Surat Nooh

Surah: 71

Verse: 27

سورة نوح

اِنَّکَ اِنۡ تَذَرۡہُمۡ یُضِلُّوۡا عِبَادَکَ وَ لَا یَلِدُوۡۤا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا ﴿۲۷﴾

Indeed, if You leave them, they will mislead Your servants and not beget except [every] wicked one and [confirmed] disbeliever.

اگر تو انہیں چھوڑ دے گا تو ( یقیناً ) یہ تیرے ( اور ) بندوں کو ( بھی ) گمراہ کر دیں گے اور یہ فاجروں اور ڈھیٹ کافروں ہی کو جنم دیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّكَ إِن تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ ... If You leave them, they will mislead Your servants, meaning, `if You leave a single one of them they will lead your servants astray.' This refers to those whom He will create after them. ... وَلاَ يَلِدُوا إِلاَّ فَاجِرًا كَفَّارًا and they will beget none but wicked disbelievers. meaning, wicked in their deeds and disbel... ieving in their hearts. He (Nuh) said this due to what he knew about them since he remained among them for nine hundred and fifty years. Then he said,   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّكَ اِنْ تَذَرْہُمْ يُضِلُّوْا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوْٓا اِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا۝ ٢٧ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھ... ی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔ ولد الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] ( و ل د ) الولد ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء/ 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔ فجر الْفَجْرُ : شقّ الشیء شقّا واسعا كَفَجَرَ الإنسان السّكرَيقال : فَجَرْتُهُ فَانْفَجَرَ وفَجَّرْتُهُ فَتَفَجَّرَ. قال تعالی: وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] ، وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] ، فَتُفَجِّرَ الْأَنْهارَ [ الإسراء/ 91] ، تَفْجُرَ لَنا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعاً [ الإسراء/ 90] ، وقرئ تفجر . وقال : فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة/ 60] ، ومنه قيل للصّبح : فَجْرٌ ، لکونه فجر اللیل . قال تعالی: وَالْفَجْرِ وَلَيالٍ عَشْرٍ [ الفجر/ 1- 2] ، إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كانَ مَشْهُوداً [ الإسراء/ 78] ، وقیل : الفَجْرُ فجران : الکاذب، وهو كذَنَبِ السَّرْحان، والصّادق، وبه يتعلّق حکم الصّوم والصّلاة، قال : حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ [ البقرة/ 187] . ( ف ج ر ) الفجر کے معنی کسی چیز کو وسیع طور پر پھا ڑ نے اور شق کردینے کے ہیں جیسے محاورہ ہے فجر الانسان السکری اس نے بند میں وسیع شکاف ڈال دیا فجرتہ فانفجرتہ فتفجر شدت کے ساتھ پانی کو پھاڑ کر بہایا قرآن میں ہے : ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر/ 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف/ 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی اور اس کے بیچ میں نہریں بہا نکالو ۔ تَفْجُرَ لَنا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعاً [ الإسراء/ 90] جب تک کہ ہمارے لئے زمین میں سے چشمے جاری ( نہ) کردو ۔ اور ایک قرآت میں تفجر ( بصیغہ تفعیل ) ہے ۔ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة/ 60] تو پھر اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ۔ اور اسی سے صبح کو فجر کہا جاتا ہے کیونکہ صبح کی روشنی بھی رات کی تاریکی کو پھاڑ کر نمودار ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالْفَجْرِ وَلَيالٍ عَشْرٍ [ الفجر/ 1- 2] فجر کی قسم اور دس راتوں کی ۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كانَ مَشْهُوداً [ الإسراء/ 78] کیونکہ صبح کے وقت قرآن پڑھنا موجب حضور ( ملائکہ ) ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فجر دو قسم پر ہے ایک فجر کا ذب جو بھیڑیئے کی دم کی طرح ( سیدھی روشنی سی نمودار ہوتی ہے دوم فجر صادق جس کے ساتھ نماز روزہ وغیرہ احکام تعلق رکھتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ [ البقرة/ 187] یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی ) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے پھر روزہ ( رکھ کر ) رات تک پورا کرو كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

