Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 6

سورة الأعراف

فَلَنَسۡئَلَنَّ الَّذِیۡنَ اُرۡسِلَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَنَسۡئَلَنَّ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ۙ﴿۶﴾

Then We will surely question those to whom [a message] was sent, and We will surely question the messengers.

پھر ہم ان لوگوں سے ضرور پوچھیں گے جن کے پاس پیغمبر بھیجے گئے تھے اور ہم پیغمبروں سے ضرور پوچھیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَلَنَسْأَلَنَّ الَّذِينَ أُرْسِلَ إِلَيْهِمْ ... Then surely, We shall question those (people) to whom it (the Book) was sent, is similar to the Ayat, وَيَوْمَ يُنَـدِيهِمْ فَيَقُولُ مَاذَا أَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِينَ And (remember) the Day (Allah) will call them, and say: "What answer gave you to the Messengers!" (28:65) and, يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ قَالُواْ لاَ عِلْمَ لَنَأ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّـمُ الْغُيُوبِ On the Day when Allah will gather the Messengers together and say to them: "What was the response you received!" They will say: "We have no knowledge, verily, only You are the Knower of all that is unseen." (5:109) Allah will question the nations, on the Day of Resurrection, how they responded to His Messengers and the Messages He sent them with. He will also question the Messengers if they conveyed His Messages. So, Ali bin Abi Talhah reported from Ibn Abbas, who said commenting on the Ayah: فَلَنَسْأَلَنَّ الَّذِينَ أُرْسِلَ إِلَيْهِمْ وَلَنَسْأَلَنَّ الْمُرْسَلِينَ (Then surely, We shall question those (people) to whom it (the Book) was sent and verily, We shall question the Messengers). He said; "About what they conveyed." فَلَنَقُصَّنَّ عَلَيْهِم بِعِلْمٍ وَمَا كُنَّا غَأيِبِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 امتوں سے پوچھا جائے گا کہ تمہارے پاس پیغمبر آئے تھے ؟ انہوں نے تمہیں ہمارا پیغام پہنچایا تھا ؟ وہ جواب دیں گے کہ ہاں ! یا اللہ تیرے پیغمبر یقینا ہمار پاس آئے تھے لیکن ہماری قسمت پھوٹی تھی کہ ہم نے ان کی پروا نہیں کی اور پیغمبروں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے ہمارا پیغام اپنی امتوں کو پہنچایا تھا ؟ اور انہوں نے اس کے مقابلے میں کیا رویہ اختیار کیا ؟ پیغمبر سوال کا جواب دیں گے۔ جس کی تفصیل قرآن مجید کے مختلف مقامات پر موجود ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الَّذِيْنَ اُرْسِلَ اِلَيْهِمْ : پچھلی آیت میں جس چیز سے ڈرایا گیا وہ دنیا کا عذاب تھا، اس آیت میں آخرت کے معاملات سے ڈرایا گیا ہے۔ (کبیر) یعنی ہم لوگوں سے تو یہ پوچھیں گے کہ تم نے ہمارے پیغمبروں کی دعوت کو کہاں تک قبول کیا جیسا کہ سورة قصص آیت نمبر (٦٥) میں فرمایا (وَيَوْمَ يُنَادِيْهِمْ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِيْنَ ) اور جس دن وہ انھیں آواز دے۔ پس کہنے لگا تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا تھا اور پیغمبروں سے دریافت کریں گے کہ تم نے لوگوں تک ہمارا پیغام پہنچایا تھا یا نہیں ؟ اور پہنچایا تھا تو انھوں نے کیا جواب دیا تھا ؟ جیسا کہ سورة مائدہ آیت نمبر (١٠٩) میں فرمایا : ( يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ ۭ ) جس دن اللہ رسولوں کو جمع کرے گا پھر کہے گا تمہیں کیا جواب دیا گیا مقصود کفار کو ڈانٹنا اور ذلیل کرنا ہوگا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The statement: فَلَنَسْأَلَنَّ الَّذِينَ أُرْ‌سِلَ إِلَيْهِمْ وَلَنَسْأَلَنَّ الْمُرْ‌سَلِينَ ﴿٦﴾ in verse 6 refers to the day of Qiyamah when people will be asked by Allah how did they re¬ceive the messengers and Books sent to them by Him - and the mes¬sengers will be asked if they did convey to their communities the mes¬sage and injunctions Allah had sent them with. (Narrated by Baihaqi from Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) - Mazhari) It appears in Sahib Muslim on the authority of a narration from Sayyidna Jabir (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) asked peo¬ple during the address of his Last Hajj: When, on the day of Qiyamah, you will be asked about me - whether or not I have conveyed the mes¬sage of Allah to you - what will you, then, say in reply? (فَمَا انتم قَائِلُونَ ). All Sahabah present there said: We will say that you have conveyed the message of Allah to us and you have fulfilled the trust of Allah at its best and you have wished and done what was most beneficial for the community. Hearing this, the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم said: اَشھَدُاَللَّھُمَّ Allah, You be witness). According to a narration in the Musnad of Ahmad, the Holy Proph¬et (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is reported to have said: On the day of Qiyamah, Allah Ta&ala will ask me if I have conveyed His message to His servants and I shall say in response: Yes, I have. Therefore, all of you should make sure that those who are present do convey my message to those ab¬sent. (Mazhari) ` Those absent& refers to people who were present during that time but were not present at that particular occasion - as well as genera¬tions which would come later on. To convey to them the message of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) means that people of every time should con¬tinue the chain of conveying this message to the generations coming next, so that all children of Adam to be born right through the day of Qiyamah will have received this message.

