Surat ul Jinn

Surah: 72

Verse: 25

سورة الجن

قُلۡ اِنۡ اَدۡرِیۡۤ اَقَرِیۡبٌ مَّا تُوۡعَدُوۡنَ اَمۡ یَجۡعَلُ لَہٗ رَبِّیۡۤ اَمَدًا ﴿۲۵﴾

Say, "I do not know if what you are promised is near or if my Lord will grant for it a [long] period."

کہہ دیجئے مجھے معلوم نہیں کہ جس کا وعدہ تم سے کیا جاتا ہے وہ قریب ہے یا میرا رب اس کے لئے دورکی مدت مقرر کرے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Messenger of Allah does not know when the Hour will be Allah commands His Messenger to say to the people that he has no knowledge of when the Hour will be and he does not know whether its time is near or far. قُلْ إِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ مَّا تُوعَدُونَ أَمْ يَجْعَلُ لَهُ رَبِّي أَمَدًا Say: "I know not whether which you are promised is near or whether my Lord will appoint for it a distant term." meaning, a long period of time. In this noble Ayah is an evidence that the Hadith that many of the ignorant people often circulate, which says that the Prophet will not remain under the earth more than one thousand years (i.e., the Hour will be before that period) is a baseless lie. We have not seen it in any of the Books (of Hadith). Verily, the Messenger of Allah was asked about the time of the Hour and he would not respond. When Jibril appeared to him in the form of a Bedouin Arab, one of the questions he asked the Prophet was, "O Muhammad! Tell me about the Hour" So the Prophet replied, مَا الْمَسْوُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّايِل The one questioned about it knows no more than the questioner. On another occasion when a Bedouin Arab called out to the Prophet in a loud voice saying, "O Muhammad! When will be the Hour" The Prophet said, وَيْحَكَ إِنَّهَا كَايِنَةٌ فَمَا أَعْدَدْتَ لَهَا Woe unto you. Verily, it will occur so what have you prepared for it? The man replied, "I have not prepared much for it of prayers and fasting, but I love Allah and His Messenger." The Prophet then replied, فَأَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْت Then you will be with whomever you love. Anas said, "The Muslims were not happier with anything like they were upon (hearing) this Hadith." Concerning Allah's statement, عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا

اللہ کے سوا قیامت کب ہو گی کسی کو نہیں معلوم اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ لوگوں سے کہدیں کہ قیامت کب ہو گی ، اس کا علم مجھے نہیں ، بلکہ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کا وقت قریب ہے یا دور ہے اور لمبی مدت کے بعد آنے والی ہے ، اس آیت کریمہ میں دلیل ہے اس امر کی کہ اکثر جاہلوں میں جو مشہور ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام زمین کی اندر کی چیزوں کا بھی علم رکھتے ہیں وہ بالکل غلط ہے اس روایت کی کوئی اصل نہیں محض جھوٹ ہے اور بالکل بے اصل روایت ہے ہم نے تو اسے کسی کتاب میں نہیں پایا ، ہاں اس کے خلاف صاف ثابت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے قائم ہونے کا وقت پوچھا جاتا تھا اور آپ اس کی معین وقت سے اپنی لاعلمی ظاہر کرتے تھے ، اعرابی کی صورت میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بھی آ کر جب قیامت کے بارے میں سوال کیا تھا تو آپ نے صاف فرمایا تھا کہ اس کا علم نہ پوچھنے والے کو ہے نہ اسے جس سے پوچھا جا رہا ہے ، ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک دیہات کے رہنے والے نے با آواز بلند آپ سے دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا وہ آئے گی ضرور مگر یہ بتا کہ تو نے اس کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ اس نے کہا میرے پاس روزے نماز کی اکثرت تو نہیں البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے آپ نے فرمایا پھر تو اس کے ساتھ ہو گا جس کی تجھے محبت ہے ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مسلمان کسی حدیث سے اس قدر خوش نہیں ہوئے جتنے اس حدیث سے ، اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ قیامت کا ٹھیک وقت آپ کو معلوم نہ تھا ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ آپ نے فرمایا اے لوگو اگر تم میں علم ہے تو اپنے تئیں مردوں میں شمار کیا کرو اللہ کی قسم جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ یقیناً ایک وقت آنے والی ہے ، یہاں بھی آپ کوئی مقررہ وقت نہیں بتاتے ، ابو داؤد میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس امت کو کیا عجب کہ آدھے دن تک کی مہلت دے دے اور روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ حضرت سعد سے پوچھا گیا کہ آدھے دن سے کیا مراد ہے فرمایا پانچ سو سال ۔ پھر فرماتا ہے اللہ عالم الغیب ہے وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا مگر مرسلین میں سے جسے چن لے جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ ٢٥٥؁ ) 2- البقرة:255 ) یعنی اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر جو اللہ چاہے ۔ یعنی رسول خواہ انسانوں میں سے ہوں خواہ فرشتوں میں سے ہوں جسے اللہ جتنا چاہتا ہے بتا دیتا ہے بس وہ اتنا ہی جانتے ہیں ۔ پھر اس کی مزید تخصیص یہ ہوتی ہے کہ اس کی حفاظت اور ساتھ ہی اس علم کی اشاعت کے لئے جو اللہ نے اسے دیا ہے اس کے آس پاس ہر وقت نگہبان فرشتے مقرر رہتے ہیں ۔ لیعلم کی ضمیر بعض نے تو کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے یعنی حضرت جبرائیل کے آگے پیچھے چار چار فرشتے ہوتے تھے تاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین آ جائے کہ انہوں نے اپنے رب کا پیغام صحیح طور پر مجھے پہنچایا ہے اور بعض کہتے ہیں مرجع ضمیر کا اہل شرک ہے یعنی باری باری آنے والے فرشتے نبی اللہ کی حفاظت کرتے ہیں شیطان سے اور اس کی ذریات سے تاکہ اہل شرک جان لیں کہ رسولوں نے رسالت اللہ ادا کر دی ، یعنی رسولوں کو جھٹلانے والے بھی رسولوں کی رسالت کو جان لیں مگر اس میں کچھ اختلاف ہے ۔ یعقوب کی قرأت پیش کے ساتھ ہے یعنی لوگ جان لیں کہ رسولوں نے تبلیغ کر دی اور ممکن ہے کہ یہ مطلب ہو کہ اللہ تعالیٰ جان لے یعنی وہ اپنے رسولوں کی اپنے فرشتے بھیج کر حفاظت کرتا ہے تاکہ وہ رسالت ادا کر سکیں اور وحی الٰہی محفوظ رکھ سکیں اور اللہ جان لے کہ انہوں نے رسالت ادا کر دی جیسے فرمایا آیت ( وما جعلنا القبلتہ التی کنت علیھا ) یعنی جس قبیلے پر تو تھا اسے ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے تابعداروں اور مرتدوں کو جان لیں اور جگہ ہے آیت ( وَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ 11۝ ) 29- العنكبوت:11 ) یعنی اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو اور منافقوں کو برابر جان لے گا اور بھی اس قسم کی آیتیں ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ پہلے ہی سے جانتا ہے لیکن اسے ظاہر کر کے بھی جان لیتا ہے ، اسی لئے یہاں اس کے بعد ہی فرمایا کہ ہر چیز اور سب کی گنتی اللہ کے علم کے احاطہ میں ہے ۔ الحمد اللہ سورہ جن کی تفسیر ختم ہوئی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

25۔ 1 مطلب یہ ہے کہ عذاب یا قیامت کا علم، یہ غیب سے تعلق رکھتا ہے جس کو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ وہ قریب ہے یا دور۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٣] اس آیت میں سوال دہرائے بغیر کفار کے ایک بار بار کے گھسے پٹے سوال کا جواب دیا جارہا ہے جو یہ کہ قیامت کے دن کی معین تاریخ کا مجھے کچھ علم نہیں اس لیے کہ میں عالم الغیب نہیں ہوں نہ ہی میں نے کبھی اس بات کا دعویٰ کیا ہے۔ عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وہی جانتا ہے کہ وہ جلد آئے گی یا بدیر ؟ ہاں اتنی بات میں بھی جانتا ہوں کہ وہ آئے گی ضرور خواہ کب آئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قل ان ادری اقریب …) یعنی یہ جاننا کہ کل کیا ہوگا اور قیامت کب آئے گی غیب میں شامل ہے اور غیب جاننے والا صرف اور صرف میرا رب ہے، چناچہ دوسری جگہ فرمایا :(ان الہ عندہ علم الساعۃ وینزل الغیث ویعلم ما فی الارحام وما تدری نفس ماذا تکسب غداً وما تدری نفس بای ارض تموت ان اللہ علیم خبیر) (لقمان، ٣٣)” بیشک اللہ ہی ہے جس کے پاس قیامت کا علم ہے اور وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹوں میں ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائی کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ کس زمین میں مرے گا، بیشک اللہ سب کچھ جاننے والا، پوری خبر رکھنے والا ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Ruling By common consent of the scholars, prostration to anyone other Allah is totally forbidden. According to some scholars, it is tantamount to قُلْ إِنْ أَدْرِ‌ي أَقَرِ‌يبٌ مَّا تُوعَدُونَ أَمْ يَجْعَلُ لَهُ رَ‌بِّي أَمَدًا عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ‌ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا (Say, I do not know whether that which you are promised is near, or my Lord has appointed for it a distant term. [ He is the ] Knower of the Unseen. So He does not let anyone know His Unseen....72:25-26) The non-believers demanded that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) should show them the exact time and date when the Resurrection will occur. In verse [ 25] he is enjoined to say to them that it was not for him to say when the threatened punishment would come, but come it must.