کیونکہ اگر آپ ان کو رہنے دیں گے تو یہ آپ کے دین سے لوگوں کو اور جو ایمان لانا چاہے گا اس کو گمراہ کریں گے اور ان کے فاجر اور کافر ہی اولاد پیدا ہوگی یا یہ وہ ایسی اولاد ہوگی جو بلوغ کے بعد کفر اختیار کرے گی اور کہا گیا ہے کہ ان میں کوئی بچا نہ تھا اس لیے کہ چالیس سال سے ان کی نسل کا سلسلہ منقطع تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٧{ اِنَّکَ اِنْ تَذَرْہُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلَا یَلِدُوْٓا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا ۔ } ” اگر تو نے ان کو چھوڑ دیاتو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسلوں میں بھی اب فاجر اور کافر لوگوں کے سوا اور کوئی پیدا نہیں ہوگا۔ “ ان لوگوں کی فطرتیں مسخ ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے ان کی آئندہ...  نسلوں سے بھی کسی خیر کی توقع نہیں ہے۔ اس لیے ان کا نیست و نابود ہوجانا ہی بہتر ہے۔ انسانی تاریخ میں اللہ کے کسی بندے نے شاید ہی ایسی سخت دعا مانگی ہو۔ لیکن حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو برس تک جس طرح صبر و استقامت کے ساتھ اپنی قوم کی زیادتیوں کو برداشت کیا ‘ اس پس منظر میں آپ (علیہ السلام) کا یہ غصہ حق بجانب تھا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

