The Messenger of Allah does not know when the Hour will be
Allah commands His Messenger to say to the people that he has no knowledge of when the Hour will be and he does not know whether its time is near or far.
قُلْ إِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ مَّا تُوعَدُونَ أَمْ يَجْعَلُ لَهُ رَبِّي أَمَدًا
Say: "I know not whether which you are promised is near or whether my Lord will appoint for it a distant term."
meaning, a long period of time.
In this noble Ayah is an evidence that the Hadith that many of the ignorant people often circulate, which says that the Prophet will not remain under the earth more than one thousand years (i.e., the Hour will be before that period) is a baseless lie. We have not seen it in any of the Books (of Hadith).
Verily, the Messenger of Allah was asked about the time of the Hour and he would not respond. When Jibril appeared to him in the form of a Bedouin Arab, one of the questions he asked the Prophet was, "O Muhammad! Tell me about the Hour"
So the Prophet replied,
مَا الْمَسْوُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّايِل
The one questioned about it knows no more than the questioner.
On another occasion when a Bedouin Arab called out to the Prophet in a loud voice saying, "O Muhammad! When will be the Hour"
The Prophet said,
وَيْحَكَ إِنَّهَا كَايِنَةٌ فَمَا أَعْدَدْتَ لَهَا
Woe unto you. Verily, it will occur so what have you prepared for it?
The man replied, "I have not prepared much for it of prayers and fasting, but I love Allah and His Messenger."
The Prophet then replied,
فَأَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْت
Then you will be with whomever you love.
Anas said,
"The Muslims were not happier with anything like they were upon (hearing) this Hadith."
Concerning Allah's statement,
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا
اللہ کے سوا قیامت کب ہو گی کسی کو نہیں معلوم
اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ لوگوں سے کہدیں کہ قیامت کب ہو گی ، اس کا علم مجھے نہیں ، بلکہ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کا وقت قریب ہے یا دور ہے اور لمبی مدت کے بعد آنے والی ہے ، اس آیت کریمہ میں دلیل ہے اس امر کی کہ اکثر جاہلوں میں جو مشہور ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام زمین کی اندر کی چیزوں کا بھی علم رکھتے ہیں وہ بالکل غلط ہے اس روایت کی کوئی اصل نہیں محض جھوٹ ہے اور بالکل بے اصل روایت ہے ہم نے تو اسے کسی کتاب میں نہیں پایا ، ہاں اس کے خلاف صاف ثابت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے قائم ہونے کا وقت پوچھا جاتا تھا اور آپ اس کی معین وقت سے اپنی لاعلمی ظاہر کرتے تھے ، اعرابی کی صورت میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بھی آ کر جب قیامت کے بارے میں سوال کیا تھا تو آپ نے صاف فرمایا تھا کہ اس کا علم نہ پوچھنے والے کو ہے نہ اسے جس سے پوچھا جا رہا ہے ، ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک دیہات کے رہنے والے نے با آواز بلند آپ سے دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا وہ آئے گی ضرور مگر یہ بتا کہ تو نے اس کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ اس نے کہا میرے پاس روزے نماز کی اکثرت تو نہیں البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے آپ نے فرمایا پھر تو اس کے ساتھ ہو گا جس کی تجھے محبت ہے ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مسلمان کسی حدیث سے اس قدر خوش نہیں ہوئے جتنے اس حدیث سے ، اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ قیامت کا ٹھیک وقت آپ کو معلوم نہ تھا ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ آپ نے فرمایا اے لوگو اگر تم میں علم ہے تو اپنے تئیں مردوں میں شمار کیا کرو اللہ کی قسم جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ یقیناً ایک وقت آنے والی ہے ، یہاں بھی آپ کوئی مقررہ وقت نہیں بتاتے ، ابو داؤد میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس امت کو کیا عجب کہ آدھے دن تک کی مہلت دے دے اور روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ حضرت سعد سے پوچھا گیا کہ آدھے دن سے کیا مراد ہے فرمایا پانچ سو سال ۔ پھر فرماتا ہے اللہ عالم الغیب ہے وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا مگر مرسلین میں سے جسے چن لے جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ ٢٥٥ ) 2- البقرة:255 ) یعنی اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر جو اللہ چاہے ۔ یعنی رسول خواہ انسانوں میں سے ہوں خواہ فرشتوں میں سے ہوں جسے اللہ جتنا چاہتا ہے بتا دیتا ہے بس وہ اتنا ہی جانتے ہیں ۔ پھر اس کی مزید تخصیص یہ ہوتی ہے کہ اس کی حفاظت اور ساتھ ہی اس علم کی اشاعت کے لئے جو اللہ نے اسے دیا ہے اس کے آس پاس ہر وقت نگہبان فرشتے مقرر رہتے ہیں ۔ لیعلم کی ضمیر بعض نے تو کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے یعنی حضرت جبرائیل کے آگے پیچھے چار چار فرشتے ہوتے تھے تاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین آ جائے کہ انہوں نے اپنے رب کا پیغام صحیح طور پر مجھے پہنچایا ہے اور بعض کہتے ہیں مرجع ضمیر کا اہل شرک ہے یعنی باری باری آنے والے فرشتے نبی اللہ کی حفاظت کرتے ہیں شیطان سے اور اس کی ذریات سے تاکہ اہل شرک جان لیں کہ رسولوں نے رسالت اللہ ادا کر دی ، یعنی رسولوں کو جھٹلانے والے بھی رسولوں کی رسالت کو جان لیں مگر اس میں کچھ اختلاف ہے ۔ یعقوب کی قرأت پیش کے ساتھ ہے یعنی لوگ جان لیں کہ رسولوں نے تبلیغ کر دی اور ممکن ہے کہ یہ مطلب ہو کہ اللہ تعالیٰ جان لے یعنی وہ اپنے رسولوں کی اپنے فرشتے بھیج کر حفاظت کرتا ہے تاکہ وہ رسالت ادا کر سکیں اور وحی الٰہی محفوظ رکھ سکیں اور اللہ جان لے کہ انہوں نے رسالت ادا کر دی جیسے فرمایا آیت ( وما جعلنا القبلتہ التی کنت علیھا ) یعنی جس قبیلے پر تو تھا اسے ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے تابعداروں اور مرتدوں کو جان لیں اور جگہ ہے آیت ( وَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ 11 ) 29- العنكبوت:11 ) یعنی اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو اور منافقوں کو برابر جان لے گا اور بھی اس قسم کی آیتیں ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ پہلے ہی سے جانتا ہے لیکن اسے ظاہر کر کے بھی جان لیتا ہے ، اسی لئے یہاں اس کے بعد ہی فرمایا کہ ہر چیز اور سب کی گنتی اللہ کے علم کے احاطہ میں ہے ۔ الحمد اللہ سورہ جن کی تفسیر ختم ہوئی ۔