Surat ul Maarijj

Surah: 70

Verse: 29

سورة المعارج

وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِفُرُوۡجِہِمۡ حٰفِظُوۡنَ ﴿ۙ۲۹﴾

And those who guard their private parts

اور جو لوگ اپنی شرمگاہوں کی ( حرام سے ) حفاظت کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And those who guard their private part (chastity). meaning, they keep their private parts away from that which is forbidden and they prevent their private parts from being put into other than what Allah has allowed them to be in. This is why Allah says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

والذین ھم لفروجھم حفظون …: ان آیات سے بیویا ور لونڈی کے علاوہ جنس خواہش پوری کرنے کے تمام ذرائع مثلاً زنا، متعہ ، لڑکوں یا جانوروں سے بدفعلی اور استمنا بالید وغیرہ کی حرمت ثابت ہوئی، بلکہ ان اسباب کی حرمت بھی معلوم ہوئی جو آدمی کو ان چیزوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ مثلاً عریانی، غیر محرموں سے میل جول، گناہ پر ابھارنے والے گیت، ناول، افسانے اور فلمیں وغیرہ۔ مزید دیکھیے سورة مومنون (٥ تا ٧) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حٰفِظُوْنَ۝ ٢٩ ۙ فرج الفَرْجُ والفُرْجَةُ : الشّقّ بين الشّيئين کفرجة الحائط، والفَرْجُ : ما بين الرّجلین، وكنّي به عن السّوأة، وکثر حتی صار کالصّريح فيه . قال تعالی: وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَها [ الأنبیاء/ 91] ، لِفُرُوجِهِمْ حافِظُونَ [ المؤمنون/ 5] ، وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ [ النور/ 31] ، واستعیر الفَرْجُ للثّغر وكلّ موضع مخافة . وقیل : الفَرْجَانِ في الإسلام : التّرک والسّودان وقوله : وَما لَها مِنْ فُرُوجٍ [ ق/ 6] ، أي : شقوق وفتوق، قال : وَإِذَا السَّماءُ فُرِجَتْ [ المرسلات/ 9] ، أي : انشقّت، والفَرَجُ : انکشاف الغمّ. يقال : فَرَّجَ اللہ عنك، وقوس فَرْجٌ: انفرجت سيتاها، ورجل فَرْجٌ: لا يكتم سرّه، وفَرَجٌ: لا يزال ينكشف فرجه وفَرَارِيجُ الدّجاج لانفراج البیض عنها، ودجاجة مُفْرِجٌ: ذات فراریج، والْمُفْرَجُ : القتیل الذي انکشف عنه القوم فلا يدری من قتله . ( ف ر ج ) & الفرج والفرجہ کے معنی دوچیزوں کے درمیان شگاف کے ہیں ۔ جیسے دیوار میں شگاف یا دونوں ٹانگوں کے درمیان کی کشادگی اور کنایہ کے طور پر فرج کا لفظ شرمگاہ پر بولا جاتا ہے اور کثرت استعمال کی وجہ سے اسے حقیقی معنی سمجھا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَها [ الأنبیاء/ 91] اور ان ( مریم ) کو ( بھی یاد کرو جنہوں نے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا ۔ لِفُرُوجِهِمْ حافِظُونَ [ المؤمنون/ 5] اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ [ النور/ 31] اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں ۔ اور استعارہ کے طور سر حد اور ہر خطرہ کی جگہ کو فرج کیا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اسلامی دور حکومت میں فرجان کا لفظ ترک اور سوڈان پر بولا جاتا تھا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَما لَها مِنْ فُرُوجٍ [ ق/ 6] اور اس میں کہیں شگاف تک نہیں ۔ میں فروج بمعنی شگاف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا السَّماءُ فُرِجَتْ [ المرسلات/ 9] اور جب آسمان پھٹ جائے ۔ میں فرجت بمعنی انشقت ہے یعنی جب آسمان شق ہوجائے گا ۔ الفرج کے معنی غم دور ہونیکے ہیں چناچہ محاورہ ہے ۔ فرج اللہ عنک اللہ تجھ سے غم کو دور کرے اور قوس فرج اس کمان کو کہتے ہیں جس کے دونوں گوشے کشادہ ہوں ۔ جیسا کہ تانت سے علیدہ ہونے کی حالت میں اور جو شخص اپنا بھید نہ چھپائے اس کو فرج کہا جاتا ہے اور فرج اس شخص کو کہتے ہیں جس کی شرمگاہ پر ستر یعنی پردہ نہ ہو ۔ فراریج الدجامرغی کے چوزے کیونکہ وہ انڈوں سے نکتے ہیں اور چوزوں والی مرغی کو مفرج کہا جاتا ہے المفروج وہ قتیل جس سے لوگ دور ہوجائیں اور اس کے قاتل کا علم نہ ہوسکے ۔ حفظ الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] ( ح ف ظ ) الحفظ کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٩۔ ٣١) اور جو کہ شرمگاہوں کو حرام سے محفوظ رکھنے والے ہیں لیکن اپنی چار بیویوں سے یا اپنی شرعی لونڈیوں سے خواہ وہ کتنی ہوں کیونکہ اس حلال کام میں ان پر کوئی الزام اور گناہ نہیں اور جو اس کے علاوہ شہوت رانی کا طلب گار ہو تو یہ لوگ حلال سے حرام کی طرف تجاوز کرنے والے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

