Surat ul Mudassir

Surah: 74

Verse: 25

سورة المدثر

اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا قَوۡلُ الۡبَشَرِ ﴿ؕ۲۵﴾

This is not but the word of a human being."

سوائے انسانی کلام کے کچھ بھی نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

This is nothing but the word of a human being! meaning, it is not the Words of Allah. The person who is mentioned in this discussion is Al-Walid bin Al-Mughirah Al-Makhzumi. He was one of the chiefs of the Quraysh -- may Allah curse him. Among the narrations about this is what was reported by Al-`Awfi from Ibn `Abbas. He (Ibn `Abbas) said, "Al-Walid bin Al-Mughirah entered the house of Abu Bakr bin Abi Quhafah and asked him about the Qur'an. When Abu Bakr informed him about it, he left and went to the Quraysh saying, `What a great thing this is that Ibn Abi Kabshah is saying. I swear by Allah that it is not poetry, nor magic, nor the prattling of insanity. Verily, his speech is from the Words of Allah!' So when a group of the Quraysh heard this they gathered and said, `By Allah, if Al-Walid converts (to Islam) all of the Quraysh will convert.' When Abu Jahl bin Hisham heard this he said, `By Allah, I will deal with him for you.' So he went to Al-Walid's house and entered upon him. He said to Al-Walid, `Don't you see that your people are collecting charity for you' Al-Walid replied, `Don't I have more wealth and children than they do' Abu Jahl answered, `They are saying that you only went to Ibn Abi Quhafah's house so that you can get some of his food.' Al-Walid then said, `Is this what my tribe is saying? Nay, by Allah, I am not seeking to be close to Ibn Abi Quhafah, nor `Umar, nor Ibn Abi Kabshah. And his speech is only inherited magic of old.' So Allah revealed to His Messenger, ذَرْنِي وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدًا .... لاَا تُبْقِي وَلاَا تَذَرُ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنْ ہٰذَآ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ۝ ٢٥ ۭ بشر وخصّ في القرآن کلّ موضع اعتبر من الإنسان جثته وظاهره بلفظ البشر، نحو : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان/ 54] ، ( ب ش ر ) البشر اور قرآن میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بشر کہا گیا ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان/ 54] اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا ۔ إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ [ ص/ 71] کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥{ اِنْ ہٰذَآ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ ۔ } ” یہ نہیں ہے مگر انسان کا کلام۔ “ یعنی اس کلام میں جادو کا سا اثر تو ہے ‘ لیکن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ دعویٰ کہ یہ اللہ کا کلام ہے اسے میں نہیں مانتا۔ میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ یہ انسانی کلام ہی ہے۔۔۔۔ اب اگلی آیات کو پڑھنے سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس نے حق کو پہچانتے ہوئے جھٹلا کر اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دے دی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

14 The reference is to what happened in the conference of the disbelievers of Makkah. From the details of it that we have given in the Introduction, it becomes obvious that this man in his heart had become fully convenced of the Qur'an's being Divine Word, but in order to save his position as a chief of his people, he was not prepared to affirm faith. When in the conference he himself turned down all the accusations that the Quraish chiefs were proposing against the Holy Prophet (upon whom be peace) , he was compelled to devise an accusation from himself, which could be spread among the Arabs in order to bring a bad name to the Holy Prophet. Then, the way he struggled against his conscience, and the way he devised an accusation at last after a prolonged mental conflict, has been vividly depicted here.

سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :14 یہ اس واقعہ کا ذکر ہے جو کفار مکہ کی مذکورہ بالا کانفرنس میں پیش آیا تھا ۔ اس کی جوتفصیلات ہم دیباچے میں نقل کر چکے ہیں ان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ شخص دل میں قرآن کے کلام الہی ہونے کا قائل ہو چکا تھا ۔ لیکن اپنی قوم میں محض اپنی وجاہت و ریاست برقرار رکھنے کے لیے ایمان لانے پر تیار نہ تھا ۔ جب کفار کی اس کانفرنس میں پہلے اس نے خود ان تمام الزامات کو رد کر دیا جو قریش کے سردار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر لگا رہے تھے تو اسے مجبور کیا گیا کہ وہ خود کوئی ایسا الزام تراشے جسے عرب کے لوگوں میں پھیلا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بد نام کیا جا سکتا ہو ۔ اس موقع پر جس طرح وہ اپنے ضمیر سے لڑا ہے اور جس شدید ذہنی کشمکش میں کافی دیر مبتلا رہ کر آخر کار اس نے ایک الزام گھڑا ہے اس کی پوری تصویر یہاں کھینچ دی گئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(74:25) ان ھذا الاقول البشر : ان نافیہ۔ ھو (ای القران) قول البشر مضاف مضاف الیہ۔ بشر کا کلام، انسان کا کلام۔ یہ جملہ اول کی تاکید میں ہے اسی وجہ سے اس کو اس پر عطف نہیں کیا گیا۔ فائدہ : ولید بن مغیرہ کی ان حرکات و سکنات کو صاحب ضیاء القرآن یوں تحریر فرماتے ہیں :۔ آخری اعلان سے پہلے ایک مرتبہ پھر رعونت سے مجمع پر نظر ڈالتا ہے۔ پھر اس کی پیشانی پر بل پڑجاتے ہیں پھر وہ منہ بسورتا ہے۔ چہرے کو کرخت بناتا ہے پھر غرور تکبر سے منہ پھر لیتا ہے اور کہتا ہے کہ ان ھذا الا سحر : کہ یہ جادو ہے اور اس کتاب کالا نے والا جادوگر ہے۔ پھر لوگوں کو مطمئن کرنے کے لئے کہتا ہے کہ یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے اس کا رواج قدیم زمانے سے چلا آتا ہے ہر زمانے کے جادوگر اپنے شاگردوں کو اس کی تعلیم دیتے آئے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی ہرگز خدائی کلام نہیں ہوسکتا جیسا کہ محمد (ﷺ) کا دعویٰ ہے … حضرت عکرمہ کا بیان ہے کہ ولید آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہو آپ نے اسے قرآن کا کچھ حصہ پڑھ کر سنایاتو اس کا دل قدرے نرم پڑگیا۔ ابوجہل کو پتہ چلاتو وہ اس کے پاس گیا اور کہنے لگا چچا ! قریش کے لوگ چاہتے ہیں کہ آپ کے لئے مال جمع کریں۔ پوچھا ” کیوں ؟ “ جواب دیا ” اسلئے کہ آپ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا کر اس کا کلام سن کر آئے ہیں۔ “ ولید بولا ” قریش کے لوگوں سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ مجیھ مال کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ میں ان سب سے زیادہ مالدار ہوں۔ “ تو ابوجہل نے کہا کہ کوئی ایسی بات کہو جس سے لوگوں کو پتا چل جائے کہ تو محمد (ﷺ) کے کلام کو ناپسند کرتا ہے۔ لوگوں نے ولید کو مختلف مشورے دیئے مگر بالآخر اس نے سوچ کر جو بات کہی تو یہ کہ ’ دیہ قرآن جادو ہے جو چلا آتا ہے اور یہ آدمی کا کلام ہے۔ “ اسی بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان ھذا ........................ البشر (74:25) ” یہ کچھ نہیں مگر ایک جادو جو پہلے سے چلاآرہا ہے ، یہ تو ایک انسانی کلام ہے “۔ یہ زندہ لمحات ہیں جن کو قرآن مجید الفاظ کی شکل دیتا ہے۔ یہ اس قدر قومی اور واضح تخیل دیتے ہیں کہ تصویر سے زیادہ واضح ہے ، اور متحرک قلم سے زیادہ اثر انگیز اور سحر آفریں ہے۔ جس شخص کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ اسے قیامت تک اضحوکہ اور قابل نفرت اور نہایت ہی بدنما تصویر دے دی جاتی ہے۔ جسے نسلوں تک لوگوں نے دیکھا پڑھا اور دیکھیں گے اور پڑھیں گے۔ اس تصویر کشی کے بعد اب اس شخص کو ایک خوفناک دھمکی دی جاتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(25) یہ قرآن تو صرف کسی بشر اور آدمی کا کلام ہے ولید بن مغیرہ قریش کا مظہور اور مالدار آدمی ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک روز حم السجدہ کی تلاوت فرما رہے تھے اس نے قرآن کو سن کر کہا یہ کلام بہت عمدہ ہے اس میں بڑی شیرینی ہے میں نے آج تک ایسا کوئی کلام نہیں سنا نہ یہ شعر ہے نہ کہانت ہے۔ لوگوں نے اس کی بات ابوجہل سے جاکر کہی اور اس کا اندیشہ ظاہر کیا کہ شاید ولید مسلمان ہوگیا، چناچہ ابوجہل نے قریش کے بڑے بڑے لوگوں کو جمع کیا اور ولید کو غیرت دلاتی اور اس کو کفر پر پختہ کردیا اور یہ مشہور ہوا کہ محمد کا کوئی ایسا لقب تجویز کیا جائے جو تمام عرب میں مشہور کردیاجائے۔ چناچہ ولید نے بہت غور کیا اور بالآخر خوب غور کرکے کہا، یہ بابل کا سحر ہے جو محمد تک کسی طرح پہنچ گیا ہے اور اسی سحر کا یہ اث رہے کہ خاندانوں میں تفریق ہوجاتی ہے اور ہر گھر میں پھوٹ پڑجاتی ہے۔ چنانچہ یہ رائے سب نے پسند کی ، یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کلام پاک سے سخت دشمنی کرتا تھا نہایت سخت زبان اور دریدہ دہن تھا۔ ہر وقت پیغمبر (علیہ السلام) کی ایذارسانی کے درپے رہتا تھا۔ چناچہ ارشاد ہوا کہ مجھ کو اور اس شخص کو تنہا چھوڑ دے جس کو میں نے پیدا کیا ہے یا یہ مطلب ہے کہ مجھ کو اور اس شخص کو چھوڑ دے جس کو میں نے تنہا بلاشرکت غیرے پیدا کیا ہے۔ تیسرے معنی وہی عام معنی ہیں جو ہم نے ترجمہ میں اختیار کئے ہیں کہ اکیلا اور تنہا پیدا کیا یعنی اس کے ساتھ کوئی سروسامان نہ تھا اور میں نے اس کو اکیلا اور تنہا پیدا کیا۔ چھوڑ دینے کا مطلب یہ ہے کہ میں اس سے اے محمد آپ کا انتقام لینے کے لئے کافی ہوں اور میں نے اس کو بکثرت مال دیا چناچہ تمام عرب میں اس کے تجارتی مرکز تھے اور اس کو ریحانہ قریش کہتے تھے اور اس کو آنکھوں کے سامنے رہنے والے بیٹے دیئے یعنی جو اس کی خدمت بجا لاتے ہیں اور اس کی عزت اور محفل کی آبرو بڑھانے کو اس کے ساتھ رہتے ہیں اس کے لئے ہر قسم کا دنیوی سامان مہیا کیا یعنی ریاست اور جاہ عریض سے نوازا مطلب یہ ہے کہ ہر جگہ اس کی آبرو اور ہر جگہ اس کا پیسہ پھیلا ہوا تھا۔ تجارت مویشی اور زراعت کی طرف اشارہ ہے لیکن باوجود اس کثرت تنعم کے بجائے شکر بجا لانے کے یہ ہوس اور طمع کرتا ہے کہ میں اس کو اور زیادہ دوں یعنی حریص بہت ہے یہ ہرگز زیادہ دینے کے قابل نہیں ایسا ہرگز نہیں ہوگا کیونکہ وہ ہماری آیت کا سخت دشمن اور مخالف ہے عنقریب میں اس کو یعنی مرنے کے بعد سخت چڑھائی چڑھائوں گا۔ حدیث شریف میں آتا ہے صعود ایک پہاڑ ہے دوزخ میں جس پر بمشکل ستر برس میں چڑھے گا اور پھر وہاں سے اوپر پہنچنے کے بعد نیچے گرپڑے گا اس کو فرمایا سخت چڑھائی چڑھائوں گا آگے اس عذاب کی تعلیل ہے کہ قرآن کے متعلق اس نے سوچا اور تامل کیا کہ اس قرآن کی بات کیا رائے ظاہر کروں اور بےربط احتمالات قائم کرکے ایک اندازہ لگایا اور ایک بات تجویز کی سو اس پر خدا کی مار ہو اور یہ مارا جائے کیسا اندازہ لگایا۔ پھر غایت مذمت اور استبعاد کے لئے مکرر فرمایا پھر وہ تباہ کیا جائے اور ہلاک کیا جائے اس پر لعنت کی جائے کیسا دوراز افکار اندازہ لگایا اور کیسی غیر معقول تجویز کی۔ پھر اپنے اندازے میں غور کیا اور تامل کیا یعنی لوگوں کے سامنے اپنی تجویز کو ظاہر کرنے سے پہلے پھر سوچا، یا مجمع پر نظر ڈالی پھر منہ بنایا اور تیوری چڑھائی پھر پیٹھ پھیری اور تکبر کیا غرض ہر طرح اور پنے ہر انداز سے کراہیت اور نفرت کا اظہار کیا۔ پھر کہنے لگا بس اور کچھ نہیں یہ جادو ہے جو دوسروں سے نقل ہوتا چلا آیا ہے یہ قرآن تو صرف کسی بشر کا کلام ہے غرض یہ خبیث پہلے اقرار کرچکا تھا کہ یہ کلام بےمثل ہے اور کسی انسان کا کلام نہیں اب جو برادری کی بات آپڑی تو محض برداری کی خوشنودی کے لئے بہت سی کروٹیں بدلیں بہت سے پہلو بدلے تہتنی بنائی تیوری پر بل ڈالے تکبر کا اظہار کیا اور پیٹھ پھیر کر بدبخت نے کہا یہ تو منقول شدہ جادو ہے اور یہ تو آدمی کا کلام ہے تمام بےربط احتمالات میں سے یہ بات چلتی ہوئی کہہ دی حالانکہ یہ احتمال بھی تو تھا کہ یہ کلام خدا کا کلام ہو اور فرشتہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں لایا ہو اس تنگ نظری اور تعصب اور حق دشمنی کی آگے سزا بیان فرماتے ہیں۔