Surat ul Maarijj

Surah: 70

Verse: 15

سورة المعارج

کَلَّا ؕ اِنَّہَا لَظٰی ﴿ۙ۱۵﴾

No! Indeed, it is the Flame [of Hell],

۔ ( مگر ) ہرگزیہ نہ ہوگا ، یقیناً وہ شعلہ والی ( آگ ) ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

كَلَّ ... the criminal would desire to ransom himself from the punishment of the Day by his children, and his wife and his brother, and his Fasilah (kindred) who sheltered him, and all that are in the earth, so that it might save him. By no means! means, no ransom will be accepted from him even if he brought all of the people of the earth (as ransom), and the greatest wealth that he could find, even if it was enough gold to fill the entire earth. Even the child that he had who was dearer to him than the last beat of his heart in the life of this world, he would wish to use the child as a ransom for himself against the torment of Allah on the Day of Judgement when he sees the horrors. However, even this child would not be accepted from him (as a ransom). Mujahid and As-Suddi both said, وَفَصِيلَتِهِ (and his Fasilah) "This means his tribe and his kin." Ikrimah said, "This means the subdivision of his tribe that he is from." Ashhab reported from Malik that he said, "His Fasilah is his mother." Allah said, ... إِنَّهَا لَظَى Verily, it will be the fire of Hell, Here He is describing the Hell- fire and the severity of its heat. نَزَّاعَةً لِّلشَّوَى

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 یعنی وہ جہنم، یہ اس کی شدت حرارت کا بیان ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

کلا انھا لظی :” کلا “ یعنی ایسا ہرگز نہیں ہوگا کہ وہ اپنے فدیے میں کسی اور کو عذاب کے حوالے کر کے بچ جائے، بلکہ وہ جہنم ایک شعلے مارنے والی آگ ہے۔” لظی “ ” لظی یلظی لظی “ (ع) آگ کا بھڑکنا، شعلے مارنا۔ مصدر بمعنی اسم فاعل برائے مبالغہ ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

كَلَّا ۖ إِنَّهَا لَظَىٰ نَزَّاعَةً لِّلشَّوَىٰ (By no means! It is the flaming fire, that will pull out the skin of the scalp...70:15, 16). The pronoun of innaha (it) refers to &Fire& and the word laza means &the flaming fire&. The word shawa is the plural of shawah and it refers to &the scalp or the skin of the human head, and also the skin of the hands and the legs&. The verse describes that the Fire of Hell would be a raging blaze that will pull out the skin of the scalp.