19 "Who guard their private parts": who abstain from adultery as well as from nudity and exposing their private parts before others. (For explanation, see E.N 6 of Al-Mu'minun, E.N.'s 30, 32 of An-Nur E.N. 62 of Al-Ahzab) .

سورة الْمَعَارِج حاشیہ نمبر :19 شرم گاہوں کی حفاظت سے مراد زنا سے پرہیز بھی ہے اور عریانی سے پرہیز بھی ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، المومنون ، حاشیہ 6 ۔ النور ، حواشی 30 ۔ 32 ۔ جلد چہارم ، الاحزاب ، حاشیہ 62 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(70:29) والذین ھم لفروجھم حفظون ۔ مستثنیت کی پانچویں صفت ہے اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ فروجھم۔ مضاف مضاف الیہ۔ فروج جمع ہے فرج کی الفرج والفرجۃ کے معنی دو چیزوں کے درمیانی شگاف کے ہیں۔ جیسے امر کی جمع امور ہے۔ جیسے دیوار میں شگاف یا دونوں ٹانگوں کے درمیان کی کشادگی۔ کنایہ کے طور پر فرج کا لفظ شرم گاہ پر بولا جاتا ہے اور کثرت استعمال کی وجہ سے اسے حقیقی معنی سمجھا جاتا ہے۔ بمعنی شگاف قرآن مجید میں ہے وما لہا من فروج (50:6) اور اس میں کہیں شگاف تک نہیں۔ اور دوسری جگہ آیا ہے :۔ واذا السماء فرجت (77:9) اور جب آسمان پھٹ جائے۔ یہاں فرجت بمعنی انشقت ہے۔ حفظون ۔ حفظ (باب سمع) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر۔ حافظ کی جمع۔ نیز اس کی جمع حفاظ بھی ہے۔ نگہبانی کرنے والے۔ حفاظت کرنے والے۔ نگاہ رکھنے والے۔ مطلب یہ کہ اپنی شرمگاہوں کو ایسی جگہوں اور ایسے طریق سے استعمال کرنے ست باز رہتے ہیں جہاں سے شرع نے منع کر رکھا ہے۔ اگلی آیت میں اس کی تفصیل ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بیشک اللہ کے عذاب سے بےخوف نہیں ہونا چاہیے لیکن جن لوگوں نے قرآن کے بیان کردہ اوصاف اپنائے وہ جہنم کے عذاب سے بےخوف ہوں گے، جہنم کے عذاب سے مامون رہنے والوں کے اوصاف میں یہ صفت بھی ہوتی ہے۔ جہنم کے عذاب سے محفوظ رہنے والوں میں یہ وصف بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ہاں انہیں اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے پاس جانے کا حق ہے۔ اس سے ان پر کوئی ملامت نہیں جو لوگ اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے سوا کسی اور کے ساتھ ازدواجی تعلقات اور اس جیسی حرکات کریں گے وہ حد سے نکل جانے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر مرد اور عورت میں ایک دوسرے کے ساتھ ملاپ کرنے کا جذبہ اور قوت رکھی ہے، اس کے لیے میاں بیوی کا رشتہ قائم فرمایا ہے۔ اگر کسی شخص میں جنسی قوت زیادہ ہو یا اس کی معاشرتی ضرورت ہو تو اسے چار بیویوں کے ساتھ لونڈیاں رکھنے کا حق دیا گیا ہے بشرطیکہ وہ شریعت کے مقرر کردہ اصولوں کی پابندی کرے۔ سورة النساء کی آیت ٢٥ کی تشریح میں یہ تفصیل موجود ہے کہ اسلام نے لونڈیاں رکھنے کی کن حالات میں اجازت دی ہے اس کا خلاصہ یہاں عرض کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آزاد عورتوں کو چھوڑ کر لونڈیوں سے شادی کرنے کی دو وجوہ بیان کی ہیں انہیں ذہن نشین رکھنا چاہیے۔ ١۔ آزاد عورت سے شادی کے اخراجات برداشت نہ کرسکتا ہو۔ ٢۔ بدکاری میں ملوث ہونے کے خوف سے لونڈی رکھنا جائز ہے۔ ان دو وجوہات کے علاوہ اسے لونڈی سے شادی کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ جو لوگ مذکورہ بالا اجازت سے ہٹ کر ازواجی تعلقات یا اس کے متعلقات اختیار کریں گے تو وہ حدود اللہ سے نکل جانے والے ہوں گے جنہیں جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ (عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ رَسُول اللَّہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ یَضْمَنْ لِی مَا بَیْنَ لَحْیَیْہِ وَمَا بَیْنَ رِجْلَیْہِ أَضْمَنْ لَہُ الْجَنَّۃَ ) (رواہ البخاری : باب حفظ اللسان) ” سہل بن سعد (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو شخص مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی ضمانت دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ “ (عن أبی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ عَلٰی ابْنِ آدَمَ حَظَّہٗ مِنَ الزِّنَا أَدْرَکَ ذٰلِکَ لَا مَحَالَۃَ فَزِنَا الْعَیْنِ النَّظَرُ وَزِنَا اللِّسَانِ الْمَنْطِقُ وَالنَّفْسُ تَمَنّٰی وَتَشْتَہِی وَالْفَرْجُ یُصَدِّقُ ذٰلِکَ کُلَّہٗ وَیُکَذِّبُہُ ) (رواہ البخاری : کتاب الاستئذان، باب زنا الجوارح دون الفرج) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آدم کی اولاد پر اس کا حصہ زنا کا مقرر کردیا ہے وہ اس سے بچ نہیں سکتا وہ اس کو پالے گا، آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے اور زبان کا زنا فحش باتیں کرنا ہے، انسان کا نفس اس کی خواہش کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔ “ (تصدیق کرنے سے مراد عملاً بدکاری کرنا اور تکذیب سے مراد اس سے بچے رہنا ہے۔ ) (عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَا ےَزْنِی الزَّانِیْ حِےْنَ ےَزْنِیْ وَھُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا ےَسْرِقُ السَّارِقُ حِےْنَ ےَسْرِقُ وَھُوَ مُؤْمِنٌ وَّلَا ےَشْرَبُ الْخَمْرَ حِےْنَ ےَشْرَبُھَا وَھُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا ےَنْتَھِبُ نَھْبَۃً یَّرْفَعُ النَّاسُ اِلَےْہِ فِےْھَا اَبْصَارَھُمْ حِےْنَ ےَنْتَھِبُھَا وَھُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا ےَغُلُّ اَحَدُکُمْ حِےْنَ ےَغُلُّ وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَاِیَّاکُمْ اِیَّاکُمْ ۔ ) (رواہ البخاری : کتاب الأشربۃ) حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان بیان کرتے ہیں کہ زانی زنا کرتے وقت مومن نہیں ہوتا، چور چوری کرتے ہوئے ایمان سے خارج ہوتا ہے، شرابی شراب پیتے وقت ایماندار نہیں ہوتا۔ جب ڈاکو کسی ایسی چیز پر ڈاکہ ڈالتا ہے کہ لوگ اس کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھتے ہیں۔ وہ ایمان سے تہی دامن ہوتا ہے۔ خائن خیانت کرتے ہوئے مومن نہیں رہ سکتا۔ تمہیں اپنے آپ کو ان گناہوں سے دور رکھنا چاہیے۔ “ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَجُلٌ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَیُّ الذَّنْبِ اَکْبَرُ عِنْدَاللّٰہِ قَالَ اَنْ تَدْعُوَلِلّٰہِ نِدًّا وَّھُوَ خَلَقَکَ قَالَ ثُمَّ اَیٌّ قَالَ اَنْ تَقْتُلَ وَلَدَکَ خَشْےَۃَ اَنْ یَّطْعَمَ مَعَکَ قَالَ ثُمَّ اَیٌّ قَالَ اَنْ تُزَانِیَ حَلِےْلَۃَ جَارِکَ فَاَنْزَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی تَصْدِےْقَھَا (وَالَّذِےْنَ لَا ےَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ وَلَا ےَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِاْلحَقِّ وَلَا ےَزْنُوْنَ ۔۔ الایۃ) (پ ١٩: ع ٤) (رواہ البخاری : کتاب الدیات) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں ایک شخص رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کرتا ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کون سا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔ اس نے پوچھا اسکے بعد کونسا بڑا گناہ ہے ؟ فرمایا تو اپنی اولاد کو اس لئے قتل کرے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے پیے گی وہ پھر پوچھتا ہے۔ اسکے بعد کونسا ؟ فرمایا ؛ تو اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ بدکاری کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اسکی تصدیق میں فرمایا ” مومن وہ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی کو نہیں پکارتے نہ وہ ناجائز کسی کو قتل کرتے ہیں اور نہ ہی وہ بدکاری کرتے ہیں۔ “ (عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خُذُوا عَنِّی خُذُوا عَنِّی قَدْ جَعَلَ اللہُ لَہُنَّ سَبِیلًا الْبِکْرُ بالْبِکْرِ جَلْدُ ماءَۃٍ وَنَفْیُ سَنَۃٍ وَالثَّیِّبُ بالثَّیِّبِ جَلْدُ ماءَۃٍ ، وَالرَّجْم) (صحیح مسلم : بَابُ حَدِّ الزِّنَی) ” حضرت عبادہ بن صامت (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھ سے سیکھ لو اللہ تعالیٰ نے عورتوں اور مردوں کے لیے اصول بنائے ہے اگر کنوار مرد کنواری عورت سے زنا کرے تو اسے سو کوڑے مارو اور ایک سال کے لیے جلا وطن کر دو اور اگر شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت سے زنا کرے تو اسے سو کوڑے مارو اور رجم کر دو ۔ “ مسائل ١۔ اللہ کے عذاب سے بےخوف نہیں ہونا چاہیے۔ ٢۔ لونڈیوں کے ساتھ ازواجی تعلقات قائم کرنا جائز ہے۔ ٣۔ ہر مسلمان مرد اور عورت کو اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنی چاہیے۔ ٤۔ اللہ کی مقرر کردہ حدود سے آ گے بڑھنا ان سے تجاوز کرنا ہے۔ تفسیر بالقرآن بدکاری کا گناہ اور اس کی سزا : ١۔ تہمت لگانے والے کی سزا۔ (النور : ٤) ٢۔ کنوارے زانی مرد وزن کو سو کوڑے مارنے کا حکم۔ (النور : ٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

