Surat ul Muzammil

Surah: 73

Verse: 11

سورة المزمل

وَ ذَرۡنِیۡ وَ الۡمُکَذِّبِیۡنَ اُولِی النَّعۡمَۃِ وَ مَہِّلۡہُمۡ قَلِیۡلًا ﴿۱۱﴾

And leave Me with [the matter of] the deniers, those of ease [in life], and allow them respite a little.

اور مجھے اور ان جھٹلانے والے آسودہ حال لوگوں کو چھوڑ دے اور انہیں ذرا سی مہلت دے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَذَرْنِي وَالْمُكَذِّبِينَ أُولِي النَّعْمَةِ ... And leave Me alone to deal with the deniers, those who are in possession of good things of life. meaning, `leave Me to deal with the rich rejectors, who own great wealth.' For verily, they are more able to obey than others besides them, and they are requested to give the rights (to people) because they have what others do not have. ... وَمَهِّلْهُمْ قَلِيلً And give them respite for a little. meaning, for a little while. This is as Allah says, نُمَتِّعُهُمْ قَلِيلً ثُمَّ نَضْطَرُّهُمْ إِلَى عَذَابٍ غَلِيظٍ We let them enjoy for a little, then in the end We shall oblige them to (enter) a great torment. (31:24) Thus, Allah says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢] مترفین کا کردار :۔ معلوم ہوا کہ انبیاء کی دعوت کو جھٹلانے والے عموماً یہی کھاتے پیتے اور خوشحال لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ انہیں ہی قرآن نے بعض دوسرے مقامات پر مترفین کے لفظ سے ذکر کیا ہے ان لوگوں کا چونکہ معاشرہ میں اپنا ایک حلقہ اثر اور مخصوص مقام ہوتا ہے اور نبی کی دعوت قبول کرنے سے انہیں یہ مقام چھن جانے کا خطرہ ہوتا ہے لہذا یہی لوگ انبیاء کی دعوت کی مخالفت میں سب سے پیش پیش ہوتے ہیں۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسے لوگوں کی مخالفت کی پروا نہ کیجئے۔ ان سے میں نمٹ لوں گا۔ مگر ابھی کچھ وقت انہیں مخالفت کرنے کا موقع دیا جائے گا جس میں کئی طرح کی مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وذرنی والمکذبین…: یعنی جب تم نے مجھے اپنا وکیل بنا لیا اور اپنا سب کچھ میرے سپرد کردیا تو ان خوش حال جھٹلانے والوں کا معاملہ بھی مجھ پر چھوڑ دو جن کی نعمت و خوش حالی ایمان لانے کے بجائے ان کے انکار کا باعث بن گئی ہے، میں خود ان سے نمٹ لوں گا، آپ انہیں تھوڑی مہلت دیں۔ تھوڑی مہلت سے مراد دنیا میں تھوڑی مہلت ہے، جیسا کہ کفار مکہ کو جھٹلانے کی سزا جلد ہی میدان بدر میں مل گئی۔ اس کے علاوہ اگر زیادہ سے زیادہ مہلت بھی ہو تو دنیا میں زندہ رہنے تک ہے جو یقینا بالکل کم ہے، پھر اس کے بعد میں جانوں اور یہ جانیں، آپ ایک طرف ہوجائیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَذَرْنِيْ وَالْمُكَذِّبِيْنَ اُولِي النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيْلًا (And leave Me [ to deal ] with the deniers, the people of luxury, and give them respite for a while....73:11). The &deniers& are referred to as &the people of luxury&. The word na` mah&, the first letter [ n ] bearing lath [=a ], signifies &ease and plenty; abundance of wealth and children&. This indicates that people who live a life of ease, plenty and luxury can only be the ones who deny the Hereafter. These things do often fall to the lot of the believers, but they do not intoxicate them. Therefore, even when they live a life of luxury, their hearts are never, at any time, empty of the thought of the Hereafter. Only the deniers of the Hereafter will live a life of luxury that is neglectful of the Hereafter.

