Surat ul Maarijj

Surah: 70

Verse: 5

سورة المعارج

فَاصۡبِرۡ صَبۡرًا جَمِیۡلًا ﴿۵﴾

So be patient with gracious patience.

پس تو اچھی طرح صبر کر ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

So be patient, with a good patience. meaning, `be patient, O Muhammad, with your people's rejection and their seeking to hasten the torment since they think it will not occur.' Allah says in another Ayah, يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لاَ يُوْمِنُونَ بِهَا وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ Those who believe not therein seek to hasten it, while those believe are fearful of it, and know that it is the very truth. (42:18) Thus, Allah says, إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيدًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤] صبر جمیل کا مفہوم اور فائدہ :۔ صبر جمیل یہ ہے کہ کسی کے طعن وتشنیع، مذاق و تمسخر اور ایذا رسانی کو ٹھنڈے دل سے برداشت کرلیا جائے۔ خود تکلیف سہہ لی جائے مگر تکلیف پہنچانے والے کو زبان سے بھی برا بھلا نہ کہا جائے۔ نہ ہی دوسروں سے اس کی شکایت اور شکوہ کیا جائے اور یہ تجربہ شدہ بات ہے کہ صبر جمیل جس قدر تلخ اور ناگوار ہوتا ہے اس کا پھل اتنا ہی میٹھا ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ خود صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ مکی دور میں مسلمانوں کو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر جمیل ہی کی تلقین کی جاتی رہی وجہ یہ تھی کہ اگر مسلمان اس دور میں محاذ آرائی پر اتر آتے، خواہ یہ صرف زبانی تلخ کلامی تک ہی محدود ہوتی تو اس سے اسلام کی دعوت کے مقصد کو شدید نقصان پہنچ سکتا تھا۔ اسلام کی منزل مقصود یہ تھی کہ اللہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے۔ جو تیئس سال کے قلیل عرصہ میں حاصل ہوگئی اور اگر مسلمان اسی دور میں محاذ آرائی شروع کردیتے تو نہ معلوم اس مقصد کے حصول میں کتنی لمبی مدت کی تاخیر واقع ہوجاتی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فاصبر صبراً جمیلاً …: یعنی آپ کفار کی طرف سے عذاب کے مطالبے اور مذاق پر صبر کریں۔” صبرا ً جمیلاً “ جس میں نہ تنگدلی ہو نہ گھبراہٹ نہ جلد بازی ہو، نہ شکوہ اور نہ ش کیا ت۔ یہ لوگ اس عذاب کو بعید سمجھ رہے ہیں، کیونکہ ان کا اس پر ایمان نہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں، کیونکہ اس کا آٹا یقینی ہے اور تمہارے پچاس ہزار سال ہمارے ہاں ایک دن شمار ہوتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِيْلًا۝ ٥ صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں جمیل الجَمَال : الحسن الکثير، وذلک ضربان : أحدهما : جمال يخصّ الإنسان في نفسه أو بدنه أو فعله . والثاني : ما يوصل منه إلى غيره . وعلی هذا الوجه ما روي عنه صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ اللہ جمیل يحبّ الجمال» «2» تنبيها أنّه منه تفیض الخیرات الکثيرة، فيحبّ من يختص بذلک . وقال تعالی: وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ [ النحل/ 6] ، ويقال : جَمِيلٌ وجَمَال علی التکثير . قال اللہ تعالی: فَصَبْرٌ جَمِيلٌ [يوسف/ 83] ( ج م ل ) الجمال کے معنی حسن کثیر کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے ۔ (1) وہ خوبی جو خاص طور پر بدن یا نفس یا عمل میں پائی جاتی ہے ۔ (2) وہ خوبی جو دوسرے تک پہنچنے کا ذریعہ بنتی ہے اسی معنی میں مروی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا (66) ان اللہ جمیل يحب الجمال ۔ کہ اللہ جمیل ہے اور جمال کو محبوب رکھتا ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے خیرات کثیرہ کا فیضان ہوتا ہے لہذا جو اس صفت کے ساتھ متصف ہوگا ۔ وہی اللہ تعالیٰ کو محبوب ہوگا ۔ اور قرآن میں ہے :۔ وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ [ النحل/ 6] اور جب شام کو انہیں جنگل سے لاتے ہو ۔۔ تو ان سے تمہاری عزت و شان ہے ۔ اور جمیل و جمال وجمال مبالغہ کے صیغے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ [يوسف/ 83] اچھا صلہ ( کہ وہی ) خوب ( ہے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥۔ ٧) سو محمد آپ ان کی تکالیف پر ایسا صبر کیجیے جس میں شکایت کا نام نہ ہو یا ایسی علیحدگی اختیار کیجیے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جہاد کا حکم دیا یہ کفار مکہ قیامت کے عذاب کو غیر ممکن سمجھ رہے ہیں اور ہم اسے قریب آنے والا دیکھ رہے ہیں کیونکہ ہر ایک آنے والی چیز جو کہ ہو کر رہتی ہے وہ قریب ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥{ فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِیْلًا ۔ } ” تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بڑی خوبصورتی سے صبر کیجیے۔ “ یہ ہے وہ اصل پیغام جو ان آیات کے ذریعے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دینا مقصود تھا ‘ کہ ابھی تو سفر کا آغاز ہوا ہے ‘ آنے والا وقت اور بھی کٹھن ہوگا ۔ لہٰذا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے راستے میں آنے والی ہر مشکل کا صبر اور استقامت کے ساتھ سامنا کریں۔ اس سے پہلے سورة القلم میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسی ہی ہدایت کی گئی ہے : { فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تَـکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِ ٧} (آیت ٤٨) ” تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انتظار کیجیے اپنے رب کے حکم کا ‘ اور دیکھئے ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس مچھلی والے کی طرح نہ ہوجایئے گا ! “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

