Surat ul Muzammil

Surah: 73

Verse: 10

سورة المزمل

وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ وَ اہۡجُرۡہُمۡ ہَجۡرًا جَمِیۡلًا ﴿۱۰﴾

And be patient over what they say and avoid them with gracious avoidance.

اور جو کچھ وہ کہیں تو سہتا رہ اور وضعداری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ رہ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Command to be Patient with the Harms of the Disbelievers and a Discussion of what They will receive because of it Allah says, وَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيلًا And be patient with what they say, and keep away from them in a good. Allah commands His Messenger to be patient with what the foolish who reject him among his people say. Allah also commands him to keep away from them in a nice way. This means in a way that is not blameworthy. Then Allah says to him, as a threat and a warning to his people - and He (Allah) is the Most Great, Whose anger nothing can stand before,

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حوصلہ افزائی اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی کو کفار کی طعن آمیز باتوں پر صبر کرنے کی ہدایت کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ان کے حال پر بغیر ڈانٹ ڈپٹ کے ہی چھوڑ دے ، میں خد ان سے نمٹ لوں گا ۔ میرے غضب اور غصے کے وقت دیکھ لوں گا کہ کیسے یہ لوگ نجات پاتے ہیں ۔ ہاں ان کے مالدار خوش حال لوگوں کو جو بےفکر ہیں اور تجھے ستانے کے لئے باتیں بنا رہے ہیں جن پر دوہرے حقوق ہیں مال کے اور جان کے اور یہ ان میں سے ایک بھی ادا نہیں کرتے تو ان سے بےتعلق ہو جا پھر دیکھ کہ میں ان کے ساتھ کیا کرتا ہوں تھوڑی دیر دنیا میں تو چاہے یہ فائدہ اٹھا لیں گے مگر انجام کار عذابوں میں پھنسیں گے اور عذاب بھی کونسے؟ سخت قید و بند کے ، بدترین بھڑکتی ہوئی نہ بجھنے والی اور نہ کم ہونے والی آگ کے اور ایسا کھانا جو حلق میں جا کر اٹک جائے نہ نگل سکیں نہ اگل سکیں اور بھی طرح طرح کے المناک عذاب ہوں گے ، پھر وہ وقت بھی ہو گاجب زمینوں میں اور پہاڑوں پر زلزلہ طاری ہو گا سخت اور بڑی چٹانوں والے پہاڑ آپس میں ٹکرا ٹکرا کر چور چور ہو گئے ہوں گے جیسے بھربھری ریت کے بکھرے ہوئے ذرے ہوں جنہیں ہوا ادھر سے ادھر لے جائے گی اور نام و نشان تک مٹا دے گی اور زمین ایک چٹیل صاف میدان کی طرح رہ جائے گی جس میں کہیں اونچ نیچ نظر نہ آئے گی ، پھر فرماتا ہے اے لوگو اور خصوصاً اے کافرو ہم نے تم پر گواہی دینے والا اپنا سچا رسول تم میں بھیج دیا ہے جیسے کہ فرعون کے پاس بھی ہم نے اپنے احکام کے پہنچا دینے کے لئے اپنے ایک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تھا ، اس نے جب اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ مانی تو تم جانتے ہو کہ ہم نے اسے بری طرح برباد کیا اور سختی سے پکڑ لیا ، اسی طرح یاد رکھو اگر اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تم نے بھی نہ مانی تو تمہاری خیر نہیں اللہ کے عذاب تم پر بھی اتر آئیں گے اور نیست و نابود کر دیئے جاؤ گے کیونکہ یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم رسولوں کے سردار ہیں ان کے جھٹلانے کا وبال بھی اور وبالوں سے بڑا ہے ۔ اس کے بعد کی آیت کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ اگر تم نے کفر کیا تو بتاؤ تو سہی کہ اس دن کے عذابوں سے کیسے نجات حاصل کرو گے؟ جس دن کی ہیبت خوف اور ڈربچوں کو بوڑھا کر دے گا اور دوسرے معنی یہ کہ اگر تم نے اتنے بڑے ہولناک دن کا بھی کفر کیا اور اس کے بھی منکر رہے تو تمہیں تقویٰ اور اللہ کا ڈر کیسے حاصل ہو گا ؟ گو یہ دونوں معنی یہ کہ اگر تم نے اتنے بڑے ہولناک دن کا بھی کفر کیا اور اس کے بھی منکر رہے تو تمہیں تقویٰ اور اللہ کا ڈر کیسے حاصل ہو گا ؟ گو یہ دونوں معنی نہایت عمدہ ہیں لیکن اول اولیٰ ہیں واللہ اعلم ۔ طبرانی میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا یہ قیامت کا دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام سے فرمائے گا اٹھو اور اپنی اولاد میں سے دوزخیوں کو الگ الگ کردہ پوچھیں گے اے اللہ کتنی تعداد میں سے کتنے؟ حکم ہو گا ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے یہ سنتے ہی مسلمانوں کے تو ہوش اڑ گئے اور گھبرا گئے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے چہرے دیکھ کر سمجھ گئے اور بطور تشفی کے فرمایا سنو بنو آدم بہت سے ہیں یاجوج ماجوج بھی اولاد آدم میں سے ہیں جن میں سے ہر ایک نسلی تسلسل میں خاص اپنی صلبی اولاد ایک ایک ہزار چھوڑ کر جاتا ہے پس ان میں اور ان حبشیوں میں مل کر دوزخمیوں کی یہ تعداد ہو جائے گی اور جنت تمہارے لئے اور تم جنت کے لئے ہو جاؤ گے ، یہ حدیث غریب ہے اور سورہ حج کی تفسیر کے شروع میں اس جیسی احادیث کا تذکرہ گذر چکا ہے اس دن کی ہیبت اور دہشت کے مارے آسمان بھی پھٹ جائے گا ، بعض نے ضمیر کا مرجع اللہ کی طرف کیا ہے لیکن یہ قوی نہیں اس لئے کہ یہاں ذکر ہی نہیں ، اس دن کا وعدہ یقینا سچ ہے اور ہو کر ہی رہے گا اس دن کے آنے میں کوئی شک نہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١] اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان سے قطع تعلق کر لیجیے۔ بلکہ یہ ہے کہ جہاں تک ان کے طعن وتشنیع، طنز و تمسخر اور تلخ کلامی کا تعلق ہے۔ تو ان کی یہ باتیں برداشت کیجئے اور انہیں کچھ جواب نہ دیجئے اور جہاں تک ان کی ہدایت اور خیر خواہی کا تعلق ہے تو ایسا کوئی موقع آپ کو فروگذاشت نہ کرنا چاہیے۔ بلکہ ایسے موقع کی جستجو میں رہنا چاہئے اور ہر وقت ان کا بھلا ہی سوچنا چاہیے۔ اور انہیں اللہ کی طرف دعوت دیتے رہنا چاہیے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

واصبر علی مایقولون…: یعنی ایک اللہ کو اپنا سہارا بنانے، ان کے معبودوں کو یکسر چھوڑنے اور اس عمل کی دعوت و تبلیغ پر یہ آپ کو جو کچھ بھی کہیں آپ صبر کریں، خواہ یہ آپ کو جھوٹا کہیں یا دیوانہ یا کاہن یا شاعر ، یا محمد کے بجائے مذمم کہیں، غرض کچھ بھی کہیں یا جو بھی بہتان باندھیں آپ صبر کریں، انتقا کے چکر میں نہ پڑیں، نہ ا ن کی بدسلوکی کا شکوہ کریں۔ خوبصورت طریقے سے الگ ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ لڑ جھگڑ کر اور بدزبانی کر کے نہیں بلکہ نہایت حسن سلوک، صبر اور شرافت کے ساتھ ان سے کنارہ کش ہوجائیں۔ تیسری یہ کہ ظاہری کنارہ کشی کے باوجود ان کی خیر خواہی و ہمدردی اور ہدایت و رہنمائی میں کسی قسم کی کمی نہ کریں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَاصْبِرْ عَلٰي مَا يَقُوْلُوْنَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيْلًا (And bear patiently what they say, and part with them in a beautiful manner...73:10). According to Imam Karkhi (رح) تعالیٰ ، this is the sixth injunction given to the Holy Prophet that he should bear with patience and fortitude the jibes, opposition and persecution of his enemies. Perfect patience is the supreme station of suluk (methodical travelling along the spiritual path). Spiritual reformers expend their entire strength, energy and life in reforming the deviant people. In return, they have to hear vile language, they are persecuted and wronged in many different ways. In return, they exercise sabr (patience) in a beautiful manner. In other words, they do not even entertain the thought of revenge. This is the supreme station, which in Sufi terminology, is attained only after fana& kamil: &complete negation of selfish desires&. وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيْلًا and part with them in a beautiful manner...73:10). The word hajr, literally, denotes &to give up something in a state of grief, anger and temper&. The verse means that rejecters of Truth utter words that hurt. He should not take revenge, but maintain no relations with them either. At the time of severing relations, it is natural for man to utter words of complaint and disgust. Therefore, Allah&s Messenger is told to cut off relations with the rejecters of Truth, but he must maintain his dignity and integrity. Hence, the verse contains the grammatically restricted cognate accusative, hajran jamilan, &in a beautiful manner&. The high status and the exalted standard of character require that the Holy Prophet should restrain himself from making any abusive remarks at the deniers of Truth. Some scholars of Tafsir say that the injunction of this verse is repealed by verses of jihad which were revealed later on. But a careful analysis indicates that the