Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 85

سورة الأعراف

وَ اِلٰی مَدۡیَنَ اَخَاہُمۡ شُعَیۡبًا ؕ قَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ بَیِّنَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ فَاَوۡفُوا الۡکَیۡلَ وَ الۡمِیۡزَانَ وَ لَا تَبۡخَسُوا النَّاسَ اَشۡیَآءَہُمۡ وَ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ بَعۡدَ اِصۡلَاحِہَا ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿ۚ۸۵﴾

And to [the people of] Madyan [We sent] their brother Shu'ayb. He said, "O my people, worship Allah ; you have no deity other than Him. There has come to you clear evidence from your Lord. So fulfill the measure and weight and do not deprive people of their due and cause not corruption upon the earth after its reformation. That is better for you, if you should be believers.

اور ہم نے مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب ( علیہ اسلام ) کو بھیجا انہوں نے فرمایا اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل آچکی ہے پس تم ناپ اور تول پورا پورا کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے مت دو اور روئے زمین میں اس کے بعد اس کی درستی کر دی گئی فساد مت پھیلاؤ یہ تمھارے لئے نافع ہے اگر تم تصدیق کرو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Story of Shu`ayb, upon him be Peace, and the Land of Madyan Allah says; وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ... And to (the people of) Madyan, (We sent) their brother Shu`ayb. Muhammad bin Ishaq said, "They (the people of Madyan) are the descendents of Madyan, son of Midyan, son of Ibrahim. Shu`ayb was the son of Mikil bin Yashjur. And in the Syrian language, his name was Yathrun (Jethro)." I (Ibn Kathir) say, Madyan was the name of the tribe and also a city that is close to Ma`an on route to the Hijaz (from Ash-Sham). Allah said in another Ayah, وَلَمَّا وَرَدَ مَأءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِّنَ النَّاسِ يَسْقُونَ And when he arrived at the water (a well) of Madyan he found there a group of men watering (their flocks). (28:23) They are also the people of Al-Aykah (the Woods), as we will mention later on, Allah willing, and our trust is in Him. ... قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـهٍ غَيْرُهُ ... He said: "O my people! Worship Allah! You have no other God but Him," and this is the call of all Messengers, ... قَدْ جَاءتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ ... "Verily, a clear proof (sign) from your Lord has come unto you;" meaning, `Allah has presented the proof and evidences of the truth of what I brought you.' He then advised and commanded them, ... فَأَوْفُواْ الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ وَلاَ تَبْخَسُواْ النَّاسَ أَشْيَاءهُمْ ... so give full measure and full weight and wrong not men in their things, meaning, to refrain from cheating people in buying and selling. They used to treacherously avoid giving full weight and measure. Allah said in other Ayat, وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ (Woe to Al-Mutaffifin (those who give less in measure and weight)... (83:1) until He said, لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (before the Lord of all that exists). (83:6) ... وَلاَ تُفْسِدُواْ فِي الاَرْضِ بَعْدَ إِصْلَحِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّوْمِنِينَ and do not do mischief on the earth after it has been set in order, that will be better for you, if you are believers. These Ayat contain a stern warning and sure promise that we ask Allah to save us from. Shu`ayb was called `Speaker of the Prophets', because of his eloquent words and eloquent advice, and Allah stated that Shu`ayb said:

خطیب الانبیاء شعیب علیہ اسلام مشہور مؤرخ حضرت امام محمد بن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ لوگ مدین بن ابراہیم کی نسل سے ہیں ۔ حضرت شعیب میکیل بن نیشجر کے لڑکے تھے ان کا نام سریانی زبان میں یژون تھا ۔ یہ یاد رہے کہ قبیلے کا نام بھی مدین تھا اور اس بستی کا نام بھی یہی تھا یہ شہر معان سے ہوتے ہوئے حجاز جانے والے کے راستے میں آتا ہے ۔ آیت قرآن ولما و رد ماء مدین میں شہر مدین کے کنویں کا ذکر موجود ہے اس سے مراد ایکہ والے ہیں جیسا کہ انشاء اللہ بیان کریں گے ۔ آپ نے بھی تمام رسولوں کی طرح انہیں توحید کی اور شرک سے بچنے کی دعوت دی اور فرمایا کہ اللہ کی طرف سے میری نبوت کی دلیلیں تمہارے سامنے آ چکی ہیں ۔ خالق کا حق بتا کر پھر مخلوق کے حق کی ادائیگی کی طرف رہبری کی اور فرمایا کہ ناپ تول میں کمی کی عادت چھوڑو لوگوں کے حقوق نہ مارو ۔ کہو کچھ اور کرو کچھ یہ خیانت ہے فرمان ہے آیت ( ویل للمطففین ) ان ناپ تول میں کمی کرنے والوں کیلئے ( ویل ) ہے ۔ اللہ اس بدخصلت سے ہر ایک کو بچائے ۔ پھر حضرت شعیب علیہ السلام کا اور وعظ بیان ہوتا ہے ۔ آپ کو بہ سبب فضاحت عبارت اور عمدگی وعظ کے خطیب الانبیاء کہا جاتا تھا ۔ علیہ الصلوۃ والسلام ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

85۔ 1 مدین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے یا پوتے کا نام تھا پھر انہیں کی نسل پر مبنی قبیلے کا نام مدین اور جس بستی میں یہ رہائش پذیر تھے اس کا نام بھی مدین پڑگیا۔ یوں اس کا اطلاق قبیلے اور بستی دونوں پر ہوتا ہے۔ یہ بستی حجاز کے راستے میں معان کے قریب انہی کو قرآن میں دوسرے مقام پر اَصْحَابُ الأیْکَۃِ (بن کے رہنے والے) بھی کہا گیا ہے۔ ان کی طرف حضرت شعیب (علیہ السلام) نبی بنا کر بھیجے گئے (دیکھئے الشعرا۔ 176 کا حاشیہ) ملحوظہ : ہر نبی کو اس قوم کا بھائی کہا گیا ہے، جس کا مطلب اسی قوم اور قبیلے کا فرد ہے جس کو بعض جگہ رسول منھم یا من انفسہم سے بھی تعبیر کی گیا ہے، اور مطلب ان سب کا یہ ہے کہ رسول اور نبی انسانوں میں سے ہی ایک انسان ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ لوگوں کی ہدایت کے لیے چن لیتا ہے اور وحی کے ذریعے سے اس پر اپنی کتاب اور احکام نازل فرماتا ہے۔ 85۔ 2 دعوت توحید کے بعد اس قوم میں ناپ تول کی بڑی خرابی تھی، اس سے انہیں منع فرمایا اور پورا پورا ناپ اور تول کردینے کی تلقین کی۔ یہ کوتاہی بھی بڑی خطرناک ہے جس سے اس قوم کا اخلاق پستی اور گراوٹ کا پتہ چلتا ہے جس کے اندر یہ ہو۔ یہ بدترین خیانت ہے کہ پیسے پورے لئے جائیں اور چیز کم دی جائے۔ اس لئے سورة مُطَفِّفِیْن میں ایسے لوگوں کی ہلاکت کی خبر دی گئی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٠] شعیب (علیہ السلام) کا مرکز تبلیغ :۔ مدین کا علاقہ حجاز کے شمال مغرب اور فلسطین کے جنوب میں بحر احمر اور خلیج عقبہ کے کنارے پر واقع تھا اور جو تجارتی قافلے یمن سے ساحل سمندر کے ساتھ راستہ اختیار کر کے شام اور فلسطین جاتے نیز جو قافلے مصر سے اسی غرض کے لیے جاتے ہیں ان کے راستہ میں پڑتا ہے بلکہ اس قوم کی بستیاں ان دونوں تجارتی شاہراہوں کے چوراہوں میں واقع تھیں لہذا یہ علاقہ پورے کا پورا ایک تجارتی مرکز بن گیا تھا، اور مدین کے لوگ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے مدیان کی اولاد سے تعلق رکھتے تھے۔ اسی نسبت سے انہیں آل مدیان اور ان کے علاقہ کو مدین یا مدیان کہا جاتا تھا یہ لوگ دین ابراہیم (علیہ السلام) ہی کے متبع ہونے کا دعویٰ رکھتے تھے۔ مگر مرور زمانہ کی وجہ سے ان میں بھی کئی اعتقادی اور اخلاقی بیماریاں پیدا ہوچکی تھیں۔ اعتقادی خرابیوں میں سب سے بڑی خرابی تو شرک ہے جو اکثر اقوام میں پایا جاتا رہا ہے اور شرک کا اصل سبب اللہ کی حقیقی معرفت سے جہالت ہوتا ہے اور دوسری اخلاقی بیماری یہ تھی کہ اپنے تجارتی کاروبار میں ہر طرح کی ہیرا پھیریاں کرتے تھے۔ جھوٹ بول کر مال بیچنا، کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا اور کسی کو دیتے وقت کم دینا اور لیتے وقت زیادہ لینا غرض تجارت میں ہر طرح کی بددیانتی کرتے تھے چیز دیتے وقت ناپ یا تول میں کیا ہتھکنڈے اختیار کیے جاسکتے ہیں جس سے لینے والے کو معلوم بھی نہ ہو سکے کہ اسے مطلوبہ چیز کم ملی ہے اور اس کے برعکس بھی۔ یہ ایسے معروف طریقے ہیں جن سے ہماری قوم بھی خوب واقف ہے اور ان کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ [٩١] لین دین میں ہیراپھیریاں :۔ یہ وہی سیدنا شعیب (علیہ السلام) ہیں جو سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے سسر تھے اور دس سال تک سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) ان کی تربیت میں رہے تھے۔ آپ پہلے نبی ہیں جو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کی وفات کے تقریباً چھ سو سال بعد (یعنی تقریباً ١٥٠٠ ق م میں) اہل مدین کی طرف بھیجے گئے چونکہ یہ لوگ اپنے آپ کو سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کے پیرو سمجھتے تھے لہذا سیدنا شعیب (علیہ السلام) نے انہیں مخاطب بھی اسی بات کا لحاظ رکھتے ہوئے کیا اور فرمایا کہ تمہارے پاس واضح دلیل یعنی سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے صحائف یا تعلیمات تو آچکی ہیں پھر تم کیسے شرک میں مبتلا ہوگئے اور یہ تجارتی لین دین میں دغا بازیاں کیوں کرتے ہو ؟ اور اللہ اور اس کے بندوں دونوں کے حقوق تلف کر کے فساد فی الارض کا موجب بن رہے ہو ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِلٰي مَدْيَنَ اَخَاهُمْ شُعَيْبًا ۭ : مدین کا علاقہ حجاز کے شمال مغرب اور فلسطین کے جنوب میں بحر احمر اور خلیج عقبہ کے کنارے پر واقع تھا اور آج بھی اس علاقے میں ایک جگہ اسی نام سے مشہور ہے۔ شعیب (علیہ السلام) کا نسب نامہ امام نووی (رض) نے یوں بیان کیا ہے، شعیب بن میکائیل بن یشجر بن مدین بن ابراہیم۔ (المنار) مگر اس کے صحیح ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ شعیب (علیہ السلام) کو اہل مدین کا بھائی قرار دیا، کیونکہ وہ اس قوم سے تھے اور ان کا قبیلہ بہت زبردست تھا جس کی وجہ سے ان کے کفار آپ کو نقصان پہنچانے سے ڈرتے تھے، اس لیے انھوں نے کہا تھا : (ۚ وَلَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ ۡ ) [ ہود : ٩١ ] ” اور اگر تیری برادری نہ ہوتی تو ہم ضرور تمہیں سنگسار کردیتے۔ “ شعیب (علیہ السلام) ہی کو اصحاب الایکہ کی طرف بھیجا گیا، مگر وہاں انھیں ان کا بھائی نہیں کہا گیا، فرمایا : (كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْــــَٔــيْكَةِ الْمُرْسَلِيْنَ , اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَيْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ ) [ الشعراء : ١٧٦، ١٧٧ ] ” ایکہ والوں نے رسولوں کو جھٹلایا، جب ان سے شعیب نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں ہو ؟ “ اب بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی قوم کے نام ہیں اور ان پر دو قسم کے عذاب آئے، ایک ” عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ ۭ“ ( شعراء : ١٨٩) اور ایک ” الرَّجْفَةُ “ (اعراف : ٩١ ) اور بعض کا کہنا ہے کہ یہ دو الگ الگ قومیں تھیں، اصحاب مدین پر ” الرَّجْفَةُ “ (زلزلے) کا عذاب آیا اور اصحاب ایکہ پر ” یوم الظلۃ “ کا عذاب آیا۔ (واللہ اعلم ! ) ۭقَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ ۔۔ : مدین والوں کا سب سے بڑا جرم اللہ کے ساتھ شرک تھا، شعیب (علیہ السلام) نے سب سے پہلے انھیں اس سے باز رہنے کی تاکید فرمائی اور ہر پیغمبر کی پہلی دعوت یہی تھی : (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ) [ الأنبیاء : ٢٥ ] ” اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، سو میری عبادت کرو۔ “ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ : یعنی میرے سچا ہونے کی واضح دلیل تم دیکھ چکے ہو، لہٰذا ضروری ہے کہ جو بات میں کہتا ہوں اسے صحیح سمجھو۔ رازی نے فرمایا کہ یہاں ” بَيِّنَةٌ“ (واضح دلیل) سے مراد معجزہ ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہر نبی کو کوئی نہ کوئی ایسا معجزہ دے کر بھیجا گیا جسے دیکھ کر لوگ اس پر ایمان لائے اور مجھے جو ( معجزہ) دیا گیا وہ وحی ( قرآن و سنت) ہے جو اللہ تعالیٰ نے میری طرف فرمائی اور مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میرے پیروکار سب سے زیادہ ہوں گے۔ “ [ بخاری، فضائل القرآن، باب کیف نزل الوحی و أول ما أنزل : ٤٩٨١۔ مسلم : ١٥٢، عن أبی ہریرۃ (رض) ] مگر شعیب (علیہ السلام) کے معجزے کا قرآن کریم میں ذکر نہیں۔ زمخشری لکھتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جو عصا یعنی لاٹھی تھی وہ شعیب (علیہ السلام) ہی نے انھیں عطا فرمائی تھی اور وہ دراصل شعیب (علیہ السلام) ہی کا معجزہ تھا۔ (کشاف) مگر موسیٰ (علیہ السلام) مدین کے جس بزرگ کے پاس ٹھہرے اور ان کے داماد بنے تھے، ان کے شعیب (علیہ السلام) ہونے کی کوئی دلیل نہیں، نہ ہی مدین کے کسی بزرگ کا ذکر کرنے پر بلا دلیل یہ سمجھ لینا درست ہے کہ وہ لازماً اللہ کے رسول شعیب (علیہ السلام) ہی تھے۔ قرآن مجید میں نہ ہر پیغمبر کا نام مذکور ہے نہ ہر نبی کا معجزہ۔ اتنا ہی کافی ہے کہ یقیناً شعیب (علیہ السلام) کوئی معجزہ لے کر آئے تھے، زیادہ کریدنے سے کچھ حاصل نہیں۔ فَاَوْفُوا الْكَيْلَ ۔۔ : اس سے معلوم ہوا کہ اس قوم میں شرک کے ساتھ دوسری خرابی ماپ تول میں لیتے وقت زیادتی اور دیتے وقت کمی تھی، اگر کوئی ان کی اس زیادتی کے خلاف احتجاج کرتا تو مل کر اس کی بےعزتی کرتے اور اسے مارتے پیٹتے، جیسا کہ آج کل بھی عموماً ریڑھیوں والے ایسے موقع پر گاہک کے خلاف ایکا کرلیتے ہیں، اس لیے شعیب (علیہ السلام) نے انھیں سمجھایا کہ ماپ تول ہر حال میں پورا کرو اور انبیاء اور صالحین کی محنت سے دنیا میں جو اصلاح ہوئی ہے اس کے بعد شرک اور بددیانتی اور ان کے ساتھ پیدا ہونے والی برائیوں کے ذریعے سے اس میں فساد مت پھیلاؤ، کیونکہ ان دونوں سے اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی تلف ہوتے ہیں اور لوگوں کے بھی۔ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ : یعنی اگر تم مجھ پر ایمان لا کر شرک اور بددیانتی ترک کرو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے، کیونکہ کافر رہتے ہوئے یہ چیزیں چھوڑ بھی دو تو قیامت کے دن اس کا کچھ فائدہ نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary The series of stories relating to prophets (علیہم السلام) continues. The fifth story appears in the verses quoted above. This is the story of Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) and his eople. Sayyidna Shu&aib علیہ السلام according to Muhammad ibn Ishaq, is among the progeny of Madyan, the son of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) and he is also related to Sayyidna Lut (علیہ السلام) . The lineal descendants of Madyan, the son of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) also came to be known by the name, Madyan - and the locality where they lived is also called Madyan. Thus, Madyan is the name of a people and the name of a city as well. This city still survives near the port of Ma` an in Eastern Jordan. When relating the story of Sayyidna Musa (علیہ السلام) elsewhere, the Qur&an says: وَلَمَّا وَرَ‌دَ مَاءَ مَدْيَنَ (And when he arrived at the watering [ place ] in Madyan - 28:23), it is referring to this very habitation. (Ibn Kathir) Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) was known for his impressive oratory because of which he was called the Orator among Prophets (علیہم السلام) . (Ibn Kathir, Al Bahr Al-Muhit) The people to whom Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) was sent have been identified by the Holy Qur&an as the residents or people of Madyan, and also as the people of Aikah. The word: ایکہ (Aikah) means a forest. Some commentators say that these were two different people and lived in separate settlements. Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) was sent to one of them first. When they were destroyed, he was sent to the other. The punishment which came upon these two has also been stated in different words. The punishment of the Rajfah on the people of Madyan is mentioned as Saihah (Sound) at some places, while as Rajfah (earthquake) at others. The punishment of the people of Aikah has been stated as being that of Zullah (shade, canopy). The form in which this punishment came was that the people of Aikah were first subjected to intense heat in their locality which almost roasted them. Then, in the forest close by there came a dense cloud which cast its shade over the entire forest. Attracted by the shade and cool breeze there, all inhabitants of the locality assembled under the shade of that cloud. As Divine arrangement would have it, here were its criminals walking on their two feet and reaching the exact spot where they were to be de¬stroyed, without a warrant of arrest and without a police gun pointed at them. Once they were all there, the clouds rained fire and the earthquake shook the earth. That killed them all. Then, there are other commentators who say that the people of Madyan and the people of Aikah are the same people and the three kinds of punishment mentioned here converged on these people. First came the Fire from the clouds, then, with it, rose the piercing Sound, and then, the earthquake shook the earth. Ibn Kathir has favoured this view. However, whether these two people are separate or are two names of the same people, what matters is the message of truth delivered to them by Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) - and that has been mentioned in the first (85) and second (86) verses. Before we move on to the explana¬tion of this message, let us first understand that the essence of Islam, which is the combined call of all blessed prophets, is the fulfillment of mutual rights. Then rights are of two kinds. First come rights which are related directly to Allah Ta` ala. No visible human gain or loss seems to depend on their fulfillment or abandonment, for example, praying and fasting (Salah and Sawm). Secondly, there are the rights of the servants of Allah (Huquq al-Ibad: human rights - in secular terminology) which are related to human beings. These people were heedless to and unaware of both these rights, in fact, were acting counter to both. By not believing in Allah Ta` ala and His messengers, they were vio¬lating the rights of Allah, and on top of it, by decreasing weights and measures, they were slicing through and wasting away the rights of human beings. Then, such people would go on to sit on entry points of roads and streets and would terrorize all comers, rob them of their belongings, and warned them of worse consequences if they believed in Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) . And thus, on God&s good earth, they had made disorder the order of the day. It was to correct these misdeeds that Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) was sent to them. In the first and second verses quoted above, Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) said three things to correct the course of his people: (1)-First he said: يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّـهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُ‌هُ ` ( O my people, worship Allah. You have no god other than Him). This is the same Da&wah, the call to Tauhid, the Oneness of Allah, which all blessed prophets have been giving all along the lanes of time, a call which is the spirit of all true beliefs and deeds. Since these people too were all sold to the worship of the creat¬ed, and consequently, heedless to the sacred Being and Attributes of Allah Ta` ala, and thus, neglectful of the fulfillment of His rights. Therefore, this was the first message given to them. (2)-Then, it was said: قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّ‌بِّكُمْ (There has come to you a clear sign from your Lord). Here, ` clear signs& or proofs refers to the miracles which were manifested at the hands of Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) . The different forms in which these miracles had appeared find mention in Tafsir Al-Bahr Al-Muhit. (3)-The statement which follows lays down a major rule of just conduct. It was said: فَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ (And fill the measure and weight in full, and do not make people short of their things). The word: کَیل (kail) means measure, and: مِیزَان (mizan) is used in the sense of weighing, and: بِخس (bakhs) means to bring loss on someone by giving one less than what is due. Thus, the instruction given in the verse is to give full measure and weight and to abstain from causing loss to them by holding back what is their due. In the first part of the verse, the particular crime of under-measuring or under-weighing in buying and selling was prohibited. Later, by saying: وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ (and do not make people short of their things), the prohibition was generalized. Now the prohibition ap¬plies to all kinds of decreasing, slicing, under-cutting or short-changing of rights - whether related to property, or honour, or something else. (Al-Bahr Al-Muhit) From here we know that the way it is forbidden to give less than due while weighing and measuring, similarly, forbidden is any cutting back on the human rights of other people. Acts like attacking someone&s honour, not giving due respect to someone according to his legitimate station, showing shortcoming in obeying those the showing of obedience to whom is necessary and failing to respect those who must compulsorily and duly be respected are included under the purview of the crime which used to be committed by the people of Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) . During his famous Khutbah of the Last Hajj, when the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) declared that the honour of people is as worthy of being respected and defended as their blood is, stands as a broader confirmation of this view. All these things are included under the words: مُطَفِّفِينَ (mutaffifin)and: تَطفِیف (tatfif) wherever mentioned in the Qur&an. Sayyidna Faruq al A` zam (رض) saw a person making his Ruku` and Sajdah in a hurry. He said: (that is, you are guilty of measuring and weighing short -Mu&atta Imam Malik). By saying so, he meant that the person had not ful¬filled the right of Sarah as it was due. Thus, in this report, the short-coming of not fulfilling the right of Sarah as due has been referred to by the word: تَطفِیف (tatfif : measuring and weighing short). At the end of the verse, it was said: وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْ‌ضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا (and do not make mischief on the earth after it has been set in order). This sentence has also appeared earlier in this Surah Al-A` raf (for details, please see comments under verse 56) where it was said that the physi¬cal betterment of conditions on the earth depends on utilizing things properly - as and where due, respecting limits and maintaining moder¬ation, equity and justice; and spiritual betterment depends on rela¬tionship with Allah and obedience to His commands. As for the oppo¬site of it, that is, physical and spiritual disorder on earth, it shows up when these principles are compromised or abandoned. The people of Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) had done exactly this. They had totally abandoned these principles because of which earth had become a hotbed of physical and spiritual disorder. That is why they were advised to ab-stain from such deeds which would serve as corrupting influence for the whole earth. Then, it was said: ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ‌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِين (This is good for you, if you are believers). The sense is that should they repent and retract from their evil doings, it has nothing but good waiting for them in their present life as well as in the life to come. As for the prosperity and suc¬cess in the life to come is concerned, it is obvious that it depends on one&s obedience to what Allah has commanded us to do. Then, as for success in the present world, we can say once people find out that there is someone who is honest in weights and measures and is partic-ular about all other rights of his clients, his credit and goodwill will become established in the market and his business will increase in vol¬ume and reliability. Determining the meaning of the statement - ` Do not sit in every path threatening and preventing people from the path of Allah& - in verse 86, some commentators have said that both sentences carry the same sense since these people stopped and threatened those who came to Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) . This they were ordered not to do. Others have said that these crimes committed by them were two separate& crimes. They sat on thoroughfares, looted and snatched things, and also prevented people from believing in Sayyidna Shu&aib (علیہ السلام) . Thus, the first sentence describes the first crime while the sec¬ond sentence describes the other. The later view has been relied upon in Tafsir Al-Bahr Al-Muhit and elsewhere too. Also included under the purview of this command against looting and snatching are check posts set up on thoroughfares to realize impermissible taxes against the provisions of the Shari` ah. ` Allamah Al-Qurtubi has said that those who sit on thoroughfares and make people pay undue taxes against the provisions of the Sha¬ri` ah, they too are criminals like the people of Sayyidna Shu&aib - rather, more oppressive and tyrannical than they were. After that it was said: وَتَبْغُونَهَا عِوَجًا (and seeking a twist in it), that is, these people are always on the lookout for the opportunity to find something in the way of Allah which they could twist, turn and mis¬represent and come up with their roster of doubts and objections through which they could try to wean people away from the true relig¬ion.

