Surat ul Muzammil
Surah: 73
Verse: 2
سورة المزمل
قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۲﴾
Arise [to pray] the night, except for a little -
رات ( کے وقت نماز ) میں کھڑے ہو جاؤ مگر کم ۔
قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۲﴾
Arise [to pray] the night, except for a little -
رات ( کے وقت نماز ) میں کھڑے ہو جاؤ مگر کم ۔
O you wrapped up! Stand all night, except a little. Ibn `Abbas, Ad-Dahhak and As-Suddi all said, يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ (O you wrapped up!) "This means, O you who are asleep." Qatadah said, "The one who is wrapped up in his garments." Concerning Allah's statement,
[٣] عظیم ذمہ داریوں کے لیے ریاضت شب بیداری :۔ ان ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے جس قسم کی ریاضت کی ضرورت ہے اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ رات کو سوتے رہنے کی بجائے رات کا زیادہ حصہ اللہ کی عبادت میں مصروف رہا کیجیے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بہت کم سویا کیجیے یا سویا ہی نہ کیجیے۔ بلکہ یہ ہے کہ عبادت میں گزارا ہوا وقت اگر آدھا بھی ہو تو وہ بھی بہرحال زیادہ ہے۔ پھر اس حصہ کی وضاحت بھی اللہ تعالیٰ نے خود ہی فرما دی۔ کہ رات کا جتنا حصہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عبادت میں گزارنا چاہیے وہ نصف رات ہونا چاہیے۔ یا نصف رات سے کچھ کم یا کچھ زیادہ۔ یعنی اگر دن رات برابر ہوں۔ تو آدھی رات جاگنا کافی ہے اگر راتیں چھوٹی اور دن بڑے ہوں تو آدھی رات سے زیادہ یا دو تہائی رات عبادت میں گزارئیے اور اگر راتیں لمبی اور دن چھوٹے ہوں تو آدھی رات سے کم یا تہائی رات تک عبادت کرنا بھی کافی ہوگا۔
(١) قم الیل الا قلیلاً …: تھوڑا حصہ چھوڑ کر سایر رات کا قیام کر۔” نصفۃ “ ” الیل “ سے بدل ہے، مگر اس ” الیل “ سے جس میں سے ” قلیلاً “ کا استثنا ہوچکا ہے۔ ” قلیلاً “ کا لفظ چونکہ مجمل ہے، اس لئے اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ رات کا تھوڑا حصہ چھوڑ کر جس حصے کا قیام کرنا ہے وہ کتنا ہونا چاہیے۔ فرمایا رات کا نصف قیام کریں یا نصف سے کچھ کم کرلیں یا نصف سے زیادہ کرلیں۔ اس سورت کی آخری آیت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام ان آیات کے نزول کے بعد رات کی دو تہائی کے قریب اور رات کے نصف اور رات کی تہائیکے برابر قیام کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ” نصف سے کچھ کم “ کا مطلب ثلث اور ” نصف سے زیادہ “ کا مطلب دو ثلث کے قریب ہے۔” منہ “ اور ” علیہ “ کی ضمیریں ” نصفہ “ کی طرف لوٹ رہی ہیں۔ اس سوال کا ایک اور حل یہ ہے کہ ” قم الیل الا قلیلاً “ کا ترجمہ یہ کیا جائے کہ ” رات کا قیام کر مگر کسی رات رہ جائے تو مضائقہ نہیں۔ “” نصفہ “ سے یہ بیان شروع ہوتا ہے کہ رات کا کتنا حصہ قیام میں گزارنا ہے، یہ تفسیر بھی درست ہے۔ (٢) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قیام اللیل کا حکم دے کر اس کی تاکید فرمائی ہے۔ تہجد ، وتر، قیام رمضان اور تراویح سب قیام اللیل ہی کے نام ہیں۔ اہل علم میں اتخلاف ہے کہ یہ نماز فرض ہے یا سنت اور اگر فرض ہے تو صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فرض تھی یا پوری امت پر فرض ہے ؟ قرطبی میں ہے کہ حسن اور ابن سیرین اس بات کے قائل ہیں کہ رات کو نماز ہر مسلم پر فرض ہے خواہ بکری کا دودھ د ہونے کے برابر پڑھے، مگر اکثر علماء فرماتے ہیں اور صحیحبھی یہی ہے کہ قیام اللیل امت پر فرض نہیں بکلہ یہ ایسی سنت ہے جس کی بہت تاکید کی گئی۔ سورة مزمل کے آخر مں فرمایا :(ان ربک یعلم انک تقوم ادنی من ثلثی الیل و یصفہ وثلثہ و طآئفۃ من الذین معک) (المزمل : ٢٠) یعنی آپ کے ساتھیوں کی ایک جماعت بھی آپ کے ساتھ اتنا قیام کرتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ صحاب ہ کی صرف ایک جماعت قیام کرتی تھی۔ اگر یہ فرض ہوتا تو ایک جماعت کے بجائے تمام صحابہ قیام کرتے۔ صحیحین میں طلحہ بن عبیدا للہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک سائل کو ارکان دین بتائے اور نمازوں میں سے دن رات میں صرف پانچ نمازیں فرض بتائیں، اس سنے پوچھنا :” کیا مجھ پر اس کے علاوہ بھی کچھ فرض ہے ؟ “ تو آپ نے فرمایا :(لاء الا ان تطوع) (بخاری، الایمان، باب الزکاۃ من ال سلام : ٣٦۔ مسلم : ١١)” نہیں، الا یہ کہ تم اپنی خوشی سے پڑھو۔ “ صیحیحن ہی میں عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ ایک رمضان میں تین راتیں لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جماتع کی صورت میں قیام میں شریک ہوتے رہے۔ چوتھی رات آپ باہر تشریف نہیں لائے اور فرمایا :(انی خشیت ان تعرض علیکم) (بخاری، التھجد، باب تحریض النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) …: ١١٢٩ مسلم : ٨٦١) ” میں اس بات سے ڈرا کہ تم پر (یہ نماز) فرض نہ ہوجائے۔ “ اگر قیام اللیل فرض ہوتا تو آپ اس کے ان پر (یہ نماز) فرض ہوجانے سے کیوں ڈرتے ؟ رہی یہ بات کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قیام اللیل فرض تھا یا نہیں تو اس کیلئے دیکھیے سورة بنی اسرائیل کی آیت (٧٩) کی تفسیر۔ فرض نہ ہونے کے باوجود قیام اللیل کی تاکید و فضیلت قرآن و حدیث میں بہت ائٓی ہے، ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(افضل الصلاۃ بعد الصلاۃ المکتوبۃ الصلاۃ فی جوف اللیل) (ملم، الصیام، باب فضل صوم المحرم : ٢٠٣/١١٦٣)” فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز ہے۔ ‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن اور متقی بندوں کی شان میں فرمایا :(تنجافی جنوبھم عن المضاجح یدعوکن ربھم خوفاً وطمعاً ومما رزقنھم ینفقون) (السجدۃ : ١٦)” ان کیپ ہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں، اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید کرتے ہوئے پکارتے ہیں اور ہم نے انہیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ “ اور فرمایا :(کانوا قلیلاً من الیل مایھجعون) (الذاریات : ١٨)” وہ رات کے تھوڑے حصے میں سویا کرتے تھے۔ “ اور فرمایا :(ومن الیل فتھجد بہ نافلۃ لک ، عسی ان ینبعثک ربک مقاماً نحموداً ) (بنی اسرائیل : ٨٩) ” اور رات کے کچھ حصے میں پھر اس کیساتھ بیدار رہ ، اس حال میں کہ تیرے لئے زائد ہے۔ قریب ہے کہ تیرا رب تجھے مقام محمود پر کھڑا کرے۔ “ عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(من قام یعشر آیات لم یکتب من الغافلین ومن قام بمائۃ آیۃ کتب من القانتین ومن قام بالف آیۃ کتب من المفنطرین) (ابو داؤد، تفریع ابواب شھر رمضان، باب تخریب : ١٣٩٨، وقال الالبانی صحیح) ’ جو شخص دس آیات کے ساتھ قیام کرے وہ غافلین میں نہیں لکھا جاتا ، جو سو آیات کے ساتھ قیام کرے وہ قانتین (عبادت گز اورں) میں لکھا جاتا ہے اور جو ہزار آیات کے ساتھ قیام کرے وہ مقنطرین (خزانے والوں) میں لکھا جاتا ہے۔ “ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(رحم اللہ رجلاً قام من اللیل فصلی وایفظ امرانہ فان ابت تصع فی وجھھا الماء رحم اللہ امراہ قامت من اللیل فضلت وایقظت زوجھا فان ابی نصحت فی وجھہ المائ) (ابوداؤد، التطوع، باب قیام اللیل، ١٣٠٨ وقال الالبانی حسن صحیح)” اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحم کرے جو رتا کو اٹھا، نمازپ ڑھی اور اپنی بیوی کو جگایا (اور اس نے بھی نمازپڑھی) ، اگر اس نے انکار کیا تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ اللہ تعالیٰ اس عورت پر رحم کرے جو رات کو اٹھی اور نمازپڑھی، خاوند کو جگایا (اور اس نے بھی نمازپ ڑھی) ، اگر اس نے انکار کیا تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ “ رات کے اوقات میں سے بھی رات کے آخری حصے میں قیام کی فضیلت زیادہ ہے۔ عمرہ بن عبسہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(اقرب مایکون الرب من العبد فی جوف اللیل الآخر فان استطعت ان تکون ممن یذکر اللہ فی تلک الساعۃ فکن) (ترمذی، الدعوات، باب : ٣٥٨٩، و صححہ الالبانی فی صحیح الجامع) ” رب تعالیٰ بندے کے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری حصے میں ہوتا ہے، اگر تو یہ کرسکے کہ اس وقت اللہ کا ذکر کرنے والوں میں سے ہو تو یہ کام کر۔ “ قیام اللیل کا سب سیب ہتر طریقہ داؤد (علیہ السلام) کی نماز ہے، وہ رتا کا نصف سو جاتے اور اس کا تیسرا حصہ قیام کرتے اور چھٹا حصہ سو جاتے۔ “ (٣) ” ورتل القرآن “ اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ۔” ترتیلاً “ مصدر تاکید کیلئے ہے، خوب ٹھہر ٹھہر کرپ ڑھ۔ اس میں بتایا ہے کہ رتا کے قیام میں پڑھنا کیا ہے ؟ سو حکم ہوا کہ قرآن پڑھیں اور خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں۔ ترتیل میں کئی چیزیں شامل ہیں، ان میں سے پہلی یہ ہے کہ ٹھہر ٹھہر کر پورے غور و فکر کے ساتھ تلاوت کی جائے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس حکم کے مطابق خوب ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کیا کرتے تھے۔ حفصہ (رض) فرماتی ہیں :(وکان یقرا بالسورۃ فیرتلھا حتی تکون اطول من اطول منھا) (مسلم، صلاۃ المسافرین، یاب جواز النافلۃ قائماً و قاعداً …: ٨٣٣)” اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورت کی تلاوت کرتے اور اسے اتنا ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے کہ وہ اس سے لمبی سورت سے بھی لمبی ہوجاتی۔ “ دوسری چیز جو ترتیل میں شامل ہے، یہ ہے کہ ہر لفظ الگ الگ سمجھ میں آئے، چناچہ یعلی بن ممالک نے ام سلمہ (رض) کی قرأت اور نماز کے متعلق سوال کیا، انہوں نے پہلے آپ کی رات کی نماز کا حال بیان کیا :(ثم نعتت قراء نہ ماذاھی تنعت قراء ہ مفسرۃ حرفاً حرفاً ) (ترمذی، فضائل القرآن، باب ماجاء کیف کانت قراء ۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : ٢٩٣٣)” پھر ام سلمہ (رض) عنہمانے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قرأت کی صفت بیان کی تو انہوں نے ایسی قرأت بیان کی جس کا ایک ایک حرف واضح کیا گیا تھا۔ “ تیسری چیز ہر آیت پر ٹھہرنا ہے ، بعض لوگ ایک ہی سانس میں وقف کے بغیر آیت کے ساتھ آیت ملائے جاتے ہیں اور اسے کمال سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ سنت کے خلاف ہے، جیسا کہ ام المومنین ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں :(کان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقطع قراءت ہ (وفی روایۃ ابی داؤد، یقطع قراءت ہ آیۃ آیۃ ، یقراء :(الحمد للہ رب العلمین) ثم یصف (الرحمٰن الرحیم) ثم یفف) (ترمذی، القراء ات، باب فی فاتحۃ الکتاب : ٢٩٢٨، ابو داؤد : ٣٠٠١، وصیححہ الالبانی فی صحیح الجامع الصغیر)” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی قرأت الگ الگ کر کے پڑھتے ھتے۔ “ اور ابو داؤد کی روایت میں ہے : آپ اپنی قرأت ایک ایک آیت الگ کر کے پڑھتے تھے۔ “ آپ ” الحمد للہ رب العلمین “ پڑھتے اور ٹھہر جاتے، پھر ’ الرحمٰن الرحیم “ پڑھتے اور ٹھہر جاتے۔ “ چوتھی چیز یہ ہے کہ حروف مدہ کو لمبا کر کے پڑھا جائے۔ قتادہ فرماتے ہیں :(سئل انس کیف کانت قراء ۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ؟ فقال کانت مداثم قراً :(بسم اللہ الرحمٰن الرحیم) یمدبسم اللہ و یمدبالرحمٰن ویمدبالرحیم) (باری، فضائل القرآن، باب مدالقراء ۃ : ٨٥٢٦)” جو شخص قرآن کو خوبصورت لہجے اور خوش آوازی سے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں۔ “ غرض ترتیل کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کو خوب غور و فکر کیساتھ ، ٹھہر ٹھہر کر، الفاظ کی و اضح ادائیگی کے ساتھ اور حروف مدہ کو لمبا کر کے جس قدر خوش آوازی کے ساتھ ہو سکے پڑھا جائے۔
