Surat ul Muzammil
Surah: 73
Verse: 1
سورة المزمل
یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ ۙ﴿۱﴾
O you who wraps himself [in clothing],
اے کپڑے میں لپٹنے والے ۔
یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ ۙ﴿۱﴾
O you who wraps himself [in clothing],
اے کپڑے میں لپٹنے والے ۔
The Command to stand at Night (in Prayer) Allah commands His Messenger to cease being wrapped up, and this means to be covered during the night. He commands him to get up and stand in prayer to His Lord. This is as Allah says, تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفاً وَطَمَعاً وَمِمَّا رَزَقْنَـهُمْ يُنفِقُونَ Their sides forsake their beds, to invoke their Lord in fear and hope, and they spend out of what We have bestowed on them. (32:16) Thus, the Prophet did as Allah ordered him, by standing for prayer at night. This was obligatory upon him alone, as Allah said, وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَاماً مَّحْمُودًا And in some parts of the night offer the Salah with it (the Qur'an), as an additional prayer for you. It may be that your Lord will raise you to Maqam Mahmud. (17:79) Here Allah explains how much prayer he should perform. Allah says, يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ قُمِ اللَّيْلَ إِلاَّ قَلِيلً
رسول اللہ کو قیام اللیل اور ترتیل قرآن کا حکم اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ راتوں کے وقت کپڑے لپیٹ کر سو رہنے کو چھوڑیں اور تہجد کی نماز کے قیام کو اختیار کر لیں ، جیسے فرمان ہے آیت ( تَـتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا ۡ وَّمِـمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ 16 ) 32- السجدة:16 ) ، ان کے پہلو بستروں سے الگ ہوتے ہیں اور اپنے رب کو خوف اور لالچ سے پکارتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے میں سے دیتے رہتے ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم پوری عمر اس حکم کی بجا آوری کرتے رہے تہجد کی نماز صرف آپ پر واجب تھی یعنی امت پر واجب نہیں ہے ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ڰ عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا 79 ) 17- الإسراء:79 ) ، راتوں کو تہجد پڑھا کر یہ حکم صرف تجھے ہے تیرا رب تجھے مقام محمود میں پہچانے والا ہے ، یہاں اس حکم کے ساتھ ہی مقدار بھی بیان فرما دی کہ آدھی رات یا کچھ کم و بیش مزمل کے معنی سونے والے اور کپڑا لپیٹنے والے کے ہیں ، اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر اوڑھے لیٹے ہوئے تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اے قرآن کے مفہوم کو اچھی طرح اخذ کرنے والے تو آدھی رات تک تہجد میں مشغول رہا کر ، یا کچھ بڑھا گھٹا دیا کر اور قرآن شریف کو آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کر تاکہ خوب سمجھتا جائے ، اس حکم کے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم عامل تھے ، حضرت صدیقہ کا بیان ہے کہ آپ قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھتے تھے جس سے بڑی دیر میں سورت ختم ہوتی تھی گویا چھوٹی سی سورت بڑی سے بڑی ہو جاتی تھی ، صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کا وصف پوچھا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم خوب مد کر کے پڑھا کرتے تھے پھر آیت ( بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ) پڑھ کر سنائی جس میں لفظ اللہ پر لفظ رحمٰن پر لفظ رحیم پر مد کیا ، ابن جریج میں ہے کہ ہر ہر آیت پر آپ پورا پورا وقف کرتے تھے ، جیسے آیت ( بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ) پڑھ کر وقف کرتے آیت ( الحمد للہ رب العلمین ) پڑھ کر وقف کرتے آیت ( الرحمٰن الرحیم ) پڑھ کر وقف کرتے آیت ( مالک یوم الدین ) پڑھ کر ٹھہرتے ۔ یہ حدیث مسند احمد ابو داؤد اور ترمذی میں بھی ہے ۔ مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ قرآن کے قاری سے قیامت والے دن کہا جائے گا کہ پڑھتا جا اور چڑھتا جا اور ترتیل سے پڑھ جیسے دنیا میں ترتیل سے پڑھا کرتا تھا تیرا درجہ وہ ہے جہاں تیری آخری آیت ختم ہو ، یہ حدیث ابو داؤد و ترمذی اور نسائی میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن صحیح کہتے ہیں ، ہم نے اس تفسیر کے شروع میں وہ احادیث وارد کر دی ہیں ، جو ترتیل کے مستحب ہونے اور اچھی آواز سے قرآن پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں ، جیسے وہ حدیث جس میں ہے قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کرو ، اور ہم میں سے وہ ہیں جو خوش آوازی سے قرآن نہ پڑھے اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اسے آل داؤد کی خوش آوازی عطا کی گئی ہے اور حضرت ابو موسیٰ کا فرمانا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ سن رہے ہیں تو میں اور اچھے گلے سے زیادہ عمدگی کے ساتھ پڑھتا ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان کہ ریت کی طرح قرآن کو نہ پھیلاؤ اور شعروں کی طرح قرآن کو بے ادبی سے نہ پڑھو اس کی عجائب پر غور کرو اور دلوں میں اثر لیتے جاؤ اور اس میں دوڑ نہ لگاؤ کہ جلد سورت ختم ہو ( بغوی ) ایک شخص آ کر حضرت ابن مسعود سے کہتا ہے میں نے مفصل کی تمام سورتیں آج کی رات ایک ہی رکعت میں پڑھ ڈالیں آپ نے فرمایا پھر تو تو نے شعروں کی طرح جلدی جلدی پڑھا ہو گا مجھے برابر برابر کی سورتیں خوب یاد ہیں جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ملا کر پڑھا کرتے تھے پھر مفصل کی سورتوں میں سے بیس سورتوں کے نام لئے کہ ان میں سے دو دو سورتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک رکعت میں پڑھا کرتے تھے ۔ پھر فرماتا ہے ہم تجھ پر عنقریب بھاری بوجھل بات اتاریں گے ، یعنی عمل میں ثقیل ہو گی اور اترتے وقت بوجہ اپنی عظمت کے گراں قدر ہو گی ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتری اس وقت آپ کا گھٹنا میرے گھٹنے پر تھا وحی کا اتنا بوجھ پڑا کہ میں تو ڈرنے لگا کہ میری ران کہیں ٹوٹ نہ جائے ، مسند احمد میں ہے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ وحی کا احساس بھی آپ کو ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا میں ایسی آواز سنتا ہوں جیسے کسی زنجیر کے بجنے کی آواز ہو میں چپکا ہو جاتا ہوں جب بھی وحی نازل ہوتی ہے مجھ پر اتنا بوجھ پڑتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ میری جان نکل جائے گی ، صحیح بخاری شریف کے شروع میں ہے حضرت حارث بن ہشام پوچھتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے؟ آپ نے فرمایا کبھی تو گھنٹی کی آواز کی طرح ہوتی ہے جو مجھ پر بہت بھاری پڑتی ہے اور وہ گن گناہٹ کی آواز ختم ہو جاتی ہے تو میں اس میں جو کچھ کہا گیا وہ مجھے خوب محفوظ ہو جاتا ہے اور کبھی فرشتہ انسانی صورت میں میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے اور میں یاد کر لیتا ہوں ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں نے دیکھا ہے کہ سخت جاڑے والے دن میں بھی جب آپ پر وحی اتر چکتی تو آپ کی پیشانی مبارک سے پسینے کے قطرے ٹپکتے ، مسند احمد میں ہے کہ کبھی اونٹنی پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوتے اور اسی طاقت میں وحی آتی تو اونٹنی جھک جاتی ، ابن جریر میں یہ بھی ہے کہ پھر جب تک وحی ختم نہ ہو لے اونٹنی سے قدم نہ اٹھایا جاتا نہ اس کی گردن اونچی ہوتی ۔ مطلب یہ ہے کہ خود وحی کا اترنا بھی اہم اور بجھل تھا پھر احکام کا بجا لانا اور ان کا عامل ہونا بھی اہم اور بوجھل تھا ۔ یہی قول حضرت امام ابن جریر کا ہے ، حضرت عبدالرحمٰن سے منقول ہے کہ جس طرح دنیا میں یہ ثقیل کام ہے اسی طرح آخرت میں اجر بھی بڑا بھاری ملے گا ۔ پھر فرماتا ہے رات کا اٹھنا نفس کو زیر کرنے کے لئے اور زبان کو درست کرنے کے لئے اکسیر ہے ، نشاء کے معنی حبشی زبان میں قیام کرنے کے ہیں ، رات بھر میں جب اٹھے اسے ناشئتہ اللیل کہتے ہیں ، تہجد کی نماز کی خوبی یہ ہے کہ دل اور زبان ایک ہو جاتا ہے اور تلاوت کے جو الفاظ زبان سے نکلتے ہیں دل میں گڑ جاتے ہیں اور بنسبت دن کے رات کی تنہائی میں معنی خوب ذہن نشین ہوتا جاتا ہے کیونکہ دن بھیڑ بھاڑ کا ، شورغل کا ، کمائی دھندے کا وقت ہوتا ہے ۔ حضرت انس نے آیت ( اقوم قیلاً ) کو اصوب قیلا پڑھا تو لوگوں نے کہا ہم تو اقوم پڑھتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا ( اصوب اقوم اھیاء ) اور ان جیسے سب الفاظ ہم معنی ہیں ۔ پھر فرماتا ہے دن میں تجھے بہت فراغت ہے ، نیند کر سکتے ہو ، سو بیٹھ سکتے ہو ، راحت حاصل کر سکتے ہو ، نوافل بکثرت ادا کر سکتے ہو ، اسے دنیوی کام کاج پورے کر سکتے ہو ۔ پھر رات کو آخرت کے کام کے لئے خاص کر لو ، اس بنا پر یہ حکم اس وقت تھا جب رات کی نماز فرض تھی پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں پر احسان کیا اور بطور تخفیف کے اس میں کمی کر دی اور فرمایا تھوڑی سی رات کا قیام کرو ، اس فرمان کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم نے آیت ( ان ربک ) سے ( فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنْه 20ۧ ) 73- المزمل:20 ) تک پڑھا اور آیت ( وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ڰ عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا 79 ) 17- الإسراء:79 ) ، کی بھی تلاوت کی ۔ آپ کا یہ قول ہے بھی ٹھیک ، مسند احمد میں ہے کہ حضرت سعید بن ہشام نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور مدینہ کی طرف چلے تاکہ وہاں کے اپنے مکانات بیچ ڈالیں اور ان کی قیمت سے ہتھیار وغیرہ خرید کر جہاد میں جائیں اور رومیوں سے لڑتے رہیں یہاں تک کہ یا تو روم فتح ہو یا شہادت ملے مدینہ شریف میں اپنی قوم والوں سے ملے اور اپنا ارادہ ظاہر کیا تو انہوں نے کہا سنو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں آپ ہی کی قوم میں سے چھ شخصوں نے بھی ارادہ کیا تھا کہ عورتوں کو طلاق دے دیں مکانات وغیرہ بیچ ڈالیں اور راہ اللہ کھڑے ہو جائیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے ان سے فرمایا کیا جس طرح میں کرتا ہوں کیا اس طرح کرنے میں تمہارے لئے اچھائی نہیں ہے؟ خبردار ایسا نہ کرنا اپنے اس ارادے سے باز آ جاؤ یہ حدیث سن کر حضرت سعید نے بھی اپنا ارادہ ترک کیا اور وہیں اسی جماعت سے کہا کہ تم گواہ رہنا میں نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا اب حضرت سعید چلے گئے پھر جب اس جماعت سے ملاقات ہوئی تو کہا کہ یہاں سے جانے کے بعد میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس گیا اور ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر پڑھنے کی کیفیت دریافت تو انہوں نے کہا اس مسئلے کو سب سے زیادہ بہتری طور پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بتا سکتی ہیں تم وہیں جاؤ اور ام المومنین ہی سے دریافت کرو اور ام المومنین سے جو سنو وہ ذرا مجھ سے کہہ جانا ۔ میں حضرت حکیم بن افلح کے پاس گیا اور ان سے میں نے کہا تم مجھے ام المومنین کی خدمت میں لے چلو ۔ انہوں نے فرمایا میں وہاں نہیں جاؤں گا اس لئے کہ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ آپس میں لڑنے والی جماعتوں یعنی حضرت علی اور ان کے مقابلین کے بارے میں آپ دخل نہ دیجئے لیکن انہوں نے نہ مانا اور دخل دیا ۔ میں نے انہیں قسم دی اور کہا کہ نہیں آپ مجھے ضرور وہاں لے چلئے خیر بمشکل تمام وہ راضی ہوئے اور میں ان کے ساتھ گیا ۔ ام المومنین صاحبہ نے حضرت حکیم کی آواز پہچان لی اور کہا کیا حکیم ہے؟ جواب دیا گیا کہ ہاں حضور میں حکیم بن افلح ہوں پوچھا تمہارے ساتھ کون ہیں؟ کہا سعید بن ہشام پوچھا ہشام کون؟ عامر کے لڑکے؟ کہا ہاں عامر کے لڑکے ، تو حضرت عائشہ نے حضرت عامر کے لئے دعاء رحمت کی اور فرمایا عامر بہت اچھا آدمی تھا اللہ اس پر رحم کرے میں نے کہا ام المومنین مجھے بتایئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیا تھے؟ آپ نے فرمایا کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ میں نے کہا کیوں نہیں؟ فرمایا بس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق قرآن تھا اب میں نے اجازت مانگنے کا قصد کیا لیکن فوراً ہی یاد آ گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کا حال بھی دریافت کر لوں ، اس سوال کے جواب میں ام المومنین نے فرمایا کیا تم نے سورہ مزمل نہیں پڑھی؟ میں نے کہا ہاں پڑھی ہے ، فرمایا سنو اس سورت کے اول حصے میں قیام الیل فرض ہوا اور سال بھر تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب تہجد کی نماز بطور فرضیت کے ادا کرتے رہے یہاں تک کہ قدموں پر ورم آگیا بارہ ماہ کے بعد اس سورت کے خاتمہ کی آیتیں اتریں اور اللہ تعالیٰ نے تخفیف کر دی فرضیت اٹھ گئی اور عملی صورت باقی رہ گئی ، میں نے پھر اٹھنے کا ارادہ کیا لیکن خیال آیا کہ وتر کا مسئلہ بھی دریافت کر لوں تو میں نے کہا ام المومنین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر پڑھنے کی کیفیت سے بھی آگاہ فرمایئے ، آپ نے فرمایا ہاں سنو ہم آپ کی مسواک وضو کا پانی وغیرہ تیار ایک طرف رکھ دیا کرتے تھے جب بھی اللہ چاہتا اور آپ کی آنکھ کھلتی اٹھتے مسواک کرتے وضو کرتے اور آٹھ رکعت پڑھتے بیچ میں تشہد میں بالکل نہ بیٹھتے آٹھویں رکعت پوری کر کے آپ التحیات میں بیٹھتے اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر کرتے دعا کرتے اور زور سے سلام پھیرتے کہ ہم بھی سن لیں پھر بیٹھے بیٹھے ہی دو رکعت اور ادا کرتے ( اور ایک وتر پڑھتے ) بیٹا یہ سب مل کر گیارہ رکعت ہوئیں ، اب جبکہ آپ عمر رسیدہ ہوئے اور بدن بھاری ہو گیا تو آپ نے سات وتر پڑھے پھر سلام پھیرنے کے بعد بیٹھ کر دو رکعت ادا کیں بس بیٹا یہ نو رکعت ہوئیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ جب کسی نماز کو پڑھتے تو پھر اس پر مداومت کرتے ہاں اگر کسی شغل یا نیند یا دکھ تکلیف اور بیماری کی وجہ سے رات کو نماز نہ پڑھ سکتے تو دن کو بارہ رکعت ادا فرما لیا کرتے میں نہیں جانتی کہ کسی ایک رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا قرآن صبح تک پڑھا ہو اور نہ رمضان کے سوا کسی اور مہینے کے پورے روزے رکھے ، اب میں ام المومنین سے رخصت ہو کر ابن عباس کے پاس آیا اور وہاں کے تمام سوال جواب دوہرائے آپ نے سب کی تصدیق کی اور فرمایا اگر میری بھی آمد و رفت ام المومنین کے پاس ہوتی تو جا کر خود اپنے کانوں سن آتا ، یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں بھی ہے ، ابن جریر میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بوریا رکھ دیا کرتی جس پر آپ تہجد کی نماز پڑھتے لوگوں نے کہیں یہ خبر سن لی اور رات کی نماز میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرنے کے لئے وہ بھی آ گئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم غضبناک ہو کر باہر نکلے چونکہ شفقت و رحمت آپ کو امت پر تھی اور ساتھ ہی ڈر تھا کہ ایسا نہ ہو یا نماز فرض ہو جائے آپ ان سے فرمانے لگے کہ لوگو ان ہی اعمال کی تکلیف اٹھاؤ جن کی تم میں طاقت ہو اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہ تھکے گا البتہ تم عمل کرنے سے تھک جاؤ گے سب سے بہتر عمل وہ ہے جس پر دوام ہو سکے ادھر قرآن کریم میں یہ آیتیں اتریں اور صحابہ نے قیام الیل شروع کیا یہاں تک کہ رسیاں باندھنے لگے کہ نیند نہ آ جائے آٹھ مہینے اسی طرح گذر گئے ان کی اس کوشش کو جو وہ اللہ کی رضامندی کی طلب میں کر رہے تھے دیکھ کر اللہ نے بھی ان پر رحم کیا اور اسے فرض عشاء کی طرف لوٹا دیا اور قیام الیل چھوڑ دیا ، یہ روایت ابن ابی حاتم میں بھی ہے لیکن اس کا راوی موسیٰ بن عبیدہ زبیدی ضعیف ہے اصل حدیث بغیر سورہ مزمل کے نازل ہونے کے ذکر کی صحیح میں بھی ہے اور اس حدیث کے الفاظ کے تسلسل سے تو یہ پایا جاتا ہے کہ یہ سورت مدینہ میں نازل ہوئی حالانکہ دراصل یہ سورت مکہ شریف میں اتری ہے ، اسی طرح اس روایت میں ہے کہ آٹھ مہینے کے بعد اس کی آخری آیتیں نازل ہوئیں یہ قول بھی غریب ہے ، صحیح وہی ہے جو بحوالہ مسند پہلے گذر چکا کہ سال بھر کے بعد آخری آیتیں نازل ہوئیں ۔ حضرت ابن عباس سے بھی ابن ابی حاتم میں منقول ہے کہ سورہ مزمل کی ابتدائی آیتوں کے اترنے کے بعد صحابہ کرام مثل رمضان شریف کے قیام کے قیام کرتے رہے اور اس سورت کی اول آخر کی آیتوں کے اترنے میں تقریباً سال بھر کا فاصلہ تھا ۔ حضرت ابو اسامہ سے بھی ابن جریر میں اسی طرح مروی ہے ، حضرت ابو عبدالرحمٰن فرماتے ہیں کہ ابتدائی آیتوں کے اترنے کے بعد صحابہ کرام نے سال بھر تک قیام کیا یہاں تک کہ ان کے قدم اور پنڈلیوں پر ورم آگیا پھر آیت ( فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنْه 20ۧ ) 73- المزمل:20 ) ، نازل ہوئی اور لوگوں نے راحت پائی ، حسن بصری اور سدی کا بھی یہی قول ہے ۔ ابن ابی حاتم میں بہ روایت حضرت عائشہ سولہ مہینے کا فاصلہ مروی ہے ، حضرت قتادہ فرماتے ہیں ایک سال یا دو سال تک قیام کرتے رہے پنڈلیاں اور قدم سوج گئے پھر آخری سورت کی آیتیں اتریں اور تخفیف ہو گئی ۔ حضرت سعید بن جبیر رحمتہ اللہ علیہ دس سال کا فاصلہ بتاتے ہیں ( ابن جریر ) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ پہلی آیت کے حکم کے مطابق ایمانداروں نے قیام الیل شروع کیا لیکن بڑی مشقت پڑتی تھی پھر اللہ تعالیٰ نے رحم کیا اور آیت ( عَلِمَ اَنْ سَيَكُوْنُ مِنْكُمْ مَّرْضٰى 20ۧ ) 73- المزمل:20 ) سے ( ما تیسر منہ ) تک آیتیں نازل فرما کر وسعت کر دی اور تنگی نہ رکھی فلہ الحمد پھر فرمان ہے اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہ اور کرتا رہ اور اس کی عبادت کے لئے فارغ ہو جا ، یعنی امور دنیا سے فارغ ہو کر دل جمعی اور اطمینان کے ساتھ بہ کثرت اس کا ذکر کر ، اس کی طرف مائل اور سراسر راغب ہو جا ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ Ċۙ ) 94- الشرح:7 ) ، یعنی جب اپنے شغل سے فارغ ہو تو ہماری عبادت محنت سے بجا لاؤ ، اخلاص فارغ البالی کوشش محنت دل لگی اور یکسوئی سے اللہ کیطرف جھک جاؤ ، ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تبل سے منع فرمایا یعنی بال بچے اور دنیا کو چھوڑ دینے سے ۔ یہاں مطلب یہ ہے کہ علائق دنیوی سے کٹ کر اللہ کی عبادت میں توجہ اور انہماک کا وقت بھی ضرور نکالا کرو ۔ وہ مالک ہے وہ متصرف ہے مشرق مغرب سب اس کے قبضہ میں ہے اس کے سوا عبادت کے لائق کوئی نہیں ، تو جس طرح صرف اسی اللہ کی عبادت کرتا ہے اسی طرح صرف اسی پر بھروسہ بھی رکھ ، جیسے اور آیت میں ہے آیت ( فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ ١٢٣ۧ ) 11-ھود:123 ) اسی کی عبادت کر اور اسی پر بھروسہ کر ، یہی مضمون آیت ( ایاک نعبد وایاک نستعین ) میں بھی ہے ، اس معنی کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں کہ عبادت ، اطاعت ، توکل اور بھروسہ کے لائق ایک اس کی پاک ذات ہے ۔
1۔ 1 جس وقت یہ آیت نازل ہوئی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چادر اوڑھے ہوئے تھے اللہ نے آپ کی اسی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا مطلب یہ ہے کہ اب چادر چھوڑ دیں اور رات کو تھوڑا قیام کریں یعنی نماز تہجد پڑھیں کہا جاتا ہے کہ اس حکم کی بناء پر تہجد آپ کے لیے واجب تھی۔ (ابن کثیر)
[٢] انداز خطاب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیات اس وقت نازل ہوئی تھیں۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو سونے کے لیے بستر پر چادر اوڑھ کر لیٹ چکے تھے۔ اور اس لطیف انداز خطاب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت دی جارہی ہے کہ اب پاؤں پھیلا کر اور بےفکر ہو کر سونے کے دن بیت چکے، اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داریاں کچھ اور قسم کی ہیں۔
(١) یایھا الزمل :’ المزمل “ اصل میں ” المتزمل “ تھا، تاء کو زاء سے بدل کر زاء میں ادغام کردیا، کپڑے میں لپٹنے والا ۔ یہ بات لازم ہے۔ (٢) یایھا المزمل :” اے کپڑے میں لپٹنے والے ! “ ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ ان آیات کے اترنے کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کپڑے میں لپٹ کر لیٹے ہوئے تھے۔ اس خطاب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بہت لطف و کرم اور محبت کا اظہار ہے، کیونکہ اہل عرب کا طریقہ ہے کہ وہ مخاطب سے نرمی اور محب سے بات کرنا چاہتے ہوں تو ایسے لفظ سے مخاطب کرتے ہیں جو مخاطب کی اس وقت کی حالت پر دلالت کر رہا ہو، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی (رض) عنہماکو مسجد میں زمین پر لیٹے ہوئے دیکھا تو فرمایا :(قم ابا تراب ! ) (بخاری، الصلاۃ ، باب نوم الرجال فی المسجد : ٣٣١) ” مٹی والے ! اٹھ کھڑا ہو۔ “ (٣) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چادر میں لیٹنے کی وجہ کیا تھی ؟ اس میں تین قول ہیں، پہلا یہ کہ عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ پہلی وحی :(اقرا باسم ربک الذی خلق ) کے نزول کے موقع پر جب فرشتے نے آپ کو تین مرتبہ زور سے دبایا تو آپ گھر میں خدیجہ (رض) کے پاس آئے اور فرمایا :(زملونی زملونی) (بخاری، الوحی، باب کیف کان بدء الوحی …: ٣)” مجھے چادر اوڑھا دو ، مجھے چادر اوڑھا دو ۔ “ اسی طرح جابر بن عبداللہ انصاری (رض) سے مروی ہے کہ کچھ عرصہ تک وحی بند رہنے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب وحی اتری تو آپ نے اس کے متعلق بیان فرمایا :” میں چلا جا رہا تھا کہ میں نے آسمان سے ایک آواز سنی، میں نے نظر اٹھائی تو وہی فرشتہ جو حرا میں میرے پاس آیا تھا، آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا تھا۔ میں اس سے ڈر گیا اور واپس آکر کہا : (رملونی زملونی) تو اللہ عزوجل نے ” یھا المدثر “ سے لے کر ” والرجز فاھجر “ تک آیات اتاریں۔ “ (بخاری، الوحی، یاب کیف کان بدء الوحی …: ٣) ان دونوں موقعوں پر ” زملونی “ کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فرشتے کی ملاقات اور وحی کے اترنے سے جو رعب اور خوف طاری ہوتا تھا اس کی وجہ سے آپ کپڑا لپیٹ لیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے اس بارگراں کو اٹھانے کے لئے تیار کرنے کی خاطر آپ کو قیام اللیل کا حکم دیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیام اللیل کے ساتھ آپ کو وحی کا بوجھ اٹھانے کیلئے تیار کیا جا رہا ہے، چناچہ بعد میں وحی تسلسل اور کثرت سے اترنے لگی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ” اے چادر میں لپٹ کر سونے والے سستی اور سونے کا وقت گیا، رات کو قیام کر…۔ “ تیسرا قوال یہ ہے کہ قریش مکہ دارالندوہ میں جمع ہوئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے کوئی ایسا نام طے کرنے لگے جسے سن کر لوگ آپ کے پاس آنے سے باز رہیں۔ کسی نے کہا کہ کاہن ہے، کچھ دوسرے کہنے لگے کاہن نہیں ہے۔ کسی نے دیوانہ کہا، اس کی بھی تردید ہوگئی۔ کھچ بولے جادوگر ہے، دوسروں نے کہا جادوگر نہیں۔ غرض مشرکین اس قسم کی باتیں کر کے چلے گئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ باتیں پہنچیں تو آپ کو بہت صدمہ ہوا اور اس پریشانی اور غم کی حالت میں آپ چادر لپیٹ کر لیٹ گئے۔ جبریل (رض) آئے مقصد یہ ہے کہ آپ ان کی باتوں سے بددل اور رنجیدہ ہو کر چادر لپیٹ کر نہ لیٹ جائیں بلکہ رتا کو قیام کریں، اس سے آپ میں یہ بارگراں اٹھانے کی قوت پیدا ہوگی، ان لوگوں کی باتوں پر صبر کریں اور ان سے اچھے طریقے سے علیحدگی اختیار کریں۔ ابن کثیر نبی ہ قول جابر بن عبداللہ (رض) کی روایت سے مسند بزار سے نقل کیا ہے، مگر اس کی سند میں ایک راوی معلی بن عبدالرحمن ہے جس کے متعلق تقریب میں ہے :” متھم بالوضع و قد رمی بالرفض “ ” اس پر احادیث گھڑنے کی توہمات ہے اور رافضیت کا الزام بھی ہے۔ “
* The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is addressed in this verse with reference to a particular style of wrapping himself in his clothes. The first event of this kind occurred when the Holy Prophet received first revelation in the cave of Hira&. Being his first experience, he felt it very hard, and was caught by, a shivery cold, and once he reached home, he asked his blessed wife Khadijah (رض) to wrap him in a blanket which she did. Some narrations have reported another event: When the Holy Prophet * was accused, by the pagans of Makkah, of being a magician who separated between friends, he felt aggrieved, and wrapped himself in his clothes out of grief. Addressing him with reference to these events is a loving style _ adopted by Allah Ta&ala to console him. (Muhammad Taqi Usmani) Commentary يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ &0 you wrapped up in clothes [ 73:1] &. The word muzzammil literally means &one wrapped up in clothes& and its near-synonym &muddaththir& comes in the next Surah. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is addressed in this verse with reference to a particular style of wrapping himself in his clothes. The first event of this kind occurred when the Holy Prophet received first revelation in the cave of Hira&. Being his first experience, he felt it very hard, and was caught by a shivery cold, and once he reached home, he asked his blessed wife Khadijah (رض) to wrap him in a blanket which she did. A detailed account of this event is reported by Bukhari in the very first chapter of his book. Then the revelation stopped for some time. Speaking of this temporary break in the revelation [ termed as fatrat-ul-wahy ], Sayyidna Jabir (رض) reports that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said in his narrative: |"Whilst I was walking along, I heard a voice from heaven and I raised up my eyes. Lo! The Angel that had appeared to me in Hira was sitting on a chair between heaven and earth, and I was struck with awe on account of him and returned home and said, Wrap me up, wrap me up [ zammiluni, zammiluni ]. Then Allah revealed the first five verses of Surah Al-Muddththir (chapter 74).|" [ Bukhari and Muslim ] According to this narrative, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is affectionately addressed as &0 you, enveloped in a mantle,& whereas in this Surah he is addressed as &0 you wrapped up in clothes&. Both forms of address are used affectionately and endearingly to console him. The latter title of address &muzzammil& as it appears in this Surah could probably be connected to another incident (referred to in the footnote) but it, nonetheless, shows deep love and affection for the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . [ Ruh-ul-Ma` ani ]. Having addressed him with this special title, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is told in the following verses that praying to Allah in the stillness of night [ salat-ut-tahajjud ] will prepare him for the heavy task entrusted to him. Some details of the night-prayer have also been set out.
خلاصہ تفسیر اے کپڑوں میں لپٹنے والے (وجہ اس عنوان سے خطاب کرنے کی یہ ہے کہ ابتدائے نبوت میں قریش نے دارالندوہ میں جمع ہو کر آپ کے بارے میں مشور کیا کہ آپ کی حالت کے مناسب کوئی لقب تجویز کرنا چاہئے کہ اس پر سب متفق رہیں کسی نے کہا کہ کاہن ہیں اس کو دوسروں نے رد کردیا کسی نے مجنوں کہا پھر اس کو بھی سب نے غلط قرار دیا پھر ساحر کہا پھر بعض نے اس کو بھی رد کردیا لیکن پھر یہی کہنے لگے کہ ساحر اس لئے ہیں کہ دوست کو دوست سے جدا کردیتے ہیں۔ آپ کو یہ خبر پہنچ کر رنج ہوا اور رنج کی حالت میں لپٹ گئے۔ اکثر سوچ اور رنج میں آدمی اس طرح کرلیتا ہے اس لئے آپ کو خوش کرنے اور لطف کا اظہار کرنے کے لئے اس عنوان سے خطاب فرمایا، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ آپ نے حضرت علی کو ابوتراب فرمایا تھا۔ غرض آپ کو خطاب ہے کہ ان باتوں کا رنج نہ کرو بلکہ حق تعالیٰ کی طرف مداومت کے ساتھ اور زیادہ توجہ رکھو اس طرح سے کہ) رات کو (نماز میں) کھڑے رہا کرو مگر تھوڑی سی رات یعنی نصف رات (کہ اس میں آرام کرو) یا اس نصف سے کم مصداق ایک ثلث ہے۔ بقریتہ قولہ تعالیٰ فیما بعدوثلثہ) یا نصف سے کچھ بڑھا دو (یعنی نصف سے زیادہ قیام کرو اور نصف سے کم آرام کرو اور اس نصف سے زیادہ کا مصداق قریب دو ثلث کے ہے بقرینہ قولہ تعالیٰ فیما بعد ادنی من ثلثی الیل “ غرض قیام لیل تو امر وجوبی سے فرض ہوا مگر مقدار وقت قیام میں تین صورتوں میں اختیار ہے نصف شب، دو تہائی شب، ایک تہائی شب) اور (اس قیام لیل میں) قرآن کو خوب صاف صاف پڑھو (کہ ایک ایک حرف الگ الگ ہو اور یہی حکم غیر صلوة میں بھی ہے اور تخصیص محض مقام کی وجہ سے ہے، آگے قیام اللیل کے حکم کی علت اور مصلحت کا بیان ہے کہ) ہم تم پر ایک بھاری کلام ڈالنے کو ہیں (مراد قرآن مجید ہے جو نزول کے وقت بھی آپ کی حالت کو متغیر کردیتا تھا جیسا حدیثوں میں ہے کہ ایک بار آپ کی ران زید بن ثابت کی ران پر رکھی تھی، اس وقت وحی نازل ہوئی تو زید بن ثابت کی ران پھٹنے لگی اور جب آپ نزول وحی کے وقت ناقہ پر سوار ہوتے تو ناقہ گردن ڈال دیتی اور حرکت نہ کرسکتی اور شدت کے جاڑوں میں آپ پسینہ پسینہ ہوجاتے۔ پھر علاوہ اس کے اس کا محفوظ رکھنا پھر دوسروں تک پہنچانے میں کلفتیں برداشت کرنا ان اعتبارات سے ثقیل کہا گیا اور مقصد یہ ہے کہ قیام لیل کو شاق نہ سمجھنا ہم تو اس سے بھی بھاری بھاری کام تم سے لینے والے ہیں۔ قیام اللیل کا حکم آپ کو اسی لئے دیا گیا ہے کہ آپ خوگر ہوں ریاضت کے جس سے استعداد نفس اکمل و اقویٰ ہو کیونکہ ہم آپ پر قول ثقیل نازل کرنے والے ہیں تو اس کے لئے اپنی استعداد کا قوی کرنا ضروری ہے، آگے قیام لیل کی دوسری مصلحت ہے کہ) بیشک رات کا اٹھنا خوب موثر ہے (نفس کے) کچلنے میں اور (دعا ہو یا قرات ہو ظاہراً و باطنا) بات خوب ٹھیک نکلتی ہے (ظاہراً تو اس طرح کہ فرصت کا وقت ہوتا ہے الفاظ و عاء و قرات کے خوب اطمینان سے ادا ہوتے ہیں اور باطنا اس طرح کہ جی خوب لگتا ہے اور موافقت دل و زبان کا یہی مطلب ہے اور اس کا علت ہونا ظاہر ہے۔ آگے ایک تیسری علت ہے جس میں تخصیص شب کی حکمت کا بیان ہے وہ یہ کہ) بیشک تم کو دن میں بہت کام رہتا ہے (دنیوی بھی جیسے تدبیر مہمات خانہ داری اور دینی بھی جیسے تبلیغ اس لئے ان کاموں کے لئے رات تجویز کی گئی) اور (علاوہ قیام لیل کے جس کا اوپر ذکر ہوا دوسرے اوقات میں بھی) اپنے رب کا نام یاد کرتے رہو اور سب سے (تعلق قطع) کر کے اسی کی طرف متوجہ رہو (یعنی ذکر و تبتل یہ ہر وقت کا فرض ہے اور تعلق قطع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خالق کا تعلق مخلوق کے سب تعلقات پر غالب رہے، آگے توحید کے ساتھ اس کی تاکید اور تصریح ہے یعنی) وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے اس کے سوا کوئی قابل عبادت نہیں تو اسی کو اپنے کام سپرد کرنے کے لئے قرار دیئے رہو، اور یہ لوگ جو جو باتیں کرتے ہیں ان پر صبر کرو اور خوبصورتی کے ساتھ ان سے الگ ہوجاؤ (الگ ہونا یہ کہ کوئی تعلق نہ رکھو اور خوبصورتی سے یہ کہ ان کی شکایت و انتقام کی فکر میں مت پڑو) اور (آگے ان کے عذاب کی خبر دے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے) مجھ کو اور ان جھٹلانے والوں کو ناز و نعمت میں رہنے والوں کو (حالت موجودہ پر) چھوڑ دو (یعنی رہنے دو و مرتفسیرہ فی ایتہ فذ رنی و من یکذب بھذا الحدیث) اور ان لوگوں کو تھوڑے دنوں اور مہلت دے دو (یہ کنایہ ہے صبر و انتظار سے یعنی کچھ دن اور صبر کرلیجئے عنقریب ان کو سزا ہونے والی ہے کیونکہ) ہمارے یہاں بیڑیاں ہیں اور دوزخ ہے اور گلے میں پھنس جانے والا کھانا ہے ( وھذا کقولہ یتجرعہ ولا یکاد یسیغہ) اور درد ناک عذاب ہے (پس ان لوگوں کو ان چیزوں سے سزا دی جاوے گی اور یہ سزا اس روز ہوگی) جس روز زمین و پہاڑ ہلنے لگیں اور پہاڑ (ریزہ ریزہ ہو