Surat ul Maarijj

Surah: 70

Verse: 40

سورة المعارج

فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِرَبِّ الۡمَشٰرِقِ وَ الۡمَغٰرِبِ اِنَّا لَقٰدِرُوۡنَ ﴿ۙ۴۰﴾

So I swear by the Lord of [all] risings and settings that indeed We are able

پس مجھے قسم ہے مشرقوں اور مغربوں کے رب کی ( کہ ) ہم یقیناً قادر ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَلَ أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ ... But no! I swear by the Lord of the easts and the wests. meaning, the One Who created the heavens and the earth and made the east and the west. He is the One Who subjected the stars causing them to appear in the eastern parts of the sky and vanish in the western parts of it. The point of this statement is that the matter is not as the disbelievers claim: that there is no final return, no reckoning, no resurrection and no gathering. Rather all of this will occur and come to pass. There is no way of avoiding it. This is the reason that Allah has stated a negation at the beginning of this oath. This shows that He is swearing by a denial of their claim. This is a refutation of their false claim of rejecting the Day of Judgement. They already witnessed the greatness of Allah's power in what is more convincing than the Day of Judgement, that is the creation of the heavens and the earth, and the subjection of the creatures in them, the animals, the inanimate objects and the other types of creatures that exist. This is why Allah says, لَخَلْقُ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ أَكْـبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلَـكِنَّ أَكْـثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ The creation of the heavens and the earth is indeed greater than the creation of mankind; yet, most of mankind know not. (40:57) Allah also says, أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّ اللَّهَ الَّذِى خَلَقَ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ وَلَمْ يَعْىَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَادِرٍ عَلَى أَن يُحْىِ الْمَوْتَى بَلَى إِنَّهُ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ Do they not see that Allah, Who created the heavens and the earth, and was not wearied by their creation, is able to give life to the dead? Yes, He surely is Able to do all things. (46:33) Allah says in another Ayah, أَوَلَـيْسَ الَذِى خَلَقَ السَّمَـوتِ وَالاٌّرْضَ بِقَـدِرٍ عَلَى أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُم بَلَى وَهُوَ الْخَلَّـقُ الْعَلِيمُ إِنَّمَأ أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْياً أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ Is not He Who created the heavens and the earth, able to create the like of them? Yes, indeed! He is the All-Knowing Supreme Creator. Verily, His command, when He intends a thing, is only that He says to it, "Be!"-- and it is! (36:81,82) So here He says, فَلَ أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ إِنَّا لَقَادِرُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٥] مشرق عموماً سورج کے طلوع ہونے کی جگہ اور مغرب سورج کے غروب ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ سورة مزمل میں ایک مشرق اور ایک مغرب کا ذکر ہے۔ سورة الرحمن میں دو مشرقوں اور دو مغربوں کا ذکر ہے۔ اور اس مقام پر بہت سے مشرقوں اور مغربوں کا ذکر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موسم سرما کے سب سے چھوٹے دن یعنی ٢٢ دسمبر کو سورج مشرق کی طرف سے نکلنے کے باوجود جنوب کی طرف بہت زیادہ مائل ہوتا ہے۔ اسی طرح اس دن سورج کا مغرب بھی جنوب کی طرف بہت زیادہ مائل ہوتا ہے۔ اسی طرح موسم گرما میں سب سے بڑے دن یعنی ٢٢ جون کو سورج مشرق کی سمت سے نکلنے کے باوجود شمال کی طرف بہت زیادہ مائل ہوتا ہے اسی طرح اس دن جب مغرب میں غروب ہوتا ہے تو شمال کی طرف بہت زیادہ مائل ہوتا ہے اور جب دن رات برابر ہونے کے دن یعنی ٢٢ مارچ اور ٢٢ ستمبر کو سورج عین مشرق سے طلوع ہو کر عین مغرب میں غروب ہوجاتا ہے جیسا کہ سامنے کے نقشے سے واضح ہے : ب ج الف د اس نقشہ میں مقام && الف && اور && ب && مشرقین ہیں اور مقام && ج && اور && د && مغربین ہیں۔ پھر ان مشرقین اور مغربین کے درمیان ٣٦٥ مشرق ہیں اور اتنے ہی مغرب کیونکہ سورج ہر روز ایک نئے زاویہ سے طلوع ہوتا ہے۔ یہ صورت تو صرف ایک سیارے سورج کی ہے۔ جبکہ بہت سے سیارے مشرق سے طلوع ہو کر مغرب میں جا ڈوبتے ہیں۔ اس طرح مشرقوں اور مغربوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فلا اقسم برب المشرق…: سورج مشرق سے ہر روز نئی جگہ سے طلوع ہوتا ہے اور مغرب میں نئی جگہ غروب ہوتا ہے۔ وہ جگہیں بھی ہر شہر اور ہر جگہ کے لحاظ سے الگ الگ ہوتی ہیں ، اس لحاظ سے مشرقوں اور مغربوں کی تعداد کا اندازہ ہی نہیں ہوسکتا۔ قسم سے پہلے ” لا “ کہہ کر منکرین کے قول کی نفی کی گئی ہے، پھر مشاورق و مغارب کے رب کی قسم کھا کر فرمایا کہ ہم اس بات پر قادر ہیں کہ انہیں ختم کر کے ان سے بہتر لوگ لے آئیں اور ہم کچھ عاجز نہیں ہیں۔ قسم کی مناسبت یہ ہے کہ ہم مشاورق و مغارب کے رب ہیں، آسمان و زمین اور سورج وغیرہ سب ہمارے قبضے میں ہیں، کوئی شخص ہمیں عاجز کر کے ہماری گرفت سے نکل نہیں سکتا۔ ہم جب چاہیں انہیں ہلاک کرسکتے ہیں اور ان کی جگہ ان سے بہتر لوگ لاسکتے ہیں، مگر ہم نے اپنی حکمت کی وجہ سے انہیں مہلت دے رکھی ہے۔ اس قسم اور جواب قسم سے ایک اور بات بھی نکل رہی ہے کہ جب ہم ان سے بہتر ایک بالکل نئی مخلوق پیدا کرسکتے ہیں تو انہیں دوبارہ کیوں پیدا نہیں کرسکتے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَآ اُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشٰرِقِ وَالْمَغٰرِبِ اِنَّا لَقٰدِرُوْنَ۝ ٤٠ ۙ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ قْسَمَ ( حلف) حلف، وأصله من الْقَسَامَةُ ، وهي أيمان تُقْسَمُ علی أولیاء المقتول، ثم صار اسما لكلّ حلف . قال : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام/ 109] ، أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف/ 49] ، وقال : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة/ 1- 2] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ، إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم/ 17] ، فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة/ 106] اقسم ( افعال کے معنی حلف اٹھانے کے ہیں یہ دروصل قسامۃ سے مشتق ہے اور قسیا مۃ ان قسموں کو کہا جاتا ہے جو او لیائے مقتول پر تقسیم کی جاتی ہیں پھر مطلق کے معنی استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام/ 109] اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف/ 49] کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے مارے میں تم قسمیں کھایا کرتی تھے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة/ 1- 2] ہم کو روز قیامت کی قسم اور نفس لوامہ کی ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم/ 17] جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم صبح ہوتے اس کا میوہ توڑلیں گے ۔ فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة/ 106] اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں ۔ ماسمعتہ وتقاسما باہم قسمیں اٹھانا ۔ قرآن میں ہے : وَقاسَمَهُما إِنِّي لَكُما لَمِنَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف/ 21] اور ان کی قسم کھاکر کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ شرق شَرَقَتِ الشمس شُرُوقاً : طلعت، وقیل : لا أفعل ذلک ما ذرّ شَارِقٌ وأَشْرَقَتْ : أضاءت . قال اللہ : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص/ 18] أي : وقت الإشراق . والْمَشْرِقُ والمغرب إذا قيلا بالإفراد فإشارة إلى ناحیتي الشَّرْقِ والغرب، وإذا قيلا بلفظ التّثنية فإشارة إلى مطلعي ومغربي الشتاء والصّيف، وإذا قيلا بلفظ الجمع فاعتبار بمطلع کلّ يوم ومغربه، أو بمطلع کلّ فصل ومغربه، قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن/ 17] ، بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ، وقوله تعالی: مَکاناً شَرْقِيًّا[ مریم/ 16] ، أي : من ناحية الشّرق . والْمِشْرَقَةُ : المکان الذي يظهر للشّرق، وشَرَّقْتُ اللّحم : ألقیته في الْمِشْرَقَةِ ، والْمُشَرَّقُ : مصلّى العید لقیام الصلاة فيه عند شُرُوقِ الشمس، وشَرَقَتِ الشمس : اصفرّت للغروب، ومنه : أحمر شَارِقٌ: شدید الحمرة، وأَشْرَقَ الثّوب بالصّبغ، ولحم شَرَقٌ: أحمر لا دسم فيه . ( ش ر ق ) شرقت ( ن ) شروقا ۔ الشمس آفتاب طلوع ہوا ۔ مثل مشہور ہے ( مثل ) الاافعل ذالک ماذر شارق واشرقت جب تک آفتاب طلوع ہوتا رہیگا میں یہ کام نہیں کروں گا ۔ یعنی کبھی بھی نہیں کروں گا ۔ قرآن میں ہے : بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْراقِ [ ص/ 18] صبح اور شام یہاں اشراق سے مراد وقت اشراق ہے ۔ والْمَشْرِقُ والمغربجب مفرد ہوں تو ان سے شرقی اور غربی جہت مراد ہوتی ہے اور جب تثنیہ ہوں تو موسم سرما اور گرما کے دو مشرق اور دو مغرب مراد ہوتے ہیں اور جمع کا صیغہ ہو تو ہر روز کا مشرق اور مغرب مراد ہوتا ہے یا ہر موسم کا قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] وہی مشرق اور مغرب کا مالک ( ہے ) رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن/ 17] وہی دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا مالک ہے ۔ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] اور مشرقوں کا رب ہے ۔ مَکاناً شَرْقِيًّا[ مریم/ 16] مشر ق کی طرف چلی گئی ِ ۔ المشرقۃ جاڑے کے زمانہ میں دھوپ میں بیٹھنے کی جگہ جہاں سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی دھوپ پڑتی ہو ۔ شرقت اللحم ۔ گوشت کے ٹکڑے کر کے دھوپ میں خشک کرنا ۔ المشرق عید گاہ کو کہتے ہیں کیونکہ وہاں طلوع شمس کے بعد نماز اد کی جاتی ہے ۔ شرقت الشمس آفتاب کا غروب کے وقت زردی مائل ہونا اسی سے احمر شارق کا محاورہ ہے جس کے معنی نہایت سرخ کے ہیں ۔ اشرق الثوب کپڑے کو خالص گہرے رنگ کے ساتھ رنگنا ۔ لحم شرق سرخ گوشت جس میں بالکل چربی نہ ہو ۔ غرب الْغَرْبُ : غيبوبة الشّمس، يقال : غَرَبَتْ تَغْرُبُ غَرْباً وغُرُوباً ، ومَغْرِبُ الشّمس ومُغَيْرِبَانُهَا . قال تعالی: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] ، رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن/ 17] ، بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] ، وقد تقدّم الکلام في ذكرهما مثنّيين ومجموعین «4» ، وقال : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] ، وقال : حَتَّى إِذا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَغْرُبُ [ الكهف/ 86] ، وقیل لكلّ متباعد : غَرِيبٌ ، ولكلّ شيء فيما بين جنسه عدیم النّظير : غَرِيبٌ ، وعلی هذا قوله عليه الصلاة والسلام : «بدأ الإسلام غَرِيباً وسیعود کما بدأ» «5» وقیل : العلماء غُرَبَاءُ ، لقلّتهم فيما بين الجهّال، والغُرَابُ سمّي لکونه مبعدا في الذّهاب . قال تعالی: فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ [ المائدة/ 31] ، وغَارِبُ السّنام لبعده عن المنال، وغَرْبُ السّيف لِغُرُوبِهِ في الضّريبة «6» ، وهو مصدر في معنی الفاعل، وشبّه