7: سورۃ ہود(۱۱:۳۶)میں گذر چکا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو وحی کے ذریعے بتا دیا تھا کہ اب تک جو لوگ ایمان لا چکے ہیں، اب آپ کی قوم میں سے ان کے سوا کوئی اور ایمان نہیں لائے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(71:27) انک ان تذرھم یضلو اعبادک ۔۔ الخ یہ بددعا کی وجہ ہے۔ ان تذرہم جملہ شرطیہ ہے یضلوا عبادک جواب شرط۔ ان شرطیہ بمعنی اگر۔ تذر مضارع مجزوم بوجہ عمل ان۔ صیغہ واحد مذکر حاضر۔ وذر (باب سمع، فتح) مصدر۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ اگر تو نے ان کو چھوڑ دیا۔ (نیز ملاحظ ہو 70:42) یضلوا مضارع مجزوم (بوجہ ... جواب شرط) جمع مذکر غائب اضلال (افعال) مصدر۔ وہ بھٹکائیں گے وہ بہکا دیں گے۔ یا جھٹکاتے رہیں گے۔ بہکاتے رہیں گے۔ عبادک مضاف مضاف الیہ۔ تیرے بندے، تیرے بندوں کو۔ ولا یلدوا الا فاجرا کفارا۔ جملہ کا عطف جملہ سابقہ ہے واؤ عاطفہ ہے۔ لائلدوا مضارع منفی (مجزوم) جمع مذکر غائب ولادۃ (باب ضرب) مصدر۔ وہ نہیں جنیں گے۔ وہ نہیں پیدا کریں گے۔ الا حرف استثناء فاجرا مستثنیٰ فجور (باب نصر) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ فاسق و فاجرا اور بڑی ناشکر گزار ہوگی۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یہ حضرت نوح نے اس تجربہ کی بنا پر فرمایا جو انہیں اپنی قوم میں 95 سال تک دعوت و تبلیغ کا کام کرتے رہنے کے بعد حاصل ہوا تھا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انک ................ عبادک (١٧ : ٧٢) ” اگر تونے ان کو چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے “۔ عبادک سے مراد یہاں اہل ایمان ہیں یعنی لوگ تو ایمان لائیں گے لیکن یہ بااثر اور سرکش مقتدر لوگ اپنے اقتدار اور قوت کے بل بوتے پر ان کو گمراہ کردیں گے۔ اور اس سے مراد عام انسان بھی ہوسکتے ہیں۔ پھر معنی ی... ہ ہوگا کہ یہ عوام الناس کو اپنے مرتبے اور بلند مقام کی وجہ سے متاثر کریں گے اور اللہ سے دور کردیں گے۔ پھر ان لوگوں نے ایک ایسی فضا پیدا کردی ہے ، جس میں سے صرف کفار ہی پیدا ہوتے ہیں۔ جو بچے بھی پیدا ہوتے ہیں ، ان کی پیدائش کے نتیجے میں کفار نسل تیار ہوتی ہے۔ کیونکہ ظالموں نے جو فضا تیار کررکھی ہے اس میں ظالم اور گمراہ نسل ہی تیار ہوتی ہے۔ جو نور ایمان سے محروم ہوتی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف حضرت نوح (علیہ السلام) نے اشارہ فرمایا اور قرآن کریم نے آپ کی زبانی نقل کیا۔ ولایلدوا .................... کفارا (١٧ : ٧٢) ” اور ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہوگا ، بدکار اور سخت کافر ہی ہوگا “۔ کیونکہ وہ اپنی سوسائٹی میں ئرے اور گمراہ کن حالات ، طریقے اور افکار شائع کرتے ہیں۔ اور انہوں نے اپنی سوسائٹی اور نظام کو ایسا بنا دیا ہے کہ اس کے اندر فاسق وفاجر ہی پیدا ہوسکتے ہیں۔ چناچہ آپ نے دوبارہ ان بیخ کنی کے لئے دعا کی۔ اللہ نے ان کی دعا قبول کرلیا اور رﺅے زمین کو ان کی گندگی سے صاف کردیا۔ ان پر ایسا سیلاب آیا جو سب کچھ بہا لے گیا۔ اور اس قسم کا تباہ کن سیلاب اللہ جبار وقہار ہی لاسکتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(27) کیونکہ اگر آپ ان کو چھوڑ دیں گے تو یہ آپ کے بندوں کو گمراہ کریں گے اور راستے سے بھٹکائیں گے اور ان کے ہاں جو اولاد بھی ہوگی وہ محض بدکار اور ناسپاس ہوگی۔ دیار کو جن حضرات نے دور سے مشتق مانا ہے انہوں نے گردش اور چلنے پھرنے والے کے معنی کئے ہیں اور جنہوں نے دار سے مشتق مانا ہے انہوں نے بسنے وا... لے اور باشندے کے معنی کئے ہیں۔ بہرحال : مطلب یہ ہے کہ کافروں میں سے کسی متنفس کو باقی نہ چھوڑا اور زمین پر کوئی کفر کرنے والاباقی نہ رہے یہ دعا عموم ہلاکت کے لئے تھی ۔ بارہویں پارے میں عموم بعثت اور عموم ہلاکت کی کچھ بحث گزر چکی ہے ، بہرحال مفسرین کے مختلف اقوال ہیں ان کا گمراہ کرنا دوسروں کو تو ظاہر ہی ہے ہزار برس تک ان کا یہی کام رہا خودگمراہ رہے اور دوسروں کو گمراہ کرتے رہے البتہ اولاد کا فاجرو کافر ہونا یا تو اس بنا پر ہے کہ کفر اور ناسپاسی ان کے خون میں رچ گئی ہے اس لئے ان کے نطفے سے بھی خیر کی امید نہیں رہی یا اس بنا پر کہ بچہ کو ہوتے ہی یہ لوگ بت پرستی کی تعلیم دیتے ہیں اور اسلام دشمنی سکھاتے ہیں اور مجھ کو دکھادکھا کرلے جاتے ہیں کہ یہ نوح (علیہ السلام) ہماری قوم کا دشمن ہے تم بڑے ہوکر اس کی بات نہ ماننا اور اس کے کہنے سے بت پرستی نہ چھوڑنا جب یہ گود کے بچوں کو بھی یہی سکھاتے ہیں جیسا کہ میں ان کو کئی پشتوں سے دیکھ رہا ہوں تو مجھے کیا اعتبار ہوسکتا ہے کہ ان کی اولاد مومن اور مسلمان ہوگی اس لئے ان کو سب کو ہی فنا کردے اور یہ بات اہل دانش سے پوشیدہ ہیں ہے کہ جس طرح غذا کا اثر خون پر ہوتا ہے اسی طرح اعمال سیئہ کا اثر بھی خون اور نطفے پر ہوتا ہے۔ الولد سرلا بیہ، عاقبت گرگ زادہ گرگ شود اگرچہ قاعدہ کلیہ نہ سہی لیکن اس کے عموم سے انکار بھی نہیں ہوسکتا۔ بہرحال ہم نے تطویل کی وجہ سے اس بحث کو چھوڑ دیا ہے آگے دعا ہے مومنین کے لئے اور آخر میں پھر بددعا ہے کفار کی ہلاکت کی۔  Show more