کر) ریگ رواں ہوجائیں گے ( پھر اڑتے پھریں گے آگے مکذبین مذکورین کو بطور التفات کے خطاب ہے جس میں اثبات رسالت و تخقیق و عید بھی ہے یعنی) بیشک ہم نے تمہارے پاس ایک ایسا رسول بھیجا ہے جو تم پر (قیامت کے روز) گواہی دیں گے (کہ ان لوگوں نے تبلیغ کے بعد کیا برتاؤ کیا) جیسا ہم نے فرعون کے پاس ایک رسول بھیجا تھا، پھر فرعون نے اس رسول کا کہنا نہ مانا تو ہم نے اس کو سخت پکڑنا پکڑا سو اگر تم (بھی بعثت رسول کے بعد نافرمانی اور) کفر کرو گے تو (اسی طرح ایک روز تم کو بھی مصیبت بھگتنا پڑے گی چناچہ وہ مصیبت کا دن آنے والا ہے سو تم) اس دن (کی مصیبت) سے کیسے بچو گے جو (اپنی شدت اور طول کی وجہ سے) بچوں کو بوڑھا کر دے گا جس میں آسمان پھٹ جاوے گا بیشک اس کا وعدہ ضرور ہو کر رہے گا (یہ بھی احتمال نہیں ہے کہ وہ وقت ٹل جاوے) یہ (تمام مضمون) ایک (بلیغ) نصیحت ہے سو جس کا جی چاہے اپنے پروردگار کی طرف رستہ اختیار کرے (یعنی اس تک پہنچنے کے لئے دین کا رستہ قبول کرے، آگے اس قیام لیل کی فرضیت کا نسخ ہے جو شروع سورت میں مذکور تھا یعنی) آپ کے رب کو معلوم ہے کہ آپ اور آپ کے ساتھ والوں میں سے بعضے آدمی (کبھی) دو تہائی رات کے قریب اور (کبھی) آدھی رات اور (کبھی) تہائی رات (نماز میں) کھڑے رہتے ہیں اور رات اور دن کا پورا اندازہ اللہ ہی کرسکتا ہے اس کو معلوم ہے کہ تم اس (مقدار وقت) کو ضبط نہیں کرسکتے (اور اس وجہ سے تم کو سخت مشقت لاحق ہوتی ہے کیونکہ انداز سے تخمینہ کرنے میں تو شبہ رہتا ہے کمی کا اور انداز سے زیادہ کرنے میں تمام رات کے قریب صرف ہوجاتا ہے تاکہ وقت مقدر یقیناً پورا ہوجاوے اور ان دونوں امر میں مشقت شدید ہے روحانی یا جسمانی) تو (ان وجوہ سے) اس نے تمہارے حال پر عنایت کی ( اور اس سے پہلے حکم کو منسوخ فرما دیا) سو (اب) تم لوگ جتنا قرآن آسانی سے پڑھا جاسکے پڑھ لیا کرو ( مراد اس قرآن پڑھنے سے تہجد پڑھنا ہے کہ اس میں قرآن پڑھا جاتا ہے اور یہ امر استحباب کے لئے ہے۔ مطلب یہ کہ تہجد کی فرضیت منسوخ ہوگئی اب جس قدر وقت تک آسان ہو بطور استحباب کے اگر چاہو پڑھ لیا کرو اور منسوخ ہونے کی اصل علت مشقت ہے جس پر علم ان لن تخصوہ کا قرینہ ہے اور اس کے قبل کا مضمون اس کی تمہید ہے، آگے اسی نسخ کی دوسری علت کا بیان ہے کہ) اس کو (یہ بھی) معلوم ہے کہ بعضے آدمی تم میں بیمار ہوں گے اور بعضے تلاش معاش کے لئے ملک میں فر کریں گے اور بعضے اللہ کی راہ میں جہد کریں گے (اس لئے بھی اس حکم کو منسوخ کردیا کیونکہ ان حالتوں میں پابندی تہجد اور اس کے اوقات کی مشکل تھی) سو (اس لئے بھی تم کو اجازت ہے کہ اب) تم لوگ جتنا قرآن آسانی سے پڑھا جاسکے پڑھ لیا کرو، اور (گوتجہد منسوخ ہوگیا مگر یہ احکام اب بھی باقی ہیں یعنی یہ کہ) نماز (فرض) کی پابندی رکھو اور زکوة دیتے رہو (قد مرتفسیرہ، فی اول المومنین) اور اللہ کو اچھی طرح (یعنی اخلاص سے) قرض دو اور جو نیک عمل اپنے لئے آگے (ذخیرہ آخرت کا بنا کر) بھیج دو گے اس کو اللہ کے پاس پہنچ کر اس سے اچھا اور ثواب میں بڑا پاؤ گے (یعنی دنیوی اغراض میں خرچ کرنے سے جو عوض اور نفع مرتب ہوتا ہے اس سے بہتر اور اعظم نفقات خیر پر ملے گا) اور اللہ سے گناہ معاف کراتے رہو، بیشک اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے (استغفار بھی ان ہی احکام باقیہ میں ہے) معارف ومسائل يٰٓاَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ ، مزمل کے لفظی معنے اپنے اوپر کپڑے لپیٹنے والا۔ تقریباً اسی کا ہم معنے لفظ مدثر ہے جو اگلی سورت میں آ رہا ہے۔ ان دونوں سورتوں میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک وقتی حالت اور مخصوص صفت کے ساتھ خطاب کیا گیا ہے کیونکہ اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شدت خوف و فزع کے سبب سخت سردی محسوس کر رہے تھے اس لئے اپنے اوپر کپڑے ڈالنے کے لئے فرمایا یہ کپڑے ڈال دیئے گئے تو آپ ان میں لپٹ گئے۔ واقعہ اس کا صحیحین بخاری و مسلم میں حضرت جابر کی روایت سے یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فترت وحی کے زمانے کا ذکر فرما رہے تھے فترت کے لفظی معنی سست یا بند ہوجانے کے ہیں، واقعہ اس کا یہ پیش آیا تھا کہ سب سے پہلے غار حرا میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جبرئیل امین نازل ہوئے اور سورة اقراء کی ابتدائی آیتیں آپ کو سنائیں۔ یہ فرشتے کا نزول اور وحی کی شدت پہلے پہل تھی جس کا اثر طبعی طور پر ہو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ام المومنین حضرت خدیجہ کے پاس تشریف لے گئے سخت سردی محسوس کر رہے تھے اس لئے فرمایا زملونی زملونی یعنی ڈھانپو مجھے ڈھانپو۔ اس کا مفصل اور طویل واقعہ صحیح بخاری کے پہلے ہی باب میں مذکور ہے اس کے بعد کچھ دنوں تکیہ سلسلہ وحی کا بند رہا اس زمانے کو جس میں سلسلہ وحی بند رہا زمانہ فترت الوحی کہا جاتا ہے آپ نے اس زمانہ فترت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک روز میں چل رہا تھا کہ اچانک میں نے آواز سنی تو نظر آسمان کی طرف اٹھائی دیکھتا کیا ہوں کہ وہ ہی فرشتہ جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا آسمان و زمین کے درمیان ایک معلق کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ مجھے ان کو اس ہئیت میں دیکھ کر پھر وہ ہی رعب وہیبت کی کیفیت طاری ہوگئی جو پہلی ملاقات کے وقت ہوچکی تھی میں واپس اپنے گھر چلا آیا اور گھر والوں سے کہا کہ مجھے ڈھانپ دو اس پر یہ آیت نازل ہوئی یایھا المدثر اس حدیث میں آیت یایھا المدثر کے نزول کا ذکر ہے ہوسکتا ہے کہ اسی حالت کو بیان کرنے کے لئے يٰٓاَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ کا خطاب بھی آیا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لفظ مزمل کے لقب کا واقعہ الگ وہ ہو جو خلاصہ تفسیر میں بیان ہوا ہے، اس عنوان سے خطاب کرنے میں ایک خاص لطف و عنایت کی طرف اشارہ ہے جیسے محبت و شفقت میں کسی کو اس کی وقتی حالت کے عنوان سے محض تلطف کے لئے خطاب کیا جاتا ہے (روح المعانی) اس عنوان خاص سے خطاب فرما کر آپ کو نماز تہجد کا حکم اور اس کی کچھ تفصیل بتلائی ہے۔
يٰٓاَيُّہَا الْمُزَّمِّلُ ١ ۙ زمل يا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ [ المزمل/ 1] ، أي : الْمُتَزَمِّلُ في ثوبه، وذلک علی سبیل الاستعارة، كناية عن المقصّر والمتهاون بالأمر وتعریضا به، والزُّمَيْلُ : الضّعيف، قالت أمّ تأبّط شرّا : ليس بزمّيل شروب للقیل ( ز م ل ) يا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ [ المزمل/ 1] اے اوڑھنے والے ۔ تو مزمل اصل میں متزمل ہے جس کے معنی کپڑے میں لپیٹے کے ہیں اور استعارہ کے طور پر سستی اور کوتاہی کرنے والے کو بھی تعریضا مزمل کہا جاتا ہے اسی سے زمیل ہے جس کے معنی کمزور اور ناتواں کے ہیں تابط شرا کے متعلق اس کی والدہ نے کہا ہے ۔ لیس بزمیل شروب للغیل کہ وہ کمزور اور ناتواں نہیں ہے کہ دوپہر کے وقت دودھ پینے کی ضرورت ہو ۔
قیام اللیل کا حکم قول باری ہے (یایھا المزمل قم اللیل الا قلیلا، اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے ! رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم) زرادہ بن اوفیٰ نے سعد بن ہشام سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے کہا ” مجھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قیام اللیل کے بارے میں بتائیے۔ “ انہوں نے فرمایا : ” تم سورة مزمل نہیں پڑھتے۔ “ میں نے عرض کیا۔” پڑھتا ہوں۔ “ انہوں نے فرمایا ” اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آغاز میں قیام اللیل کو فرض کردیا تھا۔ چناچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ قیام اللیل کرتے رہے حتیٰ کہ ان سب کے پائوں پھول گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آخری حصے کے نزول کو بارہ ماہ تک روکے رکھا پھر اس سورت کے آخری حصے کے ذریعے تخفیف کا حکم نازل فرمایا اس طرح قیام اللیل کی فرضیت کو نفل میں تبدیل کردیا گیا۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ جب سورة مزمل کا اول حصہ نازل ہوا تو صحابہ کرام رمضان کے قیام کی طرح قیام اللیل کرتے رہے حتیٰ کہ سورت کا آخری حصہ نازل ہوگیا۔ دونوں حصوں کے نزول کی درمیانی مدت تقریباً ایک سال تھی۔
(١۔ ٤) محمد رات کو نماز کے لیے کھڑے رہا کرو مگر تھوڑی رات یعنی نصف رات یا رات کے دو حصے نماز پڑھا کرو اور قرآن کریم کو خوب صاف صاف ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو یعنی ایک آیت اور دو آیات اور تین آیات یہاں تک کہ قرات پوری کرو۔ شان نزول : يٰٓاَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ (الخ) بزاز، طبرانی نے حضرت جابر سے روایت کیا ہے کہ قریش دار الندوہ میں جمع ہوئے اور آپس میں کہنے لگے کہ اس شخص کا کوئی نام تجویز کرو جس سے لوگ بھاگتے ہیں، تو بعض کہنے لگے کہ کاہن ہیں اس پر لوگوں نے کہا کاہن نہیں ہیں تو پھر بعض کہنے لگے کہ مجنوں ہیں اس پر بھی بعض نے کہا کہ مجنوں نہیں ہیں، پھر بعض کہنے لگے کہ ساحر ہیں اس پر بھی لوگ کہنے لگے کہ ساحر نہیں ہیں، تو اس چیز کی رسول اکرم کو اطلاع ہوئی آپ نے اپنی چادر اوڑھی اور اس میں لیٹے تو آپ کے پاس جبریل تشریف لائے اور فرمایا يٰٓاَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ ۔ يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ ۔ اور ابن ابی حاتم نے ابراہیم نخعی سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم مخمل کی چادر اوڑھے ہوئے تھے تب یہ آیت نازل ہوئی۔ اور امام حاکم نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے کہ جس وقت یہ آیت يٰٓاَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ ۔ قُمِ الَّيْلَ نازل ہوئی، تو آپ نے ایک سال تک نماز میں اس قدر طویل قیام فرمایا کہ آپ کے قدم مبارک سوج گئے تب یہ آیت نازل ہوئی فاقروا ما تیسر منہ (الخ) اور ابن جریر نے حضرت ابن عباس سے اسی طرح روایت کی ہے۔
آیت ١{ یٰٓــاَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ ۔ } ” اے کمبل میں لپٹ کر لیٹنے والے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! “ فداہ آباونا وامّھاتنا۔
1 To address the Holy Prophet (upon whom be peace) with these words and then to command him to rise and keep standing in the Prayer at night, shows that at the tune he either lay asleep, or had wrapped himself up in a sheet in order to go to sleep. Here, to address him with "O you who sleeps covered up" instead of with "O Prophet, or O Messenger", is a fine way of address, which by itself gives the meaning: "Gone is the time when you used to enjoy peaceful sleep at will; now you lie under the burden of a great mission, whose demands and duties are different as well as onerous.
سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :1 ان الفاظ کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرنے اور پھر یہ حکم دینے سے کہ آپ اٹھیں اور راتوں کو عبادت کے لیے کھڑے رہا کریں ، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت یا تو آپ سو چکے تھے یا سونے کے لیے چادر اوڑھ کر لیٹ گئے تھے ۔ اس موقع پر آپ کو اے نبی ، یا اے رسول کہہ کر خطاب کرنے کے بجائے اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے کہہ کر پکارنا ایک لطیف انداز خطاب ہے جس سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اب وہ دور گزر گیا جب آپ آرام سے پاؤں پھیلا کر سوتے تھے ۔ اب آپ پر ایک کار عظیم کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے جس کے تقاضے کچھ اور ہیں ۔
1: یہ پیار بھرا خطاب حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم سے ہے، جب آپ پر پہلی پہلی بار غارِ حرا میں جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر آئے تھے تو آپ پر نبوت کی ذمہ داری کا اتنا بوجھ ہوا کہ آپ کو جاڑا لگنے لگا، اور جب آپ اپنی اہلیہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے پاس تشریف لے گئے تو یہ فرمارہے تھے کہ مجھے چادر میں لپیٹ دو، مجھے چادر میں لپیٹ دو، اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہاں محبوبانہ انداز میں آپ کو ’’اے چادر میں لپٹنے والے‘‘ کہہ کر خطاب کیا گیا ہے۔
١۔ ٩۔ اکثر سلف کے نزدیک یہ سورة مکی ہے مگر حضرت عبد اللہ ١ ؎ بن عباس (رض) کا قول ہے واصبر علی مایقولون اور اس سے بعد کی آیت یہ دونوں آیتیں مدنی ہیں لیکن یہ اوپر گزر چکا ہے کہ جس سورة کا شروع کا حصہ مکی ہو وہ مکی کہلاتی ہے حسن بصری اور ابن سیرین اس بات کے قائل ہیں کہ رات کا اٹھنا اور تہجد کی نماز کا پڑھنا فرض ہے۔ زیادہ نہ ہو سکے تو اتنی ہی دیر آدمی کو اٹھنا چاہئے جتنی دیر میں بکری کا دودھ دوہا جاتا ہے لیکن جمہور علماء کا مذہب یہی ہے کہ تہجد کی نماز سنت ہے اور ایسی افضل سنت ہے جس کی ترغیب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت سی حدیثوں میں دلائی ہے۔ صحیح ٢ ؎ مسلم اور منن میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث مشہور ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فرض نماز کے بعد تہجد کی نماز سے بڑھ کر کوئی نماز نہیں ہے۔ اور صحیحین ٣ ؎ وغیرہ کی حضرت عبد اللہ بن عمر کی یہ حدیث بھی مشہور ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو حضرت دائود (علیہ السلام) کی تہائی حصہ رات کی نماز بہت پسند ہے جمہور علماء کا یہ جو مذہب ہے کہ تہجد کی نماز امت محمدیہ پر فرض نہیں ہے اس کی تائید صحیح حدیثوں سے ہوتی ہے۔ مثلاً ایک صحیح حدیث تو صحیح مسلم وغیرہ کی حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت سے ابھی اوپر گزری ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تہجد کی نماز کا رتبہ فرض نماز کے بعد رکھا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تہجد کی نماز فرض نہیں ہے فرض نماز کے بعد کے رتبہ کی ایک نماز ہے۔ دوسری حدیث صحیحین ١ ؎ میں حضرت زید بن ثابت کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک رمضان میں تین راتوں تک صحابہ کرام مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تہجد کی نماز جماعت سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ پڑھنے آئے پھر چوتھی رات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر تشریف نہیں لائے اور صبح کو صحابہ (رض) سے فرمایا کہ مجھ کو تم لوگوں کا آج کی رات آنا بھی معلوم تھا مگر میں اس خوف سے باہر نہیں آیا کہ کہیں تم پر تہجد کی نماز فرض نہ ہوجائے۔ اس سے بھی صاف معلوم ہوا کہ امت محمدیہ پر تہجد کی نماز فرض نہیں ہے کیونکہ اس کے فرض ہونے کی صورت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ ہرگز نہ فرماتے کہ مجھ کو اس کے فرض ہونے کا خوف تھا کس لئے کہ جو چیز خود پہلے ہی سے فرض ہوتی اس کے فرض ہونے کا خوف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیوں ظاہر فرماتے۔ اسی طرح صحیحین ٢ ؎ میں حضرت طلحہ بن عبید کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارکان دین ایک شخص سائل کو بتاتے ہیں اور ان ارکان میں فقط پنجگانہ نماز کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرض بتایا ہے اس شخص نے پوچھا بھی کہ نماز کے نام سے میرے اوپر اور کچھ بھی فرض ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نہیں تہجد کی نماز اگر فرض ہوتی تو آپ ضرور اس کا ذکر فرماتے ایک اختلاف علماء میں اور ہے وہ یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں اس سورة کی شروع کی آیتوں کے موافق جب تہجد کی نماز فرض تھی تو کیا فقط آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہی فرض تھی یا امت پر بھی فرض تھی۔ حافظ ٣ ؎ ابن کثیر نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ اس زمانہ میں بھی یہ نماز فقط آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہی فرض تھی۔ اور قرآن شریف میں قم الیل اور فتھجد بہ کا خطا بھی خاص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو ہے اس سے یہی قول صحیح معلوم ہوتا ہے۔ بعض علماء نے یہ جو لکھا ہے کہ مزمل آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ناموں میں سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک نام ہے یہ قول تو صحیح نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان آیتوں تہجد کا حکم فرمایا ہے اور تہجد کا وقت ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اکثر اس وقت اوڑھے لپیٹے بچھونے پر لیٹا ہوا ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس حالت کی صفت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یاد فرمایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس صفت سے یاد فرمانے میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ امت میں کے اور لوگوں سے بھی یہ خطاب یایھا الذین امنوا کے خطاب کی طرح متعلق ہوگیا قم الیل سے ساری رات کی نماز سمجھی جاتی تھی۔ اس لئے آگے اس کی مقداربتا دی کیونکہ حفظ صحت کی غرض سے انسان کے لئے کچھ راحت بھی ضرور ہے ترتیل کے معنی حرفوں کو الگ الگ کرکے اس طرح قرآن پڑھنا کہ سننے والے کی خوف سمجھ میں آئے چناچہ اکثر صحابہ (رض) نے صحیح روایتوں میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عمل کے حوالہ سے ترتیل کے یہی معنی بتائے ہیں تہجد کی آٹھ رکعتیں اکثر صحیح روایتوں میں ہیں اور وتر کی پانچ رکعتیں بھی ہیں اور تین بیج اور ایک بھی اور کبھی پانچ رکعت سے زیادہ بھی وتر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پڑھے ہیں۔ بھاری بات سے مراد نماز روزہ حج زکوٰۃ وغیرہ احکام ہیں جو اس سورة کے بعد وقت بوقت نازل ہوئے کیونکہ اس سورة کے زمانہ تک فقط تہجد کی نماز تھی اور کوئی عبادت نہ تھی پھر معراج کے وقت پانچوں وقت کی نماز مکہ میں اور ہجرت کے بعد مدینہ میں باقی کی عبادتیں یہ سب کچھ فرض ہوا۔ خالص نیت سے پورے طور پر ان عبادتوں کا ادا کرنا آدمی کے نفس پر ذرا بھاری ہے اس لئے ان کی پوری ادائی کو بھاری بات فرمایا۔ رات کو کسی قدر سو جانے کے بعد جو آدمی اٹھے تو اس باقی کی رات کو ناشئۃ الیل کہتے ہیں اس وقت کا اٹھنا نفس پر شاق گزرتا ہے اس واسطے اس کو نفس کی روندن فرمایا۔ اس وقت کچھ غل شور نہیں ہوتا اس لئے اس وقت آدمی کے حواس منتشر نہیں ہوتے بلکہ جو کچھ اس وقت منہ سے نکلتا ہے وہ دل کے ارادہ سے ہوتا ہے اوپری نہیں ہوتا اسی واسطے اس وقت کے زبان کے لفظوں کے سیدھی بات فرمایا اور فرمایا کہ دن کے سے مشغلے رات کو نہیں رہتے اس لئے اس خلوت کے وقت میں اللہ کی عبادت کیا کرو۔ علاوہ اس کے آخری تہائی رات یہ وقت بھی بہت بڑی مقبولیت ہے چناچہ صحیح ١ ؎ بخاری مسلم وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت سے جو حدیث ہے وہ مشہور ہے کہ اس وقت ہر رات کو اللہ تعالیٰ اول آسمان پر نزول فرما کر اس وقت کی ہر طرح کی دعا اور توبہ استغفار کے قبول فرمانے کا وعدہ اپنے بندوں سے فرماتا ہے اس باب میں صحابہ کی ایک جماعت سے اور بھی صحیح روایتیں آئی ہیں۔ تبتل کے معنی یکسو ہو کر اللہ کی عبادت میں مصروف ہونا۔ اب آگے فرمایا کہ مشرق مغرب سارے جہان کا پرورش کرنے والا جبکہ وہی وحدہ لاشریک ہے تو وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اسی کی خالص عبادت کی جائے اور دین و دنیا کے ہر ایک کام کا اسی پر بھروسہ رکھا جائے۔ یہ دنیا عالم اسباب ہے اس لئے دنیا کے کاموں میں اللہ پر بھروسہ رکھنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آدمی اسباب کو بیکار سمجھے بلکہ اللہ پر بھروسا رکھنے کا یہ مطلب ہے کہ آدمی سبب کو سبب کی طرح برتے اور ہر کام میں اصل بھروسہ اللہ کی ذات پر رکھے سبب کو اصل بھروسہ کی چیز نہ سمجھے جس طرح صحیح ٢ ؎ حدیث میں ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرا رزق میرے برچھے کے نیچے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دین کی لڑائی پر جانا اور غنیمت کے مال میں سے حصہ لینا یہی اس عالم اسباب میں میرے رزق کا سبب اور حیلہ ہے اسی طرح صحابہ کے سینکڑوں قصے صحیح روایتوں میں ہیں کہ وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رو برو تجارت زراعت سب کچھ کرتے تھے اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب (رض) کا اصل بھروسہ اللہ پر تھا یہ اسباب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب (رض) کے نزدیک مستقل طور پر بھروسہ کی چیز نہ تھی۔ سبح کے معنی چلنے پھرنے اور کام کاج کے ہیں۔ (٢ ؎ صحیح مسلم باب فضل صوم المحرم ص ٣٦٨ ج ١۔ ) (٣ ؎ صحیح بخاری باب من نام عند السحر ص ١٥٢۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم باب استحباب صلوٰۃ النافلۃ فی بیتہ الخ ص ٢٦٦ ج ١۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری باب الزکوٰۃ من الاسلام الخ ص ١١ ج ١۔ ) (٣ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٣٥ ج ٤۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم باب صلوٰۃ اللیل وعدد رکعات النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الخ ص ٢٥٨ ج ١۔ ) (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣١٥ ج ٤۔ )
(73:1) یایھا : یا حرف ندا۔ ایھا۔ بمعنی کونسا، جس، کس کس، کیا کیا ؟ یہ اسفتہامیہ بھی ہوتا ہے۔ اور شرطیہ بھی۔ صفت بھی واقع ہوتا ہے۔ بحالت نداء ای ، ایۃ منادی معرف باللام کو حرف نداء سے ملاتا ہے۔ ھا حرف تنبیہ ہے جو ای ایہ اور اپنے مابعد کے اسم معرف باللام کے درمیان فصل کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ نداء میں جب منادی پر الف لام داخل ہو تو مذکر میں ایہا اور مؤنث میں ایھا کو یا حرف نداء کے ساتھ بڑھا دیا جاتا ہے مذکر کی مثال آیت ھذا۔ مؤنث کی مثال :۔ یایھا النفس المطمئنۃ (89:27) اے اطمینان پانے والی روح۔ یایھا : اے۔ المزمل : منادی۔ تزمل (تفعل) مصدر سے اسم فاعل واحد مذکر کا صیغہ ہے اصل میں المتزمل تھا ت کو ز میں مدغم کیا گیا۔ کپڑے میں لپٹنے والا۔
