Surat Nooh

Surah: 71

Verse: 23

سورة نوح

وَ قَالُوۡا لَا تَذَرُنَّ اٰلِہَتَکُمۡ وَ لَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لَا سُوَاعًا ۬ ۙ وَّ لَا یَغُوۡثَ وَ یَعُوۡقَ وَ نَسۡرًا ﴿ۚ۲۳﴾

And said, 'Never leave your gods and never leave Wadd or Suwa' or Yaghuth and Ya'uq and Nasr.

اور کہا انہوں نے کہ ہرگز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا اور نہ ود اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو ( چھوڑنا )

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And they have plotted a mighty plot. And they have said: `You shall not leave your gods, nor shall you leave Wadd, nor Suwa`, nor Yaghuth, and Ya`uq and Nasr.' These are the names of their idols which they used to worship besides Allah. Al-Bukhari recorded from Ibn `Abbas that he said, "The idols that were among the people of Nuh wound up among the Arabs afterwards. In reference to - Wadd, it became the idol of the people of Kalb in the area of Dawmat Al-Jandal. - Suwa` became the idol of the people of Hudhayl. - Yaghuth became the idol of the people of Murad, then the people of Bani Ghutayf at Al-Juruf in the area of Saba' worshipped it after them. - Ya`uq became the idol of the people of Hamdan. - Nasr became the idol of the people of Himyar for the family of Dhu Kala`. These idols were all named after righteous men from the people of Nuh. Then when these men died, Shaytan inspired his (Nuh's) people to erect statues in honor of them at their gathering places where they used to come and sit, and to name these statues after these men (with their names). So they did this (as Shaytan suggested), but these statues were not worshipped until after those people (the ones who built them) had died and the knowledge was lost. Then, those statues were later worshipped." This has also been similarly reported from `Ikrimah, Ad-Dahhak, Qatadah and Ibn Ishaq. Ali bin Abi Talhah reported from Ibn `Abbas that he said, "These are statues that were worshipped in the time of Nuh." Ibn Jarir recorded from Muhammad bin Qays that he said concerning Yaghuth, Ya`uq and Nasr, "They were righteous people between the time of Adam and Nuh, and they had followers who used to adhere to their guidance. Then, when they died, their companions who used to follow them said, `If we make images of them, it will increase our desire to perform worship when we remember them.' So they made images of them. Then, when those people died and other people came after them, Iblis approached them and said, `They (your predecessors) used to worship these statues and they were granted rain by their worship of them.' Thus, they (the latter people) worshipped them." The Supplication of Nuh against His People and for whoever believed in Him Allah then says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

23۔ 1 یہ قوم نوح (علیہ السلام) کے وہ لوگ تھے جن کی عبادت کرتے تھے اور ان کی اتنی شہرت ہوئی کہ عرب میں بھی ان کی پوجا ہوتی رہی، یہ پانچوں قوم نوح (علیہ السلام) کے نیک آدمیوں کے نام تھے، جب یہ مرگئے تو شیطان نے ان کے عقیدت مندوں کو کہا کہ ان کی تصوریں بنا کر تم اپنے گھروں اور دکانوں میں رکھ لو تاکہ ان کی یاد تازہ رہے اور ان کے تصور سے تم بھی ان کی طرح نیکیاں کرتے رہو، جب یہ تصویریں رکھنے والے فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی نسلوں کو یہ کہہ کر کہ شرک میں ملوث کردیا کہ تمہارے آباء تو ان کی عبادت کرتے تھے جن کی تصویریں تمہارے گھروں میں لٹک رہی ہیں چناچہ انہوں نے ان کی پوجا شروع کردی (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤] نوح کی قوم کے بت عرب میں کیسے رائج ہوگئے :۔ اس آیت کی تفسیر کے لیے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ : جو بت نوح کی قوم میں پوجے جاتے تھے، وہی بعد میں عرب میں آگئے، ودّ کلب قبیلے کا بت تھا جو دومۃ الجندل میں تھا۔ سواع ہذیل قبیلے کا بت تھا، یغوث پہلے مرار قبیلے کا بت تھا پھر بنی غُطَیْفْ کا اور یہ سبا شہر کے پاس جوف میں تھا، یعوق ہمدان قبیلے کا تھا اور نسر حمیر قبیلے کا، جوذی الکلاع (بادشاہ) کی اولاد تھے۔ یہ نوح کی قوم میں سے چند نیک لوگوں کے نام تھے۔ جب وہ مرگئے تو شیطان نے انہیں یہ پٹی پڑھائی کہ جہاں یہ لوگ بیٹھا کرتے تھے وہاں ان کے مجسمے بنا کر (یادگار کے طور پر) نصب کردو اور ان کے وہی نام رکھو جو ان بزرگوں کے تھے۔ اس وقت ان کی عبادت نہیں کی جاتی تھی۔ لیکن جب وہ لوگ گزر گئے تو بعد والوں کو یہ شعور نہ رہا اور وہ ان کی پرستش کرنے لگے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان بتوں کے پجاری یا نوح (علیہ السلام) کی قوم کے سب مشرک تو طوفان نوح میں غرق کردیئے گئے تھے جو باقی بچے تھے وہ سب مومن اور موحد تھے پھر بعد میں انہی بتوں کی پوجا کیسے شروع ہوگئی ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح شیطان نے بچے ہوئے موحدین کے آباء و اجداد کو چکمہ دے کر ان سے ان صالحین کی آہستہ آہستہ پرستش شروع کرادی تھی۔ شیطان کی وہی چال بعد میں کامیاب رہی۔ موحدین نے اپنی اولاد کو طوفان نوح کا قصہ اور اس کی وجہ بیان کی۔ چند پشتیں گزرنے کے بعد انہی بتوں سے لوگوں میں عقیدت پیدا ہوگئی جن کی وجہ سے قوم نوح پر عذاب آیا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وقالوا لاتذرون الھتکم…: ساڑھے نو سو سال میں اللہ بہتر جانتا ہے کتنی ہی نسلیں ختم ہوئیں اور کتنی نئی پیدا ہوئیں، مگر ہر پہلا پچھلے کو جیتے جی اور مترے وقت یہی تاکید کرتا رہا کہ دیکھنا ! ن وح کے کہنے پر ود، سواع، یغوث ، یعقو اور نسر کی عبادت ہرگز ہرگز نہ چھوڑنا۔ یہ وہ پانچ بت تھے جن کی عبادت قوم نوح کرتی تھی۔ عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں : ” یہ پانچوں نوح (رض) کی قوم کے صالح لوگوں کے نام ہیں، جب وہ فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی قوم کے دلوں میں یہ بات ڈلای کہ (بطور یادگار) جن مجلسوں میں وہ بیٹھتے تھے وہاں ان کے بت نصب کردو اور ان کے وہی نام رکھ دو چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا تو اس وقت ان کی عبادت نہیں کی گئی، یہاں تک کہ جب وہ بطور یادگار بت نصب کرنے والے) فوت ہوگئے اور (کسی کو اس بات کا) علم نہ رہا تو ان بتوں کی عبادت ہونے لگی۔ “ (بخاری، التفسیر، باب :(ودا ولا سواعا…“: ٣٩٢) اس روایت سے معلوم ہوا کہ بت پرستی کا اصل باعث اکابر کی محبت میں غلو اور ان کے مجسمے بنا کر انہیں نصب کرنا تھا۔ شریعت میں تصویر کی حرمت کے دیگر اسبابکے عالوہ ایک بہت بڑا سبب یہ بھی ہے۔ ابن عباس (رض) کی اسی روایت میں جو اوپر گزری ہے، مذکور ہے کہ یہی بات جو قوم نوح میں تھے “ بعد میں عرب کے اندر آگئے۔” ود “ دومتہ الجندل میں کلب قبیلے کا بت تھا،” سواع “ ہذیل کا تھا، ” یغوث “ مراد قبیلے کا پھر (اس کی شاخ) بنو غطیف کا تھا، جو سبا کے قریب وادی جرف میں (آباد) تھے۔ ” یعوق “ ہمدان کا اور ” نسر “ حمیر کا تھا جو ذوالکلاع کی آل تھے۔ (بخاری ، ایضاً ) یہاں ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنے بڑے طوفان کے بعد جس میں تمام مشرک غرق کردیئے گئے وہ بت کیسے باقی رہ گئے اور دوبارہ ان کی پرستش کیسے شروع ہوگئی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسان قدتری طور پر اپنے سے پہلے لوگوں کے حالات جاننے کا شوق رکھتا ہے، چناچہ علم تاریخ اسی شوق کا نتیجہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ نوح (علیہ السلام) کے ساتھ باقی بچنے والے اہل ایمان سے بعد والین سلوں نے ان بزرگوں کی نیکی اور کرامتوں کے واقعات سنے، وقت گزرنے کیساتھ جب جہالت کا غلبہ ہوا تو شیطان نے ان کے ہاتھوں آثار قدیمہ کے طور پر وہی بت نکلوا کر یا ان سے ان اکابر کے فرضی مجسمے بنوا کر، جیسا کہ نصرانیوں نے مسیح اور مریم (علیہ السلام) کے فرض مجسمے بنا رکھے ہیں، دوبارہ ان کی عبادت شروع کروا دی۔ بہرحال یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ان پانچوں بتوں کی پرستش ہوتی تھی اور باقاعدہ ان کے آستانے موجود تھے، جیسا کہ ابن عباس (رض) کی حدیث میں گزرا ہے۔ عرب میں عبدود اور عبدیغوث وغیرہ نام بھی ملتے ہیں۔ (٢) حافظ ابن حجر (رح) نے فرمایا :” واقدی کا بیان ہے کہ ” ود “ ایک آدمی کی شکل میں،” سواع “ عورت کی شکل میں ،” یغوث “ شیر کی صورت میں، ” یعقو “ گھوڑے کی شکل میں اور ” نسر “ ایک پرندے کی صورت میں تھا، مگر یہ شاذ ہے۔ مشہور یہی ہے کہ یہ سب انسانی شکل میں تھے اور ان کی عبادت کے آغاز کا جو سبب بیان ہوا ہے اس کا تقاضا بھی یہی ہے۔ “ (فتح الباری) حافظ ابن حجر (رح) کی بات نوح (علیہ السلام) کے زمانے کے بتوں کے متعلق تو یقیناً درست ہے ، مگر بعد میں جب فرضی بت بنائے گئے تو ممکن ہے کہ ان جانوروں کی شکل پر بنائیگئے ہوں، جیسا کہ مشرک قوموں میں عامط ور پر پایا جاتا ہے۔ (واللہ اعلم) (٣) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت مسلمہ کو شرک سے بچانے کے لئے ان دروازوں کو بھی بند کرنے کا حکم دیا جہاں سے شرک داخل ہوسکتا ہے۔ قبر پرستی کے فتنے کی ابتدا قبروں پر عمارتیں اور مسجدیں بنانے سے ہوتی ہے اور بت پرستی کی ابتدا تصویریں اور مجسمے بنانے سے، اس لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں چیزوں سے منع فرمایا اور اونچی قبروں کو (دوسری قبروں کے) بربار کردینے اور ہر تصویر کو مٹا دینے کا حکم دیا۔ ابوالہیاج اسدی فرماتے ہیں کہ مجھے علی بن ابی طالب (رض) عنہمانے فرمایا :(الا ایعثک علی ما یعثنی علیہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ؟ ان لاتدع تمثالاً الا طمستہ ولا قبرا مشرفا الا سویتہ ) (مسلم، الجنائر، باب الامر بستسویۃ القیر : ٩٦٩)” کیا میں تمہیں اس کام پر مقرر کر کے نہ بھیجوں جس پر مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقرر فرمایا تھا ؟ وہ یہ تھا کہ کوئی مورتی نہ چھوڑو مگر اسے مٹا دو اور نہ کوئی اونچی قبر مگر اسے برابر کر دو ۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

لَا تَذَرُ‌نَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُ‌نَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرً‌ا (and never forsake Wadd, nor Suwa&, nor yaghuth and Ya` uq and Nasr…71:23). Imam Baghawi reports that these five were in fact righteous servants of Allah who lived in the intervening period between Prophets &Adam and Nuh (علیہما السلام) . There were many people who held them in high regard and followed their footsteps. Even after their death, they followed their footsteps and complied with Divine injunctions. A while later, Shaitan misled them. He put it to them that if they make pictures of their righteous elders and place them in front, their worship would be perfect and they would attain the quality of humility and humbleness. Those people fell into the Shaitanic trap and carved statues of them and placed them in their temples. When they saw the statues of their elders, their memories were refreshed and experienced a special feeling. That generation gradually died and a new generation came up. Satan played another trick with them. He imparted to them that the object of worship of their elders were statues and idols. They fell for this trick and worshipped them. This is the beginning of idol-worship or idolatry. People of Prophet Nuh (علیہ السلام) gradually got steeped in idolatry. They had many idols, the five mentioned in the verse under comment being the most popular because of the deep love they had for them. وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا ضَلَالًا (…let not the wrongdoers progress in anything but deviation from the right path 71:24). This is the supplication of Prophet Nuh (علیہ السلام) against his people. It may not be surmised that the duty and obligation of a Prophetic office is to guide the people, but here Prophet NuhI is praying for increase in his people&s misguidance. Prophet Nuh (علیہ السلام) did not invoke this curse out of despair or impatience. In fact, he invoked it when, after doing full justice to his mission for many centuries, his people chose the path of deviation, rebellion, disbelief and obstinacy and persisted in it until they had reached a point of no return, of which Allah informed him thus, &And it was revealed to Nuh (علیہ السلام) that none of your people would ever believe except those who have already believed__ [ 11:36] &. This situation made it clear to him that his people would definitely and certainly die in the state of disbelief. So he prayed for their final destiny to overtake them sooner and destroy them.