Injunctions Pertaining to salat-ut-Tahajjud and its Abrogation Reading into the titles muzzammil and muddaththir a consensus of scholarly opinion assigns the revelation of this Surah to the earliest period when the five daily prayers had not become obligatory. They were prescribed on the night of Holy Prophet&s (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) Ascent to heavens. [ mi` raj ]. Imam Baghawl (رح) ، says, on the basis of Ahadith reported by Sayyidah ` A&ishah Siddigah (رض) and others, that &night-prayer& was compulsory for the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the entire Muslim community until the five prayers were not prescribed. This verse not only prescribes the night-prayer but it also prescribes to stand up in prayer from at least one quarter of the night, because the verse under comment basically commanded to stand up all night to pray except a little portion of it. Imam Baghawi (رح) says, on the basis of narration of Ahadith, that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the noble Companions (رض) in compliance with this command, spent the major portion of the night in tahajjud, so much so that their feet would swell and this exertion caused hardship and difficulty to them. This situation continued for a year. After that, towards the end of the Surah, the following injunction was revealed: فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ &...Therefore, recite as much of it as is easy_[ 73:20] & It repealed the obligation of staying up for a long time, and granted them concession and permission to stay up for prayer as much as they could easily manage. This is transmitted by Abu Dawud and Nasa&i on the authority of Sayyidah ` A&ishah (رض) ، Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) says that when the five prescribed prayers became obligatory on the night of mi` raj, the obligatory nature of tahajjud was abrogated. It was, however, retained as sunnah, because the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) performed it most regularly. Most of the blessed Companions (رض) were regular with their tahajjud as well. [ Mazhari ] Let us now analyze the wordings of the verses. قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا &stand at night (for prayer) except a little_[ 73:2] &. The word al-lail with the definite article &al& connotes &the entire night&, signifying that he should stay up the whole night for prayer except a little portion of it. As the word &little& is indefinite, the verse further clarifies: نِّصْفَهُ أَوِ انقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا &half of it, or make it a little less, [ 3] or أَوْ زِدْ عَلَيْهِ make it a little more [ 73:4] &. This is explicative of the exception &except a little&. A question may be raised here that &a little& cannot be &half. The answer is that the earlier portion of the night is spent in the prayer at maghrib and ` isha&. &Half then refers to the half of the rest of the night. Its total in relation to the whole night amounts to &a little&. The verse permits to reduce it a little less than half and it also permits to add to it a little more than half. Thus it was compulsory to stay up at least for a little over one fourth of a night for prayer.