به حدّ اللّسان کتشبيه اللّسان بالسّيف، فقیل : فلان غَرْبُ اللّسان، وسمّي الدّلو غَرْباً لتصوّر بعدها في البئر، وأَغْرَبَ الساقي : تناول الْغَرْبَ ، والْغَرْبُ : الذّهب «1» لکونه غَرِيباً فيما بين الجواهر الأرضيّة، ومنه : سهم غَرْبٌ: لا يدری من رماه . ومنه : نظر غَرْبٌ: ليس بقاصد، و، الْغَرَبُ : شجر لا يثمر لتباعده من الثّمرات، وعنقاء مُغْرِبٌ ، وصف بذلک لأنه يقال : کان طيرا تناول جارية فَأَغْرَبَ «2» بها . يقال عنقاء مُغْرِبٌ ، وعنقاء مُغْرِبٍ بالإضافة . والْغُرَابَانِ : نقرتان عند صلوي العجز تشبيها بِالْغُرَابِ في الهيئة، والْمُغْرِبُ : الأبيض الأشفار، كأنّما أَغْرَبَتْ عينُهُ في ذلک البیاض . وَغَرابِيبُ سُودٌ [ فاطر/ 27] ، قيل : جَمْعُ غِرْبِيبٍ ، وهو المُشْبِهُ لِلْغُرَابِ في السّواد کقولک : أسود کحلک الْغُرَابِ. ( غ رب ) الغرب ( ن ) سورج کا غائب ہوجانا غربت نغرب غربا وغروبا سورج غروب ہوگیا اور مغرب الشمس ومغیر بانھا ( مصغر ) کے معنی آفتاب غروب ہونے کی جگہ یا وقت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ [ الشعراء/ 28] وہی ) مشرق اور مٖغرب کا مالک ہے ۔ رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ [ الرحمن/ 17] وہی دونوں مشرقوں اور مغربوں کا مالک ہے ۔ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج/ 40] مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ ان کے تثنیہ اور جمع لانے کے بحث پہلے گذر چکی ہے ۔ نیز فرمایا : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] کہ نہ مشرق کی طرف سے اور نہ مغرب کی طرف ۔ حَتَّى إِذا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَها تَغْرُبُ [ الكهف/ 86] یہاں تک کہ جب سورج کے غروب ہونے جگہ پہنچا ۔ اور ہر اجنبی کو غریب کہاجاتا ہے اور جو چیز اپنی ہم جنس چیزوں میں بےنظیر اور انوکھی ہوا سے بھی غریب کہہ دیتے ہیں ۔ اسی معنی میں آنحضرت نے فرمایا (58) الاسلام بدء غریبا وسعود کمابدء کہ اسلام ابتداء میں غریب تھا اور آخر زمانہ میں پھر پہلے کی طرح ہوجائے گا اور جہلا کی کثرت اور اہل علم کی قلت کی وجہ سے علماء کو غرباء کہا گیا ہے ۔ اور کوے کو غراب اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ بھی دور تک چلا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ [ المائدة/ 31] اب خدا نے ایک کو ابھیجا جو زمین کریدٹے لگا ۔ اور غارب السنام کے معنی کو ہاں کو بلندی کے ہیں کیونکہ ( بلندی کی وجہ سے ) اس تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے اور غرب السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں کیونکہ تلوار بھی جسے ماری جائے اس میں چھپ جاتی ہے لہذا ی مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ پھر جس طرح زبان کو تلوار کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے اسی طرح زبان کی تیزی کو بھی تلوار کی تیزی کے ساتھ تشبیہ دے کر فلان غرب اللسان ( فلاں تیز زبان ہے ) کہاجاتا ہے اور کنوئیں میں بعد مسافت کے معنی کا تصور کرکے ڈول کو بھی غرب کہہ دیا جاتا ہے اور اغرب الساقی کے معنی ہیں پانی پلانے والے ڈول پکڑا اور غرب کے معنی سونا بھی آتے ہیں کیونکہ یہ بھی دوسری معدنیات سے قیمتی ہوتا ہے اور اسی سے سھم غرب کا محاورہ ہے یعنی دہ تیر جس کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ کدھر سے آیا ہے ۔ اور بلا ارادہ کسی طرف دیکھنے کو نظر غرب کہاجاتا ہے اور غرب کا لفظ بےپھل درخت پر بھی بولا جاتا ہے گویا وہ ثمرات سے دور ہے ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ عنقاء جانور ایک لڑکی کو اٹھا کر دوردروازلے گیا تھا ۔ اس وقت سے اس کا نام عنقاء مغرب اوعنقاء مغرب ( اضافت کے ساتھ ) پڑگیا ۔ الغرابان سرینوں کے اوپر دونوں جانب کے گڑھے جو ہیت میں کوے کی طرح معلوم ہوتے ہیں ۔ المغرب گھوڑا جس کا کر انہ ، چشم سفید ہو کیونکہ اس کی آنکھ اس سفیدی میں عجیب و غریب نظر آتی ہے ۔ اور آ یت کریمہ : وَغَرابِيبُ سُودٌ [ فاطر/ 27] کہ غرابیب کا واحد غربیب ہے اور اس کے معنی کوئے کی طرح بہت زیادہ سیاہ کے ہیں جس طرح کہ اسود کحلک العراب کا محاورہ ہے ۔ ( یعنی صفت تاکیدی ہے اور اس میں قلب پایا جاتا ہے اصل میں سود غرابیب ہے ۔ قادر الْقُدْرَةُ إذا وصف بها الإنسان فاسم لهيئة له بها يتمكّن من فعل شيء ما، وإذا وصف اللہ تعالیٰ بها فهي نفي العجز عنه، ومحال أن يوصف غير اللہ بالقدرة المطلقة معنی وإن أطلق عليه لفظا، بل حقّه أن يقال : قَادِرٌ علی كذا، ومتی قيل : هو قادر، فعلی سبیل معنی التّقييد، ولهذا لا أحد غير اللہ يوصف بالقدرة من وجه إلّا ويصحّ أن يوصف بالعجز من وجه، والله تعالیٰ هو الذي ينتفي عنه العجز من کلّ وجه . ( ق د ر ) القدرۃ ( قدرت) اگر یہ انسان کی صنعت ہو تو اس سے مراد وہ قوت ہوتی ہے جس سے انسان کوئی کام کرسکتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے قادرہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ عاجز نہیں ہے اور اللہ کے سوا کوئی دوسری ہستی معنوی طور پر قدرت کا ملہ کے ساتھ متصف نہیں ہوسکتی اگرچہ لفظی طور پر ان کیطرف نسبت ہوسکتی ہے اس لئے انسان کو مطلقا ھو قادر کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ تقیید کے ساتھ ھوقادر علی کذا کہاجائیگا لہذا اللہ کے سوا ہر چیز قدرت اور عجز دونوں کے ساتھ متصف ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ایسی ہے جو ہر لحاظ سے عجز سے پاک ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٠{ فَلَآ اُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشٰرِقِ وَالْمَغٰرِبِ } ” تو نہیں ! قسم ہے مجھے مشرقوں اور مغربوں کے ربّ کی “ قرآن مجید میں صیغہ واحد کے طور پر تو مشرق اور مغرب کا ذکر بہت مرتبہ آیا ہے۔ سورة الرحمن کی آیت ١٧ میں رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَیْنِبھی ہے ‘ جبکہ آیت زیر مطالعہ میں دونوں سمتوں کے لیے جمع کے صیغے آئے ہیں۔ مشرق و مغرب سے متعلق ان تینوں صیغوں (واحد ‘ تثنیہ اور جمع) کی وضاحت سورة الرحمن کی آیت ١٧ کے تحت کی جا چکی ہے۔ { اِنَّا لَقٰدِرُوْنَ ۔ } ” یقینا ہم قادر ہیں۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

27 That is, the truth is not that which these people think it is. 28 Here, Allah has sworn an oath by Himself. The words Easts and Wests have been used because the sun rises and sets at a new angle every day during the year, and goes on rising and setting successively at different times around the globe. Thus considered the Easts and the Wests are not one but many. From another point of view as against the north and the south there is a direction of east and a direction of west. On this basis in Surah Ash-Shu`ara': 28 and AlMuzzammi1:19 the words Rabb-ul-rnashriqi wal-maghrib have been used. From still another view-point the earth has two easts and two wests, for when the sun sets on one hemisphere, it rises on the other. On this basis the words Rabb-ul-mashriqayn wa Rabb-ul-maghribayn (Lord of two easts and two wests) have been used in Surah Ar-Rahman: 17. (For further explanation, see E.N. 17 of Ar-Rahman) .