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِہَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا۝ ٠ۥۙ وَّلَا يَغُوْثَ وَيَعُوْقَ وَنَسْرًا۝ ٢٣ ۚ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ وذر [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] «1» . ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ ود، سواع، یغوث، یعوق وغیرہ حضرت نوح کی قوم کے چند بتوں کے نام تھے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ان سرداروں نے کمزوروں سے کہا کہ تم اپنے معبودوں کی پرستش کو ہرگز نہ چھوڑنا اور نہ ود کی پرستش کو اور نہ سواع کی اور نہ یغوث کی اور نہ یعوق کی اور نہ نسر کی پرستش کو چھوڑنا اور یہ ان کے مشہور بت تھے جن کی یہ لوگ پوجا کیا کرتے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣{ وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِہَتَکُمْ } ” اور انہوں نے کہا کہ تم اپنے ان معبودوں کو ہرگز چھوڑ نہ بیٹھنا۔ “ اس سے ملتا جلتا نعرہ سردارانِ قریش نے بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف اپنے عوام کو سکھایا تھا : { وَانْطَلَقَ الْمَلَاُ مِنْہُمْ اَنِ امْشُوْا وَاصْبِرُوْا عَلٰٓی اٰلِہَتِکُمْج اِنَّ ہٰذَا لَشَیْئٌ یُّرَادُ ۔ } (صٓ) ” اور چل پڑے ان کے سردار (یہ کہتے ہوئے) کہ چلو جائو اور جمے رہو اپنے معبودوں پر ‘ یقینا اس بات میں تو کوئی غرض پوشیدہ ہے۔ “ { وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًالا وَّلَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا ۔ } ” ہرگز مت چھوڑنا وَد کو ‘ سواع کو ‘ یغوث کو ‘ یعوق کو اور نسر کو۔ “ یہ سب اس قوم کے بتوں کے نام ہیں اور ان میں سے بیشتر اولیاء اللہ کی شخصیات کے بت تھے۔ یَغُوْث کے تلفظ ّمیں ” غیاث “ یا ” غوث “ کی مشابہت سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اولیاء اللہ میں سے کسی ایسی شخصیت کا بت تھا جسے وہ لوگ اپنافریاد رس سمجھتے تھے۔ دراصل حضرت آدم اور حضرت نوح - کے درمیانی زمانے میں بہت سے انبیاء کرام (علیہ السلام) گزرے ہیں۔ حضرت شیث اور حضرت ادریس - اسی دور کے نبی ہیں۔ ظاہر ہے ان پیغمبروں کے پیروکاروں میں بہت سے نیک لوگ اور اولیاء اللہ بھی ہوں گے ۔ چناچہ بعد کی نسلوں کے لوگوں نے عقیدت و احترام کے جذبے کے تحت ان اولیاء اللہ کی مورتیاں بنا لیں ۔ شروع شروع میں وہ ان مورتیوں کو احتراماً سلام کرتے ہوں گے ‘ لیکن بعد میں رفتہ رفتہ ان کی باقاعدہ پوجا شروع کردی گئی ۔ اسی طرح آج ہمارے ہاں بھی بعض لوگ اپنے گھروں میں اولیاء اللہ اور پیروں کی تصاویر بڑے اہتمام کے ساتھ آویزاں کرتے ہیں ‘ بلکہ ان تصویروں کے گلوں میں باقاعدہ ہار بھی ڈالے جاتے ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ایک صاحب کے گھر میں ایک تصویر آویزاں دیکھی جس میں خواجہ معین الدین اجمیری ‘ حضرت بختیار کا کی اور بابا فرید شکرگنج - تینوں بیک وقت جمع تھے اور تصویر پر ہار ڈالے گئے تھے ۔ ایسی روایات جب نسل در نسل آگے بڑھتی ہیں تو تدریجاً بت پرستی کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ ظاہر ہے عقائد و نظریات میں بگاڑ ایک دم تو پیدا نہیں ہوتا بلکہ ملتان کی زبان میں اس عمل کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ” بندہ تھیندا تھیندا تھی ویندا اے “۔ بہرحال بعض اوقات انسان نظریاتی طور پر رفتہ رفتہ اس قدر بدل جاتا ہے کہ اسے خود بھی پتا نہیں چلتا کہ وہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

17 Of the gods of the Prophet Noah's people only those gods have been mentioned whom later the people of Arabia also had started worshipping and whose shrines were found all over the country at the advent of Islam. It is not impossible that the later generations heard the names of the ancient gods of Noah's people from the people who were saved from the flood, and when ignorance once again spread among their children, they made idols of the same gods and started worshipping them again. Wadd was the god of the Bani Kalb bin Wabash, a branch of the Quda`ah tribe, whose shrine had been built at Daumat al-Jandal. In the ancient Arabian inscriptions he has been named as Waddam ibam (father Wadd) . Kalbi has stated that the image built to him was of a tnan of enormous size. The Quraish also acknowledged him as god and called him Wudd. It is after him that a person has been named 'Abd-i Wudd (slave of Wudd) in history. Suwa was the goddess of the Hudhayl tribe and her idol was a female figure. Her temple was situated at Ruhat near Yanbu. Yaghuth was the god of An'um, a branch of the Tay tribe, and of some branches of the Madhjih tribe. The people of Madhjih had installed its idol, the image of a lion, at Jurash, a place between Yaman and Hijaz. Among the Quraish also some people had been named `Abd-i Yaghuth. Ya'uq was the god of Khaywan, a branch of the Hamdan tribe, in the territory of Hamdan in Yaman; its idol was of the horse's figure. Nasr was the god of AI-i dhul-Kula', a branch of the Himyar tribe, in the territory of Himyar; it had its idol installed at Balkha`and had the image of the vulture. In the ancient inscriptions of Saba its name has been written as Nasor. Its temple was called bayt Nasor (house of Nasor) and its devotees ahl Nasor (people of Nasor) . The ruins of the ancient temples that are found in Arabia and in the adjoining lands have the image of the vulture made on the doors of most of them.