خلاصہ تفسیر اور ہم نے مدین (والوں) کی طرف ان کے بھائی شعیب (علیہ السلام) کو (پیغمبر بنا کر) بھیجا انہوں نے (اہل مدین سے) فرمایا کہ میری قوم تم (صرف) اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود (بننے کے قابل) نہیں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے (میرے نبی ہونے پر) واضح دلیل (کہ کوئی معجزہ ہے) آچکی ہے (جب میری نبوت ثابت ہے) تو (احکام شرعیہ میں میرا کہنا مانو چناچہ میں کہتا ہوں کہ) تم ناپ اور تول پوری پوری کیا کرو اور لوگوں کا ان کی چیزوں میں نقصان مت کیا کرو (جیسا کہ تمہاری عادت ہے) اور روئے زمین میں بعد اس کے کہ (تعلیم و توحید و بعثت انبیاء و ایجاب عدل و ادائے حقوق مکیال و میزان سے) اس کی درستی (تجویز) کردی گئی فساد مت پھیلاو (یعنی ان احکام کی مخالفت اور کفر مت کرو کہ موجب فساد ہے) یہ (جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اس پر عمل کرنا) تمہارے لئے (دنیا و آخرت دونوں میں) نافع ہے اگر تم (میری) تصدیق کرو (جس پر دلیل قائم ہے اور تصدیق کرکے عمل کرو تو امور مذکورہ دارین میں نافع ہیں آخرت میں تو ظاہر ہے کہ نجات ہوگی اور دنیا میں عمل بالشرع سے امن و انتظام قائم رہتا ہے خاص کر پورا ناپنے تولنے میں بوجہ اعتبار بڑھنے کے تجارت کو ترقی ہوتی ہے) اور تم سڑکوں پر اس غرض سے مت بیٹھا کرو کہ اللہ پر ایمان لانے والوں کو (ایمان لانے پر) دھمکیاں دو اور (ان کو) اللہ کی راہ (یعنی ایمان) سے روکو اور اس (راہ) میں کجی (اور شبہات) کی تالش میں لگے رہو (کہ بےجا اعتراض سوچ سوچ کر لوگوں کو بہکاؤ یہ لوگ ضلال مذکور سابق کے ساتھ اس اضلال میں بھی مبتلا تھے کہ سڑکوں پر بیٹھ کر آنے والوں کو بہکاتے کہ شعیب (علیہ السلام) پر ایمان نہ لانا نہیں تو ہم تم کو مار ڈالیں گے۔ آگے تذکیر نعمت سے ترغیب اور تذکیر نقمت سے ترہیب ہے یعنی) اور اس حالت کو یاد کرو جب کہ تم (شمار میں یا مال میں) کم تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تم کو (شماریا مال میں) زیادہ کردیا (یہ تو ترغیب تھی ایمان لانے پر) اور دیکھو تو کیسا برا انجام ہوا فساد (یعنی کفر و تکذیب و ظلم) کرنے والوں کا (جیسے قوم نوح اور عاد اور ثمود گزر چکے ہیں اسی طرح تم پر عذاب آنے کا اندیشہ ہے یہ ترہیب ہے کفر پر) اور اگر (تم کو عذاب نہ آنے کا اس سے شبہ ہو کہ) تم میں سے بعضے (تو) اس حکم پر جس کو دے کر مجھ کو بھیجا گیا ہے ایمان لائے ہیں اور بعضے ایمان نہیں لائے (اور پھر بھی دونوں فریق ایک ہی حالت میں ہیں یہ نہیں کہ ایمان نہ لانے والوں پر عذاب آگیا ہو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا عذاب سے ڈرانا بےاصل ہے) تو (اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ فوراً عذاب نہ آنے سے یہ کیسے معلوم ہوا کہ عذاب نہ آئے گا) ذرا ٹھہر جاؤ یہاں تک کہ ہمارے (یعنی دونوں فریق کے) درمیان میں اللہ تعالیٰ (عملی) فیصلہ کئے دیتے ہیں (یعنی عذاب نازل کرکے مؤمنین کو نجات دیں گے اور کفار کو ہلاک کریں گے) اور وہ سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہیں (کہ ان کا فیصلہ بالکل مناسب ہی ہوتا ہے) ۔ معارف و مسائل انبیاء (علیہم السلام) کے قصص جن کا سلسلہ گزشتہ آیات سے چل رہا ہے ان میں پانچواں قصہ حضرت شعیب (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا ہے جو آیات متذکرہ میں بیان ہوا ہے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) محمد بن اسحاق کی روایت کے مطابق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے صاحبزادہ مدین کی اولاد میں سے ہیں اور حضرت لوط (علیہ السلام) سے بھی رشتہ قرابت رکھتے ہیں۔ مدین حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) کے صاحبزادے ہیں ان کی نسل و اولاد بھی مدین کے نام سے معروف ہوگئی اور جس بستی میں ان کا قیام تھا اس کو بھی مدین کہتے ہیں۔ گویا مدین ایک قوم کا بھی نام ہے اور ایک شہر کا بھی۔ یہ شہر آج بھی شرق اردن کی بندرگاہ معان کے قریب موجود ہے۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ میں ارشاد ہے (آیت) ولما ورد ماء مدین۔ ، اس میں یہی بستی مراد ہے (ابن کثیر) ۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کو ان کے حسن بیان کی وجہ سے خطیب الانبیاء کہا جاتا تھا (ابن کثیر، بحر محیط) حضرت شعیب (علیہ السلام) جس قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں قرآن کریم نے کہیں ان کا اہل مدین اور اصحاب مدین کے نام سے ذکر کیا ہے اور کہیں اصحاب ایکہ کے نام سے۔ ایکہ کے معنی جنگل اور بن کے ہیں۔ بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ یہ دونوں قومیں الگ الگ تھیں دونوں کی بستیاں بھی الگ تھیں۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) ان میں سے پہلے ایک قوم کی طرف بھیجے گئے ان کی ہلاکت کے بعد دوسری قوم کی طرف مبعوث فرمائے گئے۔ دونوں قوموں پر جو عذاب آیا اس کے الفاظ بھی مختلف ہیں اصحاب مدین پر کہیں صیحہ اور کہیں رجفہ مذکور ہے اور اصحاب ایکہ پر بھی عذاب ظلہ ذکر کیا گیا ہے۔ صیحہ کے معنی چنگھاڑ اور سخت آواز کے اور رجفہ کے معنی زلزلہ ہیں اور ظللہ سائبان کو کہا جاتا ہے۔ اصحاب ایکہ پر عذاب کی یہ صورت ہوئی کہ اول چند روز ان کی پوری بستی میں سخت گرمی پڑی جس سے ساری قوم بلبلا اٹھی۔ پھر ان کے قریب جنگل پر ایک گہرا بادل آیا جس سے اس جنگل میں سایہ ہوگیا اور ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں۔ یہ دیکھ کر سارے بستی کے آدمی اس بادل کے سایہ میں جمع ہوگئے۔ اس طرح یہ خدائی مجرم بغیر کسی وارنٹ اور سپاہی کے اپنے پاؤں چل کر اپنی ہلاکت کی جگہ پہنچ گئے۔ جب سب جمع ہوگئے تو بادل سے آگ برسی اور زمین میں بھی زلزلہ آیا جس سے یہ سب کے سب ہلاک ہوگئے۔ اور بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ اصحاب مدین اور اصحاب ایکہ ایک ہی قوم کا نام ہے اور عذاب کی جو تین قسمیں ابھی ذکر کی گئی ہیں۔ تینوں اس قوم پر جمع ہوگئیں۔ پہلے بادل سے آگ برسی پھر اس کے ساتھ سخت آواز چنگھاڑ کی شکل میں آئی پھر زمین میں زلزلہ آیا، ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ بہر حال یہ دونوں قومیں الگ الگ ہوں یا ایک ہی قوم کے دو نام ہوں۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے جو پیغام حق ان کو دیا وہ پہلی اور دوسری آیات میں مذکور ہے۔ اس پیغام کی تفسیر سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ اسلام جو تمام انبیاء (علیہم السلام) کی مشترک دعوت ہے۔ اس کا خلاصہ ادائے حقوق ہے۔ پھر حقوق دو قسم کے ہیں ایک براہ راست اللہ تعالیٰ کا حق جس کے کرنے یا چھوڑنے سے انسانوں کا کوئی معتدبہ نفع نقصان متعلق نہیں جیسے عبادات نماز روزہ وغیرہ۔ دوسرے حقوق العباد جن کا تعلق انسانوں سے ہے۔ اور یہ قوم ان دونوں حقوق سے بیخبر اور دونوں کے خلاف کام کر رہی تھی۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان نہ لا کر حقوق اللہ کی خلاف ورزی کر رہے تھے اور اس کے ساتھ خریدوفروخت میں ناپ تول گھٹا کر لوگوں کے حقوق کو ضائع کر رہے تھے اور اس پر مزید یہ کہ راستوں اور سڑکوں کے دھانوں پر بیٹھ جاتے اور آنے والوں کو ڈرا دھمکا کر لوٹتے اور شعیب (علیہ السلام) پر ایمان لانے سے روکتے تھے۔ اس طرح روئے زمین پر فساد مچا رکھا تھا۔ یہ ان کے شدید جرائم تھے جن کی اصلاح کے لئے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو بھیجا گیا تھا۔ آیات مذکورہ میں سے پہلی دو آیتوں میں اس قوم کی اصلاح کے لئے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے تین باتیں فرمائیں۔ اول (آیت) يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ ، یعنی اے میری قوم تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی معبود بننے کے لائق نہیں۔ یہ وہی دعوت توحید ہے جو تمام انبیاء (علیہم السلام) دیتے آئے ہیں اور جو تمام عقائد و اعمال کی روح ہے چونکہ یہ قوم بھی مخلوق پرستی میں مبتلا اور اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات اور اس کے حقوق سے غافل تھی اس لئے ان کو بھی سب سے پہلے یہی پیغام دیا گیا۔ اور فرمایا (آیت) ۭقَدْ جَاۗءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ ، یعنی تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل آچکی ہے یہاں واضح دلیل سے مراد وہ معجزات ہیں جو حضرت شعیب (علیہ السلام) کے ہاتھ پر ظاہر ہوئے۔ تفسیر بحر محیط میں مختلف صورتیں ان کے معجزات کی ذکر کی ہیں۔ دوسری بات یہ فرمائی (آیت) فَاَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْـيَاۗءَهُمْ ، اس میں کیل کے معنی ناپ اور میزان بمعنی وزن تولنے کے معنی میں ہے اور بخس کے معنی کسی کے حق میں کمی کرکے نقصان پہنچانے کے ہیں۔ معنی آیت کے یہ ہیں کہ تم ناپ تول پورا کیا کرو اور لوگوں کی چیزوں میں کمی کرکے ان کو نقصان نہ پہنچایا کرو۔ اس میں پہلے تو ایک خاص جرم سے منع فرمایا گیا جو خرید فروخت کے وقت ناپ تول میں کمی کی صورت سے کیا جاتا تھا۔ بعد میں لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْـيَاۗءَهُمْ ، فرما کر ہر طرح کے حقوق میں کتربیونت اور کمی کوتاہی کو عام کردیا۔ خواہ وہ مال سے متعلق ہو یا عزت و آبرو سے یا کسی دوسری چیز سے (بحر محیط) اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح ناپ تول میں حق سے کم دینا حرام ہے اسی طرح دوسرے حقوق انسانی میں کمی کرنا بھی حرام ہے۔ کسی کی عزت و آبرو پر حملہ کرنا، یا کسی کے درجہ اور رتبہ کے موافق اس کا احترام نہ کرنا۔ جس جس کی اطاعت واجب ہے ان کی اطاعت میں کوتاہی کرنا یا جس شخص کی تعظیم و تکریم واجب ہے اس میں کوتاہی برتنا۔ یہ سب امور اسی جرم میں داخل ہیں جو شعیب (علیہ السلام) کی قوم کیا کرتی تھی۔ حجة الوداع کے خطبہ میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کی آبرو کو ان کے خون کے برابر واجب الاحترام اور قابل حفاظت قرار دیا ہے اس کا بھی حاصل یہی ہے۔ قرآن مجید میں جہاں مطففین اور تطفیف کا ذکر آیا ہے اس میں یہ سب چیزیں داخل ہیں۔ حضرت فاروق اعظم (رض) نے ایک شخص کو جلدی جلدی رکوع سجدے کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا قد طففت یعنی تو نے ناپ تول میں کمی کردی (مؤ طا امام مالک) ۔ مراد یہ ہے کہ نماز کا جو حق تھا وہ تو نے پورا نہ کیا۔ اس میں حق نماز پورا ادا نہ کرنے کو تطفیف کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ آخر آیت میں فرمایا وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا، یعنی زمین کی درستی کے بعد اس میں فساد مت پھیلاؤ۔ یہ جملہ اسی سورة اعراف میں پہلے بھی آچکا ہے وہاں اس کے معنی کی تفصیل بیان ہوچکی ہے کہ زمین کی ظاہری اصلاح ہر چیز کو اس کے مصرف پر خرچ کرنے اور حدود کی رعایت کرنے اور عدل و انصاف قائم رکھنے پر موقوف ہے اور باطنی اصلاح، تعلق مع اللہ اور اطاعت احکام الٰہیہ پر اسی طرح زمین کا ظاہری اور باطنی فساد ان اصول کو چھوڑ دینے سے پیدا ہوتا ہے۔ قوم شعیب (علیہ السلام) نے ان تمام اصول کو نظر انداز کر رکھا تھا جس کی وجہ سے زمین پر ظاہری اور باطنی ہر طرح کا فساد برپا تھا۔ اس لئے ان کو یہ نصیحت کی گئی کہ تمہارے یہ اعمال ساری زمین کو خراب کرنے والے ہیں ان سے بچو۔ پھر فرمای آذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤ ْمِنِيْنَ یعنی یہی بات تمہارے لئے نافع ہے اگر تم میری بات مانو۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تم اپنی ان ناجائز حرکتوں سے باز آجاؤ تو اسی میں تمہارے دین و دنیا کی فلاح اور بہبود ہے۔ دین اور آخرت کی فلاح تو ظاہر ہے کہ احکام الٰہیہ کی اطاعت سے وابستہ ہے اور دنیا کی فلاح اس لئے کہ جب لوگوں کو معلوم ہوجائے گا کہ فلاں شخص ناپ تول میں اور دوسرے حقوق میں دیانت داری سے کام کرتا ہے تو بازار میں اس کی ساکھ قائم ہو کر اس کی تجارت کو فروع ہوگا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَتَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ مَنْ اٰمَنَ بِہٖ وَتَبْغُوْنَہَا عِوَجًا۝ ٠ ۚ وَاذْكُرُوْٓا اِذْ كُنْتُمْ قَلِيْلًا فَكَثَّرَكُمْ۝ ٠ ۠ وَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِيْنَ۝ ٨٦ قعد القُعُودُ يقابل به القیام، والْقَعْدَةُ للمرّة، والقِعْدَةُ للحال التي يكون عليها الْقَاعِدُ ، والقُعُودُ قد يكون جمع قاعد . قال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء/ 103] ، الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران/ 191] ، والمَقْعَدُ : مكان القعود، وجمعه : مَقَاعِدُ. قال تعالی: فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] أي في مکان هدوّ ، وقوله : مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران/ 121] كناية عن المعرکة التي بها المستقرّ ، ويعبّر عن المتکاسل في الشیء بِالْقَاعدِ نحو قوله : لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء/ 95] ، ومنه : رجل قُعَدَةٌ وضجعة، وقوله : وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء/ 95] وعن التّرصّد للشیء بالقعود له . نحو قوله : لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف/ 16] ، وقوله : إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة/ 24] يعني متوقّفون . وقوله : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] أي : ملك يترصّده ويكتب له وعليه، ويقال ذلک للواحد والجمع، والقَعِيدُ من الوحش : خلاف النّطيح . وقَعِيدَكَ الله، وقِعْدَكَ الله، أي : أسأل اللہ الذي يلزمک حفظک، والقاعِدَةُ : لمن قعدت عن الحیض والتّزوّج، والقَوَاعِدُ جمعها . قال : وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور/ 60] ، والْمُقْعَدُ : من قَعَدَ عن الدّيون، ولمن يعجز عن النّهوض لزمانة به، وبه شبّه الضّفدع فقیل له : مُقْعَدٌ «1» ، وجمعه : مُقْعَدَاتٌ ، وثدي مُقْعَدٌ للکاعب : ناتئ مصوّر بصورته، والْمُقْعَدُ كناية عن اللئيم الْمُتَقَاعِدِ عن المکارم، وقَوَاعدُ البِنَاءِ : أساسه . قال تعالی: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة/ 127] ، وقَوَاعِدُ الهودج : خشباته الجارية مجری قواعد البناء . ( ق ع د ) القعود یہ قیام ( کھڑا ہونا کی ضد ہے اس سے قعدۃ صیغہ مرۃ ہے یعنی ایک بار بیٹھنا اور قعدۃ ( بکسر ( قاف ) بیٹھنے کی حالت کو کہتے ہیں اور القعود قاعدۃ کی جمع بھی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء/ 103] تو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرو ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران/ 191] جو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ المقعد کے معنی جائے قیام کے ہیں اس کی جمع مقاعد ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55]( یعنی ) پاک مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ یعنی نہایت پر سکون مقام میں ہوں گے اور آیت کریمہ : ۔ مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران/ 121] لڑائی کیلئے مور چوں پر میں لڑائی کے مورچے مراد ہیں جہاں سپاہی جم کر لڑتے ہیں اور کبھی کسی کام میں سستی کرنے والے کو بھی قاعدۃ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء/ 95] جو مسلمان ( گھروں میں ) بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے ۔ اسی سے عجل قدعۃ ضجعۃ کا محاورہ جس کے معنی بہت کاہل اور بیٹھنے رہنے والے آدمی کے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء/ 95] خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے ۔ اور کبھی قعدۃ لہ کے معیا کیس چیز کے لئے گھات لگا کر بیٹھنے اور انتظار کرنے کے بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف/ 16] میں بھی سیدھے رستے پر بیٹھوں گا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة/ 24] ہم یہیں بیٹھے رہینگے یعنی یہاں بیٹھ کر انتظار کرتے رہینگے اور آیت کر یمہ : ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں ۔ میں قعید سے مراد وہ فرشتہ ہے جو ( ہر وقت اعمال کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور انسان کے اچھے برے اعمال میں درج کرتا رہتا ہے یہ واحد وجمع دونوں پر بولا جاتا ہے اسے بھی قعید کہا جاتا ہے اور یہ نطیح کی جد ہے ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے تیری حفاظت کا سوال کرتا ہوں ۔ القاعدۃ وہ عورت جو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے نکاح اور حیض کے وابل نہ رہی ہو اس کی جمع قواعد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور/ 60] اور بڑی عمر کی عورتیں ۔ اور مقعدۃ اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جو ملازمت سے سبکدوش ہوچکا ہو اور اپاہج آدمی جو چل پھر نہ سکے اسے بھی مقعد کہہ دیتے ہیں اسی وجہ سے مجازا مینڈک کو بھی مقعد کہا جاتا ہے اس کی جمع مقعدات ہے اور ابھری ہوئی چھاتی پر بھی ثدی مقعد کا لفظ بولا جاتا ہے اور کنایہ کے طور پر کمینے اور خمیس اطوار آدمی پر بھی مقعدۃ کا طلاق ہوتا ہے قواعد لبنآء عمارت کی بنیادیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة/ 127] اور جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادی اونچی کر رہے تھے قواعد الھودج ( چو کھٹا ) ہودے کی لکڑیاں جو اس کے لئے بمنزلہ بنیاد کے ہوتی ہیں ۔ صرط الصِّرَاطُ : الطّريقُ المستقیمُ. قال تعالی: وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] ، ويقال له : سِرَاطٌ ، وقد تقدّم . سرط السِّرَاطُ : الطّريق المستسهل، أصله من : سَرَطْتُ الطعامَ وزردته : ابتلعته، فقیل : سِرَاطٌ ، تصوّرا أنه يبتلعه سالکه، أو يبتلع سالکه، ألا تری أنه قيل : قتل أرضا عالمها، وقتلت أرض جاهلها، وعلی النّظرین قال أبو تمام : 231- رعته الفیافي بعد ما کان حقبة ... رعاها وماء المزن ينهلّ ساكبه «2» وکذا سمّي الطریق اللّقم، والملتقم، اعتبارا بأنّ سالکه يلتقمه . ( ص ر ط ) الصراط ۔ سیدھی راہ ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّ هذا صِراطِي مُسْتَقِيماً [ الأنعام/ 153] اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے ۔ اسے سراط ( بسین مھملہ ) پڑھا جاتا ہے ملاحظہ ہو ( س ر ط) السراط کے معنی آسان راستہ ، کے آتے ہیں اور اصل میں سرطت الطعام وزاردتہ سے مشتق ہے جس کے معنی طعام کو نگل جانے کے ہیں ۔ اور راستہ کو صراط اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ راہر کو گویا نگل لیتا ہے یار ہرد اس کو نگلتا ہوا چلایا جاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے ۔ قتل ارضا عالھا وقتلت ارض جاھلھا کہ واقف کار رہر و توزمین کو مار ڈالتا ہے لیکن ناواقف کو زمین ہلاک کردیتی ہے ۔ ابو تمام نے کہا ہے ۔ رعتہ الفیما فی بعد ماکان حقبۃ رعاھا اذا ماالمزن ینھل ساکبہ اس کے بعد کو اس نے ایک زمانہ دراز تک سرسبز جنگلوں میں گھاس کھائی اب اس کو جنگلات نے کھالیا یعنی دبلا کردیا ۔ اسی طرح راستہ کو لقم اور ملتقم بھی کہا جاتا ہے اس لحاظ سے کہ گویا ر ہرو اس کو لقمہ بنالیتا ہے۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ صدد الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً [ النساء/ 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] ( ص د د ) الصدود والصد ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ وأمّا الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ( ب غ ی ) البغی الا بتغاء یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ { ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ } ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔ عوج الْعَوْجُ : العطف عن حال الانتصاب، يقال : عُجْتُ البعیر بزمامه، وفلان ما يَعُوجُ عن شيء يهمّ به، أي : ما يرجع، والعَوَجُ يقال فيما يدرک بالبصر سهلا کالخشب المنتصب ونحوه . والعِوَجُ يقال فيما يدرک بالفکر والبصیرة كما يكون في أرض بسیط يعرف تفاوته بالبصیرة والدّين والمعاش، قال تعالی: قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] ، ( ع و ج ) العوج ( ن ) کے معنی کسی چیز کے سیدھا کپڑا ہونے کی حالت سے ایک طرف جھک جانا کے ہیں ۔ جیسے عجت البعیر بزمامہ میں نے اونٹ کو اس کی مہار کے ذریعہ ایک طرف مور دیا فلاں مایعوج عن شئی یھم بہ یعنی فلاں اپنے ارادے سے بار نہیں آتا ۔ العوج اس ٹیڑے پن کر کہتے ہیں جو آنکھ سے بسہولت دیکھا جا سکے جیسے کھڑی چیز میں ہوتا ہے مثلا لکڑی وغیرہ اور العوج اس ٹیڑے پن کو کہتے ہیں جو صرف عقل وبصیرت سے دیکھا جا سکے جیسے صاف میدان کو ناہمواری کو غور فکر کے بغیر اس کا ادراک نہیں ہوسکتا یامعاشرہ میں دینی اور معاشی نا ہمواریاں کہ عقل وبصیرت سے ہی ان کا ادراک ہوسکتا ہے قرآن میں ہے : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28]( یہ ) قرآن عربی رہے ) جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ہے : قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب/ 53] أي : منتظرین، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں فسد الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] ، ( ف س د ) الفساد یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون/ 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٥) اور ہم نے مدین کی طرف ان ہی میں سے نبی بھیجا جن کی تبلیغ یہی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی توحید کے قائل ہوجاؤ اور جس اللہ پر میں تمہیں ایمان لانے کا حکم دیتا ہوں، اس کے علاوہ اور کوئی عبادت کے لائق نہیں میرے رسول اللہ ہونے پر ایک واضح دلیل آچکی ہے۔ ماپ تول کو پورا کرو۔ اور ماپ تول کے ذریعے لوگوں کے حقوق میں کمی نہ کرو اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور غیر اللہ کی پرستش اور ماپ وتول میں عبادت و اطاعت الہی اور ماپ تول کو پورا کرنے کے بعد کمی نہ کرو۔ جن باتوں پر تم قائم ہو توحید اور ماپ تول کو پورا کرنا اس سے بہتر ہے اگر تم میری باتوں کی تصدیق کرتے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٥ (وَاِلٰی مَدْیَنَ اَخَاہُمْ شُعَیْبًا ط) حضرت شعیب (علیہ السلام) کا تعلق اسی قوم سے تھا ‘ اس لیے آپ ( علیہ السلام) کو ان کا بھائی قرار دیا گیا۔ جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تیسری بیوی کا نام ’ قطورا ‘ تھا۔ ان سے آپ ( علیہ السلام) کے کئی بیٹے ہوئے ‘ جن میں سے ایک کا نام مدین تھا جو اپنی اولاد کے ساتھ خلیج عقبہ کے مشرقی ساحل پر آباد ہوگئے تھے۔ یہ علاقہ ان لوگوں کی وجہ سے بعد میں مدین ہی کے نام سے معروف ہوا۔ مدین کا علاقہ بھی اس زمانے کی بین الاقوامی تجارتی شاہراہ پر واقع تھا۔ یہ شاہراہ شمالاً جنوباً فلسطین سے یمن کو جاتی تھی۔ اس لحاظ سے اہل مدین بہت خوشحال لوگ تھے۔ نتیجتاً ان میں بہت سی کاروباری اور تجارتی بد عنوانیاں پیدا ہوگئی تھیں۔ لہٰذا ان کی اصلاح کے لیے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو مبعوث کیا گیا۔ (قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗط قَدْ جَآءَ تْکُمْ بَیِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ (فَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیْزَانَ وَلاَ تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَ ہُمْ وَلاَ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلاَحِہَاط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ) اہل مدین چونکہ کاروباری لوگ تھے لہٰذا ان کے ہاں جو خاص خرابی اجتماعی طور پر پیدا ہوگئی تھی وہ ماپ تول میں کمی کی عادت تھی۔ یہاں یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے قبل زمانہ کی جن تین اقوام کا ذکر قرآن میں آیا ہے ‘ یعنی قوم نوح ‘ قوم ہود اور قوم صالح ان میں سوائے شرک کے اور کسی خرابی کی تفصیل نہیں ملتی۔ یعنی اس زمانے تک انسانی تمدن اتنا سادہ تھا کہ ابھی اعمال کی خرابیاں اور گندگیاں رائج نہیں ہوئی تھیں۔ تب تک انسان فطرت کے زیادہ قریب تھا ‘ اس لیے وہ پیچیدگیاں جو تمدن کے پھیلنے کے ساتھ بڑھتی ہیں اور وہ بدعنوانیاں جو اس پیچیدہ زندگی کی وجہ سے پھیلتی ہیں وہ ابھی ان اقوام کے افراد میں پیدا نہیں ہوئی تھیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جنسی برائیاں سب سے پہلے قوم لوط میں اور مالی بدعنوانیاں سب سے پہلے اہل مدین میں پیدا ہوئیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

