Surat ul Maarijj
Surah: 70
Verse: 26
سورة المعارج
وَ الَّذِیۡنَ یُصَدِّقُوۡنَ بِیَوۡمِ الدِّیۡنِ ﴿۪ۙ۲۶﴾
And those who believe in the Day of Recompense
اور جو انصاف کے دن پر یقین رکھتے ہیں ۔
وَ الَّذِیۡنَ یُصَدِّقُوۡنَ بِیَوۡمِ الدِّیۡنِ ﴿۪ۙ۲۶﴾
And those who believe in the Day of Recompense
اور جو انصاف کے دن پر یقین رکھتے ہیں ۔
And those who believe in the Day of Recompense. meaning, they are sure of the Final Return (to Allah), the Reckoning and the Recompense. Therefore, they perform the deeds of one who hopes for the reward and fears the punishment. For this reason Allah says, وَالَّذِينَ هُم مِّنْ عَذَابِ رَبِّهِم مُّشْفِقُونَ
2 6 ۔ 1 یعنی وہ اس کا انکار کرتے ہیں نہ اس میں شک وشبہ کا اظہار۔
والذین یصدقون بیوم الدین…: یعنی ان کے اعمال کا اصل محرک قیامت پر ایمان اور رب تعالیٰ کے عذاب کا خوف ہے۔
وَالَّذِيْنَ يُصَدِّقُوْنَ بِيَوْمِ الدِّيْنِ ٢٦ صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔
آیت ٢٦{ وَالَّذِیْنَ یُصَدِّقُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ ۔ } ” اور جو فیصلے کے دن کی تصدیق کرتے ہیں۔ “ زیر مطالعہ آیات کی سورة المومنون کی ابتدائی آیات کے ساتھ مناسبت کے حوالے سے اس آیت کا تعلق سورة المومنون کی اس آیت سے ہے : { وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ ۔ } ” اور جو لغو باتوں سے اعراض کرنے والے ہیں “۔ گویا زیر مطالعہ آیت سورة المومنون کی مذکورہ آیت کی وضاحت کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے لغویات سے اعراض کیوں کرتے ہیں ؟ اس لیے کہ وہ قیامت اور جزا و سزا کے دن پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے جو شخص آخرت پر یقین رکھتا ہے اس کے لیے تو اس زندگی کا ایک ایک لمحہ امر (کبھی نہ مرنے والا ‘ دائمی) ہے۔ بظاہر تو انسان کی یہ زندگی فانی (finite) ہے ‘ لیکن درحقیقت بالقوہ (potentially) یہ دائمی (infinite) ہے۔ اس لیے کہ اس فانی زندگی کے اعمال کا نتیجہ آخرت کی دوامی زندگی میں نکلے گا۔ دنیا میں انسان اچھے برے جو اعمال بھی کمائے گا ‘ ان اعمال کے اثرات و نتائج آخرت کی زندگی میں ہمیشہ ہمیش کے لیے ہوں گے۔ چناچہ آخرت کی دوامی زندگی کے لیے جو پونجی انسان کو درکار ہے وہ تو دنیوی زندگی کے ” اوقات “ میں ہی کمائی جاسکتی ہے۔ سورة العصر کی پہلی آیت میں تیزی سے گزرتے ہوئے وقت کی قسم کے پردے میں بھی دراصل یہی فلسفہ بیان ہوا ہے۔ گویا انسان کا اصل سرمایہ اس کی مہلت ِعمر یعنی زندگی کے وہ قیمتی لمحات ہیں جو تیزی سے اس کے ہاتھ سے نکلے جا رہے ہیں ؎ غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی گردوں نے گھڑی عمر کی اِک اور گھٹا دی !
17 "Who believe ... Day of Recompense": who do not think they are irresponsible but believe that one Day they will have to appear before their God and render to Him an account of their deeds.
