفتہ ان کے دل خود بخود مخالفینِ حق سے پھرتے اور داعی حق کی طرف متوجہ ہوتے چلے جاتے ہیں ، یہاں تک کہ آخر کار میدان مقابلہ میں صرف وہ لوگ رہ جاتے ہی جن کے ذاتی مفاد نظام باطل کے قیام ہی سے وابستہ ہوں ، یا پھر جن کے دلوں میں تقلیدِ اسلاف اور جاہلانہ تعصبات نے کسی روشنی کے قبول کرنے کی صلاحیت باقی ہی نہ چھوڑی ہو ۔ یہی وہ حکمت تھی جس کی بدولت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب میں کامیابی حاصل ہوئی اور پھر آپ کے بعد تھوڑی ہی مدت میں اسلام کا سیلاب قریب کے ملکوں پر اس طرح پھیل گیا کہ کہیں سوفی صدی اور کہیں ۸۰ اور ۹۰ فی صدی باشندے مسلمان ہو گئے ۔ ( ۳ ) اس دعوت کے کام میں جہاں یہ بات ضروری ہے کہ طالبینِ خیر کو معروف کی تلقین کی جائے وہاں یہ بات بھی اتنی ہی ضروری ہے کہ جاہلوں سے نہ اُلجھا جائے خواہ وہ اُلجھنے اور اُلجھانے کی کتنی ہی کوشش کریں ۔ داعی کو اس معاملہ میں سخت محتاط ہونا چاہیے کہ اس کا خطاب صرف ان لوگوں سے رہے جو معقولیت کے ساتھ بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہوں ۔ اور جب کوئی شخص جہالت پر اُتر آئے اور حجت بازی ، جھگڑالو پن اور طعن و تشنیع شروع کر دے تو داعی کو اس کا حریف بننے سے انکار کر دینا چاہیے ۔ اس لیے کہ اس جھگڑے میں اُلجھنے کا حاصل کچھ نہیں ہے اور نقصان یہ ہے کہ داعی کی جس قوت کو اشاعتِ دعوت اور اصلاح نفوس میں خرچ ہونا چاہیے وہ اس فضول کام میں ضائع ہوجاتی ہے ۔ ( ٤ ) نمبر ۳ میں جو ہدایت کی گئی ہے اسی کے سلسلہ میں مزید ہدایت یہ ہے کہ جب کبھی داعی حق مخالفین کے ظلم اور ان کی شرارتوں اور ان کے جاہلانہ اعتراضات و الزامات پر اپنی طبیعت میں اشتعال محسوس کرے تو اسے فوراً سمجھ لینا چاہیے کہ یہ نزغِ شیطانی ( یعنی شیطان کی اکساہٹ ) ہے اور اسی وقت خدا سے پناہ مانگنی چاہیے کہ اپنے بندے کو اس جوش میں بہ نکلنے سے بچائے ور ایسا بے قابو نہ ہونے دے کہ اس سے دعوت حق کو نقصان پہنچانے والی کوئی حرکت سرزد ہو جائے ۔ دعوت حق کا کام بہر حال ٹھنڈے دل سے ہی ہو سکتا ہے اور وہی قدم صحیح اٹھ سکتا ہے جو جذبات سے مغلوب ہو کر نہیں بلکہ موقع و محل کو دیکھ کر ، خوب سوچ سمجھ کر اُٹھایا جائے ۔ لیکن شیطان ، جو اس کام کو فروغ پاتے ہوئے کبھی نہیں دیکھ سکتا ، ہمیشہ اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ اپنے بھائی بندوں سے داعی حق پر طرح طرح کے حملے کرائے اور پھر ہر حملے پر داعی حق کو اکسائے کہ اس حملے کا جواب تو ضرور ہونا چاہیے ۔ یہ اپیل جو داعی کے نفس سے کرتا ہے ، اکثر بڑی بڑی پر فریب تاویلوں اور مذہبی اصلاحوں کے غلاف میں لپٹا ہوا ہوتا ہے لیکن اس کی تہ میں بجز نفسانیت کے اور کوئی چیز نہیں ہوتی ۔ اسی لیے آخری دو آیتوں میں فرمایا کہ جو لوگ متقی ( یعنی خدا ترس اور بدی سے بچنے کے خواہشمند ) ہیں وہ تو اپنے نفس میں کسی شیطانی تحریک کا اثر اور کسی برے خیال کی کھٹک محسوس کرتے ہی فوراً چوکنے ہو جاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آجاتا ہے کہ اس موقع پر دعوت دین کا مفاد کس طرزِ عمل کے اختیار کرنے میں ہے اور حق پرستی کا تقاضا کیا ہے ۔ رہے وہ لوگ جن کے کام میں نفسانیت کی لاگ لگی ہوئی ہے اور اس وجہ سے جن کا شیاطین کے ساتھ بھائی چارے کا تعلق ہے ، تو وہ شیطانی تحریک کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتے اور اس سے مغلوب ہو کر غلط راہ پر چل نکلتے ہیں ۔ پھر جس جس وادی میں شیطان چاہتا ہے انہیں لیے پھرتا ہے اور کہیں جا کر ان کے قدم نہیں رُکتے ۔ مخالف کی ہر گالی کے جواب میں ان کے پاس گالی اور ہر چال کے جواب میں اس سے بڑھ کر چال موجود ہوتی ہے ۔ اس ارشاد کا ایک عمومی محمل بھی ہے اور وہ یہ کہ اہل تقویٰ کا طریقہ بالعموم اپنی زندگی میں غیر متقی لوگوں سے مختلف ہوتا ہے ۔ جو لوگ حقیقت میں خدا سے ڈرنے والے ہیں اور دل سے چاہتے ہیں کہ برائی سے بچیں ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ برے خیال کا ایک ذرا سا غبار بھی اگر ان کے دال کو چھو جاتا ہے تو انہیں ویسی ہی کھٹک محسوس ہونے لگتی ہے جیسی کھٹک اُنگلی میں پھانس چُبھ جانے یا آنکھ میں کسی ذرے کے گر جانے سے محسوس ہوتی ہے ۔ چونکہ وہ برے خیالات ، بری خواہشات اور بری نیتوں کے خوگر نہیں ہوتے اس وجہ سے یہ چیزیں ان کے لیے اسی طرح خلاف مزاج ہوتی ہے ۔ چونکہ وہ برے خیالات ، بری خواہشات اور بری نیتوں کے خوگر نہیں ہوتے اس وجہ سے یہ چیزیں ان کے لیے اسی طرح خلاف مزاج ہوتی ہیں جس طرح اُنگلی کے لیے پھانس یا آنکھ کے لیے ذرہ یا ایک نفیس طبع اور صفائی پسند آدمی کے لیے کپڑوں پر سیاہی کا ایک داغ یا گندگی کی ایک چھینٹ ۔ پھر جب یہ کھٹک انہیں محسوس ہو جاتی ہے تو ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور ان کا ضمیر بیدار ہو کر اس غبار شر کو اپنے اوپر سے جھاڑ دینے میں لگ جاتا ہے ۔ بخلاف اس کے جو لوگ نہ خدا سے ڈرتے ہیں ، نہ بدی سے بچنا چاہتے ہیں ، اور جن کی شیطان سے لاگ لگی ہوئی ہے ، ان کے نفس میں برے خیالات ، برے ارادے ، برے مقاصد پکتے رہتے ہیں اور وہ ان گندی چیزوں سے کوئی اُپراہٹ اپنے اندر محسوس نہیں کرتے ، بالکل اسی طرح جیسے کسی دیگچی میں سور کا گوشت پک رہا ہو اور وہ بے خبر ہو کہ اس کے اندر کیا پک رہا ہے ، یا جیسے کسی بھنگی کا جسم اور اس کے کپڑے غلاظت میں لتھڑے ہوئے ہوں اور اسے کچھ احساس نہ ہو کہ وہ کن چیزوں میں آلودہ ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:202) اخوانھم۔ میں ہم ضمیر جمع مذکر غائب۔ الشیاطین کی طرف راجع ہے۔ ما قبل میں اگرچہ الشیطان (مفرد) استعمال ہوا ہے۔ لیکن یہاں اس سے مراد جنس شیطان ہے اس لئے یہاں ضمیر جمع لائی گئی ہے۔ یعنی اخوان الشیاطین ۔ وہ گروہ جو متقین کے متضاد ہے۔ یمدونھم۔ یمدون کا فاعل الشیاطین ہے اور ھم ضمیر کا مرجع اخوانھم (اخوان الشیاطین ہے) ۔ الغی۔ اسم فعل۔ گمراہی۔ بدراہی۔ غ و ی مادہ۔ ثم لا یقصرون۔ (انہیں پھر گمراہ کرنے میں وہ کوتاہی نہیں کرتے) مضارع منفی جمع مذکر غائب (باب افعال) اقصار سے وہ باز نہیں رہتے۔ وہ کمی نہیں کرتے ۔ وہ کوتاہی نہیں کرتے۔ اقصر عن الشیء کے معنی ہیں وہ اس چیز سے رک گیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی خدا سے ڈرنے والے لوگوں کے مقابلہ میں ان کافرو کا جو اپنی شرارت اور خیاثت نفس میں شیطان کے بھائی ہیں۔ حال یہ ہے کہ ان کو شیاطین گمراہی میں گھسیٹ کرلے جاتے ہیں اور ان کو بھٹکانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ ( ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یعنی شیاطین کے بھائی ان کو ان کی کج روی میں کھینچے لیے چلے جاتے ہیں ، اور بعض اوقات ان کے بھائی شیاطین انس بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ ان کی گمراہی میں ان کو ترقی ہی دیتے ہیں ، نہ تھکتے ہیں ، نہ آرام کرتے ہیں اور نہ خاموش ہوتے ہیں اور یہ لوگ حماقت اور جہالت اور کج روی میں مسلسل آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

192: یہ زجر ہے۔ “ اِخْوَانُھُمْ ” کی ضمیر مجرور شیاطین کی طرف راجع ہے۔ “ یَمُدُّوْنَھُمْ ” میں ضمیر مرفوع سے شیاطین اور منصوب سے “ اِخْوَانُ الشَّیَاطِیْن ” مراد ہیں۔ پرہیز گار لوگوں کے ذکر کے بعد پرواز شیاطین کا ذکر فرمایا کہ شیاطین ان کو گمراہ کرنے میں لگے رہتے ہیں اور اس میں کبھی کوتاہی نہیں کرتے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

202 اور وہ جو شیاطین کے بھائی یعنی شیاطین کے تابع اور فرمانبردار ہیں۔ ان کو شیاطین گمراہی میں کھینچے لئے چلے جاتے ہیں اور کوئی کوتاہی اور کمی نہیں کرتے۔ یعنی شیاطین ان کو گمراہی کی طرف گھسیٹنے اور لے جانے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے اور وہ تابع شیاطین کی فرمانبرداری میں کوئی کمی نہیں کرتے۔