سورة الْمَعَارِج حاشیہ نمبر :27 یعنی بات وہ نہیں ہے جو انہوں نے سمجھ رکھی ہے ۔ سورة الْمَعَارِج حاشیہ نمبر :28 یہاں اللہ تعالی نے خود اپنی ذات کی قسم کھائی ہے ۔ مشرقوں اور مغربوں کا لفظ اس بنا پر استعمال کیا گیا ہے کہ سال کے دوران میں سورج ہر روز ایک نئے زاویے سے طلوع اور نئے زاویے پر غروب ہوتا ہے ۔ نیز زمین کے مختلف حصوں پر سورج الگ الگ اوقات میں پے درپے طلوع اور غروب ہوتا چلا جاتا ہے ۔ ان اعتبارات سے مشرق اور مغرب ایک نہیں ہیں بلکہ بہت سے ہیں ۔ ایک دوسرے اعتبار سے شمال اور جنوب کے مقابلے میں ایک جہت مشرق ہے اور دوسری جہت مغرب ۔ اس بنا پر سورہ شعراء ، آیت 28 اور سورہ مزمل ، آیت 19 میں رب المشرق و المغرب کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ ایک اور لحاظ سے زمین کے دو مشرق اور دو مغرب ہیں ، کیونکہ جب زمین کے ایک نصف کرے پر سورج غروب ہوتا ہے تو دوسرے پر طلوع ہوتا ہے ۔ اس بنا پر سورہ رحمن ، آیت 17 میں رب المشرقین و رب المغربین کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، الرحمن ، حاشیہ 17 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(70:40) فلا اقسم برب المشرق والمغرب انا لقدرون ۔ ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 مشرق (پورب) کئی ہیں کیونکہ ہر روز سورج ایک نئی جگہ سے طلوع ہوتا ہے اسی طرح مغرب پچھم) کیونکہ ہر روز سورج ایک نئی جگہ غروب ہوتا ہے۔ (تفصیل سورة صافات کی آیت 5 کے تحتگزر چکی ہے۔ )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فلا اقسم .................... بمسبوقین اس معاملے پر قسم اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ مشرقوں اور مغربوں کے رب کی طرف اشارہ کرکے اللہ کی عظمت کو بتایا گیا۔ مشارق ومغارب سے کبھی تو ستاروں کے مقامات طلوع مراد ہوتے ہیں جو بہت زیادہ ہیں جو اس طویل و عریض کائنات میں بہت زیادہ ہیں اور اس سے یہ مفہوم بھی مراد لیا جاسکتا ہے کہ وہ مشرق جو مختلف علاقوں میں مسلسل آتے رہتے ہیں اور یہ مشرق بروقت رہتے ہیں کیونکہ جب زمین اپنے محور کے گرد گھومتی ہے تو دنیا کی کوئی نہ کوئی جگہ مشرق ہوتی ہے اور کوئی نہ کوئی جگہ مغرب ہوتی ہے۔ بہرحال مشارق ومغارب کا جو مفہوم بھی ہو ، اس سے اس کائنات کی ضخامت معلوم ہوتی ہے۔ اور خالق کائنات کی عظمت کا تصور ابھرتا ہے۔ کیا ان بےوقعت وبے قیمت لوگوں کا معاملہ ، جن کو ہم نے جس چیز سے پیدا کیا ہے اسے یہ جانتے ہیں ، اس بات کا محتاج ہے کہ رب المشارق اور رب المغارب کے نام کی قسم اٹھائی جائے۔ جبکہ وہ ان جیسے دوسرے لوگوں اٹھانے پر قادر ہے۔ اور وہ اس کے مقابلے میں نہیں آسکتے ، اس سے بچ نہیں سکتے۔ اس سے کہیں بھاگ نہیں سکتے۔ جب سیاق کلام اس مقطع تک پہنچتا ہے او یہ بتادیا جاتا ہے کہ قیامت کا عذاب کس قدر ہولناک ہے اور اس دن کافروں کی کیا ذلت ہوگی اور مومنین کی کیا عزت ہوگی ، تو اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف روئے سخن پھرجاتی ہے کہ آپ پریشان نہ ہوں اور ان لوگوں کو چھوڑ دیں کہ وہ اسی دن کے عذاب کے لئے آگے بڑھیں۔ اس موقعہ پر پھر اس عذاب کے منظر کو یہاں بیان کیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ کس قدر کربناک منظر ہے یہ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا : ﴿ فَلَاۤ اُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشٰرِقِ وَ الْمَغٰرِبِ اِنَّا لَقٰدِرُوْنَۙ٠٠٤٠﴾ (الآیتین) (سو میں مشرقوں اور مغربوں کے رب کی قسم کھاتا ہوں کہ بلاشبہ ہم اس پر قادر ہیں کہ ان کی جگہ ان سے بہتر لوگ لے آئیں) یعنی ہمیں اس پر قدرت ہے کہ ان لوگوں کو بالکل ختم کردیں اور ان کی جگہ دوسرے لوگ لے آئیں جو ان سے بہتر ہوں، یعنی ہم ان کو ختم کر کے ان سے بہتر لوگ پیدا کرنے پر قادر ہیں تم بھی دوبارہ پیدا ہوسکتے ہو اور تمہاری جگہ دوسری مخلوق بھی پیدا ہوسکتی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

13:۔ ” فلا اقسم “ قدرت کاملہ کا بیان ہے۔ مشرق و مغرب کے مالک کی قسم ہم اس پر قادر ہیں کہ ان کو ہلاک کردیں اور ان کی جگہ ایسے انسانوں کو لے آئیں جو ایمان و عمل میں ان سے بہتر ہوں اور اس کام سے ہم عاجز اور درماندہ نہیں ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(40) پس میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک و پروردگار کی قسم کھاتا ہوں کہ ہم اس بات پر یقینا قادر ہیں اور پوری طرح قدرت رکھتے ہیں۔