69. The territory of Madyan (Midian) lay to the north-west of Hijaz and south of Palestine on the coast of the Red Sea and the Gulf of Aqaba, and part of the territory stretched to the northern border of the Sinai Peninsula. The Midianites and their towns were situated at the crossroads of the trade routes from Yemen through Makka and Yanbu' to Syria along the Red Sea coast, and from Iraq to Egypt. Midian was, therefore, quite well known to the Arabs. In fact it persisted in their memory long after its destruction for the Arab trade caravans en route to Syria and Egypt passed through territories which were full of the ruins of their monuments. Another point worth noting about the people of Midian is that they were reckoned to be descendants of Midyan, a son of the Prophet Abraharn born of his third wife, Qatura. According to a custom of the time, persons who attached themselves to a notable family were gradually counted as members of that family, as the descendants of that family's ancestor. It is for this reason that a large majority of Arabs were called the descendants of Ismai'l. Likewise those who embraced faith at the hands of Ya'qab's sons bore the general name 'the People of Israel'. Now, since the inhabitants of Midian owed allegiance to Midyan, son of Abraham, they were referred to as the descendants of Midyan and their territory was called Midian. In view of this it should not be thought that the Prophet Shu'ayb invited them, for the first time, to follow Divine Guidance. At the time of the advent of Shu'ayb their state was no different from that of the Israelites at the time of the advent of Moses. They too were originally a Muslim people who had subsequently moved far away from Islam. For six to seven centuries they lived amongst a people who were steeped in polytheism and moral corruption, and this led to their contamination with polytheism and moral corruption. Despite their deviation and corruption, however, they claimed to be the followers of the true faith, and were proud of their religious identification. 70. This shows that the people of Midian suffered from two major ailments - polytheism and dishonesty in business. Shu'ayb devoted his efforts to purging them of those evils. 71. The import of this statement has been explained earlier in notes 44-5 above. In his exhortations to his people, Shu'ayb emphasized that they should not allow the order of life, established by the previous Prophets on the foundations of true faith and sound morals, to be corrupted by false beliefs and moral depravity. 72. This clearly shows that the people concerned claimed to be believers, as we have already pointed out. In fact, they were originally Muslims who had drifted away from Islam, who had become enmeshed in a range of evils. They not only professed to be believers, but took great pride in being so. (See n. 69 above - Ed. ) Shu'ayb made this fact the starting-point of his preaching. He told them that if they indeed were believers they should live up to that fact; they should consider their salvation to lie in practising goodness and virtue, honesty and integrity; and they should distinguish between good and evil on the basis of the standards followed by righteous people rather than of those who believed neither in God nor in the Hereafter.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :69 مدین کا اصل علاقہ حجاز کے شمال مغرب اور فلسطین کے جنوب میں بحر احمر اور خلیج عقبہ کے کنارے پر واقع تھا مگر جزیرہ نمائے سینا کے مشرقی ساحل پر بھی اس کا کچھ سلسلہ پھیلا ہوا تھا ۔ یہ ایک بڑی تجارت پیشہ قوم تھی ۔ قدیم زمانہ میں جو تجارتی شاہراہ بحِر احمر کے کنارے یمن سے مکہ اور یَنبوع ہوتی ہوئی شام تک جاتی تھی ، اور ایک دوسری تجارتی شاہراہ جو عراق سے مصر کی طرف جاتی تھی ، اس کے عین چوراہے پر اس قوم کی بستیاں واقع تھیں ۔ اسی بناء پر عرب کا بچہ بچہ مدین سے واقف تھا اور اس کے مٹ جانے کے بعد بھی عرب میں اس کی شہرت برقرار رہی ۔ کیونکہ عربوں کے تجارتی قافلے مصر اور شام کی طرف جاتے ہوئے رات دن اس کے آثارِ قدیمہ کے درمیان سے گزرتے تھے ۔ اہل مَد یَن کے متعلق ایک اور ضروری بات ، جس کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے ، یہ ہے کہ یہ لوگ دراصل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صاحبزادے مِدیان کی طرف منسوب ہیں جو ان کی تیسری بیوی قَطُوراء کے بطن سے تھے ۔ قدیم زمانہ کے قاعدے کے مطابق جو لوگ کسی بڑے آدمی کے ساتھ وابستہ ہو جاتے تھے وہ رفتہ رفتہ اسی کی آل اولاد میں شمار ہو کر بنی فلاں کہلانے لگتے تھے ، اسی قاعدے پر عرب کی آبادی کا بڑا حِصہ بنی اسماعیل کہلایا ۔ اور اولاد یعقوب کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہونے والے لوگ سب کے سب بنی اسرائیل کے جامع نام کے تحت کھپ گئے ۔ اسی طرح مدین کے علاقے کی ساری آبادی بھی جو مدیان بن ابراہیم علیہ السلام کے زیر اثر آئی ، بنی مدیان کہلائی اور ان کے ملک کا نام ہی مَدیَن یا مَدیان مشہور ہوگیا ۔ ۔ اس تاریخی حقیقت کو جان لینے کےبعد یہ گمان کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی کہ اس قوم کو دین حق کی آواز پہلی مرتبہ حضرت شعیب کے ذریعہ سے پہنچی تھی ۔ درحقیقت بنی اسرائیل کی طرح ابتداء وہ بھی مسلمان ہی تھے اور شعیب علیہ السلام کے ظہور کے وقت ان کی حالت ایک بگڑی ہوئی مسلمان قوم کی سی تھی جیسی ظہور موسی علیہ السلام کے وقت بنی اسرائیل کی حالت تھی ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد چھ سات سو برس تک مشرک اور بداخلاق قوموں کے درمیان رہتے رہتے یہ لوگ شرک بھی سیکھ گئے تھے اور بداخلاقیوں میں بھی مبتلا ہوگئے تھے ، مگر اس کے باوجود ایمان کا دعویٰ اور اس پر فخر برقرار تھا ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :70 اس سے معلوم ہوا کہ اس قوم میں دو بڑی خرابیاں پائی جاتی تھی ۔ ایک شرک ، دوسرے تجارتی معاملات میں بددیانتی ۔ اور انہی دونوں چیزوں کی اصلاح کے لیے حضرت شعیب مبعوث ہوئے تھے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :71 اس فقرے کی جامع تشریح اس سورة اعراف کے حواشی ٤٤ ، ٤۵ میں گزر چکی ہے ۔ یہاں خصوصیت کے ساتھ حضرت شعیب کے اس قول کا ارشاد اس طرح ہے کہ دین حق اور اخلاق صالحہ پر زندگی کا جو نظام انبیائے سابقین کی ہدایت و رہنمائی قائم ہو چکا تھا ، اب تم اسے اپنی اعتقادی گمراہیوں اور اخلاقی بدراہیوں سے خراب نہ کرو ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :72 اس فقرے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ خود مدعی ایمان تھے ۔ جیسا کہ اوپر ہم اشارہ کر چکے ہیں ، یہ دراصل بگڑے ہوئے مسلمان تھے اور اعتقادی و اخلاقی فساد میں مبتلا ہونے کے باوجود ان کے اندر نہ صرف ایمان کا دعویٰ باقی تھا بلکہ اس پر انہیں فخر بھی تھا ۔ اسی لیے حضرت شعیب نے فرمایا کہ اگر تم مومن ہو تو تمہارے نزدیک خیر اور بھلائی راستبازی اور دیانت میں ہونی چاہیے اور تمہارے معیارِ خیر و شر ان دنیا پرستوں سے مختلف ہونا چاہیے جو خدا اور آخرت کو نہیں مانتے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

41: مدین ایک قبیلے کا نام ہے اور اسی کے نام پر ایک بستی بھی ہے جس میں حضرت شعیب علیہ السلام کو پیغمبر بناکر بھیجا گیا تھا، ان کا زمانہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کچھ پہلے کا ہے اور بعض روایات میں ہے کہ وہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خسر تھے، یہ ایک سرسبز وشاداب علاقہ تھا اور یہاں کے لوگ خاصے خوش حال تھے۔ رفتہ رفتہ ان میں کفر وشرک کے علاوہ بہت سی بد عنوانیاں رواج پاگئیں۔ ان کے بہت سے لوگ ناپ تول میں دھوکا دیتے تھے۔ بہت سے زور آور لوگوں نے راستوں پر چوکیاں بنارکھی تھیں، جو گزرنے والوں سے زبردستی کا ٹیکس وصول کرتے تھے، کچھ لوگ ڈاکے بھی ڈالتے تھے۔ نیز جو لوگ حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس جاتے نظر آتے، انہیں روکتے اور تنگ کرتے تھے۔ ان کی بد عنوانیوں کا ذکر اگلی دو آیتوں میں آرہا ہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی قوم کے لئے پیغمبر بناکر بھیجا۔ انہوں نے مختلف طریقوں سے اپنی قوم کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی۔ اﷲ تعالیٰ نے تقریر اور خطابت کا خاص ملکہ عطا فرمایا تھا، اسی لئے وہ ’’خطیب الانبیاء‘‘ کے لقب سے مشہور ہیں۔ لیکن ان کی موثر تقریروں کا قوم نے کچھ اثر نہ لیا۔ اور آخر کار وہ اﷲ تعالیٰ کے عذاب کا نشانہ بنی۔ حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کی قوم کے واقعات سب سے زیادہ تفصیل سے سورۂ ہود (۱۱: ۸۴ تا ۹۵) میں آئے ہیں اور اس کے علاوہ کچھ تفصیل سورۂ شعراء (۲۶:۱۷۷) اور سورۂ عنکبوت (۲۹:۳۶) میں آئی ہے، اور سورۂ حجر (۷۸:۵۱) میں مختصر حوالہ آیا ہے۔ 42: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم ناپ تول میں کمی کے علاوہ دوسرے طریقوں سے بھی لوگوں کی حق تلفی کیا کرتی تھی۔ اس آیت میں لفظ ’’بخس‘‘ استعمال کیا گیا ہے، جس کے لفظی معنیٰ کمی کرنے کے ہیں، اور یہ لفظ خاص طور پر کسی کا حق مارلینے کے معنیٰ میں کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ اور قرآنِ کریم میں یہ فقرہ تین جگہ بڑی تاکید کے ساتھ آیا ہے، اور اس میں دوسروں کی ملکیت کے احترام پر زور دیا گیا ہے۔ اس احترام میں یہ بات بھی داخل ہے کہ کسی کے مال یا جائیداد پر اس کی مرضی کے بغیر قبضہ کرلیا جائے، اور یہ بھی کہ کسی کی کوئی بھی چیز اس کی خوش دلی کے بغیر استعمال کی جائے۔ 43: اس کی تشریح کیلئے دیکھئے پیچھے آیت نمبر 56 کا حاشیہ۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(85 ۔ 93) ۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی امت میں مفسروں کا اختلاف ہے بعضے کہتے ہیں کہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) کی روایتوں میں اور سوا حضرت شعیب ( علیہ السلام) کے اور کوئی نبی دو امتوں کی ہدایت کے لئے نہیں بھیجا گیا ایک امت ان کی یہ قبیلہ ہے جس کا نام مدین ہے اور حضرت شعیب ( علیہ السلام) بھی اسی قبیلہ میں کے ہی اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب ( علیہ السلام) کو اس قبیلہ کا بھائی فرمایا ہے اور دوسری امت بن کے رہنے والے لوگ ہیں جن سورة شعراء میں اصحاب الایکہ فرمایا ہے اور بعضے مفسر کنویں والے لوگوں کو بھی جن کو سورة فرقان اور سورة قاف میں اصحاب الرس فرمایا ہے ان کی ہی امت میں شمار کر کے یوں کہتے ہیں کہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) تین امتوں کی ہدایت کے لئے بھیجے گئے ہیں لیکن حافظ عماد الدین ابن کثیر نے ان سب روایتوں کو ضعیف قرار دیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ کنویں والے جن کو اصحاب رس فرمایا ہے تو جدا ایک امت ہے جن کا ذکر سورة فرقان میں آوے گا ہاں اصحاب ہلین اور اصحاب الایکۃ ایک ہی امت کے لوگ میں جن میں کم تولنے اور کم ناپنے کا رواج تھا اور اسی ایک امت کی ہدایت کے لئے حضرت شعیب ( علیہ السلام) بھیجے گئے ہیں یہ لوگ پیڑوں کی بھی پوجا کیا کرتے تھے اس واسطے ان کو اصحاب الایکہ یعنے پیڑوں والے کہہ کر جو سورة شعراء میں بتا دیا ہے وہاں حضرت شعیب ( علیہ السلام) کو ان کا بھائی اس لئے نہیں فرمایا کہ کہیں یہ وہم نہ پڑجاوے کہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) بھی پیڑوں کی پوجا میں شریک تھے۔ اکثر مفسروں کا قول یہی ہے کہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) نے بڑی عمر پائی ہے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے وقت تک زندہ تھے۔ اور ایک شخص قبطی کو مار کر مصر سے مدین کو جب حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) گئے تو ان کی ملاقات حضرت شعیب ( علیہ السلام) سے ہوئی اور وہ دو بہنیں جن کا قصہ سورة قصص میں آویگا ان ہی حضرت شعیب ( علیہ السلام) کی بیٹیاں تھیں جن میں سے ایک کا نکاح حضرت موسیٰ سے ہوا حضرت شعیب ( علیہ السلام) نابینا تھے اور بڑے فصیح تھے اس واسطے ان کو خطیب الانبیاء کہتے ہیں قرآن شریف میں حضرت شعیب ( علیہ السلام) کی امت کے عذاب کا تین جگہ ذکر ہے ایک یہاں سورة اعراف میں زلزلہ کا ذکر ہے ایک سورة ہود میں چنگھاڑ آسمانی کا ذکر ہے اور ایک سورة شعراء میں عذاب کے بادل کا ذکر ہے جس میں سے آگ برسی تھی یہ تینوں عذاب ایک ساتھ اس طرح آئے کہ وہ لوگ اپنے گھروں میں تھے تو زلزلہ آیا جب گھروں سے باہر نکلے تو سخت گرمی معلوم ہوئی اور بادل کی صورت کا ایک ٹکڑا سایہ کا نظر آیا پہلے ایک شخص ان میں سے اس سایہ میں گیا آ کر اس نے سایہ کی ٹھنڈک کی تعریف کی اس کی تعریف سن کر سب لوگ اس چھاؤں میں چلے گئے اتنے میں آسمان سے ایک سخت چیز کی آواز آئی اور پھر اسی بادل سے آگ برسی جس سے سب لوگ ایک دم میں ہلاک ہوگئے یہ تین قسم کا ایک ہی امت کا عذاب ہے ‘ بعضے مفسروں نے ہر ایک قسم کے عذاب کو ایک جدی امت کا عذاب خیال کر کے یہ کہا ہے کہ حضرت شعیب ( علیہ السلام) کئی امتوں کی ہدایت کے لئے بھیجے گئے تھے حقیقت میں یہ ایک ہی امت کا عذاب تین ٹکڑوں کا ہے اور اس امت کے ہر ایک ٹکڑے کے ساتھ عذاب کے ایک ٹکڑے کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:85) اخاہم۔ ان کا بھائی۔ اس سے قبل ارسلنا محذوف ہے۔ اوفوا۔ تم پور اکرو۔ ایفاء (افعال) سے امر کا صیغہ جمع مذکر حضر۔ لفیف مفروق وفی یفی ایفاء پورا کرنا۔ اوفی یوفی ایفاء (افعال) پورا کرنا۔ اوفی بالوعد۔ وعدہ پورا کیا۔ اوفی الکیل۔ پیمانہ پورا ناپنا۔ اوفوا الکیل پیمانہ پورا ناپو۔ الکیل۔ غلہ سے پیمانہ بھرنا۔ پیمانہ سے غلہ ناپنا۔ المیزان۔ وزن سے وزن کرنا۔ ای اوفوا المیزان۔ وزن کو پورا کرو۔ یعنی پورا پورا تولو۔ لا تبخسوا۔ تم گھٹا کر نہ دو ۔ بخس سے جس کے معنی ظلم سے کسی چیز کے گھٹانے اور کم کرنے کے ہیں۔ فعل نہی جمع مذکر حاضر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 مدین کا علاقہ حجاز کے شمال مغرب اور فسلطین کے جنوب میں بحراحمر اور خلیج عقبہ کے کنارے پر واقع تھا اور ا آج بھی اس علاقہ میں جگہ اسی نام سے مشہور ہے امام نو دی نے حضرت شعیب ( علیہ السلام) کا نسب یوں بیان کیا ہے شعیب بن مکائیل بن یشجر بن مدین ابراہیم ( علیہ السلام) واللہ اعلم ( المنار) حضرت شعیب کو اہل مدین کا بھائی اس لیے کہا گیا ہے کہ شاید وہ بھی سب حضرت ارابراہیم کے بیٹے مدین ہی کی نسل سے ہوں گے۔ ( رازی) حضرت شعیب اہل مدین اور اصحاب ایکہ کی طرفف مبعوث ہوئے ہوسکتا ہے کہ یہ ایک ہی قوم ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دو قومیں ہوں۔ ( ابن کثیر۔ ابو الفدار) اور کمال فصاحت کی وجہ سے حضرت شعیب علی السلام خطیب الا نبیا کے لقب سے مشہور ہیں ( ابن کثیر)5 یعنی میری صداقت پر دلائل مو جو ہیں لہذا ضروی ہے کہ جو بات میں کہتا ہوں اس صحیح سمجھو ( ابن کثیر) امام رازی لکھتے ہیں یہاں بینتہ کے معنی معجزہ کے ہیں مگر یہ معجزہ کیا تھا قرآن مجید میں اس کا ذکر نہیں ہے ہے اور قرآن نے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بہت سے معجزات بیان نہیں فرمائے علامہ زمخشری لکھتے ہیں کہ مو دی ( علیہ السلام) کے پاس جو عصا لاٹھی) تھا وہ شعیب ( علیہ السلام) ہی نے ان کو عطا کیا تھا یہ دراصل شعیب (رض) کا معجزہ تھا ( ک، ف) مگر اس کرید کی ضرورت نہیں ہے اجمالی طور پر حضرت شعیب کے معجزہ پر ایمان لانا کافی ہے۔ ( 6 اس سے معلوم ہوا کہ اس قوم میں دو بڑی خرابیاں تھیں ایک شرک اور دوسرے کاروبار میں بددیانتی اور حق تلفی شرک سے اللہ تعالیٰ کے حقوق تلف ہوتے ہیں اور کار وبار میں بدیانتی تمام سماجی اور معاشرتی برائیوں کی جڑ ہے اس کے ہوتے ہوئے کوئی قوم راہ راست پر نہیں آسکتی یعنی دو قسم کی خرابیاں فساد فی الارض بنتی ہیں گو یا تم زمین میں امن واصلاح کی بجائے فساد پھیلا رہے ہیں یعنی طرح طرح کے اعتر اضات اور اشبہات پیدا کر کے اسے غلط ثابت کرنا چاہتے ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 11 ۔ آیات 85 تا 87 ۔ اسرار ومعارف : پھر اہل مدین آباد ہوئے یہ قوم بڑھی مفسرین کے مطابق مدین بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے تھے ان کی اولاد بھی اور آبادی بھی مدین ہی کہلائی یہ خوب پھولے پھلے تو نفس نے انہیں دولت جمع کرنے کے لالچ میں مبتلا کردیا چناچہ انہوں نے ناپ تول میں کمی اور لوٹ کھسوٹ کو وطیرہ بنا لیا راستوں پر لوگوں کو لوٹ لیتے یا ناجائز ٹیکس لگا کر دولت بڑھانے کی فکر میں رہتے رحمت باری نے ان کی دستگیری فرمائی اور حضرت شعیب (علیہ السلام) کو مبعوث فرما دیا ان کی بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) سے رشتہ داری تھی اور مدین والوں کے نسبی بھائی تھے چناچہ انہوں نے عبادت الہی کی طرف دعوت دی کہ اپنی امیدوں کو اسی ذات واحد سے وابستہ کرو اس لی کہ حق یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی بھی عبادت کا مستحق نہیں چونکہ وہی تمہارا رب بھی ہے۔ دوسروں کا حق مارنا حرام ہے : لہذا اس نے میری نبوت کو تمہارے لیے واضح دلیل بنا دیا ہے کہ جو بھی سیدھا راستہ اپنانا چاہے اس کی راہنمائی کے لیے اللہ کا نبی موجود ہے لہذا ناپ تول میں کمی کرنا چھوڑ دو اور لوگوں کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی نہ کرو مفسرین کے مطابق کسی بھی طرح حق مارنا درست نہیں مال میں ہو یا عزت و ناموس میں یا درجہ کے مطابق احترام نہ کرنا یا جس کی اطاعت واجب ہو اس کی اطاعت نہ کرنا یہ سب باتیں حرام ہیں حتی کہ رکوع و سجود میں جلدی کرتے ہوئے شخص کو دیکھ کر فاروق اعظم نے فرمایا قد طففت یعنی تو نے نماز کا حق مارا ہے۔ اور زمین پر فساد پھیلانے کا باعث نہ بنو جبکہ اللہ کریم نے اس میں ہر طرح کے سامان راحت کو جمع فرما دیا ہے یعنی ظاہر میں بھی عدل کو چھوڑنے سے بگاڑ ہی پیدا ہوتا ہے اور تعلق مع اللہ نہ رہے تو باطنی تباہی آتی ہے لہذا میری دعوت پر ایمان لاؤ کہ یہی بہترین راستہ ہے اور اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔ ناروا ٹیکس لگانا درست نہیں : محض دولت سمیٹنے کے لیے راستوں پر ناجائز ٹیکس لگانا چھوڑ دو اور لوٹ مار سے بھی باز آؤ نیز لوگوں کو ایمان قبول کرنے سے مت روکو کہ گناہ اور کفر کی مصیبت یہ بھی ہے کہ وہ دوسروں کو بھی ایمان لاتا ہوا دیکھ کر برداشت نہیں کرتا اگر دل میں کچھ صلاحیت باقی ہو تو برائی پہ ندامت ہوتی ہے لیکن جب حالت بہت بگڑ جائے تو پھر سب لوگوں کو اپنے جیسا دیکھنے کی تمنا کرتا ہے۔ کثرت مال و اولاد اور حکومت اللہ کی نعمت ہے : فرمایا وہ وقت یاد کرو جب تم کسی گنتی شمار میں نہ تھے نہ افرادی قوت کے اعتبار سے نہ مالی اور سیاسی وسائل کے اعتبار سے پھر اللہ نے تمہیں ترقی دی مال و منال میں بھی بڑھ گئے اولادیں بڑھیں اور حکومت و سطوت بھی بنی ان سب نعمتوں پر اللہ شکر ادا کرو یاد رکھو یہ سب چیزیں اللہ کی نعمت ہیں اگر شکر ادا کرتے رہو ورنہ یہی چیزیں تمہاری تباہی کا سبب بن جائیں گی دیکھ لو تم سے پہلے قوم نوح ، عاد ، ثمود اور قوم لوط کا کیا انجام ہوا اور کیسے کیسے دردناک عذاب ان پر وارد ہوئے۔ کچھ خوش نصیب ایمان کی دولت سے بہرہ ور ہوئے مگر باقی لوگ مبتلائے کفر ہی رہے اور اپنے جرائم پہ کاربند رہے ساتھ انہیں یہ خیال بھی تھا کہ ایمان لانے والوں نے کیا پایا الٹا دولت سمیٹنے میں ہم سے پیچھے ہی رہ گئے اور ہم عیش کرتے ہیں تو حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ جلد بازی نہ کرو اللہ کریم مہلت ضرور دیتے ہیں مگر ظلم کا انجام بہرحال بہت بڑا ہوتا ہے اور دیکھو اللہ کریم ہی ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کردیں گے وہی بہترین فیصلہ کرنے والے ہیں۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر (85 تا 87 ) ۔ ارفوا (پورا کرو) ۔ الکیل (ماپ) ۔ المیزان (تول) ۔ لا تبخسوا (نہ گھٹاؤ) ۔ لا تقعدوا (تم نہ بیٹھو ) ۔ صراط (راستہ ) ۔ توعدون (تم ڈراتے ہو ) ۔ تصدون (تم روکتے ہو ) ۔ تبغون (تم تلاش کرتے ہو ) ۔ عوج (کجی۔ ٹیڑ ھاپن) ۔ کثر (اس نے بہت کردیا ) ۔ طائفتہ (جماعت۔ گروہ) ۔ ارسلت ( بھیجی گئی) ۔ حتی یحکم اللہ (یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کردے گا ) ۔ تشریح : آیت نمبر (85 تا 87) ۔ ” گاہک کو نقصان پہنچانے کے نہ جانے کتنے طریقے ان دنوں رائج تھے اور آج بھی رائج ہیں ڈندی مارنا، نمونہ کچھ مال کچھ بلیک ماکٹنگ، ذخیرہ اندوزی، لازمی اشیا کا بازار سے غائب کر ادینا۔ کارنر کرنا سینڈی کیٹ بنانا ملاوٹ کرنا جھوٹے اشتہارات دینا لازمی اشیاء کی اجارہ داری حرام مال بیچنا، سود کھانا، غلط وعدے کرنا خیانت کرنا اسمگلنگ چوری کا مال بیچنا دھمکی دھونس وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ ۔ شریعت اسلامیہ نے ترغیب اور احکام میں دونوں تجارتی بےایمانیوں اور بد اعمالیوں کی روک تھام کی ہے خواہ ان کا تعلق نجی اداروں سے ہو یا سرکاری سر پرستی میں چلنے والے اداروں سے ہو۔ تجارت معاشی خوش حالی کا واحد ذریعہ ہے پیداوار اور اشیاء کا تبادلہ براہ راست یا بذریعہ مال، اپنی زیادہ چیزیں دے کر اپنی کمی باہمی رضا مندی سے پوری کرنا یہ تجارت کے اصول ہیں۔ جس معاشرہ میں لین دین میں بد دیانتی کا رواج ہوجائے وہاں سے خیر و برکت اٹھا لی جاتی ہے اللہ کی رحمتیں رک جاتی ہیں اور وہ قوم روز بروز خسارہ اور نقصان کی طرف رواں دواں ہوجاتی ہے۔ قوم شعیب (علیہ السلام) بھی وہ قوم تھی جو تجارت میں اپنا جواب نہیں رکھتی تھی مگر انہوں نے بد دیانتی کے ہزاروں طریقوں کو رواج دے کر معاشرہ کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا تھا اس تجارتی بد دیانتی کے ساتھ کفر و شرک میں بھی وہ کسی قوم سے پیچھے نہ تھے۔ اس قوم کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کا بھیجا۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) جس قوم کی طرف مبعوث کے گئے تھے اس کا نام قرآن کریم میں کہیں اصحاب مدین، آیا ہے کہیں اصحاب ایکہ۔۔۔۔ ۔۔ بعض مفسرین نے ان دونوں کو الگ الگ قومیں قرار دیا ہے۔ کیونکہ اصحاب مدین پر جو عذاب آیا ہے اس کو قرآن نے صیحہ اور رجفہ (چنگھاڑ۔ زلزلہ) کہا ہے۔ اور اصحاب ایکہ پر جو عذاب آیا ہے اس کو ظلہ (سائبان۔ یا آسمان سے بارش) کہا ہے لیکن بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ ایک ہی قوم کے دونام ہیں اور ان پر تینوں عذاب آئے۔ مدین آج بھی شرق اردن میں بندر گاہ عمان کے قریب ایک شہر کا نام ہے اور مدین ہی میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کا مزار مبارک بھی ہے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی دعوت کا خلاصہ یہ تھا کہ لوگو ! صرف اللہ کو ایک مانو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اس کے احکام اور تعلیم پر چلو۔ آپ کی تعلیمات میں سب سے زیادہ زور تجارتی ایمانداری پر ہے اور ہر بےایمانی کے طریقوں پر آپ نے سخت گرفت کی ہے۔۔۔۔ ۔۔ ایمان اور ایمان داری وہ الفاظ ہیں جن کا ٹھیک ٹھیک متبادل آج تک کسی دوسری زبان میں نہیں ہے۔ ان کا تعلق براہ راست ذات الہٰی اور صفات الہٰی سے ہے، خوف الہٰی اور انعام الہٰی سے ہے۔ جو شخص ایمان نہیں رکھتا وہ صرف تجارت میں نہیں بلکہ ہر جگہ فریق ثانی کے حقوق غصب کرتا ہوا نکل جائے گا اور دوسرے کی گردن پر پاؤں رکھ کر گذرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرے گا۔۔۔۔ ۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) ان کو ہر طرح کی بد دیانتی اور ظلم و جبر پر ٹوکتے تھے مگر وہ اس حق و صداقت کی آواز کو برداشت نہیں کرتے تھے اس لئے وہ چھپ چھپ کر اہل ایمان کو بہکاتے تھے۔ انہیں اللہ کے راستے سے روکتے تھے اپنی طرف سے گھڑ گھڑ کر اسلام میں عیب بکالتے تھے۔ زمین میں ہر طرح کا فتنہ و فساد پھیلانا کفرو شرک کا مزاج اور پہچان ہے اور وہ اس سب سے آگے تھے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ان کو لاکھ سمجھایا (عاد وثمود وغیرہ) کے تاریخی واقعات سے عبرت دلائی۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد دلائے کہ تم کیا تھے اور کیا بن گئے مگر انہیں ماننا نہیں تھا وہ نہ مانے۔ آخر حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اب تم عذاب الہٰی کا انتظار کرو جو تمہاری طرف بڑھا چلا آرہا ہے۔ اور وہ آکر رہا جس کا ذکر آگے کی آیات میں ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ قرآن میں شعیب (علیہ السلام) کا اہل مدین اور اصحاب ایکہ کی طرف مبعوث ہونا اور اہل مدین پر کہیں صیحہ اور کہیں رجفہ کا عذاب اور اصحاب ایکہ پر ظلہ کا عذاب ہونا مذکور ہے بعض نے تو دونوں قوموں کو ایک ہی کہا ہے اور بعض نے تو دونوں قوموں کو ایک ہی کہا ہے اور بعض نے الگ الگ کہا ہے کہ ایک قوم یعنی اہل مدین کے ہلاک کے بعد دوسروں کی یعنی اصحاب ایکہ کی طرف جو مدین کے قریب رہتے تھے اور اس قرب کی وجہ سے ان میں بھی کم تولنے ناپنے کا مرض تھا مبعوث ہوئے اور اکثر کا قول یہی ہے اور انواع عذاب میں دو کا یا تینوں کا جمع ہوجانا کچھ مستبعد نہیں اور بعد ہلاک ان کفار کے آپ مکہ میں آرہے تھے اور وہاں ہی وفات پائی اور مدین اصل میں ابراہیم (علیہ السلام) کے ایک فرزند کا نام تھا پھر قبیلہ اور شہر پر اطلاق ہونے لگا جو ان کی اولاد تھے یا اس اولاد کا مسکن تھا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن حضرت شعیب (علیہ السلام) : حضرت شعیب (علیہ السلام) کو مؤرخین اور سیرت نگاروں نے خطیب الانبیاء کے نام سے یاد کیا ہے۔ آپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے ” مدیان “ کی اولاد سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس کی بنا پر ان کو قوم مدین کہا جاتا ہے۔ اس قوم کا سب سے بڑا شہر ان کے قومی نام مدین سے ہی معروف تھا۔ اس لیے قرآن مجید نے انھیں اہل مدین کے نام سے پکارا ہے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کو ان کی قوم میں ہی رسول مبعوث کیا گیا تاکہ آپ اپنی قوم کو راہ راست پر لانے کی جدوجہد فرمائیں۔ اہل مدین کو قرآن میں اصحاب الایکہ بھی کہا گیا ہے۔ (الشعراء : ١٧٦) اہل مدین کا عقیدہ اور گھناؤنا کردار : ١۔ اہل مدین بھی اپنے پیش رو اقوام کی طرح شرک جیسے غلیظ اور بد ترین عقیدہ میں مبتلا تھی۔ شرک وہ بیماری ہے جسے امّ الامراض کہنا چاہیے۔ قوم مدین کے اندر وہ تمام اخلاقی اور اعتقادی بیمار یوں نے جنم لیا۔ جن میں قوم نوح سے لے کر قوم لوط کے لوگ ملوث چلے آرہے تھے۔ اس امّ الامراض کی جڑ کاٹنے کے لیے حضرت شعیب (علیہ السلام) اپنی دعوت کا آغاز دعوت توحید سے کرتے ہیں۔ (الاعراف، آیت : ٨٥) ٢۔ قوم مدین نہ صرف عقیدہ کی خیانت میں مرتکب ہوئی بلکہ گاہک سے پوری قیمت وصول کرنے کے باوجود ماپ تول میں کمی بیشی کرتے تھے۔ ادائیگی کے وقت چیز مقررہ وزن اور پیمائش سے کم دیتے۔ دوسروں سے لیتے تو طے شدہ وزن سے زیادہ لینے کی مجرمانہ کوشش کرتے۔ (الاعراف، آیت : ٨٥) ٣۔ یہ لوگ پیشہ ور ڈاکو تھے ان کے علاقے سے گزرنے والے مسافروں کی عزت و آبرو اور مال و جان محفوظ نہیں تھے۔ (الاعراف : ٨٦، ھود : ٨٥) ٤۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی زبردست مخالفت اور نافرمانی کرنے والے تھے۔ (ھود : ٨٩) حضرت شعیب (علیہ السلام) کی نصیحتیں : ١۔ اے میری قوم ایک اللہ کی عبادت کرو، ماپ تول میں کمی ڈاکہ زنی اور فساد فی الارض سے توبہ کرو۔ اگر میری بات مان جاؤ تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ جب تم ہر لحاظ سے تھوڑے اور کم تر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کثرت سے نوازا۔ (الاعراف، آیت : ٨٦، ٨٥) اے میری قوم اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ اور میری بات مانو میں نہایت ایمانداری کے ساتھ تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا رہا ہوں اور اس پر میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا۔ میرا اجر میرے رب کے ذمہ ہے۔ (الشعراء، آیت : ١٧٦ تا ١٨٠) قوم کا حضرت شعیب (علیہ السلام) کو جواب : اے شعیب کیا تیری نمازیں تجھے یہی کہتی ہیں کہ ہم اپنے باپ دادا کے طریقۂ عبادت کو چھوڑ دیں اور اپنے کاروبار کو اپنے طریقہ کے مطابق نہ کریں ؟ ھود، آیت : ٨٧۔ تم پر اے شعیب ( علیہ السلام) کسی نے جادو کردیا ہے۔ (الشعراء : ١٨٥) حضرت شعیب (علیہ السلام) کی مزید نصیحت : اے میری قوم میں اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے وافر رزق عطا فرمایا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ میں وہی کچھ کروں جس سے تمہیں منع کرتا ہوں۔ میں اللہ کی توفیق سے صرف اصلاح کی غرض سے یہ بات کہتا ہوں۔ میرا اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہے اور میں ہر حال میں اس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ (ھود : ٨٨) قوم کا جواب : اے شعیب ! تیری اکثر باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور ہم تمہیں اپنے آپ میں کمزور دیکھتے ہیں، اگر تیری برادری نہ ہوتی تو ہم تجھے پتھر مار مار کر رجم کردیتے تو ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکتا۔ (ھود، آیت : ٩١) حضرت شعیب (علیہ السلام) کا ارشاد : میری قوم کیا تم اللہ تعالیٰ سے میری برادری کو بڑا سمجھتے ہو اور تم باز نہیں آتے۔ تم اپنا کام کرو اور مجھے اپنا کام کرنے دو اور عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ جھوٹا کون ہے اور کس پر ذلیل کردینے والا عذاب نازل ہوگا۔ (ھود : ٩٠ تا ٩٥) قوم حضرت شعیب (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ کرتی ہے : اے شعیب تو ہمارے جیسا انسان ہے اور ہم تجھے کذّاب سمجھتے ہیں بس تو ہم پر آسمان کا ایک ٹکڑا گرادے اگر تو سچا ہے۔ (الشعراء : ١٨٥ تا ١٨٧) قوم شعیب پر اللہ تعالیٰ کا عذاب : قوم نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو جھٹلایا تو ان پر بلاشبہ عذاب عظیم نازل ہوا۔ ( الشعراء : ١٨٩) ظالموں کو ایک کڑک نے آلیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ پڑے ہوئے تھے۔ ان کے گھر ایسے ویران ہوئے جیسے ان میں کوئی بسا ہی نہ ہو۔ یاد رکھو اہل مدین پر ایسی ہی پھٹکار ہوئی جس طرح قوم ثمود پھٹکاری گئی۔ مفسرین نے لکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر سات راتیں آٹھ دن گرمی اور حبس کا ایسا عذاب مسلط کیا کہ وہ نہ تہہ خانوں میں آرام کرسکتے تھے اور نہ ہی کسی درخت کے سائے تلے ٹھہر سکتے تھے۔ وہ انتہائی کرب کے عالم میں اپنے گھروں سے باہر نکلے تو ایک بادل ان کے اوپر سایہ فگن ہوا۔ جب سب کے سب بادل تلے جمع ہوگئے تو بادل سے آگ کے شعلے برسنے لگے۔ زمین زلزلہ سے لرزنے لگی اور پھر ایسی دھماکہ خیز چنگھاڑ گونجی کہ ان کے کلیجے پھٹ گئے اور اوندھے منہ تڑپ تڑپ کر ذلیل ہو کر مرے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کا لاشوں کو خطاب : حضرت شعیب (علیہ السلام) ان سے مخاطب ہوتے ہیں۔ اے میری قوم میں نے نہایت خیر خواہی کے ساتھ اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا تھا۔ لہٰذا اللہ کے نافرمانوں پر مجھے کوئی افسوس نہیں ہے۔ (الاعراف : ٩٣) مسائل ١۔ قوم شعیب ناپ تول کی کمی بیشی کیا کرتے تھے۔ ٢۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) اپنی قوم کو پہلی قوموں کے انجام سے ڈراتے تھے۔ ٣۔ حق و باطل میں اللہ تعالیٰ فیصلہ کردیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن ناپ تول میں کمی نہیں کرنی چاہیے : ١۔ ماپ تول کو پورا کرو اور لوگوں کو چیزیں کم نہ دو ۔ (الاعراف : ٨٥) ٢۔ ماپ تول کو انصاف سے پورا کرو۔ (الانعام : ٥٢) ٣۔ ماپ کو پورا کرو اور پورا پورا وزن کرو۔ (الاسراء : ٣٥) ٤۔ ماپ تول میں کمی نہ کرو۔ (ھود : ٨٤) ٥۔ ماپ کو پورا کرو اور کمی کرنے والے نہ بنو۔ (الشعراء : ١٨١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” نمبر ٨٥ تا ٩٣۔ یہ قصہ دوسروں کے مقابلے میں قدرے طویل ہے دوسرے قصص کی نسبت کیونکہ اس میں اسلامی نظریہ حیات کے علاوہ بعض دوسرے معاملات بھی موجود ہیں ۔ اگرچہ اس میں بھی وہی طرز ادا اختیار کی گئی ہے ۔ جس طرح اس سے قبل دوسروں قصوں میں اختیار کی گئی ہے ۔ آیت ” وَإِلَی مَدْیَنَ أَخَاہُمْ شُعَیْْباً قَالَ یَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّہَ مَا لَکُم مِّنْ إِلَـہٍ غَیْْرُہُ “۔ (٧ : ٨٥) ” اور مدین والوں کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب کو بھیجا ‘ اس نے کہا : ’ اے برادران قوم ‘ اللہ کی بندگی کرو ‘ اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے ۔ “ یہ دعوت اسلامی کا بنیادی عقیدہ ہے اور یہ ہر پیغمبر کی دعوت کا اساسی کلمہ اور شعار رہا ہے ۔ ہر پیغمبر اس سے دعوت کا آغاز کر کے پھر دوسری تفصیلات میں جاتا ہے ۔ آیت ” قَدْ جَاء تْکُم بَیِّنَۃٌ مِّن رَّبِّکُمْ “۔ (٧ : ٨٥) ” تمہارے پاس تمہارے رب کی صاف راہنمائی آگئی ہے ۔ “ سیاق کلام میں اس طرح شہادت اور راہنمائی کا ذکر نہیں ہے جس طرح قصہ صالح میں شہادت کا ذکر موجود ہے۔ قرآن کریم کی دوسری سورتوں میں بھی حضرت شعیب (علیہ السلام) کی جانب سے کوئی معجزہ پیش کرنے کا ذکر نہیں ہوگا لیکن یہاں اس آیت میں معجزے کی طرف اشارہ موجود ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے بھی دوسرے انبیاء کی طرح کوئی معجزہ پیش کیا تھا ۔ اس معجزے کے نتیجے میں اپنی قوم سے آپ کا مطالبہ یہ تھا کہ آپ ناپ اور تول میں کمی بیشی نہ کریں اور فساد فی الارض کے تمام طریقوں سے بچیں نیز راہ زنی اور ڈاکہ زنی جیسے برے افعال سے باز رہیں ۔ اور اہل دین کو محض انکی دین داری کی وجہ فتنے میں نہ ڈالیں۔ آیت ” فَأَوْفُواْ الْکَیْْلَ وَالْمِیْزَانَ وَلاَ تَبْخَسُواْ النَّاسَ أَشْیَاء ہُمْ وَلاَ تُفْسِدُواْ فِیْ الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاَحِہَا ذَلِکُمْ خَیْْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ (85) وَلاَ تَقْعُدُواْ بِکُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَن سَبِیْلِ اللّہِ مَنْ آمَنَ بِہِ وَتَبْغُونَہَا عِوَجاً وَاذْکُرُواْ إِذْ کُنتُمْ قَلِیْلاً فَکَثَّرَکُمْ وَانظُرُواْ کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِیْنَ (86) لہذا وزن اور پیمانے پورے کرو ‘ لوگوں کو انکی چیزوں میں گھاٹا نہ دو ‘ اور زمین میں فساد برپا نہ کرو جب کہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے ۔ اس میں تمہاری بھلائی ہے ۔ اگر تم واقعی مومن ہو ‘ اور (زندگی کے) ہر راستے پر رہزن بن کر نہ بیٹھ جاؤ کہ لوگوں کو خوفزدہ کرنے اور ایمان لانے والوں کو خدا کے راستے سے روکنے لگو اور سیدھی راہ کو ٹیڑھا کرنے کے درپے ہوجاؤ ۔ یاد کرو وہ زمانہ جبکہ تم تھوڑے تھے پھر اللہ تمہیں بہت کردیا اور آنکھیں کھول کر دیکھو کہ دنیا میں مفسدوں کا کیا انجام ہوا ہے ۔ “ اس نہی سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم مشرک قوم تھی ۔ وہ صرف اللہ وحدہ کی عبادت نہ کرتی تھی ‘ وہ اللہ اقتدار الی میں اللہ کے بندوں کو شریک کرتی تھی ۔ یہ لوگ اپنے معاملات میں اللہ کے عادلانہ قانون کی پیروی نہ کرتے تھے بلکہ انہوں نے باہم معاملات طے کرنے کے لئے خود اپنی جانب سے قواعد گھڑ رکھے تھے ۔ شاید اسی معاملے میں وہ شرک کرتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ بیع وشری کے معاملات میں وہ بدمعاملہ تھے اور اس کے علاوہ فساد فی الارض ‘ رہزنی اور ڈاکہ زنی کے معاملات بھی ان میں عام تھے ۔ علاوہ ازیں جو لوگ دین دار اور پاکباز تھے انکو بھی وہ ستاتے تھے اور اللہ کی سیدھی راہ سے انہیں روکتے تھے ۔ اللہ کی راہ میں ہر قسم کی استقامت کو وہ ناپسند کرتے تھے ۔ وہ چاہتے تھے کہ لوگ غلط راہوں پر چلیں جس میں ان کے مالی مفادات تھے اور اسلامی نظام کو ترک کردیں جس میں ان کا نقصان تھا ۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) دعوت کا آغاز ہی اس کلمہ سے کرتے ہیں کہ صرف اللہ وحدہ کی بندگی اور غلامی کرو ‘ اس کے اقتدار اعلیٰ کو دنیا میں قائم کرو اور زندگی کے تمام امور میں اس کے دین اور حکم کو نافذ کرو ۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) اس اصولی اور بنیادی بات سے اپنی دعوت کا آغاز کرتے ہیں اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ زندگی کے تمام معاملات کا دارومدار اسی اصول پر ہے اور انسان کے اخلاق اور اس کا باہمی طرز عمل اسی قاعدے اور سرچشمے سے پھوٹتے ہیں اور جب تک یہ اصول قائم و استوار نہ ہو ‘ انسان کا کوئی عمل قائم و استوار نہیں رہ سکتا ۔ اللہ وحدہ کی بندگی کی دعوت اور اپنی پوری زندگی کو توحید کے جادہ مستقیم پر قائم کرنے کی دعوت اور شریعت الہیہ کے نفاذ اور فساد فی الارض کو چھوڑنے کی دعوت کے ساتھ ساتھ ان کو حضرت شعیب (علیہ السلام) اس طرف بھی متوجہ فرماتے ہیں کہ تم پر اللہ کا جو فضل وکرم ہے اور اس نے جو انعامات تم پر کیے ہیں ان پر اللہ کا شکر بجا لاؤ ۔ ” یاد کرو وہ زمانہ جب تم تھوڑے تھے پھر اللہ نے تمہیں بہت کردیا ۔ “ ۔۔۔۔۔ اگر تم ان انعامات پر شکر ادا نہیں کرتے اور بدستور آمادہ فساد رہنے پر مصر ہو تو پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھیں کھول کر دیکھو کہ دنیا میں مفسدوں کا کیا انجام ہوا ہے۔ “ حضرت شعیب (علیہ السلام) چاہتے ہیں کہ ان کی قوم عدل و انصاف اور وسعت قلبی کا رویہ اختیار کرے ۔ ان لوگوں کو فتنے میں نہ ڈالے جو ایمان لا کر اللہ کی ہدایت کے پیروکار بن گئے ہیں اور جن کو اللہ نے اپنے دین کی طرف ہدایت کردی ہے ۔ یہ لوگ ہر طرف سے ان لوگوں کی راہ روکنے کی کوشش نہ کریں ۔ نہ ان پر زندگی کے دروازے بند کریں اور نہ انکو ڈرائیں دھمکائیں ۔ اگر وہ ایمان نہیں لاتے تو اہل ایمان اور اہل کفر کی اس کشمکش میں کم از کم غیر جانبدار ہو کر نتائج کا انتظار کریں ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت شعیب (علیہ السلام) کا اپنی امت کو تبلیغ فرمانا اور نافرمانی کی وجہ سے ان لوگوں کا ہلاک ہونا جو امتیں حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی دعوت قبول نہ کرنے اور ضد وعناد پر کمر باندھنے کی وجہ سے ہلاک ہوئیں ان میں سیدنا حضرت شعیب (علیہ السلام) کی امت بھی تھی۔ ان لوگوں میں کفر وعناد تو تھا ہی کیل اور وزن میں کمی کرنا بھی ان میں رواج پذیر تھا بیچتے تھے تو کیل میں یعنی ناپ کردینے میں اور وزن میں کمی کردیتے تھے۔ اور راستوں میں بیٹھ جاتے تھے اور اللہ کی راہ سے روکتے بھی تھے یعنی حضرت شعیب (علیہ السلام) کی دعوت قبول کرنے اور ایمان لانے سے منع کرتے تھے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ان کو توحید کی دعوت دی اور فرمایا اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں، تمہارے رب سے تمہارے پاس دلیل آچکی ہے لہٰذا تم ناپ تول میں کمی نہ کرو۔ اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد نہ کرو اس کے بعد کہ اس کی اصلاح کردی گئی ہے۔ اور راستوں میں مت بیٹھو جہاں تم لوگوں کو دھمکیاں دیتے ہو اور جو اللہ پر ایمان لے آئے اسے اللہ کی راہ سے روکتے ہو۔ یہ لوگ راستوں پر بیٹھ جاتے تھے اور جو لوگ بستی میں آنے والے ہوتے ان کو ڈراتے اور دھمکاتے تھے اور کہتے تھے کہ دیکھو شعیب کی بات مانو گے تو ہم تمہیں مار ڈالیں گے اور ساتھ ہی حضرت شعیب (علیہ السلام) کے بتائے ہوئے دین میں کجی تلاش کرتے تھے اور سوچ سوچ کر اعتراض نکالتے تھے۔ جس کو (وَ تَبْغُوْنَھَا عِوَجًا) سے تعبیر فرمایا۔ ” کجی تلاش کرنے “ کا مطلب سورة اعراف کے پانچویں رکوع میں بیان ہوچکا ہے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اللہ کی نعمت یاد دلائی اور فرمایا۔ (وَ اذْکُرُوْٓا اِذْ کُنْتُمْ قَلِیْلًا فَکَثَّرَکُمْ ) (اور یاد کرو جب تم تھوڑے سے تھے اس کے بعد اللہ نے تمہیں کثرت دیدی) نیز فرمایا (وَ انْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِیْنَ ) (اور دیکھ لو فساد کرنے والوں کا کیا انجام ہوا) ۔ چونکہ اس سے پہلے دیگر امتیں ہلاک ہوچکی تھیں اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی ہلاکت کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ اس لیے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے انہیں توجہ دلائی کہ گزشتہ ہلاک شدہ امتوں سے عبرت لے لو۔ سورة ہود میں ہے (وَ یٰقَوْمِ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شِقَاقِیْٓ اَنْ یُّصِیْبَکُمْ مِّثْلُ مَآ اَصَابَ قَوْمَ نُوْحٍ اَوْ قَوْمَ ھُوْدٍ اَوْ قَوْمَ صٰلِحٍ وَ مَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْکُمْ بِبَعِیْدٍ ) (اے میری قوم ! مجھ سے ضد کرنا تمہارے لیے اس کا باعث نہ ہوجائے کہ تم پر بھی اسی طرح کی مصیبتیں آپڑیں۔ جیسے قوم نوح یا قوم ہود یا قوم صالح پر پڑی تھیں۔ اور قوم لوط تم سے دور نہیں ہے) یہ لوگ برابر ضد اور عناد پر اڑے رہے اور حضرت شعیب (علیہ السلام) کو بےہودہ اور بےت کے جواب دیتے رہے جن کا تذکرہ آئندہ آیات میں ہے انہوں نے یوں بھی کہا کہ ہم تمہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے۔ الایہ کہ تم ہمارے دین میں واپس آجاؤ۔ جس کا ذکر ابھی ایک آیت کے بعد آ رہا ہے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ ان لوگوں کو جب یہ بتایا گیا کہ کفر پر جمے رہو گے تو اللہ کی طرف سے عذاب آجائے گا۔ اس پر انہوں نے یہ اعتراض کیا کہ ایک جماعت ایمان لے آئی اور ہم لوگ ایمان نہیں لے آئے جو ایمان نہیں لائے ان پر تو کوئی عذاب نہیں آیا۔ اور وہ سب عیش و آرام میں ہیں۔ لہٰذا یہ عذاب کی باتیں بےاصل معلوم ہوتی ہیں۔ اس کے جواب میں حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ عذاب کا فوراً اور جلدی آنا ضروری نہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت سے جب چاہتا ہے عذاب بھیجتا ہے تم ذرا ٹھہرو صبر کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہمارے درمیان فیصلہ فرما دے۔ (وَ ھُوَ خَیْرُ الْحَاکِمِیْنَ ) وہ سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے چناچہ کافروں پر عذاب آیا اور ان کو زلزلہ کے ذریعہ ہلاک کردیا گیا۔ جیسا کہ اس رکوع کے آخر میں آ رہا ہے اور اہل ایمان کو بچا دیا گیا جیسا کہ سورة ہود میں مذکور ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

89: یہ پانچواں قصہ ہے اور دوسرے اور تیسرے دونوں دعو وں سے متعلق ہے۔ “ یٰقَوْمِ اعْبُدُوْا اللّٰهَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُہٗ ” میں تیسرا دعوی مذکور ہے۔ یعنی اے میری قوم تم صرف اللہ ہی کی عبادت کرو اور صرف اسی کو پکارو۔ اللہ کے سوا کوئی تمہارا کارساز نہیں۔ اور “ فَاَوْفُوْا الْکَیْلَ وَالْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوْا النَّاسَ اَشْیَاءَھُمْ ” الخ میں دوسرا دعویٰ مذکور ہے۔ قوم شعیب (علیہ السلام) ان محرمات الٰہیہ کے ساتھ حرام کا برتاؤ نہیں کرتی تھی بلکہ ناپ تول کے ذریعے دوسرے کا حق مار لینے کو جائز سمجھتی تھی۔ اس لیے ان کو حکم دیا گیا کہ وہ ان محرمات کو حرام سمجھیں اور ان ناجائز طریقوں سے لوگوں کے حقوق تلف نہ کریں اور زمین میں شر و فساد نہ پھیلائیں۔ 90: یعنی امور مذکورہ دنیا و آخرت میں تمہارے لیے بہتر ہیں بشرطیکہ تم ایمان لے آؤ اور دعوت توحید کو مان لو۔ المراد بالخیریۃ ما یشمل امر الدنیا والاخرۃ ای ذلکم خیر لکم فی الدارین بشرط ان تومنوا (روح ج 8 ص 177)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

85 اور ہم نے اہل مدین کی طرف ان کے بھائی حضرت شعیب (علیہ السلام) کو پیغامبر بناکر بھیجا۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے کہا اے میری قوم تم فقط اللہ تعالیٰ ہی کی بندگی اور پوجا کیا کرو اس کے سوا تمہارا اور کوئی معبود نہیں ہے۔ بلاشبہ تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے کھلی اور واضح دلیل آچکی لہٰذا اب تم سیدھی تول تولا کرو اور پورا پیمانہ بھر کردیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزوں میں نقصن نہ پہنچایا کرو اور دیکھو زمین کی اصلاح اور درستی اور امن قائم ہوجانے کے بعد زمین میں فساد نہ پھیلائو یہ باتیں تہارے لیے بہتر ہیں اگر تم میں ایمان ہو اور تم مومن ہو۔ یعنی یہ مدین والے کم تولتے اور ناپ میں کم ناپتے تھے ان کی اصلاح کے لئے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو مقرر فرمایا کھلی دلیل سے مراد نبوت ہے یا کوئی اور معجزہ ہوگا جس کو کھلی دلیل فرمایا ہے۔ زمین کی اصلاح یہی کہ جب آسمانی قانون کے مطابق احکام آجائیں تو پھر زمین میں کافرانہ نظام قائم کرنے کی کوشش نہ کی جائے کم تولنے اور کم ناپنے سے خریداروں کو نقصان پہنچتا ہے اس کی ممانعت فرمائی۔