Surat ul Maarijj

Surah: 70

Verse: 17

سورة المعارج

تَدۡعُوۡا مَنۡ اَدۡبَرَ وَ تَوَلّٰی ﴿ۙ۱۷﴾

It invites he who turned his back [on truth] and went away [from obedience]

وہ ہر شخص کو پکارے گی جو پیچھے ہٹتا اور منہ موڑتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَجَمَعَ فَأَوْعَى

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١] آیت نمبر ١٧ اور نمبر ١٨ میں انہیں دو بنیادی جرائم کا ذکر کیا گیا ہے۔ جو انسان کو جہنم کا مستحق بنا دیتے ہیں۔ اور ان جرائم کا ذکر سورة الحاقۃ کی آیت نمبر ٣٣ اور ٣٤ کے حاشیہ میں تفصیل سے گزر چکا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کو جہنم اپنے ہاں بلا لے گی۔ اور ایک روایت کے مطابق جہنم سے ایک گردن نکلے گی جو جہنم کے مستحق لوگوں کو یوں چن چن کر اٹھا لے گی جیسے کوئی پرندہ زمین سے پڑا ہوا دانہ اٹھا لیتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) تدعوا من ادبر وتولی : یعنی جن لوگوں نے دنیا میں ایمان کی طرف بلائے جانے پر پیٹھ پھیرلی اور منہ موڑ لیا تھا اب جہنم انہیں اپنی طرف بلائے گی اور اس طرح نہیں بلائے گی کہ چاہیں تو جائیں اور چاہیں تو نہ جائیں۔ (٢) وجمع فاوعی :” اوعی “ ‘” وعائ “ برتن کو کہتے ہیں، یعنی برتن میں بند رکھا۔ پچھلی آیت اور اس آیت سے معلوم ہوا کہ کفار کے جہنم میں جانے کے دو بڑے اسباب ہیں، ایک ایمان نہ لانا بلکہ حق بات سن کر منہ پھیرلینا اور دوسرا شدید بخل۔ دیکھیے سورة حاقہ (٣٣، ٣٤) ۔ (٣) جہنم کا کلام کرنا ان آیات سے بھی ثابت ہوتا ہے اور سورة ق کی آیت (٣٠) :(وتقول ھل من مرید) سے بھی۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(یخرج عنق من النار یوم القیامۃ لہ عینان تبصران واذنان تسمعان ولسان ینطق یقول انی وکلت بثلاثۃ بکل جبار عنید وبکل من دعا مع اللہ الھا آخر وبالمصورین) (ترمذی، صفۃ جھنم، باب ماجاء فی صفۃ النار : ٢٥٨٣ ، وصححہ الالبانی)” قیامت کے دن آگ سے ایک گردن نکلے گی جس کی دو آنکھیں ہوں گی جو دیکھتی ہوں گی اور دوکان ہوں گے جو سنتے ہوں گے اور ایک زبان ہوگی جو بولتی ہوگی۔ وہ کہے گی کہ مجھے تین (قسم کے آدمیوں) پر مقرر کیا گیا ہے، ہر جبار عنید پر اور ہر اس شخص پر جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود بنائے اور مصوروں پر۔ “ اسی طرح صحیح مسلم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنت اور دوزخ کی بحث کی حدیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے، اس لئے جہنم کے کلام کا انکار کرنا یا اس کی تاویل کرنا درست نہیں۔ قرآن مجید کے مطابق قیامت کے دن زمین میں بات کرے گی اور ہاتھ پاؤں اور چمڑے بھی گفتگو کریں گے، پھر جنت یا جہنم کے بولنے میں کیا تعجب ہے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

تَدْعُو مَنْ أَدْبَرَ‌ وَتَوَلَّىٰ وَجَمَعَ فَأَوْعَىٰ (It will call him who had turned his back and fled away (from the truth.) and accumulated (wealth) and hoarded (it)....70:17, 18). The phrase &accumulated wealth& signifies &wealth accumulated by unlawful means& and the phrase &hoarded it& signifies ¬ fulfilling the pecuniary obligations as imposed by the Shari` ah&, as is confirmed by authentic ahadi&th.

