Surat ul Jinn

Surah: 72

Verse: 12

سورة الجن

وَّ اَنَّا ظَنَنَّاۤ اَنۡ لَّنۡ نُّعۡجِزَ اللّٰہَ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَنۡ نُّعۡجِزَہٗ ہَرَبًا ﴿ۙ۱۲﴾

And we have become certain that we will never cause failure to Allah upon earth, nor can we escape Him by flight.

اور ہم نے سمجھ لیا کہ ہم اللہ تعالٰی کو زمین میں ہرگز عاجز نہیں کر سکتے اور نہ بھاگ کر اسے ہرا سکتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And we think that we cannot escape Allah in the earth, nor can we escape Him by flight. meaning, `we know that the power of Allah is decisive over us and that we cannot escape Him in the earth. Even if we try to flee, we know that He has complete control over us and that none of us can escape Him.'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩] یعنی اب ہماری بھلائی اسی بات میں ہے کہ ہم بلا چوں و چرا قرآن پر ایمان لے آئیں۔ اگر ہم نے قرآن کو نہ مانا تو اللہ کی سزا سے بچ نہیں سکتے نہ زمین میں کسی جگہ چھپ کر، نہ ادھر ادھر بھاگ کر اور نہ ہوا میں اڑ کر۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(وانا ظننا ان لن نعجز اللہ …: مشرک قومیں جنوں کو خدائی اختیارات کا مالک سمجھتی ہیں اور انہیں غیب دان جانتی ہیں مگر ج ن خود اقرار کر رہے ہیں کہ ہم نے سمجھ لیا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں پکڑنا چاہے تو نہ ہم زمین میں کہیں چھپ کر اسے عاجز کرسکتے ہیں کہ وہ ہمیں پکڑ نہ سکے اور نہ کہیں بھاگ کر، غرض پھر کسی صورت ہم اس سے بچ نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ کے سانے بالکل بےبس ہونے کے اسی عقیدے کا نتیجہ ہے کہ جونہی ہم نے ہدایت کی بات سنی تو فوراً ایمان لے آئے۔” بخساً ولا رھقاً “ نقصان یہ کہ جو نیکیاں کی ہیں ان میں کمی کردی جائے اور زیادہ یہ کہ جو گناہ نہیں کئے وہ تھوپ دیئے جائیں۔ ان آیات میں بھی مومن جن اپنے بھائیوں کو نصیحت کر رے ہیں کہ جس ذات عالی سے نہ بھاگ سکتے ہو اور نہ چھپ سکتے ہو اس پر ایمان لے آؤ اسی میں تمہاری خیریت ہے، پھر وہ ایسا مہربان ہے کہ جو اس پر ایمان لے آئے اسے نہ نقصان کا خوف ہے نہ زیادتی کا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّاَنَّا ظَنَنَّآ اَنْ لَّنْ نُّعْجِزَ اللہَ فِي الْاَرْضِ وَلَنْ نُّعْجِزَہٗ ہَرَبًا۝ ١٢ ۙ ظن والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم/ 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن/ 7] ، ( ظ ن ن ) الظن اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس/ 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ عجز عَجُزُ الإنسانِ : مُؤَخَّرُهُ ، وبه شُبِّهَ مُؤَخَّرُ غيرِهِ. قال تعالی: كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] ، والعَجْزُ أصلُهُ التَّأَخُّرُ عن الشیء، وحصوله عند عَجُزِ الأمرِ ، أي : مؤخّره، كما ذکر في الدّبر، وصار في التّعارف اسما للقصور عن فعل الشیء، وهو ضدّ القدرة . قال تعالی: أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ [ المائدة/ 31] ، وأَعْجَزْتُ فلاناً وعَجَّزْتُهُ وعَاجَزْتُهُ : جعلته عَاجِزاً. قال : وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة/ 2] ، وَما أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ [ الشوری/ 31] ، وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ الحج/ 51] ، وقرئ : معجزین فَمُعَاجِزِينَ قيل : معناه ظانّين ومقدّرين أنهم يُعْجِزُونَنَا، لأنهم حسبوا أن لا بعث ولا نشور فيكون ثواب و عقاب، وهذا في المعنی کقوله : أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ أَنْ يَسْبِقُونا [ العنکبوت/ 4] ، و «مُعَجِّزِينَ» : يَنسُبُون إلى العَجْزِ مَن تَبِعَ النبيَّ صلّى اللہ عليه وسلم، وذلک نحو : جهّلته وفسّقته، أي : نسبته إلى ذلك . وقیل معناه : مثبّطين، أي : يثبّطون الناس عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم کقوله : الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف/ 45] ، وَالعَجُوزُ سمّيت لِعَجْزِهَا في كثير من الأمور . قال تعالی: إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الصافات/ 135] ، وقال : أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ [هود/ 72] . ( ع ج ز ) عجز الانسان عجز الانسان ۔ انسان کا پچھلا حصہ تشبیہ کے طور ہر چیز کے پچھلے حصہ کو عجز کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] جیسے کھجوروں کے کھو کھلے تنے ۔ عجز کے اصلی معنی کسی چیز سے پیچھے رہ جانا یا اس کے ایسے وقت میں حاصل ہونا کے ہیں جب کہ اسکا وقت نکل جا چکا ہو جیسا کہ لفظ کسی کام کے کرنے سے قاصر رہ جانے پر بولا جاتا ہے اور یہ القدرۃ کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ [ المائدة/ 31] اے ہے مجھ سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ میں ۔۔۔۔ ۔ اعجزت فلانا وعجزتہ وعاجزتہ کے معنی کسی کو عاجز کردینے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة/ 2] اور جان رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہیں کرسکو گے ۔ وَما أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ [ الشوری/ 31] اور تم زمین میں خدا کو عاجز نہیں کرسکتے ۔ وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ الحج/ 51] اور جہنوں نے ہماری آیتوں میں کوشش کی کہ ہمیں ہرادیں گے ۔ ایک قرات میں معجزین ہے معاجزین کی صورت میں اس کے معنی ہوں گے وہ یہ زعم کرتے ہیں کہ ہمیں بےبس کردیں گے کیونکہ وہ یہ گمان کرچکے ہیں کہ حشر ونشر نہیں ہے کہ اعمال پر جذا وسزا مر تب ہو لہذا یہ باعتبار معنی آیت کریمہ : أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ أَنْ يَسْبِقُونا [ العنکبوت/ 4] کیا وہ لوگ جو برے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ ہمارے قابو سے نکل جائیں گے ۔ کے مترادف ہوگا اور اگر معجزین پڑھا جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ وہ آنحضرت کے متبعین کیطرف عجز کی نسبت کرتے ہیں جیسے جھلتہ وفسقتہ کے معنی کسی کی طرف جہالت یا فسق کی نسبت کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک معجزین بمعنی مثبطین ہے یعنی لوگوں کو آنحضرت کی اتباع سے روکتے ہیں جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف/ 45] جو خدا کی راہ سے روکتے ( ہیں ) اور بڑھیا کو عجوز اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ بھی اکثر امور سے عاجز ہوجاتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الصافات/ 135] مگر ایک بڑھیا کہ پیچھے رہ گئی ۔ أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ [هود/ 72] اے ہے میرے بچہ ہوگا اور میں تو بڑھیا ہوں ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) هرب : الهَرَبُ : الفِرارُ. هَرَبَ يَهْرُبُ هَرَباً : فَرَّ ، يَكونُ ذَلِكَ للإِنسان، وَغَيْرِهِ مِنَ أَنواع الْحَيَوَانِ. وأَهْرَبَ : جَدَّ فِي الذَّهابِ مَذْعُوراً؛ وَقِيلَ : هُوَ إِذا جَدَّ فِي الذَّهَابِ مَذْعُوراً ، أَو غيرَ مَذْعور؛ وَقَالَ اللِّحْيَانِيُّ : يَكُونُ ذَلِكَ للفَرَس وَغَيْرِهِ مِمَّا يَعْدُو؛ وهَرَّبَ غيرَه تَهْريباً. وَقَالَ مرَّة : جاءَ مُهْرِباً أَي جَادًّا فِي الأَمْرِ؛ وَقِيلَ : جاءَ مُهْرِباً إِذا أَتاك هارِبا فَزِعاً؛ وفلانٌ لَنَا مَهْرَبٌ. وأَهْرَبَ الرجلُ إِذا أَبْعَدَ فِي الأَرض؛ وأَهْرَبَ فلانٌ فُلَانًا إِذا اضْطَرَّه إِلى الهَربِ. وَيُقَالُ : هَرَبَ مِنَ الوَتِدِ نِصْفُه فِي الأَرض أَي غابَ؛ قَالَ أَبو وَجْزَةَ : ومُجْنَأً كإِزاءِ الحَوْضِ مُنْثَلِماً ، ... ورُمَّةً نَشِبَتْ فِي هارِبِ الوَتِدِ ( لسان العرب)

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ہم نے سمجھ لیا تھا اور اسبات کا یقین کرلیا تھا کہ زمین کے کسی حصہ میں جاکر اللہ کو ہرا نہیں سکتے جس مقام پر بھی پہنچیں گے فورا پکڑ لیے جائیں گے اور کہیں بھاگ کر بھی اس سے نہیں چھوٹ سکتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

11 That is, "Morally also there are good and bad jinn among us, and from the viewpoint of creed as well all do not follow one and the same religion, but we are divided into different groups." With these words the believing jinn want to convince the other jinn of their community that they certainly stood in need of finding out the right way and could not dispense with this need.

سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :12 مطلب یہ ہے کہ ہمارے اسی خیال نے ہمیں نجات کی راہ دکھا دی ۔ ہم چونکہ اللہ سے بے خوف نہ تھے اور ہمیں یقین تھا کہ اگر ہم نے اس کی نافرمانی کی تو اس کی گرفت سے کسی طرح بچ نہ سکیں گے ، اس لیے جب وہ کلام ہم نے سنا جو اللہ تعالی کی طرف سے راہ راست بتانے آیا تھا تو ہم یہ جرات نہ کر سکے کہ حق معلوم ہو جانے کے بعد بھی انہی عقائد پر جمے رہتے جو ہمارے نادان لوگوں نے ہم میں پھیلا رکھے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(72:12) واذا ظننا۔ اور یہ کہ اب ہم سمجھ گئے۔ ان لن نعجز اللہ فی الارض : ان مصدریہ لن نعجز مضارع منفی منصوب تاکید بہ لن۔ صغیر جمع متکلم۔ اللہ مفعول ۔ ہم زمین پر بھی اللہ کو ہرگز عاجز نہیں کرسکتے۔ ھربا مصدر موضع حال میں ہے بمعنی ھاربین منھا اور نہ ہی ہم بھاگ کر اسے ہراسکتے ہیں۔ ھرب (باب نصر) بھاگنا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی زمین یا آسمان میں کہیں بھاگ جائیں، اس کے اتخیار اور پکڑ سے باہر نہیں جاسکتے کیونکہ ہر جگہ اسی کی حکومت ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ ھرب سے مراد ھرب فی غیر الارض ہے بقرینہ مقابلہ فی الارض کے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وانا ............................ ھربا (٢٧ : ٢١) ” اور یہ کہ ہم سمجھتے تھے کہ نہ زمین میں ہم اللہ کو عاجز کرسکتے ہیں اور نہ بھاگ کر اسے ہرا سکتے ہیں “۔ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ کو اس زمین میں ان پر پوری پوری قدرت حاصل ہے۔ یہ بھی وہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ اللہ سے بھاگ بھی نہیں سکتے۔ یعنی بندہ رب کے سامنے بہت ضعیف ہے۔ اور تمام مخلوق کا مقابلہ نہیں کرسکتی یعنی اسلام لانے سے پہلے بھی یہ گروہ اللہ کی قدرت اقتدار اور غلبے کا شعور اٹھتا تھا۔ یہ تھے وہ جن ، جن کے ہاں بعض انسان دور جاہلیت میں پناہ لیتے تھے۔ اور مشرکین عرب تو اپنی حاجات میں جنوں کو پکارتے تھے اور انہوں نے ان جنوں اور رب تعالیٰ کے درمیان رشتہ داری کا عقیدہ بھی تصنیف کرلیا تھا۔ جبکہ یہ جنات اپنی عاجزی ، اور اللہ کی قدرت کا اقرار کرتے ہیں۔ یہ اپنی ضعیفی اور اللہ کے اقتدار کی بات کرتے ہیں۔ یہ اپنی عاجزی اور اللہ کی قہاری وجباری کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ یہ بات وہ صرف اپنی قوم سے ہی نہیں کہتے بلکہ مشرکین مکہ سے بھی کہتے تھے کہ حقیقی قوت صرف اللہ کے پاس ہے جو اس کائنات کو تھامے ہوئے ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(12) اور یہ کہ ہمارا طریقہ تو یہ ہے کہ ہم نے اب سمجھ لیا ہے اور اس بات کا یقین کرلیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو زمین میں کہیں اور کسی حصے میں عاجز نہیں کرسکتے اور اس کو ہرا نہیں سکتے نہ اور کہیں بھاگ کر اس کو تھکا سکتے ہیں۔ یعنی ہم نے یہ بات تسلیم کرلی ہے کہ اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور ہم پر اللہ تعالیٰ کا قہر نازل ہوا تو اس وقت ہم زمین کے کسی حصے میں جاکر اللہ تعالیٰ کو عاجز کردیں یا زمین کے علاوہ کہیں بھاگ کر اللہ تعالیٰ کو تھکادیں اور اس کے قہر سے بچ جائیں تو ایسا نہیں ہوسکے گا۔