كَلَّا ۭ اِنَّهَا لَظٰى 15 ۝ ۙنَزَّاعَةً لِّلشَّوٰى، انا کی ضمیر نار کی طرف راجع ہے اور نطی کے معنے خالص شعلہ بغیر آمیزش کے اور شوی شواة کی جمع ہے جس کے معنی سر کی کھال کے بھی ہیں اور ہاتھوں پاؤں کی کھال کے بھی، یعنی جہنم کی آگ ایک سخت بھڑکنے والا شعلہ ہوگا جو دماغ کی یا ہاتھوں پاؤں کی کھال اتار دے گا۔ ښتَدْعُوْا مَنْ اَدْبَرَ وَتَوَلی، ۙوَجَمَعَ فَاَوْعٰى خود بلائے گی یہ آگ اس شخص کو جس نے حق سے پیٹھ موڑی اور رخ پھیرا اور مال جمع کیا پھر اس کو روک کر رکھا۔ مراد جمع کرنے سے وہ ہے کہ خلاف شرع ناجائز طریقوں سے جمع کرے اور روکنے سے مراد یہ ہے کہ مال پر عائد ہونے والے فرائض و واجبات ادا نہ کرے جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَلَّا۝ ٠ ۭ اِنَّہَا لَظٰى۝ ١٥ ۙ كلا كَلَّا : ردع وزجر وإبطال لقول القائل، وذلک نقیض «إي» في الإثبات . قال تعالی: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم/ 77- 79] وقال تعالی: لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون/ 100] إلى غير ذلک من الآیات، وقال : كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس/ 23] . کلا یہ حرف روع اور زجر ہے اور ماقبل کلام کی نفی کے لئے آتا ہے اور یہ ای حرف ایجاب کی ضد ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم/ 77- 79] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ۔ اور کہنے لگا اگر میں ازسر نو زندہ ہوا بھی تو یہی مال اور اولاد مجھے وہاں ملے گا کیا اس نے غیب کی خبر پالی ہے یا خدا کے یہاں ( سے ) عہد لے لیا ہے ہر گز نہیں ۔ لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون/ 100] تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں ہرگز نہیں ۔ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس/ 23] کچھ شک نہیں کہ خدا نے سے جو حکم دیا ۔ اس نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت آیات ہیں ۔ لظی اللَّظَى: اللهب الخالص، وقد لَظِيَتِ النارُ وتَلَظَّتْ. قال تعالی: ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] أي : تَتَلَظَّى، ولَظَى غير مصروفة : اسم لجهنم . قال تعالی: إِنَّها لَظى[ المعارج/ 15] . ( ل ظ ی ) لظیت النار وتلظت کے معنی آگ بھڑک اٹھنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ ناراً تَلَظَّى[ اللیل/ 14] بھڑکتی آگ سے ، اور لظیٰ آگ کے شعلہ کو کہا جاتا ہے جس میں دھوئیں کی آمیزش نہ ہو یہ جہنم کا علم اور غیر منصرف ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّها لَظى[ المعارج/ 15] وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥{ کَلَّاط اِنَّہَا لَظٰی ۔ } ” ہرگز نہیں ! اب تو یہ بھڑکتی ہوئی آگ ہی ہے۔ “ آج تم سے نہ تو کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا ‘ اور نہ ہی کوئی تمہاری مدد کو آئے گا۔ آج جہنم کی اس شعلہ فشاں آگ کا سامنا تمہیں خود ہی کرنا ہوگا۔ جیسا کہ سورة مریم کی اس آیت میں واضح کیا گیا ہے : { وَکُلُّہُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًا ۔ } ” اور قیامت کے دن سب کے سب آنے والے ہیں اس کے پاس اکیلے اکیلے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(70:15) کلا : جمہور کے نزدیک یہ حرف بسیط ہے۔ لیکن بعض کے نزدیک یہ ک تشبیہ اور لا نافیہ سے مرکب ہے حالت ترکیب میں ک اور ل کے انفرادی معنی باقی نہ رہے اس لئے لام کو مشدد کیا گیا۔ کلا۔ یعنی مذکورہ بالا تمام چیزوں کو اپنے عوض میں دے کر عذاب سے بچ جائے گا۔ یہ ہرگز نہ ہوگا۔ سیبویہ، خلیل ، مبرد، زجاج اور اکثر بصری ادیبوں کے نزدیک کلا کے معنی صرف ردع اور روکنے کے ہیں۔ (خواہ بطور زجر و توبیخ کے ہو یا بطور ترتیب اور ادب آموزی کے) اس لئے ان علماء کے نزدیک قرآن مجید کے تمام 33 مقامات میں جس جس جگہ کلا آیا ہے ہر جگہ کلا پر وقف کرنا جائز ہے۔ اور بعد کو اؤنے والا کلام نئے سرے سے شروع ہوتا ہے بعض لوگ تو یہاں تک قائل ہیں کہ چونکہ کفار مکہ سخت سرکش تھے اور تہدید آمیز کلام انہیں کے لئے زیادہ نازل ہوا ہے اور کلا کے معنی بھی تہدید اور زجر کے ہیں اس لئے جن سورتوں میں کلا آیا ہے ان کی اکثر آیات کو مکہ ہی سمجھنا چاہیے۔ انھا لظی : انھا۔ بیشک وہ۔ بیشک بات یہ ہے۔ ان حرف مشبہ بالفعل ھا ضمیر واحد مؤنث غائب (ضمیر قصہ) لظی ، ان کی خبر۔ ھا ضمیر اس نار کی طرف راجع ہے جو معنی لفظ عذاب سے معلوم ہو رہی ہے۔ لظی اسم علم ہے اس صورت میں اس سے مراد دوزخ میں دوسرے دوجے کے دوزخ کا نام ہے۔ مصدر بھی ہوسکتا ہے بمعنی آگ بھڑکنا۔ اسم مصدر بھی۔ بمعنی بغیر دھویں کے اٹھتا ہوا شعلہ، لپٹ، بھڑک۔ یعنی ایسی آگ جس میں شعلے بھڑک رہے ہوں گے۔ مطلب یہ کہ بیشک وہ ایسی آگ ہوگی جو بھڑک رہی ہوگی اور شدت التہاب کا یہ اثر ہوگا کہ دھویں کے بغیر ہوگی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