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

تَدْعُوْا مَنْ اَدْبَرَ وَتَوَلّٰى۝ ١٧ ۙ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ دبر ( پيٹھ) دُبُرُ الشّيء : خلاف القُبُل وكنّي بهما عن، العضوین المخصوصین، ويقال : دُبْرٌ ودُبُرٌ ، وجمعه أَدْبَار، قال تعالی: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال/ 16] ، وقال : يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال/ 50] أي : قدّامهم وخلفهم، وقال : فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال/ 15] ، وذلک نهي عن الانهزام، وقوله : وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق/ 40] : أواخر الصلوات، وقرئ : وَإِدْبارَ النُّجُومِ ( وأَدْبَار النّجوم) فإدبار مصدر مجعول ظرفا، ( د ب ر ) دبر ۔ بشت ، مقعد یہ قبل کی ضد ہے اور یہ دونوں لفظ بطور کنایہ جائے مخصوص کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں دبر ا اور دبر دولغات ہیں اس کی جمع ادبار آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال/ 16] اور جو شخص جنگ کے روز ان سے پیٹھ پھیرے گا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال/ 50] ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر ( کوڑے و ہیتھوڑے وغیرہ ) مارتے ہیں ۔ فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال/ 15] تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔ یعنی ہزیمت خوردہ ہوکر مت بھاگو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق/ 40] اور نماز کے بعد ( بھی ) میں ادبار کے معنی نمازوں کے آخری حصے ( یا نمازوں کے بعد ) کے ہیں . وَإِدْبارَ النُّجُومِ«1»میں ایک قرات ادبارالنجوم بھی ہے ۔ اس صورت میں یہ مصدر بمعنی ظرف ہوگا یعنی ستاروں کے ڈوبنے کا وقت جیسا کہ مقدم الجام اور خفوق النجم میں ہے ۔ اور ادبار ( بفتح الحمزہ ) ہونے کی صورت میں جمع ہوگی ۔ ولي وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه . فمن الأوّل قوله : وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] . ومن الثاني قوله : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] ، ( و ل ی ) الولاء والتوالی اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

جہنم کی آگ ہر اس شخص کو پکار پکار کر اپنی طرف بلائے گی اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر شکارکرے گی جس نے حق سے اعراض کیا تھا اور اللہ کے کلام کو پس ِپشت ڈال دیا تھا۔ دین کی دعوت اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشن کو کبھی لائق اعتناء نہیں سمجھا تھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4: یعنی جس جس نے دُنیا میں حق سے پیٹھ موڑی ہوگی اِسے وہ اپنے پاس بلا لے گی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(70:17) تدعوا من ادبر و تولی۔ تدعوا مضارع کا صیغہ واحد مؤنث غائب دعاء (باب نصر) مصدر۔ وہ پکارے گی۔ وہ بلائے گی۔ وہ پکارتی ہے وہ بلاتی ہے (زبان حال سے یاز بان قال سے) واللہ اعلم بالصواب۔ من موصولہ ادبر سلہ، صلہ اور موصول مل کر مفعول تدعوا کا۔ ادبر ماضی معروف کا صیغہ واحد مذکر غائب ادبار (افعال) مصدر۔ اس نے پیٹھ پھیری۔ یعنی دوزخ کی آگ ہر اس شخص کو پکارے گی جس نے دنیا میں حق سے منہ موڑا تھا۔ الی یا مشرک الی یا منافق، ادھر آ اے مشرک ادھر آ اے منافق۔ وتولی کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ تولی ماضی واحد مذکر غائب تولی (تفعل) مصدر۔ اور جس نے پیٹھ پھیری۔ یا منہ موڑا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