ف 10 یہ خطاب آنحضرت سے ہے کیونکہ شروع میں جب حضرت جبریل وحی لاتے تو آپ پر کپکپی سی طاری ہوجاتی اور آپ کمبل اوڑھ لیتے۔ چناچہ جب پہلی مرتبہ حضرت جبریل وحی لائے اور آپ پر کپکپی کی کیفیت طاری ہوگئی تو آپ حضرت خدیجہ سے فرمانے لگے زماونی زماونی زملونی مجھے کپڑا اوڑھا دو … اس بنا پر آنحضرت کو اس لفظ سے خطاب کیا گیا۔
سورة المزمل۔ آیات ١ تا ١٩۔ اسرار ومعارف۔ اے کمبل پوش یہ بات ایک خوبصورت انداز محبت میں ارشاد فرمائی اور فرمایا کہ راتوں کو اٹھیں یعنی قیام فرمائیں اور اللہ کی عبادت کریں اور تھوڑا وقت آرام کریں قیام کے لیے آدھی رات یا اس سے کچھ کم زیادہ کرلیاکریں اس میں نہایت خوبصورت انداز سے قرآن کی تلاوت کریں۔ نماز تہجد۔ یہ آیات ابتدائے اسلام کی ہیں اور ان میں آپ پر اور مسلمانوں پر تہجد کی نماز فرض کی گئی نیز رات کا اکثر حصہ قیام کرنے کا حکم دیا گیا ہے جس میں قرآن کریم کو ٹھہر ٹھہر کر درست طریقے سے اور خوبصورت انداز می پڑھنے کا حکم ہوا چناچہ آپ اور صحابہ کرام سال بھر تک تہجد ہی ادا فرماتے رہے جس میں طویل قیام سے قدوم مبارک پر ورم آجاتا تھا پھر شب معراج کو پانچ نمازیں فرض ہوئیں توتہجد کی فرضیت منسوخ ہوگئی مگر آپ نے تمام عمر یہ نمازادافرمائی لہذا یہ سنت شمار ہوتی ہے۔ ترتیل قرآن۔ یعنی سہولت کے ساتھ اور درست ادائیگی کے ساتھ الفاظ ادا کیے جائیں اس میں آواز خوبصؤرتی بھی شامل ہے نبی (علیہ السلام) نے (رح) خوش آوازی سے تلاوت کو بہت پسند فرمایا ہے ۔ ہم آپ پر بہت بڑی ذمہ داری ڈالنے والے ہیں یعنی اصلاح خلق کافریضہ اور پوری انسانیت کے لی دعوت حق اور تمام عالم کفر سے مقابلہ لہذا راوں کا اٹھنا اگرچہ مشکل ہے مگر دل و زبان میں یکسوئی پیدا کردیتا ہے۔ مقابلے کے لیے قوت قلبی کی ضرورت ہے۔ گویا مجاہدہ کرایا جارہا ہے کہ کفر کے مقابلے کے لیے اصل طاقت قوت قلبی اور کیفیات ایمانی ہیں جو تہجد میں حاصل ہوتی ہیں بیشک دن بھر آپ کے لیے بہت مشقت ہے کہ اپنے معاشی مسائل بھی ہیں اور تبلیغ وتعلیم بھی جس پر کفر کی شدید مخالفت کا سامنا ہے مگر اس سب کے لیے آپ اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کیجئے اور اس قدر مخلوق سے انقطاع نصیب ہو کہ صرف اللہ کا نام قلب ونظر میں رہ جائے۔ ذکر اللہ۔ اس آیہ مبارکہ میں اس عبات کا حکم جو رات یا دن کے کسی وقت سے مخصوص نہیں بلکہ ہر وقت اور ہر حال میں جاری رہنا مقصود ہے صاحب مظہری نے ذکر دوام میں لکھا ہے اور صاحب معارف القرآن فرماتے ہیں کہ اس کو شب روز ہمہ وقت جاری رکھیں اس میں کبھی ذہول ہوناچاہیے اور نہ سستی اور یہ مراد اسی وقت لی جاسکتی ہے جب ذکر اللہ سے عام مراد لیاجائے خواہ زبان سے ہو یا قلب سے یا اعضاء جوارح سے چندے بعد لکھتے ہیں کہ آپ سے بیت الخلا میں ذکرلسانی نہ کرنا ثابت ہے لہذا ذکرقلبی ہر وقت جاری رہ سکتا ہے۔ ذکر اسم ذات یعنی اللہ اللہ کی تکرار مامور بہ عبادت ہے۔ تفسیر مظہری میں ہے کہ ذکر اللہ کے حکم کو اسم کے ساتھ مقید فرمادیا اس میں اشارہ نکلتا ہے کہ اللہ کی تکرار بھی مطلوب ومامور بہ ہے اور مفتی محمد شفیع (رح) معارف القرآن میں فرماتے ہیں کہ بعض علماء نے جو صرف اسم ذات اللہ اللہ کے تکرار کو بدعت کہہ دیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اس کو بدعت کہنا صحیح نہیں ہے اور حق یہی ہے کہ ذکر قلبی جس کا حکم آپ کو دیا گیا تمام امت کے ہر مرد وزن کے لیے اللہ کا انعام ہے نبی کا وجود کا توہرذرہ نہ صرف خود ذاکر ہوتا ہے بلکہ جو لباس ، جوتا ، وغیرہ بدن سے مس کرتا ہے ذاکر ہوجاتا ہے جس زمین پر قدم مبارک رکھتے ہیں ذاکر ہوجاتی ہے اور آپ نے جدھر نگاہ فرمائی شجر وحجر جو ریت کے ذرات اور فضائیں تک ذاکر ہوگئیں۔ ہر مسلمان اگر برکات نبوی سے قلب کو ذاکر کرلے تو کفر کے مقابلے کی ہمت پالیتا ہے ۔ ورنہ زندگی سمجھوتوں کی نذر ہوجاتی ہے وہی پروردگار ہے مشرق ومغرب کا یعنی سب کائنات کا پالنے والا ہے اس کے علاوہ کوئی عبادت کا مستحق نہیں لہذا آپ اسی کو اپنا کارساز جانیں اور کفار کی زبانوں سے جو طعنے سننے پڑتے ہیں برداشت کریں یابھلے طریقے سے ان سے الگ ہوجائیں۔ اعلی اخلاقیات۔ اس میں بھی مسلمان کے اخلاق بلند ہوناچاہیے اور فضولیات کا جواب دینے کی بجائے صبر کرے اگر حد برداشت سے باہر ہوں تو اچھے طریقے سے الگ ہوجائے کہ الگ ہو کر بھی شکوہ نہ کرے۔ اور کفر و انکار کی راہ کرنے والوں کو مجھ پر چھوڑ دیں کہ ان کے لیے بہت کم مہلت ہے لہذا دنیا میں بھی کفار کو شکست ہوئی اور تھوڑے عرصے میں اسلام غالب آیا اور آخرت میں ان کے لیے دوزخ کی بیڑیاں ہیں اور آگ کے ڈھیر اور ایسا کھانا جو گلے میں پھنس جانے والا ہے اور دردناک عذاب ایک روز زمین پھر لرز اٹھے گی اور پہاڑ ٹوٹ پھوٹ جائیں گے اور دنیا تباہ ہو کر اس انجام کو پہنچے گی۔ لوگوہم نے تمہارے پاس ایسارسول بھیجا ہے جو قیامت کے روز تم پر گواہ ہوں گے تم نے ان کی کسی قدراطاعت کی جیسے فرعون کے پاس بھیجا تھا جس نے رسول کی بات نہ مانی اللہ کے عذاب کی گرفت میں آگیا اگر تم نہ مانوگے تو تمہاراحال بھی ایسا ہی ہوگا اور اگر باز نہ آئے تو روز قیامت کیا جواب دو گے جس کی شدت اور طوالت سے بچے بوڑھے ہوجائیں گے اس روز تو آسمان پھٹ جائیں گے بیشک اس روز حساب کتاب کا وعدہ ربانی پورا ہو کر رہے گا اس میں بہت ہی جامع نصیحت ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے پروردگار کا پسندیدہ راستہ اختیار کرنا چا ہیں۔
لغات القرآن۔ المزمل۔ کپڑوں میں لپٹنے والا۔ قم۔ کھڑا ہوجا۔ انقص کم کرلے۔ گھٹالے۔ رتل۔ صاف صاف پڑھ۔ سنلقی۔ ہم بہت جلدڈالیں گے۔ قول ثقیل۔ بھاری کلام۔ ناشئۃ۔ رات کو اٹھنا۔ بیدار ہونا۔ وطئہ ۔ مشقت۔ روندنا۔ اقومل قیلا۔ زیادہ درست بات۔ سبح طویل۔ زیادہ کام۔ زیادہ مشغولیت۔ تبتل۔ کاٹ ڈال۔ تبتیل۔ خوب کٹنا۔ ھجر۔ چھوڑ دینا۔ مھل۔ مہلت دے۔ لدینا۔ ہمارے پاس۔ انکال۔ بیڑیاں۔ زنجیریں۔ ذاغصۃ۔ گلے میں پھنس جانے والا۔ ترجف۔ کانپے گی۔ کشیب۔ ریت کے ٹیلے۔ مھیل۔ نیچے دھکیلا گیا۔ بیل۔ سخت۔ عبرت ناک۔ شیب۔ بوڑھا۔ منفظر۔ پھٹ جانے والا۔ ثلثی الیل۔ دو تہائی رات۔ تیسر۔ آسان ہوگا۔ اعظم اجرا۔ بہت بوڑھا ہوا ثواب۔ تشریح : سورة المزل مکہ مکرمہ میں نازل کی جانے والے ان ابتدائی سورتوں میں سے ایک سورت ہے جس کے پہلے رکوع میں ” قیام اللیل “ یعنی نماز تہجد اور اسمیں ٹھہر ٹھہر کر تلاوت قرآن کریم کرنے کو فرض قرار دیا گیا ہے جب کہ دوسرے رکوع میں جو ایک سال کے بعد نازل کیا گیا اسمیں تہجد کو نفل اور مستحب کے درجے میں رکھا گیا ہے۔ احادیث کی روشنی میں مفسرین نے لکھا ہے کہ جب تک پانچ وقت کی نمازیں فرض نہ کی گئی تھیں اس وقت تک راتوں کو اٹھ کر قیام اللیل فرض تھا جب شب معراج میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کردی گئیں تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے لئے نماز تہجد نفل بن گئی۔ تہجد کی نماز کے لئے اس تخفیف اور کمی کے باوجود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس نماز کو ہمیشہ ادا کیا جس کی وجہ سے علمانے فرمایا ہے کہ نماز تہجد امت کے لئے نفل کا درجہ رکھتی ہے لیکن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فرض ہی رہی۔ بہرحال راتوں کو اٹھ کر اللہ کو یاد کرنا ایک بہت بڑی سعادت اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہے۔ نماز تہجد کی اہمیت پر بہت سی احادیث میں جن کی روشنی میں علما نے فرمایا ہے کہ راتوں کی تنہائی میں اللہ کا ذکر کرنے سے بہت کچھ عطا کیا جاتا ہے۔ حضرت ابوامامہ (رض) سے روایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے۔ راتوں کو عبادت کا اہتمام کیا کرو کیونکہ یہ تم سے پہلے گزرے ہوئے صالحین کا طریقہ، اللہ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ، گناہوں سے دور رہنے کو وسیلہ اور خطاؤں سے بچنے کا طریقہ ہے۔ ایک اور حدیث میں خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے بندہ سب سے زیادہ اللہ کا قرب رات کے آخری حصے میں حاصل کرتا ہے۔ اگر تم سے ہوسکے تو اس وقت اللہ کی یاد کرنے والوں میں سے ہوجائو۔ ارشادات نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خلاصیہ یہ ہے کہ راتوں کو اٹھنا، اپنے راحت و آرام کی قربانی دینا اور نیند کو چھوڑ کر اللہ کی عبادت و بندگی کرنا اللہ کے قرب اور رحمت کا ذریعہ ہے اس سے انسانی نفس بھی خوب روندا اور کچلا جاتا ہے۔ یہ وہ سہانا وقت ہے جس میں زبان اور دل کی مواقفقت اور یکسانیت کی وجہ سے روحانی ترقیات، دعاؤں کی قبولیت اور سکون قلب کی دولت عطا کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی راتوں کو اٹھ کر اللہ کا قرب حاصل کرنے اور اپنے نفس اور اس کے بےجا خواہشات کو پامال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ کفار مکہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بدنام کرنے، ستانے اور اذیتیں دینے کے لئے بہت سے توہین آمیز الفاظ گھڑ رکھے تھے۔ کاہن، شاعر، مجنون اور ساحر جیسے الفاط سے پکار کر اپنے بغض و حسد کی آگ کو بجھایا کرتے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کا نام لے کر خطاب کرنے کے بجائے آپ کی شان محبوبیت کو ظاہر کرنے کے لئے آپ کو مختلف صفاتی ناموں سے پکارا ہے۔ ” المزمل، المدثر، رئوف، رحیم، طہٰ اور یسین وغیرہ “۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو اس کے نام سے پکارا ہے مثلاً ” یا آدم، یا ابراہیم، یا موسیٰ یا عیسیٰ وغیرہ لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہیں بھی ” یا محمد “ کہہ کر خطاب نہیں کیا گیا۔ کفار اور اجنبی لوگ آپ کو یا محمد کہہ دیتے تھے مگر صحابہ کرام (رض) میں سے کبھی کسی نے یا محمد کہہ کر نہیں پکارا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کو آپ کے صفاتی ناموں سے یاد فرمایا ہے۔ اس سورت میں بھی اللہ نے فرمایا یا یھا المزمل یعنی اے کپڑوں میں لپٹنے والے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ کفار کی باتوں، طعنوں اور گستاکانہ انداز سے آپ کو بہت رنج ہوا اور آپ کمبل اوڑھ کر لیٹ گئے یا پہلی وحی کے موقع پر آپ کو شدید گھبراہٹ ہوئی تھی اور اس موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خدیجہ (رض) سے فرمایا تھا کہ ” میرے لئے کمبل لائو “۔ بہرکیف اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اے ہمارے حبیب (رض) ! آپ ان کفارو مشرکین کی باتوں اور طعنوں پر رنجم اور افسوس نہ کریں بلکہ آپ راتوں کو اٹھ کر آدھی رات یا اس سے کم یا اس سے زیادہ رات کے حصے میں اللہ کی عبادت و بندگی کرتے رہیں کیونکہ ابھی تو آپ کو بہت بھاری ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے عظیم اور وزن دار کلام عطا کیا جانے والا ہے۔ فرمایا کہ قرآن کریم جو نازل کیا جا رہا ہے آپ اور آپ کے صحابہ خوب ٹھہر ٹھہر پر ھیں یعنی اس کے الفاظ کی ادائیگی بھی ٹھیک ٹھیک ہو اور اس کے معانی پر بھی پوری طرح غور کیا جائے بلکہ جہاں اللہ کی رحمت کا ذکر ہو وہاں اس سے رحمت مانگی جائے اور جہاں عذاب کا ذکر ہو وہاں عذاب سے پناہ مانگی جائے۔ فرمایا کہ اے ہمارے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! یہ کفار و مشرکین آپ کے متعلق جو بھی باتیں کرتے ہیں آپ پرواہ نہ کریں۔ ان سب سے الگ اور یکسو ہو کر صرف اس اللہ رب العالمین کی طرف اپنی پوری توجہ رکھئے جو تمام جہانوں کا پالنے والا، مشرق و مغرب کی ہر سمت کا مالک اور سب کا پروردگار ہے۔ نہایت متانت، سنجیدگی، صبر اور تحمل سے ہر بات کو برداشت کرتے رہیے اور ان عیش پرستوں اور جھٹلانے والوں کے معاماتل کو مجھ پر چھوڑ دیجئے۔ میں خود ان سے نبٹ لوں گا۔ فرمایا کہ ہم نے ایسے لوگوں کے لئے اپنے پاس بھاری بھاری بیٹریاں، جہنم کی آگ، حلق میں پھنس جانے والا ( زقوم کا درخت) کھان اور درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے جس سے بچنا ان کے لئے ممکن ہی نہ ہوگا۔ قیامت کا وہ دن جس میں ان کفار و مشرکین کو عذاب دیا جائے گا وہ ایسا ہیبت ناک دن ہوگا جب مضبوط پہاڑ لرز اٹھیں گے اور ریت کے ٹیلے بن کر ہوا میں اڑتے پھریں گے۔ البتہ اگر اس ہولناک دن سے پہلے کفار نے اپنے کفر سے توبہ کرلی تو ان کو معاف بھی کیا جاسکے گا۔ نزول قرآن کے وقت موجود اہل مکہ اور قیامت تک آنے والے لوگوں سے فرمایا جا رہا ہے کہ لوگو ! تمہارے پاس ہم نے ایک ایسے رسول کو بھیجا ہے جو زندگی کے اعلیٰ کردار کے پیکر ہیں بالکل اسی طرح ان کو بھیجا گیا ہے جس طرح فرعون کو راہ ہدایت دکھانے کے لئے حضرت موسیٰ کو بھیجا گیا تھا۔ حضرت موسیٰ نے فرعون اور آل فرعون کو ہر طرح سمجھایا کہ وہ اپنی خطاؤں سے معافی مانگ کر اور توبہ کرکے نجات کا راستہ اختیار کرلیں لیکن جب انہوں نے حضرت موسیٰ کی بات ماننے سے انکار کیا ان کو جھٹلایا اور طرح طرح سے ستایا تب اللہ نے فرعون اور اس کی قوم کو سمندر میں ڈبو دیا۔ اور اس وقت کوئی اس کی مدد کے لئے نہیں آیا۔ اس کے برخلاف اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان تمام بنی اسرائیل کو نجات عطا فرما دی جنہوں نے توبہ کرکے حضرت موسیٰ کی اطاعت قبول کرلی تھی فرمایا کہ اگر قرا ان کے مخاطب لوگوں نے اپنے کفرو شرک سے توبہ نہ کی تو ان کا انجام بھی وہی ہوگا جو فرعون اور قوم فرعون کا ہوا۔ فرمایا کہ وہ دن بہت دور نہیں ہے جب قیامت کا ہولناک دن آئے گا وہ اتنا طویل ہوگا کہ اس دن بچے بھی بوڑھے ہوجائیں گے۔ آسمان پھٹ جائے گا اور اس کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔ قرآن کریم کے لئے فرمایا کہ یہ ایک نصیحت اور بھلائی کا راستہ بتانے والی کتاب ہے۔ اب ہر ایک شخص کی اپنی مرضی ہے چاہے تو قرآن حکیم کے احکامات پر عمل کرکے اپنے پروردگار پہنچنے کا ذریعہ بنا لے اور چاہے تو جہنم کی طرف ٹھکانا بنالے۔ انجام دونوں کا بالکل صاف اور واضح ہے۔
6۔ وجہ اس عنوان سے خطاب کرنے کی یہ ہے کہ ابتدائے نبوت میں قریش نے دار الندوہ میں جمع ہو کر آپ کے بارے میں مشورہ کیا کہ آپ کی حالت کے مناسب کوئی لقب تجویز کرنا چاہئے کہ اس پر سب متفق رہیں، کسی نے کہا کہ کاہن ہیں، پھر ائے قرار پائی کہ کاہن نہیں ہیں، کسی نے مجنون کہا، پھر اس کو بھی سب نے غلط قرار دیا، پھر ساحر کہا، پھر بعض نے اس کو بھی رد کیا، لیکن پھر کہنے لگے کہ ساحر اس لئے ہیں کہ حبیب کو حبیب سے جدا کردیتے ہیں، آپ کو یہ خبر پہنچ کر رنج ہوا اور رنج کی حالت میں کپڑوں میں لپٹ گئے جیسا اکثر سوچ اور غم میں مغموم آدمی اس طرح کرلیتا ہے۔ پس تانیس و ملاطفت کے لئے اس عنوان سے خطاب فرمایا کہ صفت موجودہ سے اشتقاق کرنا اسم کا عادة موجب ملاطفت ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ آپ نے حضرت علی (رض) کو ابو تراب فرمایا تھا، غرض آپ کو خطاب ہے کہ ان باتوں کا رنج نہ کرو بلکہ حق تعالیٰ کی طرف دوام و زیادت کے ساتھ توجہ رکھو۔
فہم القرآن ربط سورت : سورة الجن کے آخر میں یہ ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ جو وحی اپنے رسول پر بھیجتا ہے اس کی حفاظت کے لیے اس کے آگے پیچھے پہرے دار مقرر کرتا ہے تاکہ اس کی وحی من و عن اس کے رسول تک پہنچ جائے۔ الرّسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منصب کا پہلا تقاضا ہے کہ رسول اس وحی کو یاد رکھے اور اسے لوگوں تک پہنچائے۔ یاد رکھنے کے لیے آپ کو تہجد پڑھنے کا حکم ہوا تاکہ ایک طرف آپ کو قرآن پر غور کرنے کا موقع ملے اور دوسری طرف آپ لوگوں تک پہنچانے کے لیے اپنے آپ پر ضبط کرنے کے عادی ہوجائیں کیونکہ تہجد اس کے آداب کے ساتھ ادا کی جائے تو آدمی کو اپنی طبیعت پر قابو پانا آسان ہوجاتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چادر اوڑھ کر آرام فرما تھے کہ جبریل امین تشریف لائے اور انہوں نے سورة المزّمل کے پہلے رکوع پر مشتمل چند آیات تلاوت کیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بڑے ہی پیارے انداز میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب فرمایا کہ اے کپڑا اوڑھنے والے رسول ! پوری رات سونے اور آرام کرنے کی بجائے آدھی رات یا اس سے کم قیام کیا کرو بلکہ اس سے کچھ زیادہ کرو اور قیام میں ٹھہر ٹھہر کر قرآن مجید کی تلاوت کرو۔ قیام الیل کے دورانیہ کے لیے تین الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ آدھی رات یا اس سے کم یا اس سے کچھ زیادہ قیام کریں۔ آدھی رات یا اس سے کم کی اجازت اس لیے دی گئی تاکہ موسم اور طبیعت کا لحاظ رکھتے ہوئے پوری توجہ اور یکسوئی کے ساتھ رات کا قیام ہو سکے۔ تلاوت قرآن کا بنیادی اصول یہی ہے کہ اسے ٹھہر ٹھہر کر پوری توجہ کے ساتھ پڑھا جائے۔ تہجد میں یہ حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ یہ وقت بڑا ہی سہانا اور بابرکت ہوتا ہے۔ اس میں ٹھہر ٹھہر کر قرآن مجید پڑھا جائے تو انسان کی طبیعت پر بڑے ہی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اہل علم نے ترتیل کا معنٰی یہ لیا ہے کہ جن آیات میں عذاب کا تذکرہ ہو تو ان میں انسان کو اپنے رب سے ڈرنا چاہیے اور اس سے پناہ مانگنا چاہیے۔ جن آیات میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی جنت کا تذکرہ ہو تو ان آیات کی تلاوت کرتے وقت اللہ تعالیٰ سے التجا کرنی چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کے احکام اور ارشادات پر بھی غور وفکر کرنا فرض ہے۔ فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے جسے نفل قرار دیا گیا ہے۔ نفل کا معنی ہے۔ ” زائد چیز “ رسول محترم نے نوافل کا فائدہ ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ قیامت کے دن فرض نماز کی کمی، بیشی نفل نماز سے پوری کی جائے گی۔ بعض اہل علم کے نزدیک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پہلے تہجد فرض تھی بعد ازاں اسے نفل قرار دے دیا گیا۔ (بنی اسرائیل : ٧٩) تہجد کا لفظ ” جہد “ سے نکلا ہے۔ جس کا مطلب ہے کوشش کرنا۔ مطلب یہ ہے کہ ” نیند کے بعد بیدار ہونا “ ظاہر ہے یہ کام ہمت اور کوشش کے بغیر نہیں ہوتا اس لیے کچھ اہل علم ضروری سمجھتے ہیں کہ تہجد کچھ دیر سونے کے بعد پڑھنی جائے۔ ان کے بقول سونے سے پہلے پڑھے جانے والے نوافل تہجد شمار نہیں ہوتے لیکن احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آدمی اپنی صحت اور فرصت کے مطابق رات کے کسی حصے میں تہجد پڑھ سکتا ہے۔ البتہ اس کا افضل ترین وقت آدھی رات کے بعد شروع ہوتا ہے۔ سحری کا وقت حاجات و مناجات اور سکون و اطمینان کے لیے ایسا وقت ہے کہ لیل و نہار کا کوئی لمحہ ان لمحات کا مقابلہ نہیں کرسکتا زمین و آسمان کی وسعتیں نورانی کیفیت سے لبریز ہوتی ہیں۔ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ اِلَی السَّمَآء الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقَی ثُلُثُ اللَّیْلِ الْاٰخِرِ یَقُوْلُ مَنْ یَدْعُوْنِیْ فَأسْتَجِیْبَ لَہُ مَنْ یَسْاَلنِیْ فأُعْطِیَہٗ مَنْ یَسْتَغْفِرُنِیْ فَأَغْفِرَلَہُ ) (رواہ البخاری : باب التحریض علی قیام الیل) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ رب تعالیٰ رات کے آخری حصے میں آسمان دنیا پر تشر یف لاکر فرماتے ہیں : کون ہے مجھ سے طلب کرنے والا میں اسکو عطاکروں اور کون ہے جو مجھ سے بخشش اور مغفرت چاہے میں اسکوبخش دوں۔ “ (عَنْ یَعْلَی بْنِ مَمْلَکٍ أَنَّہُ سَأَلَ أُمَّ سَلَمَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَنْ قِرَاءَ ۃِ رَسُول اللہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وَصَلاَتِہِ ، قَالَتْ مَا لَکُمْ وَصَلاَتِہِ کَانَ یُصَلِّی ثُمَّ یَنَامُ قَدْرَ مَا صَلَّی ثُمَّ یُصَلِّی قَدْرَ مَا نَامَ ثُمَّ یَنَامُ بِقَدْرِ مَا صَلَّی حَتَّی یُصْبِحَ ثُمَّ نَعَتَتْ لَہُ قِرَاءَ تَہُ فَإِذَا ہِیَ تَنْعَتُ قِرَاءَ ۃً مُفَسَّرَۃً حَرْفًا حَرْفًا .) (رواہ النسائی : باب التَّرْتِیلِ فِی الْقِرَاءَ ۃِ ) ” یعلی بن مملک نے حضرت ام سلمہ (رض) سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قراءت اور نماز کے بارے میں پوچھا تو ام سلمہ (رض) نے فرمایا کہ تمہیں آپ کی نماز سے کیا واسطہ۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھتے پھر اتنی دیر سوتے جتنی دیر آپ نے نماز پڑھی ہوتی، پھر اتنی دیر ہی نماز پڑھتے جتنی دیر آپ نے آرام کیا ہوتا اس طرح پھر اتنی دیر ہی آرام کرتے جتنی دیر آپ نے نماز پڑھی ہوتی یہاں تک کہ صبح ہوجاتی۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قراءت کے بارے میں فرماتی ہیں کہ آپ بہترین انداز میں، واضح اور حرف حرف کرکے قراءت کیا کرتے تھے۔ “ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) یَرْفَعُہُ قَالَ سُءِلَ أَیُّ الصَّلاَۃِ أَفْضَلُ بَعْدَ الْمَکْتُوبَۃِ وَأَیُّ الصِّیَامِ أَفْضَلُ بَعْدَ شَہْرِ رَمَضَانَ فَقَالَ أَفْضَلُ الصَّلاَۃِ بَعْدَ الصَّلاَۃِ الْمَکْتُوبَۃِ الصَّلاَۃُ فِی جَوْفِ اللَّیْلِ وَأَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ شَہْرِ رَمَضَانَ صِیَامُ شَہْرِ اللَّہِ الْمُحَرَّمِ ) (رواہ مسلم :، باب فَضْلِ صَوْمِ الْمُحَرَّمِ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے اور وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرفوعاً بیان کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ فرض نماز کے بعد کونسی نماز افضل ہے اور رمضان کے روزوں کے بعد کون سے روزے افضل ہیں۔ آپ نے فرمایا فرض نمازوں کے بعد افضل نماز آدھی رات کے وقت پڑھی جانے والی نماز ہے اور رمضان کے روزوں کے بعد افضل روزہ ماہ محرم کا روزہ ہے۔ “ آ پ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تہجد کی کیفیت : ” حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عشاء کی نماز کے بعد اور فجر سے پہلے گیارہ رکعت ادا کیا کرتے تھے ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے اور ایک وتر ادا کرتے۔ اس قدر لمباسجدہ کرتے کہ اس دورانیہ میں اگر تم میں سے کوئی پچاس آیات کی تلاوت کرنا چاہے تو کرسکتا۔ جب مؤذن فجر کی اذان کہتا اور صبح نمایاں ہوجاتی تو آپ مختصر دورکعتیں ادا کرتے اور پھر دائیں جانب چند لمحے لیٹ جاتے پھر مؤذن نماز کی اطلاع کرتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے تشریف لے جاتے۔ “ (رواہ البخاری : باب ایذان المؤذنین الائمۃ الصلٰوۃ) مسائل ١۔ اللہ کے نبی کو تہجد پڑھنے کا حکم تھا۔ ٢۔ تہجد کا افضل وقت آدھی رات کے بعد شروع ہوتا ہے۔ ٣۔ تہجد میں ٹھہر ٹھہر کر قرآن مجید کی تلاوت کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید میں تہجد کا تذکرہ : ١۔ نماز قائم کرو سورج کے ڈھلنے سے لیکر رات تک اور فجر کے وقت قرآن پڑھا کرو۔ (بنی اسرائیل : ٧٨) ٢۔ دن کے دونوں کناروں یعنی صبح شام اور رات کی گھڑیوں میں نماز پڑھا کرو۔ (ہود : ١١٤) ٣۔ سورج طلوع ہونے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے اللہ کی تسبیح بیان کرو۔ رات کے کچھ اوقات میں اور نماز کے بعد بھی۔ (ق : ٣٩۔ ٤٠) ٤۔ سورج نکلنے اور غروب ہونے سے پہلے اور رات کے اوقات میں اور دن کے اطراف میں تسبیح وتحمید بیان کیا کریں۔ (طٰہٰ : ١٣٠)