سورة نُوْح حاشیہ نمبر :17 قوم نوح کے معبودوں میں سے یہاں ان معبودوں کے نام لیے گئے ہیں جنہیں بعد میں اہل عرب نے بھی پوجنا شروع کر دیا تھا اور آغاز اسلام کے وقت عرب میں جگہ جگہ ان کے مندر بنے ہوئے تھے ۔ بعید نہیں کہ طوفان میں جو لوگ بچ گئے تھے ان کی زبان سے بعد کی نسلوں نے قوم نوح کے قدیم معبودوں کا ذکر سنا ہو گا اور جب از سرنو ان کی اولاد میں جاہلیت پھیلی ہو گی تو انہی معبودوں کے بت بنا کر انہوں نے پھر انہیں پوجنا شروع کر دیا ہو گا ۔ ود قبیلہ قضاعہ کی شاخ بنی کلب بن وبرہ کا معبود تھا جس کا استھان انہوں نے دومتہ الجندل میں بنا رکھا تھا ۔ عرب کے قدیم کتبات میں ان کا نام ودم ابم ( ود باپو ) لکھا ہوا ملتا ہے ۔ کلبی کا بیان ہے کہ اس کا بت ایک نہایت عظیم الجثہ مرد کی شکل کا بنا ہوا تھا ۔ پریش کے لوگ بھی اس کو معبود مانتے تھے اور اس کا نام ان کے ہاں ود تھا ۔ اسی کے نام پر تاریخ میں ایک شخص کا نام عبد ود ملتا ہے ۔ سواع قبیلہ ہذیل کی دیوی تھی اور اس کا بت عورت کی شکل کا بنایا گیا تھا ۔ ینبوع کے قریب رہاط کے مقام پر اس کا مندر واقع تھا ۔ یغوث قبیلہ طے کی شاخ انعم اور قبیلہ مذحج کی بعض شاخوں کا معبود تھا ۔ مذحج والوں نے یمن اور حجاز کے درمیان جرش کے مقام پر اس کا بت نصب کر رکھا تھا جس کی شکل شیر کی تھی ۔ قریش کے لوگوں میں بھی بعض کا نام عبد یغوث ملتا ہے ۔ یعوق یمن کے علاہ ہمدان میں قبیلہ ہمدان کی شاخ خیوان کا معبود تھا اور اس کا بت گھوڑے کی شکل کا تھا ۔ نسر حمیر کے علاقے میں قبیلہ حمیر کی شاخ آل ذوالکلاع کا معبود تھا اور بلخع کے مقام پر اس کا بت نصب تھا جس کی شکل گدھ کی تھی ۔ سبا کے قدیم کتبوں میں اس کا نام نسور لکھا ہوا ملتا ہے ۔ اس کے مندر کو وہ لوگ بیت نسور ۔ اور اس کے بجاریوں کو اہل نسور کہتے تھے ۔ قدیم مندروں کے جو آثار عرب اور اس کے متصل علاقوں میں پائے جاتے ہیں ان میں سے بہت سے مندروں کے دروازوں پر گدھ کی تصویر بنی ہوئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: یہ سب اُن بتوں کے نام ہیں جن کو حضرت نوح علیہ السلام کی قوم پوجا کرتی تھی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(71:23) وقالوا : ای وقال الرؤسائ۔ یعنی انہوں نے آپس میں کہا۔ لاتذرون : فعل نہی تاکید بانون ثقیلہ۔ صیغہ جمع مذکر حاضر۔ (باب فتح وسمع) مصدر۔ تم ہرگز نہ چھوڑیو۔ یعنی ان کی پوجا کو ہرگز نہ چھوڑنا۔ (نیز ملاحظہ ہو 70:42) الہتکم : مضاف مضاف الیہ۔ تمہارے معبود۔ اپنے معبودوں کو۔ الہ کی جمع ولا تذرن ودا ولا سواعا ولا یغوث ویعروق ونسرا۔ اور ہرگز نہ چھوڑو ود کو اور نہ سواع کو اور نہ یغوث کو اور یعوق کو اور نہ نسر کو۔ (بھی ہرگز نہ چھوڑنا) ود، سواع، یغوث، یعوق وغیرہ حضرت نوح کی قوم کے چند بتوں کے نام تھے۔ جو کہ دوسرے بتوں سے ممتاز تھے۔ ان کی اہمیت ظاہر کرنے کے لئے خصوصیت کے ساتھ نام لئے ورنہ الھتکم میں بطور عموم ان کا ذکر بھی آگیا تھا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 مراد وہ بت اور مورتیاں ہیں جن کی وہ لوگ پوجا کرتے تھے۔10 بتوں کا عام انداز میں ذکر کرنے کے بعد ان میں سے پانچ کا نام لے کر ذکر کیا کیونکہ وہ ان کے سب سے بڑے بت تھے اور اکثر لوگ انہی کے معتقد تھے۔ محمد بن کعب کہتے ہیں کہ یہ درصال حضرت نوح سے پہلے چند نیک لوگ تھے۔ انکے مرنے کے بعد شیطا ننے لوگوں کو بہکایا ا کہ ان کی مورتیاں بنا کر عبادت کے وقت اپنے سامنے رکھ لیا کرو، تو تمہارا عبادت میں خوب جی لگے گا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا، ان کے مرنے کے بعد شیطان نے ان کی اولاد کو بہکایا کہ تمہارے باپ دادا انہی مورتیوں کی پوجا کیا کرتے تھے، تم بھی ان کی پوجا کرو۔ اس طرح ان کی پوجا ہوگئی اور اس طرح بت پرستی کا آغاز ہوا (فتح القدیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وقالوا ................ الھتکم (١٧ : ٣٢) ” انہوں نے کہا ہرگز نہ چھوڑ دو اپنے الہوں کو “۔ ان الہوں کو انہوں نے ” تمہارے الٰہ “ کہہ کر پکاراتا تاکہ ان کو جوش آئے۔ جھوٹی حمیت اور گناہ پر آمادہ کرنے والی غیرت جاگے۔ پھر انہوں ان بتوں میں سے جو زیادہ معزز اور مشہور تھے ، ان کا خصوصیت کے ساتھ تذکرہ کیا تاکہ عوام ان کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں۔ ولا تذرن ........................ ونسرا (١٧ : ٣٢) ” نہ چھوڑو ود اور سواع کو ، اور نہ یغوث اور یعوق اور نسر کو “۔ یہ نسر تو ان کا بڑا بت تھا جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور جاہلیت میں بھی پوجا جاتا تھا۔ ہمیشہ گمراہ قیادتیں عوام الناس کی پوجا کے لئے بت گھڑتی ہیں ، ان کے نام اور شکلیں ہی مختلف اوقات میں مختلف ہوتی ہیں ، لیکن عوام الناس کو ان کے ارد گرد گھمایا جاتا ہے۔ عوام کے دلوں میں ان بتوں کی جاہلانہ محبت پیدا ہوجاتی ہے تاکہ وہ عوام کو ہلاکت کے جس گڑھے میں چاہیں ، لے جاکر گرادیں۔ اور ان کو اس گمراہی پر قائم رکھیں اور اس گمراہ قیادت کی قید میں رہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ ” وقالوا لاتذرن “ ان مشرکین نے میری دعوت کو قبول کرنے کے بجائے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے تمام معبودوں کی عبادت ہرگز نہ چھوڑیں خصوصاً ان پانچ بڑے معبودوں کو تو کسی قیمت پر نہ چھوڑیں یعنی ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر، یہ پانچوں حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے بڑے معبود تھے۔ جنہیں وہ اپنی حاجتوں اور مصیبتوں میں پکارتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں، اسماء رجال صالحین من قوم نوح (علیہ السلام) (صحیح بخاری ج 2 ص 732) ۔ یہ پانچوں حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم میں خدا کے نیک اور برگزیدہ بندے تھے۔ جب وہ فوت ہوگئے تو ان کے متعلقین اور معتقدین نے بہت غم کیا۔ ابلیس انسانی شکل میں ان کے پاس پہنچا اور خیر خواہی کے رنگ میں کہنے لگا تم غم نہ کرو میں تمہاری تسلی کا سامان کردیتا ہوں چناچہ وہ ان کی شکلوں پر ان بزرگوں کے بت بنا کر ان کے پاس لے آیا اور کہنے لگا ان بتوں کو ان بزرگوں کے عبادت خانوں میں نصب کر دو اور وقتاً فوقتاً ان کی زیارت کر کے دلوں کو تسلی دے لیا کرنا۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ ان کی عبادت ہونے لگی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو دعوت توحید دے کر مبعوث فرمایا۔ (قرطبی، البدایہ والنہایہ) ۔ ” وقد اضلوا کثیرا “ اور ان رؤسائے مشرکین نے تیری بہت سی مخلوق کو گمراہ کر ڈالا ہے اور ان کو راہ راست پر آنے سے روکا ہے۔ ” ولا تزد الظالمین الا ضلالا “ ضلال سے توحید کے خلاف منصوبوں میں ناکامی مراد ہے۔ اے میرے پروردگار ! ان ظالموں کے تمام منصوبوں کو ناکام بنادے اور ان کی آرزوئیں خاک میں ملا دے۔ ولعل المطلوب ھو الضلال فی ترویج مکرھم ومصالح دنیاھم لا فی امر دینہم الخ (بیضاوی ج 2 ص 401) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(23) اور جنہوں نے اپنی پیروی کرنے والوں سے کہا کہ تم اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑنا اور خاص طور پر نہ دو کو نہ سواع اور نہ یغوث کو اور نہ یعوق کو اور نہ نسر کو ان کو تو چھوڑنا ہی نہیں۔