تدعوا .................... فاوعی (٠٧ : ٨١) ” پکار پکار کر اپنی طرف بلائے گی ہر اس شخص کو ، جس نے حق سے منہ موڑا اور پیٹھ پھیری اور مال جمع کیا اور سینت سینت کر رکھا “۔ یہ اس کو اسی طرح بلائے گی جس طرح اسے اس سے قبل دنیا میں راہ ہدایت کی طرف بلایا جاتا تھا۔ اور یہ پیٹھ پھیر کر چلا جاتا تھا۔ لیکن آج جبکہ اسے یہ بلارہی ہے تو اس قابل نہیں ہے کہ پیٹھ پھیر کر چلا جائے۔ اس سے قبل یہ دعوت اسلامی کے مقابلے میں مال جمع کرنے میں لگا ہوا تھا اور اس مال کو وہ برتنوں اور تجوریوں میں محفوظ کرکے رکھتا تھا۔ اور آج یہ دعوت بلائے جہنم کی طرف سے ہے۔ نہ یہ اسے رد کرسکتا ہے نہ مال دے کر جان کو چھڑا سکتا ہے۔ اس سورت ، اس سے پہلی سورت اور سورة قلم میں بھی تاکید اس بات کی تھی کہ ان کے جرم میں یہ بات بھی شامل تھی یہ لوگ مال جمع کرتے تھے اور مساکین کے کھانے پر لوگوں کو نہ ابھارتے تھے۔ یعنی کفر ، شرک اور تکذیب کے ساتھ ساتھ ان کا یہ جرم بھی تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کفر ، گمراہی اور تکذیب کے ساتھ ساتھ مکہ میں تحریک کو یہ مشکل بھی درپیش تھی کہ لوگ بخیل تھے اور دولت پرست تھے اور غریبوں کا خیال نہ رکھتے تھے۔ اس لئے بار بار ان امور کی طرف بھی اشارہ کیا کہ فقیروں ، مسکینوں کو نظر انداز کرنا اور بہت زیادہ دولت پرست و مادہ پرست ہونا موجب عذاب ہے۔ اس سورت میں دوسرے اشارات بھی ہیں جن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس وقت دعوت اسلامی کا آغاز جس مکی معاشرے میں ہوا تھا ، اس کے خدوخال کیا تھے۔ یہ ایک ایسا معاشرہ تھا جس میں لوگ مال و دولت جمع کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ تجارت اور سود خواری ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ قریش کے سردار تجارتی کوٹھیوں کے مالک تھے اور ہر ایک کے اپنے اپنے قافلے ہوتے تھے۔ جو یہ گرمیوں اور سردیوں میں چلاتے تھے۔ دولت پر لوگ ہر طرف سے ٹوٹ پڑتے تھے۔ ہر شخص بےحد بخیل تھا۔ فقراء اور مساکین محروم تھے۔ یتیم اور لاچار بھوکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس معاشی ناہمواری کو دور کرنے کے لئے قرآن کریم نے بار بار بتکرار احکامات صادر کیے ، بار بار حرص کی مذمت کی۔ انسانی نفوس کے اندر اتر کر بخل اور حرص کو جڑوں سے نکالا۔ اور یہ کام اسلام نے فتح سے قبل نظریاتی طور پر کیا اور فتح کے بعد عملی طور پر کیا۔ مثلاً رہا کی ممانعت کی گئی۔ لوگوں کے اموال باطل طریقوں سے کھانے کی ممانعت کی گئی۔ یتیموں کے مال کے کھانے کو آگکھانا بتایا گیا ، اور یتیموں کے مال میں اسراف سے اور ظلم سے روکا گیا۔ یتیموں کے نکاح کو اس لئے روکنے کی ممانعت کی گئی کہ ان کا مال کھاتے رہیں یا یتیم لڑکیوں کے ساتھ نکاح کرنے کی رغبت اس لئے رکھی جائے کہ ان کا مال ہڑپ کرلیں۔ غرض جو اقدامات ، ہدایات اور تنبیہات کی گئیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت لوگوں کی معاشی صورت حالات کیا تھی اور یہ کہ اسلام کی ابدی معاشی پالیسی کیا ہے۔ کسی اسلامی معاشرے کے لئے دائمی ہدایات یہی ہیں کہ بخل ، حسد اور حرص سے بچو اور مادیت اور دولت کے بندھنوں سے اپنے آپ کو آزاد کرو اور یہ پالیسی پورے قرآن میں جاری رکھی گئی۔ اس سے قبل قیامت کے ہولناک مناظر دکھائے جاچکے ، خوف اور عذاب کی صورت میں۔ اب بتایا جاتا ہے کہ خوشی اور غم کے مختلف مواقع پر نفس انسانی کا رد عمل کیسا ہوتا ہے۔ ایمان کی حالت میں انسان مختلف حالات کے مقابلے میں کیا رد عمل کرتا ہے اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ایمان کی حالت میں رد عمل کیا ہوتا ہے۔ اور ایمان نہ ہونے کی صورت میں کیا ہوتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مومنین کا انجام کیا ہے اور کافرین کا انجام کیا ہے ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(17) وہ آگ ہر اس شخص کو اپنی طرف بلاتی ہوگی جس نے پیٹھ پھیری ہوگی اور منہ موڑا ہوگا۔