Surat ul Maarijj

Surah: 70

Verse: 28

سورة المعارج

اِنَّ عَذَابَ رَبِّہِمۡ غَیۡرُ مَاۡمُوۡنٍ ﴿۲۸﴾

Indeed, the punishment of their Lord is not that from which one is safe -

بیشک ان کے رب کا عذاب بے خوف ہونے کی چیز نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Verily, the torment of their Lord is that before which none can feel secure. meaning, no one is safe from it (Allah's torment) of those who understand the command from Allah, except by the security of Allah Himself. Then Allah says, وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

28۔ 1 یہ سابقہ مضمون ہی کی تاکید ہے کہ اللہ کے عذاب سے کسی کو بھی بےخوف نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہر وقت اس سے ڈرتے رہنا اور اس سے بچاؤ کی ممکنہ تدابیر اختیار کرتے رہنا چاہیے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ عَذَابَ رَبِّہِمْ غَيْرُ مَاْمُوْنٍ۝ ٢٨ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے أمن أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال/ 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، وقوله : إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمانَةَ عَلَى السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأحزاب/ 72] قيل : هي كلمة التوحید، وقیل : العدالة وقیل : حروف التهجي، وقیل : العقل، وهو صحیح فإنّ العقل هو الذي بحصوله يتحصل معرفة التوحید، وتجري العدالة و تعلم حروف التهجي، بل بحصوله تعلّم كل ما في طوق البشر تعلّمه، وفعل ما في طوقهم من الجمیل فعله، وبه فضّل علی كثير ممّن خلقه . وقوله : وَمَنْ دَخَلَهُ كانَ آمِناً [ آل عمران/ 97] أي : آمنا من النار، وقیل : من بلایا الدنیا التي تصیب من قال فيهم : إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِها فِي الْحَياةِ الدُّنْيا [ التوبة/ 55] . ومنهم من قال : لفظه خبر ومعناه أمر، وقیل : يأمن الاصطلام وقیل : آمن في حکم الله، وذلک کقولک : هذا حلال وهذا حرام، أي : في حکم اللہ . والمعنی: لا يجب أن يقتصّ منه ولا يقتل فيه إلا أن يخرج، وعلی هذه الوجوه : أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنا حَرَماً آمِناً [ العنکبوت/ 67] . وقال تعالی: وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْناً [ البقرة/ 125] . وقوله : أَمَنَةً نُعاساً [ آل عمران/ 154] أي : أمنا، وقیل : هي جمع کالکتبة . وفي حدیث نزول المسیح : «وتقع الأمنة في الأرض» . وقوله تعالی: ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ [ التوبة/ 6] أي : منزله الذي فيه أمنه . وآمَنَ : إنما يقال علی وجهين : - أحدهما متعدیا بنفسه، يقال : آمنته، أي : جعلت له الأمن، ومنه قيل لله : مؤمن . - والثاني : غير متعدّ ، ومعناه : صار ذا أمن . ( ا م ن ) الامن ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ } ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ اور آیت کریمہ :۔ { إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ } ( سورة الأحزاب 72) ہم نے ( بار ) امانت آسمان اور زمین پر پیش کیا (33 ۔ 72) کی تفسیر میں بعض نے عدل و انصاف مراد لیا ہے ۔ بعض نے حروف تہجی اور بعض نے عقل مراد لی ہے اور یہی صحیح ہے کیونکہ معرفت توحید ، عدل و انصاف کا قیام اور حروف تہجی کی معرفت عقل کے بغیر ممکن نہیں ، بلکہ انسان کے لئے علوم ممکنہ کی تحصیل اور افعال حسنہ کی سر انجام دہی عقل کے بغیر مشکل ہے ۔ اور عقل کے باعث ہی انسان کو اکثر مخلوق پر فضیلت دی گئی ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔{ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا } ( سورة آل عمران 97) اور جو شخص اس ( مبارک ) گھر میں داخل ہوا اس نے امن پالیا (3 ۔ 97) میں امن پانے سے مراد دوزخ کی آگ سے بیخوف ہونا کے ہیں اور بعض نے کہا ہے ۔ کہ ان دنیوی مصائب سے بےخوف ہونا مراد ہے جو ان لوگوں کو پہنچتے ہیں جن کے بارے میں { إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا } ( سورة التوبة 55) ۔ خدا چاہتا ہے کہ ان چیزوں سے دنیا زندگی میں ان کو عذاب دے (9 ۔ 55) ارشاد فرمایا ہے اور نہ زیر بحث آیت میں خبر بمعنی انشار ہے یعنی جو شخص حرم میں داخل ہوا ہے امن دیا جائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ہلاکت سے بےخوف ہونا مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ اسے پرامن رہنے دیا جائے جیسے محاورہ ہے ھذاحلال وھذا حرام یعنی اللہ کا حکم یہ ہے کہ یہ جیز حلال ہے اور دوسری حرام ہے لہذا آیت کے معنی یہ ہیں کہ مجرم جب تک حرم کے اندر ہے نہ اس سے قصاص لیا جائے اور نہ ہی کسی جرم میں اسے قتل کیا جائے اسی طرح آیت ؛۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا } ( سورة العنْکبوت 67) ۔ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے حرم کو مقام امن بنا یا ہے (29 ۔ 67) اور آیت { وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا } ( سورة البقرة 125) اور جب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کے لئے جمع ہونے اور امن پانے کی جگہ مقرر کیا (2 ۔ 125) میں بھی امن کے یہی معنی مراد ہوسکتے ہیں اور آیت کریمہ :۔ { أَمَنَةً نُعَاسًا } ( سورة آل عمران 154) ( یعنی ) نیند و نازل فرمائی ) (4 ۔ 154) میں امنۃ بمعنی امن ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ کتبۃ کی طرح اٰمن کی جمع ہے نزول مسیح والی حدیث میں ہے ۔ (15) وتقع الامنۃ فی الارض اور زمین میں امن قائم ہوجائیگا اور آیت کریمہ :۔ { ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ } ( سورة التوبة 6) ۔ پھر اس کو امن کی جگہ واپس پہنچادو (9 ۔ 6) میں مامن ظرف ہے جس کے معنی جائے امن ، ، کے ہیں ۔ امن افعال بنفسہ ۔ جیسے امنتہ ( میں نے اسے امن د یا ) اور اسی معنی کے اعتبار سے اسماء حسنی میں مومن آیا ہے ۔ (2) لاازم جس کے معنی ہیں پرامن ہونے والا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(70:28) ان عذاب ربھم غیر مامون۔ یہ جملہ معترضہ تذییلی ہے۔ جملہ سابقہ میں عذاب ربھم کی وضاحت میں اس کی شدت اور ہمہ گیری کو ذہن نشین کرانے کے لئے آیا ہے۔ ان حرف مشبہ بالفعل (حرف تاکید) عذاب اسم ان (منصوب) مضاف ربھم مضاف مضاف الیہ مل کر مضاف الیہ عذاب کا۔ غیر مامون ان کی خبر۔ مامون امن (باب سمع) مصدر سے اسم مفعول واحد مذکر کا صیغہ یعنی ایسا عذاب جس کا اندیشہ برابر لگے رہنا چاہیے۔ اس کی طرف سے نڈر ہو کر نہ بیٹھنا چاہیے۔ ناقابل بےخوفی۔ خطرناک۔ ان کے رب کا عذاب بےخطر چیز نہیں کیونکہ اس کو روکنے اور دفع کرنے کی کسی میں قدرت نہیں۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ ء امنتم من فی السماء (67:16) کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے نڈر (بیخوف) ہو ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 لفظی مطلب یہ ہے کہ وہ ایسا نہیں ہے کہ اس سے بےخوف ہوا جائے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان عذاب ........................ مامون (٠٧ : ٨٢) ” کیونکہ ان کے رب کا عذاب ایسی چیز نہیں ہے جس سے کوئی بےخوف ہو “۔ اس میں اشارہ ہے اس طرف کہ اللہ کے عذاب سے ہر وقت ڈرتے رہنا چاہئے۔ اور اس سے کسی لحظہ بھی غافل نہیں ہونا چاہئے۔ بعض اوقات غفلت کے اوقات میں ایسے امور سرزد ہوجاتے ہیں جو سبب عذاب ہوتے ہیں۔ لہٰذا غفلت بہت ہی خطرناک ہے۔ اور اللہ کی غرض بھی یہ ہے کہ لوگ ہر وقت حساس رہیں اور بیدار رہیں۔ اور اس کے باوجود اگر ان سے کوئی کمزوری سرزد ہوگئی ہو تو اللہ کی رحمت وسیع ہے اور اس کی مغفرت حاضر ہے۔ اور توبہ کا دروازہ کھلا ہے وہ بند نہیں ہے۔ یہ ہے اسلام کا سیدھا موقف ، جو غفلت اور قلق کے درمیان درمیان ہے کہ انسان کا دل اللہ سے مربوط بھی رے اور وہ ڈرتا بھی رہے اور اس کی رحمت کا امیدوار بھی رہے۔ اور اس کی رحمت پر مطمئن بھی رہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿اِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ غَيْرُ مَاْمُوْنٍ ٠٠٢٨﴾ (بلاشبہ ان کے رب کا عذاب ایسا نہیں جس سے بےخوف ہوں) مطلب یہ ہے کہ صالحین کا یہ طریقہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں بھی لگتے ہیں۔ جانی عبادت بھی کرتے ہیں اور مالی بھی، ان سب کے باوجود ڈرتے بھی رہتے ہیں کہ قبول ہوا یا نہیں ہوا جو اعمال کیے ہیں ان کے علاوہ کتنے چھوٹ گئے ہیں ان کی طرف بھی دھیان رہتا ہے اور اپنی ہر طرح کی لغزش، کمی، کوتاہی اور معصیت کی طرف خیال کرتے ہوئے مواخذہ اور محاسبہ سے ڈرتے رہتے ہیں، اپنے اعمال پر بھروسہ کر کے بےفکر اور مطمئن ہو کر بیٹھ نہیں جاتے۔ سورة ٴ المومنون میں فرمایا ﴿ وَ الَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَاۤ اٰتَوْا وَّ قُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ اَنَّهُمْ اِلٰى رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَۙ٠٠٦٠﴾ (اور جو لوگ دیتے ہیں جو کچھ انہوں نے دیا اس حال میں دیا کہ ان کے دل ڈرتے رہتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں) ۔ اللہ کے عذاب سے مطمئن ہو کر بیٹھ جانا مومنین کی شان نہیں ہے۔ خوف اور طمع دونوں ساتھ ساتھ رہنی چاہیے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(28) بلا شبہ ان کے پروردگار کا عذاب بےخوف ہونے کی چیز نہیں ہے یعنی اس سے نڈر ہونا بھی نہیں چاہیے۔