injunction is not repealed. The above verses enjoin patience and steadfastness in the face of what the enemies say and cutting off from them courteously. This is not in conflict with verses that deal with reproof, punishment and armed struggle that were revealed subsequently. The injunction of this verse is applicable at all times and under all circumstances, whereas jihad is reproof and punishment, and is a specific injunction to be applied under specific conditions. Islamic jihad and armed struggle is not a matter of taking revenge or expression of anger, which could be in conflict with patience and fortitude or courteous severance. It is purely acting on the Divine command as is patience and courteous severance under general circumstances. Up to this point the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was commanded to be steadfast and to abstain from revenge. The next verse, reprimands the deniers of Truth that instead of being grateful to Allah for |"ease and plenty|" provided for them, they reject the Divine Message:

(آیت) وَاصْبِرْ عَلٰي مَا يَقُوْلُوْنَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيْلًا، بقول امام کرخی یہ چھٹا حکم ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا گیا ہے یعنی لوگوں کی ایذاؤں اور گالیوں پر صبر جمیل، یہ مقامات سلوک میں سب سے اعلیٰ مقام ہے کہ دشمنوں کی جفا و ایذا پر صبر کیا جائے یعنی یہ حضرات جن لوگوں کی خیر خواہی اور ہمدردی میں اپنی ساری قوت و توانائی اور ساری عمر خرچ کرتے ہیں انہیں کی طرف سے اس کی جزاء میں گالیاں، ایذائیں، طرح طرح کے جور و ستم ان کے مقابلے میں آتے ہیں ان پر صبر جمیل کرنا یعنی انتقام کا ارادہ بھی نہ کرنا یہ وہ اعلیٰ مقام ہے جو اصطلاح صوفیہ میں فناء کامل کے بغیر نصیب نہیں ہوتا۔ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيْلًا ہجر بفتح الہاء کے لفظی معنے کسی چیز کو رنج و ملال و بیزاری کیساتھ چھوڑنے کے آتے ہیں۔ معنے یہ ہوئے کہ تکذیب کرنے والے کفار جو کچھ آپ کو ایذا کے کلمات کہتے ہیں آپ اس کا انتقام تو ان سے نہ لیں مگر ان سے تعلقات بھی نہ رکھیں۔ مگر ترک تعلق کے وقت انسان کی طبعی عادت یہ ہے کہ جس سے تعلق چھوڑا جائے اس کا شکوہ شکایت اور اس کو برا بھلا کہتا ہے اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار کے ہجر یعنی ترک تعلق کا جو حکم دیا گیا تو ساتھ ہجراً جمیلا کی قید لگا دی گئی کہ آپ کے منصب عالی اور خلق عظیم کا تقاضا یہ ہے کہ جن کفار سے ترک تعلق کریں زبان بھی ان کو برا کہنے سے محفوظ رکھیں۔ بعض حضرات مفسرین نے فرمایا ہے کہ آیات جہاد و قتال جو بعد میں نازل ہوئیں ان سے اس آیت کا حکم منسوخ ہوگیا، لیکن غور کیا جائے تو منسوخ کہنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ آیات مذکورہ میں کفار کی ایذاؤں پر صبر اور ہجر کی تلقین ہے یہ زجر اور سزا و قتال کے منافی نہیں، اس آیت کا حکم ہر وقت ہر حال میں ہی اور قتال و جہاد میں جو زجر و سزا ہے اس کا حکم خاص خاص اوقات میں ہے اور اسلامی قتال و جہاد درحقیقت کوئی اتنقام یا اپنا غصہ نکالنا نہیں، جو صبر اور ہجر جمیل کے منافی ہو بلکہ خلاص حکم خداوندی کی تعمیل ہے جسطرح صبر اور ہجر جمیل عام حالات میں اس کی تعمیل ہے یہاں تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار کی ایذاؤں پر صبر اور ترک انتقام کی تلقین تھی آگے آپ کی تسلی کے لئے ان کفار پر جو عتاب آخرت میں آنے والا ہے اس کا بیان ہے مقصد یہ ہے ان کی چند روزہ چیرہ دستی اور ظلم و جور سے آپ ملول نہ ہوں ان کو تو اللہ تعالیٰ سخت عذاب میں پکڑنے والا ہے ہاں حکمت ربانی کے تقاضے سے کچھ مہلت دے رکھی ہی اس میں آپ جلدی کی فکر نہ فرما دیں