سورة الْمَعَارِج حاشیہ نمبر :17 یعنی دنیا میں اپنے آپ کو غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ نہیں سمجھتے ، بلکہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ ایک دن انہیں اپنے خدا کے حضور حاضر ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا ۔
(70:26) والذین یصدقون بیوم الدین۔ یہ مستثنیات کی تیسری صفت ہے جو روز جزاء کی تصدیق کرتے ہیں۔ یصدقون مضارع کا صیغہ جمع مذکر غائب تصدیق (تفعیل) مصدر سے۔ وہ تصدیق کرتے ہیں۔ وہ سچا مانتے ہیں۔
ف 1 یعنی اپنے اعمال سے تصدیق کرتے ہیں کہ انہیں قیامت کے آنے کا یقین ہے۔
والذین ................ الدین (٠٧ : ٦٢) ” جو روز جزاء کو برحق مانتے ہیں “۔ یہ صفت تو اس سورت کے محور سے براہ راست متعلق ہے ، کیونکہ سورت کا محور اور موضوع قیامت ہے۔ لیکن یہاں ان آیات میں ایک مومن کی نفسیاتی حالت سے بحث ہے۔ قیامت کی تصدیق ایمانیات کا اہم حصہ ہے اور کسی نظام زندگی کی تشکیل میں اس کا شعوری اور عملی اثر ہوتا ہے کیونکہ جو شخص قیامت کی تصدیق کرتا ہے اس کی قدریں اور پیمانے اور ہوتے ہیں اور جو قیامت کی تصدیق نہیں کرتا اس کے بارے میں شک میں ہوتا ہے ، اس کی قدریں بالکل جدا ہوتی ہیں ، چاہے ان کا تعلق نظریات سے ہو یا اعمال سے ہو یا زندگی کے اہم حادثات سے ہو۔ قیامت پر یقین رکھنے والا آسمانوں (خدا) کے میزان اور نظام کے مطابق کام کرتا ہے۔ وہ آخرت کے حساب و کتاب کے لئے تیاری کرتا ہے۔ صرف دنیا پر نظریں مرکوز نہیں کرتا۔ اور اسے زندگی میں جن حادثات اور جن واقعات سے دو چار ہونا پڑے خواہ اچھے ہوں یا برے ، اس کے بارے میں اس کا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ یہ تو دنیا کے عارضی حالات ہیں ، اصل جہاں تو اور ہے۔ لہٰذا وہ اپنی قیامت کو درست کرتا ہے اور جو آخرت کی تکذیب کرتا ہے اس کا سب کچھ اسی دنیا کے لئے ہوتا ہے۔ اگر وہ یہاں کسی چیز سے محروم ہوگیا تو اس کے نزدیک گویا وہ سب چیزوں سے محروم ہوگیا۔ کیونکہ اس کی تمام سرگرمیاں اس جہاں کے لئے ہوتی ہیں۔ چناچہ اس کے حساب و کتاب کے پیمانے مختلف ہوتے ہیں اور وہ ہر معاملے میں ایک غلط نتیجے تک پہنچتا ہے۔ اور وہ اپنے آپ کو اس محدود دنیا کے مختصر وقت کے اندر محدود کردیتا ہے۔ چناچہ یہ بدبخت ، مسکین ، ہر وقت عذاب میں مبتلا اور قلق میں گرفتار ہوتا ہے۔ کیونکہ اس دنیا کے بارے میں اس کے تمام اندازے غلط ہوتے ہیں۔ وہ کبھی مطمئن اور خوش نہیں ہوتا۔ کبھی عادلانہ اور منصفانہ فیصلے نہیں کرتا۔ اس لئے کہ اس کے فیصلے دنیا کے محدود دائرے میں محدود ہوتے ہیں ، لہٰذا یہ خود بھی پریشان ہوتا ہے اور اپنے ماحول کو بھی پریشان کرتا ہے۔ آزردہ دل آزردہ کمند الجمنے را .... غرض وہ اس دنیا میں بھی کوئی اعلیٰ اقدار پر مشتمل زندگی نہیں پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں یوم الاخرت پر یقین کو اسلامی نظریہ حیات کا جز بنایا گیا ہے۔
ثالثاً : ﴿ وَ الَّذِيْنَ يُصَدِّقُوْنَ بِيَوْمِ الدِّيْنِ۪ۙ٠٠٢٦﴾ (اور جو لوگ روز جزا کی تصدیق کرتے ہیں) ۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ مذکورہ بالا جانی اور مالی عبادت جو لگے ہوئے ہیں اس عبادت کے اجر وثواب کی سچے دل سے آرزو رکھتے ہیں اور ثواب آخرت کے لیے اپنی جانوں کو نیک کاموں میں لگاتے اور تھکاتے ہیں چونکہ قیامت پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص مومن ہو ہی نہیں سکتا اور اس ایمان میں سبھی برابر ہیں اس لیے امتیازی شان بتانے کے لیے ان کی تعریف فرمائی ہے یہ لوگ آخرت پر ایمان تو رکھتے ہی ہیں وہاں کے لیے دوڑ دھوپ بھی کرتے ہیں۔