والذین .................... ھم العدون (١٣) (٠٧ : ٩٢ تا ١٣) ” جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں .... بجز اپنی بیویوں یا اپنی مملو کہ عورتوں کے ، جن سے محفوظ نہ رکھنے میں ان پر کوئی ملامت نہیں ، البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی حد سے تجاوز کرنے والے ہیں “۔ لہٰذا وہ اپنی بیویوں اور اپنی مملوکہ لونڈیوں کے ساتھ پاکیزہ تعلق قائم کرسکتے ہیں اور یہ تعلق پاکیزہ بھی ہو اور قانونی بھی ہو۔ اور اسلام لونڈیوں کا واحد قانونی راستہ اس طرح تجویز کرتا ہے کہ جو عورتیں جنگی قیدی کے طور پر آئیں اور ان کو فدیہ اور احسان کے طور پر چھوڑنے کا فیصلہ اسلامی حکومت نے نہ کیا ہو۔ اس سلسلے میں سورة محمد کی یہ آیت اصول طے کرتی ہے : فاذا ............................ اوزارھا ” پس جب کافروں سے تمہاری مڈبھیڑ ہو تو پہلا کام گردنیں مارنا ہے یہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو ، اس کے بعد احسان کرو یا فدیے کا معاملہ کرو تاکہ آنکہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے “۔ لیکن بعض اوقات کسی قیدی کا تبادلہ نہیں ہوتا ، فدیہ بھی نہیں ملتا ، اور حکومت اسلامی بطور احسان چھوڑنے کا ارادہ بھی نہیں رکھتی تو اس صورت میں قیدی مرد یا عورت غلام ہوں گے جب تک دوسرا فریق مسلمان قیدیوں کو غلام بناتا ہے۔ اگرچہ دشمن قوم غلامی کا کوئی اور نام رکھ دے۔ یوں اس ناگزیر صورت میں اسلام نے لونڈیوں کے ساتھ صرف ان کے مالکوں کو معاشرت کی جازت دی ہے اور ان غلاموں کی آزادی کا بندوبست اسلام نے پھر ان صورتوں میں کسی ایک کے ذریعے کیا جو اس نے غلاموں کی آزادی کے لئے تجویز کیں۔ غلاموں کی آزادی کا بندوبست قرآن نے متعدد ذرائع سے کیا۔ اس طرح اسلام نے قدی عورتوں کو معاشرے میں کھپانے کا ایک واضح بندوبست کیا تاکہ وہ معاشرے کی اندر شتر بےمہار کی طرح پھر کر گندگی نہ پھیلائیں ، یوں ان کو معاشرے میں آزاد کردیا جائے کہ جو چاہئیں کریں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

خامساً فرمایا ﴿ وَ الَّذِيْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ٠٠٢٩﴾ (اور جو لوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

9:۔ ” والذین ھم لفروجہم حافظون “ وہ اپنی شرمگاہوں کو بدکاری سی محفوظ رکھتے ہیں اور ناجائز طریق پر ان کو استعمال نہیں کرتے، البتہ اپنی بیویوں اور لونڈیوں سے استمتاع کرتے ہیں۔ جو شخص بیویوں اور لونڈیوں کے علاوہ شہوت رانی کی کوئی اور راہ تلاش کرے گا وہ حد سے تجاوز کرے گا۔ استمناء بلید، وطی فی الدبر اور نکاح متعہ وغیرہ ناجائز طریقوں میں داخل ہیں۔ نکاح متعہ کی تحقیق سورة مومنون کی تفسیر میں گذر چکی ہے ملاحظہ ص 754 ص حاشیہ 7 ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(29) اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے اور محفوظ کرنے والے ہیں۔