(آیت) قُلْ اِنْ اَدْرِيْٓ اَقَرِيْبٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ اَمْ يَجْعَلُ لَهٗ رَبِّيْٓ اَمَدًا 25؀ عٰلِمُ الْغَيْبِ ان آیتوں میں سے پہلی آیت میں تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم فرمایا کہ آپ ان منکرین سے جو آپ کو قیامت کا معین وقت بتلانے پر مجبور کرتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں یہ فرما دیجئے کہ قیامت کا آنا اور وہاں جزاء و سزا ہونا تو یقینی ہے لیکن اس کے واقع ہونے کی صحیح تاریخ اور وقت کو اللہ تعالیٰ نے کسی کو نہیں بتلایا اس لئے میں نہیں جانتا کہ وہ روز قیامت قریب آ چکا ہے یا میرا رب اس کے لئے کوئی دور کی مدت مقرر کر دے گا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اِنْ اَدْرِيْٓ اَقَرِيْبٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ اَمْ يَجْعَلُ لَہٗ رَبِّيْٓ اَمَدًا۝ ٢٥ دری الدّراية : المعرفة المدرکة بضرب من الحیل، يقال : دَرَيْتُهُ ، ودَرَيْتُ به، دِرْيَةً ، نحو : فطنة، وشعرة، وادَّرَيْتُ قال الشاعر : وماذا يدّري الشّعراء منّي ... وقد جاوزت رأس الأربعین والدَّرِيَّة : لما يتعلّم عليه الطّعن، وللناقة التي ينصبها الصائد ليأنس بها الصّيد، فيستتر من ورائها فيرميه، والمِدْرَى: لقرن الشاة، لکونها دافعة به عن نفسها، وعنه استعیر المُدْرَى لما يصلح به الشّعر، قال تعالی: لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق/ 1] ، وقال : وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ [ الأنبیاء/ 111] ، وقال : ما كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتابُ [ الشوری/ 52] ، وكلّ موضع ذکر في القرآن وما أَدْراكَ ، فقد عقّب ببیانه نحو وما أَدْراكَ ما هِيَهْ نارٌ حامِيَةٌ [ القارعة/ 10- 11] ، وَما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ [ القدر/ 2- 3] ، وَما أَدْراكَ مَا الْحَاقَّةُ [ الحاقة/ 3] ، ثُمَّ ما أَدْراكَ ما يَوْمُ الدِّينِ [ الانفطار/ 18] ، وقوله : قُلْ لَوْ شاءَ اللَّهُ ما تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْراكُمْ بِهِ [يونس/ 16] ، من قولهم : دریت، ولو کان من درأت لقیل : ولا أدرأتكموه . وكلّ موضع ذکر فيه : وَما يُدْرِيكَ لم يعقّبه بذلک، نحو : وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى [ عبس/ 30] ، وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ [ الشوری/ 17] ، والدّراية لا تستعمل في اللہ تعالی، وقول الشاعر : لا همّ لا أدري وأنت الدّاري فمن تعجرف أجلاف العرب ( د ر ی ) الدرایۃ اس معرفت کو کہتے ہیں جو کسی قسم کے حیلہ یا تدبیر سے حاصل کی جائے اور یہ دریتہ ودریت بہ دریۃ دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ( یعنی اس کا تعدیہ باء کے ساتھ بھی ہوتا ہے ۔ اور باء کے بغیر بھی جیسا کہ فطنت وشعرت ہے اور ادریت بمعنی دریت آتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ع اور شعراء مجھے کیسے ہو کہ دے سکتے ہیں جب کہ میں چالیس سے تجاوز کرچکاہوں قرآن میں ہے ۔ لا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذلِكَ أَمْراً [ الطلاق/ 1] تجھے کیا معلوم شاید خدا اس کے کے بعد کوئی ( رجعت کی سبیلی پیدا کردے ۔ وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ [ الأنبیاء/ 111] اور میں نہیں جانتا شاید وہ تمہارے لئے آزمائش ہو ۔ ما كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتابُ [ الشوری/ 52] تم نہ تو کتاب کو جانتے تھے ۔ اور قرآن پاک میں جہاں کہیں وما ادراک آیا ہے وہاں بعد میں اس کا بیان بھی لایا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَما أَدْراكَ ما هِيَهْ نارٌ حامِيَةٌ [ القارعة/ 10- 11] اور تم کیا سمجھتے کہ ہاویہ ) کیا ہے ؟ ( وہ ) دھکتی ہوئی آگ ہے ۔ وَما أَدْراكَ ما لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ [ القدر/ 2- 3] اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے ؟ شب قدر ۔ وَما أَدْراكَ مَا الْحَاقَّةُ [ الحاقة/ 3] اور تم کو کیا معلوم ہے کہ سچ مچ ہونے والی کیا چیز ہے ؟ ثُمَّ ما أَدْراكَ ما يَوْمُ الدِّينِ [ الانفطار/ 18] اور تمہیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیسا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ قُلْ لَوْ شاءَ اللَّهُ ما تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْراكُمْ بِهِ [يونس/ 16] یہ بھی ) کہہ و کہ اگر خدا چاہتا تو ( نہ تو ) میں ہی یہ کتاب ) تم کو پڑھکر سناتا اور نہ وہی تمہیں اس سے واقف کرتا ۔ میں سے ہے کیونکہ اگر درآت سے ہوتا تو کہا جاتا ۔ اور جہاں کہیں قران میں وما يُدْرِيكَآیا ہے اس کے بعد اس بیان مذکور نہیں ہے ( جیسے فرمایا ) وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّى [ عبس/ 30] اور تم کو کیا خبر شاید وہ پاکیزگی حاصل کرتا ہے ۔ وَما يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ [ الشوری/ 17] اور تم کیا خبر شاید قیامت قریب ہی آپہنچی ہو یہی وجہ ہے کہ درایۃ کا لفظ اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال نہیں ہوتا اور شاعر کا قول ع اے اللہ ہی نہیں جانتا اور تو خوب جانتا ہے میں جو اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوا ہے بےسمجھ اور اجڈ بدر دکا قول ہے ( لہذا حجت نہیں ہوسکتا ) الدریۃ ( 1 ) ایک قسم کا حلقہ جس پر نشانہ بازی کی مشق کی جاتی ہے ۔ ( 2 ) وہ اونٹنی جسے شکار کو مانوس کرنے کے لئے کھڑا کردیا جاتا ہے ۔ اور شکار اسکی اوٹ میں بیٹھ جاتا ہے تاکہ شکا کرسکے ۔ المدوی ( 1 ) بکری کا سینگ کیونکہ وہ اس کے ذریعہ مدافعت کرتی ہے اسی سے استعارہ کنگھی یا بار یک سینگ کو مدری کہا جاتا ہے جس سے عورتیں اپنے بال درست کرتی ہیں ۔ مطعن کی طرح مد سر کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی بہت بڑے نیزہ باز کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ عنبر میں زکوۃ نہیں ہے وہ ایک چیز ہے جسے سمندر کنارے پر پھینک دیتا ہے ۔ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) قرب الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] ، وَلا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام/ 152] ، وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء/ 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة/ 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة/ 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة/ 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات/ 27] . وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء/ 1] ، ( ق ر ب ) القرب القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ وَلا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام/ 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء/ 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة/ 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة/ 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات/ 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء/ 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ أمّ الأُمُّ بإزاء الأب، وهي الوالدة القریبة التي ولدته، والبعیدة التي ولدت من ولدته . ولهذا قيل لحوّاء : هي أمنا، وإن کان بيننا وبینها وسائط . ويقال لکل ما کان أصلا لوجود شيء أو تربیته أو إصلاحه أو مبدئه أمّ ، قال الخلیل : كلّ شيء ضمّ إليه سائر ما يليه يسمّى أمّا قال تعالی: وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتابِ [ الزخرف/ 4] أي : اللوح المحفوظ وذلک لکون العلوم کلها منسوبة إليه ومتولّدة منه . وقیل لمكة أم القری، وذلک لما روي : (أنّ الدنیا دحیت من تحتها) وقال تعالی: لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرى وَمَنْ حَوْلَها [ الأنعام/ 92] ، وأمّ النجوم : المجرّة . قال : 23 ۔ بحیث اهتدت أمّ النجوم الشوابک وقیل : أم الأضياف وأم المساکين کقولهم : أبو الأضياف ويقال للرئيس : أمّ الجیش کقول الشاعر : وأمّ عيال قد شهدت نفوسهم وقیل لفاتحة الکتاب : أمّ الکتاب لکونها مبدأ الکتاب، وقوله تعالی: فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] أي : مثواه النار فجعلها أمّا له، قال : وهو نحو مَأْواكُمُ النَّارُ [ الحدید/ 15] ، وسمّى اللہ تعالیٰ أزواج النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمهات المؤمنین فقال : وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] لما تقدّم في الأب، وقال : ابْنَ أُمَ [ طه/ 94] ولم يقل : ابن أب، ولا أمّ له يقال علی سبیل الذم، وعلی سبیل المدح، وکذا قوله : ويل أمّه وکذا : هوت أمّه والأمّ قيل : أصله : أمّهة، لقولهم جمعا : أمهات، وفي التصغیر : أميهة . وقیل : أصله من المضاعف لقولهم : أمّات وأميمة . قال بعضهم : أكثر ما يقال أمّات في البهائم ونحوها، وأمهات في الإنسان . ( ا م م ) الام یہ اب کا بالمقابل ہے اور ماں قریبی حقیقی ماں اور بعیدہ یعنی نانی پر نانی وغیرہ سب کو ام کہاجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت حواء کو امنا کہا گیا ہے اگرچہ ہمارا ان سے بہت دور کا تعلق ہے ۔ پھر ہر اس چیز کو ام کہا جاتا ہے ۔ جو کسی دوسری چیز کے وجود میں آنے یا اس کی اصلاح وتربیت کا سبب ہو یا اس کے آغاز کا مبداء بنے ۔ خلیل قول ہے کہ ہر وہ چیز جس کے اندر اس کے جملہ متعلقات منضم ہوجائیں یا سما جائیں ۔۔ وہ ان کی ام کہلاتی ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ } ( سورة الزخرف 4) اور یہ اصل نوشتہ ( یعنی لوح محفوظ ) میں ہے ۔ میں ام الکتاب سے مراد لوح محفوظ ہے کیونکہ وہ وہ تمام علوم کا منبع ہے اور اسی کی طرف تمام علوم منسوب ہوتے ہیں اور مکہ مکرمہ کو ام القریٰ کہا گیا ہے ( کیونکہ وہ خطبہ عرب کا مرکز تھا ) اور بموجب روایت تمام روئے زمین اس کے نیچے سے بچھائی گئی ہے ( اور یہ ساری دنیا کا دینی مرکز ہے ) قرآن میں ہے :۔ { لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا } ( سورة الشوری 7) تاکہ تو مکہ کے رہنے والوں کے انجام سے ڈرائے ۔ ام النجوم ۔ کہکشاں ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (23) بحیث اھتدت ام النجوم الشو ایک یعنی جہان کہ کہکشاں راہ پاتی ہے ام الاضیاف ۔ مہمان نواز ۔ ام المساکین ۔ مسکین نواز ۔ مسکینوں کا سہارا ۔ ایسے ہی جیسے بہت زیادہ مہمان نواز کو ، ، ابوالاضیاف کہا جاتا ہے اور رئیس جیش کو ام الجیش ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (24) وام عیال قدشھدت تقوتھم ، ، اور وہ اپنی قوم کے لئے بمنزلہ ام عیال ہے جو ان کو رزق دیتا ہے ۔ ام الکتاب ۔ سورة فاتحہ کا نام ہے ۔ کیونکہ وہ قرآن کے لئے بمنزلہ اور مقدمہ ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ { فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ } ( سورة القارعة 9) مثویٰ یعنی رہنے کی جگہ کے ہیں ۔ جیسے دوسری جگہ دوزخ کے متعلق { وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ } ( سورة العنْکبوت 25) فرمایا ہے ( اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امہ ھاویۃ ایک محاورہ ہو ) جس طرح کہ ویل امہ وھوت امہ ہے یعنی اس کیلئے ہلاکت ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ :۔ { وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } ( سورة الأحزاب 6) میں ازواج مطہرات کو امہات المومنین قرار دیا ہے ۔ جس کی وجہ بحث اب میں گزرچکی ہے ۔ نیز فرمایا ۔ { يَا ابْنَ أُمَّ } ( سورة طه 94) کہ بھائی ۔ ام ۔ ( کی اصل میں اختلاف پایا جاتا ہے ) بعض نے کہا ہے کہ ام اصل میں امھۃ ہے کیونکہ اس کی جمع امھات اور تصغیر امیھۃ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اصل میں مضاعف ہی ہے کیونکہ اس کی جمع امات اور تصغیر امیمۃ آتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ عام طور پر حیونات وغیرہ کے لئے امات اور انسان کے لئے امھات کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ امد قال تعالی: تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَها وَبَيْنَهُ أَمَداً بَعِيداً [ آل عمران/ 30] . والأَمَد والأبد يتقاربان، لکن الأبد عبارة عن مدّة الزمان التي ليس لها حدّ محدود، ولا يتقید، لا يقال : أبد کذا . والأَمَدُ : مدّة لها حدّ مجهول إذا أطلق، وقد ينحصر نحو أن يقال : أمد کذا، كما يقال : زمان کذا، والفرق بين الزمان والأمد أنّ الأمد يقال باعتبار الغاية، والزمان عامّ في المبدأ والغاية، ولذلک قال بعضهم : المدی والأمد يتقاربان . ( ا م د ) الامد ۔ ( موت ۔ غایت ) قرآن میں ہے :۔ { تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ أَمَدًا بَعِيدًا } ( سورة آل عمران 30) تو آرزو کریگا کہ کاش اس میں اور اس پرائی میں انتہائی بعد ہوتا ۔ الامد والابد دونوں قریب المعنی ہیں لیکن ابد غیر متعین اور غیر محدود زمانہ کے معنی دیتا ہے لہذا ابد کذا ( اتنی مدت ) کا محاورہ صحیح نہیں ہے اور امد غیر معین مگر محدود زمانہ کے معنی دیتا ہے لہذا امد کذا ( اتنی مدت ) کہنا صحیح ہے جس طرح کہ زمان کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ زمان اور امد کے لفظ میں صرف اتنا فرق ہے کہ امد کا لفظ کسی مدت کی نہایت اور غایت کے لئے بولا جاتا ہے اور زمان کا لفظ کسی مدت کے مندا اور غایت کے لئے استعمال ہوتا ہے اسی بناء پر بعض نے کہا ہے المدی والامد دونوں قریبامعنی ہیں ( یعنی کسی چیز کی موت کی غایت بیان کرنے کے لئے آتے ہیں )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جس وقت یہ عذاب کے نازل ہونے کا جلدی مطالبہ کریں تو آپ ان سے یہ بھی فرما دیجیے مجھے معلوم نہیں کہ وہ عذاب نزدیک ہے یا یہ کہ اس کے لیے کوئی لمبی مدت مقرر کر رکھی ہے وہ نزول عذاب سے واقف ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥{ قُلْ اِنْ اَدْرِیْٓ اَقَرِیْبٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ اَمْ یَجْعَلُ لَہٗ رَبِّیْٓ اَمَدًا ۔ } ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ بھی کہہ دیجیے کہ مجھے معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ قریب آچکی ہے یا میرا رب اس کی مدت اور لمبی کر دے گا۔ “ مَا تُوْعَدُوْنَ کا ترجمہ یوں بھی ہوسکتا ہے کہ وہ چیز جس کی تم لوگوں کو وعید یا دھمکی دی جا رہی ہے ۔ وعدہ اور وعید دونوں الفاظ ایک ہی مادہ (وعد) سے مشتق ہیں۔ اس لحاظ سے وعید (دھمکی) کی حیثیت بھی گویا ایک وعدے کی سی ہے۔ اس آیت کا مضمون ملتے جلتے الفاظ میں سورة الانبیاء کی اس آیت میں بھی آچکا ہے : { وَاِنْ اَدْرِیْٓ اَقَرِیْبٌ اَمْ بَعِیْدٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ ۔ } کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ انہیں بتادیں کہ میں نہیں جانتا کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ قریب آچکی ہے یا ابھی دور ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

24 The background of this verse is that those of the Quraish who used to mob and surround the, Holy Prophet (upon whom be peace) as soon as they heard his invitation calling to Allah, were under the delusion that they had a strong band at their back and that the Holy Prophet had only a handful of men with him, and therefore, they would easily overwhelm him. At this it is being said: Today these people find the Messenger helpless and friendless and themselves supported and strengthened by great hosts and, therefore, feel encouraged and emboldened to suppress the invitation to the Truth. But when the evil time with which they are being threatened comes, they will know who in actual fact is helpless and friendless.

سورة الْجِنّ حاشیہ نمبر :25 انداز بیان سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک سوال کا جواب ہے جو سوال نقل کیے بغیر دیا گیا ہے ۔ غالباً اوپر کی بات سن کر مخالفین نے طنز اور مذاق کے طور پر سوال کیا ہو گا کہ وہ وقت جس کا ڈراوا آپ دے رہے ہیں آخر کب آئے گا ؟ اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ ان لوگوں سے کہو ، اس وقت کا آنا تو یقینی ہے مگر اس کے آنے کی تاریخ مجھے نہیں بتائی گئی ۔ یہ بات اللہ تعالی ہی کو معلوم ہے کہ آیا وہ جلدی آنے و الا ہے یا اس کے لیے ایک طویل مدت مقرر کی گئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