یہی مفہوم ہے بعد کی آیت ذَرْنِيْ وَالْمُكَذِّبِيْنَ اُولِي النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيْلًا کا اس میں کفار مکذبین کو اولی النعمہ فرمایا ہے نعمت بفتح النون کے معنی تنعم یعنی عیش و عشرت اور مال واولاد کی بہتات کے ہیں اس میں اشارہ ہے کہ دنیا کے مال و اولاد اور ناز و نعمت میں مست ہوجانا اسی شخص سے ہوسکتا ہے جو آخرت کی تکذیب کرنے والا ہو۔ مومن کو بھ یہ چیزیں بسا اوقات نصیب ہوتی ہیں مگر وہ ان میں ایسا مست نہیں ہوتا اس لئے دنیا کے ہر عیش و راحت کے وقت بھی اس کا قلب فکر آخرت سے خالی نہیں ہوتا۔ خالص عیش و عشرت اور بالکل بےفکری اس دنیا میں کافروں اور آخرت کی تکذیب کرنے والوں ہی کا حصہ ہوسکتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَذَرْنِيْ وَالْمُكَذِّبِيْنَ اُولِي النَّعْمَۃِ وَمَہِلْہُمْ قَلِيْلًا۝ ١١ وذر [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] «1» . ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔ مهل المَهْل : التُّؤَدَةُ والسُّكونُ ، يقال : مَهَلَ في فعله، وعمل في مُهْلة، ويقال : مَهْلًا . نحو : رفقا، وقد مَهَّلْتُهُ : إذا قُلْتَ له مَهْلًا، وأَمْهَلْتُهُ : رَفَقْتُ به، قال : فَمَهِّلِ الْكافِرِينَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْداً [ الطارق/ 17] والمُهْلُ : دُرْدِيُّ الزَّيْت، قال : كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ [ الدخان/ 45] . ( م ھ ل ) المھل کے معنی حلم و سکون کے ہیں ۔ اور مھل فی فعلہ کے معنی ہیں اس نے سکون سے کام کیا اور مھلا کے معنی رفقا کے ہیں یعنی جلدی مت کرو ۔ مھلۃ کسی کو مھلا کہنا اور امھلتہ کے معنی کسی کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَمَهِّلِ الْكافِرِينَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْداً [ الطارق/ 17] تو تم کافروں کو مہلت دو پس روزی مہلت دو المھل تلچھت کو بھی کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ [ الدخان/ 45] جیسے پگھلا ہوا تانبا پیٹوں میں اس طرح ) کھولے گا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١ ١{ وَذَرْنِیْ وَالْمُکَذِّبِیْنَ اُولِی النَّعْمَۃِ } ” آپ مجھے اور ان جھٹلانے والوں کو چھوڑ دیں ‘ جو بڑی نعمتوں سے نوازے گئے ہیں “ ان کو مال و اولاد ‘ بڑی بڑی جائیدادیں اور طرح طرح کی دوسری نعمتیں بھی میں نے ہی عطا کی ہیں اور اب ان کی سرکشی کا مزہ بھی انہیں میں ہی چکھائوں گا ‘ لہٰذا ان کا معاملہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں۔ نوٹ کیجیے ابتدائی دور کی ان سورتوں میں ذَرْنِیْ اور ذَرْھُمْ کے صیغے بار بار آرہے ہیں۔ { وَمَہِّلْہُمْ قَلِیْلًا ۔ } ” اور ابھی آپ انہیں تھوڑی سی مہلت دیں۔ “ قبل ازیں ہم سورة مریم میں اس سے ملتا جلتا یہ حکم بھی پڑھ چکے ہیں : { فَلَا تَعْجَلْ عَلَیْہِمْط اِنَّمَا نَعُدُّ لَہُمْ عَدًّا ۔ } ” تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے خلاف (فیصلے کے لیے ) جلدی نہ کیجیے۔ ہم ان کی پوری پوری گنتی کر رہے ہیں “۔ سورة الطارق کی اس آیت میں بھی بالکل یہی مضمون بیان ہوا ہے : { فَمَہِّلِ الْکٰفِرِیْنَ اَمْہِلْہُمْ رُوَیْدًا ۔ } ” تو آپ کافروں کو مہلت دیں ‘ بس تھوڑی سی مزید مہلت۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

12 These words clearly contain the sense that the people who were actually denying the Holy Prophet (upon whom be peace) in Makkah and were inciting the common people to oppose and resist him by stirring up prejudices and by deceit and fraud were the well-to-do, prosperous and affluent people, for it was their interests, which were being hit by Islam's message of reform. The Qur'an tells us that this was not peculiar only to the Holy Prophet's case but in every age this very class of the people have been the main obstacle to every movement of reform. For example, see Al-A`raf; 60, 6b, 75, 88; Al-Mu'minun: 33; Saba; 34 35; Az-Zukhruf: 23.

سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :12 ان الفاظ میں صاف اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ مکہ میں دراصل جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا رہے تھے اور طرح طرح کے فریب دے کر اور تعصبات ابھار کر عوام کو آپ کی مخالفت پر آمادہ کر رہے تھے وہ قوم کے کھاتے پیتے ، پیٹ بھرے ، خوشحال لوگ تھے ، کیونکہ انہی کے مفاد پر اسلام کی اس دعوت اصلاح کی زد پڑ رہی تھی ۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ یہ معاملہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ خاص نہ تھا بلکہ ہمیشہ یہی گروہ اصلاح کی راہ روکنے کے لیے سنگ گراں بن کر کھڑا ہوتا رہا ہے ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الاعراف ، آیات 60 ۔ 66 ۔ 75 ۔ 88 ۔ المومنون ، 33 ۔ سبا ، 34 ۔ 35 ۔ الزخرف ، 23 ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(73:11) ذرنی : ذر فعل امر واحد مذکر حاضر۔ وذر (باب فتح، سمع) سے مصدر۔ جس کے معنی چھوڑ دینے کے ہوتے ہیں۔ ن وقایہ ی ضمیر مفعول واحد متکلم کی ہے۔ تو مجھے چھوڑ دے۔ والمکذبین اولی النعمۃ۔ واؤ عاطفہ۔ المکذبین اسم فاعل جمع مذکر (بحالت نصب۔ بوجہ مفعول) تکذیب (تفعیل) مصدر سے۔ المکذبین کا عطف ذرنی پر ہے یا المکذبین مفعول معہ ہے ۔ (مدارک التنزیل) ۔ اولی النعمۃ موصوف و صفت مل کر صفت ہے المکذبین کی۔ مال دار۔ آیت کا ترجمہ ہوگا :۔ آپ مجھے اور (ان) جھٹلانے والے مالداروں کو (اپنی حالت پر) چھوڑ ئیے۔ ومہلہم قلیلا : اس کا عطف ذرنی پر ہے۔ واؤ عاطفہ۔ مہل امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ تمہیل (تفعیل) مصدر سے۔ بمعنی مہلت دینا۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب کا مرجع المکذبین ہے۔ قلیلا ای زمانا قلیلا تھوڑی سء مدت کے لئے۔ تھوڑی سی مہلت۔ ترجمہ ہوگا :۔ اور آپ ان کو تھوڑی سی مہلت دیں ۔ یعنی آپ تھوڑا سا انتظار کریں ان کو سزا ملنے ہی والی ہے۔ یقولون میں ضمیر فاعل جمع مذکر غائب اور واھجرھم میں ضمیر ہم مفعول جمع مذکر غائب اور المکذبین اولی النعمۃ سے مراد کفار مکہ اور سرداران قریش ہیں۔ مقاتل بن حیان نے کہا ہے کہ آیت وذرنی ۔۔ الخ کا نزول مقتولین بدر کے بارے میں ہوا۔ کچھ ہی مدت گزری تھی کہ وہ بدر کی لڑائی میں مارے گئے۔ یا اس سے مراد دنیاوی زندگی کی مہلت ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یہ کنایہ ہے صبر و انتظار سے یعنی چندے اور صبر کرلیجئے، عنقریب ان کو سزا ہونے والی ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کرنے اور جھگڑا کرنے والوں سے کنارہ کش ہونے کی تلقین کرنے کے بعد آپ کے مخالفین کو زبردست انتباہ۔ قرآن مجید نے توحید، رسالت اور آخرت کے بارے میں سینکڑوں دلائل دیئے مگر پھر بھی اہل مکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھوٹا قرار دیتے تھے۔ اس پر ایک طرف آپ کو صبر کی تلقین کی گئی ہے اور دوسری طرف یہ فرمایا کہ اے نبی ! مجھے جھٹلانے والوں سے نبٹ لینے دیں یہ اپنی دولت کے نشے میں مست ہیں انہیں تھوڑی سی مزید مہلت دیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر اپنے لیے ” ذَرْنِیْ “ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس کا معنٰی ہے کہ مجھے چھوڑ دیں تاکہ جو لوگ بالخصوص سرمایہ دار آپ کو جھٹلاتے ہیں ان کے ساتھ نبٹ لوں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کفار سے نبٹنے کے لیے اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا کسی دوسرے کے ہاتھیوں مجبور تھا اور ہے، یہ تنبیہ کا ایک انداز ہے جو ہر زبان میں مخالف کو ڈرانے اور دھمکانے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ مقصد دوسرے کو زبردست انداز میں انتباہ کرنا ہوتا ہے دولت مند سے مراد کوئی خاص شخص نہیں بلکہ اس سے مراد مکہ کے وہ سردار ہیں جو وسائل اور افرادی قوت کی بنا پر اپنے آپ کو بڑا سمجھتے تھے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں کو حقیر جانتے تھے۔ انہیں بتلایا گیا کہ آخرت میں تمہارا انجام یہ ہوگا کہ ہمارے پاس تمہارے لیے بھاری بھر کم بیڑیاں ہیں اور بھڑکتی ہوئی آگ اور گلے میں پھنس جانے والا کھانا اور اذّیت ناک عذاب ہوگا۔ اس دن زمین اور پہاڑ لرزا اٹھیں گے۔ جب بلند وبالا اور مضبوط ترین پہاڑ لرز اٹھیں گے تو ان کی کیا مجال کے یہ اپنے رب کے سامنے دم مار سکیں، اس مقام پر فرمایا کہ پہاڑ ریت کے ٹیلے بن جائیں گے دوسرے مقام پر ارشاد ہوا : (وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُہَا رَبِّیْ نَسْفًا۔ فَیَذَرُہَا قَاعًا صَفْصَفًا۔ لَّا تَرٰی فِیْہَاعِوَجًا وَّ لَآ اَمْتًا) (طٰہٰ : ١٠٥ تا ١٠٧) ” یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ یہ پہاڑکہاں چلے جائیں گے فرمادیں کہ میرا رب ان کو دھول بناکر اڑا دے گا اور زمین کو چٹیل میدان بنا دے گا۔ تم زمین میں کوئی اونچ نیچ نہیں دیکھ پاؤ گے۔ “ (عَنْ صُہَیْبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ ) (رواہ مسلم : کتاب الزہد والرقائق، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر) ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومن کے معاملات عجیب ہیں اس کے تمام معاملات میں خیر ہے اور یہ صرف مومن کے لیے ہے اگر اسے آسانی ملتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے یہ اسکے لیے بہتر ہے اگر اسے تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے یہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔ “ مسائل ١۔ جھگڑالو لوگوں کے مقابلے میں صبر کرنا چاہیے اور ان سے بہترین انداز میں اپنا دامن بچانا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے مکذبین کے لیے بیڑیاں اور بھڑکتی ہوئی آگ تیار کی ہے۔ ٣۔ مکذبین کے لیے بدترین کھانا اور اذیت ناک عذاب تیار کیا گیا ہے۔ ٤۔ قیامت کے دن زمین اور پہاڑ اس طرح ہلا دئیے جائیں گے جس سے پہاڑ ریت کے ذرات بن جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن اللہ کے نافرمانوں کا انجام : ١۔ قیامت کے دن مجرموں کو با ہم زنجیروں میں جکڑدیا جائے گا۔ (ابراہیم : ٤٩) ٢۔ قیامت کے دن کفار کو طوق پہنا کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (الحاقہ : ٣٠۔ ٣١) ٣۔ قیامت کے دن مجرموں کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی اور ان پر ذلت چھا رہی ہوگی۔ (المعارج : ٤٤) ٤۔ قیامت کے دن مجرموں کے ابرو پاؤں کے انگوٹھے کے بال سے باندھ دیے جائیں گے۔ (الرحمن : ٤١) ٥۔ اس دن آپ دیکھیں گے کہ مجرم اپنے سروں کو جھکائے پروردگار کے سامنے پیش ہوں گے۔ (السجدۃ : ١٢) ٦۔ مجرم تھور کے درخت سے اپنے پیٹ بھریں گے اور کھولتا ہوا پانی پئیں گے۔ (الصٰفٰت : ٦٦۔ ٦٧) ٧۔ بیشک مجرم ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (الزخرف : ٧٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وذرنی .................... قلیلا (73:11) ” ان جھٹلانے والے خوشحال لوگوں سے نمٹنے کا کام تم مجھ پر چھوڑدو اور انہیں ذرا کچھ دیر اسی حالت پر رہنے دو “۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو ہمیشہ جبار وقہار اور مضبوط قوت والے کہا کرتے ہیں۔ یہ جھٹلانے والے تو ابن آدم میں سے ہیں اور دھمکی دینے والی ذات وہ ہے جس نے ان کو پیدا کیا ہے اور جس ذات نے اس عظیم اور وسیع کائنات کو پیدا کیا ہے اس نے اس تمام جہاں کو صرف لفظ کن کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ مجھے ذرا چھوڑ دو کہ میں ان مکذبین کے کام سے نمٹ لوں ، یہ دعوت تو میری دعوت ہے ، تمہارے ذمہ تو صرف تبلیغ ہے۔ انہیں جھٹلانے دو اور تم ان کو شریفانہ انداز میں چھوڑ دو ۔ ان کے ساتھ جنگ میں خود کروں گا۔ تم اس کے بارے میں پریشان نہ ہو۔ اور یہ تو پیس کر رکھ دینے والی ایک تباہی ہوگی ، جب اللہ جبار وقہار کی ذات ان کی طرف متوجہ ہوجائے گی تو ان کی قوت کو ہلا کر رکھ دے گی اور پاش پاش ہوجائیں گے اور یہ لوگ جو اپنے آپ کو ” صاحبان نعمت “ سمجھتے ہیں نیست ونابود ہوں گے۔ ومھلھم قلیلا (73:11) اگر پوری دنیا کی زندگی کی مہلت بھی ان کو دے دی جائے تو بھی یہ ایک وقت قلیل ہے۔ اللہ کے حساب میں تو یہ ایک دن کا بھی ایک حصہ ہے۔ اور خود ان لوگوں کے اندازے کے مطابق بھی پوری زندگی ساعت قلیل ہے۔ قیامت میں یہ خود بھی یہی اندازہ کریں گے کہ ہم ایک دن یا دن کا کوئی حصہ ہی دنیا میں رہے ہیں۔ بہرحال بظاہر کفار کو مہلت جس قدر لمبی دے دی جائے وہ قلیل ہی ہے۔ اگر اس دنیا میں ان پر اللہ کی گرفت نہ آئی تو قیامت بہت ہی قریب ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

11:۔ ” وذرنی “ زجر و تخویف دنیوی یا اخروی۔ نعمۃ، عیش و عشرت۔ یہ اسلوب اس سے کنایہ ہے کہ آپ فکر نہ کریں ہم خود ان معاندین سے نمٹ لیں گے۔ ان عیش و عشرت کے دلدادہ جھٹلانے والوں کو چھوڑ دو اور ان کا معاملہ میرے حوالہ کردو اور تھوڑی سی ان کو مہلت دیدو پھر دیکھو ان کا کیا حشر ہوتا ہے۔ تھوڑی سی مہلت سے مراد مدت حیات ہے یا جنگ بدر تک کا وقت مراد ہے۔ ان معاندین کو میدانِ بدر میں ذلت آمیز عذاب کا مزہ چکھایا گیا اور جو اس عذاب سے بچ گئے وہ مرتے ہی عذاب میں مبتلا ہوجائیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(11) اور اے پیغمبر مجھ کو اور ان جھٹلانے والوں اور تکذیب کرنے والے ارباب تنعم اور نازونعمت میں رہنے والوں کو موجودہ حالت پر چھوڑ دیجئے اور ان کو تھوڑی مہلت اور دیجئے۔