(آیت) فَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الَّذِيْنَ اُرْسِلَ اِلَيْهِمْ وَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الْمُرْسَلِيْنَ یعنی قیامت کے روز عوام الناس سے سوال کیا جائے گا کہ ہم نے تمہارے پاس اپنے رسول اور کتابیں بھیجی تھیں، تم نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا، اور رسولوں سے پوچھا جائے گا کہ جو پیغام رسالت اور احکام الٓہیہ دے کر ہم نے آپ کو بھیجا تھا وہ آپ حضرات نے اپنی اپنی امتوں کو پہنچا دیئے یا نہیں (اخرجہ البیہقی عن ابن عباس مظہری) ۔ اور صحیح مسلم میں حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجة الوداع کے خطبہ میں لوگوں سے سوال کیا کہ قیامت کے روز تم لوگوں سے میرے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ میں نے تم کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا یا نہیں ؟ فما انتم قائلون، ” یعنی اس وقت تم اس کے جواب میں کیا کہو گے “ ؟ سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ ہم کہیں گے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کا پیغام ہم تک پہنچا دیا، اور امانت خداوندی کا حق ادا کردیا، اور امت کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کیا، یہ سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہم اشھد ” یعنی یا اللہ آپ گواہ رہیں “۔ اور مسند احمد کی روایت میں ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ مجھ سے دریافت فرماویں گے کہ کیا میں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام بندوں کو پہنچا دیا، اور میں جواب میں عرض کروں گا کہ میں نے پہنچا دیا ہے، اس لئے اب تم سب اس کا اہتمام کرو کہ جو لوگ حاضر ہیں وہ غائبین تک میرا پیغام پہنچا دیں (مظہری) غائبین سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس زمانہ میں موجود تھے مگر اس مجلس میں حاضر نہ تھے، اور وہ نسلیں بھی جو بعد میں پیدا ہوں گی، ان تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغام پہنچانے کا مطلب یہ ہے کہ ہر زمانے کے لوگ آنے والی نسل کو اس پیغام کے پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھیں، تاکہ قیامت تک پیدا ہونے والے تمام بنی آدم کو یہ پیغام پہنچ جائے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الَّذِيْنَ اُرْسِلَ اِلَيْہِمْ وَلَنَسْــــَٔـلَنَّ الْمُرْسَلِيْنَ۝ ٦ ۙ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦ (فَلَنَسْءَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْءَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ ) ۔ یہ فلسفہ رسالت کا بہت اہم موضوع ہے جو اس آیت میں بڑی جلالی شان کے ساتھ آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی طرف رسول کو اس لیے بھیجتا ہے تاکہ وہ اسے خبردار کردے۔ یہ ایک بہت بھاری اور حساس ذمہ داری ہے جو رسول پر ڈالی جاتی ہے۔ اب اگر بالفرض رسول کی طرف سے اس میں ذرا بھی کوتاہی ہوگی تو قوم سے پہلے اس کی پکڑ ہوجائے گی۔ اس کی مثال یوں ہے کہ آپ نے ایک اہم پیغام دے کر کسی آدمی کو اپنے کسی دوست کے پاس بھیجا کہ وہ یہ کام کل تک ضرور کردے ورنہ بہت نقصان ہوگا ‘ لیکن آپ کے اس دوست نے وہ کام نہیں کیا اور آپ کا نقصان ہوگیا۔ اب آپ غصّے سے آگ بگولہ اپنے دوست کے پاس پہنچے اور کہا کہ تم نے میرے پیغام کے مطابق بروقت میرا کام کیوں نہیں کیا ؟ اب آپ کا دوست اگر جواباً یہ کہہ دے کہ اس کے پاس تو آپ کا پیغام لے کر کوئی آیا ہی نہیں تو اپنے دوست سے آپ کی ناراضی فوراً ختم ہوجائے گی ‘ کیونکہ اس نے کوتاہی نہیں کی ‘ اور آپ کو شدیدغصہ اس شخص پر آئے گا جس کو آپ نے پیغام دے کر بھیجا تھا۔ اب آپ اس سے باز پرس کریں گے کہ تم نے میرا اتنا اہم پیغام کیوں نہیں پہنچایا ؟ تم نے غیر ذمہ داری کا ثبوت دے کر میرا اتنا بڑا نقصان کردیا۔ اسی طرح کا معاملہ ہے اللہ ‘ رسول اور قوم کا۔ اللہ نے رسول کو پیغام بر بنا کر بھیجا۔ بالفرض اس پیغام کے پہنچانے میں رسول سے کوتاہی ہوجائے تو وہ جوابدہ ہوگا۔ ہاں اگر وہ پیغام پہنچا دے تو پھر وہ اپنی ذمہ داری سے بری ہوجائے گا۔ پھر اگر قوم اس پیغام پر عمل درآمد نہیں کرے گی تو وہ ذمہ دار ٹھہرے گی۔ چناچہ آخرت میں امتوں کا بھی محاسبہ ہونا ہے اور رسولوں کا بھی۔ امت سے جواب طلبی ہوگی کہ میں نے تمہاری طرف اپنا رسول بھیجا تھا تاکہ وہ تمہیں میرا پیغام پہنچا دے ‘ تم نے اس پیغام کو قبول کیا یا نہیں کیا ؟ اور مرسلین سے یہ پوچھا جائے گا کہ تم نے میرا پیغام پہنچایا یا نہیں ؟ اس کی ایک جھلک ہم سورة المائدۃ (آیت ١٠٩) میں (مَاذَآ اُجِبْتُمْ ط) کے سوال میں اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے ساتھ قیامت کے دن ہونے والے مکالمے کے ان الفاظ میں بھی دیکھ آئے ہیں : (وَاِذْ قَال اللّٰہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ءَ اَنْتَ قُلْتَ للنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَاُمِّیَ اِلٰہَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط) (آیت ١١٦) اور جب اللہ پوچھے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم کیا تم نے کہا تھا لوگوں سے کہ مجھے اور میری ماں کو بھی الٰہ بنا لینا اللہ کے علاوہ ؟ اب ذرا حجۃ الوداع (١٠ ہجری) کے منظر کو ذہن میں لائیے۔ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک جم غفیر سے مخا طب ہیں۔ اس تاریخی موقع کے پس منظر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ٢٣ برس کی محنت شاقہ تھی ‘ جس کے نتیجے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جزیرہ نمائے عرب کے لوگوں پر اتمام حجت کر کے دین کو غالب کردیا تھا۔ لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا : (اَلاَ ھَلْ بَلَّغْتُ ؟ ) لوگوسنو ! کیا میں نے پہنچا دیا ؟ اس پر پورے مجمع نے یک زبان ہو کر جواب دیا : نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَاَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ (١) ۔ ایک روایت میں الفاظ آتے ہیں : اِنَّا نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ الرِّسَالَۃَ وَاَدَّیْتَ الْاَمَانَۃَ وَنَصَحْتَ الْاُمَّۃَّ وَکَشَفْتَ الْغُمَّۃَ کہ ہاں ہم گواہ ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رسالت کا حق ادا کردیا ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امانت کا حق ادا کردیا (یہ قرآن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اللہ کی امانت تھی جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم تک پہنچا دی) ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت کی خیر خواہی کا حق ادا کردیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گمراہی اور ضلالت کے اندھیروں کا پردہ چاک کردیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین دفعہ یہ سوال کیا اور تین دفعہ جواب لیا اور تینوں دفعہ انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھا کر پکارا : اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ! اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ! اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ! اے اللہ تو بھی گواہ رہ ‘ یہ مان رہے ہیں کہ میں نے تیرا پیغام انہیں پہنچا دیا۔ اور پھر فرمایا : (فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَاءِبَ ) (٢) کہ اب پہنچائیں وہ لوگ جو یہاں موجود ہیں ان لوگوں کو جو یہاں موجود نہیں ہیں۔ گویا میرے کندھے سے یہ بوجھ اتر کر اب تمہارے کندھوں پر آگیا ہے۔ اگر میں صرف تمہاری طرف رسول بن کر آیا ہوتا تو بات آج پوری ہوگئی ہوتی ‘ مگر میں تو رسول ہوں تمام انسانوں کے لیے جو قیامت تک آئیں گے۔ چناچہ اب اس دعوت اور تبلیغ کو ان لوگوں تک پہنچانا امت کے ذمہ ہے۔ یہی وہ گواہی ہے جس کا منظر سورة النساء میں دکھایا گیا ہے : (فَکَیْفَ اِذَا جِءْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَہِیْدٍ وَّجِءْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَآءِ شَہِیْدًا ۔ ) ۔ پھر اس روز حجۃ الوداع کے موقع والی گواہی کا حوالہ بھی آئے گا کہ اے اللہ میں نے تو ان لوگوں کو تیرا پیغام پہنچا دیا تھا ‘ اب یہ ذمہ دار اور جواب دہ ہیں۔ چونکہ معاملہ ان پر کھول دیا گیا تھا ‘ لہٰذا اب یہ لوگ لاعلمی کے بہانے کا سہارا نہیں لے سکتے۔ آیت ٦ ( فَلَنَسْءَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْءَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ ) کی طرح اگلی آیت بھی اپنے موضوع کے اعتبار سے بہت اہم ہے ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

6. The words 'call to account' refers to the questioning people will be subjected to on the Day of Judgement. For it is the reckoning on the Day, of Judgement that really matters. Punishment dealt upon corrupt individuals and communities in this world does not constitute their true punishment. Punishment in this world is no more than what happens when a criminal, who has been strutting scot-free, is suddenly arrested. The arrest constitutes no more than depriving the criminal of the opportunity to perpetrate further crimes. The annals of history are filled with instances where corrupt nations have been punished, proving that man has not been granted absolute licence to go about doing whatever he pleases. Rather, there is a Power above all that allows man to act freely but only to a certain extent, no more. And when man exceeds those limits, that Power administers a series of warnings in order that he might heed the warnings and give up his wickedness. But when man fails totally to respond to such warnings, he is punished. Anyone who considers the events of history, will conclude that the Lord of the universe must have certainly appointed a Day of Judgement in order to hold the wrong-doers to account for their actions and to punish them. That the Qur'an refers to the recurrent punishment of wicked nations as an argument in support of the establishment of the final judgement in the Hereafter is evidenced by the fact that the present verse - verse 6 - opens with the word so'. 