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاصْبِرْ عَلٰي مَا يَقُوْلُوْنَ وَاہْجُرْہُمْ ہَجْرًا جَمِيْلًا۝ ١٠ صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں هجر الهَجْرُ والهِجْرَان : مفارقة الإنسان غيره، إمّا بالبدن، أو باللّسان، أو بالقلب . قال تعالی: وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء/ 34] كناية عن عدم قربهنّ ، وقوله تعالی: إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان/ 30] فهذا هَجْر بالقلب، أو بالقلب واللّسان . وقوله : وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل/ 10] يحتمل الثلاثة، ومدعوّ إلى أن يتحرّى أيّ الثلاثة إن أمكنه مع تحرّي المجاملة، وکذا قوله تعالی: وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم/ 46] ، وقوله تعالی: وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر/ 5] ، فحثّ علی المفارقة بالوجوه كلّها . والمُهاجرَةُ في الأصل : مصارمة الغیر ومتارکته، من قوله عزّ وجلّ : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال/ 74] ، وقوله : لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر/ 8] ، وقوله : وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء/ 100] ، فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء/ 89] فالظاهر منه الخروج من دار الکفر إلى دار الإيمان کمن هاجر من مكّة إلى المدینة، وقیل : مقتضی ذلك هجران الشّهوات والأخلاق الذّميمة والخطایا وترکها ورفضها، وقوله : إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت/ 26] أي : تارک لقومي وذاهب إليه . وقوله : أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء/ 97] ، وکذا المجاهدة تقتضي مع العدی مجاهدة النّفس کما روي في الخبر : «رجعتم من الجهاد الأصغر إلى الجهاد الأكبر» وهو مجاهدة النّفس . وروي : (هاجروا ولا تهجّروا) أي : کونوا من المهاجرین، ولا تتشبّهوا بهم في القول دون الفعل، والهُجْرُ : الکلام القبیح المهجور لقبحه . وفي الحدیث : «ولا تقولوا هُجْراً» وأَهْجَرَ فلان : إذا أتى بهجر من الکلام عن قصد، ( ھ ج ر ) الھجر والھجران کے معنی ایک انسان کے دوسرے سے جدا ہونے کے ہیں عام اس سے کہ یہ جدائی بدنی ہو یا زبان سے ہو یا دل سے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء/ 34] پھر ان کے ساتھ سونا ترک کر دو ۔ میں مفا رقت بدنی مراد ہے اور کنایتا ان سے مجامعت ترک کردینے کا حکم دیا ہے اور آیت : ۔ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان/ 30] کہ میری قوم نے اس قران کو چھوڑ رکھا تھا ۔ میں دل یا دل اور زبان دونوں کے ذریعہ جدا ہونا مراد ہے یعنی نہ تو انہوں نے اس کی تلاوت کی اور نہ ہی اس کی تعلیمات کی طرف دھیان دیا اور آیت : ۔ وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل/ 10] اور وضع داری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ رہو ۔ میں تینوں طرح الگ رہنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی جملا کی قید لگا کر اس طرف اشارہ کردیا ہے کہ حسن سلوک اور مجاملت کیس صورت میں بھی ترک نہ ہونے پائے ۔ اس طرح آیت وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم/ 46] اور تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہوجا ۔ میں بھی ترک بوجوہ ثلا ثہ مراد ہے اور آیت : ۔ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر/ 5] اور ناپاکی سے دور رہو ۔ میں بھی ہر لحاظ سے رجز کو ترک کردینے کی ترغیب ہے ۔ المھاجر رۃ کے اصل معنی تو ایک دوسرے سے کٹ جانے اور چھوڑ دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال/ 74] خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور ۃ کفار سے ) جنگ کرتے رہے ۔ اور آیات قرآنیہ : ۔ لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر/ 8] فے کے مال میں محتاج مہاجرین کا ( بھی ) حق ہے ۔ جو کافروں کے ظلم سے ) اپنے گھر اور مال سے بید خل کردیئے گئے ۔ وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء/ 100] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے ۔ فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء/ 89] تو جب تک یہ لوگ خدا کی راہ میں ( یعنی خدا کے لئے ) ہجرت نہ کر آئیں ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست نہ بنانا ۔ میں مہاجرت کے ظاہر معنی تو دار الکفر سے نکل کر وادلاسلام کی طرف چلے آنے کے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن بعض نے کہا ہے کہ ہجرت کا حقیقی اقتضاء یہ ہے کہ انسان شہوات نفسانی اخلاق ذمیمہ اور دیگر گناہوں کو کلیۃ تر ک کردے اور آیت : ۔ إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت/ 26] اور ابراہیم نے کہا کہ میں تو دیس چھوڑ کر اپنے پروردگاع کی طرف ( جہاں کہیں اس کو منظور ہوگا نکل جاؤ نگا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی قوم کو خیر باد کہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف چلا جاؤں گا ۔ اور فرمایا : ۔ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء/ 97] کیا اللہ تعالیٰ کی ( اتنی لمبی چوڑی ) زمین اس قدر گنجائش نہیں رکھتی تھی کہ تم اس میں کسی طرف کو ہجرت کر کے چلے جاتے ۔ ہاں جس طرح ظاہری ہجرت کا قتضا یہ ہے کہ انسان خواہشات نفسانی کو خیر باد کہہ دے اسی طرح دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے میں بھی مجاہدۃ بالنفس کے معنی پائے جاتے ہیں چناچہ ایک حدیث میں مروی ہے آنحضرت نے ایک جہاد سے واپسی کے موقع پر صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ۔ کہ تم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کیطرف لوٹ رہے ہو یعنی دشمن کے ساتھ جہاد کے بعد اب نفس کے ساتھ جہاد کرنا ہے، وفي الحدیث : «ولا تقولوا هُجْراً» جمیل الجَمَال : الحسن الکثير، وذلک ضربان : أحدهما : جمال يخصّ الإنسان في نفسه أو بدنه أو فعله . والثاني : ما يوصل منه إلى غيره . وعلی هذا الوجه ما روي عنه صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ اللہ جمیل يحبّ الجمال» «2» تنبيها أنّه منه تفیض الخیرات الکثيرة، فيحبّ من يختص بذلک . وقال تعالی: وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ [ النحل/ 6] ، ويقال : جَمِيلٌ وجَمَال علی التکثير . قال اللہ تعالی: فَصَبْرٌ جَمِيلٌ [يوسف/ 83] ( ج م ل ) الجمال کے معنی حسن کثیر کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے ۔ (1) وہ خوبی جو خاص طور پر بدن یا نفس یا عمل میں پائی جاتی ہے ۔ (2) وہ خوبی جو دوسرے تک پہنچنے کا ذریعہ بنتی ہے اسی معنی میں مروی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا (66) ان اللہ جمیل يحب الجمال ۔ کہ اللہ جمیل ہے اور جمال کو محبوب رکھتا ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے خیرات کثیرہ کا فیضان ہوتا ہے لہذا جو اس صفت کے ساتھ متصف ہوگا ۔ وہی اللہ تعالیٰ کو محبوب ہوگا ۔ اور قرآن میں ہے :۔ وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ [ النحل/ 6] اور جب شام کو انہیں جنگل سے لاتے ہو ۔۔ تو ان سے تمہاری عزت و شان ہے ۔ اور جمیل و جمال وجمال مبالغہ کے صیغے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ [يوسف/ 83] اچھا صلہ ( کہ وہی ) خوب ( ہے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠۔ ١١) اور کافروں کی سب و شتم اور جھٹلانے پر صبر کرو اور ان سے بغیر جھگڑے کے خوبی کے ساتھ علیحدہ ہوجاؤ اور مجھے اور اس قرآن حکیم کو جھٹلانے والوں کو مال و دولت میں رہنے والوں کو چھوڑ اور ان کو غزوہ بدر تک اور مہلت دو ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠{ وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ } ” اور جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں اس پر صبر کیجیے “ { وَاہْجُرْہُمْ ہَجْرًا جَمِیْلًا ۔ } ” اور ان کو چھوڑ دیجیے بڑی خوبصورتی سے کنارہ کشی کرتے ہوئے ۔ “ یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے شاعر ‘ جادوگر اور مجنون جیسے نام رکھتے ہیں۔ یہ صورت حال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بلاشبہ نہایت تکلیف دہ ہے ‘ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کی باتوں پر صبر کریں اور خوبصورت انداز میں ان کو چھوڑ کر الگ ہوجائیں۔ سورة الفرقان میں اللہ کے نیک بندوں کی ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے : { وَاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا ۔ } کہ جب جاہل لوگ ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہ ان کو سلام کر کے گزر جاتے ہیں۔ دعوت و تبلیغ کے مشن کو جاری رکھنے کے لیے اس حکمت عملی کو اپنانا بہت ضروری ہے۔ ظاہر ہے انسان کے حالات ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے ۔ ہوسکتا ہے آج جن لوگوں کو آپ کی دعوت سے چڑ ہے کل انہیں آپ کی یہی باتیں اچھی لگنے لگیں۔ اس لیے لوگوں سے دوبارہ بات کرنے کا راستہ کھلا رکھنا ضروری ہے۔ یہ آیات نبوت کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھیں ۔ اگلے بارہ سال کے دوران مکہ کے حالات نے ابھی کئی نشیب و فراز دیکھنے تھے ۔ اس لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت دی جا رہی ہے کہ اہل مکہ کی اوچھی حرکتوں کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو نظرانداز تو کریں ‘ لیکن تعلقات میں اس قدر تلخی نہ آنے دیں کہ دوبارہ انہیں دعوت دینا ممکن نہ رہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