13: اس سے مراد قیامت ہے جس کا ٹھیک ٹھیک وقت کوئی نہیں جانتا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٥۔ ٢٨۔ اوپر یہ ذکر تھا کہ اللہ کے وعدہ کے موافق کوئی آفت آگئی تو ہر کوئی جان لے گا کہ مشرکوں کی بڑی بھیڑ کا کیا انجام ہوا اور اللہ کے فرمانبردار تھوڑے سے مسلمانوں کا کیا انجام ہوا۔ اس کو سن کر بعض مشرکوں نے کہا آخر وہ عذاب کب ہے جس سے ہر وقت ڈرایا جاتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرمایا اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے تم ان عذاب کے جلد باز لوگوں کو جواب دے دو کہ عذاب دنیا کا یا عذاب قیامت کا خاص وقت اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے مجھ کو معلوم نہیں کیونکہ عذاب کے آنے کا خاص وقت ایک علم غیب ہے جو بجز اللہ تعالیٰ کے کسی کو معلوم نہیں۔ ہاں وہ اپنے رسولوں میں جس کو چاہتا ہے اس کو بذریعہ وحی کے غیب کی باتوں میں سے کچھ باتیں بتا دیتا ہے تاکہ وہ غیب کی بات کا بتانا نبی کی نبوت کی شان ٹھہرے اور اس وحی کی حفاظت کا خدا کی طرف سے آسمان و زمین پر بہت بڑا انتظام ہے آسمان پر جگہ جگہ فرشتے تعینات ہیں جو وحی کی خبر چوری سے سننے والے جنات پر چاروں طرف سے انگارے برساتے ہیں ‘ اور کوئی وحی کی خبر ان کو چوری سے سننے نہیں دیتے۔ آسمان سے زمین پر جب وحی کی خبر آتی ہے تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارد گرد ہر طرف فرشتے اس بات کی چوکسی کرتے ہیں کہ اس میں کوئی شیطانی دخل نہ ہونے پائے۔ یہ سب انتظام اللہ تعالیٰ نے ظاہری اسباب کے طور پر فرمایا ہے ورنہ علم باطنی کے طور پر ذرہ ذرہ سب اس کو معلوم ہے کوئی شے اس کے علم سے باہر نہیں جو چیز مخلوقات کی نظروں سے غائب ہے اس کو غیب کہتے ہیں۔ عذاب قبر ‘ جنت ‘ دوزخ ‘ یہ سب غیب کی چیزیں ہیں صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم میں حضرت ابوذر (رض) سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) سے فرمایا جنت اور دوزخ کا حال جو کچھ مجھ کو معلوم ہے اگر وہ تم لوگوں کو معلوم ہوجائے تو تم ہنسنا بالکل کم کر دو ‘ ہر وقت روتے رہو ‘ بستی کو چھوڑ کر جنگل کو چلے جاؤ اور ہر دم اللہ سے لو لگائے رہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض غیب کی باتیں دنیا کا انتظام قائم رہنے کے لئے سوائے اللہ کے رسول کے امت کے لوگوں پر تفصیل سے ظاہر نہیں کی گئی ہیں۔ زمخشری اور معزلہ فرقے کے لوگوں نے الا من ارتضی من رسول سے یہ مطلب نکالا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جبکہ رسولوں کا ذکر خاص طور پر غیب کی خبر دیئے جانے میں کیا ہے تو اولیاء کی کرامت کا وجود دنیا میں باقی نہ رہنا چاہئے کیونکہ اولیاء رسول نہیں ہیں مگر صحیح حدیثوں سے اولیاء کی کرامات کا ثبوت ملتا ہے اس لئے علمائے اہل سنت نے طرح طرح سے معتزلی فرقے کے لوگوں کو قائل کیا ہے۔ امام فخر الدین رازی نے ان آیتوں کی تفسیر میں چند کاہنوں کے قصے جو لکھے ہیں وہ قرآن شریف کے نازل ہونے کے زمانہ سے پہلے کے ہیں اور یہ اوپر گزر چکا ہے کہ قرآن شریف کے نازل ہونے کے زمانہ سے پہلے جنات آسمان کی کچھ خبریں چوری سے سن آیا کرتے تھے اور کاہنوں سے بیان کردیا کرتے تھے کیونکہ اس زمانہ میں جنات کے آسمان تک جانے میں زیادہ روک ٹوک نہ تھی غرض ان وجوہات سے نہ وہ کاہنوں کے قصے ان آیتوں کے مخالف قرار پاسکتے ہیں نہ ان آیتوں کی تفسیر سے ان قصوں کو کچھ تعلق ہے۔ امد کے معنی لمبی مدت کے ہیں۔ رصد کے معنی وحی کی حفاظت کرنے والے فرشتے۔ (١ ؎ الترغیب و الترہیب۔ الترغیب فی الخوف وفضلد ص ٤٩٤ ج ٤۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(72:25) قل ان ادری : ان نافیہ ہے ادری فعل مضارع واحد متکلم درایۃ (باب ضرب) مصدر۔ میں نہیں جانتا ہوں۔ مجھے خبر نہیں۔ اقریب : میں ہمزہ استفہامیہ ہے آیا قریب ہے قریب خبر مقدم ہے اور ما توعدون مبتدا مؤخر۔ یا قریب از قسم فعل مشبہ اور ما توعدون اس کا فاعل ہے۔ ما توعدون : ما موصولہ توعدون مضارع مجہول کا صیغہ جمع مذکر حاضر وعد (باب ضرب) مصدر سے۔ صلہ۔ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے یا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس وعدہ سے مراد دنیوی عذاب یا قیامت ہے۔ ام۔ حرف عطف ہے بمعنی یا۔ یجعل مضارع واحد مذکر غائب فعل باب فتح مصدر، وہ مقرر کرتا ہے۔ وہ مقرر کر دیگا۔ اس نے مقرر کردی ہے۔ لہ میں ضمیر ہ کا مرجع ما توعدون ہے۔ امدا : مدت، حد، انتہاء اس کی جمع اماد ہے۔ امدا مدت مقرر کرنا ۔ ترجمہ ہوگا :۔ یا میرے رب نے اس عذاب (یا قیامت) کی (لمبی) مدت مقرر کردی ہے۔ امدا منصوب بوجہ مفعول ہونے کے ہے۔ صاحب تفہیم القرآن اس آیت کے تحت رقمطراز ہیں :۔ انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے وہ یہ کہ اوپر کی بات سن کر مخالفین نے طنز اور مذاق کے طور پر سوال کیا کہ وہ وقت جس کا ڈراوا آپ دے رہے ہیں آخر کب آئے گا ؟ اس کے جواب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا کہ :۔ ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ اس وقت کا آنا تو یقینی ہے مگر اس کے آنے کی تاریخ مجھے نہیں بتائی گئی یہ بات اللہ تعالیٰ کو ہی معلوم ہے کہ آیا وہ جلدی آنے والا ہے یا اس کیلئے ایک طویل مدت مقرر کی گئی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 یعنی یہ عذاب تو تم پر یقینا آئے گا لیکن متعین طور پر وہ کب آئے گا ؟ آیا بہت جلد آئے گا یا اس کے آنے میں ایک لمبی مدت ہے ؟ اس کا علم مجھے نہیں دیا گیا کیونکہ یہ ان امور غیب میں سے ہے جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری کا مقصد لوگوں کو اللہ کی توحید اور اس کے دین سے آگاہ کرنا تھا آپ نے اہل مکہ کو توحید کی دعوت دی تو انہوں نے اسے قبول کرنے کی بجائے بغاوت اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور گھمنڈ میں آکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عذاب لانے کا مطالبہ کرنے لگے جس کے جواب میں آپ کو حکم ہوا کہ آپ انہیں فرمائیں عذاب لانا میرے بس کی بات نہیں اور نہ میں یہ جانتا ہوں کہ عذاب کب آئے گا البتہ میرا رب چاہے تو اس عذاب کو جلد یا بدیر نازل کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوشخبری دینے و الا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ جب آپ برے لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرتے تو وہ لوگ کفر و شرک چھوڑنے کی بجائے آپ سے مطالبہ کرتے کہ جس عذاب یا قیامت کا ہمیں وعدہ دیا جاتا ہے وہ عذاب اور قیامت کب برپا ہوگی۔ کفار کے اس مطالبے کے جواب میں قرآن مجید نے کئی دلائل دئیے۔ ان میں سے ایک دلیل اور جواب یہ دیا کہ اے نبی ! انہیں بتلائیں کہ میں نہیں جانتا جس دن کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ قریب ہے یا میرے رب نے اس کی مدت دراز کر رکھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہی غیب کے معاملات جاننے والا ہے وہ اپنے غیب کے معاملات کو کسی پر ظاہر نہیں کرتا۔ البتہ جس بات کو وہ اپنے رسول کے لیے پسند فرمائے صرف اس بات سے رسول کو آگاہ کرتا ہے۔ جب وہ اپنے غیب کے بارے میں اپنے رسول کو وحی کرتا ہے تو اس وحی کی حفاظت کے لیے اس کے آگے پیچھے نگران مقرر کردیتا ہے تاکہ اس کے سامنے یہ بات واضح ہوجائے کہ ملائکہ نے اپنے رب کے احکام ٹھیک ٹھیک انداز میں اس کے رسول تک پہنچادیئے ہیں۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے اور ہر چیز کا شمار اس کے پاس موجود ہے۔ اس آیت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ ” اللہ تعالیٰ کو معلوم ہوجائے۔ “ اس کے مفسرین نے تین مفہوم بیان کیے ہیں۔ ١۔ واضح ہوجائے کہ فرشتے نے اللہ کی وحی اس کے نبی تک پہنچادی ہے۔ ٢۔ ثابت ہوجائے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچا دیا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کی حفاظت کا بندوبست اس لیے فرمایا تاکہ ٹھیک ٹھیک طریقے سے نبی تک اس کا پیغام پہنچ جائے۔ کیا انبیائے کرام (علیہ السلام) غیب جانتے تھے : اس آیت میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ غیب کی باتیں رسول کے سوا کسی پر ظاہر نہیں کرتا اس سے کچھ لوگوں کو مغالطہ ہوا یا انہوں نے جان بوجھ کر یہ مطلب لیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب جانتے ہیں۔ جن لوگوں کو مغالطہ ہوا ان میں تفسیر ضیاء القرآن کے مفسر بھی شامل ہیں۔ چناچہ فرماتے ہیں : ” عَالِمُ الْغَیْبِ “ خبر ہے اور اس کی مبتدا ” ھُوَ “ محذوف ہے یعنی ” ھُوَعَالِمُ الْغَیْبِ “ یہاں مبتدا اور خبر دونوں معرفہ ہیں اس لیے حصر کا معنٰی پایا جائے گا۔ یعنی وہی غیب کو جاننے والا ہے۔ اس سے پتہ چل گیا کہ کوئی انسان خواہ وہ کتنا ذہین و فطین ہو، اس کے علم و عرفان کا قیاس کتنا بلند پایا ہو اس کے درجات کتنے ہی رفیع ہوں وہ غیب نہیں جان سکتا۔ نہ اپنے حواس سے، نہ قوت سے، نہ فراست سے، نہ علم قیاس سے اور نہ عقل سے سوائے اس کے کہ خداوند عالم جو عالم الغیب ہے وہ خود اس کو اس نعمت سے سرفر از فرمادے۔ یہ بھی بتادیا کہ علم غیب کے دروازے ہر ایرے غیرے کے لیے کھلے نہیں بلکہ وہ صرف ان رسولوں کو اس نعمت سے نوازتا ہے جن کو وہ چن لیا کرتا ہے یہ ہے وہ صاف اور سیدھا مطلب جو اس آیت سے بغیر کسی تکلف کے سمجھ میں آتا ہے۔ (ضیاء القرآن جلد ٥، آیت ہذا) بعض حضرات نے رائے ظاہر کی ہے کہ جن علوم غیبیہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو آگاہ کیا ہے وہ فقط علوم شرعیہ ہیں وہ اس طرح رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے علوم تکوینیہ کی نفی کرنا چاہتے ہیں۔ میری گزارش ہے کہ ان حضرات نے کیا ” وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاءَ کُلَّھَا “ ارشاد الٰہی نہیں پڑھا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو سب کے سب اسماء سکھا دئیے جب آدم (علیہ السلام) کی یہ شان ہے جو زمین میں اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہیں تو سیدعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو رحمۃ للعالمین ہیں اور سارے جہانوں میں اللہ تعالیٰ کے خلیفۂ اعظم ہیں ان کے علوم و معارف کا کوئی کیسے اندازہ لگا سکتا ہے۔ اس لیے سلامتی اسی میں ہے کہ ہم آیات کو وہ معانی نہ پہنائیں جن کو ان کے کلمات قبول نہیں کرتے اور سیدھی اور صاف بات جو قرآن نے فرمائی ہے اس کو صدق دل سے تسلیم کرلیں کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام غیبوں کو جاننے والا ہے اور اپنے علوم غیبیہ پر کسی کو آگاہ نہیں کرتابجز اپنے رسولوں کے ان کو جنتا چاہتا ہے علوم غیبیہ عطا فرماتا ہے۔ یہ جنتا کتنا ہے، اس کو اللہ تعالیٰ جس نے دیا ہے اور اس کا رسول، جس نے لیا ہے وہی بہتر جانتے ہیں یہ حدبندیاں اختراع بندہ ہیں۔ (ضیاء القرآن : جلد ٥، ص : ٣٩٧) اگر اس آیت کا یہی معنٰی لیا جائے جو موصوف نے لیا ہے تو پھر درج ذیل آیات کا کیا معنٰی ہے۔ جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے بار بار اعلان کروایا گیا ہے کہ میں غیب نہیں جانتا، حقیقت یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب نہیں جانتے تھے۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) اتنا ہی جانتے تھے جس قدر ان کی طرف وحی کی جاتی تھی۔ اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بات کی وضاحت کروائی گئی کہ میں غیب نہیں جانتا اس کے باوجود کوئی شخص الفاظ کے ہیر پھیر سے ثابت کرنا چاہتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب جانتے تھے تو وہ بتلائے کہ قرآن مجید نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پھر کس غیب کی نفی کروائی ہے۔ اس طرح کی تاویل کرنے والا کھلے الفاظ میں رب ذوالجلال کے ارشادات کو جھٹلاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن کے حوالے ملاحظہ فرمائیں۔ مسائل ١۔ اللہ ہی غیب جانتا ہے اس کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے غیب کی کچھ باتیں انبیائے کرام (علیہ السلام) پر وحی فرمائیں۔ ٣۔ نزول وحی کے دوران ملائکہ کا ایک دستہ وحی کی حفاظت کیا کرتا تھا۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم اور قدرت کے ساتھ ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے اور اس نے ہر چیز کو شمار کر رکھا ہے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا : ١۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو فرشتوں کے متعلق علم نہ ہوسکا۔ (ھود : ٦٩) ٢۔ حضرت لوط (علیہ السلام) فرشتوں کو نہ پہچان سکے۔ (ھود : ٧٧) ٣۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو میں بہت سی بھلائیاں جمع کرلیتا۔ (الاعراف : ١٨٨) ٤۔ حضرت نوح نے فرمایا کہ میں غیب نہیں جانتا۔ (ھود : ٣١) ٥۔ نبی کریم غیب نہیں جانتے تھے۔ (الانعام : ٥٠) ٦۔ جنات غیب نہیں جانتے۔ (سبا : ١٤) ٧۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔ (الانعام : ٥٩) ٨۔ آپ فرما دیں کہ زمین اور آسمانوں کے غیب اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (النمل : ٦٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جاتا ہے کہ طاقت کے علاوہ اپنے بارے میں علم غیب کی بھی نفی کردیں۔ قل ان .................... امدا (٢٧ : ٥٢) ” کہو ، ” میں نہیں جانتا کہ جس چیز کا وعدہ تم سے کیا جارہا ہے وہ قریب ہے یا میرا رب اس کے لئے کوئی لمبی مدت مقرر فرماتا ہے “۔ دعوت کے معاملات میں آپ کا کوئی اختیار نہیں اور نہ اس میں آپ کا کوئی ذاتی حق ہے۔ آپ کا کام صرف یہ ہے کہ تبلیغ کریں۔ اور اپنے آپ کو اس طرح محفوظ خطے میں داخل کردیں اور محفوظ خطے میں وہی شخص داخل ہوسکتا ہے جو تبلیغ کا حق ادا کردے۔ اور تکذیب اور نافرمانی پر اللہ جس برے انجام سے ڈراتا ہے وہ بھی اللہ کے اختیار میں ہے۔ آپ کو اس میں بھی دلی اختیار حاصل نہیں ہے۔ نہ آپ کو اس کا کوئی وقت وقوع معلوم ہے کہ وہ قریب ہے یا دور ہے ؟ یہ سب غیبی امور ہیں اور ان کے علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ ان امور کا علم اللہ کے لئے مخصوص ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿قُلْ اِنْ اَدْرِيْۤ﴾ (الآیۃ) جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے مخاطبین کو قیامت کی بات بتاتے تھے اور یہ سمجھاتے تھے کہ مرنے کے بعد زندہ اٹھائے جاؤ گے اور میدان حشر میں حاضری دو گے اور وہاں فیصلے ہوں گے تو وہ لوگ بطور انکار یوں کہتے تھے کہ بتاؤ قیامت کب آئے گی اس کے آنے کا کون سا وقت مقرر ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ آپ ان سے فرما دیجئے کہ مجھے معلوم نہیں جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے اس کی آمد قریب ہے یا میرے رب نے اس کی لمبی مدت مقرر فرما رکھی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

17:۔ ” قل ان ادری “ یہ اس سوال کا جواب ہے کہ یہ وعدہ کب پورا ہوگا، فرمایا جواب میں کہہ دیجئے یہ تو مجھے معلوم نہیں کہ یہ وعدہ بہت جلد پورا ہوگا یا اس میں دیر ہے البتہ یہ بات یقینی اور حتمی ہے کہ اگر تم ایمان نہیں لاؤ گے تو وعدہ کے مطابق عذاب ضرور آئے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(25) آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میں نہیں جانتا کہ وہ عذاب موعود قریب ہے یا میرے پروردگار نے اس کے لئے کوئی دور کی مدت مقرر کررکھی ہے اور اس کو ایک مدت کے بعد لائے گا۔ یعنی اگر یہ منکر دریافت کریں کہ جس چیز کا ہم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ چیز کب واقع ہوگی۔ جیسا کہ ان کی عادت ہے کہ اسی قسم کے سوال کیا کرتے ہیں۔ متی ھذا الوعد ان کنتم صدقین، تو آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میں اس چیزکا وقت نہیں جانتا اور اس کی تاریخ مجھ کو نہیں بتائی گئی۔ ہوسکتا ہے کہ جس چیز کا تم کو وعدہ دیا جاتا ہے وہ بہت ہی قریب ہو یا میرا پروردگار اس کو ایک مدت کے بعد لائے اور اس کے لئے اس نے کوئی دور کی مدت مقرر کررکھی ہو یہ تو وہی جانے تمام مغیبات کا علم تو اسی کے پاس ہے۔