کلا انھا .................... فاوعی (٨١) (٠٧ : ٥١ تا ٨١) ” ہرگز نہیں ، وہ تو بھڑکتی ہوئی آگ کی لپٹ ہوگی جو گوشت پوست کو چاٹ جائے گی ، پکار پکار کر اپنی طرف بلائے گی ہر اس شخص کو ، جس نے حق سے منہ موڑا اور پیٹھ پھیری اور مال جمع کیا اور سینت سینت کر رکھا “۔ یہ ایک منظر ہے کہ جسے دیکھ کر انسان کے چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں جبکہ اس منظر سے قبل رنج والم کی وجہ سے یہ مدہوش تھا۔ کلا ، یہ نہایت سختی سے تردید اور جھڑکی کا لفظ ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ یہ باطل خواہشات ہیں کہ کوئی بیٹوں ، بیوی ، خاوند ، بھائی ، بہن اور خاندان اور روئے زمین کی جائیداد کا فدیہ دے سکے گا ، ہر گز نہیں۔ انھا لظی (٠٧ : ٦١) ” وہ تو بھڑکتی ہوئی آگ کی لپٹ ہوگی “۔ نزاعة للشوی (٠٧ : ٦١) ” جو گوشت پوست کو چاٹ جائے گی “۔ چہرے اور سر کے گوشت کو ، اور پھر یہ بلا کی شکل میں ہوگی۔ زندہ چلتی ہوئی۔ اور اس خوفناکی میں وہ قصداً اضافہ کررہی ہوگی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اسی کو فرمایا : ﴿كَلَّا ﴾ (ہرگز ! ایسا نہ ہوگا) کہ کوئی شخص اپنی جان کا بدلہ دے کر چھوٹ جائے۔ ﴿اِنَّهَا لَظٰىۙ٠٠١٥ نَزَّاعَةً لِّلشَّوٰىۚۖ٠٠١٦﴾ (بلاشبہ وہ دوزخ سخت گرم چیز ہے جو سر کی کھال اتار دینے والی ہے) جب دوزخ کی آگ جلائے گی تو سر کی چمڑی اتر کر علیحد ہوجائے گی۔ ﴿ تَدْعُوْا مَنْ اَدْبَرَ وَ تَوَلّٰىۙ٠٠١٧﴾ (دوزخ اس کو پکارے گی جس نے دنیا میں پشت پھیری اور بےرخی کی اور مال جمع کیا اور پھر اس کی حفاظت کرتا رہا) ۔ ﴿يَوَدُّ الْمُجْرِمُ ﴾ سے یہاں تک کافر کا حال بیان ہوا ہے۔ پہلے تو یہ بتایا کہ کافر مجرم عذاب سے بچنے کے لیے اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو اور کنبہ قبیلہ کو اور جتنے بھی اہل زمین ہیں سب کو اپنی جان کے عوض دے کر اپنی جان کو عذاب سے چھڑانے کی آرزو کرے گا پھر یہ بتایا کہ وہ کسی طرح عذاب سے چھوٹ نہیں سکتا اسے دوزخ میں جانا ہی ہے دوزخ اپنے لوگوں کو پہچانے گی اور پکار پکار کر آواز دے دے کر بلائے گی کافروں کے کرتوت تو بہت ہیں لیکن اجمالی طور پر دنیا میں حق سے پشت پھیر کر جانے اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری سے اعتراض کرنے اور مال جمع کرنے اور اسے اٹھا اٹھا کر رکھنے یعنی خرچ نہ کرنے کا تذکرہ فرمایا۔ ﴿اَدْبَرَ وَ تَوَلّٰىۙ﴾ میں کفر سے متصف ہونا بیان فرما دیا اور وَ جَمَعَ فَاَوْعٰى٠٠١٨ میں مال کی محبت کا تذکرہ فرما دیا اور کافروں کی صفت بخل بھی بتادی اور یہ بھی بتادیا کہ انہیں مال سے محبت تھی حقوق اللہ ضائع كركے اور حقوق العباد تلف کر کے مال پر مال جمع کرتے رہے، سود بھی لیا اور غبن بھی کیا، خیانتیں بھی کیں اموال غصب بھی کیے، نوٹوں کی گڈیوں کی محبت میں اور بینک بیلنس کی فکر میں حلال حرام کچھ نہ دیکھا ایسی صورت میں لا محالہ دوزخ ہی ٹھکانہ ہوگا، جو مسلمان ہونے کے مدعی ہیں انہیں بھی فکر کرنا چاہیے کہ ہمارا مال کہاں سے آ رہا ہے اور مال جمع کرنے میں کتنے گناہوں کا ارتکاب ہو رہا ہے پھر حلال مال مل جائے تو اس میں سے فرائض اور حقوق کی ادائیگی کا اہتمام کرنا لازم ہے۔ حضرت حسن بصری (رح) فرماتے تھے کہ اے ابن آدم ! تو اللہ کی وعید سنتا ہے پھر بھی مال سمیٹتا ہے۔ (ذكرہ ابن کثیر) حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن دوزخ سے ایک گردن نکلے گی جس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے دیکھتی ہوں گی اور دو کان ہوں گے جن سے سنتی ہوگی اور ایک زبان ہوگی جس سے بولتی ہوگی وہ کہے گی میں ان تین شخصوں پر مسلط کی گئی ہوں۔ (١) ہر سرکش ضدی پر (٢) ہر اس شخص پر جس نے اللہ کے ساتھ دوسرا کوئی معبود ٹھہرایا (٣) تصویر بنانے والے پر۔ (مشکوٰۃ المصابیح) تفسیر ابن کثیر سے نقل کیا ہے کہ جس طرح جانور دانہ تلاش کر کے چُگ لیتا ہے اسی طرح دوزخ میدان حشر سے ان لوگوں کو دیکھ بھال کر چن لے گی جن کا دوزخ میں جانا مقرر ہوچکا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(15) یہ ہرگز نہیں ہوگا یعنی عذاب سے نجات نہیں ملیگی وہ آگ ایک دہکتی ہوئی اور خالص شعلہ ماری ہوئی ایک ایسی آگ ہے۔