یایھا المزمل (1:73) قم ........(2:73) ” اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے کھڑے ہوجاؤ ........“ آسمانوں کی پکار ، اللہ اور کبیر اور متعال کا حکم ” تم “ کھڑے ہوجاؤ۔ اس عظیم کام کے لئے کھڑے ہوجاؤ جو ایک عرصہ سے تمہارے انتظار میں ہے۔ یہ ایک بھاری ذمہ داری ہے اور یہ تمہارے لئے ہے۔ اٹھو اور اس راہ میں جدوجہد کرو۔ ان تھک جدوجہد کرو ، اٹھو نیند اور آرام کا وقت اب گیا۔ تیاریاں کرو اس عظیم جدوجہد اور اس چومکھی لڑائی کے لئے ۔ یہ ایک عظیم حکم ہے ، ایک خوفناک حکم ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جاتا ہے کہ گرم ونرم بستر کو چھوڑ دو ۔ آرام دہ اور پر سکون گھر کو چھوڑ دو ۔ غرض اس حکم کے ذریعہ آپ کو ایک عظیم کشمکش اور عظیم جدوجہد کے سمندر میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اور پھر یہ کشمکش خشکیوں میں ، سمندروں اور انسانوں کی عملی زندگی میں اور انسانی ضمیر میں ہر جگہ برپا ہوتی ہے۔ جو شخص صرف اپنے لئے زندگی بسر کرتا ہے بعض اوقات وہ بڑی خوشگوار زندگی بسر کرتا ہے ، لیکن وہ نہایت صغیر و حقیر زندگی بسر کرتا ہے اور ایک معمولی انسان کی طرح مرتا ہے۔ بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جو بڑی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ لہٰذا ایسے بڑے آدمی کے لئے سونا ممکن ہی نہیں رہتا ، اسے آرام نصیب ہی نہیں ہوتا ، اسے گرم بستر کم ہی نصیب ہوتے ہیں ، اسے عیش و عشرت سے کوئی واسطہ ہی نہیں رہتا۔ اسے سازو سامان فراہم کرنے کی فرصت ہی نہیں رہتی۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حقیقت کو پالیا تھا ، اس لئے آپ نے حضرت خدیجہ (رض) سے فرمایا جبکہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مطمئن کررہی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ سو جائیں۔ ” خدیجہ ........ سونے کا زمانہ تو گیا “۔ ہاں وہ دور چلا گیا۔ اب تو جاگنے کا دور ہے ، مسلسل بیدار رہنے کا زمانہ ہے۔ اب تو جدوجہد ہے یا جہاد ہے۔ اور طویل مشقتیں ہیں۔ یایھا المزل (1)........ قلیلا (2) نصفہ ............ قلیلا (3) اوزد ........ .... ترتیلا (4) (73:1 تا 4) ” اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے ، رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم ، آدھی رات یا اس سے کچھ کم کرلو ، یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو ، اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو “۔ یہ ایک عظیم مہم کے لئے منجانب اللہ تربیت تھی اور اس تربیت میں ایسے ذرائع استعمال کیے گئے جن کی کامیابی کی ضمانت من جانب اللہ دی گئی تھی۔ قیام اللیل ، جس کی زیادہ سے زیادہ حد نصف رات یا دوتہائی رات سے کم یا ایک تہائی ہے۔ اس میں صرف ترتیل قرآن اور نماز ہوتی ہے۔ ترتیل قرآن کا مطلب ہے قرآن کو تجوید کے ساتھ قرآن کے اصولوں کے مطابق پڑھنا ، جلدی جلدی بھی نہ ہو اور محض گانے بجانے کا انداز بھی نہ ہو۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صحیح روایات وارد ہیں کہ آپ نے قیام اللیل کے دوران گیارہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھا تھا لیکن ان گیارہ رکعات میں رات کے دو تہائی حصے سے قدرے کم وقت گزارتے تھے اور آپ قرآن مجید کو خوب رک رک تجوید کے ساتھ پڑھتے تھے۔ امام احمد نے اپنی سند میں روایت کی ہے ، یحییٰ ابن سعید سے (یہابن عروبہ ہیں) انہوں نے قتادہ سے ، انہوں نے زرارہ ابن اوفی سے ، انہوں نے سعید ابن ہشام سے کہ وہ حضرت ابن عباس کے پاس آئے اور ان سے وتروں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک ایسے شخص کے بارے میں نہ بتاؤں جو تمام اہل زمین سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وتروں کے بارے میں زیادہ جانتا ہے ؟ فرمایا عائشہ (رض) کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو۔ اور پوچھ کر ان کا جو جواب ہو ، وہ مجھے بھی بتا دو ۔ سعید ابن ہشام کہتے ہیں۔ میں نے پوچھا : اے ام المومنین۔ مجھے بتائیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق کیسے تھے ؟ تو انہوں نے فرمایا : کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ میں نے کہا پڑھتا ہوں۔ انہوں نے کہا بس رسول اللہ کا اخلاق قرآن تھا۔ میں نے ارادہ کرلیا کہ میں اٹھ کھڑا ہوں۔ پھر مجھے خیال آیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قیام اللیل کے بارے میں پوچھوں تو میں نے کہا ام المومنین رسول اللہ قیام اللیل کس طرح فرماتے تھے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ کیا تم سورة المزمل نہیں پڑھتے ؟ میں نے کہا ہاں پڑھتا ہوں۔ اللہ نے اس سورت کے پہلے حصے میں قیام اللیل فرض فرمایا تھا۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھی ایک سال تک قیام اللیل پر عمل پیرا رہے۔ یہاں تک کہ ان کے پاؤں پھول گئے اور اللہ نے اس کا اختتام آسمانوں میں بارہ مہینے روکے رکھا۔ اس کے بعد اس سورت کے آخری حصے میں تخفیف نازل فرمائی ، اس کے بعد قیام اللیل نفلی ہوگیا جبکہ پہلے فرض تھا۔ میں نے پھر ارادہ کرلیا کہ اٹھ کر چلا جاؤں تو مجھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وتر کے بارے میں خیال آگیا۔ میں نے پوچھا ام المومنین مجھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وتر کے بارے میں بتائیں۔ آپ نے فرمایا کہ ہم آپ کے لئے مسواک اور وضو کا پانی تیار کرتے تھے۔ تو اللہ رات کو آپ کو اٹھاتا تھا ، جس وقت اللہ اٹھانا چاہتا۔ آپ پہلے مسواک کرتے ، پھر وضو فرماتے ، پھر آپ آٹھ رکعات پڑھتے اور ان میں نہ بیٹھتے ، صرف آٹھویں رکعت کے بعد بیٹھتے۔ آپ بیٹھ کر اللہ کو یاد کرتے ، دعا کرتے ، پھر سلام پھیرے بغیر آٹھویں رکعت کے بعد اٹھتے تاکہ نویں رکعت پڑھیں۔ پھر بیٹھتے اور اللہ وحدہ کو یاد کرتے ، پھر دعا کرتے اور پھر سلام پھیرتے اور ہم سلام پھیرنے کی آواز سنتے۔ اس کے بعد آپ بیٹھ کر دو رکعات پڑھتے۔ یہ سلام پھیرنے کے بعد پڑھنے بیٹھتے۔ یہ گیارہ رکعات ہوگئے۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معمر ہوگئے اور آپ کا جسم مبارک بھاری ہوگیا تو ساتویں رکعت وتر ہوتی۔ پھر ساتویں کے بعد دو رکعات بیٹھ کر پڑھتے۔ اس طرح نوررکعتیں ہوتی ہیں۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ عادت تھی کہ آپ جو نماز پڑھتے تو اس بات کو پسند کرتے تھے کہ اس پر مداومت کریں اور جب کبھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جاگ نہ سکتے ، یا کسی درد یا بیماری کی وجہ سے رات کو نہ اٹھتے تو دن کو بارہ رکعات ادا فرماتے۔ اور مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ رسول خدا نے ایک ہی رات میں تمام قرآن مجید کو پڑھ کر ختم کیا اور یہ بھی میرے علم میں نہیں ہے کہ ماسوائے رمضان کے آپ نے کبھی پورے مہینے کے روزے رکھے ہوں۔ (امام مسلم نے بھی اسے قتادہ سے روایت کیا ہے ، دیکھئے ، زادالمعاد ، ابن قیم مفصلا) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ تربیت اس لئے کی جارہی تھی کہ ایک بھاری ذمہ داری آپ کے سپرد کی جانے والی تھی۔
رات کے اوقات میں قیام کرنے اور قرآن کریم ترتیل سے پڑھنے کا حكم، سب سے کٹ کر اللہ ہی کی طرف متوجہ رہنے کا فرمان یہ سورت مکی ہے اگرچہ بعض حضرات نے بعض آیات کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا ہے اور مدنی بتایا ہے لفظ مزمل زا اور میم کی تشدید کے ساتھ ہے اصل میں متزمل تھا تا کو زا سے بدل دیا گیا اور زا کا زا میں ادغام کردیا گیا لہٰذا ﴿مزمل﴾ ہوگیا جیسے ﴿متطہر﴾ سے ﴿مطہر﴾ بن گیا۔ ﴿ ٰۤاَيُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ٠٠١﴾ کا ترجمہ ہے اے کپڑوں میں لپٹنے والے۔ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ مشرکین کی طرف سے آپ کو کوئی رنجیدہ کرنے والی بات پہنچی تھی جو آپ کو بہت ناگوار گزری، آپ کپڑا اوڑھ کر لیٹ گئے جیسے غمگین آدمی کیا کرتا ہے اللہ تعالیٰ شانہ نے آپ کو خطاب فرمایا کہ ” اے کپڑا اوڑھنے والے، ، (تفسیر قرطبی، صفحہ ٣٢: ج ١٩) یہ خطاب ملاطفت کی وجہ سے تھا جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو اسی ملاطفت کے لیے قم یا ابا تراب (صحیح بخاری صفحہ ٦٢: ج ١) فرما کر اور حضرت حذیفہ (رض) کو قم یانومان فرما کر جگایا تھا۔ مشرکین نے آپ کے حق میں کوئی نامناسب لقب تجویز کیا تھا اس سے آپ کو رنج پہنچا۔ اللہ تعالیٰ نے ﴿ يٰۤاَيُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ٠٠١﴾ سے خطاب فرما کر اس کا ازالہ فرما دیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم فرمایا کہ رات کو اٹھ کر نماز تہجد پڑھا کریں اور یوں فرمایا۔
2:۔ ” یا ایہا المزمل “ اصل میں ” المتزمل “ تھا۔ فاء تفعل کی جگہ زاء آگئی اس لیے تاء کو زاء سے بدل کر زاء میں ادغام کردیا گیا۔ ” المزمل “ کپڑوں کو اپنے اوپر خوب لپیٹنے والا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کپڑے لپیٹ کر رات کو سو رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اسی ہیئت سے خطاب فرما کر قیام اللیل کا حکم دیا۔ کان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نائما باللیل متزملا فی ثیابہ فامر بالقیام للصلوۃ الخ (مدارک) ۔ حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت عائشہ (رض) کے زندیک پہلے قیام اللیل سب پر فرض تھا اس کے بعد اس کی فرضیت منسوخ کردی گئی اور بعض علماء کے نزدیک شروع ہی سے حکم استحبابی تھا البتہ بعد میں اس میں مزید تخفیف کردی گئی۔