7. This shows that on the Day of Judgement Prophethood will be the main basis of reckoning. On the one hand, the Prophets will be questioned about the efforts they made to convey God's Message to mankind. On the other hand, the people to whom the Prophets were sent will be questioned about their response to the message. The Qur'an is not explicit about how judgements will be made with regard to individuals and communities who did not receive God's Message. It seems that God has left judgement - to borrow a contemporary judicial expression - reserved. However, with regard to individuals and communities who did receive God's Message through the Prophets, the Qur'an states explicitly, that they will have no justification whatsoever to put forward a defence of their disbelief and denial, of their transgression and disobedience. They are doomed to be east into Hell in utter helplessness and dejection.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :6 باز پرس سے مراد روز قیامت کی باز پرس ہے ۔ بدکار افراد اور قوموں پر دنیا میں جو عذاب آتا ہے وہ دراصل ان کے اعمال کی باز پرس نہیں ہے اور نہ وہ ان کے جرائم کی پوری سزا ہے ۔ بلکہ اس کی حیثیت تو بالکل ایسی ہے جیسے کوئی مجرم جو چھوٹا پھر رہا تھا ، اچانک گرفتار کر لیا جائے اور مزید ظلم و فساد کے مواقع اس سے چھین لیے جائیں ۔ تاریخ انسانی اس قسم کی گرفتاریوں کی بے شمار نظیروں سے بھر پڑی ہے اور یہ نظیریں اس بات کی ایک صریح علامت ہیں کہ انسان کو دنیا میں شتر بے مہار کی طرح چھوڑ نہیں دیا گیا ہے کہ جو چاہے کرتا پھرے ، بلکہ اُوپر کوئی طاقت ہے جو ایک حدِ خاص تک اسے ڈھیل دیتی ہے ، تنبیہات پر تنبیہات بھیجتی ہے کہ اپنی شرارتوں سے باز آجائے ، اور جب وہ کسی طرح باز نہیں آتا تو اسے اچانک پکڑ لیتی ہے ۔ پھر اگر کوئی اس تاریخی تجربہ پر غور کرے تو بآسانی یہ نتیجہ بھی نکال سکتا ہے کہ جو فرمان روا اس کائنات پر حکومت کر رہا ہے اس نے ضرور ایسا ایک وقت مقرر کیا ہوگا جب ان سارے مجرموں پر عدالت قائم ہوگی اور ان سے ان کے اعمال کی باز پرس کی جائے گی ۔ یہی وجہ ہے کہ اُوپر کی آیت کو جس میں دنیوی عذاب کا ذکر کیا گیا ہے ، بعد والی آیت کے ساتھ”پس“ کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے ، گویا اس دنیوی عذاب کا بار بار واقع ہونا آخرت کی باز پرس سے یقیناً واقع ہونے پر ایک دلیل ہے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :7 اس سے معلوم ہو ا کہ آخرت کو باز پرس سراسر رسالت ہی کی بنیاد پر ہوگی ۔ ایک طرف پیغمبروں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے نوع انسانی تک خدا کا پیغام پہنچانے کے لیے کیا کچھ کیا ۔ دوسری طرف جن لوگوں تک رسولوں کا پیغام پہنچا ان سے سوال کیا جائے گا کہ اس پیغام کے ساتھ تم نے کیا برتاؤ کیا ۔ جس شخص یا جن انسانی گروہوں تک انبیاء کا پیغام نہ پہنچا ہو ، ان کے بارے میں تو قرآن ہمیں کچھ نہیں بتاتا کہ ان کے مقدمہ کا کیا فیصلہ کیا جائے گا ۔ اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھا ہے ۔ لیکن جن اشخاص و اقوام تک پیغمبروں کی تعلیم پہنچ چکی ہے ان کے متعلق قرآن صاف کہتا ہے کہ وہ اپنے کفر و انکار اور فسق و نافرمانی کے لیے کوئی حجّت نہ پیش کر سکیں گے اور ان کا انجام اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ حسرت و ندامت کے ساتھ ہاتھ ملتے ہوئے جہنم کی راہ لیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:6) فلنسئلن الذین ارسل الیہم ۔ لنسئلن مضارع جمع متکلم ۔ بالام تاکید و نون ثقیلہ سو ہم ضرور پوچھیں گے۔ الذین ارسل الیہم۔ ان لوگوں سے جن کی طرف رسول بھیجے گئے تھے (کہ انہوں نے رسولوں کا کہاں تک اتباع کیا۔ المرسلین۔ رسولوں سے (کہ انہوں نے خدا کا پیغام پہنچا دیا) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 14 پہلی تہدید کا تعلق دنیا میں عذاب کے ساتھ تھا اور اب اس آیت میں تہدید اخروی کا مذکور ہے (کبیر) یعنی لوگوں سے تو یہ دریافت کریں گے کہ تم نے ہمارے پیغمبر کی دعوت کو کہا تک قبول کیا اور پیغمبر سے دریافت کریں گے کہ تم نے لوگوں تک ہمارا پیغام پہنچایا تھا یا نہیں ؟ اس سوال سے مقصود تقریع و توبیخ ہے۔ (کبیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 6 تا 10 : نسئلن (ہم ضرور پوچھیں گے) نقصن ( ہم ضرور بتائیں گے) غآ ئبین ( غائب رہنے والے) ثقلت (بھاری ہوئے) موازین ( موزون) ۔ وزن۔ تول ‘ خفت (ہلکے ہوئے) خسروا (انہوں نے نقصان اٹھایا) ‘ مکنا ( ہم نے ٹھکانا دیا (معایش (معیشۃ) ۔ زندگی گذارنے کا سامان۔ تشریح : آیت نمبر 6 تا 10 : سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 4 تا 5 میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی بستیوں اور شہر والوں کا ذکر کیا ہے جن کے برے اعمال اور بد کرداریوں کی وجہ سے مختلف وقتوں میں مختلف عذاب آئے ‘ کسی قوم کی شکل بدل دی گئی ‘ کہیں پتھربرسائے گئیے ‘ بہت سی بستیوں کو ان پر الٹ دیا گیا ‘ زلزلے ‘ سیلاب بیماریوں اور آفتوں میں مبتلا کیا گیا اور کسی پر ظالم و جابر حکمرانوں کو مسلط کردیا گیا۔ یہ تو وہ عذاب تھے جو ان پر انکی بد اعمالیوں کے سبب اس دنیا میں آئے لیکن آخرت میں ایسی قوموں کا کیا انجام ہوگا۔ اس کے متعلق قرآن کی بہت سی آیات اور احادیث میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ آیت نمبر 6 تا 10 میں حشر کے ہولناک دن کے متعلق بتایا گیا ہے کہ جب اچھے برے اعمال کا حساب و کتاب ہوگا اور انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کی امتوں سے سوالات کر کے ان کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔ سب سے پہلے انبیاء کرام علیھم السلام کی امتوں سے پوچھا جائے گا کہ بتائو ! کیا تمہارے پاس ہمارے پیغمبر آئے ؟ انہوں نے سچائی کا پیغام تمہیں پہنچایا ؟ ایمان والوں کو جنت کی بشارت اور کفر کی روش پر چلنے والوں کو جہنم کی آگ سے ڈرایا تھا ؟ کیا نہوں نے توحید و رسالت پر ایمان لانے اور عمل صالح کی دعوت دی تھی ؟ کیا انہوں نے کلمہ شہادت کے ذریعہ اللہ کی حاکمیت اور عبودیت قائم کرنے کی تلقین کی تھی ؟ اسی طرح کے بہت سے سوالات کئے جائیں گے۔ اس جگہ امتوں کا جواب تو نقل نہیں کیا گیا لیکن قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے ان امتوں کے لوگوں کے جوابات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان میں کچھ تو لوگ وہ ہوں گے جو اپنی خطاؤں ‘ لغزشوں اور کفر و شرک کا اقرار کرلیں گے لیکن وہ لوگ جن کو دنیا میں بھی جھوٹ بولنے کی عادت ہوگی وہ انبیاء کرام علیھم السلام کے منہ پر انکار کرتے ہوئے کہہدیں گے کہ ہمیں تو کوئی ڈرانے والا یا نصیحت کرنے والا نہیں آیا تھا۔ حالانکہ اللہ جانتا ہے کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں مگر اس عدالت میں انصاف کا تقاضا پورا کرنے کے لئے حق تعالیٰ شانہ انبیاء کرام (علیہ السلام) سے پوچھیں گے کہ تم اپنے گواہ لے کر آئو کہ تم نے پیغام حق ان لوگوں تک پہنچایا ہے یا نہیں ؟ انبیاء کرام (علیہ السلام) اپنی گواہی کے لئے امت محمدی کو پیش کریں گے کہ یہ ہمارے گواہ ہیں۔ منکرین پکار اٹھیں گے کہ اے اللہ یہ تو ہمارے بہت بعد میں آئے ہیں ان کو کیا معلوم۔ اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت سے پوچھیں گے کہ تمہیں یہ بات کس نے بتائی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امتی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف اشارہ کرکے کہیں گے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں بتایا۔ اس وقت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرمائیں گے کہ اے اللہ آپ کے کلام کے ذریعہ میں نے ان کو بتایا کہ ان سب انبیاء کرام (علیہ السلام) نے پیغام حق کو پوری دیانت و امانت سے اپنی امتوں کو پہنچایا۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ ارشاد فرمائیں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوگا کہ ہم اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر گواہ ہیں ( یہ تفصیل حدیث شریف میں ہے اور سورة بقرہ کی آیت میں بھی مختصراً اس حقیقت کی نشاندھی فرمائی گئی ہے) ۔ پھر اس کے بعد انبیاء کرام (علیہ السلام) سے پوچھا جائے گا کہ مخالفین کی طرف سے ہر طرح کے خطرات کے باوجود کیا تم نے اپنافرض ادا کیا اور اللہ کا پیغام ان تک پہنچایا ؟ کیا تم نے مشرکین کے سامنے توحید خالص کا پیغام پیش کیا تھا ؟ کیا تم نے پیغام حق کا عملی نمونہ پیش کرنے کے لئے تبلیغ قولی کے ساتھ تنظیم و جہاد کی عملی کوششیں بھی کی تھیں ؟ ۔۔۔۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) عرض کریں گے الٰہی ہم نے اس سچائی کے پیغام کو پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اے اللہ آپ ہر غیب کے جاننے والے ہیں۔ اسی طرح اہل کفر و شرک سے بھی سوال ہوگا کہ آخر تمہارے پاس ضد ‘ اور ہٹ دھرمی کی کیا دلیل تھی ؟ تم کیوں بھاگے پھر رہے تھے ؟ آخر تم کیوں بہانے بناتے رہے ؟ اہل ایمان سے بھی پوچھا جائے گا کہ کیا تم نے اپنے ایمان کو ہر طرح کی ملاوٹ سے محفوظ رکھا تھا ؟ کیا تم نے ان ہزاروں نعمتوں کا جواب شکراداکرکے یدا تھا جو ہم نے تمہیں عطاکی تھیں۔ فرمایا جائے گا کہ ہم نے تمہیں ٹھکانا دیا تھا ‘ وسائل زندگی اور ان گنت نعمتوں سے نوازا تھا تم کوئی شکر کا نمونہ لے کر آئے ہو تو پیش کرو۔ قیامت کے ہیبت ناک دن میں یہ سوال و جواب ہوں گے۔ حالانکہ اللہ کو تو سب کچھ معلوم ہے اس کے ریکارڈ میں ایک ایک بات موجود ہے لیکن ان سوال و جواب اور گواہیوں کا مقصد صرف ضابطہ کی عدالتی کارروائی ہے اور بات کو منطقی نتیجہ تک پہنچانا ہے تاکہ جنت اور جہنم میں جانے والے اللہ کی عدالت و صداقت کو تسلیم کرلیں اور اپنے بہتر اور برے انجام تک اپنے اعمال کے سبب پہنچ جائیں۔۔۔۔ ۔ قیامت کا دن عدل و انصاف کا دن ہوگا۔ جس میں ایک ایک نفس کے اعمال کو میزان عدل پر تولا جائے گا ۔ وہ میزان عدل جو سچ اور حق ہے۔ میزان عدل میں وہی اعمال بھاری اور وزن دارہوں گے جو صرف اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے کئے گئے ہوں گے ورنہ اچھے سے اچھا عمل اگر محض دکھاوے ‘ نمود ونمائش ‘ فریب ‘ باطل اور ابلیس کی راہ میں ہوگا۔ وہ بےوزن ہوگا۔ اس دن کا تول بالکل حق ہوگا۔ جن کے پلڑے بھاریہوں گے وہی کامیاب و بامراد ہوں گے۔ لیکن جن کے اعمال بےوزن اور کفر و شرک کے ساتھ ہوں وہی حسرت وافسوس کے ساتھ جہنم کا ایندھن بن جائیں گے۔ سورة قارعہ میں فرمایا گیا ہے کہ جس کا پلہ بھاری نکلا وہ خوش خوش ہمیشہ عیش میں رہے گا اور جس کا پلہ ہلکا نکلا وہ جہنم کی گود میں جا گرے گا۔ صحیح مسلم میں حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع کے موقع پر تمام حاضر صحابہ کرام (رض) سے پوچھا کہ جب قیامت کے دن تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا کہ میں نے اللہ کا پیغام تمہیں پہنچادیا تھا یا نہیں ؟ تو تم کیا جواب دو گے ؟ سارے صحابہ (رض) نے ایک زبان ہو کر عرض کیا کہ ہم یہی کہیں گے کہ آپ نے اللہ کا پیغام تمام و کمال ہم تک پہنچایا ہے اور اللہ کیا مانت کا حق ادا کردیا ہے اور آ پنے امت کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ فرمایا یہ سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے اللہ تو گواہ رہنا۔ مسند احمد میں ہے کہ آپ نے حاضرین سے یہ بھی فرمایا کہ تم میں سے جو حاضر ہیں وہ میرا یہ پیغام ان تک پہنچادیں جو موجود نہیں ہیں (یعنی ان لوگوں تک جو اس محفل میں نہیں ہیں یا جو میرے بعد نسلاً بعد نسل دنیا میں آئیں گے) ۔ ان آیات کا خلاصہ اور وضاحت یہ ہے :۔ (1) کفرو شرک میں مبتلا لوگوں سے اور انبیاء کرام علیھم السلام سے عدت و انصاف کا تقاضا پورا کرتے ہوئے سوالات کئے جائیں گے جس میں کفار کو ذلت کا منہ دیکھنا پڑے گا اور انبیاء کرام (علیہ السلام) اور نیک صالح امتی سرخ روہوں کو نجات اور فلاح پائیں گے۔ لیکن اس کے باوجود کہ اللہ کو ذرہ ذرہ کا علم ہے اسکا علم ہر چیز پر غالب ہے اس کی نگاہوں سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے وہ کسی شہادت اور گواہی کا محتاج نہیں ہے لیکن جس طرح اللہ نے اپنے فضل و کرم سے دنیا میں رہنے سہنے اور عمال کرنے کی آزادی دی ہے اسی طرح وہ آخرت میں بھی ہر ملزم کو اپنی صفائی کا پورا پورا موقع عطا فرمائیں گے۔ (2) اعمال کا تو لاجانا برحق ہے لیکن ان اعمال کو کس طرح تو لا جائے گا کس ‘ چیز پر تولاجائے گا اس کی وضاحت موجود نہیں ہے ہمارے سامنے تولنے کا جوآلہ یا ذریعہ ہوگا ہم انسانی محاوروں کے مطابق بات سمجھانے کے لئے اسی طرح سمجھانے کی کوشش کریں گے جیسے صدیوں پہلے کسی چیز کو تولنے اور ناپنے کے پیمانے ہوتے تھے۔ ہمارے بزرگوں نے بات کو سمجھانے کے لئے ان یہ چیزوں کا سہارا لیا اور بات کو سمجھادیا۔ آج کے دور میں تو بادل ‘ ہوا ‘ برف ‘ سونا چاندی اور چیزوں کو تولنے کے اتنے پیمانے نکل آئے ہیں جن کا تصور چند سو سال پہلے کرنا بھی ناممکن تھا اور آنے والے دور میں نجانے تولنے کے کون کونسے ذریعے نکل آئیں گے۔ بہر ال ماضی ‘ حال اور مستقبل میں کسی چیز کو تولنے کی جو بھی چیزیں نکل آئیں ہم بات کو اسی طرح سمجھائیں گے کیونکہ جو چیز سامنے ہوتی ہے اس کو مثال بنا بات کو سمجھایا جاتا ہے۔ مقصد ہے بات کا سمجھانا مثالوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔ ۔۔ اس لئے ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کی عدالت میں انسانوں کے اعمال کس طرح تو لے جائیں گے۔ اس کے پیمانے کیا ہوں گے۔ اس کے پیچھے پڑنے سے بہتر ہے کہ ہم اتنا سمجھ لیں تو کافی ہے کہ بہر حال انسانوں کے وزن داراعمال ہی ان کا نجات کا سبب بنیں گے۔ (3) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بھی سامنے آیا کہ آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر تمام صحابہ کرام (رض) کو گواہ بنایا اور صحابہ (رض) نے اعتراف و اقرار کی سعادت حاصل کی۔ اسی میں آپکا یہ ارشاد کہ جو اس وقت موجود ہیں وہ میرا پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیں جو اس وقت موجود نہیں ہیں۔ ان سے مراد وہ لوگ بھی تھے جو اس وقت حجۃ الوداع کے موقع پر موجود نہیں تھے اور وہ لوگ بھی ہیں جو آنے والی نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں تاریخ گواہ ہے کہ صحابہ کرام (رض) نے آپ کے اس حکم کی تعمیل میں آپ کے ایک ایک ارشاد بلکہ ایک ایک ادا کو آنے والی نسلوں تک پہنچانے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیا اور قرآن کریم اور احادیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پوری دیانت و امانت سے صدیاں گذرنے کے باوجود ہم تک پہنچادیا ہے۔ اللہ کرے کہ ہم بھی ان حضرت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس پیغام کو آنے والی نسلوں تک پہنچا کر اللہ و رسول کے سامنے سرخ رو ہوسکیں۔ اس موقع پر ختم نبوت کا مسئلہ بھی بہت واضح طریقہ پر سامنے آجاتا ہے اور وہ یہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ نہیں فرمایا کہ لوگو ! جو کچھ میں کہہ رہا ہوں۔ (نعوذ باللہ) میرے بعد ایک اور بنی آئے گا جو اس کی وضاحت کرے گا بلکہ آپ نے دین اسلام پہنچانے کی تمام تر ذمہ داری امت کے تمام افراد پر ڈالی ہے۔ قرآن کریم اور احادیث اس بات پر گواہ ہیں کہ نبی اکرم حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپ کے بعد جس نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا ہے وہ جھوٹا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ دونوں سوالوں سے توبیح ہوگی کفار کو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قوم کس قدر بھی اکھڑ مزاج ہو اور تباہی کے گڑھے پر کھڑی ہو اسے آخر وقت تک سمجھانا۔ انبیاء ( علیہ السلام) کی سنت ہے کیونکہ ہر نبی سے اپنی امت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ جس طرح نبی سے اس کی امت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اسی طرح امت سے سوال ہوگا کہ اس نے اپنے نبی کی دعوت کا کیا جواب دیا۔ چناچہ قیامت کے دن تمام انبیاء ( علیہ السلام) وقت مقررہ کے مطابق اپنی اپنی امت کو لے کر عدالت کبریا میں حاضر ہوں گے سب سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) رب کی بارگاہ میں پیش ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہر فرد کے سامنے اس کا اعمال نامہ پیش فرمائیں گے۔ جس میں ایک بات بھی حقیقت کے خلاف نہ ہوگی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر بات پر حاوی ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر امت اور نبی سے سوال کرے گا : ١۔ اللہ تعالیٰ سوال کرے گا کیا تمہارے پاس رسول نہ آئے جو میری آیات پڑھ کر سناتے تھے ؟ (الزمر : ٧١) ٢۔ اے جنوں اور انسانوں کی جماعت ! کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے ؟ (الانعام : ١٣٠) ٣۔ اے بنی آدم کیا تمہارے پاس رسول نہ آئے ؟ (الاعراف : ٣٥) ٤۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز رسولوں کی جماعت کو اکٹھا کرکے امتوں کے سلوک کے بارے میں سوال کرے گا۔ (المائدۃ : ١٠٩) ٥۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن عیسیٰ بن مریم سے سوال کرے گا۔ (المائدۃ : ١١٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” فَلَنَسْأَلَنَّ الَّذِیْنَ أُرْسِلَ إِلَیْْہِمْ وَلَنَسْأَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ (6) فَلَنَقُصَّنَّ عَلَیْْہِم بِعِلْمٍ وَمَا کُنَّا غَآئِبِیْنَ (7) وَالْوَزْنُ یَوْمَئِذٍ الْحَقُّ فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہُ فَأُوْلَـئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ (8) وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہُ فَأُوْلَـئِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُواْ أَنفُسَہُم بِمَا کَانُواْ بِآیَاتِنَا یِظْلِمُونَ (9) ” پس یہ ضرور ہو کر رہنا ہے کہ ہم ان لوگوں سے باز پرس کریں جن کی طرف ہم نے پیغمبر بھیجے ہیں اور پیغمبروں سے بھی پوچھیں ۔ پھر ہم خود پورے علم کے ساتھ ساری سرگزشت ان کے آگے پیش کردیں ‘ آخر ہم کہیں غائب تو نہیں تھے اور وزن اس روز عین حق ہوگا جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے اور جن کے پلڑے ہلکے رہیں گے وہی اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کرنے والے ہوں گے کیونکہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کرتے رہے تھے ۔ “ یہ تصویر کشی کا انداز بیان قرآنی تعبیرات کا خاصہ ہے ۔ طرز تعبیر ہمیں لحظہ بھر میں پوری دنیا کی سیر کرا دیتا ہے ۔ پھر قرآن کی ایک سطر میں دنیا اور آخرت مل جاتے ہیں ۔ اور آغاز و انجام ایک ہوجاتے ہیں ۔ اس جہان میں تو یہ لوگ عذاب الہی سے دو چار ہیں اور اس جہان میں ان سے باز پرس ہو رہی ہے اور جب عذاب آگیا تھا اور وہ غفلت میں تھے تو پھر اچانک انہوں نے اعتراف کرنا شروع کردیا اور کہا آیت ” انا کنا ظلمین “۔ (بےشک ہم ظالم تھے) لیکن اس جہان میں ۔ آیت ” فَلَنَسْأَلَنَّ الَّذِیْنَ أُرْسِلَ إِلَیْْہِمْ وَلَنَسْأَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ (6) ” پس یہ ضرور ہو کر رہنا ہے کہ ہم ان لوگوں سے باز پرس کریں جن کی طرف ہم نے پیغمبر بھیجے ہیں اور پیغمبروں سے بھی پوچھیں ۔ “ یہ سوال نہایت ہی جامع ومانع ہے ۔ یہ رسولوں سے بھی ہوگا اور ان کی امتوں سے بھی ہوگا ۔ یہ سوال و جواب کھلی مجلس میں ہوگا ‘ ایک بڑے اجتماع میں اور اس میں تمام راز کھل جائیں گے ۔ امت دعوت سے سوال ہوگا اور ان کی جانب سے اعتراف ہوگا ‘ رسولوں سے بھی باز پرس ہوگی اور وہ جواب دیں گے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال کا ریکارڈ پوری تفصیلات کے ساتھ پیش کریں گے اس لئے کہ اللہ تو ہر چیز کے پاس تھا ‘ اس سے کوئی چیز غائب نہ تھی ۔ یہ نہایت ہی موثر ٹچ ہے۔ آیت ” وَالْوَزْنُ یَوْمَئِذٍ الْحَقُّ “۔ (٧ : ٨) ” اس روز عین حق ہوگا ۔ “ اس دن وزن کے اندر کوئی غلطی کا امکان نہ ہوگا اور نہ فیصلے میں کوئی غلطی ہوگی ۔ دنیا میں فیصلوں پر جو جدل وجدال اور واقعات ہوتے ہیں وہ نہ ہوں گے ۔ آیت ” فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہُ فَأُوْلَـئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ (8) ”۔ جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے “۔ اللہ کا ترازو سچا ہے ۔ اب وہ بھاری ہوگیا ہے لہذا آگ سے بچاؤ ہوگیا ۔ جنت کی طرف سفر شروع ہوگیا اور یہ اس طویل سفر کا آخری ٹھکانا ہے ۔ آیت ” وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہُ فَأُوْلَـئِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُواْ أَنفُسَہُم بِمَا کَانُواْ بِآیَاتِنَا یِظْلِمُونَ (9) ” اور جن کے پلڑے ہلکے رہیں گے وہی اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کرنے والے ہوں گے کیونکہ وہ ہماری آیات کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کرتے رہے تھے ۔ “ اللہ کے ترازو میں غلطی کا امکان ہی نہیں ہے ۔ یہ لوگ گھاٹا کھا گئے ہیں ۔ اب تو کمائی کا وقت ختم ہے ۔ انسان اپنے لئے کماتا ہے ‘ جب خسارہ ہی ہوگیا کاروبار میں تو کیا کمائے گا اور کیا رہے گا ۔ انہوں نے کفر کیا ‘ اپنی جان ہی کو گنوا دیا ۔ کیونکہ آیات الہیہ کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کرتے تھے ‘ جیسا کہ کہا گیا ظلم سے مراد شرک ہے کیونکہ شرک ظلم عظیم ہے ۔ آیت ” ان الشرک لظلم عظیم “۔ یہاں ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ وزن اور میزان کی شکل کیا ہوگی ۔ اسلامی عقائد کی تاریخ میں اس پر بحثیں ہوچکی ہیں ‘ کیونکہ اللہ کے افعال کی شکل و صورت اور کیف وکم کی کوئی مثال نہیں ہے ۔ خود اللہ تعالیٰ کی کوئی مثال نہیں ۔ آیت ” لیس کمثلہ شیء “ اس لئے ہم قرآن کے فرمان ہی پر اکتفا کرتے ہیں کہ اس دن حساب برحق ہوگا کہ انسان کے کسی بھی نیک عمل میں نہ کمی ہوگی نہ وہ شمار سے رہ جائے گا اور نہ ہی ضائع ہوگا ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت کے دن رسولوں سے اور ان کی امتوں سے سوال اور اعمال کا وزن ان آیات میں آخرت کے سوال و جواب اور عقائد و اعمال کے تولے جانے کا پھر اوزان کے ہلکا بھاری ہونے کا اور اس کے مطابق کامیاب اور نا کام ہونے کا ذکر فرمایا۔ قیامت کے دن امتوں سے سوال ہوگا کہ تمہارے پاس رسول آئے تھے تو تم نے ان کو کیا جواب دیا تھا کمافی سورة القصص (وَ یَوْمَ یُنَادِیْھِمْ فَیَقُوْلُ مَاذَآ اَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِیْنَ ) اور حضرات رُسُلِ عظام و انبیاء کرام (علیہ السلام) سے بھی سوال ہوگا کہ کیا آپ حضرات نے ہمارا پیغام پہنچایا اور یہ بھی سوال ہوگا کہ امتوں نے اس کا کیا جواب دیا۔ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیا (اور متعدد نصیحتیں فرمائیں) اور آخر میں فرمایا کہ میرے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا تو تم کیا جواب دو گے ؟ حاضرین نے عرض کیا کہ ہم یہ گواہی دیں گے کہ آپ نے (اللہ کا پیغام) پہنچایا اور اپنی ذمہ داری پوری کی اور (امت کی) خیر خواہی کی، آپ نے اپنے انگوٹھے کے پاس والی انگلی کو آسمان کی طرف اٹھایا اور پھر لوگوں کی طرف جھکایا اور تین بار اللہ تعالیٰ کے دربار میں عرض کیا اللّٰھُمَّ اشْھَدْ اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ اے اللہ ! تو گواہ ہوجا۔ اے اللہ تو گواہ ہوجا۔ اے اللہ تو گواہ ہوجا۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ قیامت کے روز حضرت نوح (علیہ السلام) کو لایا جائے گا اور ان سے سوال ہوگا کہ تم نے تبلیغ کی ؟ وہ عرض کریں گے کہ اے رب ! میں نے واقعتہً تبلیغ کی تھی، ان کی امت سے سوال ہوگا کہ انہوں نے تمہیں احکام پہنچائے تھے ؟ وہ کہیں گے نہیں ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ اس کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) سے پوچھا جائے گا تمہارے دعویٰ کی تصدیق کے گواہ کون ہیں ؟ وہ جواب دیں گے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے امتی ہیں۔ یہاں تک واقعہ نقل کرنے کے بعد آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کو خطاب کر کے فرمایا کہ اس کے بعد تم کو لایا جائے گا اور تم گواہی دو گے کہ بیشک حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی امت کو تبلیغ کی تھی اس کے بعد حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی (وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا) (یہ صحیح بخاری ج ٢ ص ٦٤٥ کی روایت ہے) ، اور مسند احمد کی روایت میں ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے علاوہ دیگر انبیاء کرام (علیہ السلام) کی امتیں بھی انکاری ہوں گی کہیں گی کہ ہم کو تبلیغ نہیں کی گئی، ان کے نبیوں سے سوال ہوگا کہ تم نے تبلیغ کی تھی ؟ وہ کہیں گے کہ ہم نے تبلیغ کی تھی، ان سے گواہ طلب کیے جائیں گے تو وہ حضرت سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت کو گواہی میں پیش کردیں گے۔ چناچہ یہ حضرات عرض کریں گے کہ ہم پیغمبروں کے دعوے کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان سے سوال ہوگا کہ تمہیں اس معاملے کی کیا خبر ؟ وہ جواب میں عرض کریں گے کہ ہمارے پاس حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور انہوں نے خبر دی کہ تمام پیغمبروں نے اپنی اپنی امتوں کو تبلیغ کی۔ لہٰذا ہم ان کی تصدیق کرتے ہیں۔ (درمنثور ص ١٤٤ ج ١)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6: یہ تخویف اخروی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

6 پھر اس سزا کے بعد ہم قیامت میں ان لوگوں سے بھی باز پرس کریں گے جن کی طرف رسول بھیجے گئے تھے اور خود رسولوں سے بھی پوچھیں گے اور ضرور دریافت کریں گے۔ یعنی امتوں سے یہ پوچھا جائے گا کہ تم نے رسولوں کا کہنا مانا یا نہیں اور رسولوں سے یہ کہ تمہاری امتوں نے تمہیں کیا جواب دیا اور تمہاری دعوت کو سن کر قبول کیا یا نہیں۔