نماز تہجد کے احکام اور ان میں تبدیلی : لفظ مزمل اور مدثر خود اس کا پتہ دیتے ہیں کہ یہ آیات بالکل شروع اسلام اور نزول قرآن کے ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی ہیں جبکہ اس وقت پانچ نمازیں امت پر فرض نہیں ہوئی تھیں کیونکہ پانچ نمازوں کی فرضیت تو شب معراج میں ہوئی ہے۔ امام بغوی نے حضرت صدیقہ عائشہ وغیرہ کی احادیث کی بناء پر یہ فرمایا ہے کہ اس آیت کی رو سے قیام اللیل یعنی رات کی نماز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام امت پر فرض تھی اور یہ اس وقت کا واقعہ ہے۔ جب پانچ نمازیں فرض نہیں تھیں۔ اس آیت میں قیام اللیل یعنی تہجد کی نماز کو صرف فرض ہی نہیں کیا گیا بلکہ اس میں کم از کم ایک چوتھائی رات سے مشغول رہنا بھی فرض قرار دیا گیا ہے کیونکہ ان آیات میں اصل حکم یہ تھا کہ تمام رات باستثناء قلیل نماز میں مشغول رہیں اور استثناء قلیل کا بیان اور تفصیل آگے آتی ہے۔ امام بغوی روایات حدیث کی بناء پر فرماتے ہیں کہ اس حکم کی تعمیل میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام رات کے اکثر حصہ کو نماز تہجہد میں صرف فرماتے تھے یہاں تک کہ ان کے قدم ورم کر گئے اور یہ حکم خاصا بھاری معلوم ہوا۔ سال بھر کے بعد اسی سورت کا آخری حصہفَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰن نازل ہوا جس نے اس طویل قیام کی پابندی منسوخ کردی اور اختیار دے دیا کہ جتنی دیر کسی کے لئے آسان ہو سکے اتنا وقت خرچ کرنا نماز تہجد میں کافی ہے یہ مضمون ابوداؤد نسائی میں حضرت صدیقہ عائشہ سے منقول ہے اور حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ جب پانچ نمازوں کی فرضیت شب معراج میں نازل ہوئی تو نماز تہجد کی فرضیت منسوخ ہوگئی البتہ سنت پھر بھی رہی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیشہ اس پر مداومست فرمائی اسی طرح اکثر صحابہ کرام بڑی پابندی سے نماز تہجد ادا کرتے تھے (مظہری) اب الفاظ آیت کی تفسیر دیکھئے ارشاد فرمایا۔ قُمِ الَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلًا، الیل پر الف لام داخل ہونے سے اس نے پوری رات کے معنے دیئے تو مطلب آیت کا یہ ہوگیا کہ آپ ساری رات قیام الیل میں مشغول رہیں بجز قلیل کے مگر چونکہ یہ لفظ قلیل مبہم تھا اس لئے آگے اس کی تشریح اس طرح فرما دی نصفہ اوانفص منہ قلیلاً اوزد علیہ یعنی اب آپ نصف رات قیام فرمائیں یا نصف سے کچھ کم کردیں یا نصف سے کچھ بڑھا دیں۔ یہ بیان الا قلیلاً کے استثناء کا ہے۔ اس لئے اس پر یہ سوال ہوسکتا ہے کہ نصف تو قلیل نہیں کہلتا۔ جو اب یہ ہے کہ رات کا ابتدائی حصہ تو نماز مغرب پھر عشاء وغیرہ میں گزر ہی جاتا ہے اب نصف سے مراد باقی ماندہ کا نصف ہوگا وہ مجموعہ رات کے اعتبار سے قلیل ہے اور اس آیت میں چونکہ نصف سے کم کرنے کی بھی اجازت ہے نصف سے زائد کرنے کی بھی، اس لئے مجموعی طور پر اس کا یہ حاصل ہوا کہ کم از کم چوتھائی رات سے کچھ زیادہ قیام الیل میں مشغول رہنا فرض ہوگا۔
قُـمِ الَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلًا ٢ ۙ ليل يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل : أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔
2 This can have two meanings: (1) "Pass the night standing up in the Prayer and spend only a little of it in sleep"; and (2) "there is no demand from you to pass the whole night in the Prayer, but have rest as well and spend a little part of the night in worship too." But in view of the theme that follows the first meaning seems to be more relevant, and the same is supported by Ad-Dahr: 26, in which it has been said: "Prostrate yourself before Him in the night and glorify Him during the long hours of night."
سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :2 اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ رات نماز میں کھڑے رہ کر گزارو اور اس کا کم حصہ سونے میں صرف کرو ۔ دوسرا یہ کہ پوری رات نماز میں گزار دینے کا مطالبہ تم سے نہیں ہے بلکہ آرام بھی کرو اور رات کا ایک قلیل حصہ عبادت میں بھی صرف کرو ۔ لیکن آگے کے مضمون سے پہلا مطلب ہی زیادہ مناسبت رکھتا ہے اور اسی کی تائید سورہ دہر کی آیت 26 سے بھی ہوتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے و من الیل فاسجد لہ و سبحہ لیلا طویلا ، رات کو اللہ کے آگے سجدہ ریز ہو اور رات کا طویل حصہ اس کی تسبیح کرتے ہوئے گزارو ۔
2: اس آیت میں آپ کو تہجد کی نماز کا حکم دیا گیا ہے، اکثر مفسرین کے مطابق شروع میں تہجد کی نماز نہ صرف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر، بلکہ تمام صحابہ پر فرض کردی گئی تھی، اور اس کی مقدار کم سے کم ایک تہائی رات مقرر فرمائی گئی تھی، یہ فرضیت بعض روایات کی رُو سے سال بھر تک جاری رہی۔ بعد میں اسی سورت کی آیت نمبر ۲۰ نازل ہوئی جس نے تہجد کی فرضیت منسوخ کردی جیسا کے اس آیت کی تشریح میں آنے والا ہے۔
(73:2) قم الیل : قم ، قوم قومۃ وقامۃ (باب نصر) مصدر سے فعل امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر ہے بمعنی تو کھڑا ہواکر۔ نماز (نفل) پڑھا کر۔ الیل مفعول فیہ۔ رات بھر ۔ ساری رات۔ الا قلیلا : الا حرف استثناء قلیلا مستثنیٰ ۔ ای یسرا منہ، اس سے تھوڑا کم۔
ف 11 اس سے معلوم ہوا کہ ابتدا میں آنحضرت پر تہجد کی نماز فرض تھی جیسا کہ سورة اسراء کی آیت 79 کے تحت بیان ہوچکا ہے۔
﴿قُمِ الَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلًاۙ٠٠٢ نِّصْفَهٗۤ اَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيْلًاۙ٠٠٣ اَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلًاؕ٠٠٤﴾ یعنی نصف رات قیام کرو یا نصف سے کچھ کم کر دو یا نصف سے کچھ بڑھا دو ۔ نصف سے کم کا مصداق ایک ثلث ہے اور نصف سے کچھ زیادہ کا مصداق دو ثلث ہے اللہ تعالیٰ نے رات کو قیام فرمانے کا حکم دیا اور مقدار وقت میں تین صورتوں کا اختیار دے دیا۔ رات کو قیام کرنے کے ساتھ ہی ﴿ وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلًاؕ٠٠٤﴾ بھی فرمایا یعنی قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو، یوں تو جب بھی قرآن کی تلاوت کی جائے ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کریں اور جلدی جلدی نہ پڑھیں جس سے حروف کٹیں اور معنی مقصود کے خلاف ایہام ہوجائے لیکن خاص طور پر نماز تہجد میں جو ترتیل کا حکم فرمایا اس کی وجہ یہ ہے کہ رات کی نمازوں میں لمبی تلاوت کی جاتی ہے اور رات کے وقت سہانے وقت میں تلاوت میں زیادہ دل لگتا ہے لیکن ساتھ ہی کبھی نیند کے جھونکے بھی آجاتے ہیں ان جھونکوں کی وجہ سے جلدی جلدی ختم کرنے کی کوشش نہ کریں۔ جتنا پڑھیں صحیح پڑھیں۔ صاف پڑھیں اور جب نیند آجائے تو سو جائیں۔ حدیث شریف میں بھی ارشاد فرمایا : اذا نفس احدکم وھو یصلی فلیر قد حتی ذھب عنہ النوم۔ (الحدیث رواہ الشیخان مشکوٰۃ صفحہ ١١٠) آدھی رات قیام کریں یا تہائی رات یا دو تہائی رات۔ راتوں کو نماز میں قیام کرنا جسے نماز تہجد کہتے ہیں امت کے لیے سنت ہے افضل ہے اور بہت زیادہ فضیلت کا کام ہے لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو حکم دیا ہے اس کا کیا درجہ تھا ؟ اس کے بارے میں علامہ قرطبی (رح) لکھتے ہیں کہ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ رات کو قیام کرنا آپ پر فرض تھا اور ضروری تھا حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ قیام اللیل نہ صرف نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بلکہ آپ سے پہلے جو انبیاء کرام (علیہ السلام) تھے ان پر بھی فرض تھا۔ قرآن مجید ٹھہر ٹھہر کر بھی پڑھے اور صاف بھی پڑھے اور مخارج اور صفات کا لحاظ کر کے پڑھے حضرات قراء کرام نے تلاوت کے تین درجات بتائے ہیں ترتیل، تدویر، حدر، یہ ان کے اصطلاحی الفاظ ہیں ترتیل کا مطلب یہ ہے کہ خوب آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کی جائے اور حدر کا مطلب یہ ہے کہ جلدی جلدی پڑھا جائے اور تدویر دونوں کے درمیان پڑھنے کو کہتے ہیں لیکن تینوں صورتوں میں سے جو صورت بھی اختیار کی جائے حرفوں کو کاٹنا اور تجوید کے خلاف پڑھنا درست نہیں ہے حضرات قراء کرام نے حضرت علی (رض) کا ارشاد نقل کیا ہے کہ الترتیل تجوید الحروف ومعرفۃ الوقوف (کہ تجوید حروف کو صحیح طریقے پر ادا کرنا اور وقوف کے پہچاننے کا نام ہے) ۔ آج کل بہت سے لوگ جن میں قراء حضرات بھی ہیں، حدر سے پڑھتے وقت بہت سے حروف کھا جاتے ہیں اور کلمات کے اخیر میں جو الف ہوتا ہے اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ ﴿رَبَّنَاۤ اَبْصَرْنَا وَ سَمِعْنَا فَارْجِعْنَا﴾ میں ہر جگہ الف کھا جاتے ہیں، یہ آج کل کا فیشن ہے۔
3:۔ ” قم اللیل “ لفظ ” قلیل “ محاورہ میں نصف سے کم پر بولا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لفلان علی الف درہم الا قلیلا میں قلیلا سے مراد پانچ سو سے کم ہوں گے۔ اب اگر نصفہ کو قلیلا سے بدل بنایا جائے تو یہ ترکیب قلیلا کے مذکور استعمال کے خلاف ہوگی۔ امام نسفی صاحب مدارک نے اس کے دو جواب دئیے ہیں۔ (1) نصف کو کل اللیل (تمام رات) کے اعتبار سے قلیل کہا گیا ہے، اس اعتبار سے تینوں صورتیں قلیلا میں داخل ہوجائیں گی۔ نصف، نصف سے کم اور نصف سے زائد۔ (2) نصفہ مستثنی منہ مؤخر ہے اور اللیل سے بدل ہے۔ اور قلیلا مستثنی مقدم ہے اصل میں یوں تھا قم نصف اللیل الا قلیلا من نصف اللیل مگر اس صورت میں تکرار لازم آتا ہے، کیونکہ قم نصف اللیل الا قلیلا اور اوانقص منہ (من النصف) قلیلا کا مفہوم ایک ہی ہے۔ صاحب مدارک نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اصل میں تو نصف رات سے کم قیام کا حکم دیا گیا پھر اس میں کچھ وقت بڑھانے میں تخییر فرما دی۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ قلیلا سے مراد ثلث ہے جسے اللیل سے مستثنی کیا گیا لہذا مقصد یہ ہے کہ رات کے دو ثلث قیام کرو۔ اور نِصْفَہٗ کسی لفظ سے بدل نہیں، بلکہ مستقل فعل مقدر کا مفعول ہے المراد بالقلیل فی قولہ قم اللیل الا قلیلا ھو الثلث فاذا قولہ قم اللیل الا قلیلا معناہ قم ثلثی اللیل ثم قال نصفہ والمعنی او قم نصفہ (کبیر ج 8 ص 333) ۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی فرماتے ہیں کہ الا قلیلا کا مطلب یہ ہے کہ کسی رات کو نہ اٹھو اور نصفہ، اللیل سے بدل ہے نصفہ او انقص الخ جملہ ماقبل کی تفسیر ہے اور مطلب یہ ہے کہ نصف رات قیام کرو یا اس سے کچھ کم یا اس سے کچھ زیادہ۔ حضرت شاہ صاحب کے نزدیک یہ توجیہہ پسندیدہ ہے کیونکہ اس سے مذکورہ بالا اشکال بھی ختم ہوجاتا ہے اور کسی تکلف کے ارتکاب کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی۔