11 "Depart from them" does not mean "Break off all ties with them and stop preaching to them", but it means; "Do not have intimate and friendly relations with them: disregard their foolish behaviour and their nonsense." However, you should do so without showing any grief, anger or temper but gracefully like a noble person, who would disregard the abusive remarks of a mean person without minding them at all. This should not create the misunderstanding that the Holy Prophet's conduct was any different from it; therefore, Allah gave him this instruction. As a matter of fact, the Holy Prophet (upon whom be peace) was already following this very mode of conduct; this instruction was given in the Qur'an so as to tell the disbelievers: "It is not due to any weakness on the part of the Prophet that he is not responding to what you are saying against him, but Allah Himself has taught His Messenger to adopt this noble way of conduct in response to your foolish behaviour. "

سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :11 الگ ہو جاؤ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان سے مقاطعہ کر کے اپنی تبلیغ بند کر دو ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے منہ نہ لگو ، ان کی بیہودگیوں کو بالکل نظر انداز کر دو ، اور انکی کسی بد تمیزی کا جواب نہ دو ۔ پھر یہ احتراز بھی کسی غم اور غصے اور جھنجھلاہٹ کے ساتھ نہ ہو ، بلکہ اس طرح کا احتراز ہو جس طرح ایک شریف آدمی کسی بازاری آدمی کی گالی سن کر اسے نظر انداز کر دیتا ہے اور دل پر میل تک نہیں آنے دیتا ۔ اس سے یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل کچھ اس سے مختلف تھا اس لیے اللہ تعالی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت فرمائی ۔ اصل میں تو آپ پہلے ہی سے اسی طریقے پر عمل فرما رہے تھے ، لیکن قرآن میں یہ ہدایت اس لیے دی گئی کہ کفار کو بتا دیا جائے کہ تم جو حرکتیں کر رہے ہو ان کا جواب نہ دینے کی وجہ کمزوری نہیں ہے بلکہ اللہ نے ایسی باتوں کے جواب میں اپنے رسول کو یہی شریفانہ طریقہ اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

7: مکی زندگی میں ہمیشہ حکم یہی دیا گیا ہے کہ کافروں کی تکلیف دہ باتوں پر صبرو کرو، اور ان سے لڑائی ٹھاننے کے بجائے خوبصورتی سے علیحدگی اِختیار کرلو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠۔ ١٨۔ اوپر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو یہ ہدایت فرمائی تھی کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے تم اپنے سب کام اللہ کو سونپ دو اللہ تمہارے سب کاموں کے سر انجام کے لئے کافی ہے۔ اس ہدایت کے پورا کرنے کے لئے فرمایا یہ لوگ جو اپنے مال و متاع کے غرور میں تم کو برا بھلا کہتے ہیں اور اللہ کے کلام کو جھٹلاتے ہیں تم اس کا کچھ خیال نہ کرو اور تھوڑے دنوں کے لئے ان لوگوں کو اللہ کے انتقام پر چھوڑ دو ۔ اللہ ان سے خود سمجھ لے گا۔ اللہ سچا ہے اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ ان آیتوں کے نازل ہونے کے تھوڑے عرصہ کے بعد بدر کی لڑائی پیش آئی جس میں بڑے بڑے سرکش ستر آدمی مشرکین مکہ میں قتل ہوگئے۔ اب آگے اللہ تعالیٰ نے قریش کو دو طرح سے ڈرایا۔ ایک فرعون کا قصہ یاد دلایا کہ اگر ان لوگوں کی بھی فرعون کی سی سرکشی رہی تو وہی نتیجہ ان کا ہوگا جو فرعون اور ان کو کون بچائے گا جس عذاب کو تفصیل سے اگر کسی لڑکے کے رو برو بیان کیا جائے تو وہ لڑکا بڈھے شخص کی طرح بدحواس ہوجائے پھر فرمایا کہ یہ لوگ قیامت کے حال کو قصہ کہانی کی طرح سن کر اڑا دیتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کا آنا ایسی یقینی ہے کہ اس میں کسی صاحب عقل آدمی کو شک و شبہ کا موقع نہیں ہے کیونکہ دنیا کا پیدا کرنا جو سب کی آنکھوں کے سامنے ہے بغیر نیک و بد کی جزا و سزا کے بےٹھکانے رہتا ہے پھر جب ان کے معمولی عقل کے آدمی اس طرح کے بےٹھکانے کام سے گھبراتے ہیں تو پھر اللہ کے ذمہ یہ بےٹھکانے کام کیوں کر جائز رکھے جاتے ہیں۔ نعمت کا لفظ خلقت کے لفظ کی طرح نون کے زبر سے مال داری کے معنی میں ہے اور نون کے زیر سے خدمت کے لفظ کی طرح ہو تو انعام اور اکرام کے معنی میں ہے انکال کے معنی قیدیوں کے پیروں کی بیڑیاں ‘ جحیم کے معنی دہکتی آگ ‘ جو چیز گلے میں پھنس کر نہ اگلی جائے اور نہ نگلی جائے اس کو غصہ کہتے ہیں یہ زلزلہ اور پہاڑوں کا ریت ہو کر زمین پر مل جانا اور فرشتوں کے زمین پر آنے کے لئے آسمان میں دروازوں کا ہوجانا یہ دوسرے صور کے وقت کا حال ہے جس کی تفصیل کئی جگہ گزر چکی ہے اور عم یتساء لون کے پارہ میں بھی یہی تفصیل آئے گی۔ وبیل کے معنی سخت اور شدید۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(73:10) واصبر علی ما یقولون واؤ عاطفہ ہے ما موصولہ ہے۔ یقولون مضارع جمع مذکر غائب صلہ۔ اپنے موصول کا۔ مطلب یہ ہے کہ جو یہ کافر خرافات بکتے ہیں۔ تم کو شاعر۔ کاہن۔ ساحر۔ مجنون وغیرہ کہتے ہیں تم اس پر صبر کرو۔ واھجرہم ھجرا جمیلا واؤ عاطفہ اھجر فعل امر واحد مذکر حاضر۔ ھجر باب نصر مصدر۔ بمعنی چھوڑ دینا۔ دور رہنا۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ جمیل بروزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ ہے ۔ بمعنی بہتر۔ خوب تر۔ عمدہ۔ مطلب یہ کہ ان سے عمدگی کے ساتھ کنارہ کش ہوجاؤ۔ اور ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کردو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ الگ ہونا یہ کہ کوئی تعلق نہ رکھو، اور خوبصورتی سے یہ کہ ان کی شکایت و انتقام کی فکر میں نہ پڑو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اگر یہ روایت صحیح ہو کہ اس سورت کی ابتدائی آیات آغاز بعثت میں نازل ہوئیں تو پھر یہ دوسرا حصہ یقینا قدرے بعد کے زمانے میں نازل ہوا ، جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علانیہ دعوت کا آغاز کردیا تھا اور مکذبین اور تحریک کے کارکنوں پر دست درازیاں کرنے والے میدان میں آگئے تھے اور یہ لوگ رسول اللہ اور اہل اسلام کے ساتھ سخت رویہ اختیار کیے ہوئے تھے۔ اور اگر دوسری روایت ہو تو پھر پہلا حصہ بھی اس وقت نازل ہوا جب حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشرکین اور مکذبین نے دیکھ دینا شروع کردیا اور یہ لوگ دعوت اسلامی کا راستہ روکنے کے لئے سرگرم تھے۔ بہرحال جو صورت بھی ہو ، قیام اللیل اور ذکر وفکر کے ساتھ صبر کی تلقین کرنا (اور یہ دونوں باتیں بالعموم جمع ہوتی ہیں) تحریک اسلامی کے لئے ایک بہترین زادراہ ہے۔ اور اس راہ کی مشکلات کو صرف انہی ہتھیاروں اور تدابیر کے ذریعے برداشت کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ یہ راہ بہت طویل اور صبر آزما ہے۔ خواہ انسانی افکار کے میدان کی کشمکش ہو یا میدان جنگ کی ضرب وحرب ہو۔ دونوں مشکل کام ہیں۔ دونوں میں صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ واصبر ................ یقولون (73:10) ” جو باتیں لوگ بنا رہے ہیں ان پر صبر کرو “۔ کیونکہ یہ لوگ اشتعال انگیز کاروائیاں کرتے تھے اور ناقابل برداشت حد تک ہٹ دھرمی کرتے تھے۔ واھجر ............ جمیلا (73:10) ” اور شرافت کے ساتھ ان سے الگ ہوجاؤ “۔ نہ کوئی عتاب ہو اور نہ آپ ان پر غصہ ہوں ، نہ بائیکاٹ ہو اور نہ دشمنی ہو۔ یہ تھا منصوبہ دعوت اسلامی کا پوری مکی زندگی میں۔ خصوصاً مکہ کے ابتدائی زمانے میں۔ محض قلب وضمیر اور دل و دماغ کو اپیل کی جاتی تھی۔ نہایت نرمی سے تبلیغ کی جانی تھی اور صرف کھول کھول کر حقائق بیان کیے جاتے تھے۔ اور ان لوگوں کی دست درازیوں اور تکذیب کا دفاع ذکر الٰہی کے بعد صبر جمیل ہی سے کیا جاسکتا تھا ، اللہ نے ہر رسول کو صبر کا حکم دیا ہے ، اور بار بار دیا ہے۔ پھر اللہ نے ہر رسول کے ساتھیوں اور بعد میں آنے والے مومنین کو بھی صبر کا حکم دیا ہے۔ رسولوں کے زمانوں کے بعد میں بھی جس شخص نے دعوت اسلامی کا بیڑا اٹھایا ہے ، اس کا زادہ راہ صبر ہی رہا ہے۔ اس کا اسلحہ اور سازو سامان صبر ہی رہا ہے۔ صبر بہترین ڈھال اور بہترین اسلحہ ہے۔ صبر ہی بہترین قلعہ اور پناہ گاہ ہے۔ یہ نفس اور اس کی خواہشات کے ساتھ جہاد ہے۔ یہ نفس کی بےراہ رویوں اور خواہشات کے خلاف جہاد ہے۔ یہ نفس کی سرکشی ، جلد بازی اور مایوسی کے خلاف بھی ایک جدوجہد ہے۔ اور دعوت اسلامی کے دشمنوں ، ان کی ریشہ دورانیوں اور اذیتوں کے خلاف بہترین دفاع اور ہتھیار ہے۔ اور یہ بالعموم نفس انسانی کے خلاف بھی ہتھیا رہے۔ یہ نفس بالعموم دعوت اسلامی کی تکالیف اور ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کی تدابیر کرتا ہے۔ نفس انسانی مختلف رنگوں اور لباسوں میں اس دعوت کی ذمہ داریوں سے جان چھڑانا چاہتا ہے اور سیدھی راہ پر چلنا نہیں چاہتا۔ اور داعی کے لئے اس کے سوا کوئی اور چارہ کار نہیں رہتا کہ وہ ان تمام باتوں پر صبر کرے۔ اور ذکر وصبر دونوں ایک ساتھ چلتے ہیں۔ ہر موقعہ پر جہاں صبر کرنا ہوتا ہے۔ یہ اللہ کی یاد کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ اور اے پیغمبر یہ لوگ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس پر صبر جمیل اختیار کرو اور ان کو نہایت ہی شریفانہ انداز میں چھوڑ دو ، ان مکذبین کے لئے مجھے چھوڑدو۔ میں ان کا انتظام خود کرلوں گا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر فرمانے کا حكم، دوزخ کے عذاب کا تذکرہ، وقوع قیامت کے وقت زمین اور پہاڑوں کا حال یہ پانچ آیات کا ترجمہ ہے پہلی آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے تسلی دی ہے کہ آپ جلدی نہ کریں یہ لوگ جو آپ کو جھٹلانے میں لگے ہوئے ہیں ان کو کچھ مہلت دے دیں۔ یہ ناز و نعمت میں پل رہے ہیں اور بڑھ رہے ہیں اور دنیاوی اموال اور نعمتیں ان کے لیے غفلت کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ ان چیزوں میں پڑ کر وہ آپ کی دعوت کو ٹھکرا رہے ہیں یہ ان کے حق میں کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ یہ جو کچھ کھا پی رہے ہیں اور مزے کر رہے ہیں تھوڑے سے دن کی بات ہے اور اس میں ان کا استدراج بھی ہے۔ كما قال تعالیٰ فی سورة القلم ﴿فَذَرْنِيْ وَ مَنْ يُّكَذِّبُ بِهٰذَا الْحَدِيْثِ ١ؕ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَۙ٠٠٤٤﴾ (سو آپ مجھے اور ان کو چھوڑ دیجئے جو اس بات کو جھٹلاتے ہیں ہم ان کو اس طور پر ڈھیل دے رہے ہیں کہ ان کو خبر بھی نہیں) ۔ اس کے بعد کافروں کو تعذیب کا ذکر فرمایا کہ یہ لوگ جو تکذیب میں لگے ہوئے ہیں ہم نے ان کی تعذیب کے لیے بیڑیاں تیار کر رکھی ہیں اور ان کے لیے دوزخ ہے اور ان کے لیے ایسا کھانا ہے جو گلے میں پھنس جانے والا ہوگا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ حضرت ابو الدرداء (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت فرماتے ہیں کہ دوزخیوں کو (اتنی زبردست) بھوک لگا دی جائے گی جو تنہا اس عذاب کے برابر ہوگی جو ان کو بھوک کے علاوہ ہو رہا ہوگا۔ لہٰذا وہ کھانے کے لیے فریاد کریں گے اس پر ان کو ضریع (سورۃ الغاشیہ کی تفسیر دیکھیں) کا کھانا دیا جائے گا جو نہ موٹا کرے گا نہ بھوک دفع کرے گا پھر دوبارہ کھانا طلب کریں گے تو ان کو ﴿طَعَامًا ذَا غُصَّةٍ ﴾ (گلے میں اٹکنے والا کھانا) دیا جائے گا جو گلوں میں اٹک جائے گا اس کے اتارنے کے لیے تدبیریں سوچیں گے تو یاد کریں گے کہ دنیا میں پینے کی چیزوں سے گلے کی اٹکی ہوئی چیزیں اتارا کرتے تھے لہٰذا پینے کی چیز طلب کریں گے چناچہ کھولتا ہوا پانی لوہے کی سنڈاسیوں کے ذریعے ان کے سامنے کردیا جائے گا۔ وہ سنڈاسیاں جب ان کے چہروں کے قریب ہوں گی تو ان کے چہروں کو بھون ڈالیں گی پھر جب پانی پیٹوں میں پہنچے گا تو پیٹ کے اندر کی چیزوں (یعنی آنتوں وغیرہ) کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ ” واصبر “ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلیہ ہے۔ مشرکین کی خرافات اور ان کی تکلیف دہ باتوں کو آپ صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کریں اور ان کا معاملہ اپنے کارساز کے حوالے فرما دیں اور عمدہ پیرایہ میں ان سے الگ رہیں۔ دل سے اور عمل سے ان کی مخالفت کریں اور ظاہری مدارات برقرار رکھیں والھجر الجمیل ان یجانبھم بقلبہ وھواہ و یخالفہم فی الافعال مع المداراۃ والاغضاء وترک المکافاۃ (کبیر ج 8 ص 340)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(10) اور یہ دین حق کے منکر آپ کی ایذا رسانی کے لئے جو کچھ کہتے ہیں اس کو سہتے اور برداشت کرتے رہیے اور خوش اسلوبی کے ساتھ ان سے کنارہ کش ہوجائیے۔ پیغمبر (علیہ السلام) کو ایذا پہنچانے کی غرض سے صرف حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان اقدس ہی میں گستاخی نہ کرتے تھے بلکہ اللہ تعالیٰ کو بھی عیب لگاتے تھے قرآن کو بھی برا کہتے تھے حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کی بھی توہین کرتے تھے اور ظاہر ہے کہ ان سب باتوں سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف ہوتی تھی ان سب باتوں پر حضور کو صبر کی تعلیم دی اور یہ سہار کی طاقت اور برداشت کی قوت رات کی عبادت ہی سے میسر ہوتی ہے۔ اس لئے قیام لیل کا حکم دینے کے بعد یہ فرمایا کہ کفار کی اذیت اور ایذارسانی پر صبر کرو اور خوبصورتی کے ساتھ ا ن سے الگ ہوجائو ہجر جمیل کو ظاہر میں بےتعلق مگر باطن میں ان کی صحبت کی جانب رغبت اور میل نیز ان کی بدسلوکی کا کسی سے شکوہ نہ کیا جائے نہ شکایت نہ انجام کی فکر کی جائے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی خلق سے کنارہ کر لیکن لڑ بھڑ کر نہیں سلوک سے۔