6 "A goodly patience": "A kind of patience that behoves a magnanimous person like you."

سورة الْمَعَارِج حاشیہ نمبر :6 یعنی ایسا صبر جو ایک عالی ظرف انسان کے شایان شان ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(70:5) فاصبر صبرا جمیلا : ف سببیہ ہے اصبر فعل امر واحد مذکر حاضر صبر (باب نصر) مصدر سے تو صبر کر۔ صبرا مفعول مطلق موصوف۔ جملیا صفت۔ جمیل بروزن فعیل جمال سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ خوب۔ خوب تر ۔ مطلب یہ ہے کہ اگرچہ سوال کرنے والے نے استہزار پوچھا تھا ورنہ قیامت کے روز جزاو سزا پر تو اس کا اعتقاد نہیں تھا۔ لیکن جواب میں بتادیا گیا کہ عذاب فی الواقع آنے والا ہے کافروں پر اور اس کے آنے کو کوئی روک نہیں سکے گا اس لئے اے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کبیدہ خاطر نہ ہوں بلکہ ان کی کرتوتوں پر صبر کیجئے یہ سب اپنے کیفر کردار کو ضرور پہنچیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی ان کے کفر و خلاف سے ایسے تنگ نہ ہوجائے کہ شکایت زبان پر آجاوے، بلکہ یہ سمجھ کر عمل کیجئے کہ ان کو سزا ہونے والی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شب وروز کوشش تھی کہ کفار کو جہنم کے عذاب سے بچایا جائے اس کے باوجود کفار عذاب کا مطالبہ کرتے تھے جس پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پریشانی ہوتی تھی اس لیے آپ کو صبر جمیل کی تلقین کی گئی۔ کفار کا بار بار عذاب کا مطالبہ کرنا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے دو وجہ سے پریشان کُن تھا پہلی وجہ یہ تھی کہ آپ اپنے آرام اور کام کی پرواہ کیے بغیر انتہائی خیرخواہی اور درد مندی کے ساتھ کوشش فرما رہے تھے کہ یہ لوگ کفر و شرک چھوڑ کر اپنے رب کے حضور تائب ہوجائیں مگر وہ لوگ تائب ہونے کی بجائے آپ کی مخالفت اور اللہ کی نافرمانی میں آگے ہی بڑھے جارہے تھے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ آپ کو اس بات پر طعنہ دیتے اور جھوٹا قرار دیتے تھے کہ جس عذاب سے ہمیں ڈرایا جاتا ہے وہ اب تک نازل کیوں نہیں ہوا۔ اس پر بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پریشانی لاحق ہوتی تھی۔ اس صورتحال میں آپ کو حکم ہوا کہ آپ کو پریشان اور غمگین ہونے کی بجائے صبر جمیل سے کام لینا چاہیے۔ جمیل کا معنٰی خوبصورت اور نہایت اچھا ہے یعنی ایسا صبر جس میں کسی قسم کی جلد بازی اور شکوہ، شکایت نہ ہو۔ آپ کو تسلی دینے اور حقیقت بتلانے کے لیے ارشاد ہوا کہ نادان اس عذاب کو دورسمجھتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ بہت قریب ہے۔ جس دن انہیں عذاب دیا جائے گا وہ دن اپنی حدّت کے لحاظ اس قدر سخت ہوگا کہ آسمان پگھلے ہوئے تانبے کی مانند ہوجائے گا اور پہاڑ دھنی ہوئی روئی کی طرح ہوجائیں گے۔ ” اَلْمُہْلِ “ جلے ہوئے تیل کو بھی کہتے ہیں کیونکہ تیل آگ پر زیادہ دیرپڑے رہنے کی وجہ سے گہرا سرخ ہوجاتا ہے۔ قیامت کی حِدّت کی وجہ سے آسمان کا رنگ سرخ ہوجائے گا۔ اس لیے فرمایا کہ اس دن آسمان ” اَلْمُہْلِ “ کی مانند ہوگا۔ مسائل ١۔ کفار اور مشرکین کے طعنوں سے دل برداشتہ ہونے کی بجائے صبر جمیل سے کام لینا چاہیے۔ ٢۔ کفار اور نافرمان لوگ قیامت کو دور سمجھتے ہیں حالانکہ قیامت بہت قریب ہے۔ ٣۔ قیامت کے دن آسمان تانبے کی مانند اور پہاڑ دھنی ہوئی اون کی طرح ہوجائیں گے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فاصبر .................... قریبا (٧) (٠٧ : ٥ تا ٧) ” (پس صبر کرو شائستہ صبر ، یہ لوگ اسے دور سمجھتے ہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں “۔ صبر کی ہدایت پر دعوت ہر داعی کو دی جاتی رہی ہے۔ ہر رسول کو یہی ہدایت کی گئی کہ صبر کریں اور رسولوں کے متبعین مومنین کو بھی صبر جمیل کی ہدایت کی گئی۔ یہ راہ جس قدر دشوار گزار ہے اور یہ دعوت جس قدر بھاری ہے ، اور اس میں کمزور نفس انسانی کو لغزشوں سے بچانے کی جس قدر ضرورت ہے ، اس کی اہمیت عیاں ہے کیونکہ اسلامی انقلاب کا ہدف دورنظر آتا ہے اور مقصد اور منزل افق میں بہت دور اور بلندی پر ہوتی ہے۔ صبر جمیل سے مراد وہ صبر ہے جس سے صبر کرنے والا مطمئن ہو ، اس کے دوران صبر کرنے والا مصیبت ، بےچینی اور شک کا احساس نہ رکھتا ہو۔ اسے یقین ہو کہ اس کے ساتھ جو وعدہ کیا گیا ہے وہ سچا ہے۔ صبر کرنے والے کی کیفیت یہ ہو کہ اس کا انجام بہتر ہونے والا ہے ، جو اللہ کی تقدیر پر راضی ہو اور جو ابتلاء آرہی ہے ، وہ یقین رکھتا ہو کہ اس میں حکمت الٰہی مضمر ہے۔ اور صبر کرنے والا یہ سمجھتا ہو کہ جو مصیبت بھی اس پر آنی ہے وہ اللہ کی طرف سے آرہی ہے۔ اور اسے اس کا اجر دیا جائے گا۔ یہی وہ صبر ہے جسے صبر جمیل کہا گیا ہے۔ اور یہی صبر ایک داعی کو زیب دیتا ہے کیونکہ وہ اللہ کی طرف بلاتا ہے ، اللہ کی دعوت دیتا ہے۔ اس میں اس کا اپنا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس دعوت کے ساتھ اس کے ذاتی مفادات وابستہ نہیں۔ اس لئے اس پر جو مصائب آرہے ہیں وہ اللہ کی راہ میں ہیں اور اس کے بارے میں جو فیصلے ہوتے ہیں وہ اللہ کے فیصلے ہیں۔ اس لئے صبر جمیل وہ ہے جو حقیقت پسندانہ اور شائستہ ہو۔ اور اس صبر کرنے والے کو ان امور کا گہرا شعور ہو۔ یہ دعوت جس کے مقابلے میں مکذبین کھڑے ہوجاتے ہیں ، اور اس کی راہ روکتے ہیں ، یہ اللہ کی دعوت ہے اور قیامت جس کی وہ تکذیب کرتے ہیں اور اس کے برپا ہونے کے لئے جلدی مچاتے ہیں۔ یہ بھی اس کی دعوت ہے اور وہی ہے جو اپنی تدبیر اور حکمت کے مطابق اس کے قیام کے وقت کا تعین کرتا ہے۔ لیکن لوگ اس تدبیر اور تقدیر کو سمجھ نہیں پاتے۔ اور جلدی مچاتے ہیں۔ اور جب وقت زیادہ گزر جائے تو وہ اس میں شک کرتے ہیں۔ بعض اوقات تو خود داعی سخت بےچینی محسوس کرتے ہیں اور ان کے دلوں میں بھی یہ رغبت اور خواہش پیدا ہوجاتی ہے کہ اللہ کا وعدہ جلدی ہی سامنے آجائے اور ایسے ہی اوقات میں داعی کو ایسی ہدایت کی جاتی ہے۔ فاصبر ............ جمیلا (٠٨ : ٧) ” صبر کرو ، شائستہ صبر “۔ یہاں خطا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے ، تاکہ آپ کا قلب مبارک مخالفت اور تکذیب کے دکھ کو برداشت کرلے۔ اور اس کے ساتھ دوسری حقیقت کو سمجھ لے کہ واقعات ومعاملات کے پیمانے اللہ کے ہاں اور ہوتے ہیں اور لوگوں کے ہاں اور۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿ فَاصْبِرْ صَبْرًا جَمِيْلًا ٠٠٥﴾ (سو آپ ایسا صبر کیجئے جو صبر جمیل ہو) صبر جمیل اسے کہتے ہیں جس میں شکایت کا نام نہ ہو مطلب یہ ہے کہ آپ نے ان کو حق پہنچایا حق کی دعوت دی آپ کے ذمہ جو کام تھا وہ آپ نے کردیا اب جو یہ لوگ نہیں مانتے کفر پر جمے ہوئے ہیں آپ ان کی طرف سے دلگیر نہ ہوں اور رنج میں نہ پڑیں صبر سے کام لیں اور صبر جمیل اختیار فرمائیں دنیا میں نہیں تو قیامت کے دن تو ہر کافر کو سزا ملنی ہی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3:۔ ” فاصبر صبرا “ تسلیہ برائے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین کا مطالبہ عذاب ازراہ عناد و استہزاء ہے۔ آپ ان کے تعنت وعناد اور تکذیب و انکار پر صبر و تحمل سے کام لیں۔ وہ عذاب کو عقل و امکان سے بعید سمجھتے ہیں، لیکن ہم اسے بالکل نزدیک دیکھ رہے ہیں جو چیز لا محالہ آنے والی ہو وہ قریب ہی ہوتی ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(5) پس آپ صبر کیجئے بھلی طرح کا صبر کرنا۔ یعنی آپ صبر جمیل کیجئے ، صبر جمیل ایسے صبر کو کہتے ہیں جس میں مخلوق سے شکوہ نہ کیا جائے ، ہم سورة یوسف میں عرض کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے شکوہ کرنا م صبر جمیل کے منافی نہیں ہے۔ جیسا کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا انما اشکوابثی وحزنی الی اللہ۔ یا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دریا کے پھٹنے سے قبل جو دعا فرمائی اس میں یہ الفاظ اللھم لک الحمد الیک المش کے وبک المسغاث وانت المستعان ولا حول ولا قوۃ الا باللہ مروی ہیں، بہرحال ان کافروں پر عذاب کا وقوع ضروری ہے اس لئے آپ صبرجمیل سے کام لیجئے اور گھبرائیے نہیں۔